وہ کیوں نہ مستِ بادہ و جام و سبور ہے
ہے آرزو یہی کہ آرزو رہے
میں تیرے روبرو تو میرے روبرو رہے
جب تک مرے بدن میں ذرا بھی لہو رہے
لب پر ترا ہی ذکر تری آرزو رہے
دریا ہو، کوہسار ہو، صحرا ہو، باغ ہو
ہر گام ہر جگہ ہی تیری جستجو رہے
اس کو بھلا تمہاری محبت سے واسطہ؟
جو غرق رقص و بادہ و جام و سبورہے
ہم جارہے ہیں تشنہ لب و تشنہ کام ہی
حالانکہ ایک عمر لب آب جور ہے
ہر ایک جستجو سے یہ بہتر ہے جستجو
اپنے عیوب کو جو تجھے جستجو رہے
شادی ہو یا غمی ہو فراخی کہ مفلسی
مومن کی یہ صفت ہے کہ وہ خندہ رو رہے
اترا ضرور شوق سے اپنے شباب پر
پیر ی کے وقت بھی تو اگر خوبرو رہے
جس کا یقیں نہیں ہے عذاب و ثواب پر
وہ کیوں نہ مست بادہ و جام و سبو رہے
عاجز وہ پھول زینت و اماں بنے گا کیا
جس مین کہ چار دن نہ کبھی رنگ و بو رہے
نکالتے ہیں جو بے پردہ نازنینوں کو
دکھا رہے ہیں تماشہ تماش بینوں کو