فرد اور معاشرہ باہم لازم و ملزوم ہیں، جس طرح فرد معاشرے سے الگ ہو کر ایک بے حقیقت اکائی کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے، اسی طرح معاشرہ سے افراد کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا۔ دوسرے لفظوں میں افراد کی مجموعی حیثیت کا نام معاشرہ ہے۔ اس لحاظ سے فرد کی اصلاح معاشرہ کی اصلاح پر منتج ہو گی اور فرد کا بگاڑ پور معاشرہ کے بگاڑ کا باعث بنے گا۔ اسی لئے اسلام نے فرد اور معاشرہ دونوں کی اصلاح کا اہتمام کیا ہے۔ چنانچہ حلقۂ اسلام میں داخل ہونے کے بعد فرد پر جو سب سے پہلی ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ نماز ہے۔ تاکہ نماز اس کی جسمانی اخلاقی اور روحانی بیماریوں کی اصلاح کر سکے۔ ذیل کی حدیث نماز کے اس فائدۂ عظمیٰ کی شاہد ہے:
«عن أبی ھریرۃ قال قال رسول الله ﷺ أرأيتم لو أن نھرا بباب أحدكم يغتسل فيه كل يوم خمسا ھل يبقي من درنه شئ قالوا لا يبقي من درنه شئ قال فذالك مثل الصلوات الخمس يمحو الله بھن الخطايا» (متفق عليه)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے صحابۂ کرامؓ سے فرمایا کہ اگر کسی شخص کے گھر کے سامنے سے ایک نہر گزرتی ہو اور وہ اس میں روزانہ پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو تو کیا اس کے جسم پر کوئی میل کچیل باقی رہ جاتا ہے؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا۔''نہیں یا رسول اللہ ﷺ!'' اس پر آپ ﷺ نے فرمایا، ''بالکل اسی طرح جو آدمی روزانہ پانچ مرتبہ (مسجد میں حاضر ہو کر)نماز ادا کرتا ہے وہ گناہوں سے اسی طرح پاک ہو جاتا ہے گویا اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔''
فرد کی اصلاح کے بعد معاشرتی اصلاح کا نمبر آتا ہے چنانچہ جب بہت سے افراد مل کر ایک معاشرہ کی شل اختیار کر لیتے ہیں تو ان کی اصلاح و تطہیر کے لئے اسلام نے نماز با جماعت کو لازمی قرار دیا ہے ۔ جس کے لئے مسجد کا قیام ناگزیر ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسلام نے جب اوّلین معاشرہ تشکیل دیا تو اس کے ساتھ ہی مساجد کی آبادی شروع ہو گئی۔ حضرت آدمؑ کی اولاد نے جب ایک معاشرہ کی شکل اختیار کر لی تو آپ کا سب سے پہلا کام بیت اللہ کی تعمیر تھا۔ پھر جب آپ کی اولاد اقطارِ دنیا میں پھیلی تو آپ ہی کے ایک صاحبزادے نے (بیت اللہ کی تعمیر کے چالیس برس بعد ) بیت المقدس کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد ملّتِ اسلامیہ کے بانی حضرت ابراہیم اور ان کے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہما السلام کے ہاتھوں بیت اللہ کی از سرِ نو تعمیر تو قرآن مجید سے بھی ثابت ہے۔ اسی طرح حضرت رسول اکرم ﷺ نے جب دعوت الی الحق کا بیڑا اُٹھایا تو آپ ﷺ نے اپنا مرکز خانہ کعبہ یا مسجد الحرام کو بنایا اور جب کفار کی طرف سے اعلانیہ مخالفت ہوی تو آپ ﷺ نے بامرِ مجبوری دارِ ارقم کو اس کام کے لئے منتخب فرمایا۔ لیکن حضرت عمرؓ کے اسلام لاتے ہین پھر سے خانہ کعبہ اور مسجد الحرام کی دیواریں تکبیر کے نعروں اور توحید کے کلمات سے گونجنے لگیں۔ اور پھر جب کفار کی مخالفت انتہا کو پہنچ گئی اور آپ ﷺ ہجرت کر کے مدینہ شریف تشریف لے گئے تو یہاں کی فضا کو مسلم معاشرہ کے لئے سازگار سمجھتے ہوئے آپ ﷺ نے سب سے پہلا کام جو کیا وہ مسجدِ نبوی کی تعمیر تھی۔ اس کے بعد جوں جوں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ ہر قبیلہ اور ہر محلہ میں الگ الگ مسجدیں تعمیر ہوتی چلی گئیں۔ اگرچہ عام غربت اور سادگی کی وجہ سے اس دور میں جو عام مساجد تعمیر ہوئیں وہ زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکیں اور مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ بہت سوں کا نام و نشان بھی مٹ گیا تاہم تاریخ ہمیں بتلاتی ہے کہ اسلام کی روشنی نے جب عرب کے گوشے گوشے کو منور کر دیا تو عرب کا کوئی گاؤں، شہر اور محلہ مساجد سے خالی نہ تھا۔
پھر اسلام نے سر زمینِ عرب سے قدم باہر نکال کر جب اپنے قومِ میمنت لزوم سے بیرونِ دنیا کو نوازنا شروع کیا تو جہاں جہاں اسلام کی روشنی پہنچی اور مسلم معاشرہ کا قیام عمل میں آیا، مساجد تعمیر ہوتی چلی گئیں۔ جن میں سے بعض آج بھی اپنی روایتی شان و شوکت کے ساتھ موجود ہیں۔ موجودہ دور کے غیر مسلم ممالک بھی جہاں کچھ بھی مسلمان موجود ہیں۔ مساجد سے خالی نہیں اور مسلمان ممالک کا تو ذکر ہی کیا، ہر گاؤں، ہر محلہ اور ہر شہر میں مساجد کے شاندار مینار اپنی عظمت و رفعت کی گواہی دیتے نظر آتے ہیں۔
مندرجہ بالا تاریخی حقائق مسلم معاشرہ کے قیام میں مسجد کی اہمیت و ضرورت کی واضح ترجمانی کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے دور کا وہ معاشرہ جو استحکام، پائیداری اور عظمت و رفعت کی بہترین مثال تھا، مساجد ہی کا مرہونِ منت تھا اور ہمیں یہ کہنے میں باک نہیں کہ جب تک مساجد پُر رونق رہیں اور مسلم معاشرہ میں ان کی ضرورت و افادیت کو محسوس کیا جاتا رہا۔ اسلام بھی سر بلند رہا۔ لیکن جونہی مساجد کی مرکزی حیثیت متزلزل ہوئی اور قرآن و حدیث کو چھوڑ کر دوسری تعلیمات کا دور دورہ ہوا۔ لوگ مساجد سے دور ہونے لگے اور معاشرہ میں مساجد کو وہ مقام حاصل نہ رہا جو قرونِ اولیٰ میں تھا تو مسلمان بھی اپنی شان و شوکت کھو کر تنزل و تسفل کا شکار ہوتے چلے گئے اور بالآخر اسلام کو غربت سے ہمکنار ہونا پڑا۔
لہٰذا یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اسلامی معاشرہ کی تشکیل و تعمیر کا تمام تر دارو مدار ہی مساجد پر ہے۔ تاہم اپنے اس دعویٰ کی صداقت کے لئے ہمارے لیے اس امر پر روشنی ڈالنا از بس ضروری ہے کہ مسلم معاشرہ کے قیام میں مساجد کیا کردار ادا کرتی ہیں اور معاشرہ میں ان کی دینی، تعلیمی، سماجی اور سیاسی اہمیت کیا ہے؟
(1) مساجد کی دینی اہمیت
قرآن مجید میں ارشادِ ربانی ہے:﴿وَما خَلَقتُ الجِنَّ وَالإِنسَ إِلّا لِيَعبُدونِ ﴿٥٦﴾... سورة الذاريات" کہ انسان کا مقصدِ تخلیق ہی عبادت ہے اور اسی چیز پر آخرت میں انسان کی کامیابی کا انحصار ہے۔ عبادات کہ انسان کا مقصدِ تخلیق ہی عبادت ہے اور اسی چیز پر آخرت میں انسان کی کامیابی کا انحصار ہے۔ عبادات کا مظہرِ اوّل نماز ہے اور چونکہ مسجد اصطلاح میں اس جگہ کو کہتے ہیں جو نماز کے لئے وقف کر دی گئی ہو۔ لہٰذا دینی اعتبار سے مسجد کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اس ضمن میں قرآن و حدیث میں کافی آیات و احادیث مذکور ہیں جن میں یا تو مسجد کی دینی اہمیت بیان کی گئی ہے اور یا نماز باجماعت کے فوائد و ثواب پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ذیل میں چند ایک نصوص ملاحظہ فرمائیں۔
مسجدوں کی آبادی ایمان کی دلیل ہے:
قرآن مجید میں ہے:
﴿إِنَّما يَعمُرُ مَسـٰجِدَ اللَّهِ مَن ءامَنَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ...١٨﴾... سورة التوبة
کہ بیشک اللہ کی مسجدوں کو وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور یومِ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ اس آیت میں جہاں یہ بتلایا گیا ہے کہ مساجد کے آباد کار مومن ہی ہو سکتے ہیں۔ وہاں ان کو یہ بشارت بھی دی گئی ہے کہ یہ ان کے ایمان ی دلیل بھی ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث سے ظاہر ہے جو اسی آیت کی تفسیر میں وارد ہے:
ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«إذا رأیتم الرجل یتعاھد المسجد فاشھدوا له بالإیمان فإن اللہ یقول إنما یعمر مساجد اللہ من امن بالله واليوم الاخر» (ترمذي، ابن ماجه، دارمي)
کہ جب تم کسی آدمی کے متعلق جانو کہ وہ (خدمت اور عبادت سے) مسجد کی نگہبانی کرتا ہے تو اس کے ایمان کی گواہی دو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ بیشک مساجد کو ایماندار ہی آباد کرتے ہیں۔
مساجد میں آنے والے اللہ کے مہمان ہیں:
حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
«من غدا إلی المسجد أو راح أعدّ اللہ نزله من الجنة کلما غدا أوراح» (بخاری، مسلم)
کہ جو شخص صبح یا شام کو مسجد میں جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں مہمانی کا کھانا تیار کرتا ہے۔ جو جنت میں صبح و شام پیش کیا جائے گا (کیونکہ مسجد اللہ کا گھر ہے اور اس میں آنے والے اللہ کے مہمان ہیں)
نورِ کامل کی بشارت:
ترمذی، ابن ماجہ اور ابو داؤد میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
«بشر المشائین في الظلم إلی المساجد بالنور التام یوم القیامة»
کہ ایسے لوگوں کو جو تاریکی میں مسجد کی طرف (نماز پڑھنے کے لئے) جاتے ہیں، نورِ کامل کی بشارت دو جو قیامت کے دن ان کو حاصل ہو گا۔
مسجد کی حاضری رحمتِ الٰہی کا ذریعہ ہے:
بخاری اور مسلم میں ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
''سات شخصوں کو اللہ تعالیٰ اپنے عرش کے سایہ تلے اس دن جگہ دے گا جب کہ عرش کے سایہ کے سوا اور کوئی سایہ ہی نہ ہو گا اور ان سات شخصوں میں سے ایک شخص وہ بھی ہو گا کہ جب مسجد سے نکلتا ہے تو واپسی تک اس کا دھیان مسجد ہی کی طرف لگا رہتا ہے ۔
گناہوں کا کفارہ:
ترمذی میں ہے:
«والکفارات المکث في المساجد بعد الصلوٰة والمشي علي الأقدام إلي الجماعات»
کہ مسجدوں میں نماز کے بعد (اگلی نماز کے انتظار یا ذِکر الٰہی وغیرہ کے لئے) بیٹھ رہنا اور نماز با جماعت کی ادائیگی کے لئے پیدل چل کر جانا گناہوں کا کفارہ ہے۔
نیت پوری ہو گی:
ابو داؤد میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
''من أتی المسجد لشیء فھو حظه'' کہ جو شخص مسجد میں جس کام کے لئے آئے گا، وہ اس کا حصہ ہے۔
یعنی اگر ثواب کی نیت سے آئے گا تو ثواب ملے گا اور اگر دنیا کا طمع حاصل کرنے یا شہرت حاصل کرنے اور نمود و نمائش کے حصول کے لئے مسجد میں آئے ا تو اس کی یہ خواہش بھی پوری ہو گی۔ لیکن ظاہر ہے یہ چیز صرف دنیا میں فائدہ دے گی اور آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہ ہو گا۔ یا اس سے مراد یہ ہے کہ مسجد میں دعا قبول ہو گی۔
مذکورہ بالا احادیث کی روشنی میں کسی ایسے معاشرہ کے اعلیٰ و ارفع اور صالح ہونے میں کیسے شبہ کیا جا سکتا ہے جس کے افراد پانچ وقت مسجد میں جمع ہو کر فریضۂ نماز ادا کرتے ہوں؟
(2) مساجد کی تعلیمی اہمیت
اشاعتِ علم میں مسجد کا کردار:
مسلم معاشرہ کے قیام کے لئے اشاعتِ علم کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور بلاشبہ مسلمانوں کی تاریخ میں یہ کردار مساجد نے نہایت بہتر طریقہ سے ادا کیا۔ دورِ نبوی کی پہلی مسجد، مسجدِ نبوی تھی اور یہی مسجد ملّتِ اسلامیہ کا اوّلین مرکز قرار پائی۔ دیگر گوناگوں خصائص کے علاوہ اس مسجد کو اعلیٰ ترین درس گاہ بلکہ اس دَور کی یونیورسٹی ہونے کا فخر بھی حاصل تھا۔ جہاں شب و روز صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین معلّمِ انسانیت سے تعلیم و تربیت حاصل کرتے، خصوصاً اصحابِ صفہ تو مسجد نبوی میں رہ کر اسی کام کے لئے کمر بستہ رہتے۔ اسی مسجد میں حلقہ ہائے درس یہاں منعقد ہوتے اور تشنگانِ علم دور دراز سے آکر ان علمی سر چشموں سے اپنی پیاس بجھاتے۔ بنو امیہ اور بنو عباس کے دورِ اقتدار تک مسجد اسی اہمیت کی حامل رہی۔ اس زمانے میں خلفاء کی وابستگی بھی مساجد سے حد درجہ قائم رہی اور وہ ان کی سرپرستی کرتے رہے۔ مساجد میں امامت کے فرائض انجام دیتے، جمعہ کے روز منبر کی زینت بنتے اور علمی مسائل حل کر کے لوگوں کو مستفید فرماتے۔ عباسی دَور میں مامون و ہارون اس رعب و داب کے خلفاء تھے کہ قیصرِ روم ان کا نام سن کر لرزہ براندام ہو جاتا تھا، جب نماز کا وقت آتا تو تاج و تخت سے الگ ہو کر مسجد میں آتے اور فرائضِ امامت ادا کرتے۔ الغرض تاریخِ اسلام کے مختلف ادوار میں مساجد کو امتیازی حیثیت حاصل رہی اور یہ خانہ خدا ہونے کے علاوہ بہترین درسگاہیں اور یونیورسٹیاں تصور کی جاتی تھیں۔
موجودہ زمانے میں بھی کچھ عرصہ قبل تک مسجد کو مکتب کی حیثیت حاصل رہی لیکن بالآخر لوگوں نے اس دینی مشغلہ کو کاروبار بنا لیا۔ چند نفس پرستوں اور ہوس کے بندوں نے مخلص لوگوں کو بھی بدنام کر کے رکھ دیا۔ اور نتیجۃً آج لوگ مساجد میں قائم مدارس کے نام سے بھی دور بھاگنے لگے ہیں۔ لیکن اس میں مسجد کا کوئی تصور نہیں بلکہ یہ ہماری اپنی ذہنیتوں کا قصور ہے اور اس سے مساجد کی علیمی اہمیت و حیثیت پر کوئی زد نہیں پڑتی۔ خلوص نیتی سے اگر کام کیا جائے تو آج بھی قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہو سکتی ہے اور ان علمی سر چشموں سے اپنی پیاس بجھا کر اپنی عظمتِ رفتہ کو بحال کیا جا سکتا ہے۔
(3) مسجد کی سماجی و اقتصادی اہمیت
ایک کامیاب معاشرہ کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کے افراد ایک دوسرے کے ہمدرد و غمگسار ہوں۔ ایک کا دکھ سب کا دکھ اور ایک کی خوشی سب کی خوشی ہو۔ رسول اکرم ﷺ نے مسلمانوں کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:
''تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں۔ اگر جسم کے ایک حصہ کو تکلیف پہنچے تو پورا جسم اس کی وجہ سے بے چین و بے قرار رہتا ہے۔''
علاوہ ازیں قرآن مجید نے بھی قریبیوں، پڑوسیوں اور اہلِ محلہ وغیرہ سے حسن سلوک کا حکم اکثر مقامات پر دیا ہے۔ لیکن اس حکم پر عمل پیرا ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اہلِ محلہ ایک دوسرے کے حالات سے واقف ہوں، اور معاشرہ میں یہ کردار بھی جس خوبی اور جس شاندار طریقے سے مسجد ادا کرتی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ایک محلہ یا ایک گاؤں کے مسلمان دن میں پانچ مرتبہ مسجد میں جمع ہوتے ہیں۔ پھر ہر جمعہ کے روز بڑے پیمانہ پر ایک اجتماع عام ہوتا ہے۔ جس کے باعث لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب ہونے اور ایک دوسرے کے حالات جاننے کا موقع ملتا ہے اور بالآخر یہ چیز ایک دوسرے کی ہمدردی، ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹنے اور باہمی مسائل کے حل کے لئے ممد و معاون ثابت ہوتی ہے اور اس طرح معاشرہ ترویج و ترقی کی راہ پر گامزن ہو جاتا ہے۔ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ دورِ نبوی اور اس کے بعد خلافتِ راشدہ کے ادوار میں مسلمان صرف نماز کے لئے ہی مساجد میں اکٹھے نہیں ہتے تھے بلکہ ان کے تمام اجتماعی مسائل کے حل کے لئے صلاح و مشورے اور فیصلے وغیرہ بھی مساجد ہی میں ہوتے تھے۔
آج ہم مسلمان مساجد سے دور ہونے کی بنا پر اپنے اہل محلہ، قریبیوں اور ہمسایوں سے بھی کٹ کر رہ گئے ہیں اور ہمدردی وغیرہ کے جذبات سے یکسر عاری ہو چکے ہیں۔ ہمسایہ کی خیر خیریت پوچھنا، بیماری میں اس کی تیمار داری کرنا۔ اس کے دکھ سکھ میں شریک ہونا اور مصیبت میں اس کے کام آنا تو کجا اکثر لوگوں کو اپنے ہمسایہ کے نام اور کام کے متعلق بھی خبر نہیں ہوتی۔ بلکہ لا تعلقی اور بے حسی تو اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ رات کو پڑوس میں کسی شخص کے ہاں چوری ہو جاتی ہے۔ یا کوئی قتل ہو جاتا ہے اور قریبی مکان والے کو اس کی خبر تک نہیں ہوتی اور اگر وہ حالات سے آگاہ ہو بھی جائے تو بھی اتنی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ ہمدردی و تشفی کے چند بول ہی کہہ دے۔ مساجد میں روزانہ پانچ مرتبہ جمع ہو کر نماز پڑھنے والے افرادِ معاشرہ ان بدترین مثالوں کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔
چند دیگر فوائد:
نا انصافی ہو گی اگر ہم مسجد کی سماجی اہمیت کے ضمن میں ان فوائد کثیرہ کا ذکر نہ کریں جو ایک معاشرے کو مسجد کے قیام سے صرف حاصل ہی نہیں ہوتے بلکہ ان کے بغیر ایک صحیح معاشرہ پروان ہی نہیں چڑھ سکتا اور ترویج و ترقی کی راہوں پر گامزن ہونے میں ناکام رہ جاتا ہے۔
پابندیٔ وقت:
وقت کی پابندی کسی قوم کی بیداری اور معاشرہ کی خوشحالی کی ضامن ہے۔ اس کے برعکس سہل انگار اور اضاعتِ وقت کے مرتکب ہونے والے افراد ایک بہتر معاشرہ کی تعمیر میں ناکام رہتے ہیں جس سے پوری قوم بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ ایسی قوم کے افراد عموماً افلاس، بیماری، کمزوری اور فقر و فاقہ کے شکار ہوتے ہیں۔ بلکہ یوں کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ایسی قومیں آزادی کی حفاظت کرنا تو درکنار زندہ رہنے کا حق بھی کھو بیٹھتی ہیں۔ اور سر بلندی اور آزادی کی نعمتیں صرف ایسی قوموں کے حصہ میں آتی ہیں جن کے افراد چاق و چوبند، مستعد، وقت کی قدر کرنے والے اور ہر کام میں باقاعدگی کو اپنا شعار بنانے والے ہوتے ہیں۔ مسجد ہمیں دیگر فوائد سے مستفید کرنے کے علاوہ پابندیٔ وقت کا درس بھی دیتی ہے۔ دن میں پانچ مرتبہ اوقاتِ مقررہ پر اذان دے کر لوگوں کو مسجد میں بلایا جاتا ہے کہ تمام لوگ وقتِ مقررہ پر حاضر ہو کر فریضۂ نماز باجماعت ادا کریں اور اس نمازِ باجماعت کی آنحضور ﷺ نے نہایت سختی کے ساتھ تاکید فرمائی ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ:
''اگر مجھے عورتوں اور بچوں کا خیال نہ ہو تو میں اپنی جگہ کسی اور کو امام مقرر کر کے ان لوگوں کے گھروں کو جا کر آگ لگا دوں جو اذان سننے کے باوجود مسجد میں نہیں آئے۔'' (احمد)
(بخاری اور مسلم میں بھی یہ حدیث موجود ہے لیکن اس میں ''عورتوں اور بچوں'' کا ذِکر نہیں)
یہ فرمان اس نبیٔ عربی ﷺ کا ہے جس کے ہاتھوں کسی دشمن کو بھی کبھی کوئی تکلیف نہیں پہنچتی اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آپ ﷺ نماز باجماعت کو جو کہ پابندیٔ وقت کے لئے بہترین ٹریننگ کی حیثیت رکھتی ہے، کس قدر اہمیت دیتے تھے۔ افسوس آج مسلمان مسجد سے اپنا تعلق منقطع کر کے اس کے فوائدِ کثیرہ اور برکاتِ وافرہ سے محروم ہو گیا ہے۔ اس کے برعکس غیر مذاہب اور غیر اقوام نے ان اسلامی چیزوں کو ٹوٹی پھوٹی شکلوں میں اپنایا اور ان سے بھرپور فائدہ اُٹھایا۔ ہماری بد قسمتی کہ ہم نہ صرف ان چیزوں کو چھوڑ بیٹھے بلکہ آج اس بات سے بھی غافل ہو گئے ہیں کہ یہ اسلامی چیزیں ہیں اور بلا سوچے سمجھے وقت کی پابندی کو انگلش ٹائم (English Time) کا نام دیتے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر افسوسناک امر یہ ہے کہ ہم نے اپنی چیزیں غیروں کو دے کر ان کی بری، فحش اور ذلیل عادات و اطوار کو تو اپنے گلے کا طوق بنا لیا ہے۔ لیکن ان میں موجود اچھے طور طریق کو۔ جو بلاشبہ ہمارے ہی مذہب کی تعلیمات ہیں۔ ان کی افادیت کے قائل ہونے کے باوجود، اپنے لیے بارِ خاطر سمجھتے ہیں ۔ شاید ہم نے قسم کھا رکھی ہے کہ ہر اس بات سے دور رہیں گے جسے اسلام سے ذرا بھی مناسبت ہو گی اور جس میں ذرہ بھر بھی اچھائی موجود ہو گی۔ آہ! ام علی قلوب اقفالھا!
تنظیم (Discipline):
تنظیم کے ضمن میں وہ سب چیزیں آتی ہیں جو کسی قوم کے زندہ رہنے کے لئے انتہائی ضروری ہیں۔ گھر میں یا گھر سے باہر، درس گاہ ہو یا کھیل کا میدان، سفر ہو یا حضر، دفتر ہو یا مارکیٹ، زراعت کے کھیت ہوں یا صنعت و حرفت کی فیکٹریاں اور کارخانے، حالتِ امن ہو یا جنگ، حتیٰ کہ کھانے پینے، سونے جاگنے، اُٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے میں بھی نظم و ضبط اور ڈسپلن کا قائم رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ تنظیم کے بغیر کوئی معاشرہ نہ تو پنپ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی قوم منزلِ مراد سے ہم کنار ہو سکتی ہے۔ ایسی قوم کی مثال جو نظم و ضبط سے عاری ہو، اس گاڑی کی سی ہے جس کی بریکیں نہ ہو۔ جس کا کوئی راستہ متعین نہ ہو، جس کا نہ کوئی ڈرائیور ہو اور نہ ہی کوئی گارڈ یا کنٹرولر، بس اسے سٹارٹ کر کے چھوڑ دیا جائے۔ تو جس طرح اس گاڑی کا حفاظت و خیریت سے کسی جگہ پہنچنا ناممکن ہے بالکل اسی طرح تنظیم اور نظم و ضبط کے بغیر کسی قوم یا معاشرے کی کامیابی کے متعلق سوچا تک نہیں جا سکتا اور اس نظم و ضبط کا رس ہمیں نماز اور مساجد ہی سے ملتا ہے۔ دن میں پانچ بار نمازی مسجد میں حاضر ہو کر ایک امام کی اقتداء میں نماز پڑھتے ہیں اور ہر مقتدی پر یہ لازم ہے کہ امام کے اشاروں پر حرکت کرے۔ اس اقتداء میں نظم و ضبط کا اندازہ ذیل کے فرمانِ نبوی سے لگائیے، فرمایا:
«لا تبادروا الإمام إذا كبر فكبروا وإذا قال ولا الضالين فقولوا اٰمين وإذا ركع فاركعوا» (مسلم )
کہ امام سے پہل نہ کرو، جب وہ اللہ اکبر کہے، تم بھی اللہ اکبر کہو اور جب وہ ''ولا الضالین'' کہے تو تم آمین کہو اور جب رکوع کرے تو تم رکوع کرو۔
بلاشبہ یہ نظم و ضبط کی بہترین ٹریننگ ہے۔ پھر یہی نہیں کہ اس بات کو محض حکماً بیان کر دیا گیا ہو بلکہ اس کی خلاف ورزی کرنے والے کے متعلق سخت وعید آئی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
«اَمَا يخشي الذي يرفع رأسه قبل الإمام أن يحول الله رأسه رأس حمار»
کہ کیا وہ شخص جو امام کے سر اُٹھانے سے پہلے اپنا سر اُٹھاتا ہے اس بات سے نہیں ڈرتا کہ اللہ تعالیٰ اس کے سر کوگدھے کے سر جیسا بنا دے؟
اندازہ فرمائیے کہ جس معاشرہ کے افراد ایسے ہی تربیت یافتہ ہوں گے اور وہ اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں اسی نظم و ضبط کو اپنا شعار بنائیں گے تو کیا اس کے کامیاب و کامران ہونے میں کسی کو شبہ ہو سکتا ہے؟ اور کیا زندگی کی دوڑ میں ایسی قوم سے کوئی دوسری قوم۔ جو اس سبق سے نا آشنا ہو۔ سبقت لے سکتی ہے؟ ہرگز نہیں!
اتحاد اور مساوات:
طبقاتی کش مکش اور لسانی تعصبات دنیا کی کسی بھی قوم کے لئے مفید ثابت نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ انتشار و افتراق کا باعث بن کر بالآخر بتاہی اور ہلاکت پر منتج ہوئے ہیں۔ اسی لئے اسلام نے اس کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا۔ قرآن کریم میں ہے:
﴿إِنَّمَا المُؤمِنونَ إِخوَةٌ...١٠﴾... سورة الحجرات" مسلمان آپس میں سگے بھائیوں کی طرح ہیں۔
اور حدیث میں ہے:
«لا فضل لعربی علٰی أعجمي ولا لأ عجمي علی عربي ولا لأبیض علی أسود ولا لأبیض علی أحمر إلا بالتقوٰی أو کما قال علیہ الصلٰوۃ والسلام»
یعنی علاقے، رنگ یا زبان کی وجہ سے کسی کو دوسرے پر فضیلت نہیں بلکہ تم میں سے اللہ کے نزدیک عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی اور پرہیز گار ہو۔
بلاشبہ یہ وہ سبق ہے جو اتحاد، مساوات، اخوت، ہمدردی اور تعاون کے جذبات کا مرکزی نقطہ ہے۔ جس کو اپنا کر ہم دنیا میں سر بلند اور باعزت ہوئے اور جس کو خیر باد کہہ کر آج ہم ایک دوسرے کی گردن کاٹنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور نتیجتاً ہمیں اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ اقوامِ غیر ہمیں ترنوالہ سمجھ کر ہڑپ کرنے پر تلی بیٹھی ہیں اور ہمارے مطلعِ حیات پر تباہی و بربادی کے بادل چھا رہے ہیں۔ اسلام نے مساجد میں نماز باجماعت کے ذریعے اس سبق کو عملی رنگ میں ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ ؎