نویں آئینی ترمیم، سرکاری شریعت بل کی منظوری کی سازش ہے!

دستور میں فوری ترمیم کرکے متفقہ شریعت بل ختم کیا جارہے ،
نویں آئینی ترمیم، سرکاری شریعت بل کی منظوری کی سازش ہے!
اسے متفقہ ترمیمی شریعت بل سے ہم آہنگ کئے بغیر منظور نہ کیا جائے
وطن عزیز میں اس وقت نفاذ شریعت کا مطالبہ زوروں پر ہے او راس سلسلہ میں متفقہ ترمیمی شریعت بل کی منظوری کے لیے جملہ دینی مکاتب فکر کا ''متحدہ شریعت محاذ'' بھی تشکیل پاچکا ہے۔جس نے تھوڑے ہی عرصہ میں اسلامیان پاکستان کو اس اہم مسئلہ پر کافی حد تک منظم کردیا ہے کہ ملک میں لسانی، گروہی اور سیاسی اختلافات کی بناء پر داخلی امن و امان کا مسئلہ ہو یا خارجی محاذ پر ملک دشمنوں کی جارحیت کا خطرہ، ان تمام مسائل کا واحد حل اس ملک میں شریعت کی عملداری ہے۔ لیکن افسوس کہ نفاذ شریعت ہی کی راہ میں بُری طرح روڑے اٹکائے جارہے ہیں، او راس کی بجائے اہمیت انہی عاقبت ناندیشیوں کو دی جارہی ہے کہ جن کی بناء پر ملک کا داخلی استحکام برباد اور اس کے جغرافیائی انتہائی مخدوش ہوچکے ہیں۔ ؎

میر کیا سادہ ہیں کہ بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

اسلامی دستور کے لیے ملک کے اکتیس جید علمائے کرام کی طرف سے 22 راہنما اصول (بائیس نکات) پیش ہوئے تہائی صدی بیت چکی ہے، لیکن ان کی بنیاد پر اسلامی دستور وضع نہ کیا گیا۔ بالآخر دستور 1973ء کی اصلاح کےلیے جملہ مکاتب فکر کے علماء ہی کی طرف سے شریعت بل کا راستہ اختیار کیا گیا، لیکن گزشتہ ڈیڑھ سال سے یہ بھی تختہ مشق بنا ہوا ہے۔ عجیب بات یہ کہ یوں تو حکومت او رایم ۔ آر ۔ ڈی باہم برسرپیکار ہیں او ران کی یہ باہمی چپقلش ایک نہ ختم ہونے والی لڑائی کی صورت اختیار کرچکی ہے، لیکن شریعت بل کی مخالفت میں یہ دونوں (حزب اقتدار اور حریصان اقتدار) بیک آواز او رایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے ہیں۔ اس لیے کہ شریعت کی عملداری دونوں میں سے کسی کو بھی گوارا نہیں۔ چنانچہ ایم۔ آر ۔ڈی جہاں شریعت بل کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کرکے اور نفاذ شریعت کے مطالبہ کی بجائے، ''جماعتی بنیادوں پر انتخاب ، انتخاب'' کی رٹ لگاکر حصول اقتدار کی راہیں ہموار کرنے میں مصروف ہے، وہاں حکومت اقتدار ہی کوطول دینے کی خاطر، علماء کے متفقہ ترمیمی شریعت بل کے بالمقابل، سرکاری شریعت بل تیار کرکے اسے منظو رکروانے کی فکر میں غلطیاں و پیچاں ہے۔ قابل غور امر یہ ہے کہ سرکاری شریعت بل کئی بار اخبارات میں چھپ چکا ہے، اسمبلی میں حکومت کو واضح اکثریت بھی حاصل ہے ، او راپنے اس شریعت بل کو ایجنڈا پر لانے میں حکومت کو کوئی مشکل بھی درپیش نہیں۔اس کے باوجود اگر اسے تاحال اسمبلی میں پیش نہیں کیا گیا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت اس کے نفاذ سے قبل اسے دستوری تحفظ مہیا کرنا چاہتی ہے۔ چنانچہ ایک طرف تو وہ یہ طوفان اٹھائے ہوئے ہے کہ پرائیویٹ شریعت بل دستور کے منافی ہے، لہٰذا اسے منظور نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن دوسری طرف وہ سرکاری شریعت بل کو دستور سے ہم آہنگ کرنے کے لیے نویں ترمیم کو انتہائی عجلت میں پاس کرانا چاہتی ہے۔ لہٰذا یہ بات بلا ریب و تردّد کہی جاسکتی ہے کہ نویں آئینی ترمیم (موجودہ صورت میں)متفقہ ترمیمی شریعت بل کو سبوتاژ کرنے، اور اس کی بجائے سرکاری شریعت بل کو منظور کرانےکی ایک سازش ہے۔

اس کے برعکس متفقہ ترمیمی شریعت بل کی منظوری ہی اب متحدہ شریعت محاذ کا مطالبہ ہے، لیکن اس کے سامنے مشکل یہ حائل ہےکہ شریعت بل 1985ء میں مجوزہ ترمیمات (جو متفقہ ترمیمی شریعت بل کی صورت میں سامنے آئی ہیں) اس وقت تک اسمبلی میں پیش نہیں کی جاسکتیں، جب تک اسمبلی میں شریعت بل زیر بحث نہیں آجاتا۔ چنانچہ حکومت نے متحدہ شریعت محاذ کی اس مجبوری سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا سارا زور نویں ترمیم کے پلڑے میں ڈال دیا ہے، جو دراصل سرکاری شریعت بل ہی کا ایک پر تو ہے، او رجس کی خامیوں کی تفصیل آئندہ سطور میں دیکھی جاسکتی ہے۔

علماء کے شریعت بل کا مرکزی تصور یہ ہے کہ مقنّنہ ،عدلیہ اور انتظامیہ پر شریعت کی بالادستی قائم ہو۔ اسی طرح ہر قانون اور ہر فقہ بھی شریعت محمدیہ (علیٰ صاحبہا الصلوٰة والسلام) کے تابع ہونی چاہیے۔کیونکہ فقہ وہی درست ہوتی ہے جو کتاب و سنت سے ماخوذ ہو۔ جبکہ سرکاری شریعت بل (جو محدث کی زیر نظر اشاعت میں شامل ہے) شریعت محمدیؐ کے خلاف اس نظریہ پر مبنی ہے کہ ہر فرقہ کی فقہ کو اس فرقہ کی شریعت قرار دیا جائے اور یوں نہ صرف فرقہ وارانہ تعصبات کو ہوا دے کر انہیں پوری طرح ابھارا جائے، بلکہ ایک شریعت کی بجائے کئی شریعتوں کانظریہ پیش کرکے شریعت محمدیؐ کے کمال اور وحدت پر بھرپور ضرب لگائی جائے۔بایں ہمہ طعنہ علماء کے شریعت بل کو دیا جاتا ہے کہ اس سے فرقہ واریت کو فروغ حاصل ہوگا۔ حالانکہ اس بل میں ''شریعت سے مراد قرآن و سنت ہیں'' جو مسلمانوں کے جملہ مکاتب فکر کے لیے نکتہ اتحاد ہیں۔

اس کے برعکس سرکاری شریعت بل میں شریعت کی تعریف ''قرآن و سنت'' کی بجائے، قرآن و سنت سے ماخوذ ''اصول'' کرکے نظام مصطفیٰﷺ کی بالکلیہ نفی کردی گئی ہے کیونکہ اصول تو ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہم الصلوٰم والسلام، سبھی کے ایک ہیں، پھر سوچنا ہوگا کہ شریعت محمدیؐہ کی تخصیص آخر کس بناء پر ہے؟ ظاہر ہے کہ سابقہ تمام انبیاؑء کونبی اور رسول ماننے کے باوجود ، آج اگر صرف اور صرف شریعت محمدیہؐ کی اتباع ہم پر لازم ہے اور صرف آپؐ ہی کا کلمہ پڑھنے کے ہم پابند ، تو صرف ''اصولوں'' کی بناء پر اس کی گنجائش ہی کہاں نکلتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ سرکاری شریعت بل میں پرویزی فکر کو پوری طرح سمو دیا گیا ہے، جو شریعت محمدیؐ کے بالمقابل، حکومت کی مرکزی اتھارٹی (مرکز ملت)کو اللہ اور رسولؐ کے قائم مقام ٹھہرا کر یہ اختیار دیتا ہے کہ جو وہ قانون سازی کرے گی، وہی رعایا کے لیے شریعت ہوگی۔حالانکہ حضرت محمدﷺ خاتم النبیین ہیں اور آپؐ کا خاتم النبیین ہونا اس طریقہ کے کمال و دوام کی بناء پر ہے، جو آپؐ نے شریعت کے طور پر قرآن و سنت کی صورت میں پیش فرمایا ہے۔ اس کے برعکس سرکاری شریعت بل میں مذکورہ فکر، حضورؐ کے خاتم النبیین ہونے کے عقیدہ کی بجائے ''نبوت کے تسلسل'' کا ایک ایسا نظریہ ہے کہ جس کے تحت اسلام کے نام پر ہر حکومت کی مرکزی اتھارٹی اپنی اپنی شریعت خود وضع کرتی ہے او ریوں ایک شریعت کی بجائے سینکڑوں ہزاروں شریعتیں جنم لیتی ہیں۔ تاہم اس الزام سے بچنے کے لیے صرف یہ کہنا کافی سمجھا گیا ہے کہ ''حکومت یہ کام قرآن کے اصول کی بنیاد پر کرے گی'' اسی طرح اس اعتراض ، کہ اندریں صورت تو شریعت محمدیؐ کا عملی طور پر خاتمہ ہوجائے گا، کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ''جب تک ''اصول قرآن'' کی بنیاد پر حکومت کی مرکزی اتھارٹی یہ کام مکمل نہیں کرتی، اس وقت تک ہرفرقہ اپنی اپنی فقہ پر عمل پیرا ہوگا'' گویا وہی اس کی شریعت ہوگی۔ ''جو انتشار ملت'' کا نظریہ ہونے کے باوجود غلام احمد پرویز کا نظریہ ''مرکز ملت'' ہے، او رجسے یہ کمال و بدرجہ اتم سرکاری شریعت بل میں سمو دیا گیا ہے۔

اس سرکاری شریعت بل کو سیدھی طرح اسمبلی میں پیش کرنے کی بجائے، اس کی منظوری کی کوششیں ایک سازش کے ذریعہ ہورہی ہیں او روہ ہے نویں آئینی ترمیم! جسے پاس کرانے کے لیے اس قدر عجلت سے کام لیاجارہا ہے کہ اس کے لیے اسمبلی کے قواعد و ضوابط کا بھی کوئی لحاظ نہیں۔ چنانچہ حکومت نے قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں اسمبلی رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پہلے نویں دستوری ترمیم کو بحث کے لیے منظور کرایا، پھر اسے اس کی ان اہم خامیوں کی پردہ دری سے بچانے کے لیے ، جو اسے سرکاری شریعت بل کا مکمل نمونہ ظاہر کرتی ہے، عام بحث کی بجائے ایک ''سلیکٹ کمیٹی'' کے سپرد کروایا ہے۔ یوں ایک طرف علماء کے شریعت بل کی، صرف اس کے دستور کے منافی ہونے کی وجہ سے، شدید مخالفت ہورہی ہے، لیکن دوسری طرف سرکاری شریعت بل ، جو خو دبھی دستور کے منافی ہے، کو منظور کروانے کے لیے نویں آئینی ترمیم بلاضرورت پاس کرائی جارہی ہے۔حتیٰ کہ سینٹ میںاس کی منظوری کے بعد وزیراعظم جناب محمد خاں جونیجو اور سابق وزیر انصاف اقبال احمد خاں (حال وزیر مذہبی امور و جنرل سیکرٹری پاکستان مسلم لیگ)نے اسی کو ''شریعت بل'' قرار دیا تھا اور حکومتی حلقوں نے اس خوشی میں باہم مبارکبادیں بانٹی تھیں۔مسلم لیگ کے باوا پیر پگاڑا، جو اوّل روز سے پرائیویٹ شریعت بل کے خلاف گرمجوشی دکھا رہے ہیں، اس ''سرکاری شریعت بل'' کے متعلق دانتوں میں زبان دبائے بیٹھے ہیں، کہ یہ نویں دستوری ترمیم جہاں متحدہ شریعت محاذ کی تحریک نفاذ شریعت کو سبوتاژ کردے گی، وہاں نہ صرف دستور کی سیکولر حیثیت باقی رہے گی ، بلکہ صدارتی حکم نمبر 14 (1985ء) کی رو سے قرار داد مقاصد کو جو معمولی سی دستوری اہمیت ملی تھی، اس ''خطرے'' کا بھی ازالہ ہوجائے گا تاکہ کوئی اس کی بنیاد پر عدالتوں کے ذریعہ اسلام کو دستور میں مؤثر حیثیت نہ دلا دے او راس کی رُو سے اللہ کی حاکمیت اور کتاب و سنت کی بالادستی کا حوالہ دے کر کوئی شخص سیکولر دستور کی ہیئت میں تبدیلی لانے کی کوشش نہ کرے، جس کے خلاف 1977ء میں تحریک نظام مصطفیٰؐ چلائی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ نویں ترمیم میں دستور کو وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ کار سے خارج رکھا گیا ہے۔ حالانکہ یہ بات سوچنے کی ہے کہ دستور، جو پورے ملک میں جملہ شعبہجات حکومت اور ذمہ داران حکومت کے اختیارات کا منبع ہوتا ہے، اسے اگر کتاب و سنت پر پیش کرنے کی اجازت تک نہ ہو، تو اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے کچھ معنی ہی کہاں باقی رہتے ہیں؟ یوں نویں آئینی ترمیم کے ذریعے قرار داد مقاصد پر سب سے پہلی زد یہ پڑتی ہے کہ جملہ اختیارات کا منبع، دستور، اسلام سے بالکل محفوظ ہوجاتا ہے او رہمارے خیال میں قرار داد مقاصد کو بے اثر کرنےکے لیے ہی یہ نویں آئینی ترمیم پاس کرائی جارہی ہے۔

قرار داد مقاصد ہی کے حوالہ سے دوسری اہم بات یہ ہے کہ قرار داد مقاصد میں عمومی اقرار کے باوصف خصوصی طور پر پس ماندہ طبقوں کے جائز حقوق کے تحفظ کی بات کی گئی ہے۔ چنانچہ ملک کے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے، اس نکتے کی بناء پر قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں ملک کے مالیاتی ڈھانچے کا جائزہ لینے کی گنجائش نکل سکتی ہے۔لہٰذا اس کے توڑ کے لیے نویں آئینی ترمیم میں پورے مالیاتی نظام کو اپنے مکمل تحفظات سمیت وفاقی شرعی عدالت کے احکامات کی پابندی سے آزاد رکھا گیا ہے۔(1) تاکہ اس سرمایہ دارانہ نظام کی ''حرمت'' کسی طرح بھی پامال نہ ہوسکے او راس کا ''تقدس'' بہرحال محفوظ رہے۔ یہ وہ دوسری زد ہے جو نویں آئینی ترمیم سے قرار داد مقاصد پر پڑتی ہے۔

اب اگر کوئی شخص نویں آئینی ترمیم کے دفاع میں ، مذکورہ اعتراض سے اسے بچانے کے لیے یہ کہے کہ مالیاتی قوانین کو وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار سماعت میں تو رکھا گیا ہے ، تو اسے نویں آئینی ترمیم کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے، اسے خود بخود یہ معلوم ہوجائے گا کہ اس ترمیم میں یہ گورکھ دھندا اوّلاً تو صبر ایوب کے ساتھ عمر نوح کامتقاضی ہے، ثانیاً ان جھمیلوں کے باوجود بھی وفاقی شرعی عدالت کو مالیاتی قوانین کے سلسلے میں ماہرین سےمشورہ و تجاویز کے بعد صرف سفارش کا اختیار ہے، حکم کا نہیں۔ جبکہ اس سفارش کا حال یہ ہے کہ اسلامی مشاورتی کونسل (اسلامی نظریاتی کونسل) سفارشات تو ربع صدی سے کررہی ہے ، مگر ان سفارشات کا جو حشر ہوا، سب کے سامنے ہے۔ پھر سفارش تو بڑی دور کی بات ہے، یہاں تو حالت یہ ہے کہ جن معاملات میں وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ شرعی اپیلٹ بنچ کو حکم کا اختیار ہے، وہاں بھی حکومت کو عدالت کے ان احکامات تک کی پرواہ نہیں۔ حالانکہ یہ بات توہین عدالت کےدائرہ میں آتی ہے۔ اس کی تازہ مثال شفع کا مسئلہ ہے کہ اعلیٰ ترین شرعی عدالت مروجہ قانون شفع کو خلاف اسلام قرار دے چکی ہے، لیکن مقررہ مدت گزر جانے کے باوجود حکومت نےعدالت کی ہدایت کے مطابق نیا قانون تیار نہیں کیا۔ چنانچہ جہاں احکامات کا یہ حال ہے، وہاں سفارشات کیا حیثیت رکھتی ہیں؟ ہم واضح الفاظ میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ملک کے سرمایہ دارانہ نظام کو نویں دستوری ترمیم مکمل تحفظ مہیا کرتی ہے او راس کی موجودگی میں جہاں اسلام کی برکات سے فیض یابی ممکن نہیں، وہاں طبقاتی تقسیم کا خاتمہ اور پس ماندہ طبقوں کی بحالی بھی ایک سراب ہے کہ حقیقت سے جس کو دور کا بھی واسطہ نہیں او ریہ بات اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان کےماتھے پرکلنک کا ٹیکہ ہے۔

یاد رہے کہ آج ملکی دستور اور سرمایہ دارانہ نظام ہی مملکت خدادا د پاکستان کے اندرونی او ربیرونی دو رخ ہیں او رہمارے ملک کی افسر شاہی انہی دو چیزوں کے بل بوتے پر اس نو آبادیاتی نظام کو قائم رکھے ہوئے ہے، جسےنوکر شاہی ذہن کی آسائش کی گاڑی کے دو پہیوں کی حیثیت حاصل ہے اور جس کی وجہ سے آج تک ولایت او رولایتی کا تقدس قائم ہے، لہٰذا جب تک ملک کا دستور او راس کا مالیاتی نظام کلمہ طیبہ ''لا إله إلااللہ محمد رسول اللہ'' کی بنیادوں پر استوار نہیں ہوتا، پاکستان کی تخلیق کا مقصود حاصل ہو ہی نہیں سکتا۔یہ بات ہم جتنی جلدی سمجھ جائیں گے، اسی قدر ہمارے حق میں بہتر ہوگا۔

بےچاری قرار داد مقاصد، جوش استقلال میں پاس تو 1949ء میں ہوگئی، لیکن اس کے بعد مسلسل اس کے ساتھ سوتیلی ماں کا سا سلوک روا رکھا گیا۔ چنانچہ پہلے یہ صرف دستور کے دیباچہ میں بالکل غیر مؤثر رہی۔پھر صدر صاحب کی طرف سے، اس کی بجائے اس کے اصول و شرائط کو دستور کی دفعہ 2الف کے ذریعہ مؤثر بنانے کا اعلان کیا گیا، لیکن خود قرار داد مقاصد کو دستور کاضمیمہ بنایاگیا، تاکہ اس کی دستوری قوت بالادستی کی نہ ہو۔اور اب نویں آئینی ترمیم کے ذریعہ اس معمولی سی دستوری تاثیر کے آگے بھی بند باندھے جارہے ہین۔حالانکہ قرار داد مقاصد سےلا دین طبقہ کا یہ خوف محض واہمہ ہے۔کیونکہ قرار داد مقاصد، دستوری تاثیر کے باوجود صرف مقاصد قانون ہیں۔ جنہیں عملی حیثیت ان مخصوص قوانین کے ذریعہ ہی حاصل ہوسکتی ہے جو اس غرض سے دستور میں وضع کئے جائیں۔ تاہم اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہونا چاہیےکہ جیسے مثلاً نویں آئینی ترمیم کا احکام اسلام کے نام پر قوانین وضع کرنےکا خاص طریق کار متعین کرکے قرار داد مقاصد کو سرے سے ہی بیکار کردیاجائے۔

ہم سطور بالا میں سرکاری شریعت بل پر تبصرہ کرتے ہوئےیہ بتا چکے ہیں کہ یہ کس طرح مسٹرغلام احمد پرویز کے افکار کی بازگشت ہے۔اسی طرح نویں ترمیم پربھی مذکورہ تبصرہ سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہےکہ یہ ترمیم قرآن و سنت کی بالادستی کا محض ایک نعرہ ہے۔جس سے دیندار طبقے کو صرف دلاستہ دیا جارہا ہے۔ یہ ہرگز شریعت کی بالادستی کے لیے نہیں۔ بلکہ اس کی دفعہ 2 میں ''قرآن و سنت'' کے الفاظ کی حیثیت محض اس قدر ہے جو کسی کڑوی دوا پرچینی کی تہہ کی ہوتی ہے۔ چنانچہ نویں ترمیم ایک Sugar Coated گولی ہے، جس کی پنہاں تلخی کا انداز اس کے ان الفاظ سے لگایا جاسکتا ہے کہ:
''آرٹیکل نمبر2 میں ''اسلام پاکستان کا سرکاری مذہب ہے'' کے بعد اضافہ کیا جائے کہ ''اور اسلام کے احکام، جیسا کہ وہ قرآن و سنت سے ماخوذ ہوں، اعلیٰ ترین قانون اور راہنمائی کامنبع ہوں گے تاکہ وہ احکام پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے وضع کردہ قوانین کے ذریعے نافذ العمل ہوں او ران کی روشنی میں حکومت کی پالیسی ہو۔''

ظاہر ہےکہ پہلے قرآن و سنت سےماخوذ احکام السام کو بالاترین (سپریم)قانون کہا گیا اور پھر اسی سانس میں بالاترین قانون کو قانون سازی کے لیےمنبع قرار دیا گیاہے۔ چنانچہ علماء کو قانون کے حوالے دینے والےاس نوین ترمیم کے مرتبین، احکام اسلام کو یہ دونوں مقام دے کر عوام کو مغالطٰہ دے رہے ہیں کیونکہ یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ احکام اسلام کے بالاترین قانون ہونےکا تقاضا تو یہ ہے کہ انہیں خود قانونی حیثیت حاصل ہونی چاہیے او ریہ قانون سازی کے لیے محض منبع نہ ہوں جبکہ اگر انہیں قانون سازی کا منبع قرار دیاجائے تو یہ خود بالاترین قانون نہ ہوئے۔ لیکن نویں ترمیم میں احکام اسلام کے خود بالاترین قانون ہونے کادعویٰ بھی کیا جارہا ہے او رقانون سازی کے لیے منبع ہونے کا بھی۔یوں یہ اجتماع ضدین کا ایک بےمثال شاہکار ہے۔مزید دیکھئے کہ قرآن و سنت (کی بجائے، قرآن و سنت سےماخوذ احکام) کا عملی نفاذ نہ صرف پارلیمنٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاگیا ہے، بلکہ ان احکام اسلام کے تعین کا اہل بھی پارلیمنٹ ہی کو سمجھا گیا ہے، جو مسٹر غلام احمد پرویز کے بقول شریعت ہوگی۔کیونکہ حکومت کی مرکزی اتھارٹی (پارلیمنٹ وغیرہ) کو وحی سے ماخوذ احکام السام متعین یا وضع کرنےکے اختیارات بانٹنا انہی کا کارنامہ ہے، جو ان کے بقول اس دور کی شریعت ہوتی ہے۔لہٰذا نویں آئینی ترمیم وہی سرکاری شریعت بل ہے کہ حکومت نے جسے اسمبلی میں بحث کے لیے پیش کرنے کی بجائے نویں آئینی ترمیم کی صورت میں پاس کرانے کو ترجیح دی ہے۔

حاصل یہ کہ اس وقت اصل اختلاف یہ ہے کہ شریعت محمدیؐ ہو یا سرکاری؟ علماء حضرات قرآن و سنت کی صورت میں شریعت محمدیؐ کا مطالبہ کررہے ہیں، جبکہ حکومت غلام احمد پرویز کے فکر کی روشنی میں سرکاری حیثیت کے نفاذ کی سازش کررہی ہے، جس کے لیے ذریعہ نویں ترمیم کو بنایاجارہا ہے۔ لہٰذا نویں ترمیم قرآن و سنت کے علاوہ نہ صرف قرار دادا مقاصد اور علماء کے متفقہ بائیس نکات کے خلاف ایک سازش ہے،بلکہ یہ اکتوبر 1985ء میں پاس ہونے والی اسلام کے لیےاس متفقہ قرار داد کے بھی خلاف ہے، جو مارشل لاء کے احکام و ضوابط کو جائز قرار دینے کے سودے میں آٹھویں دستوری ترمیم کے وقت، قومی اسمبلی میں حزب اقتدار او رحزب اختلاف کے مابین معاہدہ کے نتیجہ میں، پاس ہوئی تھی، کیونکہ اس کے الفاظ یہ تھے۔
The Holy Quran and Sunnah shall be the Supreme Law of the country.
کہ ''قرآن و سنت ملک کے بالاترین قانون ہوں گے۔''

یہ الفاظ اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہیں۔لیکن نویں دستوری ترمیم کوموجودہ صورت میں ڈرافٹ کرکے اس معاہدہ سے یکسر انحراف کیا گیاہے، جو پارلیمنٹ کے اسلام پسند ارکان کو مطمئن کرنے کے لیے ان سے کیا گیا تھا۔

ممکن ہے کہ نویں آئینی ترمیم کے سلسلہ میں اسلام پسندوں کو پارلیمنٹ کے اختیار اجتہاد کا مغالطٰہ دیا جائے، حالانکہ دوسری طرف یہ پروپیگنڈا بھی ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے نامزد ادارہ کو منتخب ارکان پر فوقیت دی جارہی ہے۔ بہرحال اس بحث سے قطع نظر ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ قرآن و سنت کومقنّنہ او رعدلیہ کی اجارہ داری سے آزاد رہنا چاہیے، کیونکہ جب ہمارے مسلّمہ اسلاف ائمہ مجتہدین کی فقہ کو بھی قرآن و سنت پر پیش کیا جاسکتا ہے ، تو جدید دور کی مقنّنہ او رعدلیہ کو یہ مقام کیونکر دیا جاسکتا ہے کہ ان کی تعبیر و اجتہاد حرف آخر ہوں؟ یوں بھی عدلیہ کے فیصلہ کو تسلیم کرنے کا مقصد محض سدِّنزاع ہوتا ہے جو صرف فریقین پر لازمی ہوتا ہے اس کے عدلیہ یا مفتی کے قضاء و اجتہاد کی حیثیت صرف راہنما کی ہوتی ہے، قرآن کے لیے سنت کی حتمی تعبیر والی نہیں ہوتی۔ کیونکہ جج غلطی بھی کرسکتا ہے۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
''إذ احکم الحاکم فاجتھد ثم أصاب فله أجران وإذاحکم فاجتھدثم أخطأ فله أجر'' 2
کہ ''حاکم کا اجتہاد اگر درست ہو تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے اور اگر خطأ پر مبنی ہو تو (بھی) اس کے لیے ایک اجر (ضرور) ہے (کہ اس نے مخلصانہ کوشش کی)''

مختصراً، قرآن و سنت کی پابندی تعبیر دین کے سلسلہ میں کافی ہے او رہمارے ہاں فقہ و فتاویٰ نیز اصول دین پر مباحث کا اتنا بڑا ذخیرہ موجود ہے کہ اس کی راہنمائی میں ہر مشکل حالات سے عہدہ برآ ہوا جاسکتا ہے، بشرطیکہ صحیح اجتہاد کی اہلیت فراواں ہو۔

سطور بالا کی روشنی میں ہماری رائے یہ ہے کہ نویں آئینی ترمیم کوموجودہ صورت میں ہرگز پاس نہ کیا جائے، بلکہ اسے متفقہ ترمیمی شریعت بل سے اس طرح ہم آہنگ کیا جاوے کہ شریعت بل کے جملہ دستوری اصلاح و تکمیل کے تقاضے پورے ہوسکیں۔جس کا ایک مشاورتی خاکہ بھی ہم آئندہ صفحات میں دے رہے ہیں جو مسلمان قانون دانوں کی عالمی تنطیم کی طرف سے ارکان اسمبلی او راعلیٰ دانشور حضرات کی خدمت میں بھیجا گیا ہے۔ تاکہ نویں آئینی ترمیم کی موجودہ صورت کے متبادل، مثبت تجویز کی صورت میں اس پر غور کرلیا جائے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ دین کے سلسلہ میں ہمیں اخلاص سے نوازے۔ وما توفیقی الا باللہ............. وما علینا إلا البلاغ! (مدیر)


حوالہ جات
1. ملاحظہ ہو، نویں آئینی ترمیم کی دفعہ 3۔4، جو شمارہ ہذا میں اردو ترجمہ کی صورت میں شامل اشاعت ہے۔
2. بخاری