مسئلہ سماع

''محدث'' شمارہ اپریل ۷۲ء میں مولانا عزیز زبیدی صاحب کے مضمون ''سماع'' کی پہلی قسط شائع ہوئی تھی۔ زیر نظر شمارہ میں اس کی دوسری قسط ہے۔ لیکن اس ضمن میں چونکہ چند اصطلاحاتِ قرآنیہ مثلاً ''لہو الحدیث''۔ ''سامدون''۔ ''زور'' اور ''بصوتک'' کا ذِکر ضروری تھا (جیسا کہ آپ آگے پڑھیں گے) جن سے کئی ائمہ دین اور مفسرین نے ''سماع'' اور ''غنا'' ہی مراد لیا ہے۔ حالانکہ ''سماع'' اور ''غنا'' کا معنیٰ ان اصطلاحات کے مفہوم میں ان کے عموم کی بنا پر آتا ہے ورنہ در حقیقت ان کے معنی بہت وسیع ہیں۔ اس لئے اس مضمون میں پہلے ان اصطلاحات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے اور پھر رہوارِ قلم اصل موضوع کی طرف موڑا گیا ہے۔ اس سلسلہ کی تیسری قسط آپ اگلے شمارہ میں ملاحظہ فرمائیں گے۔ ان شاء اللہ۔ (ادارہ)

ارشادِ خداوندی ہے:

﴿اعلَموا أَنَّمَا الحَيو‌ٰةُ الدُّنيا لَعِبٌ وَلَهوٌ وَزينَةٌ وَتَفاخُرٌ‌ بَينَكُم وَتَكاثُرٌ‌ فِى الأَمو‌ٰلِ وَالأَولـٰدِ...٢٠﴾... سورة الحديد

''لوگو! جان لو! کہ دنيا کی زندگی كھيل اور تماشا ہے اور ظاہری طمطراق اور آپس میں فخر و مباہات اور ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مال اور اولاد کا خواستگار ہونا ہے۔''

اس آیت میں جینے اور دنیائے زیست کو پُرلطف رکھنے کے سامان کو ''دنیوی زندگی کے لہو و لعب'' سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ''لہو'' ایک خاص اصطلاح ہے جو مختلف معانی میں قرآن و حدیث میں مستعمل ہے۔ یہ تین معانی زیادہ مشہور ہیں:

1. ہر وہ چیز جس سے استفادہ اور مناسب لطف اندوزی حاصل ہو، اس کا تعلق حیوانی زندگی اور دنیائے زیست سے ہے جو صرف اسی قدر جائز ہے کہ انسان خوشی خوشی جئے۔ اس لئے کہ یہ ایک بنیادی ضرورت بھی ہے اور فطری تقاضا بھی، لیکن اس میں افراط و تفریط مذموم ہیں کیونکہ تفریط اگر رہبانیت بن جاتی ہے تو ''افراط'' عیش کہلاتا ہے اور اسلام ان دونوں کو پسند نہیں کرتا۔

2. ایسے امور جو بذاتِ خود مباح ہوں لیکن انسان کو نسبتاً اہم اور ارفع مقاصد کی راہ سے ہٹا دیں تو شرعاً غیر مستحسن سمجھے جاتے ہیں جیسے خطبۂ جمعہ کے دوران تجارتی قافلہ کا اعلان سن کر چند صحابہ کے علاوہ سب کا دوڑ پڑنا، جس کا ذکر مندرجہ ذیل آیت کریمہ میں ہے:

﴿وَإِذا رَ‌أَوا تِجـٰرَ‌ةً أَو لَهوًا انفَضّوا إِلَيها وَتَرَ‌كوكَ قائِمًا ۚ قُل ما عِندَ اللَّهِ خَيرٌ‌ مِنَ اللَّهوِ وَمِنَ التِّجـٰرَ‌ةِ...١١﴾... سورة الجمعة

''اور اے پیغمبر! (ﷺ) جب یہ لوگ سودا (بکتا) یا کوئی تماشا (ہوتا) دیکھتے ہیں تو آپ کو کھڑا چھوڑ کر اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔ ان سے کہہ دیجئے کہ جو چیز اللہ تعالیٰ کے ہاں ہے وہ تماشے اور سودے سے بہتر ہے۔''

ظاہر ہے کہ تجارت اور اس سلسلہ میں کوئی ڈھنڈورہ یا اعلان وغیرہ بھی جائز امور میں داخل ہے لیکن چونکہ یہاں تجارت، خطبہ جمعہ جیسی اہم اور ارفع مقصد والی چیز کے راستے میں حائل ہوئی اس لئے یہ جائز بات بھی جائز نہ رہی۔

3. اہم کاموں سے ہٹ کر نامناسب یا غیر مفید اور لا یعنی امور میں مشغول ہونے کو بھی ''لہو'' کہتے ہیں۔ یہ شرعاً ممنوع ہے۔ کیونکہ ایسی صورتِ حال مکارمِ دینیہ اور اخلاق صفات کے مقابلہ میں، ایک محاذ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

اس کی دو قسمیں ہیں:

الف۔ پہلی قسم وہ ہے جس سے اسلام کو نقصان پہنچانا مقصود ہو، مثلاً

﴿وَإِذا نادَيتُم إِلَى الصَّلو‌ٰةِ اتَّخَذوها هُزُوًا وَلَعِبًا...٥٨﴾... سورة المائدة

''جب تم نماز کے لئے اذان دیتے ہو تو یہ لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور اس کو کھیل تماشا بنا لیتے ہیں۔''

اسی طرح

﴿وَقالَ الَّذينَ كَفَر‌وا لا تَسمَعوا لِهـٰذَا القُر‌ءانِ وَالغَوا فيهِ لَعَلَّكُم تَغلِبونَ ٢٦﴾... سورة فصلت

''اور جو منکرِ حق (وہ ایک دوسرے سے) کہتے ہیں کہ اس قرآن کو مت سنو۔ جب یہ پڑھا جائے تو تم غل غپاڑہ برپا کرو۔ شاید کہ اس طرح سے تم ان (مسلمانوں) پر چھا جاؤ۔''

گو یہ سبھی کچھ لہو و لعب کی ایک شکل ہے لیکن اس سے غرض تفریح نہیں کچھ اور ہے اور وہ بالکل ظاہر ہے۔

ب۔ لہو و لعب کی دوسری قسم کی طرف قرآن مجید کی یہ آیت اشارہ کرتی ہے۔

﴿وَمِنَ النّاسِ مَن يَشتَر‌ى لَهوَ الحَديثِ لِيُضِلَّ عَن سَبيلِ اللَّهِ بِغَيرِ‌ عِلمٍ وَيَتَّخِذَها هُزُوًا...٦﴾... سورة لقمان

''اور كچھ لوگ ايسے بھی ہيں جو ''لہو الحديث'' کے خریدار ہیں تاکہ بے سمجھی سے راہِ خدا سے بھٹکائیں اور ان آیاتِ (الٰہیہ) کا مذاق اُڑائیں۔''

اس آیت کا مطلب سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم پہلے ''لہو الحدیث'' کو زیرِ بحث لائیں کہ اس سے کیا مراد ہے؟

لہو الحدیث:

''لہو الحدیث'' کے دائرہ میں ہر وہ شغل، وقت پاس کرنے کی ہر وہ نشاط انگیزی اور کھیل تماشا کی ہر وہ ادا آجاتی ہے جو اپنی دل فریبی کے ذریعہ سے انسان کے اندر ایسا بے قابو انہماک، استغراق اور تعلّقِ خاطر پیدا کر دیتی ہے جس سے تعلق باللہ غلط طور پر متاثر ہوتا ہے۔

چونکہ ہر زمانہ میں اس باب میں گانوں اور باجوں کو دنیا نے سر فہرست رکھا ہے۔ اس لئے کچھ ائمہ دین نے ''لہو الحدیث'' سے غنا یا گانا مراد لیا ہے اور اپنے معنی اور مفہوم کے عموم کی بنا پر ہم بھی ''لہو الحدیث'' کو ''شوخ غنا'' اور ''مسرفانہ سماع'' کی تمام اقسام پر حاوی اور محیط تصور کرتے ہیں۔ تاہم اس میں اس کو محصور نہیں سمجھتے کیونکہ اس طرح آیت کی ہمہ گیری پر زد پڑتی ہے۔

یا دوسرے الفاظ میں یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ''لہو الحدیث'' کا معنی ''دل فریب باتیں'' بنتا ہے۔ دل فریب گانے نہیں۔ چنانچہ غنا اور سماع کو اس کے تحت تو لایا جا سکتا ہے لیکن آیت کی ایسی تعبیر پیش کرنا جس کی بدولت قاری اس سے مراد ''غنا'' اور ''مزامیر'' ہی سمجھے، قرآنِ حکیم کے حکیمانہ عموم کے لئے غارت گر ہے۔ اسی لئے حضرت ابن عباس رضی اللہ نے ''غنا'' کا یوں ذکر فرمایا:

الغنا ءوأشباھه ''یعنی غنا اور اس کے مشابہ دوسرے امور''

حضرت امام بیضاویؒ فرماتے ہیں:

(لھو الحدیث) ما یلھي عما یعني (سورة لقمان)

یعنی ''مقاصد سے جو چیز غافل کرے، اسے لہو الحدیث کہتے ہیں۔''

امام ابن العربی مالکیؒ لکھتے ہیں:

(لھو الحدیث) ھو الغناء وما اتصل به (احکامِ قرآن جلد دوم سورہ لقمان)

یعنی ''لہو الحدیث سے غنا اور وہ چیز مراد ہے جو اس سے ملتی جلتی ہو۔''

مندرجہ بالا توضیحات کی روشنی میں اس آیت کے تحت ''مسرفانہ غنا'' اور ''سماع'' کے ساتھ ساتھ ہر وہ کاروبار یا کام بھی آجاتا ہے جو انسان کو یادِ خدا، تلاوتِ قرآن، نماز اور مکارمِ عبدیت سے غافل کر دیتا ہے۔ افسانے، ناول، ثقافتی شو، فلمیں اور غیر محتاط ادبی محفلیں بھی ''لہو الحدیث'' کی ذیلی شاخیں ہیں۔ کیونکہ انہوں نے ہمارے ملی مزاج اور مقاصد پر بہت ہی برے اثرات ڈالے ہیں۔ اسی طرح ہاکی، کرکٹ، فٹ بال، والی بال، الغرض کھیلوں کا ہر وہ انداز بھی لہو الحدیث میں داخل ہے جو ہمارے نوجوانوں کو ''بندۂ مومن'' بننے اور ان کو سنجیدہ زندگی اختیار کرنے میں مدد نہیں دیتا بلکہ ان کو غلط طور پر متاثر کرتا ہے اور جس کی وجہ سے نوجوان اپنی پوری زندگی کو ''بازارِ کھیل'' کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔

غنا یا موسیقی کو جن اکابر نے ''لہو الحدیث'' کا مصداق بنایا ہے وہ اس لحاظ سے کافی وزنی ہے کہ یہ چیزیں (غنا و موسیقی) خدا فراموش بھی ہیں اور انسان کی بہیمانہ خواہشات اور تحریکات کے لئے محرک بھی، تاہم لہو الحدیث کا مفہوم اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔

اس آیت کے شانِ نزول میں مفسرین نے ایک شخص کا واقعہ ذکر کیا ہے جس نے قرآنی ہدایت سے لوگوں کو غافل کرنے کے لئے ایک گانا بجانا کرنے والی لونڈی خریدی تھی جس سے مسحور کر کے وہ لوگوں کو اسلام سے برگشتہ کرتا تھا۔ لیکن یہ مخصوص شانِ نزول اس آیت کے عموم کو خاص نہیں کرتا، جیسا کہ اصولِ معروف ہے۔

العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب

''یعنی شانِ نزول کی خصوصیت آیت کے عموم کو خاص نہیں کرتی۔''

''سامدون'' پر بحث:

لہو الحدیث کے بعد دوسری اصطلاح ''سامدون'' ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

﴿أَفَمِن هـٰذَا الحَديثِ تَعجَبونَ ٥٩ وَتَضحَكونَ وَلا تَبكونَ ٦٠ وَأَنتُم سـٰمِدونَ ٦١﴾... سورة النجم

''تو کیا اس بات (ذکرِ قیامت) سے تعجب کرتے ہو اور ہنستے ہو اور تم کو رونا نہیں آتا بلکہ تم کھلاڑیاں کرتے ہو۔''

''سامدون'' کے معنی ''لا ھون''، ''مستکبرون'' اور ''مغنون'' کیے گئے ہیں۔ بعض مفسرین نے اس سے گانے والے مراد لیے ہیں۔ کیونکہ بعض یمنی قبائل (حمیر) کی لغت میں ''سمود'' غنا کو کہتے ہیں، لیکن یہ صحیح نہیں، کیونکہ قرآن قریش کی زبان میں نازل ہوا ہے جیسا کہ اس حدیثِ نبوی سے ظاہر ہے:

«فاکتبوہ بلسان قریش فإنما نزل بلسانھم ففعلوا» (بخاري، باب جمع القرآن)

ہمارے نزدیک ''سامدون'' کے اصل معنی ''غافل متکبر'' کے ہیں۔ امام بخاری نے اس کے معنی ''برطمہ'' کیے ہیں۔ نہایہ میں اس کے معنی الانتفاخ من الغضب (یعنی غصہ سے پھول جانا) کیے گئے ہیں۔ امام عینیؒ نے اس کے معنی ''اعراض'' کیے ہیں اور یہ سارے معنی دراصل غافل متکبر کی ہی شکلیں ہیں۔

امام بیضاویؒ نے لا ھون اور مستکبرون (من سمود البعیر في مسیرہ إذا رفع رأسه (النجم) یعنی غافل متکبر کے معنی کیے ہیں جو ''اونٹ کے گردن اٹھا کر تیز چلنے'' کے محاورہ سے ماخوذ ہیں۔ امام راغبؒ نے بھی یہی معنی کیے ہیں۔ چونکہ غنا غفلت شعاروں کا ایک اہم شغل ہے اس لئے مفسرین ''لہو الحدیث'' کی طرح ''سامدون'' کا مصداق بھی اسی غنا کو بتاتے رہے ہیں۔

الزُّور:

تیسری اصطلاح ''زُور'' ہے۔

﴿وَالَّذينَ لا يَشهَدونَ الزّورَ‌...٧٢﴾... سورة الفرقان" میں ''الزور'' کے معنی غنا بھی ''زُور'' کے عموم پر کیے گئے ہیں ورنہ ''زُور'' باطل اور جھٹ کو کہتے ہیں۔ جلالین میں ہے:

أي الکذب والباطل یعنی جھوٹ اور باطل

بیضاوی میں ہے:

لا یقیمون الشھادة الباطلة أو لا یحاضرون محاضر الکذب

''یعنی جھوٹی گواہی نہیں دیتے یا یہ کہ جھوٹ کی محفلوں میں شرکت نہیں کرتے۔''

بعض شعراء نے اس کو ''بت'' کے معنوں میں بھی استعمال کیا ہے۔ کیونکہ صنم بھی ایک باطل شے ہے۔

دراصل جن اکابر نے اس کو ''بت'' کے معنوں میں بھی استعمال کیا ہے۔ کیونکہ صنم بھی ایک باطل شے ہے۔ راغبؒ نے لکھا ہے کہ ''زُور'' سینہ کے بالائی حصہ کو کہتے ہیں اور چونکہ گانے والا بھی سینہ تان کر گاتا ہے اس لئے غنا پر بھی اس کا اطلاق کیا گیا ہے۔ بہرحال غنا بھی اس سے مراد لیا جا سکتا ہے۔ بلکہ یہ ''زُور'' کے عموم کے تحت آتا ہے کیونکہ غنا کو بطور عبادت اہلِ باطل نے اختیار کیا ہے اور بطورِ تعیّش مسرفین نے۔

بصوتک:

﴿وَاستَفزِز مَنِ استَطَعتَ مِنهُم بِصَوتِكَ...٦٤﴾... سورة الاسراء

''اور ان میں سے جس کو تو بہکا سکے اپنی آواز سے بہکاتا رہ۔''

استفزز کے اصل معنی ''ہلکا سمجھنے'' کے ہیں، بعض نے اس کے معنی ''جاہل سمجھنا'' کیے ہیں۔ امام ابن العربیؒ لکھتے ہیں:

فالجھل تفسیر مجازي والخفة تفسير حقيقي (احكام القراٰن)

یعنی ''جہل والے معنی مجازی ہیں اور ہلکا سمجھنے والے معنی حقیقی ہیں۔''

لیکن کچھ مفسرین نے اس کے معنی غنا بھی کیے ہیں اور کچھ نے اس سے مطلقاً دعوۃ الی المعصیة بھی مراد لی ہے۔ امام ابن العربیؒ فرماتے ہیں:

''موخر الذکر دونوں معنی مجازی ہیں، حقیقی صرف پہلا یعنی 'خفّت' ہے۔'' (احکام القرآن)

اور صوت سے مراد اس کی دعوت، تحریکات اور شیطانی آوازیں ہیں۔

''لہو الحدیث''، ''سامدون''، ''زُور'' اور ''بصوتک'' سے غنا کے معنی گو مجازی ہیں، تاہم بہت سے مفسرین اور ائمہ دین کے اس پر اصرار سے یہ بات ضرور مترشح ہوتی ہے کہ ان سب کے نزدیک ''غنا'' کے اندر ان سب مفاسد اور برائیوں کا کامل پر تو ضرور ملتا ہے جو مندرجہ بالا اصطلاحات کے ضمن میں آتی ہیں۔ اور موسیقی بہت سے مناہی اور معاصی کا مظہر ہے۔ اس لئے جب بھی کسی ایسی برائی کا ذِکر آتا ہے جو غفلت، جھوٹ، باطل اور استکبار پر مبنی ہوتی ہے تو نظام موسیقی کا تصور سب سے پہلے آتا ہے اور یہ سب کچھ بلا وجہ نہیں ہے۔ کیونکہ یہ بے قابو سماع، یہ شوخ غنا اور یہ آوارہ موسیقی آپ کے سامنے ہیں اور اس کی تخلیقات بھی اب ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ اس لئے اگر کوئی اس مسرفانہ نظام سماع کو بیشتر مفاسد اور برائیوں کا خلاق یا ان کا واحد مرکز تصور کرتا ہے تو یہ کچھ زیادہ مبالغہ بھی نہیں ہے۔

عود الی المقصود:

صوفیوں کے معروف سماع اور اہلِ ہوٰے کی موسیقی کے سلسلہ میں جن قرآنی آیات کا ذِکر کیا گیا ہے، ان میں سے صرف مندرجہ ذیل آیت کو ہم زیادہ واضح اور مصرح محسوس کرتے ہیں۔

﴿وَما كانَ صَلاتُهُم عِندَ البَيتِ إِلّا مُكاءً وَتَصدِيَةً ۚ فَذوقُوا العَذابَ بِما كُنتُم تَكفُر‌ونَ ﴿٣٥﴾... سورة الفرقان

''اور خانہ کعبہ كے پاس تالیاں اور سیٹیاں بجانے کے سوا ان کی نماز ہی کیا تھی؟ تو (اے کافرو!) جیسا تم کفر کرتے رہے ہو۔ اب اس کے بدلے عذاب (کے مزے) چکھو۔'' علماء نے لکھا ہے کہ:

''جس طرح ہمارے ملک کے ہندو پوجا کے وقت مندروں میں ناچتے اور گاتے بجاتے ہیں۔ اور اسی کے قریب قریب عیسائی گرجوں میں کرتے ہیں، اسی طرح اہلِ مکہ تالیاں اور سیٹیاں بجایا کرتے تھے۔''

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

''عرب کے مشرکین خانہ کعبہ کا ننگے ہو کر طواف کرتے، سیٹیاں اور تالیاں بجاتے تھے۔'' (ابن کثیر)

حضرت مولانا ثناء اللہ رحمۃ اللہ علیہ امرتسری لکھتے ہیں کہ:

صفیرا أو تصفیقا لھوا ولعبادة وعبادة أخري كما يفعله كفار الھند

''کبھی لہو و لعب کے طور پر اور کبھی بطور عبادت، جیسا کہ ہندی کفار کیا کرتے ہیں، سیٹیاں اور تالیاں بجایا کرتے تھے۔'' (تفسیر القرآن بکلام الرحمٰن۔ انفال)

الغرض غیر اسلامی مذاہب میں موسیقی کو عبادت کے طور پر اختیار کرنے کا جو رواج ہے، وہ محتاجِ بیان نہیں، یہی حال اس وقت اہلِ عرب کا بھی تھا۔ اس لئے ہمارے نزدیک صوفیانہ سماع ہو یا غنا، مسرفانہ موسیقی ہو یا رقص و سرور اور ثقافتی محفلیں، سبھی کے سلسلہ میں مندرجہ بالا آیت سے بڑی روشنی ملتی ہے اور جو لوگ ان امور کو عبادت کے طور پر بھی اپناتے ہیں۔ ان کے خلاف تو آیت نے جس انداز سے بھرپور طنز کیا ہے، وہ بالکل قاطع نزاع ہے۔ (باقی آئندہ)