ہمارے محترم صدر انٹرویو کم دیں، تقریریں بہت کم کیا کریں

ملکی صدارت کا منصب بہت اہم ذمہ داری ہے۔ صدرِ مملکت کا ایک ایک حرف، اس کا ایک ایک جملہ اور اس کی ایک ایک بات، مملکت کی پالیسی کی جان، ملکی دستور کی روح، ملک کے لئے ایک قانون، قوم کی ایک تاریخ اور اس کے لئے ایک لائحۂ عمل کا درجہ رکھتی ہے۔ جہاں وہ عوام کے قریب ہوتا ہے وہاں اس کا ریزرو رہنا بھی ملکی مفاد میں ہوتا ہے۔

صدر بھٹو کے آئے دن جو انٹر ویو آتے رہتے ہیں اور ان کی تقریروں کا جو طوفانی سلسلہ شروع رہتا ہے، اس کی وجہ سے بعض اوقات وہ تضاد اور جذبات کا شکار ہو جاتے ہیں، بہت سی باتیں جو نہیں کہنا چاہییں کہہ جاتے ہیں۔ مقام و مرتبہ کے اعتبار سے جو رکھ رکھاؤ مناسب ہوتا ہے۔ اس کا رنگ پھیکا پڑ جاتا ہے۔ دنیا کے لئے جہاں ان کی زندگی ایک 'کھلی کتاب'' ہوتی ہے وہاں وہ ایک پُرکشش اور دلچسپ ''سراپا راز'' بھی ہوتی ہے۔ گو باتیں سب صحیح ہوتی ہوں تاہم ہر صحیح بات کہہ ڈالنے کے لئے بھی نہیں ہوتی۔ اس لئے ہم اپنے صدرِ محترم جناب بھٹو سے یہ درد مندانہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ

دنیا کو انٹر ویو کم دیا کریں اور تقریریں بہت کم کیا کریں۔ اتنے ارزاں نہ ہوں کہ بھاؤ اپنا وزن کھو دے۔ جہاں عوام سے رابطہ ایک عوامی ضرورت ہوتی ہے وہاں ''کم آمیزی'' بجائے خود عوامی مفاد میں ہوتی ہے۔

صدر بھٹو نے اب تک جو انٹر ویو دیئے، تقریریں کیں اور دربار لگائے ہیں، عموماً عوام نے ان سے جو تاثر لیا، یہ ہے کہ صدر مملکت ضرورت سے زیادہ ''فاش'' ہو جاتے ہیں اور بالکل یوں جیسے کسی کا ''بھرم'' کھل گیا ہو۔ اس لئے جتنی بار ان کی تقریریں آئی ہیں ان سے عوامی بے چینیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ کمی نہیں ہوئی اور بیرونی دنیا ان سے صرف محظوظ ہوئی ہے، مطالعہ کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

گو ہماری یہ باتیں کچھ دوستوں کو ناگوار گزریں گیں لیکن کیا کیا جائے، ہمیں ملکی مفاد، قومی وقار اور ملّی مستقبل اسی بات میں نظر آتا ہے کہ صدرِ مملکت اتنے ''بے حجابانہ'' آگے نہ بڑھیں کہ دنیا محض تماشہ سمجھے۔

(۲)

پاکستان جمہوری پارٹی شہر لاہور کے زیر اہتمام لاہور میں ایک جلسۂ عام ہوا جس میں پی ڈی پی کے رہنماؤں نے تقریریں کرتے ہوئے کہا کہ:

''صدر بھٹو نے عوام یا قومی اسمبلی سے رجوع کیے بغیر اقوامِ متحدہ میں اپنے نمائندے کے ذریعے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا وعدہ کر لیا ہے جو کہ ان کی جمہوریت پر عدمِ یقین کی ایک مثال ہے۔ حالانکہ بنگلہ دیش کو پورے مغربی پاکستان کے عوام اور ان کی قومی اسمبلی بھی تسلیم کرنے کی مجاز نہیں ہے۔''

نائب صدر جمہوری پارٹی رانا نذر الرحمٰن نے صدر بھٹو اور پیپلز پارٹی پر جو تبصرہ کیا ہے، وہ کافی جاندار اور وزنی ہے، انہوں نے کہا:

جناب بھٹو اور ان کی پارٹی نے یہ اعلان کیا تھا کہ ہمارا دین اسلام ہے، ہماری سیاست جمہوریت ہے اور ہماری معیشت سوشلزم ہے، ہم لوگوں کو روٹی، کپڑا اور مکان دیں گے اور انسانی شرف اور مساوات پر مبنی ایک نیا معاشرہ قائم کریں گے۔ اقتدار سنبھالے انہیں ایک سال کا عرصہ ہو گیا ہے۔ اور جہاں تک ان کے اسلام پر عمل پیرا ہونے کا تعلق ہے پوری قوم کے مطالبہ کے باوجود شراب، جوئے اور دوسری خلافِ شرع باتوں پر پابندی نہیں لگائی گئی۔

جمہوریت نوازی کا یہ عالم ہے کہ نہ صرف حزبِ اختلاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے بلکہ ان کی اپنی پارٹی میں اختلاف کرنے والوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ پیپلز پارٹی نے حزبِ اختلاف کے جلسوں میں گڑ بڑ کا رواج ڈالا تھا لیکن ان کا خمیازہ اب انہیں خود بھگتنا پڑ رہا ہے۔ چنانچہ اب صدر بھٹو دوسروں کو مخالفانہ رائے تحمل کے ساتھ سننے کا سبق دے رہے ہیں۔

سوشلزم کی حالت یہ ہے کہ صنعتکاروں اور مزدوروں، دونوں کو متضاد باتوں سے خوش کیا جا رہا ہے۔ چینی، آٹا، چاول اور دوسری ضروریاتِ زندگی کی قیمتیں جتنی اب ہیں، اتنی کبھی نہ تھیں۔'' انہوں نے الزام لگایا کہ ''ٹریڈنگ کارپوریشن نے جتنی چینی درآمد کی ہے وہ پارٹی کے ارکانِ اسمبلی چور بازاری میں فروخت کر رہے ہیں۔ اسی طرح ہزاروں ایسے کارکنوں کو ڈپو بخشے گئے ہیں جو بوگس راشن کارڈوں پر چینی کی بلیک کر رہے ہیں۔'' (نوائے وقت ۴ دسمبر)

جمہوری پارٹی کے رہنماؤں نے صدر بھٹو اور ان کی پارٹی پر جو الزامات عائد کئے ہیں وہ صرف پی ڈی پی کی طرف سے نہیں عائد کیے جا رہے بلکہ پورے ملک کے عوام کو ان سے یہ شکوہ ہے۔ یہاں تک کہ خود پارٹی کا باضمیر عنصر بھی یہی الزامت عائد کر رہا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ صدر بھٹو کی قیامت میں جو لوگ آئے ہیں، ان میں سیاسی شعور رکھنے والے باضمیر لوگوں کی بہت کمی ہے۔ بلکہ اب جو ملکی سیاسیات کے وارث بن گئے ہیں، ان کا اپنا کوئی سیاسی ماضی بھی نہیں ہے اس لئے آج وہ قوم کی سیاسیات پر بوجھ بن رہے ہیں۔ چنانچہ صدر بھٹو اس میدان میں نہ صرف تنہا رہ گئے ہیں بلکہ ان کی وجہ سے بدنام بھی ہو رہے ہیں۔ ہم نے پیپلز پارٹی کے تانے بانے سے یہ محسوس کیا ہے کہ ملک کے جس باضمیر طبقہ نے مسٹر بھٹو اور مسٹر مجیب کی قیادت میں چلنے سے انکار کیا تھا وہ کافی معنیٰ خیز تلمیح کی حیثیت رکھتا ہے اور بعد کے حالات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان کے باہوش، باوضع اور باضمیر لوگوں کو اپنے اعتماد میں لینے میں ان دونوں رہنماؤں کی ناکامی دراصل انہی معنیٰ خیز تلمیحات کی صداقت کی دلیل ہے جن کی بناء پر ملک کے ہوش مند لوگوں نے ان سے اپنی برأت کا اظہار کیا تھا۔ بہرحال ان دونوں کی قیادت ملک کے لئے بابرکت ثابت نہیں ہوئی۔ ؎
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

بنگلہ دیش کا فتنہ اتنا منحوس نکلا ہے کہ ہمارے ملک کے دو ٹکڑے کر کے بھی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑ رہا۔ اس منحوس کے وجود کی نحوست کی دلیل اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس کا منحوس تصور ہمارے ملک کے اندر بھی وسیع تر انتشار، بد اعتمادی اور انتہائی ذلت آمیز خلفشار کا باعث بن رہا ہے۔

ہمیں یہ دیکھ کر صدمہ ہوتا ہے کہ صدر بھٹو عموماً جو فیصلے کرتے ہیںِ عوام کو اعتماد میں لیے بغیر ''ماحضر ماحول'' کی ترنگ میں آکر، کر آتے ہیں۔ صدرِ مملکت کو اتنا ''دل پھینک'' نہیں ہونا چاہئے۔ سوچ بچار اور صبر و تحمل کے ساتھ پیش آمدہ صورتِ حال کا جائزہ لینا، ان کا بنیادی طرزِ عامل ہونا چاہئے۔ دنیا کے اور بھی صدر مملکت ہیں ہم دیکھتے ہیں، وہ تو اس قد ''بے قابو'' نہیں رہتے۔

باقی رہی یہ بات کہ پورا مغربی پاکستان اور اس کی قومی اسمبلی بھی اس کی مجاز نہیں کہ تنہا وہ بنگلہ دیش کے بارے میں کوئی فیصلہ داغے تو یہ بالکل بجا ہے کیونکہ اس سلسلہ میں مشرقی پاکستانی بھائیوں سے بھی مشورہ ضروری ہے وہ بھی اس معاملہ میں ہمارے ساتھ برابر کے شریک ہیں۔ انہوں نے مجیب کو اس غرض کے لئے قطعاً ووٹ نہیں دیئے تھے کہ وہ متحدہ پاکستان کو خیر باد کہہ دیں۔

(۳)

تخلیقِ پاکستان کے جو اسباب و علل اور محرکات تھے انہیں صرف وہی لوگ ملحوظ رکھ سکتے تھے اور وہی ان کا احترام بھی کر سکتے تھے جنہوں نے اپنی قیمتی مساعی اور قوتیں اس کے قیام میں صرف کیں مگر خدا کو کچھ منظور ہی ایسا تھا، وہ یکے بعد دیگرے اُٹھتے چلے گئے، یہاں تک کہ میدان خالی رہ گیا۔ بعد میں پاکستان کے جو وارث بنے وہ نہ صرف نا اہل تھے بلکہ بد نیت بھی تھے۔ اس لئے انہوں نے ملک کو انہی بنیادوں پر تعمیر کرنے کے بجائے اس پر اپنے نجی اغراض کے محل تعمیر کیے، اسے کاروبارِ سیاست کی منڈی بنایا اور سیاسی سٹہ بازی کے ذریعے نہایت ڈھٹائی کے ساتھ پاکستان کے مستقبل کو ہار آئے۔

آج کل پاکستان کے مختلف حصوں میں اس کے جو وارث بنے ہیں اور اس کی باگ ڈورِ سیاست جن کے اشارۂ ابرو کے ساتھ وابستہ ہو کر رہ گئی ہے۔ عموماً وہ لوگ ہیں جو پاکستان کے نام سے بہت چڑتے تھے جہاں یہ صورتِ حال ہو وہاں اس پاکستان کا کیا بھلا ہو سکتا ہے۔

اس کے علاوہ ان میں وہ لوگ بھی آدھمکے ہیں جو قیامِ پاکستان کے سلسلہ میں خالی الذہن تھے مگر اپنی افتاد طبع اور خاندانی اثرات کی وجہ سے اس کے بارے میں کچھ زیادہ سنجیدہ اور مخلص بھی نہ تھے۔ بس اس سے ان کو اتنا تعلق تھا کہ ان کو ان کا حصہ ملنا چاہئے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے فرضی اور جعلی حق اور حصہ کے لئے جدوجہد شروع کی اور کرتے آرہے ہیں اور غالباً کرتے ہی چلے جائیں گے۔ اس لئے ملک کے ایک گوشے میں کبھی یہ آواز اُٹھتی ہے کہ پاکستان مزدوروں کے مفاد کے تحفظ کے لئے بنا تھا۔ لہٰذا مزدوروں کو اُٹھ کھڑا ہونا چاہئے تو دوسرے گوشے سے یہ صدا بلند ہوتی ہے کہ پاکستان کے قیام سے غرض صرف صوبائی مفاد اور خود مختاری تھی، کوئی بولا، دراصل یہ ایک نئے تجربہ کی کوشش تھی جو ناکام ہو گئی کیونکہ زمانہ مذہب اور دین کے تصور سے کافی آگ نکل گیا ہے لہٰذا ملک میں اسلامی بنیادیں مہیا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔ الغرض ان سب مکروہ نعروں سے اُن کی غرض اِن کی آڑ میں سیاسی کھیل کھیلنا تھی۔ جیسا جس سے بن پڑا وہی داؤد استعمال کیا۔ بہرحال ابھی تک تو ملک کے یہ بد خواہ ہر جگہ کامیاب ہیں اور ملک پر جو قیامتیں ٹوٹ رہی ہیں وہ محض انہی کی ''شامتِ اعمال'' کا نتیجہ ہیں۔ لیکن ان لوگوں کوسمجھنے میں شای عوام کو ابھی اور وقت لگے گا اور جب سمجھ آجائے گی اس وقت تیر کمان سے نکل چکا ہو گا۔ ابھی تو ان کی بے پرواہی کا وہ عالم ہے جس کا کسی شاعر نے یوں نقشہ کھینچا تھا ؎
بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک
ہم کہیں گے حالِ دل اور آپ فرمائیں گے کیا؟

بہر حال قوم اور اسلام کے بہی خواہ اپنے عوام کو جھنجوڑتے ہوئے زبانِ حال سے یہ کہے جا رہے ہیں ؎
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن!
خاک ہو جائیں گے ہم، تم کو خبر ہونے تک

(۴)

بنگلہ دیش ہم سے ٹوٹ کر بھی ہمارے لئے عذاب بنا ہوا ہے۔ بنگلہ دیش ملّتِ پاکستانیہ کے افتراق و انتشار کا نشان ہے، اب تو اس کے نام میں بھی یہ تاثیر ہے کہ جہاں لیا جاتا ہے وہاں بھی افتراق و انتشار کے دیو دندنانے لگ جاتے ہیں۔ بالکل یہی کیفیت ہمارے ملک کی ہے۔ بنگلہ دیش دفع ہوا ہے تو دفع کرو، اسے مان کر کیا لینا ہے اگر پھر جُڑ جانے کی توقع ہے تو پھر اسے مان کر ہمیشہ کے لئے کیوں اپنے سے جدا کرتے ہو؟ مناؤ بتدریج قریب ہونے کے لئے وسائل ڈھونڈو، ایک دوسرے کے سلسلہ میں جو غلط فہمیاں پیدا ہو گئی ہیں، انہیں دور کرو، اگر ہو سکے تو ان رکاوٹوں کو ہٹانے کی کوشش کرو، جو ہمارے افتراق کا سب بنیں اور ہمارے تعلقات کو مزید کشیدہ کرنے کا موجب ہو رہی ہیں۔

ہمارے نزدیک بانیٔ پاکستان جناب محمد علی جناح مرحوم کے ''پاکستان'' کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا سبب وہ کواہی ہے جو پاکستان کو ''موعود پاکستان'' میں تبدیل کرنے میں اختیار کی گئی۔ بعد میں یہ وراثت نا اہل چھوکروں کے ہاتھ میں آئی۔ جس کو انہوں نے اپنے اقتدار اور زور بازو کے لئے تختۂ مشق بنایا۔ ملک اور ملت کی کچھ شرم نہ رکھی۔ غیر اسلامی ذہن کے لوگ آگے بڑھے، ناخواندہ عوام نے انہی کو نجات دہندہ تصور کر لیا اور بالآخر یہ اندھیرا ان کو لے ڈوبا۔

حالیہ المیہ کے ذمہ دار حضرات اگر ملّتِ اسلامیہ کی قیادت سے رضاکارانہ طور پر الگ ہو جائیں تو یقین کیجئے یہ دونوں بازو پھر سے متحد ہو سکتے ہیں۔ مگر اتنا ایثار کون کرے؟ ''بھُس میں چنگاری ڈال بی جمالو الگ کھڑی'' ایک مشہور کہاوت ہے جس نے اب بھیس بدل لیا ہے۔ اسے اب کون پہچانے؟

ہماری موجودہ قیادت جس سے ہمیں توقعات تھیں، وہ اب ہماری توقعات پر بھاری بنتی جا رہی ہے۔ خاص کر یہ دیکھ کر کہ ان کو معلوم ہی نہیں کہ خواجگی کیا شے ہے؟ بہت دکھ ہوتا ہے۔ غالباً اقبال مرحوم نے انہی کے متعلق یہ بات کہی تھی کہ ؎
خدا نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں
خبر نہیں روش بندہ پروری کیا ہے؟

صدرِ محترم ہوں یا ان کے دوسرے دست و بازو، ان کے منہ سے خیر کا کلمہ مشکل سے ہی نکلتا ہے۔ اب وہ اس موڈ میں ہیں کہ قوم پر اپنی رائے مسلط کریں اور اتنا ہراس پیدا کریں کہ ہزار بے چینیوں کے باوجود لوگ دبکے پڑے رہیں اور چُوں کرنے کا حوصلہ بھی نہ کر سکیں۔

غور فرمائیں کہ حکومت کا منشا امن و امان رکھنا اور ملکی عافیتوں کا تحفظ ہوتا ہے۔ اس کے بجائے اگر وہ ''خون کی ندیاں'' بہانے پر آجائیں اور ان ہلاکت آٖرینیوں کی ہولناکی کا تعارف بایں الفاظ کرانا ضروری سمجھیں کہ ''اس پر ہمالیہ بھی خون کے آنسو روئے گا'' تو اس وقت کوئی مستغیث کہاں جا کر امن و عافیت اور داد رسی کی بھیک مانگے؟

امریکہ، روس، چین اور فرانس وغیرہ ممالک بھی ہمارے سامنے ہیں۔ کیا ان کے حکمران بھی اسی قسم کی زبان استعمال کیا کرتے ہیں جس کو نمونے صدر محترم اور گورنر کھر پیش کر رہے ہیں؟ اگر ہمارے اکابرِ شایانِ شان وضعداری اور مقام و مرتبہ کے مطابق رکھ رکھاؤ سے کام لیتے تو زیادہ بہتر تھا۔ بہت بولنے، زیادہ انٹرویو دینے اور تقریروں کی بھرمار کرنے سے یہ لوگ زیادہ فاش ہو رہے ہیں مگر اس کا ان کو احساس نہیں ہے صبح و شام بولتے رہنے کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ اب دنیا ان کو ''بلبلِ ہزار داستان'' سمجھنے لگی ہے کہ ان کی پچھلی لَے بعد کی لَے کے مخالف ہی ہوتی ہے۔ ان کا اگلا بیان عموماً پچھلی غلطی کو دھونے میں صرف ہو جاتا ہے جو صاف ہونے کے بجائے اور چیستاں بن جاتا ہے۔

موجودہ اربابِ اقتدار کی برکات کا تو ابھی کچھ پتہ نہیں چل سکا، ہاں حالات کے تیور بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے غلط مصالح کے لئے پوری قوم کو غلط راہ پر ڈال دیا ہے۔ اس لئے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کل تک اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔ ہمارے نزدیک یہ سیاست نہیں، سیاست بازی ہے جس کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ اگر وقت ہی پاس کرنا ہے تو کوئی اور دھندا کریں۔ قوم کے مزاج کو نہ بگاڑیں۔ یہ ملک دوستی نہیں ہے۔

(۵)

پولیس ملکی نظم و نسق اور پُرامن ماحول رکھنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ لیکن اب پولیس اور عوام کے درمیان یوں ٹھن گئی ہے کہ:

شاید پولیس محافظِ عوام نہیں، فریقِ مخالف ہے۔ پہلے بھی اس کو کچھ ''اچھی شہرت'' حاصل نہیں تھی، حالیہ ہنگاموں کی وجہ سے تو اور بھی عوام کی نظروں سے گر گئی ہے۔ ملک کے مستقبل کے لئے یہ کچھ اچی فال نہیں ہے۔

حالایہ ہنگاموں کے سلسلہ میں ورنر کھر کی جو شوخیاں کار فرما رہی ہیں۔ کچھ زیادہ شایانِ شان نہیں تھیں، قوم سوچ رہی تھی کہ صدر بھٹو ان کی وجہ سے بڑے ابتلا میں پڑ جائیں گے، لیکن یہ دیکھ کر عوام کی حیرت کی حد نہیں رہی کہ صدر بھٹو نے چُوم کر ان کو آنکھوں پر رکھ لیا ہے۔ بہرحال یاری تو قابلِ داد ہے مگر یہ سوجھ بوجھ کی بات نہیں محسوس ہوتی۔

صدرِ محترم آج کل ''جمہوریت اور عوام'' کے نام کا وظیفہ پڑھ رہے ہیں تاکہ مشکل حل ہو جائے مگر تاڑنے والے کہہ رہے ہیں کہ ان کا نام اس لئے لیتے ہیں کہ ان کے ہاں عملاً یہ دونوں نہیں ہیں ورنہ یقین دلانے کی کیا ضرورت تھی؟ اس کے علاوہ فتنہ کا آغاز کر کے قوم کو مشتعل کیا جاتا ہے۔ جب لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں تو پھر انہیں کوسا جاتا ہے۔ چہ خوب!

اربابِ اقتدار اپنے کارنامے عوام کو گنوانا چاہتے ہیں مگر لوگ اپنے آس پاس جو کچھ دیکھتے ہیں وہ سبھی کچھ اس کے برعکس ہے۔ کارنامے ہوں اور لوگوں کو بتلانا پڑیں تو اس کے معنی یہی ہوئے کہ کچھ نہیں ہوا، ورنہ عوام کو خود ہی معلوم ہوتا۔

(۶)

صدر نے قوم سے کہا کہ:

''اگر آپ سیاست میں اموات کا امتزاج چاہتے ہیں تو ہم اس کے لئے تیار ہیں۔'' (نوائے وقت)

صدر ہو کر دھمکیوں کے ذریعے اپنی قوت اور قاہری کا لوہا منوانے کی راہ اختیار کرنا ایک معمہ ہی ہے۔

خواجہ رفیق کے قتل کو سیاستدان کا قتل کہا اور پھر یہ تاثر دیا کہ ایشیائی ممالک میں یہ عام بات ہے، گویا کہ صدر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ''یہ کوی اتنی بڑی غلطی نہیں''۔ انا للہ۔

(۷)

ڈاکٹر نذیر احمد شہید کے بعد خواجہ رفیق بھی جبر و استبداد کی نذر ہو گئے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ انفرادی واقعات کسی بڑے منصوبے کا پیش خیمہ ہیں جن سے عوامی ردِّ عمل کا اندازہ کیا جا رہا ہے۔

تعجب تو اس بات پر ہے کہ ''عوامی حکومت'' میں ہمیں یہ سب کچھ دیکھنا پڑ رہا ہے۔ غرض جو حشر روٹی کپڑے کے نعرہ کا ہوا، اس سے بڑھ کر نعرۂ جمہوریت کا ہوا۔ اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی؟ جس پہلو سے بھی جائزہ لیا جائے مایوسی ہی ہو گی۔

سٹالن، ہٹلر اور مسولینی، جس قدر فسطائی ذہنیت کے مالک تھے اور جو انجام ان کا ہوا، دنیا جانتی ہے ہمارے اصحاب اقتدار کو ان سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔ کاش! یہ لوگ قوم کے ساتھ کچھ نیکی کریں اور اس کو غلط راہ پر ڈالنے سے پرہیز کریں۔