دیارِ غیر میں مُلکی سالمیّت اور ملّی عافیّت کی تلاش
اَیَبْتَغُوْنَ عِنْدَھُمُ الْعِزَّةَ
جبیں پہ گردرہ عشق لب پہ مہرِ سکوت دیارِ غیر میں پھرتا ہوں آشنا کے لئے
صدرِ پاکستان مسٹر بھٹو ۲۸؍ جون کو تقریباً گیارہ بجے قبل وپہر لاہور سے چندی گڑھ، پھر وہاں سے ''پاک بھارت سربراہی کانفرنس'' میں شمولیت کے لئے ۸۷ افراد کی ٹیم کے ہمراہ شملہ پہنچے جہاں موصوف کا استقبال نہ صرف نہایت سرد مہری سے کیا گیا بلکہ فاتحانہ خمار کے ساتھ، کم ظرف ہندو نے اپنی کم ظرفی کی نمائش بھی ضروری سمجھی۔
۲۸؍ جون کی شام کو مذاکرات شروع ہوئے اور ۲؍ جولائی ۱۹۷۲ء رات کو الوداعی ملاقات میں اچانک اور بالکل ڈرامائی انداز میں ''سمجھوتہ'' طے پا گیا۔ معاہدے کے اہم نکات اور واقعات یہ ہیں:
• بھارتی اور پاکستانی فوجیں بین الاقوامی سرحدوں تک پیچھے ہٹا لی جائیں گی۔
• جموں و کشمیر میں ۱۷ دسمبر ۱۹۷۱ء کی جنگ بندی کے نتیجہ میں جو کنٹرول لائن قائم ہوئی اس کا دونوں حکومتیں احترام کریں گی اور اس سے ان دونوں کی تسلیم شدہ پوزیشن متاثر نہیں ہو گی۔
• دونوں حکومتوں نے یہ اقرار بھی کیا ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں جنگ بندی لائن کی خلاف ورزی کے لئے طاقت کے استعمال کی دھمکی سے گریز کریں گی۔
• بین الاقوامی سرحدوں سے فوجوں کی واپسی معاہدے کی توثیق کے بعد ہو گی جو اس معاہدے پر دستخط کے تیس روز کے اندر اندر ضروری ہے۔
• دریں اثنا دونوں ملکوں کے نمائندے آپس میں ملاقات کریں گے تاکہ جنگی قیدیوں اور شہری نظر بندوں کی واپسی، دیرپا امن کے قیام، دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے، جموں و کشمیر کے سمجھوتے اور سفارتی تعلقات کی بحالی کی کوشش کریں۔
• دونوں ملکوں کے سربراہ باہمی طے شدہ تاریخ پر ملاقات کریں گے۔
• مواصلات، ڈاک و تار کی ترسیل اور دونوں ملکوں پر سے طیاروں کی پرواز کو دوبارہ شروع کرنے کے لئے اقدامات کیے جائیں گے۔
• معاشی اور دوسرے شعبوں میں تعاون اور تجارت کو امکانی حد تک بحال کیا جائے گا۔
• دونوں ملکوں کے شہریوں کو ایک دوسرے کے ملک میں آنے جانے کے لئے سفر کی سہولتیں دی جائیں گی۔
(نوائے وقت وغیرہ ۴؍ جولائی)
بعد میں قومی اسمبلی میں اس سمجھوتہ کی توثیق کی گئی مگر سنجیدہ سیاستدانوں نے اس کو کوئی اہمیت نہیں دی کیونکہ نیشنل اسمبلی میں صدر موصوف کی اپنی پارٹی کی اکثریت ہے جو بیگن کی نہیں صرف صدر بھٹو کی غلام ہے۔ اس میں ایسا عنصر بہت کم ہے جو صدر بھٹو کو مشورہ دینے کا حوصلہ اور اس کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ صدر بھٹو نے شملہ میں مسنہ اندرا گاندھی سے سمجھوتہ کیا اور اسلام آباد میں خود ہی قومی اسمبلی میں آکر اس کی توثیق بھی کر دی ہے۔ یقین کیجئے! پاکستان کی قومی اسمبلی کی یہ ذہنی ''قینچی'' بری طرح کھٹکتی ہے کیونکہ جمہوریت کی اوٹ اور اس کے نام پر ڈکٹیٹر شپ نافذ ہے اس لئے قومی اسمبلی کی طرف سے جو بھی فیصلے اور مباحث سامنے آتے ہیں ان کی افادی حیثیت کچھ یونی سی محسوس ہوتی ہے۔ الّا ماشاء اللہ۔
صدر بھٹو نے بر سر اقتدار آنے کے بعد، مختلف اوقات میں پاکستان کے مستقبل کے سلسلہ میں جو تقریریں کی ہیں یا بیان دیئے ہیں، ان سے ہم نے شروع سے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ وہ اب اس موڈ میں ہیں کہ جو ہو سو ہو ہمیں بہرحال بھارت سے اپنے جھگڑوں کو ختم کرنا چاہئے اور جیسے بھی بن پڑے اسے راضی کر لینا چاہئے اس لئے جو کچھ ہو رہا ہے اسے غیر متوقع نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی اسے کچھ زیادہ باوقار اور سنجیدہ کوشش قرار دیا جا سکتا ہے۔ بس یوں سمجھئے کہ صدر موصف شہزادےہیں۔ جان جوکھوں والی بات سے گھبراتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سستے چھوٹ جائیں لیکن انہیں کیا معلوم کہ ہماری تو اسی کشاکش میں گزری ہے۔ تن آسانی کی سوچ اور فرصت کہاں؟
اے ذوقِ اذیت مجھے منجھدار میں لے چل
ساحل سے کچھ اندازۂ طوفاں نہیں ہوتا
ہمارے نزدیک یہ سمجھوتہ دراصل رزمگاہِ حیات کے پر خطر لمحات سے ایک گونہ ''فرار'' ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ صلح جوئی بری ہے بلکہ صلح وہ جو شایانِ شان ہوتی ہے جو ''برابری کے تصور'' پر مبنی ہو اور فریق ثانی ''سمجھوتہ'' کو بخشش تصور کرنے کے بجائے مدّ مقابل کا وزن محسوس کرتے ہوئے اس کی ضرورت کا خود بھی معترف ہو۔ در نے یہ سمجھوتہ کر کے مصلحت کوشی کا تو درس ضرور دیا ہے، سخت کشی کا نہیں۔ خاص کر وہ مصلحت پرستی جو خوف، ڈر اور احساس کمتری کی غماز ہو ہمارے لئے قوم کی خود کشی کے مترادف ہے۔
اقبال مرحوم نے پیامِ مشرق میں ایک کہانی لکھی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
ایک ہرن نے دوسرے ہرن سے کہا کہ میں صیاد کے فتنوں اور تعاقب سے گھبرا گیا ہوں۔ ہر گھڑی اور ہر آن یہ کھٹکا لگا رہتا ہے کہ کب کوئی شکاری آگھیرے، اس لئے میں تو ''حرم'' میں جا کر زندگی کی گھڑیاں گزاروں گا، کیونکہ وہاں شکار کرنا حرام ہے اس کے جواب میں دوسرے ہرن نے کہا:
رفیقش گفت اے یار خرد مند اگر خواہی یات اندر خطر زی!
کہ اے دانا! زندگی کا لطف چاہتے ہو تو پھر ''خطرات'' میں جینے کی کشش کرو۔
دماوم خوشیتن را برفساں زن! زتیغ پاک وہر تیز تر زن!
اپنے آپ کو سنگ فسا (سان) پر مار اور جوہر دار تلوار کی طرح تیز دھار بن کر رہ۔
ایک اور مقام پر علامہ مرحوم لکھتے ہیں کہ:
تو این جنگ از کنار عرصہ بینی بمیر اند نبرد و زندہ تر شو!
تو (کار زار ہستی کی) یہ جنگ کنارے پر کڑا دیکھ رہا ہے۔ آ اور میدانِ جنگ میں مرکر زندہ تر ہو جا۔
میارا بزم بر ساحل کہ آنجا ہوائے زندگانی نرم خیز است
بدر یا غلط و موجش ور آویز! حیاتِ جاوداں اندرستیزاست
اپنی محفل ساحل پر نہ سجا کیونکہ اس جگہ زندگانی کی ہوا نہایت مدہم چلتی ہے بلکہ طوفان خیز دریا میں کود کر اس کی موجوں سے اُلجھ پڑ کیونکہ لازوال زندگی صرف حرب و ضرب میں (پوشیدہ) ہے۔
علامہ اقبال کہتے ہیں کہ ''حکم ہے کہ اگردشمن صلح کے خیال سے بے فکر ہو جائے تو اس پر چڑھائی کرنا حرام ہے۔ کیوں؟
سرِّ ایں فرمانِ حق دانی کہ چیست؟ زیستن اندر خطر ہا زندگیست
سترع می خواہد کہ چوں آئی بجنگ شعلہ گردی واشگانی کام سنگ
آزماید قوتِ بازوئے تو! مے نہدا لوند پیش روئے تو
باز گوید سرمہ ساز الوندرا! ازتف خنجر گداز الوندرا!!
یعنی حق تعالیٰ کے اس فرمان کا راز یہ ہے کہ خطرات میں رہنا ہی فروغِ زندگی ہے۔ شریعت چاہتی ہے کہ جب آپ آمادۂ جنگ ہوں تو شعلہ ہو جائیے اور پتھر کو بھی دو نیم کر دیجئے۔ شریعت آپ کی قوتِ بازو کا آزماتی ہے۔ اس لئے وہ آپ کے سامنے الوند کا پہاڑ رکھ کر کہتی ہے کہ اس پہاڑ کو پیس کر سرمہ بنا دیں اور اپنی تلوار کے حرارت سے الوند کو پگھال کر رکھ دیں۔
آپ حیران ہوں گے کہ بات معاہدہ کی ہے اور ہم نے پُر خطر مجاہدہ کا وعظ شریف شروع کر دیا ہے۔ آخر اس میں کیا تُک ہے! بات یہ ہے جیسا کہ ہم اوپر کی سطور میں لکھ چکے ہیں کہ اس معاہدہ اور سمجھوتہ پر برسرِ اقتدار پارٹی بالخصوص اور اس سے متاثر عوام کا ایک عنصر بالعموم جھوم اُٹھا ہے اور یوں جیسے: ؎
جان چھوٹی سو لاکھ پائے
اور خود صدر بھٹو جو ہزار سال لڑنے کے بلند بانگ دعوے کرتے رہے ہیں وہ تھکے ہارے دکھائی دیتے ہیں اور ہر قیمت پر ''حق و باطل'' کی اس آویزش سے چھٹکارا حاصل کرنے کے موڈ میں ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ وہ بیمار ذہنیت ہے جو عموماً قوموں کو غلامی کے لئے سازگار غذا مہیا کرتی ہے۔ قوم کے فکر و عمل کی قوتوں کو زنگ کھا جاتا ہے، تخلیقی صلاحیتیوں سے محروم ہو رہتی ہے اور غیرت و حرارت کی ان اقدار سے دامن جھاڑ کر ذِلت پر قناعت کرنے لگ جاتی ہے جو اس کے مستقبل کی ضامن ہوتی ہیں۔
ان اربابِ اقتدار نے قوم کو اغراض پرست بنا کر قوم کو بزدل بنا ڈالا ہے۔ اس کی تعمیر، سیرت اور کردار کے استحکام کی قطعاً کوئی فکر نہیں کی اور جو آتا ہے وہ اس میدان میں کھیلوں سے بازی لے جاتا ہے۔ اس پامال ڈگر پر نظرِ ثانی اور تنقیدی نگاہ کی توفیق نہیں پاتا۔ ہم چاہتے ہیں کہ اب یہ صورت بدل جانا چاہئے۔ قوم کو روٹی کپڑے تک اڑنا نہ سکھائیے۔ ان کو ملّی مزا میں پختہ اور فکر و عمل میں ایمان کے لحاظ سے معیاری انسان بنانے کی کوشش کی جائے۔ ان شاء اللہ اس کے بعد آپ ''معاہدوں اور سمجھوتوں'' کی بھیک نہیں مانگیں گے۔ بلکہ خود ہی ان کی کھیر بانٹیں گے اور دنیا آپ کے معاہدوں پر فخر کرے گی۔
اس کے علاوہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے رب سے کچھ معاہدے کر رکھے ہیں لیکن ان کے سلسلہ میں غیر محتاط بلکہ طوطا چشمی کی حد تک ہم نے بے وفائی برتی ہے۔ اگر آپ ان کے سلسلہ میں سدا ایسے ہی رہے تو یقین کیجئے کہ دوسرے جو بھی معاہدے کریں گے۔ ان سے آپ بہ مشکل ہی متمتع ہوں گے۔ کیونکہ مسلم کہلاتے ہیں پر مسلم بنتے ہیں، اس لئے آپ کے اندر وہ مثالی کردار اور شخصیت نہیں اُبھر رہی جس کی دنیا شرم رکھتی ہے اور وزن محسوس کرتی ہے۔
ہمارے بنیادی مسائل، جنگی قیدیوں اور شہری نظر بندوں کی رہائی، مسئلہ کشمیر اور مشرقی پاکستان میں بھارت کی جارحیت کے خلاف احتجاج تھا مگر ان کو جوں کا توں رکھنے کے بعد آکر سمجھوتوں کی ''عیدی'' منانا تھوڑے ہی ظرف کی بات ہے۔ گویا کہ اب آپ نے مغربی پاکستان کی سرحدوں پر خلاصی پانے کے لئے ایک گونہ بے چین بے تابی کا مظاہرہ کیا ہے جو کچھ زیادہ خوش آئندہ بات محسوس نہیں ہوتی۔ ہم سے تو عرب ہی بہتر رہے جو ہزار مجبوریوں کے باوجود برسوں سے قومِ یہود کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ کر بات کرنے کو اپنے لئے بے عزتی اور بے غیرتی تصور کرتے آرہے ہیں مگر آہ! ہزار سال تک لڑنے والا جواں سال صدر چند ماہ بھی ''خوابِ وصال'' کا انتظار نہ کر سکا۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ سمجھوتہ بالکل صفر رہا ہے۔ گزارش یہ ہے کہ مقام مقامِ عزیمت نہیں رہا۔ آپ کہیں گے کہ مقابلہ کی تاب و تواں نہیں تھی۔ ہم کہتے ہیں کہ یہی آپ کی بھول ہے، مقابلہ کی تاب و تواں کیا، آپ بذاتِ خود بہت بڑی ''تاب و تواں'' ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ آپ خود تاب و تواں نہیں رہے اور جتنی باقی ہے اس کو مصلحت کوشیوں کے ہاتھوں بیچے جا رہے ہیں۔ علاج روگ کا کیجئے۔ لیکن آپ کا یہ ہومیو پیتھی علاج کہ علاج بالمثل چاہئے۔ آپ کو یہاں کام نہیں دے گا۔
اس سمجھوتہ کا تاریک ترین پہلو یہ ہے کہ بھارت کو ''کہہ مکرنی'' کا ڈھنگ خوب آتا ہے اور وہ اس سلسلہ میں بے شرمی کی حد تک ڈھیٹ ہے۔ مسئلہ کشمیر خود ہی اقوام متحدہ میں لے گیا تھا۔ لیکن بعد میں تاویلوں اور کہہ مکرنیوں کا جو ریکارڈ اُس نے قائم کیا ہے وہ کسی س پوشیدہ نہیں ہے۔
صدر بھٹو کو چاہئے کہ اب اندرونِ ملک ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی رِیت کا کوئی توڑ مہیا کریں تاکہ قوم کو اعداء اللہ کے سامنے ''سیسہ پلائی'' دیوار ثابت کیا جا سکے۔ اور کردار میں ملّی روایات کو دُھرایا جا سکے۔ بخدا! ہم اب نرے دنیا دار، ملک کے بہی خواہی کے مدعیوں سے مایوس ہو چکے ہیں۔ یہ چکر باز لوگ ہیں۔ انہوں نے پوری قوم کو چکروں میں لا کر تباہ کر ڈالا ہے۔ قوم کے لئے اب ان سے رہائی پانے کا کوئی نسخۂ شفا تشخیص کیجئے تاکہ قوم کو وہ رہنما پھر ہاتھ آجائیں جن کی زندگیاں قرآن و سنت کی غماز ہوں اور بھنور میں گھری ہوئی ملک کی نیا کو ساحلِ عافیت سے ہمکنار کر سکیں۔ معاہدے بھی ان کے معاہدے ہوں گے، جنگ بھی ان کی جنگ ہو گی۔ باقی جو رہے، سراپا ضایع ضیاع ہی ضیاع ہے۔
جائزے
سندھ میں زبان کا جھگڑا اٹھا، کہتے ہیں جنہوں نے یہ فتنہ کھڑا کیا تھا، انہوں نے ہی بالآخر اسے دبایا بھی۔ بہرحال محرک اس کا کچھ ہو اور کوئی ہو، یہ ایک المیہ ہے کہ جب تک ملک کی سرکاری زبان انگریزی رہی کوئی نہیں بولا، جب ملک کی ایک زبان کا مرحلہ آیا تو چیخیں نکل گئیں۔ خوب!
زبان کا دائرہ جتنا وسیع ہتا ہے اتنا ہی قومی وحدت کا دائرہ وسیع ہوتا ہے اور ملک کے اندر زبانوں کی جتنی اکائیاں چالو ہوتی ہیں ملکی اتحاد اتنی ہی اکائیوں میں منقسم ہو جاتا ہے جس کے نتائج انتشار اور شکایتوں کی شکل میں ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔ امام ابن تیمیہؒ کا نظریہ ہے کہ مقامی زبان کو حرام اور شجرِ ممنوع قرار دیئے بغیر ملک کی سرکاری زبان بہرحال عربی ہونی چاہئے۔ امام صاحب نے بجا فرمایا ہے۔ یہ ہماری روایات کی امین بھی ہے اور کتاب و رسول کی زبان بھی۔ اگر ہم نے ان کے نام پر نسلی رشتوں کی قربانی دی ہے تو ان کی خاطر اپنی زبان کی قربانی دینے میں کیا شے مانع ہے؟ دراصل جو لوگ اپنی علاقائی زبانوں پر مصر ہیں وہ دراصل اپنی اس جاہلی تہذیب و تمدن کا تحفظ چاہتے ہیں جس کو انہوں نے محض اللہ اور رسول کی خاطر چھوڑا تھا یا یہ کہ قرآن و حدیث سے مناسبت حاصل کرنے کے لئے ان کے دلوں میں کوئی تڑپ موجود نہیں ہے۔
عربی نہ سہی، بہرحال اردو بالکل غیر علاقائی زبان ہے جو بین الاقوامی شہرت حاصل کر رہی ہے۔ جس میں اسلامیات کا محیّر العقول خزانہ محفوظ ہو گیا ہے۔ مگر نادان دوستوں کے ہاتھوں اس کا متقبل تاریک ہونے کو ہے۔ ہم سوچتے ہیں یہ لوگ ابھی لیڈر ہیں۔ عوام ہوتے تو خدا جانے کیا کیا گل کھلاتے اور کیا کیا ستم ڈھاتے؟
ایک عام شکایت ہے کہ صدر بھٹو کے وزیروں کی ٹیم ملک کے شایانِ شان نہیں ہے اور ملک کو جن مشکلات کا سامنا ہے ان کے سلسلے میں شاید ہی کوئی دکھ کی دوا بن سکے۔ عوامی ایک بھی نہیں، عامی تقریباً سارے ہیں۔ ملک کی خدمت کم کرتے ہیں۔ صدر موصوف کی خوشامد زیادہ۔ گویا کہ یہ ان کے خصوصی دعا گوؤں کی ایک جماعت ہے جو مسٹر بھٹو کے بحرِ بے کنار کی ذاتی موجیں ہیں۔
کچھ لوگوں کو یہ بھی کہتے سنا ہے کہ ان کی اکثریت سفارش اور منت سماجت کے ذریعے لیلائے وزارت تک پہنچی ہے۔ اس لئے یہ لوگ ''جی حضوری'' زیادہ ہیں۔ دیدہ ور مشیر کم۔
بر سر اقتدار آنے کے بعد انہوں نے صرف دو کام کیے ہیں ایک ذاتی دکھ اور ذاتی انتقام کی پیاس بجھائی ہے اور اس کم ظرفی میں اتنے دور نکل گئے ہیں کہ دل جیتنے کی بجائے ذاتیات میں ملوث پائے گئے ہیں جس کی وجہ سے بالواسطہ طور پر صدر موصوف کی ذاتِ گرامی بھی زیرِ بحث آجاتی ہے۔
دوسرا مکروہ کام جو انہوں نے کیا ہے وہ ایک نجی ملازم کی طرح در موصوف کی چاکری ہے۔ ان دو کاموں سے ماسوا اگر انہوں نے کچھ کیا ہو تو اسے منظر عام پر لایا جائے۔
صدر موصوف نے بض وزیروں کا انتخاب اپنے خصوصی مصالح اور وزیر موصوف کی کسی خاص ذاتی کمزوری کے پیش نظر کیا ہے اور بعض کو محض شکار کرنے کے لئے رکھا ہوا ہے۔ کچھ کا تو یہ حال ہے کہ وہ مزدوروں کا شکار کرتے ہیں۔ بعض علماء سوء اور پیرانِ سالوس پر ڈورے ڈالنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو عوام کی دین پسندی کا استحصال کرنے میں مہارتِ تامّہ رکھتے ہیں۔ الغرض ان میں اکثریت ان وزراء کی ہے جن کو ملک میں اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا۔ اگر کبھی وقت ملا تو ہم بعض وزیروں کی کارستانیوں کی تفصیلات سے صدر اور قوم کو آگاہ کرنے کی کوشش کریں گے۔
ڈیرہ غازی خان سے قومی اسمبلی کے ممبر اور جماعتِ اسلامی کے راہنما ڈاکٹر نذیر احمد کو کسی بد نصیب اور شقی القلب نے شہید کر ڈالا ہے اور اس سلسلہ میں مقامی پولیس اور حکومت نے جو طرزِ عمل اختیار کیا ہے، اس سے عوام کے دلوں میں مختلف قسم کے شکوک و شبہات پیدا ہونے قدرتی بات ہے۔
پیپلز پارٹی کے بر سرِ اقتدار آنے پر سماج دشمن عناصر کے جس طرح حوصلے بلند ہوئے ہیں اور وہ جو نہ کر دنیاں کر گزرے ہیں ان سب کا کریڈٹ پیپلز پارٹی کو مل سکتا ہے اور ملنا چاہئے۔
ڈاکٹر نذیر احمد شہید ہر دل عزیز لیڈر، مخلص رہنما، بے داغ داعی اور اَن تھک مجاہد انسان تھے۔ اس لئے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ یہ قتل کسی ذاتی رنجش کا نتیجہ ہو۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے تو پھر کیا ہے؟ اس پر ہم اس کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ ؎
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟
اس سانحہ کا سب سے زیادہ مایوس کن پہلو یہ ہے کہ ابھی تک اس معمہ کو حل کرنے میں حکومت ناکام رہی ہے۔ بہرحال اس قسم کی دھاندلیوں کے بعد عوام میں بڑی بے چینی پائی جاتی ہے اور ان سے ایک گونہ ہراس پیدا ہو جاتا ہے جو بالکل قدرتی امر ہے۔
اس سانحہ پر ادارۂ محدث ڈاکٹر شہید مرحوم کے متعلقین سے پوری ہمدردی کا اظہار کرتا ہے اور مرحوم کے لئے عاگو ہے کہ حق تعالیٰ ان کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عنایت کرے اور حکومت سے اپیل کرتا ہے کہ اس سانحہ کا معمہ حل کرنے کے لئے سنجیدگی کے ساتھ کوشش کرے اور ظالموں کو کیفرِ کردار تک پہنچائے۔ اگر حکومت ملک کے پُر امن شہریوں کی عزت و آبرو اور جان و مال کی حفاظت کرنے میں ناکام رہتی ہے تو پھر ملک کے عوام اس حکومت سے اور کیا دل چسپی رکھ سکتے اور توقع کر سکتے ہیں۔
(۴)
پریس کی آزادی ایک ایسا مسلمہ اصول اور نظریہ ہے جس کا نعرہ نہایت شد و مد کے ساتھ مسٹر بھٹو نے بھی بلند کیا تھا مگر افسوس! جو حشر ان کے دوسرے وعدوں کا ہوا وہی اس کا بھی ہوا۔ یہ بات صرف موجودہ حزبِ اقتدار کی نہیں بلکہ ان سب کی ہے جو برسرِ اقتدار آئے اور اس کی ایک وجہ ہے، جو بہت بھاری اور وزنی ہے وہ یہ کہ:
اس ملک میں یہ ایک ریت بن گئی ہے کہ حصولِ اقتدار کے لئے عموماً لوگ جھوٹے وعدے کرتے اور اَن ہونے سبز باغ دکھاتے ہیں، جب حسنِ اتفاق سے بر سرِ اقتدار آجاتے ہیں تو دنیا ان کو وہ وعدے اور نعرے یاد دلاتی ہے لیکن اب یہ یاد دہانیاں ان کے لئے گالیاں بن جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی ان ذاتی کمزوریوں کا ذِکر ان کے لئے سوہانِ روح بن جاتا ہے جن کی وجہ سے ان کی ''نا اہلی'' نمایاں ہو سکتی ہے۔ حقیقت میں اربابِ اقتدار چڑ کر اپنی نا اہلی کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہی چیز ''دلیلِ نا اہلی'' بن جاتی ہے۔ اس لئے عموماً دھڑکتے دل کے ساتھ وہ اخبارات کو ہاتھ لگاتے ہیں اور جب کوئی ایسی بات ان میں دیکھ لیتے ہیں جو ان کو عریاں کر سکتی ہے، تو سٹپٹاتے ہیں، گھبراتے ہیں اور کتراتے ہیں۔ ظاہر ہے وہ ان کمزوریوں پر تو قابو پا نہیں سکتے لہٰذا اخبارات کا گلا گھونٹنے کی کوشش کرنے لگ جاتے ہیں۔ ہمارے نزدیک اخبارات کی تنقید ان کے لئے کڑوی دوا تو ہوتی ہے پیامِ موت نہیں ہوتی۔ ہاں ان کے لئے مرگِ مفاجات کا سامان ضرور بن جاتی ہے جو اصلاحِ حال کے بجائے چڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے برعکس جو خوش نصیب حکمران اخبارات کے آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھتے رہتے ہیں وہ سنور جاتے ہیں۔ مگر افسوس! صدر بھٹو کو کچھ وزراء ایسے دستیاب ہوئے ہیں جو ان کو مصلح سے زیادہ منتقم بنا رہے ہیں۔
بہرحال ملکی اخبارات کے سلسلہ میں حزبِ اقتدار نے جو پالیسی اختیار کر رکھی ہے وہ ان کے نعروں اور وعدوں کے نہ صرف خلاف ہے بلکہ ان کے اقتدار کے لئے فالِ بد بھی ہے۔ اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ چڑنے کے بجائے ان سے سبق لینے کی کوشش کریں اور جمہوری ملکوں کی طرح اخبارات اور ان کی آزادی کا احترام کریں۔ ملکی اخبارات کی بے چینی پورے ملک کو بد نام کر سکتی ہے۔ خاص کر اخبارات کو ممنون کرنے یا دھونس کے ذیعے ان کو دبانے کی کوششیں ملکی اخبارات کو ''بے ضمیر'' بنانے کی ایک مذموم کوشش ہے۔ اب حکومتِ پاکستان کا یہ اعلان کہ ''یکم اگست کو پورے ملک میں یومِ آزادیٔ صحافت سرکاری طور پر منایا جائے گا۔'' بڑا دلچسپ ہے۔یہ ملحوظ رہے کہ اس سے پہلے خان ولی خان اور میاں طفیل اس کا اعلان کر چکے ہیں لیکن یہ خیال رہے کہ ؎ نقل را عقل باید
(۵)
صدر سمیت اربابِ اقتدار کا اندازِ گفتگو قائدانہ سے زیادہ مخاصمانہ ہوتا ہے۔ خاص کر جب اپنی کسی حماقت کو چھپانے کی ضرورت انہیں محسوس ہوتی ہے تو اس پر پردہ ڈالنے کے لئے اپوزیشن پارٹیوں کا نام لے لے کر ان کو کوستے اور موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے سلسلہ میں انکا یہ کہنا کہ:
''وہ سماج دشمن ہیں، غدار ہیں، سرمایہ داروں کے ایجنٹ ہیں، ملک کو تہس نہس کرنے کے در پے ہیں وغیرہ وغیرہ، حد درجہ غیر محتاط طرزِ گفتگو ہے۔ اگر وہ ایسی ہی ہیں تو ان کے خلاف عدالت میں کیس کرنا چاہئے۔ ورہ عوام سے یہ بھی غداری ہو گی۔
متمدن ممالک اور زندہ قوموں میں ہی اختلافات پائے جاتے ہیں مگر وہ دوسروں کو جلی کٹی سنانے کے بجائے قوم کے سامنے اپنے اپنے پروگرام پیش کرتے ہیں، عوام کو سوچنے سمجھنے کا موقع دیتے ہیں، اور آزادانہ غور و فکر سے وہ ایک نتیجہ پر پہنچ کر اپنی مرضی کے رہنما کا انتخاب کر لیتے ہیں۔ پھر انتخاب جیت کر مخالف جماعتوں پر لے دے کر کے اپنا وقت ضائع نہیں کرتے۔ بلکہ اپنے پیش کردہ پروگرام کے مطابق پروگرام بنا کر چل پڑتے ہیں۔ ان کو کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرنا پڑتی، نہ موافق نہ مخالف۔ اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ صدرِ مملکت اپنا رویہ اور زبان بدلیں۔
(۶)
تریپولی ریڈیو کے ایک نشریہ میں مصر کے صدر انور السادات سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ لیبیا کے صدر کرنل معمر قذافی کا یہ مطالبہ فوراً مان لیں کہ:
مصر اور لیبیا کو آپس میں مدغم کر کے ایک مملکت بنا دیا جائے۔ ریڈیو طرابلس نے روزنامہ ''البلاغ'' کے اداریہ کا حوالہ دیتے ہوئے صدر انور السادات سے صدر قذافی کی پیش کش کو بلا تاخیر قبول کر لینے کی اپیل کی۔ اداریہ میں کہا گیا تھا کہ لیبیا اسرائیل کے خلاف جنگ میں مصر کا نہایت طاقتور اور با اعتماد حلیف ثابت ہو گا۔ (نوائے وقت ۲۷؍ جولائی)
صدر قذافی کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے انہوں نے نہایت ہی مبارک اور مطلوب امر کے لئے تحریک ڈال دی ہے۔ ہمارا شروع سے ہی یہ نظریہ رہا ہے کہ مسلم کی جغرافیائی، نسلی اور لسانی اکائیاں کم سے کم تر کرنے کی کوشش کی جائے۔ کیونکہ وحدتِ ملّت، ہماری سیاست کا بنیادی محور ہے۔ تقسیم کار کی حیثیت سے مختلف وحدتوں میں تقسیم ہونا بُرا نہیں لیکن جداگانہ مملکتوں کا تصور اسلامی نہیں ہے۔ اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ پورے عالمِ اسلام کو صدر قذافی کی پیشکش کا نہایت سنجیدگی سے مطالعہ کرنا چاہئے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ بات بالکل صاف نظر آتی ہے کہ کرسی اور جاہ و حشمت کے ان بھوکوں کے لئے جنہوں نے اپنی ہوسِ اقتدار کے لئے امّتِ مسلمہ کے حصے بخرے کیے ہیں ان کو اپنی ان بے آبرو اور مختصر اکائیوں اور یونٹوں میں کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ روز بہ روز ان کی بے عزتی کی تقریبات منعقد ہو رہی ہیں۔ ان میں اگر ذرہ بھر بھی حمیت اور غیرت ہو تو ان کو اپنی ڈیڑھ ڈیڑھ بالشت کی جداگانہ ریاستوں کو ختم کر کے ''وحدتِ ملّی'' کا مظاہرہ کرنا چاہئے اس سے ان سب کی بگڑی بن جائے گی (ان شاء اللہ) دنیا بھی سدھر جائے گی اور آخرت بھی۔ ذرا اس نسخۂ کیمیا کو بھی آزما کر دیکھ لیجئے۔ اللہ آپ کے ساتھ ہے۔
(۷)
پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر مسٹر جاوید ہاشمی نے ایک عظیم اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا خوب کہا ہے:
''مسٹر بھٹو نے مغربی پاکستان میں چالیس فیصد سے بھی کم ووٹ حاصل کیے تھے۔۔۔۔ مگر آپ لوگ شکست خوردگی کا شکار ہو گئے اور ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر عوام کی آواز کو مؤثر طور پر آگے بڑھانے میں ناکام رہے۔''
انہوں نے مزید کہا کہ۔۔۔۔ ''آپ باقی ماندہ پاکستان کو بچانے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ لیکن خود آپ کی صفوں میں اتحاد نہیں۔ اگر ملک کو بچانا ہے تو قومی رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے متحد ہوں۔'' (وفاق ۲؍ جولائی)