بسلسلہ ’’دینی مدارس کے نصاب اور طرزِ تعلیم پر ایک نظر‘‘
قارئین کرام پہلی دو قسطوں میں دینی مدارس میں زیرِ تدریس علوم و فنون کا تاریخی ارتقاء و انحطاط اور ان کی مروجہ نصابی حیثیت پر ہمارا ناقدانہ تبصرہ ملاحظہ فرما چکے ہیں۔ اب میں اسلامی تعلیم کے صحیح مقصد کی روشنی میں چند بنیادی اصلاحی تجاویز پیش کرتا ہوں۔ امید ہے کہ اربابِ فکر اور اصحابِ مدارس ان کا ماہرانہ جائزہ لے کر انہیں عملی جامہ پہنانے کی سعی مشکور کریں گی۔ اللہ تعالیٰ ان کا حامی و ناصر ہو! آمین
مرکزی فکر:
میرے مضمون کا مرکزی فکر یہ ہے کہ دورِ حاضر میں دین و دنیا کے امتیاز اور تعلیم پر سامراجی اثرات چھا جانے کی وجہ سے جس دوئی نے جڑیں پکڑ لی ہیں، جس کے نتیجہ میں معاشرہ دو الگ الگ متصادم راہیں اختیار کر چکا ہے۔ اس کو کیسے ختم کیا جائے اور ان و ''دین پسند'' اور ''دنیا پرست'' طبقوں میں وحدت پیدا کر کے کس طرح ان کو انسانیت کے صحیح نصب العین پر گامزن کیا جائے۔ تاکہ کتاب و سنت کی تعلیم سے جہاں دنیاوی زندگی کے لئے کامیاب راہنما پیدا ہوں وہاں عصری تعلیم سے آراستہ ایسے ماہرین اور صاحبِ فن تیار ہوں جو مادی ترقی میں برتری حاصل کر کے دنیا میں اللہ کے دین کی سرفرازی کا باعث بنیں۔ دین و دنیا میں اگر کوئی نظری فرق ہے تو صرف اس قدر کہ دنیا ایک زندگی ہے اور دین اس کا ضابطہ ورنہ عملی اعتبار سے دونوں ایک ہیں۔
تعلیم میں دنیا اور دین کی ثنویت (دوئی) کی وجہ سے ایک طرف دین پسند طبقہ معاشرتی اور تمدنی مسائل سے آنکھیں بند کر کے اپنی مساعی کو مسجد تک محدود رکھے ہوئے ہے اور روز بروز جزوی اور فروعوی مسائل کے اختلاف کو اُبھارنے سے تعصب اور فرقہ پرستی کا شکار ہو کر تشتت و افتراق میں بڑھ رہا ہے اور دوسری طرف دنیا پرست طبقہ دین کو قدامت پرستی اور رجعت پسندی قرار دے کر اپنی مادی زندگی میں مگن ہوا جاتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو ایک ناپ سے پیدا کر کے نہ صرف نسلی وحدت دی بلکہ اپنی ذی عقل ناری اور نوری مخلوق جن و ملائکہ سے آدمؑ کو سجدۂ تعظیمی کرا کے ہمیں اعلیٰ و برتر مقصدِ حیات کا امین بنایا گویا کہ کُل کائنات انسان کے لئے پیدا فرما کر اسے اپنے لئے چن لیا۔
ہم نے تعلیمی اصلاح کے لئے اولین حیثیت دینی مدارس کو اس لئے دی ہے کہ تعلیم میں بنیادی چیز مقصد ہے اور ہمارے دینی مدارس تمام تر زبوں حالی اور زمانہ کے تقاضوں سے تغافل برتنے کے باوجود جس نصبُ العین کو سامنے رکھے ہوئے ہیں وہی انسانیت کی فلاح کا ضامن ہے جبکہ دنیاوی مدارس ترقی کے بلند بانگ دعوؤں اور روشن خیالی کے زعم کے باوجود ابھی تک یہ نہیں جان سکے کہ تعلیم کا اصلی مقصد کیا ہے؟ کیا انسان صرف اس لئے پیدا ہوا ہے کہ دو وقت روٹی پیٹ بھر کر کھالے یا لباس، سواری اور عمارات میں ایک دوسرے سے سبقت حاصل کر کے اس پر فخر و مباہات کے نعرے لگا سکے۔ لہٰذا دینی مدارس میں صحیح نصب العین کی موجودگی ہمیں اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ اس کے حصول کے لئے پہلے انہیں اپنی کوششوں کا محور بنایا جائے۔
تعلیم کا مقصد:
تعلیم کا مقصد وہی ہے جو انسانی زندگی کا مقصد ہے یعنی تعلیم ہی انسان کو اس کے مقصد کی راہ دکھاتی ہے اور تعلیم وہی صحیح ہے جو انسان کو اس کے مقصدِ زندگی سے واقف کر کے اس پر گامزن کر دے۔ انسانی زندگی کا مقصد بلاشبہ حق کی عبودیت ہے جس کا اظہار انسان اللہ اور اللہ کے بندوں کے حقوق (اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے مطابق) پورے کر کے کرتا ہے۔ اور مکمل عبودیت یہ ہے کہ انسان نہ صرف یہ کہ خود اس پر راسخ ہو جائے بلکہ دوسروں کو بھی اس پر گامزن کرنے کی حتی المقدور کوشش کر کیونکہ معاشرہ کا ایک فرد ہونے کی حیثیت سے کوئی شخص خود اس وقت تک صحیح رستے پر مکمل طور پر کار بند نہیں رہ سکتا جب تک کہ سارے معاشرے کا تعاون اور دوڑ اسی نصب العین کی طرف نہ ہو، جس کی طرف وہ خود رواں دواں ہے۔ انہی انفرادی اور اجتماعی طریقوں کی واقفیت صحیح تعلیم ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے دین کو ہمارے لئے ضابطہ بنا دیا ہے۔ لہٰذا ہر قسم کی تعلیم خواہ وہ اللہ کے حقوق بتائے یا بندوں کے، وہ دین ہے اور یہی انسانی زندگی کا مقصد ہے۔ مختصر لفظوں میں یوں کہئے کہ تعلیم انسان کے لئے (اپنے بھائیوں کے تعاون کے ذریعہ) کلمۃ اللہ کی بلندی اور اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے طریقوں سے واقفیت کا نام ہے۔ یہی وہ نقطہ ہے جہاں اسلامی تعلیم مادی تعلیم سے کٹ کر اپنا ایک ٹھوس مقصد متعین کر لیتی ہے جس کے بغیر دنیا وما فیہا سے واقفیت بھی جہالت ہے۔ رضا الٰہی کے عظیم مقصد کے تعین کے بعد ہماری کامیابی اور ناکامی کے پیمانے بھی بدل جاتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر ذمہ داریاں ان کی صلاحیت کے مطابق ڈالی ہیں اس لئے سرفرازی یہ نہیں ہے کہ اس رزمگاہِ حیات میں کس نے اللہ اور بندوں کے حقوق کی زیادہ حفاظت کی بلکہ یہ ہے کہ اپنی طاقت اور صلاحیت سے بھرپور فائدہ کس نے اُٹھایا؟ جو اس لحاظ سے بڑھ گیا وہ انسانیت اور اس کے مقصد میں برتری حاصل کر گیا۔
کس قدر افسوسناک ہے یہ امر کہ آج تعلیم کا مقصد صرف رزق اور ملازمت کی تلاش تک محدود ہو کر رہ گیا ہے حالانکہ اس کا مقصد انسانیت سے واقفیت ہے اور انسانی زندگی کا مقصد قطعاً رزق نہیں بلکہ رزق تو زندگی کو ایک اعلیٰ تر مقصد کے لئے رواں دواں رکھنے کے لئے ایک وسیلہ ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے!
خور دن برائے زیستن ہ زیستن برائے خوردن
یعنی کھانا پینا تو زندہ رہنے کے لئے ہے نہ کہ زندگی کھانے پینے کے لئے۔
لہٰذا تعلیم جیسی اعلیٰ چیز کو محض زندگی کے ایک وسیلہ کے لئے وقف کر دینا بہت بڑی جہالت ہے۔ ہمیں اس سے انکار نہیں کہ زندگی کی اور بہت سی ضروریات کی طرح رزق بھی ایک اہم ضرورت ہے اور اسے حاصل کرنا اسلام کی نظروں میں مستحسن ہے لیکن اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ علم جیسے اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے کل کائنات پر شرف کا سبب بنایا۔ (واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو کچھ نام سکھا کر فرشتوں کے روبرو پیش کر کے کہا تھا کہ تم ان چیزوں کے نام بتاؤ۔ جب وہ نہ بتا سکے تو آدم نے سب کے نام بتائے اس پر سب فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا۔ قرآن کریم (البقرہ: ۱۳۔۳۳) اسے اس سفلی مقصد کے لئے قربان کر دیا جائے۔ اس طرح سے تو علم رزق سے بھی کم تر ہو جائے گا کیونکہ وہ رزق کا ذریعہ بنے گا اور رزق صرف انسان کو نہیں ہر جاندار بلکہ نباتات اور جمادات تک کو حاصل ہے تو کیا ایسا علم جو رزق سے فروتر اور اس کے حصول کا ذریعہ ہو، انسان کو مسجود الملائکہ بنا کر اشرف المخلوقات کے بلند مقام پر فائز کر سکتا ہے۔
اسلام کی نظر میں، علم خواہ دنیا میں زندگی گزارنے اور انسانوں کے فائدہ کے لئے تسخیر کائنات سے متعلق ہو یا اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی رہنمائی سے تعلق رکھتا ہو۔ جسے ہم دنیاوی اور دینی علم سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس وقت تک انسانی شرف کا باعث بنتا ہے، جب تک کہ عبودیت کی تکمیل اور رضاءِ الٰہی کی تحصیل کا ذریعہ یا معاون ہو ورنہ اس علم سے جہالت بہتر ہے کیونکہ ممکن ہے اللہ کے ہاں جہالت معذرت بن جائے لیکن ایسا علم تو وبال ہو گا کہ اس کے حصول کے باوجود بھی اس سے خدا پرستی کا فائدہ نہ اُٹھایا۔
اس ساری بحث سے مقصود یہ ہے کہ تعلیمی اصلاحات میں اولین چیز مقصد اور پھر دوسرے نمبر پر اصلاح ہے۔ باقی چیزوں کا درجہ اس کے بعد کیونکہ جب تک مقصد درست نہ ہو گا کسی چیز کی اصلاح نہ ہو گی۔
خشت اول چوں نہد معمار کج
تاثر یامے رود دیوار کج
لہٰذا ہم دینی مدارس میں اس نصب العین کی بقاء کو اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت سمجھتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے اکثر دینی مدارس نا دانستہ طور پر اسے چھوڑتے چلے جا رہے ہیں یا دوسری چیزوں کی اس میں ملاوٹ کر رہے ہیں۔ إلا ما شاء اللہ۔ مثلاً آج کل دینی مدارس کے متعلقین میں اس بات کا بڑا احساس اور واویلا ہے کہ دینی علم کو دیا بنانے کا ذریعہ کیسے بنایا جائے؟ حالانکہ جس دن یہ چیز دینی مدارس میں جاگزیں ہو گئی اسی دن ''صحیح نصب العین کے بقاء'' کی نعمت ان سے چھن جائے گی اور ان مدارس کی رہی سہی اہمیت بھی جاتی رہے گی۔ واضح رہے کہ ہم اس بات کے حق میں نہیں کہ علماء اسلامی معاشرہ کے فقدان اور اسلامی حکومتوں کی سرپرستی سے محرومی کے بعد اپنے رزق کے سلسلہ میں بے فکر ہو جائیں یا دوسروں کے دست نگر بن جائیں کیونکہ ان چیزوں کے مفاسد شدید تر ہیں لیکن یہ بھی انصاف نہیں ہے کہ خود اسلام کے داعی اور انسانیت کے بہی خواہ دوسروں کی اصلاح کرنے کی بجائے اپنی ہی مالی مجبوریوں میں اعلیٰ نصب العین سے ہٹ جائیں۔ اگر یہ قائم نہ رہیں گے تو پھر کیا عوام اسے قائم رکھیں گے؟ لہٰذا ضروری ہے کہ اس شرف کی حفاظت کرتے ہوئے اس سلسلہ میں ایسے ذرائع سوچے جائیں جس سے دین کے راہنما نصب العین کی بقاء کے ساتھ اپنی مالی احتیاج کا علاج کر سکیں۔ ہم ان شاء اللہ کسی صحبت میں اس سلسلہ میں بھی چند تجاویز عرض کریں گے۔
دوسری چیز جو دینی مدارس کے لئے قابلِ غور ہے وہ یہ ہے کہ ہمارا نصب العین شریعتِ الٰہیہ کی روشنی میں انسانی زندگی کے پیچیدہ راستوں سے واقفیت اور ان سے خلاصی نیز دوسروں کو ان سے خبردار کرنا اور ان سے چھٹکارا دلانا ہے لیکن آج کل اکثر دینی مدارس اس بنیادی مقصد سے ہٹ کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی فکر میں ہیں اور مختلف گروہ بندیوں اور جکڑ بندیوں کی بناء پر جزوی سے جزوی بات کو باعثِ نزاع بنا کر اپنی جملہ مساعی کو اسی پر وقف کیے ہوئے ہیں حالانکہ فکری اختلافات کو حل کرنے کے لئے جزوی مسائل کو مناظرہ و مباحثہ کا رنگ دینے کے بجائے اگر علمی وسعت اور وسعتِ ظرفی سے کام لیا جائے تو نہ صرف ان مسائل سے صحیح واقفیت حاصل ہو جائے گی۔ بلکہ اس اختلاف کی حقیقت بھی کھل کر سامنے آجائے گی جس سے اگر یہ اختلاف باقی بھی نہ رہا تو چنداں مضر نہ ہو گا بلکہ علم و فکر جان ہو گا۔ لہٰذا دینی مدارس میں اعتقادی یا عملی مسائل کے اختلافات میں ترجیح کا طریقہ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ یہ فلاں گروہ کا مذہب ہے اور یہ فلاں کا یا یہ ہماری دلیل ہے اور وہی راجح ہے۔ (اس سلسلہ میں عام طور پر دوسرے کے دلائل کو واضح ذکر نہیں کیا جاتا) بلکہ اس کا صحیح ظریقہ یہ ہے کہ طلبہ کے لئے ہر نقطہ نظر کے تفصیلی دلائل رکھ دیئے جائیں اور ان کا بے لاگ مقارنہ کر کے اپنی طرف سے ترجیحی رائے ظاہر تو کر دی جائے لیکن طلبہ کو اس پر مجبور نہ کیا جائے۔ علاوہ ازیں مدارس میں مباحث صرف مشہور جزوی مسئلوں تک محدود نہیں رہنی چاہئیں۔ بلکہ الاہم فالاہم کے اصول کے تحت اصولی اور بنیادی مسائل خصوصاً جن کا عملی زندگی سے گہرا تعلق ہے ضرور زیرِ بحث آنے چاہئیں۔ اس سلسلہ میں جن علوم و مسائل کی دینی مدارس میں کمی محسوس ہوتی ہے ان کا ذِکر آئندہ آئے گا۔ ان شاء اللہ۔