اس عہد کی تجدید کی اشدّ ضرورت ہے
آزر،ا براہیم اور اسماعیل، اندازِ زیست سب کے جدا جدا، بات بُت فروش، بیٹا بُت شکن اور صاحبزادہ سر فروش۔ وہ مظاہرہ پرست، یہ خدا پرست اور تیسرا تسلیم و رضا کا پیکر۔ اپنا اپنا نصیب اور اپنی اپنی فطرت! ایک ہی درخت، کچھ کانٹے، کچھ پھول اور کچھ شیریں پھل۔
تہیدستانِ قسمت راچہ سود از رہبر کامل!
کہ خضر از آبِ حیواں تشنہ می آرد سکندررا
کفر اور شرک کی ایک خاص فطرت ہے جس کے سمجھنے کے لئے ''آزر'' کی زندگی کا مطالعہ بہت مفید ہے۔
اسلام اور توحید کا اپنا ایک مزاج اور رنگ و بُو ہے، اگر یہ کہا جائے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیاتِ طیبہ اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کا اسوۂ حسنہ اسلام اور توحید کی سچی تفسیر، اصلی تعبیر اور بے داغ اسلوب ہے تو اس میں قطعاً کوئی مبالغہ نہ ہو گا۔
نماردۂ وقت کے اپنے مخصوص اغراض، آمرانہ مقاصد اور ناپاک پروگرام ہوتے ہیں جن کی تکمیل کے لئے کچھ افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو بدقسمتی سے عموماً ان کو مل ہی جاتے ہیں۔
آزر، نماردۂ عراق کے اغراض باطلہ کے لئے ایک معتمد ستون تھا، خدا کی خدائی سے تو اس کو کوئی دلچسپی نہ تھی، ہاں نمرود کی خدائی کے سلسلہ میں خاصا مخلص رہا اور اس کے لئے خاصی سنجیدہ کوششیں بھی کیں۔
کسی قوم کی بد نصیبی کے لئے اتنی ہی بات کافی ہوتی ہے کہ اس کے سر پر آوارہ لوگوں کو ملک اور قوم کی بہ نسبت جبر و استبداد کی دل جوئی زیادہ مطلوب ہو اور محض اس لئے کہ ان کے شخصی مصالح پورے ہوتے ہیں، وہ پوری قوم کے مصالح اور مستقبل کو بھی بیچ کھاتے ہوں۔ یہ آزر، انہی عمائدین میں سے ایک تھا، جن کے دم قدم سے نمرود کی خدائی سلامت تھی۔ گویا کہ یہ ''نمرودی سنتِ سیئہ'' اور ''آزادی حکمتِ عملی'' ہے جس کو اسی ٹائپ اور قماش کے لوگوں کے ذریعے ابلیس اور اس کی ذرّیّت لے کر چل رہی ہے۔
دین اور دنیا کی تفریق بھی آزری اور نمرودی حکمتِ عملی کی یادگار ہے کیونکہ یہ طرزِ حکومت انہی لوگوں نے ایجاد کیا تھا۔ ان کے ہاں بیتؔ الحکومۃ کا وارث حکمراں ہوتا تھا اور ہیکل کا کاہن دنیاوی حکومت کا مالک حکمراں ہوتا تھا، مذہبی اور نام نہاد روحانی حکومت کاہن کے حوالے ہوتی تھی۔ دراصل یہ ''بنارسی ٹھگ'' تھے جو ایک دوسرے کی ملی بھگت سے بندگانِ خدا کا استحصال کیا کرتے تھے۔
آزر بہت بڑا آرٹست تھا۔ صناعی برسی شے نہیں، لیکن جب یہ روحای رومان، جنسی ارمان، ذہنی عیاشی اور تن آسانی کا سامان بن جاتی ہے اس وقت اس کی مضرت اس کی افادی حیثیت پر غالب آجاتی ہے۔ جتنی یہ انسانی خدمات انجام دیتی ہے، اتنی ہی یہ انسان اور اس کی آخرت کے لئے غارت گر ثبات ہوتی ہے۔
اس ظالم نے اپنی صنعتی صلاحیتیں، بت تراشی، تبکدہ کی آرائش اور استحکام کے لئے صرف کر ڈالی تھیں، اس فن میں اس کی یکتائی نے خدا کی یکتائی اور وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کی۔ بابلیوں کو اتنے خدا، اتنے مشکل کشا اور داتا مہیا کیے کہ ان کی تنگیٔ داماں کی شکایت ہو گئی۔
نمرود کے بے شمار مجسمے بنائے۔ اس کی خدائی کے عجیب عجیب روپ تخلیق کیے، ستاروں کو خدا بنا کر ان کی مورتیوں کے انبار لگا دیئے۔ سورج اور چاند کے اصنام تیار کئے اور پھر پوری قوم کو ان کے گرد جمع کرنے کا فریضہ بھی سر انجام دیا۔ لگ ان کے گرد طواف کرتے۔ ان کے حضور چلہ کشی اور اعتکاف کے نذرانے پیش کرتے۔ جو پیشانی خدا کے حضور نہ جھک سکی وہ اپنے ہاتھ کے گھڑے ہوئے بتوں کے حضور یوں رسوا ہوئی کہ خدا کی پناہ!
سورت انعام میں آیا ہے:
﴿وَإِذ قالَ إِبرٰهيمُ لِأَبيهِ ءازَرَ أَتَتَّخِذُ أَصنامًا ءالِهَةً...٧٤﴾... سورة الانعام
جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا کہ آپ بتوں کو خدا بناتے ہیں!!
اصنام صنم کی جمع ہے۔ صنم کے لغوی معنی مضبوط اور قوی کے ہوتے ہیں۔ چنانچہ کہتے ہیں صَنِمَ الْعَبْدُ غلام طاقت ور اور مضبوط ہو گیا۔ امام راغب کی تصریحات سے پتہ چلتا ہے کہ ہر وہ چیز صنم ہے جس کے تعلق کی وجہ سے انسان خدا سے بیگانہ اور غافل ہو جائے۔ (مفردات)
دراصل یہ کیفیت اس وقت ہی پیدا ہوتی ہے جب کوئی شخص کسی شے کے سلسلہ میں ایسی ہی توقعات اور حسنِ ظن میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اسباب و علل سے ماوراء کوئی شےاس کو کچھ فائدہ یا نقصان پہنچا سکتی ہے۔ گویا کہ آزر نے ایک ایسی طرح ڈال دی تھی کہ پوری قوم خدا کے ماسوا اور بہت سی چیزوں کو نافع اور ضارّ سمجھ کر ان کے گرد جمع ہو گئی تھی۔ خواہ وہ نمرودی کروفر ہو یا مذہبی پیشوأوں کے جال ہوں۔ روحانی مہنتوں کے مکر و فریب ہوں یا سیاسی ٹاؤٹوں کی جعل سازیاں ہوں، بہرحال انسان ان کے سلسلہ میں کسی خوش فہمی میں مبتلا ہو کر ہی ان کے بھّرے میں آسکتا ہے۔ آزر نے یہ سارے جال بچھا رکھے تھے جس پر حضرتِ خلیل علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کو ملامت کی تھی اور خدا سے یہ دعا کی تھی:
﴿وَاجنُبنى وَبَنِىَّ أَن نَعبُدَ الأَصنامَ ﴿٣٥﴾... سورة ابراهيم
(الٰہی!) مجھے اور میری نسل کو بتوں کی پرستش سے دور ہی رکھیو۔
ظاہر ہے کہ اس سے مراد صرف وہ ظاہری اصنام اور بت نہیں ہو سکتے جن کا رواج عام تھا بلکہ ان کے ساتھ یہ سب دوسری جعل سازیوں کے فتنے بھی تھے۔
سورہ انبیاء میں فرمایا:
﴿إِذ قالَ لِأَبيهِ وَقَومِهِ ما هـٰذِهِ التَّماثيلُ الَّتى أَنتُم لَها عـٰكِفونَ ﴿٥٢﴾... سورة الانبياء
وہ وقت یاد کرو جب حضرت ابراہیم (علیہ الصلوٰۃ والسلام) نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا، یہ کیا تصویریں اور مورتیاں ہیں جن پر تم جمے بیٹھے ہو۔
تمثال دراصل اس چیز کا نام ہے جو دوسری شے سے ملتی جلتی ہونے کی وجہ سے اس کی صفات اور خصوصیات کی مظہر بھی ہو۔ آزر اور اس کی قوم نے اس قسم کے گمراہ کن مظاہر گھڑ لیے تھے جن کے سلسلہ میں یہ حسنِ ظن قائم کر لیا گیا تھا کہ یہ خدائی صفات اور اختیارات کے حامل اور مظہر ہیں۔ اس لئے ان کا یہ نعرہ عام ہو گیا تھا کہ:
اللہ کے پلے میں دھرا وحدت کے سوا کیا ہے۔
لینا ہے جو ہم نے، وہ لے لیں گے محمد ﷺ سے (استغفر اللہ)
چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان پر یہ الزام عائد کیا:
﴿إِنَّما تَعبُدونَ مِن دونِ اللَّهِ أَوثـٰنًا وَتَخلُقونَ إِفكًا ۚ إِنَّ الَّذينَ تَعبُدونَ مِن دونِ اللَّهِ لا يَملِكونَ لَكُم رِزقًا فَابتَغوا عِندَ اللَّهِ الرِّزقَ وَاعبُدوهُ وَاشكُروا لَهُ...١٧﴾... سورة العنكبوت
تم تو خدا كے سوا بس بتوں كی پرستش كرتے ہو اور جھوٹی جھوٹی باتیں (دل سے) بناتے ہو خدا کے سوا جن کی پرستش کرتے ہو تمہیں روزی دینے کا تو (ذرا سا بھی) اختیار نہیں رکھتے، اس لئے روزی بھی خدا سے ہی مانگو، اسی کی عبادت کرو اور اس کا ہی شکر بجا لاؤ۔
مقصد برآری اور دکان چمکانے کے لئے غلط رُخ قول و فعل کے استعمال کرنے کا نام ''افک'' ہے۔ اگر ہم اسے ''جاہلی سیاست'' سے تعبیر کریں تو بے جا نہ ہو گا۔ گویا کہ کل جسے ''افک'' کہا جاتا تھا اسے آج ''سیاستِ سوء'' سے تعیر کیا جا سکتا ہے۔ کل جو شے جاہلیت تھی آج وہی روشن خیالی اور سیاسی چابک ددستی تصور کی جاتی ہے۔
داعیانِ حق کی راہ مارنا اور دعوتِ حق پر بری طرح بگڑنا بلکہ ان کے گلے پڑنا چونکہ آزر کی آزریت کا خاص شاہکار تھا لہٰذا بگڑ کر بولا:
﴿أَراغِبٌ أَنتَ عَن ءالِهَتى يـٰإِبرٰهيمُ ۖ لَئِن لَم تَنتَهِ لَأَرجُمَنَّكَ ۖ وَاهجُرنى مَلِيًّا ﴿٤٦﴾... سورة مريم
کہ اے ابراہیم! کیا تو میرے آقاؤں اور معبودوں سے پھر گیا ہے؟ اگر تم باز نہ آئے تو میں تمہیں سنگسار کر دوں گا۔ مجھ سے دور ہو جاؤ۔
الغرض اپنے پرائیویٹ مصالح اور مقاصد کی خاطر چند شاطر وار جاہ پرست افراد کو پوری قوم اور ملک پر مسلط رکھنے کی کوشش کرتے رہنا اپنی بہترین صلاحیتیوں سے عوام کی گمراہی کے کام لینا، راہِ حق مارنا، خود تراشیدہ اصنام اور منتخب کردہ طاغوت کی غلامی کو ''معنوی اور معنے خیز ترقی'' کا زینہ تصور کرنا ''داعیانِ حق'' سے بگڑنا اور ''دعوتِ حق'' سے چڑنا، کفر و طاغوت کی خدمت کرنا، خدا اور رسول کے سامنے اڑ جانا۔ بس ''آزری'' کا یہ طول و عرض تھا۔ اب آپ اس کے بالمقابل، براہیمی اور اسمٰعیلی طرزِ زندگی ملاحظہ فرمائیں اور خود ہی موازنہ کریں کہ ہم اپنا وزن کس پلڑے میں ڈال رہے ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات کے اندر کئی ایک پہلو قابل نظارہ ہیں۔ آپ پیغمبِر خدا بھی ہیں اور آزر کے صاحبزادے بھی، حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے باپ بھی ہیں اور اپنی قوم کے ایک عظیم فرد بھی۔ نینو اور بابل کے باشندے بھی ہیں ار ایک مہاجر بھی۔ بت کدہ میں پل کر جواں بھی ہوئے۔ کعبہ کے معمار بھی بنے۔ ان تمام متنوع اور متضاد حیثیتوں میں انہوں نے جو ایک معیار اور اسوۂ حسنہ پیش کیا ہے، وہ جس قدر حسیں ہے اتنا ہی طویل بھی ہے جس کا یہاں استقصاء مشکل ہے تاہم بعض امور ایسے ہیں اگر ان کے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ''براہیمی'' سمجھنے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔
مثلاً فرائض منصبی میں ذرہ بابر کوتاہی برداشت نہ کی، لیکن شدید اختلافات کے باوجود ایک فرزند ارجمند کی حیثیت میں باپ کے ''معروف احترام اور آداب'' کو بھی ملحوظ رکھا۔ اولاد عزیز از جان ہوتی ہے لیکن جب ''اُس'' کی راہ میں لٹانا پڑا تو تامل نہ کیا۔ گو ایک عظیم قوم کے مالک تھے۔ لیکن حق کو قوم کی جمہوریت کی نذر نہ کیا۔ ملک و وطن کے ہر باسی کو اپنے ملک سے بے پناہ محبت ہوتی ہے مگر ضمیر اور حق پر کبھی بھی اس کو بھاری نہیں ہونے دیا۔ اگر پوری قوم اور ملک نے راہ روکنے کی کوشش کی تو اس کی پرواہ نہ کی۔ دیس سے پردیس جا کر خدا کو نہ بھولے۔ نکلے بھی تو یوں کہ ؎
جبیں پہ گردرہِ عشق، لب پہ مہرِ سکوت!
دیارِ غیر میں پھرتا ہوں، آشنا کے لئے!
کہتے ہیں ماحول اور خاندانی اثرات لے ڈوبتے ہیں، یہ بات کافی حد تک صحیح بھی ہے۔ لیکن یہ اس وقت ہوتا ہے جب اپنے 'ضمیر اور ایمان' سے محبت نہ رہے۔ اپنے نظریہ پر ترس نہ آئے اور کند قلب و نگاہ لے کر اُٹھے۔ ایک با ضمیر خدا آشنا اور عقابی نگاہ رکھنے والے با خدا انسان کے لئے خاندان تو کجا، آتشکدہ جیسے آتشیں عوامل بھی ان پر اثر انداز نہیں ہو سکتے اور نہ ہوئے۔ بت کدہ میں پل کر ''کعبہ'' ہی تعمیر کیا ملک اور قوم کو بھی اس پر نثار کیا۔
طبعی اور فطری حیثیت میں آپ ''اوّاہ'' ''منیب'' اور ''حلیم'' تھے۔ اوّاہ سے مراد وہ ہستی ہے جو حُبِِّ حق کے ہاتھوں آہ و فغاں جس کا شیوہ ہوتا ہے۔ حلیمؔ اس بردبار اور متوازن انسان کا نام ہے جو ناسازگار حالات کے باوجود حوصلہ نہیں ہارتا اور حواس قائم رکھتا ہے۔ منیبؔ اس کو کہتے ہیں جو اپنی مشکلات اور مسائلِ حیات کے سلسلہ میں دستگیری اور رہنمائی کے لئے سدا اپنے رب کی طرف متوجہ رہتا ہے۔
﴿إِنَّ إِبرٰهيمَ لَأَوّٰهٌ حَليمٌ ١١٤﴾... سورة التوبة...﴿إِنَّ إِبرٰهيمَ لَحَليمٌ أَوّٰهٌ مُنيبٌ ﴿٧٥﴾... سورة هود
آپ کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہے:
﴿إِنَّهُ كانَ صِدّيقًا نَبِيًّا ﴿٥٦﴾... سورة مريم" کہ آپ صدیق نبی تھے۔
اور صديق نبی وه ہوتے ہیں جو خدا سے اپنے خصوصی تعلق اور الہامات کے بارے میں حد درجہ مطمئن، صاحبِ ایقان اور شاہدِ حق ہوتے ہیں۔ ان کی زبان صرف شہادتِ حق کے لئے کھلتی ہے اور حق ہی ان کی زبان سے نکلتا ہے:
﴿وَجَعَلنا لَهُم لِسانَ صِدقٍ عَلِيًّا ﴿٥٠﴾... سورة مريم" کہ ہم نے ان کو سچ کہنے والی زبان بخشی۔
گو یہ مقام سب انبیاء کو حاصل ہوتا ہے، لیکن آپ کو مزید اختصاص حاصل تھا کیونکہ مظاہر پرست دنیا کے ماحول میں ارض و سماء کی بادشاہت اور ملکوت کا مشاہدہ آپ کو بالخصوص کرایا گیا تھا تا کہ ان کے تخمین و ظن کے مقابلے میں دولتِ یقین آپ کو مز حاصل ہو جائے۔
﴿وَكَذٰلِكَ نُرى إِبرٰهيمَ مَلَكوتَ السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضِ وَلِيَكونَ مِنَ الموقِنينَ ﴿٧٥﴾... سورة الانعام
بے داغ دل بھی آپ کو حاصل تھا:
﴿إِذ جاءَ رَبَّهُ بِقَلبٍ سَليمٍ ﴿٨٤﴾... سورة الصافات" کہ جب آپ قلبِ سلیم لے کر اپنے رب کے پاس آئے۔
قلبِ سلیم سے مراد وہ بے داغ دل ہے جو غیر اللہ کی پرچھائیوں کی وجہ سے داغ دار نہیں ہوتا۔ قرآن حکیم کی زبان میں اس کو حنیف بھی کہتے ہیں:
﴿إِنَّ إِبرٰهيمَ كانَ أُمَّةً قانِتًا لِلَّهِ حَنيفًا وَلَم يَكُ مِنَ المُشرِكينَ ﴿١٢٠﴾... سورة النحل
یقین کیجئے! حضرت ابراہیم خود ایک اُمّت تھے، قانت تھے، حنیف تھے اور مشرک نہیں تھے۔
اُمت تھے۔ جو خوبیاں علی الانفراد سب میں پائی جاتی ہیں۔ ان کے وہ تنہا مالک تھے۔ اس لئے مرجعِ خلائق اور امام بنے۔ قانتؔ تھے۔ با ادب خدا کے حضور عبادات اور مناجات میں سدا محو رہنے کو قانت کہتے ہیں۔ حضورِ قلب کا یہ وہ مقام ہے جہاں با ادب، با ملاحظہ، ہوشیار کی کیفیت اور سماں طاری رہتا ہے یوں جیسے ایک وفادار اور عاشقِ زار غلام اپنے آقا کے پُرجلال دربار میں حاضر کھڑا ہو۔
حنیفؔ تھے۔ حضورِ قلب کی اس دولت میں کسی اور دھیان اور دل چسپی کی آمیزش سے پاک اور صرف خدا کے لئے یکسو تھے اور اس سلسلہ میں اس قدر حساس اور غیور تھے کہ اگر اس مقام ''توحید'' کے منافی کہیں کوئی چیز آپ کو نظر آجاتی تو بیزار ہو جاتے۔
﴿فَلَمّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلَّهِ تَبَرَّأَ مِنهُ...١١٤﴾... سورة التوبة
پھر جب ان پر (یہ راز) کھلا کہ یہ (آزر) اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہ گئے۔
﴿يـٰقَومِ إِنّى بَرىءٌ مِمّا تُشرِكونَ ﴿٧٨﴾... سورة الانعام
یعنی اے قوم! میں ان سے بیزار ہوں جن کو تم شریک کرتے ہو۔
﴿إِنّى وَجَّهتُ وَجهِىَ لِلَّذى فَطَرَ السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضَ حَنيفًا ۖ وَما أَنا۠ مِنَ المُشرِكينَ ﴿٧٩﴾... سورة الانعام
(لہٰذا) میں نے تو ایک طرف کا ہو کر اپنا رخ اس ذات کی طرف کر دیا ہے جس نے زمین و آسمان بنائے میں تو شریک کرنے والا نہیں ہوں۔ (حوالہ مذکورہ)
بلکہ خدا کی راہ میں خویش و اقربا، قوم، ملک، جاہ و حشم اور چین و آرام بھی حائل ہوئے تو سب کو چھوڑ دیا بیوی اور بیٹے کی جدائی اور قربانی کی بات آئی اور دیر نہ کی۔ جان پر کھیل جانے کی نوبت آئی تو یوں نثار ہوئے جیسے پروانہ۔
زندگی کا یہ وہ کیف اور رنگ و بو ہے کہ جس پر طاری ہو جاتا ہے، ''حق کا راہی'' کہلانے لگتا ہے اس کا سارا سفرِ حیاتِ سیر الی اللہ میں شمار ہوتا ہے:
﴿قالَ إِنّى مُهاجِرٌ إِلىٰ رَبّى...٢٦﴾... سورة العنكبوت"کہا ميں (تو) اپنے رب كی طرف ہجرت كرتا ہوں۔
﴿إِنّى ذاهِبٌ إِلىٰ رَبّى...٩٩﴾... سورة الصافات" ميں (تو) اپنے رب كی طرف چلا ہوں۔
رب کسی دنیاوی سمت اور جگہ میں نہیں ہے کہ آپ ادھر کو اُٹھ کو اُٹھ وڑے ہوںَ وہ تو ہر جگہ ہے۔ اس لئے یہ ''جانا'' اللہ کے لئے سفر حیات جاری رکھنے کا نام ہے گویا کہ ''سراپا رب کا ہو کر رہنا'' رب کی طرف ہجرت کرنا ہے۔
یہ حج، کعبہ کا یہ پروانہ وار طواف، خدا کی راہ میں یہ صحرا نوردی، طاغوت کے خلاف جنگ جاری رکھتے ہوئے جمروں پر یہ سنگ باری، منیٰ میں قربانیوں کی یہ رسمِ کہن، سبھی کچھ اسی ''مہاجر اور حق کے راہی'' کے پاک نقوشِ پاک ہیں۔ نقل را عقل باید۔ سوچ لیجئے! آپ کے یہ حج اور آپ کی یہ قربانیاں، کیا اسی ''ذہنِ زرخیز''، ''قلبِ اوّاہ'' اور ''دلِ بے داغ'' کے نخچیر ہیں؟ کیا اس کے پسِ پردہ وہی جذبہ، وہی حرارت وہی عشقِ بے پرواہ اور وہی بے قابو غیرت کار فرما ہے؟
اسوۂ ذبیح، اَلْوَلَدُ سِرٌّ لِّأَبِیْهِ کے مطابق اسوۂ خلیل سے مختلف نہیں ہے۔
کم سنی میں حکم ہوتا ہے، یہ پُر رونق شہر اور بازار چھوڑ چھاڑ کر بے آب و گیاہ اور لق دق صحرا میں جا بسیں! صدا آئی! حاضر جناب! لیکن خیال آیا کہ یہاں ہمارا کون؟ جواب ملا، اللہ! مطمئن ہو کر کہا بس پھر پرواہ نہیں، اگر وہ ہی پاس ہے جس کی تلاش کے لئے سفرِ حیات کی ڈیوٹی ملی تو اس ''خدمت'' سے بڑھ کر اور ''تقریبِ وصال'' کیا ہو سکتی ہے۔'' ؎
دل صاحب اولاد سے انصاف طلب ہے!
سوال ہوا، بیٹا! ''رب جان مانگتا ہے۔''! جواب ملا، ''حضور! تو پھر دیر کاہے کی؟ اگر دے کر بارِ امانت سے رہائی نصیب ہو جائے تو اور کیا چاہئے؟ فکر نہ کیجئے! یہ لیجئے! بیٹے نے پیشانی رب کے حضور زمین پر رکھ دی۔ باپ نے چھری چلا دی، بسم اللہ اللہ أکبر!''
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی!!
حق توبہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا!!
ہاں جناب! وہ آزری ہے اور یہ براہیمی۔ عمر تو ساری آزری میں گزر گئی، اب اگر ارادہ کر لیا ہے کہ براہیمی کا مزہ بھی چکھ لیں تو پھر بسم اللہ! پر یہ سوچ لیجئے! کہ یہ صرف ''دنبہ اور چھترے'' کے گلے پر چھری پھرنے کی ایک رسم نہیں، ایک عہد بھی ہے، دعویٰ بھی ہے، حالات، وقت اور ایمان کا ایک تقاضا بھی ہے!