اَنَا مدِینَة العِلمِ وَعَلِیّ بَابُھَا

اَنَا مدِینَة العِلمِ وَعَلِیّ بَابُھَا...... (حدیث)
ترجمہ: ''میں علم کا شہر ہوں اور حضرت علیؓ اس کا دروازہ''

اس مضمون کی روایات حضرات علیؓ، ابن عباسؓ او رجابرؓ سے مختلف الفاظ کے ساتھ مروی ہیں، جسےشیعہ حضرات خلیفة الرابع حضرت علی ابن ابی طالبؓ کے فضائل و مناقب میں بہت شدومد کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ذیل میں اس مضمون کی تمام روایات اور ان کےتمام طرق کا علمی جائزہ پیش کیاجاتا ہے، تاکہ مذکورہ حدیث کا مقام و مرتبہ واضح ہوجائے۔ واللہ المستعان!

بعض روایات میں صرف : ''أنا مدینة العلم وعلي بابھا ''1 مروی ہے اور بعض میں ''أنا مدینة العلم وعلي بابھا''کے بعد ''فمن أراد العلم فلیأت الباب''2''فمن أراد بابھافلیأت علیا''3 ''فمن أراد مدینة العلم فلیأتھا من بابھا''4''فمن أرادالعلم فلیأتھا من قبل بابھا''5 ''فمن أرادا لدار فلیأتھا من قبل بابھا''6 ''فمن أرادالدار فلیأت الباب''7 اور ''فمن أرادالحکم فلیأت الباب''8 کےاضافی الفاظ تھوڑے تھوڑے اختلاف کےساتھ ملتے ہیں۔

بعض دوسری روایات میں ''أنا دارالحکمة وعلي بابھا''9 بعض میں ''أنا مدینة الفقه و علي بابھا''10اور کچھ میں ''علي عیبة علمي''11 وغیرہ بھی بیان کیا گیا ہے۔

اسی طرح اس مضمون کی چند اور روایات اس طرح بیان کی گئی ہیں:
''علي باب علمي و مبین لأمتي ما أرسلت به من بعدي حبه إیمان و بغضه نفاق والنظر إليه''12 ''رأفة''، أنا میزان العلم و علي کفتاہ والحسن والحسین خیوطه''13، ''أنا مدینة العلم و أبوبکر أساسھا وعمر حیطانھا و عثمان سقفها و علي بابھا''14 اور ''أنا مدینة العلم وعلي بابھا و معاویة حلقتها''15 وغیرہ۔

اس سلسلہ کی پہلی روایت ''أنا مدینة العلم و علي بابھا'' جو حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے، کا طریق اسناد امام ابوالفرج عبدالرحمٰن بن علی ابن الجوزی القرشی (م597ھ) اس طرح بیان فرماتے ہیں:
''أنبأنا عبدالرحمٰن بن محمد قال أنبأنا أحمد بن علي ابن ثابت قال أنبأنا محمد بن أحمد بن رزق قال أنبأنا أبوبکر مکرمة بن أحمد بن مکرم القاضي قال حدثنا القاسم بن عبدالرحمٰن الأنباري قال أنبأنا أبوالصلت عبدالسلام بن صالح ابن سلیمان بن میسرة الھروي قال حدثنا أبومعاویة عن الأعمش عن مجاھد عن ابن عباس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: أنا مدینة العلم16........... الخ''

اس روایت کے طریق اسناد میں راوی ''ابوالصلت الہروی'' موجود ہے، جس کے متعلق امام ابن الجوزی فرماتے ہیں کہ:
''کذاب ہے، یہ وہی شخص ہے جس نے اس حدیث کو ''ابومعاویہ'' پر وضع کیا۔ بعد میں ایک جماعت نے اس سے چرا لیا''17

ایک اور مقام پر امام ابن الجوزی فرماتے ہیں:
''ابوالصلت کے کذاب ہونے پر اتفاق ہے۔''18

عقیلی نے بھی اسے ''کذاب'' کہا ہے۔19

شیخ برہان حلبی فرماتے ہیں:
''یہ شخص صالح لیکن شیعہ تھا، دارقطنی کا قول ہے کہ خبیث رافضی تھا او رحدیث وصع کرنے کے لیے متہم ہے۔ اس کی روایت کی ہوئی دو احادیث یہ ہیں: ''الإیمان إقرار بالقلب'' اور ''کلب العلویة خیر من بني أمیة''20

حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
''صدوق له مناکیر و کان یتشیع و أفرط العقیلی فقال کذاب''21

ابن عدی وغیرہ نے بھی ''ابوالصلت الہروی'' سے کذب بیانی اور وضع احادیث کو منسوب کیا ہے۔ علامہ محمد ناصر الدین الالبانی فرماتے ہیں کہ اکثر اصحاب حدیث نے اس کی تضعیف کی ہے۔22

امام احمد بن حنبل سے جب اس حدیث کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ''قبح اللہ أباالصلت''23

جن روایات میں ''انا مدینة العلم وعلی بابھا'' کے بعد ''فمن أراد العلم فلیأت الباب'' کےالفاظ بیان کیے جاتے ہیں ان کے طرق اسناد امام ابن الجوزی نے اس طرح بیان کئے ہیں۔

''أنبأنا أبومنصور القزاز قال أنبأنا أبوبکر بن ثابت قال أنبأنا علي بن أبي علي قال حدثنا محمد بن المظفر قال حدثنا أحمد بن عبداللہ بن شابور قال حدثنا عمر بن إسماعیل بن مجالد قال حدثنا أبومعاویة الضریر عن الأعمش عن مجاھد عن ابن عباس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: ''أنا مدینة العلم24 ............... الخ''

حضرت ابن عباسؓ کے اس طریق اسناد میں ''عمر بن اسماعیل بن مجالد'' اور ''علی بن ابی علی'' دو راوی مجروح ہیں۔ اوّ ل الذکر کے متعلق شیخ عبدالعزیز عزالدین السیروان اور علامہ برہان الدین حلبی فرماتے ہیں:
''لیس بثقة، متروک الحدیث''25 ابن عدی نے اسے ''سارق الحدیث'' لکھا ہے،26 امام ابوالحسن علی بن عمر الدارقطنی (م385ھ) نے ''متروک'' بتایا ہے۔27 ابن معین نے اس کے ''کذب'' کو بیان کیا ہے او رلکھا ہے : ''لیس بشيء، کذاب خبیث، رجل سوء''28 امام احمد بن شعیب النسائی(م303ھ) کا قول ہے:
''لیس بثقة، متروک الحدیث'' امام ابن الجوزی نے بتایا ہے کہ وہ ''متہم''29ہے ،حافظ ابن حجر عسقلانی کا قول ہے: ''متروک من صغار العاشرة''30 ان کے علاوہ عقیلی31، ابی حاتم32، ابن حبان33اور ذہبی34وغیرہ نے بھی اس کو ''ساقط الاعتماد'' قرار دیا ہے۔ شیخ محمد ناصر الدین الالبانی نے ''ضعیف جدا'' لکھا ہے۔35

اور ثانی الذکر علی بن ابی علی، بھی ''متروک الحدیث'' ہے۔36 امام محمد بن اسماعیل37 البخاری (م256ھ)، عقیلی38، ابن ابی حاتم39، ابن حبان40، ابن عدی41، دارقطنی42، ذہبی43اور نسائی44 وغیرہ نے اس کو ''متروک'' اور ''منکر الحدیث'' بتایا ہے۔

''أنبأنا عبدالرحمٰن بن محمد قال أنبأنا أحمد بن علي قال أنبأنا أبوطالب یحیٰی بن علي بن الدسکري قال أنبأنا أبوبکر بن المقرئ قال أنبأنا أبوالطیب محمد بن عبدالصمد الدقاق قال حدثنا أحمد بن عبداللہ أبوجعفر المکتب قال أنبأنا عبدالرزاق قال أنبأنا سفیان عن عبداللہ بن عثمان بن خثیم عن عبدالرحمٰن ابن بھمان قال سمعت جابر بن عبداللہ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوم الحدیبیة وھو اٰخذبید علي: ھٰذا أمیر البررة و قاتل الفجرة، منصور من نصرہ، مخذول من خذله............یمدبھا صوته.............أنا مدینة العلم45...........الخ''

امام ابن الجوزی فرماتے ہیں کہ حضرت جابر ؓ کے اس طریق میں ''أحمد بن عبداللہ المکتب'' راوی موجود ہے، جس کے متعلق ابن عدی کا قول ہے: ''کان یضع الحدیث''46

''أنبأنا عبدالرحمٰن بن محمد قال انبأنا احمد بن علی بن ثابت قال انبأنا احمد بن محمد العتیقی حدثنا عبداللہ ابن محمد بن عبداللہ الشاھد حدثنا ابوبکر احمد بن فاذویہ الطحال حدثنا ابوعبداللہ احمد بن محمد بن یزید ابن سلیم قال حدثنی رجآء بن سلمة حدثنا أبو معاویة الضریر عن الأعمش عن مجاھد عن ابن عباس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: ''أنا مدینة العلم''47......................... الخ''

حضرت ابن عباسؓ کے اس طریق کے متعلق امام ابن الجوزی  فرماتے ہیں کہ اس میں جابر بن سلمہ ہے، جو اس حدیث کے سرقہ کے لیے ''متہم'' ہے۔48

''أنبأنا ابو منصور عبدالرحمٰن بن محمد قال أنبأنا أبوبکر احمد بن علي بن ثابت قال أنبأنا الحسین بن علي الصمیري قال حدثنا أحمد بن علي الصمیري حدثنا إبراھیم بن أحمد بن أبي حصین حدثنا محمد بن عبداللہ أبوجعفر الحضرمي حدثنا جعفر بن محمد البغدادي الفقیه حدثنا أبومعاویة عن الأعمش عن مجاہد عن ابن عباس قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول : '' أنا مدینة العلم49.......الخ''

امام ابن الجوزی فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباسؓ کے اس طریق میں''جعفر بن محمد البغدادی '' بھی اس حدیث کے سرقہ کے ساتھ ''متہم'' ہے۔50

''رواہ ابن مردویہ من طریق الحسن بن علی عن أبیه عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أنه قال: ''أنا مدینة العلم51............ الخ''

امام ابن الجوزی فرماتے ہیں کہ حضرت علیؓ کے اس طریق میں ''مجاہیل'' جمع ہیں۔52

جس روایت کے آخر میں ''فمن أراد بابھا فلیأت علیا'' کے الفاظ ملتے ہیں، اس کا طریق اسناد اس طرح وارد ہوا ہے:
''أنبأنا علی بن عبید اللہ قال أنبأنا علی بن أحمد بن البسري قال أنبأنا عبید اللہ بن محمد العکبري حدثنا أحمد بن محمد بن یزید الزعفراني حدثنا عمر بن إسماعیل بن مجالد حدثنا أبو معاویة عن الأعمش عن مجاھد عن ابن عباس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: ''أنا مدینة العلم53........... الخ''

حضرت ابن عباسؓ کے اس طریق اسناد میں بھی ''عمر بن اسماعیل بن مجالد'' راوی موجود ہے جس پر جرح اوپر بیان کی جاچکی ہے۔ (ملاحظہ ہو حواشی 25 تا 35 کی تفصیل)

ذیل میں حضرت ابن عباسؓ کی ان روایات کے طرق پیش ہیں، جن کے آخر میں ''فمن أراد مدینة العلم فلیأتھا من بابھا'' کے الفاظ مروی ہیں:
''أنبأنا إسماعیل بن احمد السمرقندی قال انبأنا اسماعیل ابن مسعدة قال انبأنا حمزة بن یوسف قال انبحنا ابواحمد ابن عدی قال حدثنا عبدالرحمٰن بن سلیمان بن موسی بن عدی قال انبأنا احمد بن سلمم ابوعمرو الجرجانی قال حدثنا ابو معاویة عن الاعمش عن مجاھد عن ابن عباس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: ''أنا مدینة العلم54............... الخ''

اس طریق کے متعلق امام ابن الجوزی فرماتے ہیں کہ اس میں''احمد بن سلمہ'' موجود ہے، جس کے متعلق ابن عدی کاقول ہے کہ ''وہ '' 'ثقات کی طرف منسوب کرکے باطل چیزیں بیان کرتاہے اور احادیث چراتا ہے۔''55

حضرت ابن عباسؓ کی اسی روایت کا ایک طریق یوں وارد ہوا ہے:
''أنبأنا اسماعیل بن أحمد انبأنا ابن مسعدة انبأنا حمزة انبأنا ابن عدي حدثنا ابوسعید العدوی حدثنا الحسن ابن علی بن راشد حدثنا ابومعاویة حدثنا الأعمش عن مجاہد عن ابن عباس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: ''أنا مدینة العلم56............ الخ''

اس طریق کے متعلق امام ابن الجوزی فرماتے ہیں کہ ''اس میں'' ابوسعید العدوی'' کذاب اور صریح وضاع ہے57 '' اس طریق میں ایک راوی ''حسن بن علی بن راشد'' بھی موجود ہے، جو مدلس ہے۔58

حضرت ابن عباسؓ کی وہ روایت، جس کے آخر میں ''فمن أراد العلم فلیأتھا من قبل بابھا'' کے الفاظ بیان کئے جاتے ہیں اس کا طریق اس طرح ہے:
''أنبأنا محمد بن عبدالملک بن خیرون قال أنبأنا اسماعیل ابن مسعدة قال أنبأنا حمزة قال انبأنا ابن عدی قال حدثنا احمد بن حفص قال حدثنا سعید بن عقبة ابوالفتح الکوفي قال حدثنا الأعمش عن مجاھد عن ابن عباس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: ''أنا مدینة العلم59.......... الخ''

اس طریق میں دو راوی مجروح ہیں (1) احمد بن حفص السعدی، اور (2) سعید بن عقبہ۔

احمد بن حفص کو علامہ برہان الدین حلبی نے ''صاحب مناکیر'' لکھا ہے۔60 حمزہ السہمی اور ابن عدی کا قول ہے: ''لم یعتمد الکذب له''61 علامہ ذہبی نے اس کا تذکرہ سعید بن عقبہ کے ترجمہ میں کیا ہے اور بتایا ہے کہ ''ابن عدی عن احمد بن حفص'' سے حضرت ابن عباسؓ کی ایک مرفوع حدیث ''أنا مدینة العلم'' مروی ہے، اس کے بعد علامہ ذہبی فرماتے ہیں : ''قلت: اختلقه السعدي''62

اس طریق کے دوسرے راوی ''سعید بن عقبہ'' کے متعلق امام ابن الجوزی فرماتے ہین کہ ''ابن عدی کا قول ہے، ''وہ مجہول اور غیر ثقہ ہے۔''63

حضرت ابن عباسؓ کی وہ حدیث ، جس کے آخر میں ''فمن أراد الدار فلیأتھا من قبل بابھا'' کے الفاظ مروی ہیں، اس کا طریق یہ ہے:
''أنبأنا ابومنصور بن خیرون قال انبأنا ابو محمد الجوھری عن ابی الحسن الدارقطنی عن ابی حاتم البستی قال حدثنا الحسین ابن اسحاق الاصبھاني قال حدثنا اسماعیل بن محمد بن یوسف قال حدثنا ابوعبید القاسم بن سلام عن ابی معاویة عن الاعمش عن مجاھد عن ابن عباس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: ''أنا مدینة العلم64................. الخ''

امام ابن الجوزی فرماتے ہین کہ ''اس طریقہ میں ''اسماعیل بن محمد بن یوسف'' راوی موجود ہے، جس کے بارے میں ابن حبان کا قول ہے کہ وہ احادیث چرایا کرتا ہے اور ان کی اسانید گھڑا کرتا ہے چنانچہ اس سے احتجاج جائز نہیں ہے۔65


حوالہ جات
1.الکشف الحثیث عمن رمی بوضع الحدیث للشیخ برہان الدین حلبی صفحہ 539 طبع بغداد 1984ء و مجمع الزوائد و منبع الفوائد للہیثمی ج9 ص114 طبع دارالکتب العربی بیروت 1982ء و میزان الاعتدال للذہبی ج2 ص153 و کتاب الموضوعات لابن الجوزی ج1 ص351 طبع المکتبة السلفیة مدینة المنورة 1966 و مستدرک للحاکم کتاب المناقب و تاریخ بغداد للخطیب بغدادی و معجم الکبیر للطبرانی والسنة لأبي الشیخ ابن حیان وغیرہ۔
2. کتاب الموضوعات لابن الجوزی ج1 ص350، 351، 353
3. ایضاً ج1 ص351
4. ایضاً ج1 ص351۔352
5. ایضاً ج1 ص352
6. کتاب الموضوعات لابن الجوزی ج1 ص352
7. ایضاً ج1 ص353
8. ایضاً ج1 ص353
9. ایضاً ج1 ص349، 350 و جامع الترمذی کتاب المناقب باب رقم نمبر20 مع عارضۃ الاحوذی لابن عربی ج13 ص171 و مفاتح کنوز السنة محمد فواد الباقی ص353 و الفوائد المجموعة فه الاحادیث الموضوعة للشوکانی ص348 طبع مصر 1978ء و الحلیة لابی نعیم وغیرہ
10.  کتاب الموضوعات لابن الجوزی ج1 ص350
11. العلل المتناہیة في الأحادیث الواہیة لابن الجوزي ج1 ص222 طبع لاہور 1979ء
12. المقاصد الحسنة في بیان کثیر من الاحادیث المشتهرة علی الألسنة للسخاوی ص97 طبع دارالکتب العلمیہ، بیروت 1979ء
13. ایضاً ص97
14. ایضاً ص97 و ذکرہ ابن صاحب الفردوس
15. المقاصد الحسنة للسخاوی ص97
16.  کتاب الموضوعات لابن الجوزی ج1 ص351
17.  ایضاً ج1 ص354
18. العلل المتناهیة في الاحادیث الواهیة لابن الجوزی ج1 ص221
19. تقریب التہذیب ج1 ص506
20. الکشف الحثیث عمن رمی بوضع الحدیث ص262۔263
21. تقریب التہذیب ج1 ص506
22. سلسلة الاحادیث الضعیفة والموضوعة للشیخ محمد ناصر الدین الالبانی ج2 ص260، 262
23.  کتاب الموضوعات لابن الجوزی ج1 ص354
24. ایضاً ج1 ص351
25. المجموع فی الضعفاء والمتروکین ص181 نمبر 466 طبع دارالقلم بیروت 1985ء والکشف الحثیث ص 310
26. الکامل لابن عدی ج5 ترجمہ نمبر 1722
27. الضعفاء والمتروکین للدارقطنی  ترجمہ نمبر 371
28. الجرح والتعدیل ج9ص19 و کتاب الموضوعات لابن الجوزی ج1 ص354
29. کتاب الموضوعات لابن الجوزی ج1 ص327
30. تقریب التہذیب ج2 ص52 والتہذیب التہذیب ج7 ص428
31. الضعفاء الکبیر ترجمہ نمبر 1143
32. الجرح و التعدیل ج3 ص99
33. المجروحین ج2 ص92
34. میزان الاعتدال ج3 ص182
35. سلسلة الاحادیث الضعیفة والموضوعة ج2ص364
36. المجموع فی الضعفاء والمتروکین ص169۔170
37. تاریخ الکبیر للبخاری ج3 ص288 والتاریخ الصغیر للبخاری  ج2 ص192 والضعفاء الصغیر للبخاری ترجمہ نمبر 82
38. الضعفاء الکبیر ترجمہ نمبر 1239
39. الجرح والتعدیل ج3 ترجمہ 1397
40. المجروحین ج2 ص107
41. کامل لابن عدی ج5 ترجمہ 1830
42. الضعفاء والمتروکین ترجمہ نمبر 409
43. میزان الاعتدال ج3 ص147
44. الضعفاء والمتروکین ترجمہ 429
45. کتاب الموضوعات لابن الجوزی ج1 ص353
46. ایضاً ج1 ص354
47. ایضاً ج1 ص350۔351
48. ایضاً ج1 ص354
49. ایضاً ج1 ص350
50. ایضاً ج1 ص354
51. کتاب الموضوعات لابن الجوزی ج1 ص350
52. ایضاً ج1 ص353
53. ایضاً ج1 ص351
54. ایضاً ج1 ص351۔352
55. ایضاً ج1 ص354
56. کتاب الموضوعات لابن الجوزی ج1 ص352
57. ایضاً ج1 ص354
58. تقریب التہذیب ج1 ص168
59.  کتاب الموضوعات لابن الجوزی ج1 ص352
60. الکشف الحثیث ص53
61. الکامل الاوّل ق نمبر66 والمیزان الاعتدال للذہبی ج1 ص94
62. میزان الاعتدال ج2 ص153 والکشف الحثیث ص53
63. کتاب الموضوعات لابن الجوزی ج1 ص354 والمیزان الاعتدال ج2 ص153
64. الموضوعات لابن الجوزی ج1 ص352
65. ایضاً ج1 ص354