رحلۂ علم

قارئین کرام اسوۂ انبیاء کے ذکر کے سلسلہ میں تین جلیل القدر انبیاء کے رحلات علم کا بیان پڑھ چکے ہیں۔ اب جن اسلافِ امت نے اس ورثہ انبیاء کی حفاظت کرتے ہوئے علمی سفر کئے ان میں سے چند ایک کا حال سنیئے:

رحلۂ صحابہؓ و تابعینؒ:

تحصیلِ علم کے شوق میں سفر کرنے والے صفحابہ میں سے ایک معتد بہ تعداد تو وہ ہے جو دور دراز کے علاقوں سے نبی اکرم ﷺ فداہ ابی و امی کی خدمت میں تلاشِ حق اور طلبِ علم کی غرض سے سفر کی مشقتیں سہتے اور دشمنانِ اسلام کی چیرہ دستیوں کو برداشت کرتے ہوئے سر زمینِ حجاز میں وارد ہوئے۔ ان میں سے ہر ایک کو راہِ حق میں جن مصائب کا سامنا ہوا ان کا بیان احاطۂ تحریر سے باہر ہے۔ لیکن انہوں نے اس سلسلہ میں ہر تکلیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و تربیت سے کما حقہٗ فیض یاب ہوئے۔ اصحابِ صُفّہ کی ایک بڑی تعداد متلاشیانِ حق اور طالبانِ علم پر مشتمل تھی۔ جنہوں نے ایک وقت پیٹ پر پتھر باندھے تو دوسرے وقت روکھی سوکھی جو مل گئی اس پر گزارا کیا لیکن نبی اکرم ﷺ کا سفر و حضر میں ساتھ نہ چھوڑا اور وہ کچھ حاصل کیا جس کی دوسرے جلیل القدر صحابہ بھی تمنا کرتے رہے۔ پھر ان صحابہ میں ایک کثیر تعداد ان لوگوں کی ہے جو مکہ مکرمہ، اس کے قرب و جوار، مدینہ منورہ اور اس کے حوالی سے ہجرت کر کے مدینۃ الرسول کے ہو رہے اور انہوں نے دن رات کا بیشتر حصہ صرف اسی مقصد کی خاطر وقف کر دیا کہ علومِ شریعت سے بہرہ ور ہوتے رہیں۔ علاوہ ازیں طول طویل سفر کر کے اکیلے یا وفد کی صورت میں دین کی تعلیم کی غرض سے آنے والوں اور علم و عمل سے بہرہ ور ہو کر تبلیغ کی غرض سے واپس اپنے علاقوں میں جانے والوں کی تعداد تو ان گنت ہے، خصوصاً فتح مکہ کے بعد تو تمام عرب سے جوق در جوق آنے والے شائقینِ علم کا تانتا بندھ گیا۔ حافظ ابنِ کثیر نے اپنی تاریخ میں عام الوفود کے عنوان سے ان تمام قبائل و وفود کا ذِکر کیا ہے جنہوں نے علم کی غرض سے رحلات کیے، جن کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق ستر ۷۰ ہے۔

کتبِ صحاح میں وفد عبد القیس کی آمد اور سوالات کا واقعہ معروف ہے۔ اسی طرح کتب احادیث میں بیشتر مقامات پر نام سے یا بغیر نام کے ان صحابہ کا ذِکر ہے جو مختلف مسائل پوچھنے یا شکوک و شبہات کے ازالہ کے لئے سرکارِ مدینہ ﷺ کے پاس حاضری دیتے رہے اور خود فیض یاب ہونے کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لئے بھی افزوئی علم کا باعث بنتے رہے کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے عام صحابہ کو کثرتِ سوال سے منع کر رکھا تھا۔ اس لئے صحابہ کرام کہتے ہیں کہ ہم اس بات کی تلاش میں رہتے تھے کہ کوئی بدّو یا مسافر آئے اور آکر سرور کائنات سے سوال کرے تاکہ اس طرح سے ہم بھی مستفیس ہو جائیں۔ صحاح کی کتاب الایمان میں ضمام بن ثعلبہ انصاری کا قصہ معروف ہے جو معلومات کے حصول کے لئے اپنی قوم کی طرف سے رسالت مآب کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ صحابہ کے شوقِ علم کا یہ حال تا کہ جو صحابہ دوری یا کثرت مشاغل کی وجہ سے روزانہ آپ کے پاس حاضری نہ دے سکتے وہ آپس میں نوبہ (باری) مقرر کر لیتے جیسا کہ حضرت عمرؓ نے اپنے ہمسائے عتبان بن مالک سے طے کیا کہ ایک دن وہ حاضر ہوں تو دوسرے دن عتبان، تاکہ دونوں آپ ﷺ کے روزانہ کے اقوال و افعال سے واقف ہو سکیں۔ بعض لوگ عرصے تک باوجود کوشش کے نبی ﷺ کی ملاقات سے مشرف نہ ہو سکتے تو دوسروں کی معرفت اپنا قبولِ اسلام اور دیگر پیغام آپ تک پہنچاتے۔ ابو موسیٰ اشعریؓ اور طفیل بن عمروؓ دوسی انہی لوگوں میں سے تھے۔ پھر جب انہیں موقع میسر آجاتا تو بنفسِ نفیس آن کر مشرف بہ زیارت ہوتے۔

یہ تو تھا مختصر ذکر صحابہ کا نبی ﷺ سے تحصیلِ علم کا، لیکن ان صحابہ اور تابعین کی تعداد بھی کچھ کم نہیں جو دوسرے صحابہ کی خدمت میں اس غرض سے تشریف لاتے رہے حتیٰ کہ معمولی سے معمولی چیز کے لئے دور دراز کا سفر کرنے سے دریغ نہ کرتے۔ امام بخاریؒ نے اپنی جامع میں حضرت جابرؓ بن عبد اللہ کے متعلق روایت کیا ہے کہ انہوں نے صرف ایک حدیث معلوم کرنے کے لئے ایک اونٹ خریدا اور مدینہ سے شام تک ایک ماہ کی مسافت طے کی تاکہ حضرت عبد اللہ بن انیس جہنی سے حدیثِ قصاص سنیں ۔ اس طرح کے بے شمار واقعات کے لئے بطور مچال صرف اسی ایک ہی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔

صحابہؓ حصولِ علم کے لئے سفر کرتے وقت اس چیز کو قطعاً نظر انداز کر دیتے تھے کہ جس کے پاس ہم جا رہے ہیں وہ مرتبہ میں کہیں ہم سے فرو تر نہ ہو۔ بلا امتیاز بڑی عمر کے صحابہ کبھی اپنے ہم عمر اور کبھی اپنے سے صغیر السن سے اخذ و روایت کرتے۔ اسی طرح قدیم الاسلام جدید الاسلام سے بھی تعلیم حاصل کرتا اور اس میں کوئی باک محسوس نہ کرتا۔ سنن الدارمی میں حضرت ابو موسیٰ اشعریؒ کا حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے اور صحیح بخاری میں حضرت عمرؓ کا حذیفۃ بن الیمان سے استفادہ ثابت ہے۔ اسی طرح حضرت عبد الرحمٰنؓ بن عوف اور ان کے ساتھیوں کا حضرت عبد اللہؓ بن عباسؓ سے معلومات حاصل کرنا معروف ہے جس کی روایت امام بخاریؒ نے بھی کی ہے۔ چھوٹے صحابہ کا بڑوں سے یا جدید الاسلام کا قدیم الاسلام سے روایت کرنا تو بہت ہے جیسا کہ امام بخاریؒ ہی نے اپنی جامع میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کا حضرت عمرؓ سے اخذِ علم ذکر کیا ہے۔

نبی ﷺ کی وفات کے بعد جس طرح صحابہ کی ایک بڑی جماعت تبلیغِ دین کے لئے اقطار و جوانب میں پھیل گئی اور اس کام کو انہوں نے اتنی اہمیت دی کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے اعمالِ حسنہ کے اجر و ثواب کو بھی نظر انداز کر دیا۔ اسی طرح تابعین گروہ در گروہ صحابہ کی مجالسِ علمیہ میں شرکت کے لئے ان کے پاس پہنچنے لگے۔ کوئی مکہ سے اُٹھ کر مدینہ جا رہا ہے تو دوسرا مدینہ سے چل کر مکہ آرہا ہے۔ کوئی حرمین سے کوفہ و بصرہ کا رُخ کر رہا ہے تو دوسرا عراق سے حجاز کے لئے رختِ سفر باندھے ہوئے ہے۔ اسی تحصیلِ علم کے شوق میں اگر کچھ لوگ شام، افریقہ، خراسان، جبال، آذر بائیجان سے آرہے ہیں تو دوسرے تبلیغ دین کے لئے ان علاقوں کا رُخ کر رہے ہیں۔ گویا آفاقِ عالم میں علم کے چشمے جاری ہو گئے اور پیاسے سفر کی کلفتوں اور دیار کی الفتوں کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے تشنگی بجھانے کے لئے روانہ ہو گئے۔ اس دورِ تابعین میں عالمِ اسلام کے طول و عرض میں وہ لہر پہر لگی کہ ہر ایک دیوانہ وار اس کی طرف چلا آیا۔ حتیٰ کہ سعید بن المسیب سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک ایک حدیث کے لئے طول طویل پیادہ پا سفرکیے ۔

صحابہ کرام اور بڑے بڑے تابعین نے طالبانِ علم سے نہ تو کسی قسم کا بخلِ علمی روا رکھا اور نہ ہی ان کی خدمت اور خیر خواہی میں کوئی کمی روا رکھی۔ انہوں نے نبی ﷺ کی اس نصیحت کی خوب حفاظت کی استوصوا بھم الخیر یعنی طلب علم کے لئے آنے والوں کے بارے میں میری طرف سے بھلائی کی وصیت پلے باندھ لو۔

رحلہ محدثین و مفسرین:

اگرچہ حدیث قرآن کی ہی تفسیر کا نام ہے۔ کیونکہ اس بات سے کوئی صاحبِ فہم و بصیرت مسلمان انکار نہیں کر سکتا کہ کتاب اللہ کی ہی عملی تعبیر اور اسی کا کامل و مثالی نمونہ سنتِ رسول ﷺ ہے اور جس طرح کتاب اللہ کی قراءۃ و تلاوۃ کے اعتبار سے اسے قرآن کہتے ہیں اسی طرح سنت (طریقۂ نبویﷺ) کی روایت کے لحاظ سے اسے حدیث کہتے ہیں ۔ واضح رہے کہ الگ الگ فنی حیثیت سے ہمارا مروجہ امتیازِ تفسیر و حدیث دورِ صحابہؓ اور تابعینؒ میں نہ تھا، اسی لیے اس وقت ''مفسر'' اور ''محدث'' کی معروف اصطلاح بھی عام نہ تھی۔ بعد کے ادوار میں جب علوم و فنون کی علیحدہ علیحدہ مستقل تدوین ہوئی تو اس وقت کے علماء کی ان کے اپنے اپنے کام کے مطابق حیثیت ممتاز ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے مفسرین اور محدثین کے رحلات کو صحابہ اور تابعین سے علیحدہ بیان کیا ہے۔

یوں تو قرونِ اولیٰ میں اتباعِ تابعین اور ان کے قریب العصر علماء میں زیادہ تر جامع العلم شخصیات کا ہی وجود ملتا ہے کیونکہ ان دنوں شریعت کی واقفیت اور اس کے لئے جملہ ضروری علوم کے حصول کی طرف رجحان زیادہ تھا تاہم نئے نئے درآمدہ علوم اور کئی مکاتب فکر پیدا ہو جانے کے سبب سے جہاں علوم میں وسعت پیدا ہوئی وہاں علم و کام میں بھی تخصص کا میلان پیدا ہوا۔ یہ سلسلہ اگرچہ تابعین کے دور میں ہی شروع ہو گیا تھا جبکہ اہل الحدیث اور اہل الرائے دو مکتبِ فکر وجود میں آئے لیکن اس وقت یہ صرف اندازِ نظر تک محدود تھا، کسی کا رجحان زیادہ تلاش سنت اور روایتِ حدیث کی طرف تھا اور کسی کا اجتہاد و استنباط کی طرف۔ مگر بعد ازاں جس طرح اسی اختلافِ فکر نے محدثین اور فقہاء کو الگ الگ حیثیت دے دی اسی طرح فنی طور پر مفسرین اور محدثین کے الگ الگ گروہ وجود میں آئے۔ ورنہ دورِ صحابہ اور تابعین بلکہ اتباعِ تابعین (خیر القرون) میں کسی عالم ربانی کے لئے قرآن، حدیث اور فقہ تینوں کی مہارت ضروری تھی۔ ان تین چیزوں میں سے کسی ایک کے بغیر کسی کو ماہرِ شریعت نہ سمجھا جاتا تھا۔ بلکہ اس دور کے علماء ان سہ گانہ علوم کے علاوہ تاریخ و ادب میں بھی خاص مہارت رکھتے تھے۔

اس ساری بحث سے میرا مقصود یہ ہے کہ میں ان کے امتیازی کاموں کے لحاظ سے الگ الگ ان کے رحلاتِ علم کا بیان تو کروں گا لیکن در حقیقت محدثیں کے علمی سفروں کے تحت تقریباً سبھی گروہ آ جاتے ہیں جن میں مؤرخین، ادباء، شعراء اور صوفیاء تک شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس مضمون کے شروع میں میں نے رحلۂ علم کو صرف محدثین کی اصطلاح کا نام دیا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اپنے تقدس اور تبرک کے لئے رحلۂ علم اسی گروہِ قدسی کا رہینِ منت ہے ورنہ خالی سفر کوئی دینی امر نہیں، بلکہ سمندروں دریاؤں کے بے ضرورت سفر سے تو سرورِ کائنات ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ اب محدثین و مفسرین کے چند ایک رحلاتِ علم کی طرف آئیے:

مقدمۃ الجرح والتعدیل میں امام ابن ابی حاتم نے عبد اللہ بن مبارکؒ کی علم دوستی اور پرہیز گاری کے دو سفری واقعات ذکر کیے ہیں۔ مولانا حبیب الرحمٰن شیروانیؒ نے ''علمائے سلف و نابینا علماء'' میں امام دارمی کا طلبِ حدیث کے لئے حرمین شریفین، خراسان، عراق، شام اور مصر کا سفر کرنا بیان کیا ہے۔ مولانا عبد السلام مبارک پوری نے اپنی تصنیف ''سیرۃ البخاری'' میں امام بخاریؒ کے علمی سفروں کا تفصیل سے ذِکر کیا ہے انہی سفروں کا یہ اثر تھا کہ آپ کی حدیث دانی اور قوتِ حافظہ کو دیکھ کر علماء فرمایا کرتے تے:

إنما ھو آیة من اٰيات الله تمشي علي وجه الأرض ما خلق إلا للحديث

یعنی بخاریؒ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے جو چلتی پھرتی نظر آتی ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے حدیث ہی کے لئے پیدا کیا ہے۔''

انہی کے نام سے بخاری کی شہرت کو چار چاند لگے۔ کسی نے کہا ہے ؎

سکہ کہ در یثرب و بطحا زدند
نوبت آخر بخارا زدند

اسی بخارا کی علمی شہرت نے بعد ازاں بو علی سینا جیسے فلسفیوں کو متعارف کرایا جسے طب و منطق کا معلمِ ثانی کہا جاتا ہے۔ امام بخاریؒ نے چودہ برس کی عمر ہی میں علم کے لئے سیاحت شروع کر دی تھی اور بخارا سے لے کر مصر تک سارے ممالک اس امام عالی مقام کی سفری فہرست میں داخل ہیں۔ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ ''میں چار دفعہ بصرہ گیا اور علم نہیں کہ کوفہ و بغداد کے کتنی بار چکر لگائے۔'' جہاں امام احمد بن حنبل اور محمد بن عیسیٰ صباخ جیسے یکتا زمانہ سے کسب فیض کیا۔ تلاشِ علم میں عرصہ تک شام و مصر اور جزیرہ، خراسان، میں مرد، بلخ، ہرات، جبال اور نیشا پور کی چھان مارتے رہے حتیٰ کہ مدینہ منورہ آن کر اپنی معرکۃ الآراء تصنیف ''الجامع الصحیح'' تیار کی۔ سفری مشقتوں کا یہ عالم تھا کہ دوران سفر دوسری دفعہ نابینا ہو گئے پھر کسی طبیب کے مشورہ سے خطمی اور مصبر کا استعمال کیا تو بینائی لوٹ آئی۔ بچپن میں بھی ایک دفعہ آپ کی بینائی جاتی رہی تھی لیکن عابدہ صالحہ ماں کی دعا سے درست ہو گئی تھی۔ اب کی مرتبہ برکتِ حدیث کی بدولت نہ صرف درست ہوئی بلکہ اتنی تیز ہو گئی کہ چاندنی راتوں میں تاریخِ کبیر کا مسودہ تیار کرتے رہے۔ امام موصوف کی وفات بھی دورانِ سفر ہوئی۔

امام نسویؒ نے تیس برس سفر میں بسر کئے، شیخ الاسلام بقی بن مخلدؒ نے دور دراز کے سفر کر کے ۲۸۰ شیوخ سے روایت کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ جس کے پسا گیا ہوں، پیادہ پا گیا ہوں۔ محدثِ اندلس (سپین) ابن جیونؒ نے اخذِ علم کے لئے عراق، حجاز اور یمن تک کا سفر کیا۔ اس سفر سے ظاہر ہے کہ انہوں نے بحر و بر کو پاٹا ہو گا۔ ابن المقری فرماتے ہیں کہ میں نے صرف ایک نسخہ ''ابن فضالہ'' کی خاطر ستر منزل کا سفر کیا۔ جس نسخہ کی ظاہری حیثیت یہ ہے کہ اگر کسی نانبائی کو دیا جائے تو اس کے بدلے میں وہ ایک روٹی بھی دینا گوارا نہ کرے گا۔ علاوہ ازیں امام موصوف نے چار مرتبہ مشرق اور مغرب (افریقہ و سپین) کا سفر کیا اور دس دفعہ بیت المقدس گئے۔

حافظ ابن مفرحؒ نے سعید بن اعرابیؒ سے حدیث کی سماعت مکہ مکرمہ میں کی، ابن راشدؒ سے دمشق میں، قاسم بن اصبغ سے قرطبہ میںِ ابن سلیمان سے طرابلس میں، محمد سے مصر میں اور دیگر مشائخ سے جدہ، صناء اور بیت المقدس میں، یہ مقامات اگر نقشے میں دیکھیں تو تین براعظموں میں بکھرے ہوئے ملیں گے۔

حافظ الحدیث ابن طاہر مقدسی نے چمنستانِ محمدی کے سدا بہار پھولوں کو حاصل کرنے اور گوہرِ آبدار کی جستجو و تلاش میں جتنے سفر کیے ہیں، سب پیادہ پا کیے ہیں اور نہ صرف سواری سے مستغنی رہے بلکہ کتابوں کا بوجھ بھی اپنے سر پر رکھتے۔ یہ با مشقت پیدل سفر کبھی کبھی یہ رنگ لاتا کہ پیشاب میں خون آنے لگتا۔ اسی جفا کشی سے جو حافظ ممدوح نے کی، اس میں حسب ذیل مقامات منجملہ اور مقاموں کے یہ تھے۔

''بغداد، مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، تنیّس (واقع بحیرہ روم) مشق، حلب، جزیرہ، اصفہان، نیشا پور، ہرات، رملہ، لوقان، مدینہ طیبہ، نہاوند، ہمدان، واسط، سادہ، اسد آباد، اسفرائن، آمل، اہواز، بطام، خسر و جرو، جرجان، آمد، استر آباد، بوسنج، بصرہ، دینور، رَی، سرخس، شیراز، قزدین، کوفہ۔''

حافظ ابو عبد اللہ اصفہانی ایک مرتبہ اپنے مقاماتِ رحلہ کی تفصیل بیان کرنے لگے کہ میں حدیث حاصل کرنے گیا تو وہ طوس، ہرات، بلخ بخارا، سمر قند، کرمان، نیشا پور، جرجان، غرض اسی طرح نام لیتے گئے یہاں تک کہ ایک سو بیس مقامات کے نام لے ڈالے۔

امام عزا لدین مقدسی چودہ برس کی عمر میں تحصیل علم کے واسطے بغداد پہنچے۔

حافظ ابو الخطاب نے تحصیلِ علم کی خاطر اول تمام ملکِ سپین میں سفر کیا۔ پھر وہاں سے فارغ ہو کر مراکش (مراکو) آئے۔ مراکش اور دوسرے ممالک حبش کی سیاحت کے بد مصر پہنچے اور مصر کے بعد شام، عراق، عرب، عراق عجم اور خراسان کا سفر کیا اور اس طرح تین براعطم ان کے ملک پیما قدموں کے نیچے سے گزرے۔

امام جرح و تعدیل ابو ذرعہ کہتے ہیں کہ:

''میں دوسری بار اپنے وطن رَے سے ۲۲۷ھ میں نکلا اور ۲۳۲ھ کی ابتداء میں واپس آیا۔ میں نے اپنے سفر کا آغاز حج سے کیا۔ پھر مصر گیا۔ وہاں پندرہ ماہ ٹھہرا۔ مصر جا کر شروع شروع میں میرا خیال ہوا کہ یہاں میں تھوڑی دیر ٹھہروں گا۔ لیکن جب میں نے وہاں علم کی بہتات دیکھی تو وہیں جا کر اس کا بھی میرے ذہن میں خیال پیدا ہو گیا۔ اس کے لئے میں نے اپنے دو قیمتی کپڑے بیچے تو ان سے ساٹھ درہم وصول ہوئے۔ میں نے ایک شافعی عالم کو امام شافعی کی کتابیں لکھنے کے لئے کہا اور اسیّ درہم میں بات طے ہو گئی۔ دس درہم کا میں نے اسے کاغذ خرید دیا جس پر اس نے امام شافعی کی کئی کتابیں لکھ دیں۔ پھر میں جزیرہ چلا گیا۔ کچھ دیر وہاں ٹھہرا۔ پھر ۲۳۰ھ کے آخر میں بغداد واپس آگیا۔ پھر کوفہ آیا۔ وہاں سے بصرہ گیا اور امام شیبانؓ اور عبد اللہ علیؒ سے علم حاصل کیا۔ ادھر محمد بن عوفؒ کہتے ہیں کہ ہم نے ۲۳۰ھ میں انہیں حمص میں دیکھا۔ تیسری دفعہ جب میں نکلا تو شام، عراق اور مصر میں پورے ساڑھے چار سال تک تحصیلِ علم کی اور ایسا مصروف ہوا کہ مجھے یاد نہیں کہ کبھی اپنے ہاتھ سے ہنیا رکھی ہو۔''

ابو حاتم کہتے ہیں:

''پہلی دفعہ جب میں طلبِ حدیث کے لئے نکلا تو سات برس تک علم حاصل کرتا رہا۔ اس دوران میں نے جو پیدل سفر کیا۔ وہ ایک ہزار فرسخ (تین ہزار کوس سے زائد) ہے۔ کیونکہ اتنی مقدار تک تو میں گنتا رہا اور پھر اس کے بعد گننا چھوڑ دیا۔ کوئی یاد نہیں کہ بغداد سے کوفہ اور کوفہ سے بغداد کتنی بار گیا۔ اسی طرح مکہ معظمہ سے مدینہ طیبہ اور مدینہ طیبہ سے مکہ معظمہ کا کافی بار سفر کیا۔ بحرین کے علاقے صلا سے پیدل مصر گیا۔ مصر سے پیدل رملہ گیا۔ رملہ سے پیدل بیت المقدس اور پھر رملہ سے عسقلان کا سفر کیا اور پھر رملہ سے ہی طبریہ گیا اور طبریہ سے دمشق اور دمشق سے حمص، حمص سے انطاکیہ، انطاکیہ سے طرسوس اور پھر طرسوس سے دوبارہ حمص گیا کیونکہ ابھی چند احادیث ابو الیمان کی رہ گئی تھیں۔ پھر حمص سے بیسان اور بیسان سے رقہ، رقہ سے دریائے فرات میں کشتی پر وار ہوا اور بغداد پہنچا اور شام جانے سے پہلے میں واسط سے نیل اور نیل سے کوفہ گیا اور یہ تمام کچھ میری پہلے سفر کی داستان ہے۔ میری اس وقت ۲۰ برس عمر تھی اور سات برس تک حصولِ علم کے لئے پھرتا رہا (از ۲۱۳ تا ۲۲۱) اور جب دوسری مرتبہ نکلا تو تین برس تک علم حاصل کیا۔

میں نے پہلا حج ۲۱۵ء میں، دوسرا ۲۳۴ھ میں تیسرا ۲۴۴۲ھ میں او چوتھا ۲۵۵ھ میں کیا۔ آخری بار میرا بیٹا عبد الرحمٰن بھی ہمراہ تھا۔''

نوٹ: غالباً یہ عبد الرحمٰن وہی لڑکا ہے جو اپنے والد کے اس قصہ کو جرح و تعدیل کے مقدمہ میں والد کی زبانی بیان کر رہا ہے۔ (باقی آئندہ)

حوالہ جات
البدایه والنھایه جلد ۵

البخاري۔ باب الخروج في طلب العلم جلد ۱ ص ۱۷، والترمذي و ابو داؤد وغیرہ

علمائے سلف و نابینا علماء بحوالۃ تذکرۃ الحفاظ للذہبی جلد ۱، ص ۴۸

واضح رہے کہ بہت جامع کلمے صاحب جوامع الکلم الصادق المصدوق محمد ﷺ کے ہیں جو آپ کے فرمان ''ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما، کتاب اللہ وسنتي'' میں مذکور ہیں یعنی کتاب و سنت، کیونکہ جس طرح قرأۃ کے اعتبار سے ان آیات کا کتاب اللہ سے خارج ہونے کا وہم ہو سکتا ہے جن کی قراءۃ منسوخ ہے۔ اسی طرح ان احادیث کے بھی سنت کے تحت آجانیکا وہم پڑ سکتا ہے جو خالص دنیاوی امور سے متعلق ہیں۔ حالانکہ وہ شریعت نہیں جس کی تفصیل شاہ ولی اللہ دہلوی نے بیان فرمائی ہے۔ ملاحظہ ہو حجۃ اللہ البالغہ ص ۱۲۸۔ جلد ۱ (ادارۃ الطباعۃ المنیریہ۔ مصر)

پیادہ منزل عموماً ۱۲ عربی میل (۱۲ کوس) ہوتی ہے۔