’’ختنہ ............ ایک دینی شَعار‘‘

ختنہ کا لُغوی اور اصطلاح مفہوم :
ختنہ (Circumcision)کا لغوی معنی ''قلفہ'' یعنی عضو تناسل کے اگلے حصہ کی جلد، جس کو انگلش (Prepuce)میں کہتے ہیں، کاٹ کر علیحدہ کرنا ہے۔ عام اصطلا ح میں یہ لفظ جلدکے اس حصے کے لیے بولا جاتا ہے جو حشفہ (Glans Penis)کے نچلے حصہ میں سمٹی ہوئی ہوتی ہے،جسے وہاں سے کاٹ کر جسم سے جدا کیا جاتا ہے۔ ختنہ ایک معمولی عمل جراحی ہے، کسی آلہ یا معدنی سلائی کی مدد سے حشفہ کے اوپر کی تمام جلد کو آگے کی جانب سمیٹ کر استرے سے کاٹ دیا جاتا ہے، خون روکنے اور جلد زخم بھرنے کے لیے کوئی دوا، پاؤڈر یا مرہم لگا کر پٹی باندھ دی جاتی ہے۔ یہ زخم عموماً ایک ہفتہ میں مندمل ہوجاتا ہے۔برصغیر ہندوستان و پاکستان کے اکثر مقامات پر یہ خدمت حجام، عام جراح یا ہسپتال کا عمل انجام دیتا ہے۔

شریعت میں ختنہ یا ختان اس عمل جراحی کے علاوہ اعضائے پوشیدہ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے او راس کے متعلق ہمیں سنت نبویؐ میں واضح طور پرمرتب شدہ احکامات بھی ملتے ہیں۔ مثلاً ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
''إذا التقی الختانان فقد وجب الغسل'' 1
''جب (مرد او رعورت کے )ختنے مل جائیں تو غسل واجب ہوگیا۔''

ایک اور روایت میں ہے:
''إذا التقی الختانان و غابت الحشفة فقد وجب الغسل أنزل أولم ینزل'' 2
یعنی ''جب (مرد عورت کے) ختنے اس طرح مل جائیں کہ حشفہ غائب ہوجائے تو غسل واجب ہوگیا خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔''

امام بخاری نے بھی اپنی صحیح میں ایک باب اس ضمن میں مقرر فرمایا ہے:
''إذا التقی الختانان'' یعنی ''جب (مرد عورت کے)ختنے مل جائیں'' 3

برصغیر ہندوستان و پاکستان میں عموماً ختنہ کو کسی شخص کے مسلمان ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے علاوہ یہودیوں اور بعض عیسائیوں میں بھی ختنہ کروانے کا رواج ہے۔ عصر حاضر میں اکثر غیر مسلم قومیں بھی اس کے طبی فوائد کے پیش نظر ختنہ کرواتی ہیں۔

اسلام میں ختنہ کی مشروعیت:
احادیث میں جہاں فطرتi کے خصائل کا بیان ہے، وہاں ختنہ کا ذکر بھی موجود ہے۔ اس کی مشروعیت پربہت سی احادیث دلالت کرتی ہیں جن میں سے چند یہاں پیش کی جاتی ہیں:
1۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
''الفطرة خمس أو خمس من الفطرة الختان والاستحداد ونتف الإبط و تقلیم الأطفار و قص الشارب'' 4
''فطرت پانچ چیزیں ہیں یاپانچ چیزیں فطرت کے تقاضوں سے ہیں۔ یعنی ختنہ کروانا، موئے زیر ناف صاف کرنا، بغل کے بال اکھارنا، ناخن تراشنا اور مونچھیں چھوٹی کرنا۔''

2۔عمار بن یاسرؓ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
''من الفطرة: المضمضة والاستنشاق وقص الشارب والسواك و تقلیم الأظفار و نتف الإبط والاستحداد والاختتان'' 5
یعنی ''(یہ چیزیں) فطرت میں سے ہیں، کلی کرنا، ناک صاف کرنا، مونچھیں چھوٹی کرنا، مسواک کرنا، ناخن تراشنا، بغل کے بال اکھارنا، موئے زیر ناف صاف کرنا او رختنہ کروانا۔''

ختنہ کی دینی حکمت اور اہمیت:
1۔ ختنہ کروانے میں عظیم دینی حکمت کے ساتھ صحت و تندرستی کے بے شمار فوائد بھی شامل ہیں جنکو علماء او راطباء نے مفصل طور پر بیان کیا ہے۔
2۔ دینی اعتبار سے ختنہ کروانا اولیٰ و اہم ترین فطرت، شعار اسلام اور عنوان شریعت ہے۔
3۔ بعص اہل علم حضرات نے اسے اتمام حنیفیت میں سے قرار دیا ہے، جس کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی لسان مبارک پر مشروع فرمایا تھا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
﴿ثُمَّ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ أَنِ ٱتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَ‌ٰ‌هِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ ٱلْمُشْرِ‌كِينَ ﴿١٢٣...سورۃ النحل
''پھر ہم نے وحی نازل کی آپ پر (اے محمد ﷺ) کہ اتباع کیجئے دین ابراہیمؑ کی، جو اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہیں کرتے تھے او رنہ ہی ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرا رکھےتھے۔''
(ترجمہ بمطابق مختصر انگریزی معانی القرآن الکریم لابن کثیر صفحہ 280 مترجم: ڈاکٹر محمد تقی الدین ہلالی المراکشی و ڈاکٹر محمد محسن خان طبع ثانی انقرہ)

4۔ختنہ کروانا بدن کی صبغت میں سے ہے، جس طرح کہ مونچھیں چھوٹی کرنا، ناخن تراشنا، بغل کے بال اکھاڑنا، موئے زیر ناف صاف کرنا، داڑھی بڑھانا، مسواک کرنا وغیرہ اس میں شامل ہیں۔ بلا شبہ اللہ تعالیٰ ہمیں دین کے جس رنگ میں رنگنا چاہے، بندگی کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اسی رنگ میں رچ بس جائیں۔ جیسا کہ باری تعالیٰ قرآن کریم میں خود ارشاد فرماتا ہے:
﴿صِبْغَةَ ٱللَّهِ ۖ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ ٱللَّهِ صِبْغَةً ۖ وَنَحْنُ لَهُۥ عَـٰبِدُونَ ﴿١٣٨...سورۃ البقرۃ
''(ہم دین کی) اس حالت پر ہیں جس میں (ہم کو) اللہ تعالیٰ نے رنگ دیا ہے۔ او ردوسرا کون ہے جس کا رنگ دینا اللہ تعالیٰ سے خوب تر ہو اور (اسی لیے) ہم اسی کی غلامی اختیار کیے ہوئے ہیں۔'' 6

5۔ ختنہ کروانا، اللہ تعالیٰ کی اعلیٰ حاکمیت کا اقرار و اعتراف ، اس کی ہمہ گیر سلطانیت کے اوامر و احکام کا انسانی زندگی میں بالعمل نفاذ اور اس کی منشاء و رضا جوئی میں خضوع کی بہترین مثال ہے۔
6۔ اگر اولاد نرینہ ہو تو اس کا ختنہ کروانا نومولود کے حقوق میں شامل ہے۔
7۔ ختنہ کروانا مسلمانوں کو غیر مسلم قوموں اور ادیان مختلفہ کے طور طریقوں سے ممیز و ممتاز کرتا ہے۔

ختنہ کروانا سنت ہے یا واجب؟ فقہاء کی آراء کی روشنی میں:
اس امر میں فقہاء کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے کہ ختنہ کروانا سنت ہے یا کہ واجب؟ جو فقہاء ختنہ کے سنت ہونےکے قائل ہیں، ان میں امام حسن بصری، امام ابوحنیفہ او ربعض ائمہ حنابلہ ہیں او رجو لوگ اس کے وجوب کے قائل ہین ان میں امام شعبی، امام ربیعہ، امام اوزاعی، امام یحییٰ بن سعید انصاری، امام مالک، امام شافعی او رامام احمد ہیں۔ (رحمہم اللہ)

سید قاسم محمود صاحب، مدیر شاہکار فاؤنڈیشن کراچی لکھتے ہیں:
''امام شافعی او ربہت سے دوسرے علماء کے نزدیک ختنہ واجب ہے۔ امام مالک او راکثر علماء کے نزدیک سنت ہے۔''ii

موصوف کی تحقیق امام مالک کے متعلق غلط اور ناقص ہے ۔ امام مالک نے ختنہ کے وجوب کے مؤقف میں اس قدر شدت اختیار فرمائی ہے کہ ان کے نزدیک ''غیر ختنہ شدہ شخص کی نہ امامت جائز ہے او رنہ اس کی شہادت مقبول ہے۔''

ختنہ کے سنت ہونے کے دلائل او راُن کا جائزہ:
ذیل میں ہم ان فقہاء کی دلیلیں پیش کرتے ہیں جو ختنہ کروانے کو سنت قرار دیتے ہیں اور ساتھ ہی انکی دلیلوں کا علمی جائزہ بھی پیش خدمت ہے:

ان کی پہلی دلیل شداد بن اوس کی وہ روایت ہے جس میں انہوں نےبیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
''الختان سنة للرجال مکرمة للنسآء'' 7
''ختنہ مردوں کے لیے سنت اور عورتوں کے لیے مکرم ہے۔''

ان کی دوسری دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ختنہ کو حدیث فطرت میں مسنونات، مثلاً ناخون کو تراشنا، بغل کے بالوں کو اکھاڑنا اور موئے زیر ناف صاف کرنا وغیرہ کے ساتھ ذکر فرمایاہے۔ جو اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ ختنہ بھی ان دوسری مسنونات کی طرح سنت ہے نہ کہ واجب۔

ایک تیسری دلیل امام حسن بصری کے اس قول سے پیش کی جاتی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ:
''رسول اللہ ﷺ کے ہاتھوں بہت سے لوگ مسلمان ہوئے خواہ وہ کالے ہوں یا گورے، رومی ہوں یا فارسی اور حبشی....... لیکن (یہ ثابت نہیں ہے کہ) ان میں سے کسی کو مسلمان کرتے وقت اس امر (یعنی ختنہ) کی تحقیق و تفتیش کی گئی ہو۔'' چنانچہ اگر ختنہ کروانا واجب ہوتا تو رسول اللہ ﷺ ان سب لوگوں کا اسلام قبول نہ فرماتے حتیٰ کہ وہ سب لوگ ختنہ کروالیتے۔ یہ بات بھی ختنہ کے سنت ہونے پر دلالت کرتی ہے۔''

اگر ختنہ کے سنت ہونے کی ان تینوں دلیلوں کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اں میں سے کوئی ایک دلیل بھی قطعی حکم ثابت کرنے کے لیے قوی نہیں ہے۔ حدیث ''الختان سنة للرجال مکرمة للنسآء'' کے متعلق محدثین او رمحققین فرماتے ہیں کہ یہ حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہے اور تمام فقہاء کے نزدیک یہ امر مسلّم ہے کہ ضعیف احادیث سے احکام شرعیہ کے استنباط میں احتجاج نہیں کیا جائے گا بعض لوگ اس حدیث کے ضعف سے انکار کرتے ہیںiii، اگران کی بات کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو اس حدیث سے صرف یہ پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ختنہ کو سنت بتایا ہے لیکن چونکہ اس کا حکم بھی دیا ہے لہٰذا اپؐ کا حکم فرمانا اس کے وجوب کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔

ختنہ کو سنت قرار دینے والوں کی دوسری دلیل بھی زیادہ قوی نہیں ہے۔ کیونکہ محولہ حدیث فطرت میں چند ایسی چیزیں بھی مذکور ہیں جو واجب ہیں۔ مثلاً غسل کے دوران کلی کرنا او رناک کی صفائی کرنا۔ ان واجبات کے ساتھ اس حدیث میں بعض چیزیں مستحب بھی ہیں۔ مثلاً مسواک کرنا اور ناخن تراشنا وغیرہ ۔ پس جس حدیث سے احتجاج کیا گیاہے اس میں دونوں قسم کے امور مذکور ہیں یعنی جو واجب ہیں وہ بھی اور جو مستحب ہیں وہ بھی۔ اگر ختنہ کوسنت مان بھی لیا جائے تو بھی طہارت کی صحت کے لیے یہ واجب کا متقاضی ہے، کیونکہ ختنہ نہ ہونے کی صورت میں اکثر اوقات قلفہ کے اندر غلاظت باقی رہ جانے کا اندیشہ رہتا ہے۔

ختنہ کے سنت ہونے کی تیسری دلیل، جس میں امام حسن بصری کے قول سے احتجاج کیا گیاہے، وہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ جن لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا تھا وہ سب ختنہ کی تحقیق و تفتیش سے مستغنی تھے۔ مستند ماخذ سے ثابت ہے کہ سب عرب قاطبہ دور جاہلیت میں ختنہ کرواتے تھے، اسی طرح یہود قاطبہ میں ختنہ کرایا جاتا تھاiv۔ چنانچہ سوائے بعض عیسائیوں کے کوئی بھی شخص غیر ختنہ شدہ نہیں ہوتا تھا کیونکہ عیسائیوں میں بھی دو فرقے تھے، ایک فرقہ ختنہ کرواتا تھا، دوسرا اس کو ضروری تصور نہیں کرتا تھا۔

امام ابن قیم الجوزیہ فرماتے ہیں:
''عہد نبویؐ میں جو شخص بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوتا تھا وہ بھی، اور جو نہیں ہوتا تھا وہ بھی، دونوں اسلام کے بنیادی اور ابتدائی علوم سے واقف ہوتے تھے، ختنہ کو شعار اسلام اور غسل کواسلام کا بنیادی و ابتدائی فریضہ تصور کرتے تھے۔اگر قبول اسلام سے قبل واقف نہ بھی ہوں تو اسلام قبول کرنے کے بعد ان چیزوں کو جان لیتے تھے۔'' 8

امام ابن القیم کے مندرجہ بالا قول کی تائید عثیم بن کلیب او رزہری کی روایات سے بھی ہوتی ہے۔ جن کا ذکر ان شاء اللہ آگے آئے گا ، فی الحال یہ سمجھ لینا کافی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چونکہ ہمیشہ امت کی خیر و سعادت او رامت مسلمہ کو دوسری امتوں سے ممیز و ممتاز ہوسکنے کی جانب رشد و ہدایت فرمائی ہے، لہٰذا اپؐ کا طریق و منہج بجائے بحث و تنقید یا تحقیق و تفتیش کے یہ تھا کہ جو شخص اپؐ کی دعوت پر لبیک کہتا، آپؐ اس کے ظواہر پراس کا اسلام لانا قبول فرماتے اور اس کے دل کے باطنی احوال یا پوشیدہ راز اور عزائم کو اللہ تعالیٰ کےحوالہ کردیتے تھے۔

ختنہ کے واجب ہونے کے دلائل:
اب ان فقہاء کی چند دلیلیں پیش ہیں جو ختنہ کے وجوب کے قائل ہیں:
عثیم بن کلیب اپنے دادا کے متعلق اپنے والد کے حوالہ سے روایت کرتے ہیں:
''وہ رسول اللہ ﷺ کےپاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ''میں نے اسلام قبول کیا۔'' آپؐ نے فرمایا:
''ألق عنك شعر الکفر و اختتن'' 9
یعنی ''اپنے عہد کفر کے (سر کے ) بال منڈواؤ اور ختنہ کرواؤ''

زہری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
''من أسلم فلیختتن وإن کان کبیرا'' 10
یعنی ''جو شخص اسلام قبول کرے پس وہ ختنہ بھی کروائے اگرچہ کبیر السن ہی ہو۔''

وکیع نے سالم، عمر و بن ہرم، جابر او ریزید کے حوالہ سے روایت کی ہے کہ :
ابن عباس ؓ نے فرمایا:
''الأ قلف لا تقبل له صلوٰة ولا تؤکل ذبیحته''
یعنی'' غیر ختنہ شدہ شخص کی نہ نماز قبول ہوتی ہے او رنہ اس کا ذبیحہ قابل اعتماد ہوتا ہے۔''

موسیٰ بن اسماعیل نے حضرت علیؓ سے روایت کی ہے:
''إن الأقلف لا یترك في الإسلام حتی یختتن'' 11
''غیر ختنہ شدہ شخص کا اسلام میں کوئی ترکہ نہیں ہے ، تاآنکہ وہ ختنہ کروالے۔''

خطابی کا قول ہے:
''ختنہ ایک ایسی شئے ہے جو جملہ کتب سنن میں مذکور ہے۔کثیر تعداد میں علماء کے نزدیک یہ واجب او ردینی شعار ہے۔یہ وہ چیز ہے جس سے مسلم کو غیر مسلم سے پہچانا جاسکتا ہے ۔ اگر کسی ختنہ شدہ شخص کی نعش غیر ختنہ شدہ مقتول اشخاص کی جماعت کے درمیان پائی جائے تو اس پر نماز (جنازہ )پڑھی جائے گی او راس نعش کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔''

ختنہ کے وجوب کے لیے فقہاء نے یہ علت بھی بیان کی ہے کہ:
''چونکہ قلفہ عضو تناسل کے تقریباً اگلے نصف حصہ کو اپنے اندر چھپائے رکھتا ہے، اس لیے جب غیر ختنہ شدہ شخص پیشاب کرتا ہے تو قلفہ کے اندر لگے ہوئے پیشاب کے باقی قطرات کا پانی یا مٹی کے ڈھیلے سے استنجا کیا جانا ممکن نہیں ہے۔کیونکہ ایسی صورت میں نہ تو پانی ہی قلفہ کے اندر پہنچ کر نجاست کو دور کرتا ہے او رنہ ہی مٹی کا ڈھیلا قلفہ کے اندر کی نجاست کو جذب کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ پس ایسے شکص کی طہارت موقوف ہونے کے باعث اس کی نماز میں فساد واقع ہوتا ہے۔ چنانچہ بہت سے سلف و خلف نے ایسے شخص کی امامت سے منع کیا ہے۔ مگر بحیثیت مقتدی اس کی نماز کو معذور کی نماز تصور کیا ہے او راس کی طہارت کی عدم صحت کو سلس البولv کی بیماری پرقیاس کیا ہے۔''

عبدالرحمٰن الجزیری بیان کرتے ہیں:
''حنفیہ کے نزدیک غسل کے دوران غیر ختنہ شدہ شخص کے لیے قلفہ کی جلد کے اندر پانی داخل کرنا واجب نہیں ہے لیکن اگر کوئی شخص ایسا کرکے تو یہ اس کے لیے مستحب ہے۔vi لیکن شافعیہ کے نزدیک قلفہ کے نیچے پانی کا پہنچنا واجب ہے۔ اگر کوئی شخص غیر ختنہ شدہ مرجائے تو اس کو بغیر نماز (جنازہ) کے دفن کیا جائے۔ لیکن بعض شوافع کا قول ہے کہ : کوئی شخص تیمم کرکے اس کی نماز (جنازہ) پڑھ لے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شافعیہ کے نزدیک ختنہ کروانا واجب ہے۔ اس دور میں یہ مقتضیات صحت میں سے بھی ہے۔ لہٰذا جو شخص ختنہ نہ کروائے وہ نرا جاہل ہے۔vii او رحنابلہ کے نزدیک غسل جنابت کے دوران ظاہری بدن میں قلفہ کے اندر بھی پانی پہنچنا شاملviii ہے۔''

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
﴿ثُمَّ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ أَنِ ٱتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَ‌ٰ‌هِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ ٱلْمُشْرِ‌كِينَ ﴿١٢٣...سورۃ النحل
''پھر ہم نے وحی نازل کی آپ پر (اے محمدﷺ)کہ اتباع کیجئے دین ابراہیم ؑ کی جو اللہ کے علاوہ کسی او رکی عبادت نہیں کرتے تھے او رنہ ہی ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرا رکھے تھے۔''

قرآن کریم کی اس آیت سے یہ بات واضح ہوجاتی ہےکہ رسول اللہ ﷺ اور آپؐ کی تمام امت ، دین ابراہیمؑ کی اتباع پر مامور ہیں، چونکہ ختنہ کروانا دین ابراہیم علیہ السلام سے ہے اس لیےاس امر کی اتباع بھی امت محمدیہ پر واجب ہے۔

حضرت ابراہیمؑ کے ختنہ کے متعلق امام بخاری نے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کی ہے:
''قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اختتن إبراھیم علیه السلام وھو ابن ثمانین سنة بالقدوم'' 12
''رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے 80سال کی عمر میں ix سے اپنا ختنہ کیا تھا۔''

ایک اور روایت میں ہے:
''آپ (حضرت ابراہیم ؑ) ہی وہ پہلے شخص تھے جس نے مہمان کی میزبانی کی، آپؑ ہی پہلے شخص تھے جس نے پاجامہ زیب تن فرمایا، اور آپؑ ہی پہلے شخص تھے جس نے ختنہ کی ۔ آپؑ کےبعد اتمام رسولوںؑ او ران کی امتوں میں، جنہوں نے آپؑ کی اتباع کی، ختنہ کی یہ سنت جاری رہی۔ حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی۔''

ابوایوب سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ''چار چیزیں سنن المرسلین ہیں: ختنہ کرواناx، عطر لگانا، مسواک کرنا اور نکاح۔'' 13

اس تمام بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ختنہ کروانا سب سے اہم فطرت ، شعار اسلام1 عنوان شریعت اور تمام مسلم مردوں پر واجب ہے۔ جو شخص مسلم ہونے کے باوجود اس بات کا علم نہ رکھے اور بلوعت سے قبل اپنے اوپر اس حکم کا نفاذ نہ کرے وہ گنہگار، معصیت کا مرتکب ، ناپاکی او رحرام و وِزر میں واقع ہوگا۔ (جاری ہے)


حوالہ جات
1. رواہ احمد و ترمذی و نسائی
2. رواہ طبرانی
3. صحیح بخاری کتاب الغسل
4. صحیح البخاری کتاب اللباس و صحیح مسلم
5. مسند احمد
6. قرآن کریم مع اختصار شدہ ترجمہ و تفسیر بیان القرآن از اشرف علی تھانوی صفحہ18 طبع 1983ء
7. رواہ امام احمد
8. تحفة المودود في أحکام المولود لامام ابن القیم صفحہ104 بالاختصار
9. رواہ احمد و ابوداؤد
10. رواہ احرب في مسائله
11. رواہ البیہقی
12. صحیح بخاری کتا ب الانبیاء
13. رواہ ترمذی و احمد


i. علمائے اسلام نے فطرت کی دو قسمیں بیان کی ہے۔ایک فطرت ایمانیہ: جو قلب سے تعلق رکھتی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی معرفت او راس پر قطعی و کامل ایمان۔ دوسری قسم فطرت عملیہ ہے۔ پہلی قسم روح کے تزکیہ او رطہارت قلب سے متعلق ہے ، جب کہ دوسری قسم جسمانی طہارت اور تزئین مظہر سے ۔ جسمانی فطرت میں اولیٰ ختنہ کروانا ہے۔ ان احادیث میں فطرت کی اسی دوسری قسم کا ذکر ہوا ہے۔
ii. شاہکار انسائیکلو پیڈیا صفحہ 834 مطبع شاہکار فاؤنڈیشن کراچی۔
iii. جو لوگ اس حدیث کے ضعف کو تسلیم نہیں کرتے ان کی دلیل محض حافظ ابوالعلاء ہمدانی کا وہ مشہور قول ہے کہ:
''مسند احمد میں کوئی موضوع حدیث نہیں ہے۔''
لہٰذا یہ روایت بھی صحیح ہے، لیکن امام ابن الجوزی مسند احمد کے متعلق کہتے تھے کہ:
''اس میں بھی بعض ایسی حدیثیں موجود ہیں جن کے متعلق حتمی طور پر معلوم ہوچکا ہے کہ وہ جھوٹی ہیں۔''
امام ابن الجوزی کی اصطلاح میں موضوع وہ حدیث ہے جس کے بطلان پر دلیل قائم ہوجائے۔ اگرچہ اس کے راوی نے عمداً غلط بیانی نہ بھی کی ہو بلکہ سہو کا شکار ہوا ہو۔ جبکہ حافظ ابوالعلاء ہمدانی کی اصطلاح میں موضوع وہی حدیث ہے جس کے راوی نے اسے قصداً گھڑا ہو۔ امام ابن الجوزی حنبلی بغدادی نے اپنی مشہور کتاب ''موضوعات'' میں بہت سے موضوع احادیث کے ساتھ مسند امام احمد کی بھی بعض حدیثیں لکھیں ہیں او رحق یہ ہے کہ موضوعات کے باب میں ابن الجوزی کی رائے باتفاق علماء صحیح ہے۔
iv. امام بخاری نے اپنی صحیح میں حضرت ابن عباسؓ کی ایک طویل روایت بحوالہ ابوسفیان بن حرب نقل کی ہے، جس میں ابن ناظور او رہرقل کا مکالمہ مذکور ہے جس سے اہل عرب او ریہودیوں کا ختنہ کروانا واثق ہوتا ہے:
''فقال لھم حین سألوہ إني رأیت اللیلة حین نظرت في النجوم ملك الختان قد ظھر فمن یختتن من ھٰذه الأمة قالو الیس یختتن إلا الیهود فلا یھمنك شأنھم واکتب إلیٰ مدآین ملکك فلیقتلوا من فیھم من الیهود دفبینا ھم علیٰ أمرھم إلیٰ ھرقل برجل أرسل به ملك غسان یخبر عن خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم فلما استخبرہ ھرقل قال اذھبوا فانظروا مختتن ھو أم لا: فنظروا إليه فحدثوہ أنه مختتن وسأله عن العرب فقال ھم یختتنون فقال ھرقل ھٰذا ملك ھٰذه الأمة قد ظھر الخ'' (صحیح بخاری کتاب الوحی)
''(ہرقل) نے اپنے مصاحبین کے استفسار پر بتایا کہ میں نے جب رات کو تاروں پرنگاہ ڈالی تو دیکھا کہ ایک ختنہ کرنے والا بادشاہ غالب آگیا ہے (یہ پتہ چلاؤ ) کہ اس زمانے میں کون ختنہ کرواتا ہے؟ لوگوں نے کہا یہ یہودیون کا طریقہ ہے، لیکن یہود سے آپ کوئی خطرہ محسوس نہ کریں اور اپنے ملک کے تمام بڑے شہروں میں اطلاع کردیجئے کہ تمام یہودی قتل کردیئے جائیں۔ ابھی وہ لوگ اسی سوچ بچار میں تھے کہ ہرقل کی خدمت میں ایک شخص حاضر کیا گیا جسے والئ غسان نے بھیجا تھا اس نے رسول اللہ ﷺ کے بارے میں کچھ بیان کیا تو ہرقل بولا، جاؤ او ردیکھو کہ کیا وہ ختنہ کیے ہوئے ہین؟ لوگوں نے اس کو دیکھا تو بیان کیا کہ وہ ختنہ شدہ ہے۔ہرقل نے اس سے عرب کے بارے میں دریافت کیا کہ وہ لوگ بھی ختنہ کرتے ہیں؟ اس نے بتایا کہ ہاں۔ تب ہرقل بولا کہ یہی رسول اللہ ﷺ آج کے دور کا بادشاہ ہے جو ظاہر ہوگیا ہے۔ الخ''
v. سلسل البول ایسی بیماری کو کہتے ہیں جس میں مثانہ کی کمزوری کے باعث مریض کو تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد پیشاب کے چند قطرات باوجود ضبط کرنے کے نکلتے رہتے ہیں۔
vi. الفقہ علی المذاہب الاربعہ ج1 ص112 طبع استانبول
vii. ایضاً ج1 ص114
viii. ایضاً ج1 ص115
ix. سید قاسم محمود صاحب نے حضرت ابراہیمؑ کے ختنہ کے وقت ان کی عمر کے متعلق لکھا ہے:
''ابن سعد نے ایک حدیث نقل کیا ہے جس کی رو سے حضرت ابراہیم ؑ کا ختنہ تیرہ سال کی عمر میں ہوچکا تھا۔'' (شاہکار اسلامی انسائیکلو پیدیا صفحہ 834 مطبع شاہکار فاؤنڈیشن کراچی) یہ روایت صحیح نہیں ہے۔
x. بعض نسخوں میں ''ختنہ'' کی جگہ ''الحیاء ''اور بعض میں ''الحناء'' وارد ہوا ہے۔ لیکن ابوالحجاج المزی کی تحقیق کے مطابق ان نسخوں میں''الحیاء'' اور ''الحناء'' دونوں غلط ہیں۔ شیخ محاملی سے ثابت ہے کہ انہوں نے حدیث میں لفظ ''الختان'' اپنے شیخ سے روایت کیاہے جن سے امام ترمذی نے بھی روایت لی ہے۔ تفصیل کے لیے ''تحفة المودود في أحکام المولود مصنفہ امام ابن القیم صفحہ 93 ملاحظہ فرمائیں۔