فریضہ تبلیغ

مبلّغ کے اوصاف
مبلّغ میں مندرجہ ذیل خصوصیات کا پایا جانا ضروری ہے:

1¬۔ عمل:
مبلّغ کے لیے سب سےمقدم بات یہ ہے کہ جس چیز کی وہ دوسروں کو دعوت دے رہا ہے اس پر خود بھی عمل کرتا ہو، ورنہ اس کی دعوت مؤثر نہ ہوگی۔ قرآن مجید میں اہل ایمان سے مخاطب ہوکر فرمایا گیا ہے:
﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوالِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ ﴿٢﴾...سورۃ الصف
کہ '' اے ایمان والو، تم وہ بات کیوں کہتے ہو جس پر خود عمل نہیں کرتے؟''

حضورﷺ نے دوسروں کو کوئی حکم دینے سے پہلے خود اس پر عمل کرکے دکھایا۔آپؐ نے جہاں دوسروں کونماز کا حکم دیا وہاں خود بھی نمازیں پڑھیں، حتیٰ کہ نماز میں کثرت قیام کے سبب آپؐ کے پاؤں متورم ہوجاتے۔ آپؐ نے جہاں دوسروں کو محنت کرنےکی تاکید فرمائی وہاں خود بھی محنت کی۔ اگر دوسروں کو راہ خدا میں خرچ کرنے کا حکم دیا تو خود دوسروں سے زیادہ خرچ کیا۔ غرض آپؐ کی ذات ہر معاملے میں لوگوں کے لیے ایک ایسا اعلیٰ نمونہ بن گئی کہ اللہ نے آپؐ کے بارے میں قرآن مجید میں فرما دیا:
﴿لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِى رَ‌سُولِ ٱللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ...﴿٢١﴾...سورۃ الاحزاب
کہ ''تمہارے لیے رسول اکرمﷺ (کی زندگی) میں بہترین نمونہ ہے۔''

2۔ نرمی :
حکیمانہ استدلال ہو یا وعظ و نصیحت ہو یا جدال و مناظرہ ہو، ضرورت یہ ہے کہ داعی نرمی اور خیر خواہی سے باتیں کرے۔کیونکہ سختی اور شدت کا طریق دوسرے کے دل میں نفرت اور عداوت کے جذبات پیدا کرتا ہے او رکیسی ہی اچھی اور سچی بات ہو، اس قسم کے جذبات اس کے قبول کی استعداد مخاطب سے سلب کرلیتے ہین۔جس کانتیجہ غلط روی پر ضد او رہٹ دھرمی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور دعوت و نصیحت کا فائدہ اور اثر باطل ہوجاتاہے۔

قرآن مجید میں ہے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کو فرعون جیسے سرکش او ربدترین دشمن کے سامنے بھی پیغام ربانی لے کر جانے کا حکم ہوا تو ساتھ ہی یہ ہدایت بھی کی گئی۔
﴿ٱذْهَبَآ إِلَىٰ فِرْ‌عَوْنَ إِنَّهُۥ طَغَىٰ ﴿٤٣﴾ فَقُولَا لَهُۥ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُۥ يَتَذَكَّرُ‌ أَوْ يَخْشَىٰ ﴿٤٤...سورۃ طہ
''تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ کہ اس نے سرکشی کی ہے۔ (لیکن) اس سے نرم گفتگو کرنا شاید وہ نصیحت قبول کرے یاخدا سے ڈرے۔''

اس لیے مبلغین کو نرمی اپنا اصول بنا لینا چاہیے اور سخت کلامی اور بدتہذیبی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ حضور ﷺ کی معجزانہ کشش لوگوں کو کھینچ کھینچ کر اسلام میں داخل کرتی تھی۔

3۔ اعراض اور قول بلیغ:
آنحضورﷺ کو ان منافقوں کے بارے میں، جو آپؐ کی نافرمانی کے مرتکب ہوئے تھے، یہ حکم ہوا:
﴿فَأَعْرِ‌ضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ وَقُل لَّهُمْ فِىٓ أَنفُسِهِمْ قَوْلًۢا بَلِيغًا ﴿٦٣...سورۃ النساء
''آپؐ ان سے درگزر فرمائیے، ان کو نصیحت کیجئے او ران سے ایسی بات کہیئے جو ان کے دلوں پر اثر کرے۔''

اس آیت میں تین ہدایات دی گئیں۔اوّل یہ کہ دعوت و تبلیغ میں درگزر کرتے ہوئے مخالف کی بدتمیزی ، بدتہذیبی اور درشتی کو برداشت کرنا چاہیے۔ دوسرے یہ کہ اسےنصیحت کرنا او رسمجھانا چاہیے۔ تیسرے یہ کہ گفتگو کا وہ مؤثر طرز و انداز اختیار کرنا چاہیے جو دل میں گھر کرے۔

4۔ سہولت و بشارت :
انہی ربّانی ہدایتوں کی تعمیل میں جب آنحضرتﷺ نے حضرت معاذ بن جبلؓ او رحضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کو یمن میں اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لیے بھیجا تو بوقت رخصت یہ نصیحت فرمائی:
''یسرا ولا تعسرا بشرا ولا تنفرا '' 1
''دین الٰہی کو آسان کرکے پیش کرنا سخت بنا کر نہیں، خوشخبری سنانا نفرت نہ دلانا''

یہ وہ تبلیغ اصول ہیں جو ایک داعی او رمبلّغ کی کامیابی کی جان ہیں، آنحضرتﷺ نے صحابہؓ کے سامنے اور صحابہؓ نے عام مسلمانوں کے سامنے اسی اصول کے مطابق دین الٰہی کو پیش کیا اور کامیابی حاصل کی۔

5۔ تالیف قلب:
تبلیغ دعوت کے سلسلہ میں اسلام نے ایک اور طریقہ بھی بتلایا ہے جس کو تالیف قلب کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے اس سے مقصود اس شخص کے ساتھ جس کو اسلام کی طرف مائل کرنا ہو، لطف و محبت سے پیش آنا اور اس کی امداد و اعانت نیز ہمدردی و غمخواری کرنا ہے۔کیونکہ انسان طبعاً شریفانہ جذبات کا ممنوں ہوتا ہے او ریہ ممنونیت، عناد اور ضد کے خیالات کو دُور کرکے قبول حق کی صلاحیت پیدا کردیتی ہے۔ ایک دفعہ ایک بدّو نے آکر حضور ﷺ سے کہا''ان دونوں پہاڑوں کے درمیان بکریوں کے جتنے ریوڑ ہیں، مجھ کو عنایت کیجئے'' آپؐ نے اس کو وہ سب دے دیے۔ یہ فیاض دیکھ کر وہ اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے اپنے پورے قبیلہ سے جاکر کہا: ''بھائیو، اسلام قبول کرو، محمدﷺ اتنا دیتے ہیں کہ ان کو اپنے فقرو افلاس کا ڈر ہی نہیں رہتا۔'' 2

6۔ خلوص :
مبلّغ کے دل میں کوئی دنیاوی غرض یا ذاتی لالچ نہ ہو بلکہ وہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور دین کی سربلندی کے لیے تبلیغ کا فریضہ سرانجام دے۔

7۔ علم دین:
ایک داعی او رمبلّغ کے لیے ضروری ہے کہ وہ تعلیمات اسلام سے خوب اچھی طرح واقف ہو۔ عالم دین ہو تاکہ تبلیغ کے دوران ٹھوس قسم کے دلائل دے سکے، جو مخاطب کے دل پر اثر کریں۔

8۔ دوسرے مذاہب کی بنیادی تعلیمات:
مبلّغ کےلیے ضروری ہے کہ وہ دنیا کے بڑے بڑے مذاہب میں جو باتیں مشترک ہوں، ان کی نشاندہی کرسکتا ہو۔ نیز ان تعلیمات میں اسلام کی فضیلت کے دلائل اسے معلوم ہوں تاکہ وہ غیر مسلموں کو دعوت دیتے وقت اسلام کی فضیلت ثابت کرسکے۔

9۔ زبان پر عبور :
جس قوم میں ایک مبلّغ دعوت حق دینا چاہے، اسے اس قوم کی زبان پر عبور حاصل ہونا چاہیے۔ ورنہ دلنشین انداز میں وہ دل کی بات دوسروں تک نہیں پہنچا سکے گا۔

10۔ تدریج :
تبلیغ کا ایک اور اصول آنحضرتﷺ نے یہ تعلیم فرمایا کہ کسی قوم کو دعوت دیتے وقت شریعت کے تمام احکام کا بوجھ ایک دم اس کی گردن پر نہ ڈال دیا جائے، بلکہ رفتہ رفتہ وہ اس کے سامنے پیش کیے جائیں۔ پہلے توحید اور رسالت کو پیش کرنا چاہیے، اس کے بعد عبادات کو۔ عبادات میں بھی اہم او رپھر اہم کے اصول کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ عبادات میں سب سے اہم نماز ہے، پھر زکوٰة ہے۔ حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن بھیجتے وقت آپؐ نے فرمایا:
''تم یہودیوں اور عیسائیوں کی ایک قوم کے پاس جاؤ گے تو ان کو پہلے اس کی دعوت دینا کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اس کے رسول ہیں۔ جب وہ یہ مان لیں تو ان کو بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن رات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں اور جب وہ یہ بھی مان لیں تو ان کو بتاؤ کہ خدا نے ان پر صدقہ فرض کیا ہے، یہ صدقہ ان کے دولت مندوں سے لے کر ان کے غریبوں کو دے دیا جائے۔جب وہ اس کو تسلیم کرلیں تو خبردار، صدقہ میں چُن چُن کر ان کے بڑھیا مال کو نہ لینا او رہاں مظلوم کی بددعا سے ڈرتے رہنا کہ اس کے اور خدا کے درمیان کوئی پردہ نہیں۔'' 3


حوالہ جات
1. صحیح بخاری مع فتح الباری :8؍60
2. صحیح مسلم باب جودہ، جز 15 صفحہ 87
3. صحیح بخاری باب معاذ الی الیمن : 8؍60