تعارف و تبصرۂ کتب

نام کتاب: جائزہ مدارسِ عربیہ، مغربی پاکستان

سائز: ۱۷x۲۷/۸

ضخامت: ۸۰۳: صفحات

قیمت: بائیس (۲۲) روپے

ملنے کا پتہ: مسلم اکاومی ۲۹ / ۱۸ محمد نگر علامہ اقبال روڈ لاہور

''جائزہ مدارس عربیہ مغربی پاکستان'' موضوع کے لحاظ سے ایک ایسی کتاب ہے جسے کاروباری نقطہ نظر سے شائع کرنے کا کوئی شخص حوصلہ نہیں کر سکتا۔ بلکہ اس کام کے لئے کوئی انتہائی مخلص شخص ہی جو خود مدارسِ عربیہ کی ضرورت اور افادیت سے واقف ہو اور دوسروں پر اس کی افادیت و اہمیت واضح کرنا چاہتا ہو، حوصلہ کرے گا۔ بالفاظ دیگر حافظ نذر احمد صاحب جیسا بے لوث انسان ہی یہ جوئے شیر لانے کے لئے تیشہ اُٹھا سکتا ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ ایسی دستاویزی اور معلوماتی کتب سرکاری سرپرستی میں شائع ہوتیں مگر افسوس ہے کہ سرکاری سطح پر مختلف اداروں اور محکموں سے متعلق تفصیلات و معلومات تو کتب کی صورت میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ بلکہ year look پر کثیر رقم خرچ کی جاتی ہے لیکن مدارسِ عربیہ کے موضوع کو ان کی معاشرتی اور دینی عظمت کے باوجود درخور اعتنا نہ سمجھا گیا، حالانکہ تاریخ شاہد ہے کہ انہی مدارس سے ایسی ایسی نامور اور نادر روزگار ہستیاں فارغ ہو کر نکلیں جنہوں نے اقطارِ عالم میں علم و فن کے چراغ روشن کیے، زنگی کے مختلف شعبوں میں حیرت انگیز انکشافات اور ایجادات کیں کہ انہی کو بنیاد بنا کر اور انہی سے رہنمائی حاصل کر کے آج اقوام علوم و فنون کے میدان میں ترقی کی منازل طے کر رہی ہیں۔

''جائزہ مدارس عربیہ'' یقیناً موجودہ لا دینی دور میں موضوع کے لحاظ سے ایک خشک کتاب ہے۔ کاروباری لحاظ سے خسارے کا سودا ہے لیکن اگر تحقیقی میدان میں اہل علم موضوع کی دلچسپی اور رنگینی اور مالی منفعت کو معیار قرار دے لیتے تو آج نہ دنیا کا جغرافیہ مرتب ہوتا، نہ ریاضی و شماریات کا وجود ہوتا اور نہ ہی نباتات و جماعات کے فوائد و خواص سے دنیا کو واقفیت ہوتی۔

دینی لحاظ سے مدارسِ عربیہ کی اہمیت کا اندازہ اس اعلیٰ ترین مقصد سے کیا جا سکا ہے جس کی بنیاد پر یہ مدارس قائم کئے جاتے ہیں۔ وہ مقصد کتاب کے مرتب کے الفاظ میں یوں ہے:

''مدارسِ عربیہ کے اساتذہ اور تلامذہ کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ علومِ اسلامیہ تعلیم، حق تعالیٰ کی عبادت اور وراثتِ انبیاء ہے۔ یہ تعلیم ان کے دین و ایمان کی امانت اور دنیا و آخرت میں فلاح و کامرانی کا ذریعہ ہے۔''

آج اسلام خواہ ایک نظریہ کی حیثیت سے ہے۔ اگر زندہ ہے تو محض انہی مدارس کے طفیل زندہ ہے۔ سرکاری اعانت و معاونت سے محروم بلکہ مخالفت و حوصلہ فرسائی کی فضا میں ان مدارس نے دینِ قیم کی شمع کو روشن کر رکھا ہے۔ روکھی سوکھی کھا کر، ٹوٹی پھوٹی چٹائیوں پر بیٹھ کر قرآن و حدیث، فقہ و کلام، تاریخ و سیر، صرف و نحو، بلاغت و ادب، منطق و فلسفہ اور ہیئت و ہندسہ جیسے دقیق علوم و فنون میں دسترس حاصل کرنا کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے۔ یہ وہ کام ہے جو جدید تعلیمی ادارے بھرپور سرکاری سرپرستی کے باوجود نہیں کر سکے۔ اس کتاب میں ایسے ہی۸۹۳ مدارس عربیہ کا تعارف کرایا گیا ہے۔ حالانکہ پوری تگ و دو کے باوجود اس فہرست کے مکمل ترین ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ یقیناً کئی اہم مدارس حافظ صاحب موصوف سے بروقت تعاون نہ کرنے کی بنا پر رہ گئے ہیں جیسا کہ انہوں نے ایسے مدارس کی ضلع وار فہرست ایسے ہر Chapter کے اختتام پر دے دی ہے جن کو سوالنامہ بھیجا گیا لیکن جواب موصول نہ ہوا۔ اسی طرح کئی ایسے مدارس بھی رہ گئے ہیں جن کی اطلاع نہ مل سکی یا مرتب موصوف ہی سے ذھول ہو گیا مثلاً گوجرانوالہ میں جمعیت اہلحدث کا بہت اہم مدرسہ جامعہ محمدیہ سابقہ مدینۃ العلم یا جامعہ شرعیہ جی۔ ٹی۔ روڈ جو اپنی عظیم الشان عمارات میں شان و شوکت سے چل رہا ہے۔ مسلم اکادمی کے جائزہ مدارس عربیہ مغربی پاکستان کے دونوں ایڈیشنوں میں اس کا کہیں ذکر نہیں۔ ایسی چند ایک فروگزاشتوں کے باوجود کتاب ہر لحاظ سے ہت جامع ہے۔

حافظ نذر احمد صاحب کی سعی و کاوش کا صحیح اندازہ تو اصل کتاب کے مطالعہ اور متنوع مباحث کی اہمیت کے مطالعہ کے بعد ہی لگایا جا سکتا ہے تاہم تبصرے میں چند ایک جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں۔

مدارس کا تعارف صوبہ وار اور ضلع وار کرایا گیا ہے۔ مثلاً صوبہ پنجاب میں ۳۶۴ مدارس ہیں جن میں سے ۲۱۴۶۵ طلباء ۲۰۶۳ سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اسی طرح صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کے اعداد و شمار مہیا کئے گئے ہیں۔ مسلک کے لحاظ سے مدارس کی الگ الگ تعداد گئی ہے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے اور پھر ہر دس سالہ تدریجی ارتقا کا نقشہ ضلع وار مرتب کیا گیا ہے۔ دار الکتب، دار الاقامۃ، کتابوں اور مقیم طلباء کی تعداد مہیا کی گئی ہے۔ مختلف اضلاع کے مدارس کا سالانہ آمد و خرچ کا نقشہ دیا گیا ہے۔ آمد و خرچ کے سلسلہ میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے اصولوں کا قلمی عکس شامل کیا گیا ہے جو یقیناً ایک تبرک اور تاریخی تحریر ہے۔

مدارس کے تعارف کے سلسلہ میں جو تفصیلات دی گئی ہیں۔ ان کی ترتیب یوں ہے نام، پتہ، مہتمم اور صد مدرس کے نام۔ اساتذہ کرام کے اسماء گرامی۔ مدرسہ کی مختصر تاریخ۔ مسلک، نصاب، طلباء کی تعداد، مطبوعات، میزانیہ۔

تقریباً ۲۷ مدارس کی مختلف پہلوؤں کی تصاویر بھی دی گئی ہیںَ مدارس کے تفصیلی تعارف سے پہلے ہر صوبہ کا تفصیلی نقشہ دیا گیا ہے جس کی پشت پر اس صوبہ کے مدارس کا ہمہ پہلو خلاصہ موجود ہے۔ اسی طرح ہر ضلع کے مدارس کے تعارف سے پہلے اس ضلع کا جامع، تاریخی، جغرافیائی اور معاشرتی تعارف کرایا گیا ہے۔ مختلف مدارس کے زیر اہتمام جو جرائد و رسائل شائع ہوتے ہیں ان کے نام پتے اور ٹیلیفون نمبر بھی کتاب میں درج کر دیئے گئے ہیں۔ غرض تعارف کا شاید ہی کوئی پہلو یا گوشہ رہ گیا ہو۔

کتاب کی افادیت و اہمیت میں جو چیز خاص طور پر نمایاں حیثیت کی حامل ہے وہ مندرجہ ذیل ابواب ہیں:

''مدارس عربیہ میں طرزِ تعلیم، نظام تعلیم کے مختلف پہلو، دینی مدارس اور دنیوی تعلیم، مدارس عربیہ میں فنی اور پیشہ وارانہ تعلیم، مدارس عربیہ اور تعلیم نسواں، مدارس عربیہ کا نظم نسق۔''

یوں تو اس کتاب کا مطالعہ ہر صاحب علم کے لئے مفید ہے لیکن مدارس عربیہ اور تعلیم و تدریس سے تعلق رکھنے والے حضرات کے لئے تو اس کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ چراغ سے چراغ جلتا ہے اور یہ کام تبھی ہوتا ہے، جب وہ ایک دوسرے کے قریب آئیں۔ دوسروں کے تجربات سے آدمی بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے اور وہ کام جو دوسروں نے سالوں میں کیا ہو۔ مہینوں میں سرانجام دیا جا سکتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ کتاب ایک رہنما کتاب اور ہر مدرسہ کی لائبریری میں اس کا موجود ہونا ضروری ہے۔

اس ضمن میں نامناسب نہ ہو گا اگر ہم حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرائیں کہ اگر وہ ایسی اہم کتب تیار کرانے کی ابھی متحمل نہیں ہے تو کم از کم ایسے افراد کی حوصلہ افزائی نہایت ضروری ہے۔ جو اس کے حصے کے کام اپنے محدود وسائل کے باوجود کر رہے ہیں۔ خصوصی طور پر محکمہ اوقاف کو اس کتاب کی توسیعِ اشاعت اپنا فرض سمجھنا چاہئے۔

۸۰۳ صفحات کی یہ کتاب سفید کاغذ پر ہے۔ کتابت و طباعت گوارا ہے۔ گتے کی مضبوط جلد اور سہ رنگا جاذبِ نظر ٹائٹل کے ساتھ۔ کاغذ کی بے پناہ گرانی کے دور میں بائیس ۲۲ روپے قیمت ایک مجبوری امر ہے۔

---------------------------------

نام کتاب: سرور کونین (ﷺ) اغیار کی نظر میں:

مرتب: بشیر احمد سیدؔ

ضخامت: ۲۰۰ صفحات

قیمت: ۶ روپے

ناشر: کتاب منزل، بازار فاروق گنج، گوجرانوالہ

سرورِ کونین حضرت محمد ﷺ کی سیرت کا یہ کمال ہے کہ ان کے بد ترین دشمنوں نے بھی ان کے امین اور صادق ہونے کی گواہی دی۔ انہیں اعلیٰ ترین اخلاق و کردار کا حامل انسان قرار دیا۔ ایسی شہادتیں اغیار ان کی حایت میں بھی دیتے رہے اور ان کے وصال کے بعد آج تک دیتے چلے آرہے ہیں۔ ایک مسلمان کے لئے قرآنِ پاک اور احادیث کی موجودگی میں اغیار کے آراء کی کوئی اہمیت نہیں اور نہ ہی سیرتِ رسول مقبول ﷺ اس کی محتاج ہے لیکن تبلیغی نقطہ نظر سے ان آراء کی افادیت مسلمہ ہے۔ وہ لوگ جو اسلام پر ایمان نہیں رکھتے۔ قرآنِ کریم پر جن کا یقین نہیں ہے۔ احادیث کو وقعت نہیں دیتے۔ ان لوگوں کو ان ہی کے ہم مذہب، ہم قوم دانشوروں اور اکابرین کے اقوال اور تحریریں پیش کر کے قائل کیا جا سکتا ہے کہ دیکھو ہم تمہیں اس ہستی پر ایمان لانے کے لئے کہہ رہے ہیں جن کے متعلق خود تمہارے بڑوں نے یہ کہا ہے۔ اشاعتِ اسلام کے لئے (خود کو اسلامی تعلیمات کا عملی نمونہ بنا کر پیش کرنے کے بعد) یہ بہترین ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔

اسی جذبہ کے تحت بشیر احمد سیدؔ صاحب نے ''سرور کونین ﷺ۔ اغیار کی نظر میں'' مرتب کی ہے اور بلاشبہ انہوں نے اس سلسلہ میں خاصی محنت سے کام کیا ہے۔

کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے پہلے باب میں مختلف موضوع پر انیس ۱۹ مضامین شامل ہیں جن میں تین کے علاوہ تمام مضامین ہندو یا سکھ حضرات کے قلم سے ہیں۔ ان میں سے موتی لال ماتھر کا مضمون ''رسول اللہ ﷺ کی تعلیم اخوت'' پنڈت سند لال کا مضمون ''پیغمبر اسلام کا رہن سہن'' بھگوان داس کا مضمون ''رسول اللہ کی مکمل زندگی کے اخلاقِ حسنہ'' لالہ دیش بندھو کا مضمون ''حضرت محمد ﷺ کی زندگی سے سبق دیکھیئے''لالہ رام لال کا مضمون ''حضرت محمد ﷺ کے عالم انسانیت پر عظیم احسانات'' اور مالک رام کا مضمون ''لا إلٰه إلا اللہ محمد رسول اللہ'' قابلِ ذکر ہیں۔ مالک رام کے مضمون کی آخری سطور ملاحظہ ہوں:

''بس اسلامی کلمے کا مقصد یہ تھا اور ہے کہ کہیں مسلمان بھی اممِ سابقہ کی طرح اپنے نبی کو معبود نہ بنا لیں۔ یہ گویا توحیدِ خالص کا اعلان ہے۔ اس کا پڑھنے والا اعلان کرتا ہے کہ آج سے میں کسی غیر اللہ کی عبادت نہیں کروں گا۔ وہ علی الاعلان شہادت دیتا ہے کہ خدا کے علاوہ دنیا میں کوئی بڑی سے بڑی ہستی بھی لائقِ عبادت نہیں اور محمد ﷺ اس کے رسول ہیں۔''

دوسرے باب میں زیادہ تر عیسائی حضرات کے مضامین سے اقتباسات ہیں۔ یہ اقتباسات معروف اور نامور شخصیت کے مضامین سے لئے گئے ہیں اور بعض لحاظ سے ان کی افادیت پہلے باب کے مضامین سے زیادہ ہے۔

تیسر باب کا عنوان ''عقیدت کے موتی'' ہے۔ اس باب میں غیر مسلم شعراء کا نعتیہ کلام ہے۔ اگر شاعر کا نام نہ دیا جائے تو یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ یہ اشعار کسی غیر مسلم کے ہو سکتے ہیں۔ چند ایک شعر ملاحظہ ہوں:

؎ آدمیت کا غرض ساماں مہیا کر دیا اک عرب نے آدمی کا بول بالا کر دیا (ہری چند اختر)

؎ لطفِ خدائے پاک شفاعت کے بھیس میں فیضِ عمیم کا وہ اشارہ تمہیں تو ہو (عرش ملیانی)

؎ سلام اس پر جلائی شمع عرفاں جس نے سینوں میں کیا حق کے لئے بیتاب سجدوں کو جبینوں میں (جگن ناتھ آزادؔ)

اغیار میں صرف ہندو، عیسائی اور چند سکھ دانشوروں کو ہی شامل کیا گیا ہے اور وہ بھی موجودہ صدی کے حالانکہ ورقہ بن نوفل، ابو سفیان (قبول اسلام سے قبل) اور ابو جہل اور اس کے بعد مختلف ادوار کے دوسرے لوگوں کی آراء تلاش کر کے کتاب کو زیادہ وقیع اور مفید بنایا جا سکتا تھا۔ اسی طرح یہودی اور عیسائی حضرات کی آسمانی کتب سے رسول اکرم ﷺ سے متعلق حوالہ جات کا الگ باب باندھا جا سکتا تھا۔

مرتب نے مختلف کتب اور رسائل سے سرورِ کونین ﷺ کے متعلق مضامین اور اقتباسات کو جمع کر دیا ہے۔ حالانکہ مرتب کی ذمہ داری اس سے کچھ زیادہ ہوتی ہے۔ مثلاً جن اصحاب کے رشحاتِ قلم کو منتخب کیا گیا ہے، ان کا مختصر تعارف اور علمی یا سیاسی مقام، جن کتب یا رسائل سے مواد حاصل کیا گیا ہے ان کا حوالہ وغیرہ۔

یہ مضامین بہرحال غیر مسلموں کے ہیں۔ لہٰذا بعض مقامات پر زبان و بیان کے لحاظ سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے ایسے مقامات پر فٹ نوٹ یا توضیح کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر رسول اکرم ﷺ کے متعلق ''محمد صاحب'' گراں گزرتا ہے۔ سرورِ کونین بانیٔ اسلام نہیں ہیں حالانکہ ایک مضمون کا عنوان ہی یہی ہے۔ ''پیغمبر اسلام کی شادیاں'' بڑا نازک موضوع ہے۔ اس سلسلہ میں کچھ فٹ نوٹس دیئے گئے ہیں لیکن یہ صراحت موجود نہیں کہ یہ نوٹس ''سرور کوین اغیار کی نظر میں'' کے مرتب کے ہیں یا اس مرتب کے جہاں سے یہ مضمون لیا گیا ہے۔ محض ایک جگہ (رضوی) کا حوالہ دیا گیا ہے۔

''روح اللہ''، ''حضرت ابراہیم''، ''اسمٰعیل''، ''موسیٰ''، ''عیسیٰ'' جیسے جلیل القدر انبیاء علیہم السلام کے اسماء گرامی پر (رض) لکھا گیا ہے اور کئی مقامات پر اس غلطی کا اعادہ ہے۔ معلوم نہیں یہ کاتب صاحب سے غلطی ہوئی ہے یا صاحبِ مضمون سے بہرحال افسوسناک ہے۔

کتابت کی بعض دوسری غلطیوں کے علاوہ جو چیز خاص طور پر کھٹکتی ہے۔ وہ غیر یکسانیت ہے۔ بعض جگہ موٹا قلم استعمال کیا گیا ہے اور بعض جگہ باریک۔ بعض جگہ کتابت گنجان ہے اور بعض جگہ کھلی۔ اس سے کتاب کا حسن متاثر ہوا ہے۔

اس دور میں جبکہ برطانیہ کی نوجوان نسل ہندو مت (خواہ اس کے وجوہ کچھ بھی ہوں) اختیار کر رہی ہے، اس کتاب کا انگریزی ترجمہ اشاعتِ اسلام کے لئے نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ کاش اس طرف خود کتاب کے مرتب یا دوسرے اصحاب توجہ دے سکیں۔

خود ہماری نوجوان نسل کے لئے اس کتاب کا مطالعہ انتہائی ناگزیر ہے کیونکہ اس کے مطالعہ سے اسے اندازہ ہو سکے گا کہ کیا اسلام کے متعلق خود اس کی اپنی معلومات اتنی ہیں جتنی کہ اس قوم کے دانشوروں کی کہ جن کے ساتھ لڑنا ہم جہاد سمجھتے ہیں؟

کتاب گٹ اپ کے لحاظ سے دیدہ زیب ہے۔ عمدہ سفید کاغذ، سہ رنگا جاذب نظر ٹائٹل، بہترین طباعت۔ غرض کہ اپنے ظاہری حسن اور معنوی حسن کے لحاظ سے یہ ایک قابلِ قدر کتاب ہے۔