اے خدا! ہم تھے کیا، آج کیا ہو گئے؟
اے خدا ہم تھے کیا، آج کیا ہو گئے
تجھ سے کٹ کر اسیرِ بلا ہو گئے
تھا زمانہ کہ ہمت کا کوہسار تھے ہے زمانہ کہ مٹی کا انبار ہیں
تھا زمانہ کہ نورِ سحر تھے کبھی ہے زمانہ کہ اب ہم شبِ تار ہیں
تھا زمانہ کہ دنیا تھی زیرِ نگیں ہے زمانہ کہ خود ہم نگوں سار ہیں
تھا زمانہ کہ عظمت کا مینار تھے ہے زمانہ زمیں پر فقط بار ہیں
تھا زمانہ کہ گلہائے رنگیں تھے ہم ہے زمانہ کہ بکھرے ہوئے خار ہیں
تھا زمانہ کہ دنیا کے سالار تھے ہے زمانہ کہ اب مردِ بیمار ہیں
تھا زمانہ کہ ہم تھے صدائے جرس ہے زمانہ کہ کہ اب ہم گلو کار ہیں
تھا زمانہ کہ غازی تھے کردار کے ہے زمانہ کہ گفتارِ بیکار ہیں
تھا زمانہ اصولوں پہ دیتے تھے جاں ہے زمانہ کہ اب جنسِ بازار ہیں
تھا زمانہ کہ شمشیرِ شبیر تھے ہے زمانہ منافق کی تلوار ہیں
تھا زمانہ چراغِ ہدایت تھے ہم ہے زمانہ کہ من جملہ اشرار ہیں
تھا زمانہ کہ غیرت کی تصویر تھے ہے زمانہ کہ عبرت کا شاہکار ہیں
تھا زمانہ علم دارِ اسلام تھے ہے زمانہ خدا ہی سے بے زار ہیں
تھا زمانہ نمونہ تھے اخلاق میں ہے زمانہ سیاہ کار و بد کار ہیں
تھا زمانہ کہ دنیا کے غم خوار تھے ہے زمانہ کہ سفاک و خونخوار ہیں
تھا زمانہ کہ ہم بت شکن تھے کبھی ہے زمانہ کہ بت ساز فنکار ہیں
تھا زمانہ کہ ہم تھے مہکتی صبا ہے زمانہ کہ صر صر کی یلغار ہیں
تھا زمانہ کہ قرآں کی آیات تھے ہے زمانہ کہ چرکیںؔ کے اشعار ہیں
اے خدا ہم تھے کیا، آج کیا ہو گئے؟
تجھ سے کٹ کر اسیرِ بلا ہو گئے!
یاس و غم، خوف و لالچ میں محسور ہیں ہم زبوں حال، مغضوب و مقہور ہیں
تو خطا پوش ہے ہم خطا کار ہیں تیری رحمت کے تجھ سے طلب گار ہیں
اے خدا بخش دے ہم خطا کار ہیں
اے خدا بخش دے ہم گنہگار ہیں
(بشکریہ ''المنبر'' لائل پور)