ارزاں بشر کا خون ہے گراں ہے اناج آج
پہلو میں درد قلب میں ہے اختلاج آج کرنا ہے اے نگاہِ کرم کر علاج آج
شاید نہ اس کے بعد کوئی ہاتھ اُٹھ سکے رکھ لے کسی کے دستِ دعا کی تو لاج آج
اک حسن منتظر ہے کہ کل کل پہ ہے بضد اک عشق منتظر ہے کہ کہتا ہے آج آج
فصلِ خزاں میں جس غمِ دل سے بہار تھی باقی نہیں ہے اس غمِ دل کا رواج آج
بازارِ زندگی کے کُل آئیں بدل گئے ارزاں بشر کا خون ہے گراں ہے اناج آج
اغوا و قتل و سود و زنا و شراب و رقص زوروں پہ چل رہا ہے یہی کام کاج آج
دنیا میں آج غیرتِ مسلم کو کیا ہوا من مانی کر رہا ہے یہاں سامراج آج
تو کل مرے گناہ و خطا کا نہ کر شمار اس کے سوا نہیں ہے کوئی احتیاج آج
عاجز پہنچ کے نقشِ کفِ پائے یار پر! گردوں نشیں ہے خاک نشیں کا مزاج آج