قربانی کی مشروعیّت اور منکرینِ سُنّت کا موقف

چوہدری غلام احمد پرویزؔ کے دلائل پر تنقید و تبصرہ

اس اہم آرٹیکل کی اشاعت کے ساتھ قارئین کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ فاضل مقالہ نگار، ان دنوں علالت طبع کے باعث سول ہسپتال سرگودھا میں زیرِ علاج ہیں۔ گزشتہ دنوں موصوف پر کئی ایک بیماریوں، ذیابیطس، پھیپھڑے میں کسی فاسد مادہ کا اجتماع اور انفلوئنزا وغیرہ کا یک لخت شدید حملہ ہوا جس سے طبیعت تشویشناک حد تک بگڑ گئی تھی۔ اب اگرچہ کئی ایک تکالیف سے افاقہ ہے لیکن فاسد مادہ کی نہ تو ابھی تک تشخیص ہو سکی ہے اور نہ ہی اس کی پیدائش رُک رہی ہے جس سے صحت بحال نہیں ہو رہی۔ احباب حافظ صاحب کے لئے خصوصی دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ موصوف کو صحتِ کاملہ عاجلہ سے نوازے۔ آمین۔(ادارہ)

مشروعیّت کی سب سے بڑی دلیل:

ہم تسلیم کرتے ہیں کہ قربانی کے جانور کی عمر، ایامِ قربانی کی تحدید، وجوبِ قربانی کے لئے ضروری نصاب اور اس قسم کی بعض دوسری جزئیات میں فقہاء کے ہاں اختلاف موجود ہے لیکن نفسِ قربانی کی مشروعیّت اور اس امر پر کہ قربانی کسی خاص مقام سے مخصوص نہیں۔ تمام دنیائے اسلام کا اتفاق اور پوری اُمّت کا اجماع ہے۔ قرآن مجید میں اختصار اور احادیثِ نبویہ میں پوری وضاحت سے اس کا تذکرہ اور تفصیلات موجود ہیں اور ملّتِ اسلامیہ کا متواتر عمل اس کی مشرعیّت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ عہدِ نبوت سے آج تک ہر نسل کے بعد دوسری نسل پورے یقین و اذعان کے ساتھ اس پر عمل پیرا رہی ہے۔ ہر عہد کے لاکھوں کروڑوں مسلمانوں نے اپنے اسلاف سے یہ طریقہ اخذ کیا اور آنے والی پشت کے کروڑوں افراد تک پہنچایا۔ اگر تاریخِ اسلام کے کسی دور میں اسے از خود ایجاد کر کے دین میں شامل کیا گیا ہوتا تو ناممکن بلکہ محال اور قطعی محال تھا کہ امت اس بالاتفاق قبول کر لیتی۔ عقل اس امر کو قبول کرنے سے قطعاً انکاری ہے کہ ایک ''بدعت'' کو جزوِ دین بنا کر اس کی مشرعیت پر سینکڑوں احادیث ضع کر لی جائیں اور پوری امت آنکھیں بند کیے بیٹھی رہے۔

اس کے برعکس ہماری تاریخ میں ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں کہ دین میں ادنیٰ سے ادنیٰ اضافہ گوارا نہ کیا گیا بلکہ اس کے خلاف نہایت شدت سے صدائے احتجاج بلند ہوئی حتیٰ کہ قید و بند کی سختی اور دار و رسن کی آزمائش بھی اس میں سدِّ راہ نہ ہو سکی۔ ان حالات میں اگر اس تواترِ عملی کو نظر انداز کر دیا جائے تو پھر بتایا جائے کہ آخر تاریخ کا معیار کیا ہے؟ اور وہ کونسا اسلوب تحقیق ہے جسے اختیار کیا جائے اور اس کی روشنی میں تاریخ کی جانچ پڑتال کی جائے؟

علم اسماء الرجال کی وسعت:

ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ خلافتِ راشدہ کے بعد دورِ امویہ اور عہدِ عباسیہ میں متعدد احادیث وضع کی گئیں اور بعد کے زمانے میں کئی ایک بدعات کو داخلِ اسلام کرنے کی ناروا جسارت کی گئی۔ لیکن ہم انتہائی خوش قسمت ہیں کہ محدثینِ کرامؒ نے اپنی کڑی اور بے لاگ تنقید سے ان تمام مساعی کو ناکام بنا دیا اور سرورِ کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عمل و ارشادات کو کذب و بناوٹ اور ترمیم و اضافہ سے محفوظ رکھنے کے لئے رجال و اسانید کے دفاتر مرتب کر ڈالے اور جرح و تعدیل کے وہ متوازن اور فطری قواعد ترتیب دیئے کہ دودھ اور پانی الگ کر دکھایا۔ انتہا یہ کہ اس اہم مقصد کے لئے لاکھوں ناقلین کی امانت و دیانت، تقویٰ و طہارت، ثقاہت و نقاہت کے علاوہ ان کے مرگ و حیات اور تعلیم و تعلم کی تفصیلات اور تلامذہ و اساتذہ کے تمام سلاسل کو مدون اور منضبط کر ڈالا اور یہ سب کچھ محض اس لئے ہوا کہ قرآن اور صاحبِ قرآن ﷺ کی طرف کوئی غلط بات منسوب نہ ہو سکے اور دین اپنی اصل صورت میں محفوظ رہے۔

علمائے سلف کی مساعی:

علمائے سلف کی انہی مساعیٔ جمیلہ کا ثمرہ ہے کہ آج بھی قرآن کی تلاوت اور حدیث کا مطالعہ کرتے ہوئے نہ تو بُعدِ زمانی محسوس ہوتا ہے اور نہ ہی اس چشمۂ صافی میں کسی تکدّر کا احساس ہتا ہے بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ قرآن مجید اپنی تمام رعنائی اور عین موقع کی مناسبت سے ہمارے سامنے نازل ہو رہا ہے اور احادیثِ نبویہ ہم خود رسولِ پاک ﷺ کی زبانِ مبارک سے سن رہے ہیں اور ہمارے اسلاف کی یہی علمی اور تحقیقی مساعی ہیں کہ آج محققینِ یورپ ہمیں رشک بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور ہمارے محدثینِ کرامؒ کی مثالی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کر ر ہے ہیں۔

نادانی کی انتہاء:

لیکن افسوس کہ آج نام نہاد مسلمانوں کا ایک گروہ اس سرمایۂ ناز و افتخار کو ظنون و اوہام کا پلندہ خیال کرتا ہے اور حدیث و سنت کے تمام ذخائر کو عجمی سازش قرار دیتے ہوے اسے اسلام کے حسین چہرہ پر بدنما داغ سے تعبیر کرتا ہے۔ ہمارے خیال میں یہ اندازِ فکر اسلامی ثقافت اور اپنے فکری، علمی اور تاریخی سرمایہ کو اپنے ہاتھوں تباہ کرنے کے مترادف ہے۔

اس عقل و ذہن اور اس قماش کے لوگ اپنی نادانی اور جہالت کے باعث اس امر پر ادھار رکھائے بیٹھے ہیں کہ اسلامی لٹریچر کے تمام ذخائر کو غیر یقینی ثابت کریں اور وہ اعمال جو عبادت کی حیثیت میں ڈیڑھ ہزار سال سے معمول آرہے ہیں انہیں غیر اسلامی بلکہ دورِ جاہلیت کی یادگار قرار دیں۔ انہیں اس قسم کے خیالات کے اظہار میں ذرّہ بھر جھجک محسوس نہیں ہوتی کہ ان کی اس رائے کو تسلیم کر لینے کے لازمی نتائج کیا ہوں گے اور اس کو مان لینے کے بعد صحابہ کرام، تابعین عظام، محدثین، فقہا اور دیگر اسلاف کی نسبت ہمیں کیا اعتقاد رکھنا ہو گا؟

اسلامی نظام پر بے اعتمادی:

ہمارے ملک میں اس گروہ کے سرغنہ مسٹر غلام احمد پرویز ہیں۔ انہوں نے ''ادارہ طلوعِ اسلام'' کے نام سے ہم خیال حضرات کو اپنے گرد جمع کر رکھا ہے اور انہی مسائل پر مشتمل لٹریچر شائع کرنے میں مصروف ہیں۔ آگے بڑھنے سے پیشتر ہم آپ کو مسٹر پرویز کے خیالات کی ایک جھلک دکھانا ضروری خیال کرتے ہیں۔

پرویزؔ صاحب اپنے ایک مضمون میں قربانی کو غیر اسلامی رسم ثابت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

''یہاں قدرتی طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اس قربانی کے لئے کوئی حکم اور کوئی سند موجود نہیں تو ہزار برس سے یہ کس طرح متواتر چلی آرہی ہے اور اس کے خلاف کسی نے آواز کیوں نہ اُٹھائی؟ یہ سوال بہت اہم ہے اور اس کا جواب اس وقت ملے گا جب کوئی مردِ حق گو اسلام کی تاریخ لکھے گا۔ اس لئے کہ یہ سوال ایک قربانی تک ہی محدود نہیں یہ تو پورے کے پورے اسلامی نظام کو محیط ہے۔ وہ دین جو محمد رسول اللہ ﷺ نے دنیا تک پہنچایا تھا اس کا کونسا گوشہ اور کونسا شعبہ ایسا ہے جس میں تحریف نہیں ہو چکی۔''

چند اقتباسات:

اس سے قبل کہ ہم قربانی کی شرعی حیثیت واضح کریں اور ان حضرات کے موقف کو زیر بحث لائیں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پرویز صاحب کے خیالات کو ان کے اصل الفاظ میں پیش کر دیں:

1. ''حضرت خلیل اکبر اور حضرت اسماعیل کے تذکارِ جلیلہ کے ضمن میں قرآن نے یہ کہیں نہیں کہا کہ اس واقعہ عظیمہ کی یاد میں جانوروں کو ذبح کیا کرو۔ حتیٰ کہ حضرت اسماعیل کی جگہ مینڈھا ذبح کرنے کا واقعہ بھی قرآن میں نہیں تورات میں ہے۔'' (قرآنی فیصلے ص 54)

2. ''ساری دنیا میں اپنے طور پر قربانیاں ایک رسم ہیں اسی طرح حاجیوں کی وہ قربانیاں جو وہ آج کل کرتے ہیں۔ محض ایک رسم کی تکمیل رہ گئی ہے۔'' (ایضاً ص 56)

3. ''قرآن کریم میں جانور ذبح کرنے کا ذِکر (نہیں صاحب حکم؟) حج کے ضمن میں آیا ہے۔ عرفات کے میدان میں جب یہ تمام نمایندگانِ ملّت ایک لائحہ عمل طے کر لیں گے تو اس کے بعد منیٰ کے مقام پر دو تین دن تک ان کا اجتماع رہے گا۔ جہاں یہ باہمی بحث و تمحیص سے اس پروگرام کی تفصیلات طے کریں گے۔ ان مذاکرات کے ساتھ باہمی ضیافتیں بھی ہوں گی، آج صبح پاکستان والوں کے ہاں! شام کو اہل افغانستان کے ہاں! اگلی صبح اہل شام کی طرف سے (وقس علٰی ذٰلک) ان دعوتوں میں مقامی لوگ بھی شامل کر لیے جائیں گے، امیر بھی اور غریب بھی! اس مقصد کے لئے جو جانور ذبح کیے جائیں گے، قربانی کے جانور کہلائیں گے۔ چونکہ اس اجتماع کا مقصد نہایت بلند اور خالصۃً لوجہ اللہ ہے اس لئے پروگرام کی ہر کڑی خدا کے قریب تر لانے کا ذریعہ ہے۔ یہ ہے قربانی کی اصل! اس لئے قرآن نے صراحت فرمائی ہے کہ قربانی کے جانوروں کی منزل مقصود بیت اللہ ہے، ﴿ثُمَّ مَحِلُّها إِلَى البَيتِ العَتيقِ ﴿٣٣﴾... سورة الحج

4. ''تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ خود رسول اللہ نے بھی مدینہ میں قربانی نہیں دی۔ حج 9 ؁ھ میں فرض ہوا۔ حضور اس سال خود تشریف نہیں لے گئے لیکن اپنی طرف سے کچھ جانور امیرِ کارواں حضرت ابو بکر صدیق کے ساتھ کر دیئے کہ وہاں مصرف میں لائے جائیں۔ اگلے سال خود حضور حج کے لئے تشریف لے گئے اور وہیں جانور ذبح کئے لہٰذا ہر جگہ قربانی دینا نہ حکمِ خداوندی ہے نہ سنتِ ابراہیمی اور سنتِ محمدیﷺ'' (ص 65)

5. ''حضرت ابراہیم کے متعلق قرآن میں ہے کہ آپ نے خواب میں دیکھا کہ آپ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں۔ آپ نے سمجھا کہ یہ اشارہ غیبی ہے اس لئے اس کی تعمیل ضروری ہے۔ بیٹے سے ذکر کیا تو اس نے بھی کہا کہ اگر یہ حکم ہے تو اس کی تعمیل میں قطعاً تامل نہ کیجئے۔ میں ذبح ہونے کو تیار ہوں۔ آپ نے بیٹے کو لٹا دیا۔ اس کے گلے پر چھری رکھ دی تو اللہ نے پکارا کہ اے ابراہیم! تم نے خواب کو حکم خداوندی پر محمول کر کے اس کی پوری تعمیل کر دی۔ اس لئے ظاہر ہے، اگر تمہیں بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لئے بھی حکم دیا گیا تو تم اسے بلا تامل پورا کرو گے۔ یقیناً باپ اور بیٹا دونں اطاعت و تسلیم کے بلند ترین مقام پر فائز ہو۔ اس بیٹے کو اللہ تعالیٰ نے کعبہ کی تولیت کے لئے منتخب کر لیا۔ قرآن میں بس اتنا ہی واقعہ ہے۔ تورات میں البتہ یہ بھی ہے کہ جبریل نے جنت سے ایک مینڈھا لا کر بیٹے کی جگہ لٹا دیا اور چھری بیٹے کی جگہ مینڈھے پر چل گئی۔ لیکن یہ تو اسرائیلی انسانوں میں سے ایک فسانہ ہے۔ قرآن اس کی تائید نہیں کرتا۔'' (ص 65، 64)

6. مذہبی رسومات کی ان دیمک خوردہ لکڑیوں کو قائم رکھنے کے لئے طرح طرح کے سہارے دیئے جاتے ہیں۔ کہیں قربانی کو سنتِ ابراہیمی قرار دیا جاتا ہے کہیں اسے تقرب الٰہی کا ذریعہ بتایا جاتا ہے کہیں دوزخ سے محفوظ گزر جانے کی سواری بنا کر دکھایا جاتا ہے۔'' (ص 64)

معذرت:

ہم قارئین سے معذرت خواہ ہیں کہ تقاضائے اختصار کے باوجود ہم نے پرویزؔ صاحب کے اقتباسات نقل کرنے میں تفصیل سے کام لیا۔ ہمارے خیال میں یہ تفصیل ناگزیر تھی۔ اس کے بغیر بات کو آگے چلانا مناسب نہیں تھا ویسے بھی تنقید و تبصرہ کے لئے ضروری ہے کہ فریقِ ثانی کے خیالات کے اظہار میں بخل و اختصار سے کام نہ لیا جائے بلکہ حریف کے نظریات کو بسط اور وضاحت کے ساتھ مخاطب کے سامنے رکھ دیا جائے تاکہ اسے ردّ و بدل اور ترمیم و تحریف کا گلہ نہ رہے۔

تنقیدی گزارشات:

اب ذرا پرویزؔ صاحب کے ارشادات پر تنقیدی نگاہ ڈالیے اور انصاف کیجئے کہ بات کہاں سے کہاں پہنچ رہی ہے؟ انہوں نے فقرہ نمبر 1 میں حضرت ابراہیم کی طرف سے حضرت اسماعیل کی قربانی پر آمادگی کو ''واقعہ عظیمہ'' سے تعبیر فرمایا ہے۔ حالانکہ ان کی رائے میں خداوندِ قدوس نے بیٹے کو ذبح کرنے کا کوئی حکم دیا ہی نہ تھا۔ خواب میں جو کچھ کہا گیا تھا جناب ابراہیم اس کا مطلب سمجھنے سے قاصر رہے اور مجاز کو حقیقت سمجھ بیٹھے۔ چنانچہ پرویزؔ صاحب اپنی ایک دوسری کتاب ''جوئے نور'' میں لکھتے ہیں:

''آپ (حضرت ابراہیم) خواب کے ایک اشارے سے یہ سمجھے کہ حکم ملا ہے کہ بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کر دیا جائے۔ ہر چند یہ حکم نہ تھا۔ محض خواب میں ایسا دیکھا تھا لیکن انہوں نے اس کو کچھ ''اوپر کا اشارہ'' سمجھ لیا اور ایسی تحیر انگیز اور ہوش ربا قربانی کے لئے تیار ہو گئے۔ بیٹے سے پوچھا، کہو تمہارا کیا خیال ہے؟ اب بیٹے کا جواب بھی سن لیجئے۔ عرض کیا﴿يـٰأَبَتِ افعَل ما تُؤمَرُ‌ ۖ سَتَجِدُنى إِن شاءَ اللَّهُ مِنَ الصّـٰبِر‌ينَ ﴿١٠٢﴾... سورة الصافات" ابا جان! جس بات کا اشارہ آپ کو ملا ہے اسے بلا تامّل کر گزریے۔ ان شاء اللہ آپ مجھے ثابت قدم پائیں گے۔'' (ص 150، 155)

''حضرت ابراہیم کو اس قربانی کا حکم نہ دیا گیا تھا انہوں نے خواب میں دیکھا کہ وہ بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں۔ اپنی محبت اور شیفتگی کے جوش میں خواب کو حقیقت سمجھ بیٹھے اور بیٹے کی قربانی کے لئے آمادہ ہو گئے لیکن جس وقت انہوں نے چھری ہاتھ میں لے لی تو اس وقت آپ کو بتایا گیا کہ خواب کے مجاز کی حقیقت کیا تھی۔'' (ص 155، 156)

غور فرمائیے!

غور فرمائیے کہ جب ذبح کا حکم ہی نہ ہوا تھا بلکہ خلیل اللہ نے منشاء الٰہی سمجھنے میں غلطی کی تھی تو اس پر تحسین و مرحبا کا کیا مطلب؟ یہاں تو یہ چاہئے تھا کہ فوری طور پر حضرت ابراہیم کی اجتہادی غلطی پر توجہ دلائی جاتی اور انہیں اپنے الہام کے اصل منشاء پر اطلاع دی جاتی۔ مزید غور فرمائیے کہ حضرت اسماعیل تو﴿يـٰأَبَتِ افعَل ما تُؤمَرُ‌﴾ کے الفاظ میں والد محترم کے خواب میں دیکھے نظارے کو امرِ الٰہی سے تعبیر فرما رہے ہیں لیکن پرویزؔ صاحب قرآنی الفاظ کے برعکس کس دیدہ دلیری سے کہہ رہے ہیں کہ:

''حضرت ابراہیم کو اس قربانی کا حکم نہ دیا گیا تھا۔''

قرآن دانی کا ماتم:

پھر ان کا کمال اور ہاتھ کی صفائی ملاحظہ فرمائیے کہ اسماعیلی الفاظ﴿افعَل ما تُؤمَرُ‌﴾ کا ترجمہ ان الفاظ ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ:

''ابا جان! جس بات کا اشارہ آپ کو ملا ہے اسے بلا تامل کر گزرئیے۔''

ہم پرویز صاحب اور ان کے عقیدت مندوں سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ﴿تُؤمَرُ‌﴾ کا معنی ''اشارہ ملا'' کس لغت میں لکھا ہے؟ اگر آپ کو اپنے ترجمہ پر اصرار ہے تو لغتِ عرب سے ثبوت دیجئے اور اگر اس لفظ ﴿تُؤمَرُ‌﴾ کا مادہ امر ہے تو ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم آپ کی قرآن دانی کا ماتم کریں، آپ کو مفسرِ قرآن کی بجائے محرّفِ قرآن تصور کریں اور آپ کے طبع زاد ''معارف القرآن'' کو پرکاہ کے برابر بھی وقعت نہ دیں۔

ہاں یہ بھی فرمائیے کہ آپ کے پاس اپنے اس دعویٰ پر کیا دلیل ہے کہ اس خواب کے مجاز کی حقیقت کچھ اور تھی۔ پھر آپ نے فقرہ نمبر 5 میں ان الفاظ کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ:

''اگر یہ حکم ہے تو اس کی تعمیل میں قطعاً تامل نہ کیجئے۔''

براہِ نوازش فرمائیے کہ ''اگر یہ حکم ہے'' قرآن مجید کے کن الفاظ کا ترجمہ ہے۔ ہاں یہ بھی بتا دیجئے کہ آپ کو لغت عرب سے آزاد ترجمہ کرنے کا حق کس نے دیا ہے؟ اور آپ کس برتے پر مفسرینِ قرآن اور محدّثینِ عظام کے منہ آرہے ہیں۔

پھر آپ نے انہی آیات کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

''اس بیٹے کو اللہ تعالیٰ نے کعبہ کی تولیت کے لئے منتخب کر لیا۔'' (فقرہ نمبر 5)

محترم! یہ فقرہ کن الفاظ کا ترجمہ اور کونسی آیت کا مفہوم ہے؟ قرآن کریم کے بیان کے مطابق تو اس وقت کعبہ کا نام و نشان بھی نہ تھا اور حضرت ابراہیم کو بنائے کعبہ کا حکم ہی اس واقعہ کے کافی عرصہ بعد ہوا۔

چلتے چلتے یہ بھی فرما دیجئے کہ آپ کا یہ فقرہ کہ:

''اللہ نے پکارا اے ابراہیم! تم نے خواب کو حکمِ خداوندی پر محمول کر کے اس کی پوری تعمیل کر دی۔'' کن الفاظ کا ترجمہ ہے؟

ذبحِ عظیم سے مراد؟

پھر آپ نے لکھا ہے کہ:

''حضرت اسماعیل کی جگہ مینڈھا کرنے کا واقعہ بھی قرآن میں نہیں توراۃ میں ہے۔''

براہِ مہربانی اتنا تو بتا دیجئے کہ﴿وَفَدَينـٰهُ بِذِبحٍ عَظيمٍ ١٠٧﴾... سورة الصافات" کا مطلب کیا ہے؟ لیکن اس کا ترجمہ اور مفہوم بیان کرتے ہوئے ذرا قواعدِ عرب کا احترام رہے۔

پھر آپ نے یہ بھی کہا ہے کہ:

''قرآن نے یہ کہیں نہیں کہا کہ اس واقعہ عظیمہ کی یاد میں جانور ذبح کیا کرو۔''

پرویز صاحب! ہم آپ کی خدمت میں خود آپ کی کتاب ''جوئے نور'' سے ان آیات کا ترجمہ پیش کرنا کافی سمجھتے ہیں:

''اور دیکھو ہم نے ایک بہت بڑی قرانی کے عوض اسماعیل کو ذبح ہونے سے بچا لیا اور ہم نے بعد کو آنے والی نسلوں کے لئے اس واقعہ کی یاد کو باقی رکھا۔'' (ص 156)

جنابِ من! یہی وہ نکتہ ہے جو آنحضرت ﷺ نے قربانی کی حقیقت دریافت کرنے پر بیان فرمایا۔ پوچھنے والوں نے پوچھا ما ھذہ الا ضاحی یا رسول اللہ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ:

سنة ابیکم ابراھیم۔ یہ تمہارے جدِّ اعلیٰ حضرات ابراہیمؑ کی سنت و یادگار ہے۔

ہم حیران ہیں کہ جو شخص قرآن مجید کے ایک ہی مقام کے ترجمہ میں اس قدر غلطیاں اور اس کی تشریح میں اس قدر ہیرا پھیری کرتا ہے اس کے ''عقیدت مند'' آخر کس بنا پر اسے دورِ حاضر کا عظیم انسان اور قرآنی علوم و معارف کا بہترین ترجمان کہتے ہیں؟

ائمۂ تفسیر قرآن مجید کا مفہوم متعین کرنے میں قرآنی تصریحات، فرامینِ نبویﷺ، آثارِ صحابہؓ اور لغاتِ عرب سے استمداد کرتے ہیں۔ لیکن پرویزؔ صاحب مفسرین سلف سے ناراض ہیں کہ انہوں نے کتابِ الٰہی کو چیستان بنا دیا ہے لیکن خدا جانے ان کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ جملہ قرآنی علوم اور قواعدِ عرب سے بے نیاز ''معارف'' کے نام پر جو چاہیں کہتے چلے جائیں اور ان کو توجہ دلانے والا گردن زونی قرار پائے۔

بین الاقوامی ضیافت:

پرویزؔ صاحب نے فقرہ نمبر ۳ میں حجاج کی قربانی کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

''قربانی کا اصل مقصد یہ ہے کہ میدانِ عرفات میں طے شدہ لائحہ عمل کی تفصیلات مرتب کرنے کے لئے جب حجاج کا بین الاقوامی اجتماع دو تین دن تک منیٰ میں رہے گا تو ان مذاکرات کے ساتھ باہمی ضیافتیں بھی ہوں گی۔ آج صبح پاکستان والوں کے ہاں، شام کو اہلِ افغانستان کے ہاں، اگلی صبح اہلِ شام کی طرف۔'' وغیرہ وغیرہ۔

قرآنِ مجید نے تو قیامِ عرفات وغیرہ کا مقصد ذکرِ الٰہی، استغفار، دعا و مناجات اور شعائر اللہ کی تعظیم بیان فرمایا ہے لیکن مسٹر پرویزؔ ہیں کہ میدانِ عرفات میں اجتماع کے اصل پروگرام کی نشاندہی ان الفاظ میں فرماتے ہیں کہ ''وہاں یہ تمام نمائندگانِ ملّت ایک لائحہ عمل مرتب کریں گے پھر اس کی تفصیلات طے کرنے کے لئے ان تمام نمائندگان کو دو تین دن کے لئے عرفات سے منیٰ میں لاتے ہیں۔ خدا جانے یہ تفصیلات عرفات میں طے کیوں نہیں ہوتیں؟ پھر یہ صاحب حجاج کو نمائندگانِ ملت قرار دیتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ یہ حضرات ملّت کے نمائندہ کس حیثیت سے ہوتے ہیں اور انہیں سندِ نمائندگی کون دیتا ہے؟ ہم کم علم تو اتنا ہی جانتے ہیں کہ قرآنی الفاظ میں حج مالی اور بدنی لحاظ سے ہر صاحبِ استطاعت پر فرض ہے۔ کیا ملّت کی نمائندگی کے لئے یہی اوصاف کافی ہیں؟ ہم اس نظامِ ربوبیت اور اسلامی معاشرہ کے قیام کے داعی سے یہ بھی پوچھنا چاہتے ہیں کہ ملّت کے لئے لائحہ عمل اور اس کی تفصیلات طے کرنا قرآنی الفاظ میں اولی الامر اور صاحبانِ استنباط حضرات کا کام ہے یا عرفات اور منیٰ جیسے میدانوں میں لاکھوں افراد کا؟ اسی طرح ہماری دانست میں قربانی کے گوشت کا مصرف خود قرآن مجید نے ﴿فَكُلوا مِنها وَأَطعِمُوا القانِعَ وَالمُعتَرَّ‌...٣٦﴾... سورة الحج" کے الفاظ میں بتا دیا ہے۔ ہم مسٹر پرویزؔ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ بین الاقوامی ضیافت والی آیت کی نشان دہی فرمائیں۔

ان ضمنی گزارشات کے بعد ہم بین الاقوامی ضیافت کے پرویزی تور پر تنقید کرتے ہیں۔ پرویزؔ صاحب نے اپنے ایک مضمون میں اس اعتراض (کہ جب قربانی کے لئے کوئی حکم اور کوئی سند موجود نہیں تو ہزار برس سے یہ کس طرح متواتر چلی آرہی ہے اور اس کے خلاف کسی نے آواز کیوں نہ اُٹھائی) کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

دَورِ حریّت کے بعد ملوکیّت:

''اسلام دنیا سے ملوکیت اور پیشوائیت (ملائیت) مٹانے کے لئے آیا تھا وہ ابنِ آدم کو ذہنی اور روحانی دونوں حیثیتوں سے صرف خدا کا مملوک بنانا چاہتا تھا جو در حقیقت اس کی اپنی فطرتِ صالحہ کی محکومی کا دوسرا نام ہے لیکن جب اس دورِ حریّت کے بعد ملوکیت نے سر نکالا تو اس کے ساتھ ہی پیشوائیت کی وہ روح بھی ابھری جسے قرآن نے مسل کر رکھ دیا تھا۔ اسلام اس طرح جگمگا کر دنیا کے سامنے آیا تھا کہ اسے یک لخت نگاہوں سے اوجھل کر دینا ممکن نہ تھا۔ ملوکیت کی ابلیسانہ سیہ کاریوں نے اس کے لئے تلبیس کا دامِ ہمرنگِ زمیں وضع کیا۔ اسلام کے خارجی مظاہر کو بالکل اسی طرح رہنے دیا۔ لیکن ان میں سے روح پوری طرح کھینچ لی۔ اسی غرض کے لئے اسی پیشوائیت سے سمجھوتہ کرنا پڑا۔'' (مجموعہ مضامین ص 66، 67)

پرویزی تشخیص:

اس کے بعد پرویزؔ صاحب فرماتے ہیں کہ:

''پیشوائیت نے ملوکیت کے استحکام کے لئے دین و دنیا کی تفریق کا مسئلہ ایجاد کیا۔ پھر یہ اصول وضع کیا کہ مذہب عقل سے بے نیاز ہے۔ پھر ان غلط نظریات کو مدلل کرنے کے لئے کہا کہ قرآن کا صحیح مفہوم وہ ہے جو رسول اللہ متعین فرمائیں۔ پھر اس مقصد کے لئے احادیث وضع کی گئیں۔ پھر چونکہ من گھڑت حدیثیں قرآن کے خلاف تھیں اس لئے بے شمار آیات کو منسوخ قرار دیا گیا اور یہ عقیدہ پیدا کر لیا گیا کہ حدیث قرآن کی ناسخ ہے۔ پھر قرآن و حدیث دونوں کو فقہ کے تابع کر دیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد یہ حالت ہو گئی کہ ان رسوم و عقائد کو حق و صداقت کا مسلک ثابت کرنے کے لئے کسی کاوش و کاہش کی ضرورت ہی باقی نہ رہی۔ اسی طرح یہ تمام چیزیں ہی باقی نہ رہی کہ یہ چیزیں ہزار برس سے اُمّت میں متواتر چلی آرہی ہیں کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ساری کی ساری امت غلط راہوں پر چلی آرہی ہو۔'' (ص 70)

لازمی نتائج:

پرویزؔ صاحب کے ان خیالات کو صحیح باور کر لینے سے ہمیں آج اسلامی تاریخ، حدیث کے دفاتر، تفاسیر کے خزائن، فقہ کے ذخائر اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے تمام سرمایہ سے فی الفور دست بردار ہونا پڑے گا اور تسلیم کرنا ہو گا کہ ہمارے تمام اسلاف جھوٹے، اپنے پیغمبر کے نام جھوٹ گھڑنے والے اور شاہی درباروں کے حاشیہ نشیں تھے اور انہیں بادشاہوں کو خوش کرنے کے لئے خدا اور اس کے رسول پر جھوٹ بولنے میں کوئی عار نہ تھی۔ (نعوذ باللہ من حذہ الھفوات)

بہرحال پرویزؔ احب نے اتنا تو مان لیا کہ دین میں یہ ترمیم و تحریف دورِ حریّت (خلافت راشدہ) کے بعد دورِ ملوکیت (عہد بنی امیہ و بنی عباس) میں شروع ہوئی۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ دورِ ملوکیت سے پہلے دین اپنی اصلی روح کے ساتھ موجود اور پیشوائیت کی تمام آلائش سے پاک اور صاف تھا۔

ایک مطالبہ:

ہم ان کے ان مسلمات کی روشنی میں ان سے سوال کرنا چاہتے ہیں کہ کیا وہ اس امر کا کوئی ثبوت پیش کر سکتے ہیں کہ خلفائے راشدین کے دور میں قربانی بین الاقوامی ضیافت کے لئے استعمال ہوتی تھی اور تاریخ سے اس کی شہادت دے سکتے ہیں کہ اسلام کے دورِ حریّت میں اس قسم کی ضیافت کا تصور بھی موجود تھا؟ اور قیام منیٰ کے ایام میں بصرہ، کوفہ اور شام وغیرہ کے حجاج نے دوسرے ممالک کے حجاج اور مقامی لوگوں کی اِس اونچی سطح پر دعوت کی ہو؟ ہاں یہ بھی فرمائیے کہ قرآن مجید میں اس بین الاقوامی ضیافت بلکہ ''منیٰ'' میں قیام کا ذِکر کہاں ہے؟ یا لگے ہاتھ یہ کہہ دیجئے کہ قرآن مجید بھی تحریف و ترمیم سے محفوظ نہیں رہا اور خدا تعالیٰ کا وعدہ حفاظت تشنۂ وفا رہ گیا اور اس کی مخلوق اس کے ارادہ میں حائل ہو گئی۔

نا معلوم ان لوگوں کو بے ثبوت اور غیر ذمہ دارانہ باتیں کہتے ہوئے حیا کیوں نہیں آتی؟ ہمیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ قدرت ان سے انکارِ حدیث کے جرم کا انتقام لے رہی ہے اور اس گناہ کی پاداش میں ان کا تعلق کتاب اللہ سے منقطع ہو رہا ہے۔

موجودہ دور میں حجاج کی قربانی:

پرویزؔ صاحب نے فقرہ نمبر ۲ میں جس طرح عام دنیائے اسلام کی قربانیوں کو رسم کہا۔ اسی طرح موجودہ دور میں مکہ مکرمہ میں حجاج کی قربانی کو بھی ''محض ایک رسم کی تکمیل'' قرار دیا ہے۔ اس سے ان کا منشاء غالباً یہ ہے کہ مراسمِ حج میں قربانی مقصود بالذات نہ تھی اور نہ ہی براہِ راست تقربِ الٰہی کا وسیلہ، بلکہ اس سے اصل غرض بین الاقوامی ہی تھی چونکہ آج کل اس ضیافت کا اہتمام نہیں ہو رہا۔ اس لئے مکہ مکرمہ میں حجاج کی قربانی بھی غیر ضروری اور محض ایک رسم کی تکمیل ہے۔ ہمیں خطرہ ہے کہ کل کو یہی صاحب یہ کہیں گے کہ حج کا اصل مقصد نمائندگانِ ملت کا بین الاقوامی اجتماع اور پوری امتِ مسلمہ کے لئے لائحہ عمل مرتب کرنا تھا جو اس دور میں نہیں ہو رہا۔ لہٰذا آج کا حج بے مقصد اور محض ایک رسم کی تکمیل ہے۔

بہرحال ہم گذشتہ پیرا گراف میں ان کی بنیاد یعنی بین الاقوامی ضیافت کے نظریہ کو ان کے مسلمات کی روشنی میں غلط ثابت کر آئے ہیں۔ لہٰذا اس فقرہ پر مزید بحث کی ضرورت نہیں اور اگر اس سے ان کی مراد صرف یہ ہے کہ آج ہمارے اعمال میں اخلاص کا جوہر کم ہو گیا ہے تو ہم ان کی تصدیق کرتے ہیں لیکن عدمِ اخلاص یا قلتِ اخلاص کے سبب احکامِ قطعیہ اور اعمال ثابتہ کا انکارِ عقلِ سلیم اور نقل صحیح کے خلاف ہے۔

پرویز کا اپنا اعتراف:

مندرجہ بالا تصریحات کے برعکس پرویزؔ صاحب نے فقرہ نمبر ۴ میں جو کہا ہے اس کا بدیہی نتیجہ یہ ہے کہ غیر حاجی بھی قربانی کر سکتا ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ جب حج کے لئے مکہ نہ جا سکے تو بھی آپ نے قربانی بھیجی ہے۔ پرویز صاحبؔ کے اس اعتراف کے بعد ہمارا اور ان کا اختلاف کافی گھٹ گیا ہے۔ پہلے تو وہ قربانی کی اجازت صرف حجاج کو دیتے تھے لیکن اس بیان میں انہوں نے قربانی کو حجاج کی بجائے مکہ مکرمہ سے مخصوص کر دیا ہے۔ ہم ان سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر ہم آج رسول کے اتباع میں قربانی کے جانور کعبۃ اللہ بھیج دیں تو آپ ناراض تو نہ ہوں گے؟ اور اگر آپ خود بھی ایسا کر سکیں تو ہم آپ کو منکرِ قربانی کہنا چھوڑ دیں گے۔ خدا کرے کہ آپ اس بیان پر قائم رہیں۔

اب ہمارا اور ان کا جھگڑا صرف اتنا ہے کہ جو مسلمان کسی شرعی عذر کے سبب حج کے لئے مکہ مکرمہ نہ جا سکے وہ اپنے وطن میں قربانی کر سکتا ہے یا نہیں؟ اس سلسلہ میں ہم ان سے وضاحت چاہتے ہیں کہ ان کے اس فقرہ میں تاریخ سے کیا مراد ہے؟ اگر کتب حدیث اس میں شامل ہیں تو پھر ان میں آنحضرت ﷺ کا مدینہ منورہ میں قربانی کرنا اور صحابہ کرامؓ کو اس کے لئے حکم دینا پوری تفصیل سے موجود ہے۔ بلکہ قربانی کے ایام، قربانی کے جانور، قربانی کا ثواب، قربانی کے گوشت کے مصارف اور دوسری ہدایات کا ایک دفتر موجود ہے اور ان تمام امور کا تذکرہ بھی ہے جن کا مذاق آپ نے فقرہ نمبر 6 میں اُڑایا ہے۔ پھر اس تاریخ کے ایک حصہ سے استدلال اور دوسرے حصہ کا بلا وجہ استرداد ہماری سمجھ سے بالا ہے۔

اور اگر ان کے فقرہ میں تاریخ سے مراد کچھ اور ہے تو اس کی تعیین فرمائیں۔ ہم ان شاء اللہ وہیں سے ثابت کر دیں گے کہ آنحضرت ﷺ نے مدینہ میں اور صحابہ کرامؓ نے اپنے اپنے وطن میں عید الاضحیٰ پر قربانی دی ہے۔ البتہ اس صورت میں ہم پرویزؔ صاحب سے یہ سوال ضرور کریں گے کہ اگر حدیث قالِ اعتبار نہیں ہے تو تاریخ میں کیا اضافہ ہے کہ اسے مستند مانا جائے؟ ہاں یہ بھی بتائیے کہ تاریخ نبوی کے ماخذ کیا ہیں؟ اس کے ساتھ آپ کو یہ بھی بتانا ہو ا کہ نبی اکرم ﷺ کے اس فعل کی بنیاد کیا ہے؟ اور حضور ﷺ نے قرآن مجید کے کس کم کی تعمیل میں قربانی کے جانور مکہ شریف بھیجے؟ اور کیا آپ کے زمانہ میں بین الاقوامی ضیافت کا اہتمام ہوا تھا؟

حاصل کلام:

ہم نے پرویزؔ صاحب اور ان کے ''دلائل''پر مناسب حد تک تنقید کر دی ہے جس سے ان کے معتقدات کی خامی اور ان کے استدلال کی کمزوری بلکہ ان کے اندازِ فکر کی کجی بخوبی ظاہر ہے اور یہ امر بخوی روش ہے کہ وہ اپنا مدعا ثابت نہیں کر سکے بلکہ اپنے مزعومہ دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے قرآن مجید کے غلط ترجمہ اور غلط تشریحات کے مرتکب ہوئے ہیں اور اس ضمن میں انہوں نے کتنی باتیں ایسی کہی ہیں جن کا ثبوت انہوں نے نہیں دیا اور نہ ہی قیامت تک دے سکیں گے ﴿وَلَو كانَ بَعضُهُم لِبَعضٍ ظَهيرً‌ا ﴿٨٨﴾... سورة الاسراء" اور جب تک وہ ان امور کا اثبات نہ کر سکیں ان کے لئے زیبا نہیں کہ پوری امت کے مدِ مقابل بنیں اور ڈیڑھ ہزار سال کے عملی تواتر کو ملوکیت او پیشوائیت کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ اور پورے اسلامی نظام کو محرّف قرار دیں۔

بحث کے دوسرے پہلو:

ہم نے اس بحث کے چند پہلو عمداً نظر انداز کر دیئے ہیں اور اس کا سبب خوفِ طوالت کے علاوہ یہ خیال بھی ہے کہ ان پہلوؤں پر دوسرے اہل قلم روشنی ڈالیں گے۔ ہم نے پرویزی دلائل پر تنقید کو اس لئے ترجیح دی ہے کہ اکثر معاصرین بحث کے اس انداز کو نظر انداز کر جاتے ہیں اور اکثر مقالہ نگار اپنے خیالات کو مثبت انداز میں کہنے کے عادی ہیں۔ مخالف فریق کے دلائل کو اس کے مسلمات کی رُو سے ردّ کرنا اگرچہ مشکل نہیں لیکن ہمارے احباب اس طرف کم سے کم توجہ دیتے ہیں۔ اس لئے ہم نے اس انداز کو ضروری سمجھا۔

اقتصادی نقطہ نگاہ:

منکرینِ سنت اور کچھ اباحت پسند حلقے قربانی کو معاشی اور اقتصادی حیثیت سے بھی نقصان دہ خیال کرتے ہیں اور بعض حضرات جانوروں کی قلت کا رونا بھی روتے ہیں۔ ان کے اس اعتراض کو صحیح باور کرنے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہم اس امر کا اعتراف کریں کہ اسلام کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ وہ دینِ کامل ہے بلکہ یہ ہماری معاشیات کے لئے مضر اور اقتصادیات کے لئے تباہ کن ہے۔

ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہم ماہرِ اقتصادیات نہیں لیکن اتنا ضرور جانتے ہیں کہ اقتصادی استحکام کے لئے یہ امر بے حد ضروری ہے کہ امراء کی دولت غرباء کو منتقل ہوتی رہے۔ اگر یہ اصول ٹھیک ہے تو پھر ملک میں لاکھوں افراد کا ذریعہ معاش یہی ہے کہ وہ ریوڑ پالیں اور عید الاضحیٰ کے موقعہ پر ان کو مہنگے داموں فروخت کریں۔ پھر لاکھوں قصاب ہیں جو ان ایام میں ذبح کرنے کی معقول اجرت پاتے ہیں۔ پھر لاکھوں غریب خاندان ہیں جو کم از کم تین دن عمدہ غذا سے بہرہ مند ہوتے ہیں اور چرمہائے قربانی سے بیسیوں ضرورتیں پوری کرتے ہیں پھر ہزاروں یتیم خانے اور رفاہی ادارے ہیں جن کا سالانہ بجٹ قربانی کی کھالوں سے مستحکم ہوتا ہے۔ پھر ہزاروں خاندان ایسے ہیں جن کا ذریعہ معاش چمڑے کی رنگائی ہے۔ ذرا ان سے پوچھئے کہ ان کی معاش میں قربانی کی کتنی اہمیت ہے اور ان کی اقتصادی پوزیشن کے استحکام میں قربانی کو کتنا دخل ہے۔ پھر کتنے افراد وہ ہیں جو ہڈی وغیرہ کا کاروبار کرتے ہیں۔ پھر ذرا اپنی حکومت کے شعبۂ تجارت سے معلوم فرمائیے کہ قربانی کی کھالوں، ہڈیوں اور اون وغیرہ سے کس قدر زر مبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ پھر اندرونِ ملک کتنی مصنوعات ہیں جن کا انحصار چمڑے، ہڈی، سینگ اور انتڑیوں پر ہے۔ قرآن کا اعجاز ہے کہ اس نے ان تمام فوائد کو لَکُمْ فِیْھَا خَیْرٌ کے جملہ میں سمیٹ لیا ہے۔

قلّت کا بہانہ:

اِس مقام پر جانوروں کی قلت کا بہانہ بھی غیر مناسب ہے۔ حکومت اگر مویشیوں کی قلت دور کرنا چاہتی ہے تو اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ افزائشِ نسل کی کوشش کی جائے۔ مویشی فارم کھولے جائیں۔ مویشی پالنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ چراگاہیں عام ہوں اور سبزیوں کو ترقی دے کر ذبیحہ پر مناسب پابندی عائد کی جائے۔ پھر بھی قلت دور نہ ہو تو بقولِ محترم مودودی صاحب:

''ہفتہ میں پورے سات دن گوشت کا ناغہ ہونے لگے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کو مستقل طور پر ختم کر دیا جائے۔''

کیونکہ قربانی قرآنی الفاظ میں شعائر اللہ میں داخل ہے۔ مسلمانوں کا فرض ہے کہ شعائر اللہ کے احترام میں ہر ممکن قربانی کریں۔

یہ بھی یاد رہے

ایامِ قربانی میں ذبح ہونے والے جانوروں کے مبالغہ آمیز اعداد و شمار دیئے ہوئے یہ بات بھی یاد رہنی چاہئے کہ قربانی کے تین چار دن عام مذبح خانے یکسر بند رہتے ہیں اور عید سے کئی دن قبل اور بعد بھی ذبیحہ کی رفتار خاصی کم رہتی ہے کیا اچھا ہو کہ اعداد و شمار ترتیب دیتے ہوئے اس بحث کو میزان سے منہا کر لیا جائے۔ امید ہے کہ جمع و تفریق کا یہ عمل کسی نہ کسی درجہ میں ان خطرات کے لئے حوصلہ افزا ثابت ہو گا۔


حوالہ جات

ملاحظہ ہو قرآنی فیصلے مجموعہ مضامین پرویز ص 65-66