اہلِ حدیث کی ’’نشاۃ ثانیہ‘‘

اہلِ حدیث کی ''نشاة ثانیہ'' اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے!
جمہوریت، جمہوریت، جمہوریت، ہر سُو اک شور برپا ہے، لیکن تجربہ شاہد ہے کہ ''آزادی یہ یہ نیلم پری۔ جمہوریت'' جہاں بھی تشریف لے جاتی ہے، عوام الناس کی زندگیاں غیر محفوظ ہوجاتیں او رامن و امان کے سنگین مسائل اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ فلپائن کے جمہوری تماشوں کے بعد بنگلہ دیش کے حالات پر اک نگاہ دوڑائیے، اخبارات کے ذریعے، بنگلہ دیش کے حالیہ انتخابات میں سینکڑوں افراد کے زکمی ہونے کےعلاوہ 62 سے زیادہ افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ملی ہے، جو اس مکارانہ نظام سیاست اور ''چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر'' کی مصداق مغربی جمہوریت کی ادنیٰ سی ''کرم فرمائی'' ہے۔ لیکن نام لیواؤں او رمریدان باصفا نے اس کے نام کے وظیفے کچھ اس کثرت سے پڑھے اور اس کے مزعومہ فوائد کا وہ ڈھنڈورا پیٹا ہے کہ بعض حاملین کتاب و سنت کو اب اسلام میں جمہوریت نظر آنے لگی ہے اور وہ کتاب و سنت سے اسکے لیے دلائل فراہم کرنے لگے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے:
''جمہوریت جبر و اکراہ کے خاتمے کا نام ہے او ریہی دراصل اسلام ہے۔''

دلیل یہ کہ:
﴿لَآ إِكْرَ‌اهَ فِى ٱلدِّينِ...﴿٢٥٦﴾...سورۃ البقرۃ'' ''اسلام میں آمریت نہیں جمہوریت ہے''

سبحان اللہ، لیکن سنت نے ہمیں یہ بھی بتلایا ہے کہ:
''من قال في القرآن برأيه فلیتبوأ مقعدہ من النار''
''جس نے قرآن کی تفسیر بالرائے کی، اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔'' العیاذ باللہ!

تمام مفسرین نے ﴿لَآ إِكْرَ‌اهَ فِى ٱلدِّينِ...﴿٢٥٦﴾...سورۃ البقرۃ'' کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ آپ کسی کافر کو زبردستی مسلمان نہیں بنا سکتے۔ کیونکہ اعتقاد کا تعلق دل سے ہے اور دل پر جبر و اکراہ نہیں ہوسکتا۔ تاہم جبر و اکراہ کی یہ نفی حلقہ اسلام میں داخل ہونے تک کے لیے ہے۔ لیکن جب کوئی شخص حلقہ اسلام میں داخل ہوجاتاہے تو اس پر ایک عظیم ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے، جس سے اگر وہ اعلانیہ فرار حاصل کرنے کی کوشش کرے تو شریعت کی نگاہ میں مرتد قرار پاتا ہے او رمرتد کی سزا اسلام میں قتل ہے۔ پھر جمہوریت کہاں گئی؟ جمہوریت میں اظہار و آزادئ رائے ہر شخص کا جمہوری حق ہے وہ چاہے جس چیز کا اقرار کرے اور چاہے تو اسلام ہی کا انکار کردے، پھر آپ اسے پوچھنے والے کون ہوتے ہیں؟ چنانچہ آپ کے نزدیک ﴿لَآ إِكْرَ‌اهَ فِى ٱلدِّينِ...﴿٢٥٦﴾...سورۃ البقرۃ'' کا اگر یہی مفہوم ہے تو پھر واقعی ''جمہوریت ہی دراصل اسلام ہے'' اس صورت میں مرتد کی سزا قتل بھی شاید اسلام میں نہ ہوگی۔ لیکن اگر یہ غلط ہے او راسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے تو پھر یہ تسلیم کیجئے کہ اسلام اسلام ہے اور جمہوریت جمہوریت! یہی بات قرآن مجید نے اس مقام پر بیان فرمائی ہے۔
﴿لَآ إِكْرَ‌اهَ فِى ٱلدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ ٱلرُّ‌شْدُ مِنَ ٱلْغَىِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ‌ بِٱلطَّـٰغُوتِ وَيُؤْمِنۢ بِٱللَّهِ فَقَدِ ٱسْتَمْسَكَ بِٱلْعُرْ‌وَةِ ٱلْوُثْقَىٰ لَا ٱنفِصَامَ لَهَا...﴿٢٥٦﴾...سورۃ البقرۃ
کہ ''دین میں (قبول کرلینے کی حد تک) جبر و اکراہ نہیں۔ بیشک ہدایت، گمراہی سے ممتاز ہوچکی ۔ چنانچہ جو کوئی طاغوت سے کفر کرے او راللہ کے ساتھ ایمان لائے تو اس نے ایک ایسی مضبوط رسی کو تھام لیا جو ٹوٹ نہیں سکتی۔''

معلوم ہوا کہ اسلام ہی ہدایت ہے او رباقی سب گمراہی۔ اور اس دین اسلام کو ماننے کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ پر ایمان لایا جائے او راسی کو اپنا حاکم تسلیم کیا جائے ۔ ان الحکم الا للہ۔ جبکہ طاغوت سے کفر کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی حاکمیت تسلیم نہ کی جائے، نہ اعتقاداً نہ عملاً۔ جمہوریت چونکہ عوام کی حاکمیت کی قائل ہے، اس لیے یہ طاغوت ہے او رہمیں مغربی جمہوریت کے اس بت کو پاش پاش کرکے خالص اسلام کو بحیثیت دین قبول کرنا ہوگا، جو ہر لحاظ سے ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جس کا اپنا ایک مخصوص مزاج ہے او رجو کسی دوسرے ازم کے ساتھ مل کر چل ہی نہیں سکتا۔ جن لوگوں کو اسلام میں آزادئ رائے سے جمہوریت اور اس کی مرکزیت سے آمریت کا واہمہ ہوا ہے وہ دراصل اسلام کو سمجھے ہی نہیں۔ اسی بات کو علامہ اقبال نے یوں بیان کیا تھا:

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؐ


دین اسلام ایک مضبوط رسی ہے اور اسلام نے گروہ بندی کو مشرکین کا شیوہ بتلایا ہے۔ جبکہ جمہوریت ایک شیطانی جال ہے اور اس کی گاڑی انتشار و افتراق کے بغیر چل ہی نہیں سکتی۔ یوں اس پوری آیت سے مروجہ جمہوریت کی نفی ہوجاتی ہے جبکہ بعض ''قائد اہلحدیث'' اہلحدیث کی ''نشاة ثانیہ'' کے لیے انہیں جمہوریت پر ایمان لانے کی دعوت دے رہے ہین ۔ جس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ع


پاسباں مل گئے کعبے سے صنم خانے کو


وإلی اللہ المشتکى!
مزید ارشاد ہوتا ہے:
''اسلام دراصل جمہوری دین ہے، سب سے زیادہ جمہوریت والا دین اسلام ہی ہے کہ جمہوریت ، آزادئ رائے، حکمرانوں کو ٹوکنے، برائیوں کو روکنے اور حق کو سرعام کہنے کا نام ہے۔''

آج تک ہم یہی سمجھتے چلے آرہے ہیں کہ اہلحدیث صرف کتاب و سنت کی بات کرتے ہیں۔ لیکن خط کشید دو جملے نہ تو کسی قرآنی آیت کا ترجمہ ہیں او رنہ ہی کسی فرمان رسول اللہ ﷺ کا۔ بایں ہمہ اگریہ مؤقف اہلحدیث کے سٹیج سے پیش کیا گیا ہے اور سننے والوں میں اہل حدیث عوام کے علاوہ اہلحدیث علماء بھی تھے، تو یہ وہ جمہوریت تو نہیں کہ ''حق کو برسر عام کہنا، حکمرانوں کو ٹوکنا اور آزادئ رائے'' جس کا نام ہے، بلکہ یہ تو وہ بدترین آمریت ہے کہ ایک غلط بات کو سن کر وہ اس کے قائل کو برسر عام ٹوک نہ سکے او ریہ تک نہ کہہ سکے کہ:
﴿إِنَّ ٱلدِّينَ عِندَ ٱللَّهِ ٱلْإِسْلَـٰمُ...﴿١٩﴾...سورۃ آل عمران) وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ‌ ٱلْإِسْلَـٰمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ...﴿٨٥﴾...سورۃ آل عمران
''دین تو اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے (اسلام او رجمہوریت کا ملغوبہ نہیں) چنانچہ جو کوئی بھی اسلام کے علاوہ (ایسا) دین ڈھونڈے تو یہ اس سے ہرگز ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔''

نیز یہ کہ:
﴿ٱلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِى وَرَ‌ضِيتُ لَكُمُ ٱلْإِسْلَـٰمَ دِينًا...﴿٣﴾...سورۃ المائدہ
''آج کے دن میں نے تمہارا دین تمہارے لیے مکمل کردیا، تم پر اپنی نعمتوں کا اتمام کردیا او رمیں نے تمہارے لیے اسلام ہی کو بطور دین پسند فرمالیا ہے۔''

اسلام بجائے خود دین کامل ہے او ریہ اپنی تکمیل میں کسی بھی دوسرے نظام کا محتاج نہیں۔ پھر آخر ''صرف اسلام'' میں آپ کو کون سی کمی نظر آئی ہے کہ آپ اسے جمہوریت کی چوکھٹ پر سجدہ ریز کئے دیتے ہیں؟ ''آزادئ رائے او رحکمرانون کو سرعام ٹوکنا، برائیوں سے روکنا'' جمہوری روایات نہیں، بلکہ ''موافقت برائے موافقت، مخالفت برائے مخالفت او رنیکی او ربدی کو اکثریت و اقلیت کے پیمانوں سے ماپنا'' جمہوریت روایات ہیں۔ جبکہ آزادئ رائے اور حکمرانوں کو ٹوکنا اسلام کی وہ درخشندہ روایات ہیں کہ جنہوں نے ایک بڑھیا کو فاروق اعظمؓ ایسے بطل جلیل کو بھی سرعام ٹوکنے کا حوصلہ عطا فرمایا تھا۔ ''کلمة حق عندسلطان جائر'' بھی جمہوری نعرہ نہیں، اسلام کا سنہری اصول ہے۔ ''وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى ٱلْخَيْرِ‌ وَيَأْمُرُ‌ونَ بِٱلْمَعْرُ‌وفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ‌...﴿١٠٤﴾...سورۃ آل عمران'' بھی قرآن کی آیت ہے، کسی مغربی مفکر کا مقولہ نہیں۔ پھر آپ نے اسلام کی ان تمام تر خوبیوں کو جمہوریت کے پلڑے میں کیوں ڈال دیا ہے؟

اسلام نے ﴿قَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِىَ ٱلشَّكُورُ‌ ﴿١٣...سورہ سبا'' کا اعلان کرکے جمہوریت سے اپنے تئیں ممتاز قرار دے دیا ہے کہ یہاں حق صرف حق ہے خواہ کہنے والا اکیلا ہی کیوں نہ ہو، او رباطل باطل ہے، خواہ کثرت ہی اس کی قائل کیوں نہ ہوجائے جبکہ جمہوریت میں دس اس لیے سچے ہیں کہ وہ تعداد میں دس ہیں اور نو اس لیے جھوٹے ہیں کہ وہ تعداد میں نو ہیں۔ پھر یہ کثرت و قلت کا فلسفہ بھی ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ اکثریت تو صرف وہ ہے، جو دس او رنو کے درمیان واقع ہے۔ باقی باہم برابر ہیں۔ یہیں سے ''منتخب نمائندگی'' کا مسئلہ بھی ''حل'' ہوجاتا ہے کہ آپ دس کے نمائندے تو ہیں، نو کے نمائندے نہیں۔ وعلیٰ ھٰذا القیاس۔ بیس ہزار کی آبادی میں سے آپ 10001 کے نمائندے تو ہیں، باقی 9999 کس سے جاکر فریاد کریں؟ خدارا بتلائیے کہ اسلام کیا اسی ظلم و ستم او رناانصافی کا نام ہے؟ حال ہی میں بنگلہ دیش میں جو کچھ ہوا ہے، کیا یہ سب اسلام کی مہربانیاں ہیں؟ اور اگر نہیں تو آپ نے اسلام کو ''جمہوری دین اور سب سے زیادہ جمہوریت والا دین'' کیونکر قرار دے دیا ہے؟

لیکن یہ شاید اہلحدیث کی ''نشاة ثانیہ'' کا تقاضا ہے کہ اہلحدیث عوام کے علاوہ اہلحدیث علماء بھی اپنے اسلاف کی ''حق کہنے او رحق سننے'' کی تابندہ روایات کو فراموش کربیٹھیں، اپنے فکر و نظر کی بلندیوں کو سیاست کی سستی شہرت کی بھینٹ چڑھا ڈالیں۔ ''قال اللہ وقال الرسول'' کے ہوتے ہوئے ائمہ دین کی بات کو حجت تسلیم نہ کرنے والے اپنے قائد کی بے دلیل بات کو مان لیں، محض روا داری کی خاطر اپنی دینی غیرت و حمیت کھو بیٹھیں اور ''محدثات الامور'' کو بدعت کہنے والے اب خالص اسلام کی بجائے اسلام+ جمہوریت کو بطور دین پیش ہوتا سنیں، لیکن مہر بلب رہیں۔ گویا اسلام اور صرف اسلام کے کافی ہونے پر اب انہیں اطمینان باقی نہیں رہا۔ کیا فرماتے ہیں علمائے شریعت اور مفتیان و حامیان دین متین کہ اگر اذان سے قبل درود و سلام پڑھنا بدعت ہے کہ یہ دین میں اضافہ ہے، تو اسلام میں پورے نظام جمہوریت کو داخل کردینے کے متعلق آپ کا فتویٰ کیا ہے؟ کیا آئندہ بھی آپ یہی مسئلہ سٹیجون پر بیان کرسکیں گے؟ اور اگر نہیں، کہ مخالفین آپ کو آڑے ہاتھوں لیں گے، تو یہ اہلحدیث کی ''نشاة ثانیہ تو نہیں، اہلحدیث کی بدترین موت ہے! لہٰذا ہم ان مدعیان قیادت سے بصد ادب و احترام یہ اپیل کریں گے کہ اگر انہیں سیاست ہی کرنا ہے تو بصد شوق کریں۔ تاہم مسلک اہلحدیث کو ان جمہوری کرمفرمائیوں سے معاف ہی رکھیں۔ کیونکہ ''نشاة ثانیہ'' کے پردے میں کم از کم آپ کے ہاتھوں اس کا قتل ہمیں منظور نہیں۔ ورنہ لوگ یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ؎

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اسی گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے


فإنا للہ وإنا إليه راجعون۔ وما علینا إلالبلاغ۔