فتاویٰ جات

٭گروی مکان سے استفادہ،قرآنی تعویذ،مسجد ڈھانا

٭ سرخ یا ناسی کلر کا خضاب لگانا !گروی مکان سے استفادہ؟

٭قرآن پڑھ کردَم کرنا اور دم کی شرائط !قرآنی تعویذ کی شرعی حیثیت

٭مدرسہ کی عمارت میں جمعہ و عیدین پڑھنے کا حکم !مسجد ڈھا کر دوسری جگہتعمیر کرنا

٭غصب شدہ زمین میں نماز او ربے وضو امام کے پیچھے نماز؟

سوال:میرا تعلق ازبکستان سے ہے۔ افغانستان کے راستے پاکستان آتے ہوئے میرا شوہر افغانستان میں پکڑا گیا تھا۔ اب چار سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے اوراس کی کوئی خبر نہیں کہ زندہ ہے یا فوت ہوچکا ہے۔ افغانستان کے احوال آپ سے مخفی نہیں۔ میرے تین بچے ہیں جن کی کفالت میرے لئے انتہائی دشوار ہے۔ کیا میرے لئے شادی کرنا جائز ہے، تاکہ مجھے اور میرے بچوں کو سہارا مل سکے ؟ (خاتون بانو)

جواب: مذکورہ بالا صورت میں عورت اپنے حالات کے پیش نظر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے ۔ دوسرے نکاح کے بعد اگرپہلا شوہر آجائے تو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے ۔ہاں البتہ اگر وہ اپنے حق سے دست بردار ہوجائے تو دوسرے کی زوجیت میں باقی رہے گی۔

( تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: التلخیص الحبیر)

سوال:کیا بالوں پر سرخ یا ناسی کلر (Brown Colour) کا خضاب لگانا جائز ہے؟ نیز کالاخضاب کن حالتوں میں لگایا جاسکتا ہے؟

(محمدایوب پٹھان، بدین)

جواب:احادیث میں صرف کالے خضاب کی ممانعت ہے۔ اس کے علاوہ جملہ رنگ استعمال کئے جا سکتے ہیں ۔ تاہم بعض علما نے جہاد کی حالت میں سیاہ خضاب کی اجازت دی ہے اور بعض نے مطلقاً رخصت بھی دی ہے ۔سلف میں سے سعد بن ابی وقاصؓ، عقبہ بن عامرؓ، حسنؓ، حسینؓ، جریرؒ وغیرہ رخصت کے قائل ہیں۔ ابن ابی عاصم نے کتاب الخضاب میں اسی مسلک کو اختیار کیا ہے۔

لیکن راجح بات یہ ہے کہ خالص سیاہ خضاب مطلقاً ناجائز ہے ۔حضرت جابر ؓ کی حدیث میں ہے جنبوہ السواد

(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ، فتح الباری :۱۰؍۳۵۴،۳۵۵)

سوال:ایک شخص فوت ہوگیا، اس وقت اس کے ورثامیں بیوہ، دوبیٹے اور چار بیٹیاں تھیں، بعد میں بیوہ، ایک بیٹا اور ایک بیٹی بھی فوت ہوگئے،اب ورثا میں ایک بیٹا اور تین بیٹیاں موجود ہیں۔ ان کے درمیان تقسیم میراث کی صورت کیا ہوگی؟یہاں یہ واضح رہے کہ بعد میں بیٹوں نے اس جائیداد میں کچھ اضافہ بھی کیا ہے۔ نیز مرحوم کی وصیت تھی کہ بیٹوں کو زیادہ حصہ دیا جائے۔

جواب:مذکورہ صورت علم وراثت کی اصطلاح میں 'مسائل مناسخہ میں اختصار قبل العمل' کے نام سے موسوم ہے۔ اس مسئلے میں متوفیان کو کالعدم قرار دے کر وراثت صرف زندہ افراد میں تقسیم ہوگی۔جس کی صورت یوں ہے کہ کل ترکہ پانچ حصوں میں تقسیم ہوگا۔ دو حصے ایک بیٹے کے لئے اور تین حصے ایک ایک کے حساب سے تین بیٹیوں کے لئے ہیں ۔

بیٹوں نے جائیداد میں جو بعد میں اضافہ کیا ہے، اگر تو وہ فی الواقع ان کی ذاتی گرہ سے ہے تووہ مرحوم کے ترکہ میں شامل نہیں ہوگا۔ اور اس صورت میں فوت شدہ بھائی کا ترکہ بھی ایک بھائی اور تین بہنوں کی طرف دو اور ایک کی نسبت سے منتقل ہوگا۔ بصورتِ دیگروہ اضافہ باپ کے ترکہ میں شمار ہوگا ،البتہ اس صورت میں بیٹوں کو ان کی محنت کا معقول معاوضہ ملنا چاہئے۔ نیز مرحوم کا یہ وصیت کرناکہ بیٹوں کو شرعی حد بندی سے زیادہ حصہ دیا جائے ،کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ شریعت کے مطابق اس کی اصلاح ضروری ہے ،تاکہ موصوف اُخروی بوجھ سے بچ سکے۔

سوال:مکان گروی لینے یا دینے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب: بوقت ِضرورت گروی مکان لینا یا دینا جائز ہے ، البتہ گروی شدہ چیز کی آمدنی، اُجرت، محصول وغیرہ سب راہن (گروی رکھوانے والے) کی ملکیت ہے اور وہی ان تمام چیزوں کا انتظام کرے گا جن پر گروی چیز کی بقا ہے۔ مثلاً پانی پلانا وغیرہ، چنانچہ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے کہ'' مرہون چیز راہن کی ملکیت ہے۔ وہی اس کے نفع کا مالک ہے اور اسی پر اس کا تاوان ہے۔ '' ( ابن ما جہ بسند حسن)

حاصل کلام یہ کہ جس کے پاس کوئی چیز گروی رکھی گئی ہے ،وہ اس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا، کیونکہ وہ راہن کی ملکیت ہے، البتہ سوار ی پر سوار ہوسکتا ہے ،اس کا دودھ پی سکتا ہے ،مگر خرچ کے حساب سے۔ اس کی اجازت صحیح بخاری (حدیث نمبر ۲۵۱۲)میں موجود ہے۔ دیگر چیزوں کو اس پرقیاس کرنا درست نہیں ہے، جیسا کہ فتح الباری میں ائمہ کی تصریح موجود ہے۔

سوال:کیا قرآن پاک پڑھ کر پانی پر دَم کرنا جائز ہے ؟

جواب:بظاہر ممانعت کی کوئی دلیل نہیں،تاہم دم کیلئے بالا جماع تین شرائط ہیں:1. اللہ کی کلام یا اسکے اسماء و صفات کے ساتھ ہو۔2.عربی زبان میں یا معروف المعنی الفاظ کے ساتھ ہو۔ 3. اس بات کا اعتقاد رکھا جائے کہ دم بذاتہ مؤثر نہیں ،بلکہ اس میں تاثیر اللہ کے حکم سے پیدا ہوتی ہے۔

(فتح الباری :۱۰؍۱۹۵) قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ

''دم میں نفث (بقولِ نووی: تھوک کے بغیر پھونک، بحوالہ تحفۃ الاحوذی:۳؍۲۴۹) بغیر تھوک کے ہلکی سی پھونک مارنے کا فائدہ یہ ہے کہ اس کی رطوبت یا اس کی ہوا سے تبرک حاصل کرنا مقصود ہے۔'' (فتح الباری:۱۰؍۱۹۷)

اور جن احادیث میں پانی میں پھونک مارنے سے منع کیا گیا ہے، ان کا تعلق پینے کے وقت سے ہے۔چنانچہ مستدرک حاکم میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے:«لا يتنفس أحدکم في الإناء إذا کان يشرب منه» یعنی ''آدمی جب پانی پیئے تو پینے کے برتن میں سانس نہ لے۔'' چنانچہ حافظ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں:

«والتنفس في الإناء مختص بحالة الشرب» (۱؍۲۵۹)

یعنی ''برتن میں سانس لینا پینے کی حالت کے ساتھ مخصوص ہے۔ ''

اور صحیح بخاری میں حدیث ہے:

«إذا شرب أحدکم فلا يتنفس في الإناء»

''جب تم میں سے کوئی پانے پیئے تو برتن میں پھونک نہ مارے۔''

سوال:بعض صحابہ سے قرآنی تعویذ کا جواز نقل کیا گیا ہے اور ایک صحابی کے بارے میں ہے کہ وہ نابالغ بچوں کے گلے میں دعا لکھ کر لٹکا دیا کرتے تھے۔ صحابہ ؒکے یہ آثار صحیح ہیں یا ضعیف اورناقابل عمل؟

جواب:گلے میں تعویذ لٹکانے والا اثر حضرت عبداللہ بن عمرو ؓکی طرف منسوب ہے جو کہ صحیح ثابت نہیں ہے ،کیونکہ اس میں محمد بن اسحاق مدلس راوی ہے ،اس نے عنعنہ سے بیان کیا ہے۔ چنانچہ امام شوکانی ؒفرماتے ہیں:

«وقد ورد ما يدل علی عدم جواز تعليق التمائم فلا يقوم بقول عبد الله بن عمرو حجة» ''ایسی احادیث وارد ہیں جو تعویذات کے عدم جواز پر دلالت کرتی ہیں لہٰذا عبداللہ بن عمرو کا قول قابل حجت نہیں ہے۔''

اور امام ترمذی ؒکے قول حسن (غریب) میں بھی ضعف ِاسناد کی طرف اشارہ ہے۔

اس مسئلہ میں اگرچہ سلف کا اختلاف ہے ،تاہم ہمارے نزدیک راجح مسلک عدمِ جواز کا ہے،کیونکہ نبیﷺ سے بطورِ نص تعویذ لٹکانا ثابت نہیں۔

سوال: ایسی جگہ جو مدرسہ کے لئے وقف ہو، کیا اس کی عمارت میں بچوں کی تعلیم کے علاوہ نمازِ پنجگانہ خصوصاً نماز جمعہ و عیدین کا ادا کرنا جائز ہے؟جبکہ اس میں مسجد کی خاص علامات مثلاً مینار، منبر اور محراب وغیرہ بھی نہیںہیں۔ (محمد فیاض کھوکھر، سیالکوٹ)

جواب:اقامت ِجمعہ کے لئے مسجد کاوجود شرط نہیں۔ چنانچہ فقیہ ابن قدامہ فرماتے ہیں:

«ولا يشترط لصحة الجمعة إقامتها في البنيان ويجوز إقامتها فيما قاربه من الصحراء وبها قال أبوحنيفة» یعنی ''اقامت ِجمعہ کے لئے عمارت کا ہونا شرط نہیں۔ اس کے قریب میدان میں بھی جائز ہے۔ امامؒ ابوحنیفہ بھی اسی بات کے قائل ہیں۔ ''

اس کی دلیل یہ ہے کہ مصعب بن عمیرؓ نے انصار کو جمعہ نقیع خضمات میں واقع ایک وادی ھزم النبیت میں پڑھا یا تھا۔ اوراسلئے بھی کہ عید پڑھنے کا مقام جنگل ہے۔ جمعہ بھی چونکہ ایک طرح کی عید ہے ، لہٰذا اسے بھی جنگل میں ادا کیا جاسکتا ہے۔ ( تفصیل کیلئے: المغنی ۳؍۲۰۹)

جب جمعہ کی ادائیگی کے لئے مسجد کا وجود شرط نہیں تو کسی بھی دوسرے مقام پر جمعہ پڑھا جاسکتا ہے، خواہ وہ مدرسہ کی عمارت ہو یا کوئی دوسری جگہ ۔اس کے علاوہ حضرت عمرؓ کا قول : جمعوا حيثما کنتم ''جہاں کہیں بھی تم ہو جمعہ پڑھ لو۔'' بھی اسی بات کا مؤید ہے۔

اور عید اصلاً باہر پڑھنی چاہئے بامر مجبوری یہاں پڑھنے کا بھی جواز ہے اور مینار و محراب کی قیود بلا فائدہ ہیں، تاہم منبر کا وجود جمعہ میں حتیٰ المقدور سنت ہے، جبکہ عید کا خطبہ بلامنبر ہونا چاہئے۔

سوال: ایک خوبصورت مسجد جو سواسو سال پرانی ہے، رمضان المبارک میں زائد نمازیوں اور مُعتکفین حضرات کی وجہ سے تنگ پڑ جاتی ہے۔ کیا شرعی لحاظ سے یہ جائز ہوگا کہ اِسے گرا کر یا اِسی حالت میں لڑکیوں کے مدرسے میں تبدیل کردیا جائے اور کسی دوسری جگہ کشادہ اور بڑی مسجد تعمیر کردی جائے ۔نیز واضح رہے کہ ساتھ ہی مسجد کا ایک مکان بھی موجود ہے جسے گرا کر مسجدمیں توسیع بھی کی جا سکتی ہے۔

جواب:صورتِ سوال سے ظاہر ہے کہ مسجد میں توسیع کی گنجائش موجود ہے، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ اسی جگہ توسیع کرلی جائے، البتہ کسی معقول عارضہ کی بنا پر اس کو تبدیل کرنا بھی جائز ہے۔ چنانچہ کشف القناع عن متن الاقناع میں ہے کہ امام احمد ؒنے تبدیلی وقف پر اس بات سے استدلال کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے کوفہ میں جامع مسجد کا کھجور کے تاجروں سے (کسی دوسری جگہ کے عوض) تبادلہ کرلیایعنی وہ اسے بدل کر کوفہ میں دوسری جگہ لے گئے۔ اسی طرح فتاویٰ ابن تیمیہ ؒمیں ہے کہ حضرت عمرؓ نے شارعِ عام تنگ ہونے کی وجہ سے مسجد کاکچھ حصہ اس میں ملا دیا تھا۔(۳؍۲۸۸) حضرات صحابہ کرام ؓکے یہ تصرفات اس بات کی دلیل ہیں کہ مسجد کو کسی مجبوری کی بنا پر بدلنا جائز ہے ۔

سوال:کیا غصب شدہ زمین پر نماز جائز ہے ؟ (ابوحذیفہ، چو نیاں)

جواب: اس مسئلہ میں اہل علم کا اختلاف ہے ۔ حنابلہ کی اس کے بارے میں دو روایتیں ہیں ،ایک جواز کی اور دوسری عدمِ جواز کی۔اسی طرح امام ابوحنیفہ ؒ،مالک ؒاور شافعیؒ بھی ایک قول کے مطابق جواز کے قائل ہیں۔ صاحب ِالمہذب فرماتے ہیں:

''غصب شدہ زمین میں نماز ناجائز ہے ،کیونکہ یہاں اگرسکونت حرام ہے تو اس مقام پر نماز پڑھنا بطریق اولیٰ ناجائز ہوگا۔اگر کوئی یہاں نماز پڑھ لے تو نماز درست ہوگی، کیونکہ منع کا تعلق نماز سے مخصوص نہیں جواس کی صحت سے مانع ہو۔''

امام نوویؒ رقم طراز ہیں : ''غصب شدہ زمین میں نماز بالاجماع حرام ہے اور ہمارے نزدیک اور جمہور فقہا اور اصحابِ اُصول کے ہاں نماز پڑھ لی جائے تو درست ہوجائے گی۔''

میرا رجحان بھی اِسی قول کی طرف ہے کیونکہ نہی کا تعلق نفس نماز سے نہیں جو صحت ِنماز سے مانع ہو۔ تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو: المجموع شرح المہذب۳؍۱۶۵ اور المغنی:۲؍۴۷۶،۴۷۷

سوال:حافظ عبد اللہ محدث روپڑیؒ نے لکھا ہے کہ ''امام نے بے وضو نماز پڑھائی تو مقتدی کو بھی امام کی طرح نئے سرے سے نماز پڑھنا ہوگی۔'' (فتاویٰ اہلحدیث)

ابن باز ؒوغیرہ ایسے موقعے پر مقتدی کی نماز کو صحیح کہتے ہیں۔ درست مسئلہ کیا ہے؟

جواب: اس مسئلہ میں شیخ ابن بازؒ کاموقف راجح ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حدیث ہے: رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:

«يصلون لکم فإن أصابوا فلکم وإن أخطأوا فلکم وعليهم» (رقم ۶۹۴)

''وہ تمہیں نماز پڑھائیں گے۔ اگر وہ درستگی کو پہنچے تو تمہاری نماز کا ثواب تمہارے لئے ہے (اور ائمہ کا ثواب ان کے لئے ہے) اور اگر انہوں نے غلطی کی تو تمہاری نماز کا ثواب تمہارے لئے ہے اور ان کی غلطی کا مداوا ان کے ذمہ ہے۔''

امام بخاری نے اس پر یہ عنوا ن قائم کیا ہے: باب إذا لم يتم الإمام وأتم من خلفه

ابن منذر ؒفرماتے ہیں : '' اس حدیث میں اس آدمی کی تردید ہے جو یہ کہتا ہے کہ امام کی نماز فاسد ہونے سے مقتدی کی نما زبھی فاسد ہوجاتی ہے ۔''

اور 'شرح السنۃ' میں امام بغوی فرماتے ہیں: ''اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ جب کوئی امام بغیر وضو کے لوگوں کو نماز پڑھا دے تو مقتدیوں کی نماز درست ہے اورامام کو نماز لوٹانی پڑے گی۔ (فتح الباری:۲؍۱۸۸)

اور موطأ میں باب إعادة الجنب الصلاة میں بسند ِصحیح حضرت عمرؓ کا عمل بھی اسی طرح بیان ہوا ہے۔ اور سنن بیہقی :(۲؍۴۰۰ )میں حضرت عمرؓ اور عثمانؓ اور مصنف عبدالرزاق(۳۶۵۰) میں ابن عمرؓ کا عمل بھی یہی بیان ہوا ہے ۔ محدث روپڑیؒ نے جو موقف اختیار کیا ہے، وہ حنفیہ کے مسلک کے مطابق ہے۔ مصنف عبدالرزاق(۳۶۶۱)، دارقطنی (۱؍۱۳۹) میں حضرت علی ؓسے اس طرح مروی ہے ،لیکن اس اثر میں راوی عمرو بن خالد واسطی متروک الحدیث ہے ۔امام احمد نے اس پر جھوٹا ہونے کا الزام لگایا ہے اور حبیب بن ابی ثابت مدلس ہے۔ اس نے اس روایت کو عنعنہ سے بیان کیا ہے۔

نیز واضح ہو کہ موصوفین مرحومین دونوں میرے عظیم اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں۔ بالخصوص محدث روپڑیؒ سے ابتدائی مراحل سے لے کر سالہا سال تک استفادہ کا موقعہ میسر رہاہے۔

سوال: عمرمیں چھوٹے رشتے داروں مثلاً خالہ زاد، چچا زاد، سالیوں وغیرہ کو سر پر پیاردینا شرعی لحاظ سے کیسا ہے ؟ (عبدالستار بھٹی ،گوجرانوالہ)

جواب:بڑے اور چھوٹے کے درمیان اظہارِ اُلفت اور شفقت ومحبت کی شریعت میں ترغیب موجود ہے ،جس کے اظہار کے لئے کوئی بھی صورت ہوسکتی ہے۔ تاہم غیر محرم کے سر پر ہاتھ پھیرنے سے احتراز کرنا چاہئے۔