جہادِ اسلامی میں قلت و کثرت کا فلسفہ

دسمبر ۷۱ء میں سقوطِ ڈھاکہ کا المیہ وقوع پذیر ہوا۔ اس میں شک نہیں کہ مسلمان جیسی عظیم، فاتح شرق و غرب اور توحید پرست قوم کے لئے یہ واقعہ ہائلہ، حادثہ جانکاہ ہے۔ لیکن جب کوئی اس کے حقیقی اسباب و علل پر غور کریگا تو اسے ماننا پڑے گا کہ یہ در حقیقت کسی مسلمان کی شکست نہیں بلکہ یہ اسلام دشمن اور کفر پرست طاقتوں کی نئی اور پرانی چالوں پھر دین فروشوں، ملت کے غداروں اور طاغوتی ایجنٹوں کی سازشوں کا نتیجہ ہے جن کی ملی بھگت سے آج مسلمان جہاں دنیاوی جاہ و جلال اور مادی طاقت سے محروم ہو چکا ہے۔ وہاں روز بروز دینی اور روحانی اقدار سے بھی تہی دامن ہو رہا ہے۔

ماضی میں جو اسباب سقوطِ بغداد کا باعث ہوئے او جس طرح اپنوں ہی کی ضمیر فروشی اور غداری غیر منقسم ہندوستان میں بھی سلطان ٹیپو اور سید اسماعیل شہیدؒ جیسے اولو العزم بہادروں اور صاحب ایمان مجاہدوں کی مادی شکست پر منتج ہوئی۔ وہی ہماری ذلت و خواری کا موجب بنی، دُور کیا جائے احدؔ و حنینؔ کے کفر و اسلام کے معرکوں میں محمد مصطفےٰ ﷺ احمد مجتبیٰ ﷺ کی اسلامی لشکروں میں بنفس نفیس موجودگی کے باوجود چند مسلمان ساتھیوں کی ایمان و توحید کے منافی غلطیوں کا خمیازہ پورے لشکروں کو بھگتا پڑا تو ہماری نام کی مسلمانی اور بے روح اسلامیت کب تک ہمارے لئے کامرانی و فائز المرامی کی ضمانت دے سکتی تھی؟ ۱۹۶۵ء میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے اسلام کی لاج رکھ لی تھی لیکن اس کے بعد تو ہم نے اس نام کے خلاف بھی نعرے لگائے اور بر سر عام قرآن کی بے حرمتی کی اور مجموعی طور پر ہماری بد کرداریوں، بد اعمالیوں کو مزید فروغ حاصل ہوا اور ہم نے اپنے ہی ہاتھوں اخلاق و ایمان کا جنازہ اُٹھا کر انفرادی و اجتماعی بے راہ روی اختیار کر لی اور توحید و رسالت کو جدّت اور ترقی میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے اس کی رہی سہی اہمیت بھی ختم کر دی حتیٰ کہ عین حالتِ جنگ میں اگر نعرے بھی لگے تو واحدِ قہار کے ساتھ ان بزرگوں اور اولیاء اللہ کے جو بزعمِ خویش ۶۵ء کی جنگ میں ہمیں فتح سے ہمکنار کر گئے تھے۔ (العیاذ باللہ)

مغربی پاکستان ہمارے ایمان و عمل کا اب صرف ایک آخری امتحان باقی رہ گیا ہے۔ اللہ کرے کہ ہم اب بھی فتح و نصرت کے وعدۂ ایمانی کا احساس کرتے ہوئے اپنی حالتِ زار کو درست کر لیں اور گزشتہ لغزشوں سے معافی مانگیں۔ وعدۂ ربانی اب بھی قرآنی صفحات کی زینت ہے۔ (وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤمِنِينَ) قلت و کثرت کی بجائے ہمیشہ سے مسلمان قوم کی فتح و عظمت کا یہی راز رہا ہے۔ زیرِ نظر مضمون میں اسلامی تاریخ کے معرکہ ہائے حق و باطل کے اجمالی ذکر سے کامیابی کے اسی فلسفہ کا اثبات مقصود ہے۔ (ادارہ)

پاک بھارت جنگ ۷۱ء کے روح فرسا اور جگر فگار نتائج کے بعد افواج کی کثرت، و قلّت کا مسئلہ بعض مسلمانوں کے طبائع میں خلجان پیدا کرتا ہے۔ حالانکہ یہ چیز بھی شیطانی وساوس میں سے ایک ہے۔ کیونکہ جنگ میں فتح و کامرانی کا انحصار کبھی بھی افواج کی قلّت و کثرت پر نہیں رہا، قرآنِ مجید شاہد ہے:

﴿م مِن فِئَةٍ قَليلَةٍ غَلَبَت فِئَةً كَثيرَ‌ةً بِإِذنِ اللَّهِ...٢٤٩﴾... سورة البقرة

''کہتے ہی گروہ ایسے ہیں جو باوجود اپنی قلتِ تعداد کے، خداوندِ قدوس کے حکم سے بڑے بڑے گروہوں پر غالب آئے۔''

دوسری جگہ بطورِ وعدہ ارشاد ہے:

﴿وَلا تَهِنوا وَلا تَحزَنوا وَأَنتُمُ الأَعلَونَ إِن كُنتُم مُؤمِنينَ ﴿١٣٩﴾... سورة آل عمران

''نہ بزدلی دکھاؤ اور نہ غم کرو، تمہی غالب ہو اگر تم ایماندار ہو۔''

اس آیت میں مسلمانوں کی قلت کے باوجود انہیں فتح و کامرانی کا وعدہ دیا گیا ہے اور اسے صرف شرطِ ایمانی کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔ سورۂ انفال میں دس گنا زیادہ طاقت پر غلبہ دینے کا وعدہ فرمایا پھر فرمایا کہ تمہاری کمزوری دیکھتے ہوئے اگرچہ تمہارے لئے قتال کا حکم صرف دوگنی طاقت سے ہے جس پر تم ضرور غالب آؤ گے مگر شرط دونوں صورتوں میں صبرِ ایمانی ہے۔ ارشاد ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا النَّبِىُّ حَرِّ‌ضِ المُؤمِنينَ عَلَى القِتالِ ۚ إِن يَكُن مِنكُم عِشر‌ونَ صـٰبِر‌ونَ يَغلِبوا مِائَتَينِ ۚ وَإِن يَكُن مِنكُم مِائَةٌ يَغلِبوا أَلفًا مِنَ الَّذينَ كَفَر‌وا بِأَنَّهُم قَومٌ لا يَفقَهونَ ٦٥ الـٔـٰنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنكُم وَعَلِمَ أَنَّ فيكُم ضَعفًا ۚ فَإِن يَكُن مِنكُم مِائَةٌ صابِرَ‌ةٌ يَغلِبوا مِائَتَينِ ۚ وَإِن يَكُن مِنكُم أَلفٌ يَغلِبوا أَلفَينِ بِإِذنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصّـٰبِر‌ينَ ٦٦﴾... سورة الانفال

مسلمانو! (اگر تم میں سے بیس صبر کرنے والے مجاہد ہوں تو دو سو کفار پر بھاری ہوں گے۔ اور اگر تمہاری تعداد ایک سو ہے تو تم ایک ہزار کافروں پر غالب آؤ گے۔ اس لئے کہ وہ (کفّار) بے سمجھ ہیں۔) اب اللہ نے تمہاری کمزوری جانچتے ہوئے تخفیف فرما دی۔ (سو اب مسلمان اپنے سے دوگنے لشکر کا مقابلہ کریں) یعی اگر ۱۰۰ مسلمان ہوں تو دو سو کفار کا اور اگر ایک ہزار کی تعداد میں ہوں تو دو ہزار کافروں کا مقابلہ کریں۔ اور اس قلتِ تعداد کے باوجود مسلمان اللہ کے حکم سے غالب آئیں گے۔ کیونکہ اللہ صبر کرنے والوں کا حامی ہے۔

مندرجہ بالا آیات سے علماء نے یہ استدلال کیا ہے کہ اگر مسلمانوں کی تعداد کی نسبت کفار کی تعداد دوگنی سے زیادہ یعنی سہ چند یا چار گنی ہو تو مسلمانوں پر ان سے قتال فرض نہیں ہے۔ لیکن یہ اجازت صرف اس صورت میں ہے کہ مسلمانوں کی تعداد بارہ ہزار سے کم ہو۔ ورنہ اگر مسلمانوں کی تعداد بارہ ہزاریا اس سے زیادہ ہو جائے یعنی مسلمان اتنی کثرت میں ہوں کہ ایک علیحدہ قومی و ملکی حیثیت اختیار کر جائیں تو پھر خواہ کفار کی تعداد کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو مسلمانوں کے لئے یہ جائز نہیں کہ ہتھیار پھینک دیں یا مقابلہ سے جی چرائیں۔ بقولِ فرمانِ نبوی ﷺ:

لَنْ یُّغْلَبُوْا اِثْنَا عَشَرَ أَلْفًا مِّنْ قِلَّةٍ

''یعنی بارہ ہزار (مسلمان فوجی) بوجہ قلت شکست نہیں کھا سکتے۔''

اگر ہم اس کلیہ کو تسلیم کر لیں کہ ہر قسم کی طاقت کا سر چشمہ عددی قوت یا مادی وسائل نہیں بلکہ خود خالقِ کائنات کی ذاتِ اُقدس اور اس کی مشیت ہے تو پھر کثرت و قلّت کا مسئلہ خود بخود حل ہو جاتا ہے اور ایمانیات میں یہ ایسا عقیدہ ہے جس کا ہم ہر روز پانچوں نمازوں کے بعد اقرار کرتے ہیں۔

اللّٰھم لا مانع لما أعطیت ولا معطی لما منعت ولا ینفع ذا الجدّ منك الجد

''یعنی اے اللہ! تو جو عطا کرے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جس چیز کو تو روک دے اس کا کوئی عطا کرنے والا نہیں۔''

یہی جذبات و احساسات اسلام کی اساس ہیں۔ مسلمان کی مکمل زندگی اسی محور کے گرد گھومتی ہے۔ صدرِ اوّل سے لے کر آج تک جہاں کہیں اور جب کبھی اسلام اور کفر کے درمیان کسی بھی رنگ میں مقابلہ ہوا ہے کسی بھی مسلمان کے دل میں کفر سے کسی قسم کا خوف و ہراس اور دل گرفتگی یا مغلوبیت کا خطرہ تک پیدا نہیں ہوا۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوا ہے کہ مغلوبیت کی صورت میں ایک مسلمان جان پر کھیل جائے۔ لیکن یہ تو عین فائز المرامی اور شہادت کے مقامِ اعلیٰ پر سرفرازی ہے۔ ؎

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت، نہ کشور کشائی!

اور جب مومن اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو کائنات کی ساری قوتیں اس کی امداد کے لئے میدانِ عمل میں آجاتی ہیں۔ قرآن کریم نے بار بار مومنین کی اعانت کے سلسلہ میں ایسے محیرّ العقول واقعات کا ذکر کر کے مسلمانوں کی ڈھارس بندھائی ہے۔

جنگوں کی تاریخ میں سب سے پہلی جنگ حضرت شیث علیہ السلام اور قابیل اور اولادِ قابیل کے درمیان لڑی گئی۔ جس میں ظاہراً قابیل کا پلّہ بھاری تھا اور شیث علیہ السلام کے ساتھ معدودے چند لوگ تھے۔ لیکن قابیل کی بھاری جمعیّت نے ان مٹھی بھر مسلمانوں کے مقابلہ میں بُری طرح ہزیمت اُٹھائی۔

اس کے بعد آثارِ قدیمہ نے قومِ عاد اور ہود علیہ السلام کی جنگ محفوظ کی ہے جس کی طرف قرآنِ مجید نے بھی اشارہ کیا ہے۔ اس جنگ میں بھی حق پرستوں کا پلّہ بھاری رہا اور منکرینِ حق کو ایسی شکستِ فاش ہوئی کہ تاریخ کے صفحات سے ان کا نام تک ملیا میٹ کر دیا گیا۔

پھر وہ وقت بھی آیا جب ایک سرکش حکومت نے حضرت لوط علیہ السلام کو قید کر لیا تو حضرت ابراہیمؑ اور ان کے مٹھی بھر سپاہیوں نے اس سر کش جماعت کا خلیل نامی جگہ تک (جواردن میں آج بھی مشہور ہے) تعاقب کیا اور انہیں زیر کر کے لوط علیہ السلام کو ان سے چھڑا لیا اور ان کے فوجی قید کر لئے اور کافی سامانِ غنیمت بھی حاصل کیا۔

تاریخ نے حضرت سلیمان علیہ السلام اور ذوالقرنینؒ کی حکومتیں بھی دیکھیں اور ان سے پہلے طالوتؒ اور داؤد علیہ السلام کا جالوت اور اس کے لشکر کے ساتھ مقابلہ بھی اپنے صفحات میں محفوظ کیا اور پھر جس طرح طالوت کی قلیل تعداد جمعیت نے جالوت کے ٹڈی دل لشکروں کو نیست و نابود کیا، یہ واقعہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔

پھر جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خلاف ساری نمرودی طاقتیں متحد ہو گیں اور آپ کو آگ کے جلتے ہوئے عظیم الاؤ میں پھینک دیا گیا، تو یہی آتشکدہ اللہ کی نصرت و حمایت کے با وصف ان کے لئے امن و سلامتی کا گہوارہ بن گیا۔

فرعون نے بنی اسرائیل پر بہت مظالم ڈھائے لیکن جب اللہ کی نصرت و حمایت بنی اسرائیل کے شاملِ حال ہوئی اور وہ موسیٰ علیہ السلام کی معیّت میں بحیرۂ قلزم کی طرف بڑھے تو دریا کی موجوں نے بھی انہیں راستہ دیا۔ لیکن بعد میں یہی موجیں فرعون اور اس کے لشکروں کے لئے موت کا پیغام ثابت ہوئیں۔

ابرہہ اور اس کے خوانخوار مست ہاتھیوں کا کعبۃ اللہ پر حملہ بھی اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ ہے۔ یہاں تو معاملہ کثرت و قلّت سے بھی گزر گیا تھا۔ کہاں حملہ آور بدمست ہاتھیوں کے غول کے غول اور کہاں دوسری طرف محافظینِ کعبہ ناپید، لیکن ﴿أَلَم يَجعَل كَيدَهُم فى تَضليلٍ ﴿٢﴾... سورة الفيل" کا سوالیہ اندازِ تخاطب قدرت کی غیبی نصرتوں کی آج بھی نشان دہی کر رہا ہے۔

اب ذرا عہدِ محمدی ﷺ کی یاد کو تازہ کیجئے، اور تاریخ کے اوراق کھنگالیے کہ کس طرح اسلام کے ہر دور نے کفر کے لا تعداد قشونِ قاہرہ کو للکارا او ہر مرتبہ فتح و کامرانی نے اسلامیوں کے قدم چومے۔ چودہ صدیاں قبل جب رسالت مآب ﷺ نے اصنام پرستوں کو خدائے واحد و قہار کی طرف بلایا تو کس طرح کفر کے ایوانوں میں زلزلے آگئے اور کس طرح کفار کا ہر بچہ بوڑھا غیظ و غضب سے دیوانہ ہو کر آپ ﷺ کے در پے آزار ہو گیا۔ لیکن اسلام کا یہ مختصر سا قافلہ راستے کی تمام صعوبتوں کو برداشت کرتا ہوا، ہجرت کی سختیاں سہتا ہوا، بدر و حنین کی منزلیں طے کرتا ہوا، خندق (احزاب) کے معرکے سر کرتا ہوا بالآخر مکہ کی عظیم الشان فتح سے مشرف ہو کر اپنی منزلِ مقصود کی طرف رواں دواں ہو گیا۔

اس قافلے میں غریب بھی تھے اور ننگے بھی، بھوکے بھی تھے اور پیاسے بھی، جن کے پاس نہ تلواریں تھیں اور نہ سواری کے جانور۔ ان کے پاس سامانِ حرب و ضرب مفقود تھا لیکن ان کی قوتِ ایمانی، ان کی زبانوں سے نکلی ہوئی لا الٰہ الا اللہ کی صدائے دل آویز آہستہ آہستہ دلوں میں گھر کرتی چلی گئی، یہ چلتے رہے اور بڑھتے رہے حتیٰ کہ کفر و استبداد کی کفر سامانیاں اور لن ترانیاںِ ظلم و ستم کی یلغاریں کبر و نخوت کے مجسم لشکر اپنے شاندار سامانِ حرب و ضرب کے باوجود مسلمانوں کے راستے میں کہیں بھی نہ ٹھہر سکے۔

اس کے بعد کیا انہی مٹھی بھر مجاہدوں نے قیصر کی قابؤں کو چاک چاک نہیں کر ڈالا، جن کی افواجِ جابرہ، جن کے مست ہاتھیوں اور جن کے قلاع و سپاہ اور سامانِ حرب و رسد کا کچھ شمار ہی نہ تھا؟ کیا اسی قلّت نے کسریٰ کے محلات کی اینٹ سے اینٹ نہیں بجا دی؟ اور آتشکدۂ ایران کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ٹھنڈا نہیں کر دیا تھا؟ شام و ایران تو کیا مشرق و مغرب کے ڈانڈے ملانے والے کیا یہی قلیل التعداد اہلِ ایمان نہ تھے جو ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں تلوار لے کر اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے آفاق میں پھیل گئے تھے؟

کیا ہم حق و باطل کی اس آویزش کو بھول سکتے ہیں جو تبوک کے میدان میں ہوئی جبکہ صرف دو ہزار غیر تربیت یافتہ مسلمانوں نے اپنے سے چار گنی زیادہ مسلح طاقت کو میدانِ جنگ میں بائیس سو تڑپتی ہوئی لاشیں چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا؟

کیا ہم جنگِ فلسطین کا وہ معرکہ فراموش کر سکتے ہیں جس میں صرف ۹ ہزار مسلمان ایک لاکھ غیر مسلم بہترین بازوئے شمشیر زن سے ٹکرا گئے اور اس قلتِ تعداد کے باوجود مسلمانوں نے دشمن کے دس ہزار نعشوں کو خاک و خون میں لوٹا دیا؟

کیا ہمیں جنگِ یرموک کا وہ تاریخی محاربہ یاد نہیں جس میں چالیس ہزار مسلمانوں کا مقابلہ پانچ لاکھ مسلّح اور باقاعدہ تربیت یافتہ فوج سے ہوا تھا اور اس کے باوجود جب یہ ٹڈی دَل لشکر محمدِ عربی ﷺ کے غلاموں سے شکست کھا کر بھاگا تو اپنے ایک لاکھ پانچ ہزار سورماؤں سے محروم ہو چکا تھا۔

کیا تاریخِ عالم ان ٹھوس حقائق کو جھٹلا سکتی ہے؟

جبکہ حلب کے مقام پر پانچ ہزار مسلمان جانبازوں نے پچیس ہزار پر مشتمل بہترین آزمودہ فوج کو شکستِ فاش دی تھی۔

جبکہ ۷۱ھ میں صرف چار ہزار مجالدینِ اسلام نے مملکتِ مصر کو تاخت و تاراج کیا تھا؟

جبکہ صرف تین ہزار مسلم نفوس نے کسریٰ کی طاقت کو خاک میں ملا دیا تھا اور مملکت ایران کے ایک لاکھ سپاہی کھیت رہے تھے۔

اور جبکہ ۴۷۴ھ میں فلسطین میں صرف چند ہزار مجاہدینِ اسلام، مخالفین کے ستر لاکھ کے قشونِ قاہرہ سے ٹکرا گئے تھے اور ان کے دس لاکھ سپوتوں کو قتل کر کے ان کو ایسی ذلّت آمیز شکست سے دو چار کر دیا تھا کہ تاریخ میں اب تک یاد گار ہے۔

تاریخ اٹھاؤ اور دیکھو، کیا مغرب کی وادیوں میں غرناطہ و سپین کے مرغزاروں کو روند ڈالنے والے یہی قلیل التعداد مجاہدینِ اسلام نہ تھے؟ کیا براعظم افریقہ کے چپہ چپہ پر اسلام کا پھریرا لہرانے والا یہی قلیل گروہ نہ تھا؟ کیا دنیائے کنارِ اندلس پر طارقؒ کا عملِ سفینہ سوخت نہیں دیکھا، جہاں قلیل التعداد مجاہدوں نے کفر کی صفیں کی صفیں الٹ کر رکھ دیں اور صلیب کے پرستاروں کے تیجانِ ملوکانہ ان کے قدموں میں آگرے؟

اپنے خدائے برتر کو بھول کر، اپنی قوتِ ایمانی کو خیر باد کہہ کر کثرت و قلت کے چکر میں پڑنے والے مسلمانو!

کیا تمہارے اسلاف نے قوتِ ایمانی کے بل بوتے پر، خدائے واحد پر توکل کرتے ہوئے اپنی قلت تعداد اور شاندار سامان حرب و ضرب سے محروم ہونے کے باوجود بھی چٹان کی طرح مضبوط، دیو ہیکل، فولادی اور آہنی انسانوں پر مشتمل، کیل کانٹے سے لیس، ناقابل شکست لشکروں کو ناکوں چنے نہیں چبوائے۔ انہیں چھٹی کا دودھ یاد نہیں دلایا۔ ذرا اسی کفر زار ہند سے پوچھو جس کے ہاتھوں آج تم محض اپنی روایات سے بغاوت کے جرم میں نالاں ہو۔ کیا اس کا چپہ چپہ تمہاری عظمتوں کا آئینہ دار نہیں ہے؟

کیا تم اپنے اس کم سن سترہ سالہ جرنیل محمد بن قاسمؒ کو بھول گئے جس کا راستہ راجہ داہر اور اس کے حلیف راجاؤں کی لکھو کھہا متحدہ جمعیتیں بھی روک نہ سکیں، کیا تم غزنی کے اس مردِ آہن کو فراموش کر بیٹھے، جس نے اس سرزمین کو سترہ دفعہ اپنے پاؤں تلے روندا اور جس کی گرزِ البرز شکن کی چوٹ سے صنم کدۂ ہندوستان آج بھی تلملا رہا ہے؟ کیا احمد شاہ ابدالی کی چھوٹی چھوٹی توپوں کی آوازیں تمہارے دلوں کی دھڑکنوں کو تیز نہیں کرتیں جس نے مخالفین کے بڑے بڑے توپ خانوں کے پرخچے اڑا دیئے تھے۔ جس نے بڑے بڑے آہنی، سنگی او رناقابل شکست ایوانوں کو متزلزل کر کے رکھ دیا تھا اور جس کی شمشیرِ خار اشگاف نے بڑے بڑے جغادریوں، رائے بہادروں، ہلکروں، گائیکواڑوں، سورماؤں اور شمشیر بہادروں کو خاک و خون میں لوٹا دیا تھا۔ کیا تم ترکستان کے شیر ظہیر الدین بابر کی یلغاروں کو بھول گئے، جن کی بدولت کفر ستانِ ہند کے تخت و تاج سو سال تک کے لئے تمہارے قدموں میں آگرے اور اس عہد آفریں دَور کی یادگاریں، دلی کالاں قلعہ، شاہی مسجد کے مینار، اور شاہانِ اسلام کی باؤلیاں اب بھی تمہیں بچھڑے ساتھیوں کی طرح آوازیں دے دے کر بلا رہی ہیں۔

اپنی تاریخ، روایات اور اسلاف کو مسخ کرنے والے مسلمانو! دیکھو! خدائے حق نے کس کس طرح تمہاری مدد کی ہے، تم تعداد میں تھوڑے تھے لیکن خداوند کریم نے تمہارے مخالفین کی نظروں میں تمہیں زیادہ کر کے دکھا دیا اور ان کو تمہاری نظروں میں حقیر، کم تر اور قلیل کر دیا، تمہارے پاس سامانِ جنگ نہ تھا، خداوندِ کریم نے کفار کے دلوں پر تمہارا رعب طاری کر دیا جس کی بدولت ان کی تلواریں، لاٹھیاں اور توپوں کے گولے کچی مٹی کے ڈھیلے بن کر رہ گئے، تم کمزور تھے، بے سرو سامان تھے، بھوکے تھے اور پیاسے تھے لیکن خداوند کریم نے پانچ ہزار فرشتوں کو تمہاری مدد کے لئے بھیج دیا۔

تو پھر آج تم ذلیل اور رسوا کیوں ہو؟ آج تم اپنی بے کسی اور کسم پرسی پر نوحہ خواں کیوں ہو؟ آج تم اپنی کمزوری، عاجزی اور کسل پرگریہ کناں کیوں ہو؟ اس لئے نہیں کہ تم تعداد میں تھوڑے ہو بلکہ اس لئے کہ تم نے قوتِ ایمانی کی شمشیر کو اپنی کمر سے علیحدہ کر دیا، تم نے خدائے عزوجل پر توکل اور بھروسہ سے اپنے اذہان کو خالی کر دیا، تم نے خشیتِ الٰہی سے اپنے قلوب کو عاری کر لیا، تم نے ذکرِ حق سے اپنی زبانوں کو روک دیا، تمہارے ہاتھوں نے شمشیر کی بجائے مضراب سنبھال لیے۔ تمہارے کندھوں نے بندوق کی بجائے ریڈیو لٹکا لئے۔ تمہاری گردنوں نے قرآن اور حمائل سے محروم ہو کر اپنے تئیں انگریز کی غلامی کے پٹے میں جکڑ لیا، تمہاری زبانیں تلاوتِ قرآن سے عاری ہو گئیں اور ان پر فلمی گیت جاری ہو گئے، تم نے اپنے کانوں کو حيّ علی الصلوٰۃ اور حيّ علی الفلاح کی صدائیں سننے سے بند کر دیا اور تم پائل کی جھنکار کے لئے ہمہ تن گوش ہو گئے۔ تمہاری نظروں نے پاکیزگی اور بلند نظری کی بجائے بے حیائی اور عشوہ طرازی سیکھ لی، یہ ننگے ڈانس اور ہیجان انگیز اور جذبات خیز مناظر کی عادی ہو گئیں۔

لیکن مسلمانو! ہمیں اپنے ماضی کو واپس لانا ہے۔ ہم مسلمان ہیں اور ہم سے ذلت و ندامت کی یہ زندگی بسر نہیں ہو سکتی۔ ہمیں اپنے مخالفین کو نیچا دکھانا ہے، ان مٹی کے ٹھاکروں کو، پتھر کے ان بھگوانوں اور سنگِ خارا کے ان خود تراشیدہ پریشوروں کو صدائے اللہ اکبر کی ضرب سے ریزہ ریزہ کرنا ہے۔ ہمیں اپنے بزرگوں، اپنے اسلاف اور سنتِ رسول ﷺ کو زندہ کرنا ہے کہ ہم ان کی امت میں سے ہیں۔ ہمیں جہاد فی سبیل اللہ کرنا ہے، خدا کے دشمن ہمارے دوست نہیں ہو سکتے، ہمیں نورِ اسلام کی ان شمعوں کو فروزاں کرنا ہے جنہیں بجھانے کے لئے سارا زمانہ تلا ہوا ہے۔

اور اگر تم ایسا چاہتے ہو تو اُٹھو، آگے بڑھو، آگے بڑھو اور چھا جاؤ یا اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر جان کی بازی لگا دو۔ ربِ ذوالجلال کی قسم! اگر تم نے اپنی اصلاح کا عہد کر لیا، اگر تم نے اپنے دل میں نور کی کرنوں کو ضیا پاشیاں کرنے کی اجازت دے دی تو ارجن کے یہ سپوت، بھیم کی یہ بہادر اولادیں، پرتاپ اور سیوا جی کی یہ نسلیں، 'ہر ہر مہادیو، بم بم سدا شو'' کے نعرے لگانے والے یہ لالے تمہارے سائے سے بھی دور بدکیں گے۔

اگر خدا وند کریم نے اکثریتوں پر اقلیتوں کو غالب کیا ہے، اگر اس نے اپنے نیک بندوں کی ہمیشہ مدد فرمائی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ تمہیں فراموش کر دے مگر ایمان میں استحکام، گزشتہ معاصی سے توبہ اور آئندہ کے لئے اصلاح کا عزمِ صمیم شرط ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

''اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے ہوئے دشمن کے مقابلہ میں نکل آؤ اور جب گھمسان کا رَن پڑے اور جنگ کے شعلے بھڑک اُٹھیں تو تم اس کی بھٹی میں بے خطر کود پڑو، تم ہی شرف و مرتبہ کے مستحق ہو کر (کامیاب) لوٹو گے۔''

اٹھو! یہ وقت مایوسی کا نہیں، شکست پر آنسو بہانے کا نہیں۔ کچھ کرنے کا وقت ہے۔ قوموں کی تاریخ میں جہاں بڑی بڑی فتوحات کے کار ہائے نمایاں سنہری حروف میں لکھے نظر آتے ہیں وہاں وقتی طور پر ہزیمت اور پسپائی کے مناظر بھی نظر سے گزرتے ہیں۔ لیکن شکستوں سے زیادہ مہلک یاس و قنوطیت ہے۔ اگر خدانخواستہ قوم میں جبن، بزدلی، کاہلی، بددلی، نا امیدی، ناکامی اور دل گرفتگی نے جڑیں پکڑ لیں تو ہو سکتا ہے کہ یہ ملّت کی زندگی کا آخری دن ہو اور اس کے برعکس اگر ہم سنبھل گئے ہم نے اپنی تقصیروں کی اصلاح کر لی، توبہ و استغفار سے اپنے خالق کو منا لیا، تقویٰ، پرہیز گاری، خدا ترسی کو اپنا شعار بنایا اور اپنی صفوں میں اتحاد و تنظیم سے تقویت پیدا کر لی تو امید کامل ہے کہ خالقِ کائنات ہمیں پھر سے صدقِ صدّیقیؓ، سطوتِ فاروقیؓ، خشیتِ ثمانیؓ اور قوتِ حیدریؓ سے مالا مال کر دے گا۔ ان شاء اللہ۔ ؎
فضائے بدر پیدا کر، فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

حاشیہ

یہ حدیث مسند احمد، ابو داؤد، ترمذی، دارمی اور مستدرک حاکم میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ امام حاکم اس حدیث کے متعلق یہ دعویٰ رکھتے ہیں کہ یہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی شرط پر ہے۔ جبکہ امام ذہبی نے ان کے اس دعویٰ پر کوئی گرفت نہیں کی بلکہ توثیق کی ہے۔ کوئی امام حاکم کے تصحیح میں متساہل ہونے کا خیال نہ کرے۔ کیونکہ جب ذہبی کی تائید مل جائے تو وہ حدیث صحیح شمار ہوتی ہے۔

ہاں اس حدیث کی بعض روایات میں یہ اضافہ ضرور ہے کہ ''اگر وہ (مسلمان) صبر کریں اور تقویٰ اختیار کریں تو پھر بوجہ قلت انہیں شکست نہیں ہو سکتی۔''

اسی موقعہ کے ذکر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اس اصول کا ذکر فرمایا ہے: كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةً بِاِذْنِ اللهِ