مسئلہ عراق، اُمت ِمسلمہ اور پاکستان

عراق کا مسئلہ انتہائی گھمبیر صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی معائنہ ٹیمیں گزشتہ چارماہ کی تلاشِ بسیار کے باوجودعراق میں کسی مہلک ہتھیار کا سراغ لگانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ عراق پر ممکنہ حملے کے خلاف ہر نسل اور ہر قوم کے کروڑوں افراد نے بھرپور صداے احتجاج بلند کی ہے۔روس ،فرانس اور چین جیسے اقوامِ متحدہ کے مستقل ارکان نے عراقی بحران کے سیاسی حل پر زوردیتے ہوئے کسی بھی ایسی قراداد کو ویٹو کرنے کا اعلان کیا ہے جو عراق کے خلاف جنگ شروع کرنے کا جواز عطا کرتی ہو۔ (نوائے وقت: ۱۲،۱۶؍مارچ)

عالمی ضمیر کے شدید احتجاج کے باوجودجنگی جنون میں مبتلا امریکی صدر جارج بش اور اس کی کابینہ کے ارکان ہر صورت میں عراق کو تاراج کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے معائنہ کاروں کی رپورٹوں کے علیٰ الرغم امریکہ، برطانیہ اور سپین نے سلامتی کونسل میں عراق کے غیر مسلح ہونے کے لیے ۱۷؍مارچ کی ڈیڈ لائن کی تجویز پیش کر دی ہے۔دورِ حاضر کے ہٹلر جارج بش نے پریس کانفرنس کے دروان نہایت متکبرانہ لہجے میں ایک دفعہ پھر اعلان کیا ہے کہ امریکہ اقوامِ متحدہ کی منظور ی کے بغیر عراق پر حملہ کر دے گا۔جارج بش نے کہا کہ اسلحہ انسپکٹروں کو مزید وقت دینے یا ان کی تعداد بڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ حملہ اس وقت تک نہیں رکے گا جب تک صدام کی شکل میں موجود سرطان کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ (نوائے وقت: ۸؍مارچ ۲۰۰۳ء)

برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیر ٔ جسے امریکی پالیسیوں کی کاسہ لیسی کی وجہ سے برطانوی عوام نے جارج بش کے 'وفادارکتے' کا لقب عطا کیا ہے ، نے اپنے ایک بیان میں یہاں تک کہا ہے کہ '' عراق تمام میزائل تباہ کر دے پھر بھی مجرم ہے۔''(نوائے وقت: ۶؍مارچ)

اگرچہ وقتی طور پر سلامتی کونسل میں دوسری قرارداد پر ووٹنگ کا فیصلہ واپس لے کر ا مریکہ کو خفت اور سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے ، مگریہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ امریکہ سلامتی کونسل سے قرارداد واپس لیکر ایک شکست خودرہ ریچھ کی طرح عراق پر چڑھ دوڑے گا۔(نوائے وقت ۱۶؍مارچ)

موجودہ خوفناک صورتِ حال کے پیش نظر یہ پیش گوئی کرنا مشکل نہیں ہے کہ ۱۷؍مارچ کے بعد کسی وقت بھی مشرقِ وسطی میں جنگ کا آتش فشاں پھٹ سکتا ہے!!

'اُمت ِمسلمہ' اور مسئلہ عراق

عراق کے نہتے اور معصوم مسلمانوں پر قیامت ِصغری کے سائے تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ بغداد اور دیگر شہروں پر آتش وآہن کی خوفناک بارش برسانے کی تیاریاں مکمل ہیں۔لاکھوں مسلمانوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ بحران اور آزمائش کی اس لرزہ خیز گھڑی میں اُمت ِمسلمہ کہاں کھڑی ہے؟ عالم اسلام کی قیادت نے ایک سپر پاور کی قاہرانہ جارحیت سے ایک کمزورمسلمان ملک کو بچانے کے لیے کیا حکمت ِعملی تیار کی ہے۔ حکومت ِپاکستان جس نے افغانستان کے خلاف ننگی جارحیت کے دروان ایک فرنٹ لائن سٹیٹ اور امریکہ کے وفادار ساتھی کا کردار ادا کیا تھا، عراق کے خلاف ممکنہ امریکی حملے کی صورت میں کیا پالیسی اختیار کرے گی؟ اب جب کہ پاکستان میں ایک لولی لنگڑی جمہوری حکومت قائم ہوچکی ہے ، کیا اب بھی پاکستانی عوام کی اُمنگوں کو نظر انداز کر دیا جائے گا؟... یہ وہ سوالات ہیں جو اُمت ِمسلمہ کا معمولی درد رکھنے والے ہر پاکستانی کے ذہن میں کلبلا رہے ہیں!!

نہایت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ عالم اسلام کی قیادت نے اس سنگین بحران کے دوران برادر اسلامی ملک عراق کے عوام کے ساتھ اس پرجوش یکجہتی اوروالہانہ تعاون کا اظہار نہیں کیاجس کی توقع کی جارہی تھی۔گزشتہ چار ماہ سے عراق کے خلاف عسکری جارحیت کی تیاریاں کی جا ری ہیں مگر اسلامی کانفرنس تنظیم (او آئی سی) کا سربراہی اجلاس ابھی چند روز پہلے یعنی ۵؍مارچ کو منعقد کیا جا سکا۔اس اجلاس میں اگرچہ متفقہ طور پر ممکنہ امریکی حملے کومسترد کر دیا گیا، تا ہم امریکہ کو اڈّے فراہم کرنے کے معاملے پر مسلمان رہنماؤں میں اختلافات رہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق اجلاس میں پہلے سے تیار کردہ اعلامئے کی زبان میں نرمی پیدا کی گئی جس میں مسلم ممالک سے کہا گیا تھا کہ وہ امریکہ کو فوجی سہولتیں دینے سے ا نکار کردیں۔ اس کے بجائے حتمی اعلامیہ میں کہاگیا ہے کہ عراق کے خلاف کاروائی میں کوئی ملک سر گرمی سے حصہ نہ لے۔ (نوائے وقت: ۶؍مارچ)

اسلامی کانفرنس کے اس سربراہی اجلاس میںمختلف عرب ممالک کے سربراہوں نے ایک دوسرے کے خلاف شدید توہین آمیز زبان بھی استعمال کی۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ عبداللہ بن عبد العزیز نے کرنل قذافی کے ریمارکس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ایک سیشن سے واک آؤٹ کر دیا۔۵۷؍ اسلامی ممالک پر مشتمل اسلامی کانفرنس تنظیم نے مشترکہ اعلامیہ میں قرار دیا کہ وہ مشرقِ وسطی میں تبدیلیاں تھوپنے اور داخلی امور میں مداخلت مسترد کرتے ہیں۔

OICنے زور دیا کہ عراق کا مسئلہ سفارت کاری کے ذریعے اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کیا جائے۔ بیان میں عالمی برادری سے کہا گیا کہ وہ پورے مشرقِ وسطی بشمول اسرائیل کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے کام کرے اور تخفیف ِاسلحہ کے بارے میں دوہرامعیار ختم کیاجائے۔اگرچہ OIC نے کسی بھی مسلم ملک کی سلامتی کو درپیش دھمکیوں کو مسترد کر دیا لیکن اس کا اعلامیہ اس بارے میں قطعی طور پر خاموش ہے کہ اگر امریکہ عالمی رائے عامہ کو نظر انداز کرتے ہوئے عراق پر حملہ کر دیتا ہے تو پھر اسلامی ممالک کیا اقدامات کریں گے۔ یہ بات درست ہے کہ تمام اسلامی ممالک مل کر بھی امریکہ کی فوجی قوت کامقابلہ نہیں کر سکتے مگر وہ کم از کم اتنا تو کر سکتے ہیں کہ عراق پر ممکنہ امریکی حملے کی صورت میں امریکہ سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کر دیں!!

بعض مسلمان ملکوں کی طرف سے مادّہ پرستانہ خود غرضی اور قوم پرستانہ تنگ نظری کی شرمناک مثالیں بھی سامنے آئی ہیں۔ 'ترقی اور انصاف پارٹی' کے نام سے ترکی میں برسراقتدار آنے والی نام نہاد اسلام پسندوں کی حکومت نے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ترکی کی سر زمین کوعراق کے خلاف استعمال کرنے کے عوض ۵۰؍ارب ڈالر ادا کرے۔ امریکہ نے شروع میں ۲۶؍ارب ڈالر کی بولی لگائی، بعد میں یہ سودے بازی ۳۲؍ ارب ڈالر تک جاپہنچی، مگر بھلا ہو ترک پارلیمنٹ کا کہ جس نے معمولی اکثریت سے عراق کے خلاف امریکہ کی کسی قسم کی حمایت کا انکار کر کے ترک حکومت کو ملت فروشی کے اس قبیح فعل سے باز رکھا اور اُمت ِمسلمہ کی شکستہ اُمنگوں کی لاج رکھ لی۔

اسلامی سربراہی اجلاس کے مذکورہ اعلامیہ کے باوجود قطر، کویت، متحدہ عرب امارات اور بحرین میں دو لاکھ سے زیادہ امریکی افواج متعین ہیں۔ ان ممالک کی سرزمین کو استعمال کیے بغیر امریکہ عراق پر حملہ نہیں کر سکتا۔ مصر، اُردن جیسے مسلم ممالک نے اگرچہ اس بحران کے پر امن حل پر زور دیا ہے مگر ان کا لب ولہجہ چغلی کھا رہا ہے کہ وہ بالآخر امریکی دباؤ کے آگے جبین ِنیاز جھکا دیں گے۔

سعودی عرب کے متعلق بھی متضاد خبریں شائع ہوئی ہیں۔سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل کا تازہ ترین بیان ۱۵؍مارچ کو شائع ہوا ہے کہ سعودی عرب امریکہ کو عراق کے خلاف فوجی اڈّے نہیں دے گا۔سعودی عرب کے ۳۲ جید علما نے فتویٰ دیا ہے کہ عراق کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینا بد ترین گناہ ہو گا ، کوئی فردِ واحد اس جنگ میں ساتھ دے یا کوئی حکومت اس کی بالواسطہ یا بلا واسطہ حمایت کرے وہ بد ترین گناہ کی مرتکب ہو گی ۔فتویٰ میں تمام حکومتوں خاص طور پر خطے کے ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ امریکی مکروہ عزائم کو مسترد کر دیں۔ (نوائے وقت ۱۶؍مارچ)

سعودی عرب میں علما کی آرا کو جس طرح عوامی اور حکومتی سطح پر اہمیت دی جاتی ہے، اس کے پیش نظر سعودی حکومت کے لیے امریکی حمایت کا فیصلہ سخت آزمائش سے کم نہیں ہوگا۔

واضح رہے کہ جدید خیالات کے مالک مصر کی جامعہ الازہر اس سے پہلے اسی طرح کا فتویٰ جاری کر چکی ہے۔ مصری عوام بھی بھر پور احتجاج کر رہے ہیں مگر وہاں کی امریکہ نواز حکومت نے ابھی تک کوئی واضح پالیسی نہیں اپنائی۔

اس گئے گزرے دور میں جب اُمت ِمسلمہ ایک متحدہ قیادت سے محروم ہے، اُمت کے جذبات کی صحیح ترجمانی کا فریضہ ایک ایسے مسلمان حکمران نے انجام دیا ہے جس کو اپنے ملک میں اسلام پسندوں کی مزاحمت کا سامنا ہے۔ ہماری مراد ملائشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد سے ہے۔ ۲۳؍فروری کو کوالالمپور میں 'غیر وابستہ تحریک' کے چیئرمین کے طور پر افتتاحی خطاب کرتے ہوئے جناب مہاتیر محمد نے نہایت ولولہ انگیز انداز میں فرمایا:

''عراق پر امریکی حملے کو عالم اسلام اور اسلام کے خلاف جنگ تصور کیاجائے گا۔مغربی اَقوام کا نشانہ مسلمان ہیں، نہ کہ وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیار۔ ایسا ہوتا تو امریکہ عراق کی بجائے شمالی کوریا پر توجہ دیتا۔فوجی طاقتیں 'دہشت گردی' کو دنیا فتح کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ ان کے رہنما پتھر کے دور کے حکمران بن گئے ہیں جن کے خیال میں 'قتل عام' ہی ہر مسئلے کا حل ہے۔'' (روزنامہ 'جنگ' لاہور: ۲۴؍فروری ۲۰۰۳ء)

جناب مہاتیر محمد نے اُمت ِمسلمہ کی نمائندگی جس بھر پور اور مؤثر انداز میں کی ہے، آنے والا مؤرخ عالم اسلام کے اس بطل ِجلیل کی جرا ت اور دور اندیشی کو سلام پیش کرے گا۔

مسئلہ عراق اور پاکستانی عوام

۱۵؍ فروری کو جب برطانیہ ،سپین، اٹلی،جرمنی، امریکہ اور دیگر ممالک کے کڑوڑوں عوام نے عراق کے خلاف ممکنہ امریکی جارحیت کے خلاف عالمی ضمیر کی نمائندگی کرتے ہوئے تاریخ ساز مظاہرے کیے تو پاکستان کے چند شہروں میں چھوٹی سطح پر مظاہرے دیکھنے میں آئے۔اس کا مطلب ان کی بے حسی نہیں جس طرح کہ بعض پاکستانی کالم نگاروں نے عام طور پرسمجھا۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے مسلمان کسی بھی برادر مسلمان ملک پر جارحیت کے خلاف شدید جذبات رکھتے ہیں، مگر افغانستان پر امریکہ کی وحشیانہ بمباری اور بعد میں سقوطِ کابل کی وجہ سے پاکستانی عوام میں دل شکستگی کے جذبات کاپیدا ہونا فطری امر تھا۔طالبان کے حق میں مظاہرہ کرنے والے ہزاروں افراد کو تشدد اور مصائب سے بھی گزرنا پڑا۔

مزید برآں اکتوبر کے انتخابات کے فوراً بعد متحدہ مجلس عمل کی قیادت مختلف آئینی اور سیاسی اُمور میں اس قدر اُلجھی رہی کہ فوری طور پر عراق کے مسئلے کے متعلق عوام الناس کو سڑکوں پر لانا دشوار تھا۔ بالآخر متحدہ مجلس عمل کی کال پر ۲؍ مارچ کو کراچی اور ۹؍مارچ کوراولپنڈی میں 'ملین مارچ'کی صورت میں عوامی احتجاج کا سیلاب اُمڈ آیا۔مجلس کی قیادت کے دعویٰ کے مطابق بالترتیب ۳۳؍لاکھ اور ۵۰؍لاکھ شرکاء نے حصہ لیا۔لاکھوں شرکاء نے مجلس عمل کے قائدین کی اپیل پر ہاتھ اُٹھا کر حکومت کی امریکہ حمایت پالیسی کو مسترد کرنے کا اعلان کیا۔ راولپنڈی کے ملین مارچ سے خطاب کرتے ہوئے مجلس عمل کے قائدین نے کہا کہ امریکہ جار ح ہے اور دنیا بھر میں دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے۔جارج بش عظیم تر اسرائیل کی تعمیر اور مسلمانوں کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی قوم اپنی غیرت کا سودا کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ اُنہوں نے مطالبہ کیا کہ سلامتی کونسل میں حکومت ِپاکستان جنگ کی مخالفت میں ووٹ دے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام عراق کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کوعراق پالیسی تبدیل کرنے ہوگی۔ عوام حکومت کو امریکہ کے کیمپ میں نہیں دیکھنا چاہتے۔یہ ایک صلیبی جنگ ہے جس نے ساری دنیا کے مسلمانوں سے مقابلہ کرنا ہے۔پہلے اللہ ، اسلام اور اُمت ِمسلمہ ہے۔ 'سب سے پہلے پاکستان' کا نعرہ لگانے والے اپنے اقتدار کوبچانے کی بات کرتے ہیں۔(نوائے وقت: ۱۰؍مارچ) ملین مارچ میں بعض سیکولر رہنماؤں اصغر خان، عمران خان، رحمت خان وردگ اور مسلم لیگ ' ن' گروپ کے جاوید ہاشمی نے بھی خطاب کیا۔

پاکستان کا سرکاری موقف

ان مظاہروں سے پہلے حکومت پاکستان کوئی واضح سرکاری موقف پیش کرنے سے گریز کر تی رہی۔کھل کر جنگ کی حمایت بھی نہ کی گئی اور امریکہ کو ناراض نہ کرنے کا اہتمام بھی کیا گیا۔ ۲۴؍فروری کو غیر وابستہ تحریک جس کے ارکان کی تعداد ۱۱۶ ہے، نے عراق کے خلاف امریکی جارحیت مسترد کرنے کی قرار داد منظور کی تو پاکستان نے نہ صرف اس کی حمایت کی بلکہ صدر مشرف نے وہاں ایک پریس کانفرنس میں کہاکہ پاکستان کسی بھی صورت میں جنگ کا حامی نہیں ہے۔ یکم مارچ کو امریکہ کی نائب وزیر خارجہ کرسٹینا روکا پاکستان کے دورے پر اس لیے آئی تھیں تاکہ اس امریکی قرارداد پر پاکستان کی حمایت حاصل کر سکیں جو ۲۵؍ فروری کوسلامتی کونسل میں پیش ہوئی۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی نائب وزیر خارجہ کو پاکستان کے اس موقف سے آگاہ کیا گیا کہ عراق کو اگر وقت درکار ہو تو ضرور ملنا چاہیے۔عراق پر حملے کے مضمرات بیان کرتے ہوئے صدر مشرف نے کہا کہ اس کے خلاف عالم اسلام میں شدید ردّ عمل ہو گا۔ اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے منیر اکرم نے ایک بیان میں کہا کہ ''پاکستان کا موقف ہے کہ جنگ سے بچتے ہوئے قراردادوں پر عمل کیا جائے۔ ہم ڈیڈ لائن کے خلاف ہیں۔'' (۹؍مارچ ۲۰۰۳ء)

عراق جیسے اہم مسئلے پر تادمِ تحریر (۱۶؍ مارچ) پاکستان کی پارلیمنٹ میں بحث نہیں کی گئی۔ البتہ وزیر اعظم پاکستان جناب ظفر اللہ جمالی نے گزشتہ چند روزمیں جو بیانات دیے ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس مسئلے پر کافی حد تک گومگو کی حالت میں رہے ہیں۔

٭ ۲؍ مارچ کو انہوں نے بیان دیا کہ ''وہ عراقی بحران پر پارلیمنٹ اور عوام کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کریں گے۔'' (۳؍مارچ ۲۰۰۳ء)

٭ ۵؍مارچ کو روزنامہ جنگ کے زیر اہتمام سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ''ہم ساری دنیا کے ٹھیکیدار نہیں ہیں۔ عالمی بحرانوں سے پہلے ہمیں مل جل کر اندرونی بحران ختم کرنا ہوں گے۔''(جنگ :۶؍مارچ ۲۰۰۳ء)

٭ ۸؍مارچ کو ان کی نسلی حمیت جاگی تو ارشاد ہوا کہ '' میں خود عراقی النسل ہوں۔ مجھ سے زیادہ اُن کا خیال کون رکھے گا۔'' ( نوائے وقت:۹؍مارچ )

٭ ۹؍مارچ کو اُنہوں نے ارشاد فرمایا: ''ملین مارچ والے قوم کے خیر خواہ نہیں۔'' (نوائے وقت: ۱۰؍مارچ)

٭ ۱۰؍مارچ کو پہلی مرتبہ انہوں نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے بیان دیا:

'' عراق پر امریکی جارحیت کا ساتھ نہیں دیں گے۔ ہر فورم پر آواز بلند کرتے رہیں گے کہ عراق پر حملہ نہ کیا جائے۔ووٹنگ کا وقت آیا تو دیکھیں گے۔'' (نوائے وقت،جنگ ۱۱ ؍مارچ)

٭ ۱۱؍مارچ کو جمالی صاحب نے وزارتِ عظمی کے منصب پر سرفراز ہونے کے بعد پہلی مرتبہ قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

''عراق سے جنگ کی حمایت کرنا بہت مشکل ہو گا،ہم عراق کی تباہی نہیں چاہتے،پاکستان عراق کی خیر خواہی چاہتا ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ایک مسلمان ملک تباہ ہو جائے۔ عراق کے بارے میں وہاں کے حکمران خود فیصلہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ کابینہ اور حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ عراق پر جنگ کی حمایت بہت مشکل ہے۔ وقت آنے پر ہم وہی فیصلہ اپنائیں گے جو سب سے بہترہوگا۔اُنہوں نے اقوامِ متحدہ سے اپیل کی کہ عراق کو مزید وقت دیا جائے۔'' (نوائے وقت: ۱۲؍مارچ)

۱۶؍مارچ کو جناب خورشید محمود قصوری ، وزیر خارجہ کا یہ بیان شائع ہوا:

'' عراق پر حتمی فیصلہ کر لیا ہے ،جمالی اعلان کریں گے۔عراق پر قومی پالیسی تشکیل دیتے ہوئے رائے عامہ ، اپوزیشن پارٹیوں اور پنڈی کے ملین مارچ کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے۔'' (نوائے وقت ۱۶؍مارچ)

پاکستانی اہل دانش کی آرا

پاکستان کے دانشور عراقی مسئلے کے متعلق جوخیالات رکھتے ہیں، اسکی ایک واضح جھلک ابھی چند روز پہلے لاہور میں منعقد ہونے والے دو اہم سیمیناروں کے مقررین کے بیانات میں ملتی ہے:

٭ مؤرخہ ۵؍مارچ کو جنگ گروپ آف نیوز پیپر کے زیر اہتمام 'موجودہ عالمی بحران میں پاکستان کا کردار' کے موضوع پر ایک قومی سیمینار منعقد کیاگیاجس میں مختلف عہدیداروں، ایوانِ صنعت وتجارت کے عہدیداروں اور دانشوروں کے علاوہ وزیر اعظم نے بھی خطاب کیا۔ اس سیمینار میں اس بات پر اتفاق پایا گیا کہ ''قومی مفادات کو 'مقدم' رکھا جائے۔''

مقررین نے ایک اور بات کی کہ عراق کا موجودہ بحران اسلام اور کفر کی جنگ نہیں ہے۔ بیشتر رہنماؤں کا کہنا تھا کہ یہ مفادات کی جنگ ہے اور پاکستان کو اس حوالے سے اپنے مفادات کو اوّلین ترجیح دینی چاہیے۔ سابق صدر فاروق لغاری نے کہا کہ عراق کے بحران سے عہدہ برآ ہونے کے لیے جذباتی نعروں کی بجائے ہوش مندی سے کام لینا ہوگا اور پاکستان کے مفاد کو پہلے دیکھنا ہوگا۔ وزیر اعظم ظفر ا للہ جمالی نے اسی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ''ہم ساری دنیا کے ٹھیکیدار نہیں ہیں۔'' (جنگ: ۶؍مارچ )

روزنامہ جنگ نے اسی سیمینار کو ۶؍مارچ کی اشاعت میں ''دوسروں کے مفاد کا نہیں، اپنوں کے مفاد کا تحفظ کریں۔'' کے عنوان سے اپنے ادارئیے کا موضوع بنایا۔پاکستان کے اس کثیر الاشاعت اخبار نے میر ظفر اللہ جمالی کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا

'' ان کا کہنا بالکل درست ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ قوم کو سب سے پہلے پاکستان کے مفاد کو اوّلیت دینی ہو گی۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم دوسروں کے مفادات کا تحفظ کرتے رہیں اور اپنے مفادالت کو نقصان پہنچا لیں۔ اس سے بڑی نا سمجھی کی بات اور کیا ہوگی ...''

٭ دوسرا سیمینار ۱۰؍مارچ کو نوائے وقت اور دی نیشن کے زیر اہتمام منعقد ہوا۔اس سیمینار سے سابق گورنر پنجاب جناب شاہد حامد، سابق وزیر خارجہ آصف احمد علی، جنرل (ر) نصیر اختر،شعبۂ سیاسیات پنجاب یونیورسٹی کے سربرا ہ حسن عسکری،جناب عارف نظامی اور دیگر مقررین نے خطاب کیا۔مقررین نے مسئلہ عراق پر پارلیمنٹ میں بحث کو وقت کی ضروت قرار دیا۔ بیشتر مقررین اس امر کے حق میں تھے کہ ہمیں امریکہ کا ساتھ نہیں دینا چاہیے اور سیکورٹی کونسل میں دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر قرارداد کی مخالفت کرنی چاہیے۔ البتہ دو مقررین کا کہناتھا کہ ہمیں اپنے قومی مفادات کو یقینی بناتے ہوئے امریکہ کی مخالفت سے پرہیز کرنا چاہیے۔ شاہد حامد نے کہا کہ ہم اس بات کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ ہم امریکہ کی صریحاً مخالفت کریں۔ البتہ جنرل مشرف کو اتنی ہمت کرنی چاہیے کہ صدر بش سے کہیں کہ ا فغان مسئلہ پر ہم نے آپ کا ساتھ دیا، مگر اب ہم ساتھ نہیں دے سکتے۔جناب عارف نظامی نے کہا کہ اصل سوال یہ ہے کہ سلامتی کونسل میں امریکہ کے خلاف ووٹ دینے سے فوجی حکومت کے اِقتدار کو خطرہ ہے یا پاکستان کے مفادات کو ؟...انہوں نے کہا کہ عوام کے رجحان اور حکومتی پالیسی میں ٹکراؤ ہے۔ سردار آصف احمد علی نے کہا کہ یہ عیسائی اور مسلم تہذیب کی جنگ نہیں ہے ، در اصل وہ ٹولہ جس کا امریکہ کی اسلحہ ساز صنعت اور تیل سے مفاد وابستہ ہے ، امریکہ پر قابض ہو گیا ہے۔یہ صرف عراق کی جنگ نہیں ہے بلکہ دنیا پر امریکہ کی بالادستی قبول کرنے کی جنگ ہے۔وہ عرب ملکوں کے دلوں میں خوف پیدا کرکے اسرائیل کومضبوط کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ امریکہ کوووٹ دینا مشرف کی مجبوری ہے۔قرار داد کے خلاف ووٹ دینے سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں بلکہ خطرہ صرف مشرف کو ہے۔

جنرل نصیر اختر نے کہا کہ ہم ہر مسلمان ملک کے مسئلے میں جذباتی ہو جاتے ہے حالانکہ ہمیںسب سے پہلے ملکی مفاد کو سامنے رکھناچاہیے۔یہ اُمت ِمسلمہ کے خلاف جنگ نہیں بلکہ صرف عراق کے خلاف جنگ ہے۔ انہوں نے کہاکہ عراق نے اُمت ِمسلمہ کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ صدام کا دماغی توازن صحیح نہیں ہے۔یورپ اپنے مفاد کی خاطر مخالفت کر رہاہے، اس لیے اس کو معاشی جنگ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ڈاکٹر حسن رضوی نے کہاکہ عراق پر امریکی جارحیت کے مسئلے پر پاکستان کو واضح پالیسی اپنانی چاہیے، فی الحال ہم ابہام کا شکار ہیں۔ہمیں ایسی کوئی پالیسی اختیار نہیںکرنی چاہیے جس سے پاکستان کو نقصان ہو۔انہوں نے کہاکہ اگر اقوام متحدہ کی ڈیڈ لائن کی حامل قرارداد سامنے آئے تو پاکستان کو مخالفت میں ووٹ دینا چاہیے۔ انہوں نے کہ ہماری خارجہ پالیسی عوامی حمایت سے محروم ہے۔(نوائے وقت ،لاہور:۱۱؍مارچ )

٭ جناب ارشاد حقانی صاحب کا شمار ہمارے ملک کے دانشور اور مدبر صحافیوں میں ہوتا ہے۔ سرکاری حلقوں میں بھی ان کی آرا کو وقعت دی جاتی ہے۔ انہوں نے 'عراق کی صورتحال؛ پاکستان کے لیے بہترین لائحہ عمل' کے عنوان سے کئی اقساط میں مفصل اظہارِ خیال کیا۔انہوں نے قوم کی 'فکری رہنمائی' کا فریضہ ان الفاظ میں ادا کیا:

''میری رائے یہ ہے کہ پاکستان اپنے ووٹ کے معاملے میں آخر وقت تک اِبہام رکھے اور بالآخر ہمیں کیا کرنا ہے، یہ فیصلہ آخری مرحلے پر عمائدین ِحکومت کریں۔ میرے بعض دوست اس کو 'موقع پرستی' کا نام دیں گے۔ وہ کہیں گے کہ

''ہمیں کھل کر مخالفت کرنی چاہیے۔ پاکستان کا مفاد کوئی چیز نہیں ہے۔ اُمہ کا مفاد سب سے اہم اور مقدم ہونا چاہیے۔ 'سب سے پہلے پاکستان کا مفاد' عالم اسلام اور اُمہ کے تصورسے انحراف اور بغاوت ہے۔''

معاف کیجئے، میں اس رائے سے اتفاق نہیں کرتا۔ میرے خیال میں پاکستان کے اور اسلام کے مفاد میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ کسی قسم کا تصادم نہیں ہے۔ جو چیز پاکستان کے مفاد میں ہے، وہ اسلام کے مفاد میں سمجھی جانی چاہیے اور جو چیز اسلام کے مفاد میں ہے، اسے پاکستان کے مفاد میں بھی سمجھنا چاہیے۔ان میں تضاد کا ذکر کرنا بالکل خلط ِمبحث ہے اور گہرائی میں نہ جاتے ہوئے بات کو اُلجھانے والی بات ہے۔''

موصوف نے اس مسئلے پر محض اپنی خداداد حکمت ودانش پرانحصار ہی نہیں کیا بلکہ حسب معمول اپنی اس رائے کو قرآنی منشا بنا کر پیش کرنے کی کاوش بھی فرمائی۔مزید لکھتے ہیں

''اس حوالے سے آپ میری ذاتی رائے بھی پوچھ سکتے ہیں۔ بنیادی طور پر میری یہ رائے ہے کہ ہم جنگ کے خلاف ہیں، ہم اس کی حمایت نہیں کر سکتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم عراق کے خلاف جنگ کی مخالفت کرتے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ ہماری خواہش ہے کہ موجودہ مرحلے پر اگر پاکستان کچھ فوائد حاصل نہیں کرتا تو نقصان میں بھی نہ رہے۔فائدے او رنقصان کی اہمیت تو ہر وقت رہتی ہے لیکن جب پاکستان کے سر پر ہندوستان جیسا ظالم اور جارح ملک بیٹھا ہو جس کی ایک ایک چیز پر نظر ہے جو اُسے نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرنے میں مصروف ہو تو ایسی صورت میں اپنے بچاؤ کا سوچنا ضروری ہے۔اس حوالے سے قرآن پاک میں موجود سورئہ آلِ عمران کی آیت نمبر ۲۸ کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ اس آیت میں مسلمانوں کو واضح طور پر ہدایت کی گئی ہے کہ اگر دشمن طاقت ور ہو اور تم نے اس سے بچنا ہو، تم کسی اُلجھن میں پھنس جاؤ توایسی صورت میں آپ اس کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کر سکتے ہیں جس سے وہ دھوکے میں آجائے اوروہ دھوکے میں مبتلا ہو جائے گاکہ یہ ہمارے ساتھ ہیں، چاہے کوئی فرد ہویا قوم ...''

آگے چل کر اپنے مضمون کا اختتام وہ ان الفاظ میں کرتے ہیں ''ہماری دو بنیادی ترجیحات ہیں: ایک عراق کے خلاف جنگ کی مخالفت اور دوسرے پاکستان کامفاد۔ اس حوالے سے میں پاکستان کے مفاد کو اور اسلام کے مفاد کو متصادم نہیں سمجھتا۔جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں، وہ بے شک سمجھتے رہیں۔'' (روزنامہ جنگ: ۶؍مارچ)

موصوف کی اسلامی حمیت جاگ اُٹھنے کا داعیہ تھا، یا ان کے ضمیر کی اندرونی آواز کہ صرف پانچ روز بعد یعنی۱۱؍مارچ کو اپنے کالم میں وہ اس طرح رقمطراز ہوئے : '' پاکستان کو امریکی قرارداد کی حمایت کاکوئی جواز نہیں ہو گا۔ امریکی وزیر خارجہ کے تازہ بیانات سے اندازہ ہوتا ہے (یہ بات یقینی نہیں) کہ انہیں اپنی قرارداد کے حق میں پاکستان کا ووٹ بھی ملنے کی اُمید ہے۔ یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ پاکستان کو امریکی وبرطانوی قراردادکے حق میں ہرگز ووٹ نہیں دینا چاہیے۔اس کا کوئی جواز نہیں ہو گا جو عذر ہمیں افغانستان کے حوالے سے دستیاب ہے، یہاں وہ دستیاب نہیں۔ اُمید ہے، صدر مشرف قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔''

ریاست کے اندرونی معاملات کی تنظیم کا مسئلہ ہو یا خارجہ پالیسی جیسے نازک بین الاقوامی اُمور کے متعلق ترجیحات کے تعین کی بات ہو، ایک اسلامی ریاست اور اسلامی قیادت کے لیے فیصلہ سازی کے لیے اگر کوئی چیز اساس اور معیار ہونے کامقام رکھتی ہے ، تو وہ صرف اور صرف قرآن وسنت کی تعلیمات ہیں۔ ایک اسلامی ریاست کے وقتی مفادات بھی ان اَبدی تعلیمات کے تابع ہیں۔قرآنِ مجید میں تو واضح ارشاد ہوتا ہے : ﴿إِنَّمَا المُؤمِنونَ إِخوَةٌ...١٠﴾... سورة الحجرات '' بے شک مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں''

کیا کوئی بھائی اپنے دوسرے بھائی کے قتل کے لیے کسی وحشی قاتل کا دست وبازو بن سکتا ہے یا کسی بھی طرح اعانت ِ جرم کامرتکب ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہ انتہائی غیر منطقی اور لغو دلیل ہے کہ چونکہ صدام حسین ایک ظالم ڈکٹیٹر ہے اور اس نے پاکستان کے مقابلے میں ہمیشہ بھارت کا ساتھ دیاہے ، لہٰذا آج پاکستان کو عراق کے خلاف امریکی حملے کی حمایت میں ووٹ دینا چاہیے۔ اسلامی حمیت کسی حکمران کے شخصی کردار کو پیمانہ بنانے کی ہرگز اجازت نہیںدیتی۔ خلیج کی جنگ ۱۹۹۱ء میں کیا ہوا؟ صدام اور اس کا ظالم مقتدر ٹولہ تو محفوظ رہے، لاکھوں عراقی مسلمان اس ننگی جارحیت کا شکار ہوئے اور اب تک مصائب کی بھٹی میں جل رہے ہیں۔

اگر امریکہ بغداد پر تین ہزار بموں کی پہلے دن بارش کرتا ہے ، جیسا کہ علیٰ الاعلان اس کی دھمکی دی جا رہی ہے ، تو اس کا شکار کون ہوں گے؟ پاکستان پوری دنیا کا ٹھیکیدار نہیں بن سکتا، مگر ہم بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام پر آخر کیوں کر خاموش رہ سکتے ہیں ؟ اسلامی اُخوت اور انسانیت دونوں ہمیں ایسے خون آشام ہولناک مناظر دیکھ کر پر سکون کیسے رہنے دے سکتی ہے؟ ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ ملت ِاسلامیہ مختلف ملکوں میں تقسیم ہونے کے باوجود اُصولی اور نظریاتی طور پر ایک جسم واحد کی طرح ہے اورمسلمان خواہ کہیں ہوں، اسی ملت کے اعضاء وجوارح ہیں۔عراقی مسلمان تو کلمہ گو ہیں، امریکہ اس طرح اگر کسی غیر مسلم ملک کے بے گناہ شہریوں کو بھی وحشیانہ جارحیت کا نشانہ بنائے تو اسلام ایسی جارحیت کی حمایت کی اجازت نہیں دیتا۔ حضورِ اکرمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: '' ایک مؤمن دوسرے مؤمن کے لیے ایسا ہے کہ جیسے کسی دیوار کی اینٹیں کہ ایک اینٹ دوسرے اینٹ کو سہارا دیتی ہے۔'' (بخاری مسلم)

اسے ملت ِاسلامیہ کی سیاہ بختی نہ کہیے تو اور کیا نام دیں کہ آج اس دیوار کی اینٹیں ایک دوسرے کو سہارا دینے کی بجائے ایک دوسرے سے ٹکرا کر اسے پاش پاش کر رہی ہیں۔ دشمنانِ اسلام جب چاہتے ہیں، ایک اینٹ کو دوسری اینٹ سے بجا دیتے ہیں اور مسلمان ان کی دوستی کے فریب سے باہر نکلنے کو تیار نہیں ہیں !!

'سب سے پہلے پاکستان' اور فکر ِاقبال وقائد

ایک مسلمان کے لیے قرآن وسنت کی شہادت کے بعد کسی دوسرے فرد کی رائے قابل حجت نہیں ہونی چاہیے مگر ہمارے ہاں ایک طبقہ اسلام کی وہی تعبیر قابل قبول سمجھتا ہے جسے قومی مشاہیر کی آرا کی تائید حاصل ہو۔ جان بوجھ کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ 'علما کا اسلام' اور 'مشاہیر کا اسلام' دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ حالانکہ اسلام کی تعلیمات ابد ی ہیں اورکوئی سچا مسلمان ان سے روگردانی نہیں کر سکتا۔

جو لوگ آج 'سب سے پہلے پاکستان' کی بات کرتے ہیں، وہ بارہا اپنے بیانات میں کہہ چکے ہیں کہ وہ پاکستان کو علامہ اقبال اور قائد ِاعظم کے افکار کی روشنی میں ایک فلاحی اسلامی مملکت کے طورپر دیکھنا چاہتے ہیں۔ان میں بعض تو یہاں تک بھی کہہ دیتے ہیں کہ وہ پاکستان میں 'قائد اعظم کا اسلام' نافذکرنا چاہتے ہیں۔مگر جب انہوں نے 'سب سے پہلے پاکستان' کی پالیسی اپنائی تو اس کی تائید میں نہ تو علامہ اقبال کی فکر سے کوئی حوالہ پیش کیا اور نہ ہی قائداعظم کے اقوال سے اس کی تائید ثابت کی۔ علامہ اقبال نے تو اپنے اشعار میں 'پان اسلام ازم' اورملت ِاسلامیہ کے اتحاد کا اس کثرت سے اظہا ر کیا ہے کہ اگر ان کو ایک جگہ جمع کر دیا جائے تواچھا خاصا مجموعہ مرتب ہو جائے گا۔ان کے یہ اشعار تو بے حد معروف ہیں: ؎

؎ اُخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جوکابل میں
ہندوستان کا ہر پیرو جوان بے تاب ہو جائے
؎ اگر تہران ہو عالم مشرق کا جنیوا
مسلمانانِ عالم کی تقدیر بدل جائے !
؎ بتانِ رنگ خون کو توڑ کے ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی ، نہ ایرانی نہ افغانی !
؎ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے تابخاکِ کاشغر


ہمارا سیکولر طبقہ تو قائد اعظم کی محض ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء والی تقریر کے چند جملے ہی ازبر کیے ہوئے ہے۔دیگر دانشور بھی قائد اعظم کے ان بیانات کا ذکر کم ہی کرتے ہیں جن میں انہوں نے عالم اسلام سے یک جہتی کا اظہار کیا ہے۔ہم ذیل میں قائداعظم کے چند بیانات نقل کرتے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ وہ مسلم ممالک کے خلاف کسی قسم کی جارحیت پر کس قدر تشویش میں مبتلا ہو جاتے تھے۔

۱۹۳۹ء میں جنگ ِعظیم دوم شروع ہو گئی تھی۔اس وقت مشرقِ وسطی میں مسلم ممالک کی آزادی خطرے میں تھی۔۲۹؍ستمبر ۱۹۴۰ء کوقائداعظم کی زیر صدارت 'آل انڈیا مسلم لیگ کونسل' کا اجلاس منعقد ہوا۔اس اجلاس میں ایک قرار داد منظور کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ ''اس امر کے پیش نظر کہ حال ہی میں ہند میں ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں اور ان کا اعادہ ہوا کہ یہ اِمکان موجود ہے کہ جنگ کے شعلے پھیل جائیں اورمسلم ممالک: مصر، فلسطین، شام اور ترکی کی آزادی اور اقتدارِ اعلیٰ کے خلاف خارجی قوتوں کا جارحانہ اقدام ہو۔ صدر مسلم لیگ ایک دن مقرر کریں جس کا مقصد مسلمانانِ ہند کی جانب سے مسلم ممالک کے ساتھ گہری ہمدردی کا اظہار اور تشویش کامظاہرہ ہو اور ان ملکوں کو یہ بتانا جن کے مسلمان ملکوں کے خلاف ایسے عزائم ہوں کہ مسلم ممالک کے خلاف حملے کی صورت میں مسلم ہند ان کی حمایت کی غرض سے کھڑا ہونے پر مجبور ہو جائے گا اور انہیں جملہ حمایت فراہم کرے گا جو وہ کرسکتا ہے۔'' ('قائد اعظم؛ تقاریر وبیانات ' جلد دوم؍ ص ۳۹۹،شائع شدہ بزمِ اقبال )

اس قرارداد کو روبہ عمل لانے کے لیے ۱۱؍اکتوبر۱۹۴۰ء کو مسلمانانِ ہند سے یکم نومبرکو'یومِ مسلم ممالک' منانے کی اپیل کی۔ ' دی سٹارآف انڈیا' نے اے پی آئی کے حوالے سے ۱۲؍اکتوبر ۱۹۴۰ کو ان الفاظ میں خبر شائع کی :

'' مسٹر ایم اے جناح صدر آل انڈیا مسلم لیگ نے اعلان کیا ہے کہ یکم نومبر کو 'یوم مسلم ممالک' منایا جائے جس کا مقصد مسلمان ممالک کے حق میں مسلم ہند کے گہرے جذبات ہمدردی اور تشویش کا اظہار اور مظاہرہ کرنا ہو، تا کہ مسلم ممالک کے خلاف ممکنہ عزم یا ان کی آزادی کے خلاف جارحانہ اقدامات کو روکا جا سکے۔'' (حوالہ: ایضاً)

اس بیان میں قائد اعظم نے فرمایا: ''آل انڈیا مسلم لیگ کی قرارداد کے مطابق جس میں مجھے ایک دن مقرر کرنے کا اختیار دیا گیاتھا،میں نے یکم نومبر کا دن مقرر کر دیا ہے جو رمضان المبارک کاآخری جمعہ یعنی جمعتہ الوداع ہوگا تا کہ اس دن مسلم ممالک کے حق میں مسلم ہند کی طرف سے گہرے جذبہ ہمدردی کا اظہار اور مظاہرہ کیا جائے۔اس نازک لمحے میں جب جنگ کے شعلے پھیل رہے ہیں، کسی بھی ممکنہ جنگ یا مسلم ممالک کی آزادی اور خود مختاری کے خلاف جارحیت کا سدباب ہو سکے گا۔'' (ایضاً :ص ۴۰۰)

انہوں نے کہا ''میں اُمید کرتا ہوں کہ یہ دن اسلامی روایات کے شایانِ شان انداز سے منایا جائے گا۔'' ( ایضاً: ص ۴۰۰)

یکم نومبر ۱۹۴۰ء؁ کو 'یومِ مسلم ممالک' کے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ''یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کی مدد کریں، وہ جہاں بھی ہوں؛ چین سے لے کر پیرو تک۔ چونکہ اسلام نے یہ ہمارا فرضِ منصبی قرار دیا ہے کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کو بچانے کی خاطر جائیں۔ جلسے کے مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے مسٹر جنا ح نے کہا کہ مسلم بھائیوں کی طرف دست ِاعانت دراز کرنا، مسلم لیگ کے آئین میں عقیدہ کی ایک شق ہے۔ واقعات تیزی سے رونما ہو رہے ہیں اور کسی کو خبر نہیں کہ کب حملہ ہو جائے انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اسلحہ اور بارود تو نہیں ہے لیکن ایک ہزار ایک طریقے ہیں جن کے ذریعے ہم اپنے مسلمان بھائیوں کی امداد کر سکتے ہیں، اگر وہ مصیبت میں پھنس جائیں۔'آل انڈیامسلم لیگ کونسل' نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ شروع میں ہلال احمر مشن کے قیام کے ضمن میں تیاری کی جائے جو اور کچھ نہیں تو زخمیوں کی امداد ہی کرے گا۔''(ایضاً:ص۴۰۱)

روزنامہ 'نوائے وقت'کے چیف ایڈیٹر جناب مجید نظامی صاحب جو بلا شبہ اس وقت پاکستانی صحافت کے برگد بھی ہیں اور گل ِسر سبد بھی۔ انہوں نے حریت ِفکر اور اسلامی حمیت کے اظہار کی قابل رشک روایات قائم کی ہیں۔ ابھی حال ہی میں ان کا ایک تفصیلی انٹرویو شائع ہوا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا : ''اپنے مفادات سے اگر آپ کی مراد 'سب سے پہلے پاکستان' ہے تو میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ یہ پالیسی غیر اسلامی ہے، خود غرضی کی پالیسی ہے۔اگر آپ سب سے پہلے پاکستان کہیں گے تو کوئی آپ کے ساتھ بھی کھڑا نہیں ہو گا۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ سب کے ساتھ کھڑے ہوں، پوری مسلم اُمہ ہمارے ساتھ کھڑی ہو، ہم اس کے ساتھ ہوں۔یہ نہیں کہ ہم 'سب سے پہلے پاکستان' کا نعرہ لگا کر پورے عالم اسلام کو فراموش کر دیں۔'' (نوائےوقت: ۵؍مارچ ۲۰۰۳ء)

جناب مجید نظامی نے پاکستانی عوام کی اُمنگوں اور دینی حمیت کی حقیقی ترجمانی کی ہے۔ محترمہ طیبہ ضیا 'مکتوبِ امریکہ' کے عنوان سے کچھ عرصے سے 'نوائے وقت' میں کالم لکھ رہی ہیں۔ بعض دفعہ تو وہ بے حد بے لاگ اور برجستہ تبصرہ کرتی ہیں۔ عراق کے متعلق حکومت ِپاکستان کے مؤقف کے متعلق وہ مخصوص نسوانی مگر لطیف پیرائے میں یوں اظہارِ خیال کرتی ہیں:

''عراق کے ایشو پر ہماری حکومت کا موقف متوسط گھرانے کی ایک ایسی دوشیزہ کاہے جس کا جبراً نکاح کیا جائے، وہ دل سے راضی نہیں مگر معاشرے کے خوف سے ناں بھی نہیں کہہ سکتی۔ اس کی خاموشی کو رضامندی تصور کیاجاتاہے۔ ہماری شرمیلی وبزدل حکومت بھی عراق کو نیست ونابود کرنے میں امریکہ کو ہاں کہتی ہے توبے پیندے کے لوٹے کی طرح قلابازیاں کھاتا ہو اقتدار مزید خطرے میں پڑ جاتا ہے اور اگر صاف انکار کرے تو 'امریکی جگّے'کی کھلی عداوت کو دعوت دینا مقصود ہے لہٰذا خاموشی بہتر ہے۔ایک کمزور اور بزدل دوشیزہ کو بھی علم ہے کہ کامیاب زندگی کی ضمانت 'سب سے پہلے، میراگھر' کے فارمولے میں پنہاں ہے ۔ 'سب سے پہلے پاکستان' نہیں بلکہ سب سے پہلے اقتدار کا 'رولا' ہے۔'' (نوائے وقت: ۱۶؍مارچ)

ہمارا موقف کیا ہونا چاہیے؟


عراق کی موجودہ صورتحال کا موازنہ ۱۹۹۱ء کے حالات سے کیا جا سکتا ہے ، نہ افغانستان پر امریکی حملے سے اس کی کوئی مماثلت ہے۔۱۹۹۱ء میں عراق نے کویت کے خلاف ننگی جارحیت کی تھی اور سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک اس کے خلاف جنگ میں شریک تھے۔ ۱۱؍ستمبر کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر فوجی یلغار کی تو حکومت ِپاکستان نے امریکہ کے شدیددباؤ،بھارت کی ممکنہ جارحیت اور مزعومہ عالمی برادری کے اخلاقی دباؤ کا سہار لے کر امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ مگر اب نہ تو امریکہ کی طرف سے کوئی ایسا دباؤ ہے کہ جس میں کہا گیا ہو کہ آپ فیصلہ کریں کہ ''یاآپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے دشمن ہیں۔'' عالمی برادری میں تنہا ہوجانے کا بھی کوئی خدشہ نہیں ہے ، بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے کیونکہ عالمی برادری اور عالمی ضمیر واضح طور پر عراق پر امریکی حملے کے خلاف ہے۔ برطانیہ اور سپین کے علاوہ کوئی قابل ذکر ملک نہیں ہے جس نے امریکہ کی حمایت کی ہو۔ان ممالک کے عوام نے بھی ممکنہ جنگ کے خلاف بھر پور احتجاج کیا ہے۔ ٹونی بلیر کی کابینہ کے دس ارکان نے مستعفی ہونے کی دھمکی دی ہے۔ امریکی عوام کی اکثریت عراق پر حملے کے حق میں نہیں ہے۔عوام کی تو بات ایک طرف، ا مریکہ کے سابق صدور بل کلنٹن اور جمی کارٹر نے واضح طور پر عراق کے خلاف جنگ کی مخالفت کی ہے اور اس جنگ کا اصل مقصد 'تیل پر قبضے' کو قرار دیا ہے۔ (نیو یارک ٹائمز۱۰؍مارچ)

بعض خبروں میں عراقی تیل کے بعض کنویں اسرائیل کے حوالے کرنے کا بھی اشارہ ملتا ہے۔ تاکہ اسرائیل کو اقتصادی لحاظ سے بھی ایک برتر ملک بنادیا جائے اور امریکی حکومت کو اسرائیل کی مستقل مالی امداد میں کچھ ریلیف مل سکے۔اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کوفی عنان جو ہمیشہ امریکی صدر کی چشم ابرو کے اشارے کے منتظر رہتے تھے، وہ بھی امریکہ کو کھری کھری سنا رہے ہیں۔ وہ دو مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ عراق پر حملے کا فیصلہ سلامتی کونسل کا کام ہے اور منظوری کے بغیر حملہ یا صدر صدام کو ہٹانے کی کاروائی اقوامِ متحدہ کے اُصولوں کی خلاف ورزی ہوگی۔

غیر وابستہ تحریک کے ۱۱۶؍ ارکان، اسلامی سربراہی کانفرنس کے ۵۷؍اسلامی ممالک اور افریقی کانگریس کے ۴۵؍ممالک کی تنظیموں نے متفقہ قراردادوں کے ذریعے عراق کے خلاف ممکنہ جنگ کو مسترد کرتے ہوئے اس مسئلے کا پر اَمن حل تلاش کرنے پر زور دیا ہے۔

ان حالات میں 'سب سے پہلے پاکستان' کا فلسفہ بھی قابل فروخت نہیں ہے۔ مصالح دینیہ اور اخلاقی داعیہ تو ایک طرف، عراق کے خلاف امریکہ کی حمایت کے لیے کوئی 'مصالح کلیہ' اور 'مقاصد علیا' تراشنا بھی کسی دانشور کے ذہن ِرسا کے لیے آسان نہیں ہے کہ دانش مندوں کولائق نہیں کہ وہ بے سوچے سمجھے حکمت ناشناس جاہلوں کی سی باتیں کرنے لگیں۔ ہم نہیں کہتے کہ جن لوگوں نے افغانستان کے معاملے میں امریکہ کی حمایت کو پاکستان کے مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری قرار دیا، وہ جہل وسفاہت کے پیکر تھے، مگر افغانستان کے مسلمانوں کو جن زہرہ گداز مصائب سے گزرنا پڑا، اس کے پیش نظر ان کی سوچ کو تدبر، لیاقت اور حکمت وفراست کا نام نہیں دیا جا سکتا۔

اب بھی جو لوگ امریکہ کی ناراضگی مول نہ لینے کے مشورے دے رہے ہیں ، وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ آخر وہ کون سے مفادات ہیں جن کے حصول کی خاطر اس قدر بے اُصولی پر مبنی اور عالمی ضمیر سے متصادم پالیسی اختیار کی جائے۔اگر 'مفادات'سے ان کی مراد امریکی ڈالروں کا حصول ہے توافغانستان کے معاملہ میں فرنٹ لائن ریاست کا کردار ادار کرنے کے باوجودحکومت پاکستان کو اب تک کیا ملا ہے جس کی توقع اب کی جا سکتی ہے۔ اگر ان کے ذہن میں یہ خیال جاگزیں ہے کہ اس طرح وہ اپنے اَزلی دشمن بھارت کی ممکنہ جارحیت کے خطرے سے محفوظ رہیں گے تو یہ محض ان کی خام خیالی ہے۔نام نہاد دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ میں اس قد پرجوش حمایت کے باوجود پاکستان میں امریکی سفیر نینسی پاول اور دیگر امریکی پالیسی سازوں کے بیانات ہمارے لیے غور وفکرکا کافی سامان رکھتے ہیں۔کوئی ضریر البصر(اندھا)شخص ہی ایسے ننگے اور بے رحم حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے کسی خیالی امریکی چھتری کے سائے میں پناہ ڈھونڈنے کی بات کر سکتا ہے۔آخر کب تک ایٹمی پاکستان کو بھارت کا خطرہ مسلط کر کے یوں بلیک میل کیا جاتا رہے گا؟ اگر پاکستانی قیادت اس بلیک میلنگ سے باہر نہ نکلی تو پاکستانی قوم میں بزدلی، خوف اور دہشت زدگی کی نفسیات پیدا ہو جائے گی۔ ہمارے دشمن چاہتے ہیں کہ ہمارا مورال بلند نہ رہے۔

امریکہ کو اڈّے فراہم کرنے اور جہادی تنظیموں پر پابندی عائد کرنے کے بعد بھی پاکستان کو 'دراندازی' کے الزامات سے متّہم ٹھہرایا جا رہا ہے۔امریکہ ہمیں بھارتی جارحیت کے خلاف تحفظ تو کیا فراہم کرے گا، پاکستانیوں کو رجسٹریشن جیسے ظالمانہ قانون سے مستثنیٰ قرار دینے کی ہماری لجاجت آمیز درخواست کو بھی قابل پذیرائی نہیں سمجھا گیا۔۱۰۳؍ پاکستانیوں کو ہتھکڑیوں میں جکڑ کر پاکستان بھیجنے کی تصاویر کیا کم عبرت آموز ہیں...؟ (۱۴؍مارچ کے تمام اخبارات)

جناب مشرف جو امریکی پریس سے 'ہیرو' کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں، خود ہی پاکستان کی باری آنے کا خدشہ ظاہر کر چکے ہیں۔جب کہ اسرائیلی وزیر اعظم نے عراق کے بعد جن ممالک کی باری کا برملا اعلان کیا ہے، ان میں پاکستان کا نام بھی شامل ہے۔عراقی کی فوجی وسیاسی مشاورتی فرم 'سٹریٹ فور' کے چیف انٹیلی جنس آفیسر ڈاکٹر جارج فورمین نے انتباہ کیا ہے :

''عراق کے خلاف جنگ میں شرقِ اوسط اور خلیج کے علاوہ جنوبی ایشیا کا نقشہ بدل جائے گا۔ دہشت گردوں سے نمٹنے میں ناکامی کا الزام لگا کر پاکستان کے خلاف کاروائی ہو گی۔ الزام لگایا جائے گاکہ پاکستان نے جان بوجھ کر دہشت گردوں سے آنکھیں بند کیے رکھیں۔''(جنگ: ۱۵؍مارچ)

پاکستان پر شمالی کوریا کوایٹمی ٹیکنالوجی فروخت کرنے کا شرارت انگیز الزام بھی عائد کیا جارہا ہے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر بنیاد پرستوں کے قبضہ کا یہودی پریس مسلسل خدشہ ظاہر کر رہا ہے۔ ان حالات میں امریکہ اور پاکستان کی 'دوستی' کا ' ہنی مون' بہت دیر تک چلتا دکھائی نہیں دیتا !!

۱۲؍مارچ کو سیکورٹی کونسل میں امریکہ کی دوسری قرارداد پر ووٹنگ ہونی تھی جو مطلوبہ اکثریت نہ ملنے کے خدشہ کے پیش نظر چند دنوں کے لیے ملتوی کر دی گئی۔ چند دنوں میں اسے دوبارہ پیش کیا جائے گا۔پاکستان اس وقت سیکورٹی کونسل کے ۱۵؍ارکان میں شامل ہے۔امریکہ کی جانب سے پاکستان پر مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اس قرارداد کی حمایت میں ووٹ ڈالے۔ حکومت ِپاکستان سخت آزمائش سے دوچار ہے۔صدر پرویز مشرف سیکورٹی کونسل میں پاکستان کی رکنیت کو 'بدقسمتی' قرار دے چکے ہیں۔وزیر اعظم جناب جمالی نے بھی کہا ہے کہ وقت آنے پر دیکھاجائے گا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پاکستان ووٹنگ کے عمل میں غیر حاضر رہنے کو ترجیح دے گا۔حکومت ِپاکستان کے اربابِ بست وکشاد جو جی میںآئے، کر گزریں مگر ہم ان کی خدمت میں صرف اتنا عرض کریں گے کہ اگر انہیں پاکستانی عوام کی اُمنگوں کا واقعی لحاظ ہے جیسا کہ جمالی صاحب نے ارشاد فرمایا، تو پھر انہیں عراق پر ممکنہ امریکی جارحیت کی کھل کر مخالفت کرنی چاہیے، اس سلسلے میں کسی قسم کی مداہنت یاخوف کو بالائے طاق رکھ کر بات کرنی چاہیے۔ اگر ان کے دلوں میں عالمی ضمیر اور عالمی برادری کے جذبات کاذرّہ بھر بھی احساس ہے، تو پھر ان کے لیے اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے کہ وہ عالمی ضمیر کی آواز پر لبیک کہیں اور امریکہ کی ناراضگی کو در خورِ اعتنا نہ سمجھیں۔ اگر وہ پاکستان کے حقیقی مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں توانہیںعراق کے خلاف بلا جواز عسکری جارحیت کی ہرگز حمایت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ کل کلاں اگر بھارت پاکستان کے خلاف در اندازی یا کسی اور بے بنیاد الزام کی بنا پر جارحیت کاا رتکاب کرتا ہے تو پاکستان عالمی برادری کی اخلاقی حمایت حاصل کر سکے گا۔

پاکستان ابھی سوچ ہی رہا ہے کہ سلامتی کونسل میں کیا موقف اختیار کرنا ہے۔ سفارتی کوششوں اور اخلاقی دباؤ کو ناکام دیکھتے ہوئے امریکی صدر جارج بش نے شاطرانہ چال چلتے ہوئے ۱۶؍مارچ کو پاکستان پر فوجی حکومت کی وجہ سے لگنے والی امریکی پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کیا ہے ۔جارج بش اس غیر متوقع لطف وکرم کا فوری سبب یہ بیان کرتے ہیں:'' اس طرح پاکستان کو مکمل جمہوریت کی طرف بڑھنے میں مدد ملے گی۔'' ( نوائے وقت ) گویا موصوف کوعین اس وقت پاکستان میں جمہوریت کی فکر کا دورہ پڑا ہے ۔امریکی صدر نے ایک اور مژدئہ جانفرا بھی سنایا: '' میں جمالی کو امریکہ آمد پر ۲۸؍مارچ کو خوش آمدید کہوں گا۔ '' گویا موصوف یہ سمجھتے ہیں کہ ایٹمی پاکستان کے وزیر اعظم کی وائٹ ہاؤس میں باریابی ایک اتنا بڑا اعزاز ہے کہ جس پرریجھ کر جمالی صاحب امریکہ کے حق میں ووٹ دے دیں گے۔جارج بش صاحب جو اپنی قوم کے دانشوروں سے سفاہت وغباوت کے اَلقاب حاصل کر چکے ہیں، پاکستانی قوم کے بارے میں یہ 'حسن ظن' رکھتے ہیں کہ وہ ان کے 'خلوص' کو شک کی نگاہ سے نہیں دیکھے گی۔ موصوف نجانے کیسے سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے وزیر اعظم کو موم کرنے کے لیے محض ان کھوکھلے اعزازات کی پیش کش ہی کافی ہے۔کوئی حکمت ودانش سے عاری شخص ہی اسی سفارتی رشوت کے اصل عزائم کو سمجھنے سے قاصر رہے گا ...!!

موجودہ حالات میں امریکی قیادت کے جنگی جنون کی حمایت کا معمولی سا تاثر بھی پاکستان کو بین الاقوامی برادری اور اُمت ِمسلمہ کی نگاہ میں گرانے کا باعث بنے گا۔عالم اسلام پاکستان کو ایک باوقار ایٹمی قوت کی حامل اسلامی ریاست سمجھتاہے۔ وہ پاکستان سے بجا طور پر مثبت اور قائدانہ کردار کی توقع کرتا ہے۔آزمائش کی اس گھڑی میںاس مملکت ِخدادادکے وقار کو داؤ پر نہ لگائیں۔ ملت ِاسلامیہ کے اَربوں افراد کے جذبات کو نظر انداز کرنے کے ہم بحیثیت ِقوم متحمل نہیں ہو سکتے۔ہمارا ماضی بھی اسلام سے وابستہ تھا، ہماری موجودہ شناخت بھی اسلام کے نام پر ہے اور مستقبل میں بھی ہمارا حوالہ صرف اور صرف 'اسلام' ہی ہوگا۔

ہم اپنے سیکولر اور لبرل ہونے کا لاکھ واویلاکریں، ہمارے دشمن ہمیں صرف اور صرف مسلمان کی حیثیت سے ہی پہچانیں گے۔ ان کی نگاہ میں پاکستان کا ایٹم بم ہمیشہ 'اسلامی بم' ہی رہے گا۔ہمیںکسی خود فریبی کا شکار نہیں ہوناچاہیے۔ ہمیں اپنی شناخت کے لیے نئے بت تراشنے کا فائدہ نہیں ہوگا۔پاکستان ملت ِاسلامیہ کے ساتھ اَنمٹ رشتہ اُخوت میںمنسلک ہے، یہی رشتہ ہمارے لیے سرمایۂ افتخار کل بھی تھا،آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا۔ان شاء اللہ

ہادیٔ برحق امام الانبیاحضرت محمدﷺ کی زبانِ اقدس سے نکلے ہوئے درج ذیل الفاظ پاکستان جیسی اسلامی ریاست کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہونے چاہئیں: «مثل المؤمنين في توادّهم وتراحمهم وتعاطفهم مثل الجسد، إذا اشتکی منه عضو تداعی له سائر الجسد بالسهر والحمی» (مسلم ؛۲۵۸۶)

'' مسلمانوں کی مثال باہمی مودّت ومرحمت اور محبت وہمدردی میں ایسی ہے جیسے ایک جسم واحد کی۔اگر اس کے ایک عضو میں کوئی شکایت پیدا ہوتی ہے تو سارا جسم اس کی تکلیف میں شریک ہو جاتا ہے۔ '' ٭٭ (ع ص)