حضرت مولانا حافظ عبد الرحیم صاحبؒ (کلاچی والے)

1875ء – 1950ء

ولادت:

آپ 26؍ شوال المکرم 1292ھ (ستمبر 1875ء) میں کُلاچی ضلع ڈیرہ اسماعیل خاں میں مولوی محمد نعیم صاحب کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ایک اوسط درجے کے عالم تھے جو درس و تدریس کے علاوہ حصولِ معاش کی خاطر جلد سازی اور نقاشی کا کام کرتے تھے، ان کے جدِّ امجد حافظ محمود صاحب بھی اہلِ علم میں شمار ہوتے تھے۔

ابتدائی تعلیم:

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد صاحب سے حاصل کی، پھر مولانا صدر الدین صاحب، مولانا قاضی عبد المجید صاحب اور مولانا غلام رسول صاحب سے علمی استفادہ کیا۔ علمِ حدیث کی تحصیل آپ نے مولانا داؤد صاحب سے کی، اسی دوران میں آپ نے قرآنِ پاک بھی حفظ کر لیا۔

امرتسر میں:

تحصیل علم کے بعد آپ امرتسر تشریف لے گئے اور وہاں اخبار ''وکیل'' کے سب ایڈیٹر (مدیر معاون) مقرر ہوئے۔ 1911ء میں آپ نے مدیر معاون کی حیثیت سے 'وکیل' میں کام کیا۔ 1912ءمیں امرت سر سے لاہور آگئے اور مشہور اخبار ''زمیندار'' میں مترجم کی حیثیت سے کام کرنا شروع کر دیا۔ انہی دنوں آپ نے مولوی فاضل اور منشی فاضل کے امتحانات امتیاز کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی سے پاس کر لئے۔ اسی ملازمت کے دوران آپ کو مولانا ظفر علی خاں اور مولانا ابو الکلام آزادؔ صاحب کے ساتھ (ادارۂ زمیندار میں) کام کرنے کا موقع ملا۔ مولانا آزادؒ آپ کی استعداد، ذہانت اور محنت سے اس قدر متاثر ہوئے کہ جب انہوں نے کلکتہ سے ''الہلال'' جاری کیا تو آپ کو اس کے ادارہ میں شرکت کی خصوصی دعوت دی اور کافی اصرار کیا لیکن بعض ناگزیر وجوہات کی وجہ سے آپ اس پرخلوص دعوت کو قبول کرنے سے معذور رہے۔

پشاور میں:

1913ء میں جب ''سر سیدِ سرحد'' جناب صاحبزادہ عبد القیوم صاحب کو اسلامیہ کالچ پشاور کے عظیم کتب خانہ کی ترتیب و نگرانی کے لئے کسی موزوں شخصیت کی ضرورت محسوس ہوئی تو ان کی نگاہِ انتخاب آپ پر پڑی، چنانچہ انہوں نے پہلے ایک خط کے ذریعے اس عظیم ذمہ داری کو قبول کرنے کی دعوت دی اور بعد ازاں بذریعہ تار آپ کو بلا لیا۔ پھر یہی لائبریری جسے ''مکتبہ علوم شرقیہ دار العلوم الاسلامیہ'' پشاور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے آپ کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ آپ نے اس قدر خلوص، محنت اور جانفشانی سے اس ذخیرۂ کتب کی نگہداشت کی کہ پانچ سال کے قلیل عرصہ میں ان کتابوں کی ایک تفصیلی اور تحقیقی فہرست مرتب فرما لی جو ''لباب المعارف العلمیہ'' کے نام سے موسوم ہے۔ بلاشبہ ''لباب المعارف العلمیہ'' کو تصنیفاتِ علومِ شرقیہ اور ان کے مصنفین کے بارے میں تفصیلی اور تحقیقی معلومات موجود ہیں۔ علومِ شرقیہ پر تحقیقی کام کرنے والے ملکی و غیر ملکی اس فہرستِ کتب سے بے نیاز نہیں ہو سکتے۔ وہ حوالے (Reference) کے طور پر اس کا تذکرہ کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ کی زندگی کا یہ عظیم کارنامہ ہے۔ لیکن آپ نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس لائبریری کی ترتیب و تنظیم کے علاوہ دمِ واپسیں تک قرآن مجید، علومِ دینیہ اور عربی زبان کی بڑی خدمت کی۔ آپ نے کئی اہم عربی تصنیفات کا اردو میں ترجمہ کیا۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ترجمہ کرنے کا خصوصی ملکہ عطا فرمایا تھا۔ آپ کے تمام تراجم میں سلاست اور روانی ہے، مشکل اور دقیق مقامات کو بڑی خوبی اور مہارت سے ام فہم بنا دیتے ہیں۔

چونکہ آپ کے محبوب مصنفین حضرت امام ابنِ تیمیہؒ، علامہ ابنِ قیمؒ، حضرت شاہ ولی اللہ محدثِ دہلویؒ، حضرت مجدد الف ثانیؒ اور علامہ طنطاویؒ جوہری تھے اس لئے انہی کی اکثر کتابوں کا آپ نے ترجمہ کیا۔ تراجم کے علاوہ آپ نے عربی زبان کی ایک لغت (ڈکشنری) اور ایک عربی گرائمر بھی تصنیف فرمائی۔ عربی زبان کے نئے سیکھنے والوں کے لئے آپ نے ایک سلسلہ ''صحائفِ اربعہ'' کا تالیف فرمایا جس میں براہِ راست عربی سکھانے کی ایک کامیاب کوشش کی گئی ہے۔

تصنیفی خدمات:

1. لباب المعارف العلمیة في مکتبة دار العلوم الاسلامیہ، پشاور

2. روء الاخوان۔ یہ عربی زبان کے متداول اور کثیر الاستعمال الفاظ کی ڈکشنری (لغت) ہے۔ جس میں غرائب القرآن اور اس کے محاورات کا خصوصیت سے التزام کیا گیا ہے۔ یہ قلمی ہے اور اسلامیہ کالج کی لائبریری میں موجود ہے۔

3. میزان اللسان (عربی، قلمی) نحو کی عام فہم اور سہل کتاب۔

4. صحائفِ اربعہ۔

تراجم:

1. حجۃ اللہ البالغہ۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدثِ دہلویؒ کی شہرۂ آفاق عربی کتاب کا آپ نے رواں دواں اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ اس کے دو حصے ہیں۔ حصہ اول و دوم۔ قومی کتب خانہ لاہور نے اسے طبع کروایا ہے۔ پہلے حصے کی قیمت 18 روپے اور دوسرے کی 22 روپے ہے۔

اس سے اس کی ضخامت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ میرے ہاتھ میں اس وقت طبع دوم ہے جو 1962ء میں منصۂ شہود پر آئی۔

ترجمہ کے آغاز میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کی مختصر سوانح بھی لکھی ہے جو 69 صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔

2. مکتوباتِ امامِ ربانی کا آپ نے اردو زبان میں ترجمہ کیا ہے اور کتاب کے شروع میں امامِ ربّانی حضرت مجدّد الف ثانیؒ کی سوانح بھی لکھی ہے۔ یہ مطبوعہ ہے۔

3. مقالات و حالات سیدّ جمال الدین افغانیؒ۔ یہ بھی مطبوعہ ہے۔

4. جواھر العلوم۔ علامہ طنطاوی جوہری کی تصنیف ہے۔ اس کا آپ نے ترجمہ کیا ہے۔ قومی کتب خانہ لاہور نے اسے شائع کیا ہے۔ قیمت 50/6 ہے۔

5. جامع الآداب۔ مصر کے ایک ممتاز عالم کی شہرٔ آفاق تصنیف ''آداب الفتیٰ''' کا سلیس اور بامحاورہ ترجمہ ہے۔ اس کتاب میں ان تمام آداب کا ذِکر ہے جن سے سیرت و کردار کو سنوارنے میں مدد ملتی ہے۔ 1966ء میں قومی کتب خانہ لاہور نے اسے دوسری بار چھاپا۔ اس کے 168 صفحات ہیں۔

6. تراجم تصانیف۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ۔ ولی اللہ، فتویٰ شرک شکن، خلاف الامۃ، مناسکِ حج اور تفسیر آیت کریمہ۔ مطبوعہ الہلال بک ایجنسی شیرانوالہ گیٹ، لاہور۔

7. تراجم تصانیفِ علامہ ابن قیمؒ۔ اسلامی تصوف۔ تفسیر الموذتین۔ مطبوعہ الہلال بک ایجنسی لاہور۔

8. تراجم تصانیفِ شاہ ولی اللہؒ! خیر کثیر، البدور البازغہ، تفہیماتِ الٰہیہ، معارف الدینیہ، حق الیقین کتابستان کمپنی بمبئی میں طبع ہوئے۔

9. نجدد حجاز۔ علامہ رشید رضا مصری کی کتاب کا اردو ترجمہ ہے۔ طبع ہو چکا ہے۔

10. نثر اللاٰلی۔ حضرت علی کے اقوال کا پشتو ترجمہ ہے۔ اس کا آپ نے اردو میں بھی ترجمہ کیا تھا لیکن ہنوز طبع نہیں ہوا۔

11. اسلام اور کمیونزم۔ پروفیسر ڈاکٹر احسان اللہ خان کے ایک انگریزی مقالے کا پشتو میں ترجمہ کیا۔ یہ بھی مطبوعہ ہے۔

12. سیرت النبی (پشتو) یہ ایک عربی رسالے کا ترجمہ ہے جو کہ رسالہ ''پشتو'' کا بل میں 1932ء کے سال میں 11 قسطوں میں شائع ہوا۔ (ج 1 شمارہ 5 تا ج 2 شمارہ 4)

13. علامہ طنطاوی کی ''تفسیر الجواہر'' کا اردو میں ترجمہ شروع کر رکھا تھا اور جلد 2 تا 5 کا ترجمہ مکمل کر چکے تھے کہ زندگی نے اور مہلت نہ دی۔ یہ غیر مطبوعہ ہے اور آپ کے فرزندوں کی تحویل میں ہے۔

14. کتابستان بمبئی کے لئے ''قوتِ ارادی'' کے موضوع پر ایک انگریزی کتاب کا ترجمہ کیا۔ یہ چھپ نہ سکا۔ ان کے علاوہ مختلف مجلّات میں وقتاً فوقتاً آپ کے علمی مضامین اور تراجم اکثر شائع ہوتے رہتے تھے۔

تدریسی خدمات:

آپ 1913ء سے 1943ء تک برابر تیس سال اسلامیہ کالج پشاور میں عربی اور پشتو پڑھاتے رہے اسی دوران 1930ء میں حج بیت اللہ کی سعادت سے بھی بہرہ یاب ہوئے۔

1947ء میں دوبارہ لائبریری کی نگرانی کے لئے متعین کیے گئے اور خاص طور پر قلمی نسخوں اور نادر کتب کی نگہداشت آپ کے سپرد کی گئی۔ جون 1950ء میں اس فریضہ کی ادائیگی سے سبک دوش کر دیئے گئے۔ اسلامیہ کالج لائبریری سے فراغت پانے کے بعد، بھانہ ماڑی پشاور شہر کے صاحبزادہ فضلِ صمدانی صاحب کی دعوت پر ان کے کتب خانہ کی فہرست وغیرہ تیار کرنے کے سلسلہ میں ٹھہر گئے۔ اس علمی شغل میں مصروف تھے کہ تین دن کی مختصر سی علالت کے بعد 6 ذی الحجہ 1369ء مطابق ستمبر 1950ء کو تقریباً 11 بجے صبح خالقِ حقیقی سے جا ملے اور وصیت کے مطابق اسلامیہ کالج پشاور کے قبرسان میں دفن کئے گئے۔

آپ کی ذاتِ گرامی بہت فیض رساں تھی۔ بہتوں نے آپ سے بہت کچھ حاصل کیا اور بہت سے اب بھی آپ کی تصنیفات سے بہت کچھ حاصل کر رہے ہیں۔

آپ کی تصنیفی خدمات پر نظر ڈالیے اور پھر تدریسی خدمات کا اندازہ لگائیے۔ اس سے صاف معلوم ہو گا آپ نے کس قدر مصروف زندگی گزاری ہے۔ آپ کو مطالعہ اور تصنیف و تالیف سے حد درجہ شغف تھا۔ ان کی ایک ذاتی ڈٓئری میں لکھا ہوا ایک شعر ان کے اس میلانِ طبع کی کتنی صحیح عکاسی کرتا ہے۔ ؎

ہمارا کام کیا دُنیا سے، مکتب ہے وطن اپنا
چلیں گے جب کہ دنیا سے ورق ہوں گے کفن اپنا

تاریخِ وصال آپ کے فرزند ڈاکٹر محمد اسماعیل محمودی نے کہی:
آں بزرگِ ما بحق واصل شدہ، حقا مگر
کیفِ ما با قیست، مے ریزد کہ جامِ ما شکست 530
خستہ محمودیؔ! بگو تاریخِ وصلِ اُو کہ وائے
والدیم عبد الرحیم از عالم دنیا برفت 532
69 ھ 13

آپ علمائے اہل حدیث میں سے ایک ممتاز عالم تھے۔

اولاد:

آپ کے دو صاحبزادے مولوی محمد اسحاق صاحب اور جناب ڈاکر محمد اسماعیل محمودیؔ ہیں۔ تین صاحبزادیاں تھیں۔ جن میں سے دو اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ ایک بقیدِ حیات ہیں۔ آپ کے نواسے عالم بھی ہیں اور حافظ بھی۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور ان کی اولاد کو پورے طور پر ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق بخشے۔ آمین۔