نمازمیں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا
اَحناف کے دلائل پر تعاقب اور پیش کردہ روایات پر ایک ناقدانہ نظر
لیل و نہار کے تغیر و تبدل نے نہ صرف آب و ہوا کو متاثر کیا بلکہ بنی آدم کو بھی بڑی حد تک متاثر کیا۔ وہ انسان جو کبھی زبان و بیان کے سحر سے متاثر ہوکر تقلید کی زنجیریں مذہبی فریضہ سمجھ کر زیب تن کرلینے کو عقیدت و احترام کی معراج یقین کرتا تھا، آج وہی انسان اپنے ہر سوال کا جواب دلائل و براہین کی روشنی میں حاصل کرنے کا خواہشمند نظر آتا ہے۔
عصر حاضر کے انسان کی اس ارتقائی سوچ نے تقلیدی ایوانوں میں کھلبلی مچا دی ہے، بایں سبب تقلیدی مذہب کے ناخدا اس امر پر مجبور ہوچکے ہیں جو ان کے لئے کسی طرح بھی روا نہ تھا یعنی اپنے امام کے قول و فعل کو کتاب و سنت کی روشنی میں صائب ثابت کریں۔ اس ناروا فعل کو سرانجام دینے کے لئے ہمارے دوستوں نے اغیار کی خدمات مستعار لینے سے بھی گریز نہیں کیا۔ مسند زید بن علی کی من گھڑت روایات کو بطورِ حجت پیش کرنا اسی قسم کی کوششوں کا ایک حصہ ہے۔ اسی طرح چند دیگر خود ساختہ روایات کے مجموعے اور بعض کتب ِاحادیث میں تحریف و اضافہ کرکے یہ بات باور کرائی جارہی ہے کہ اختلافی مسائل پر وہ بھی کتاب و سنت سے دلائل رکھتے ہیں۔ حالانکہ کل تک ہمارے بھائی یہ راگ الاپتے رہے ہیں:
«أما المقلد فمستنده في تحصيل العلم بوجوب العمل بأحکام الشرعية قول مجتهده» (کشف المبہم مما في المسلم: ص۱۳)
'' اُمورِ شرعیہ میں مقلد کے لئے امام کا قول ہی سند ہے۔''
کتاب و سنت سے ناآشنا اپنے مسلک سے نابلد چند دوست مسلمہ حقیقتوں سے انحراف کرکے حقیقت کی سنہری کرنوں کو ایک بار پھر جہالت کے تاریک بادلوں میں چھپانے کے لئے سرگرمِ عمل ہیں۔ وطن عزیز کے بیشتر چھوٹے بڑے شہروں میں مختلف ناموں سے کبھی چند سوالوں پرمشتمل اور کبھی چند ضعیف یا موضوع روایات پر مشتمل اشتہارات وقفے وقفے سے شائع کررہے ہیں، اس قسم کا ایک اشتہار میرے سامنے ہے۔ اس اشتہار کا عنوان ہے:
''ہم سنی مسلمان نمازمیں ناف کے نیچے ہاتھ کیوں باندھتے ہیں؟ ''
یہ اشتہار چھ روایات پر مشتمل ہے۔ زیرنظر مضمون میں ان چھ روایات اور اس موضوع پر چند دیگر دلائل کی حقیقت کی نقاب کشائی کی گئی ہے۔
دلیل نمبر۱
(حدثني) «زيد بن علي عن أبيه عن جدهٖ عن علي قال: ثلاث من أخلاق الأنبياء صلاة الله وسلامه عليهم: تعجيل الإفطار وتأخير السحور ووضع الکف علی الکف تحت السرة»(مسند زید بن علی)
''زید بن علی اپنے والد اور دادا کے واسطہ سے حضرت علیؓ سے روایت کرتے ہیں کہ تین چیزیں انبیاء علیہم السلام کے اخلاق کا حصہ رہی ہیں: (1) افطاری (کا وقت ہوجانے کے بعد اس میں) جلدی کرنا، (2) سحری کو (اس کے آخری وقت تک) مؤخر کرنا اور (3) حالت ِنماز میں ناف کے نیچے دونوں ہاتھ باندھنا۔''
جواب:کتاب کے نام سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب کے مؤلف محترم زیدبن علی ؒ یا ان کے کوئی شاگردِ رشید ہیں مگر درحقیقت ایسا نہیں۔ اس کتاب کا مؤلف عبدالعزیز بن اسحق بن بقال ہے، یہ محترم زید بن علی کے قتل سے تقریباً ڈیڈھ صدی بعد پیداہو ئے۔ حافظ ابن حجر ؒ کی تحقیق کے مطابق زیدبن علی ۱۲۲ہجری میں قتل ہوئے جبکہ ابن سعد کا کہنا ہے کہ وہ صفر ۱۲۰ہجری میں قتل ہوئے۔ (تہذیب التہذیب: ج۳؍ ص۳۶۲)
مسندزید بن علی کے مؤلف کے بارے میں امام ذہبی رقم طراز ہیں:
«عبد العزيز بن إسحٰق بن البقال کان في حدود الستين وثلاث مائة قال ابن أبي الفوارس الحافظ: له مذهب خبيث ولم يکن في الرواية بذاك، سمعت منه أحاديث فيها أحاديث ردية» (میزان الاعتدال: ۴؍۳۵۸)
''عبدالعزیز بن اسحق بن جعفر البقال تین سو ساٹھ (۳۶۰ہجری) کے قریب گزرا ہے۔ اس کے بارے میں امام ابن الفوارس فرماتے ہیں کہ یہ خبیث مسلک کا پیروکار تھا اور روایت ِحدیث میں اچھی شہرت کا حامل نہ تھا، میں نے ان سے جو احادیث سنی ہیں ان میں بیشتر احادیث مردود ہیں۔ ''
امام ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ اس نے زیدیہ فرقے کے حق میں کتابیں تحریر کی ہیں۔ واضح رہے کہ زید یہ فرقہ اہل تشیع کے غالی فرقوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس فرقہ کے بارے میں بہت سی معلومات 'تاریخ فاطمین مصر' نامی کتاب میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
ظاہر ہے کہ جس کتاب کا مؤلف خبیث نظریات کا حامل ہو اور وہ روایت ِحدیث میں بری شہرت رکھتا ہو، اس کی تالیف کردہ کتاب کی استنادی حیثیت کیا ہوگی۔
دوسرا راوی، عمرو بن خالد واسطی: اس کتاب کا ایک اہم راوی ابوخالد عمرو بن خالد واسطی ہے۔ یہ وہ راوی ہے جو مسندعلی کی ہر روایت میں موجود ہے، زیر بحث روایت کا مرکزی کرداربھی یہی راوی ہے۔ یہ راوی تمام نامور محدثین کے نزدیک ناقابل اعتبار ہے۔
عمرو بن خالد ، امام احمد بن حنبل ؒ کی نظر میں:
1. قال الأثرم عن أحمد: کذاب يروي عن زيد بن علي عن آباءه أحاديث موضوعة (تہذیب التہذیب: ۸؍۲۴) یعنی ''عمرو بن خالد کذاب ہے۔ وہ زید بن علی کے توسط سے ان کے آباؤ اجداد کی طرف من گھڑت روایات منسوب کرتا ہے۔''
2. قال أحمد بن محمد قال أبوعبد الله: عمرو بن خالد الواسطي کذاب قلت له الذي يروي عنه إسرائيل قال نعم الذي يروي حديث الزيدين ويروي عن زيد بن علي عن آباءهٖ أحاديث موضوعة(ضعفاء ازعقیلی:۱۲۷۴)
''احمد بن محمد کہتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ عمرو بن خالد جھوٹا ہے۔ میں نے کہا وہی عمرو بن خالد جس سے اسرائیل روایت کرتا ہے، انہوں نے فرمایا: ہاں وہی جو زیدین اور زید بن علی کے توسط سے ان کے آباؤ اجداد کی طرف من گھڑت روایات منسوب کرتا ہے۔''
3. قال أبي: عمرو بن خالد هذا ليس بشيء متروك الحديث (العلل:۳۳۰، کتاب الجرح والتعدیل: ج۶؍ص۲۳۰، تہذیب الکمال: ۲۱؍۴۳۵۷)
''امام احمدؒ کے فرزند ِارجمند محترم عبداللہ کہتے ہیں کہ میرے والد محترم نے فرمایا کہ عمرو بن خالد ایک بے قیمت راوی ہے جس کی روایت کو محدثین نے ترک کررکھا ہے۔''
روی أحمد بن ثابت عن أحمد بن حنبل قال: عمرو بن خالد الواسطي کذاب (میزان الاعتدال: ج۵؍ ص۳۱۳، الکامل: ۱۲۸۹)
''احمد بن ثابت احمد بن حنبل سے نقل کرتے ہیں کہ عمرو بن خالد واسطی کذاب راوی ہے۔''
قال ابن حبان کذبه أحمد بن حنبل ويحيیٰ ابن معين (المجروحین ۲؍۷۵)
''امام ابن حبان فرماتے ہیں کہ امام احمد اور امام یحییٰ بن معین نے عمرو بن خالد کو کذاب قرار دیا ہے۔''
عمرو بن خالد، امام ابوحاتم کی نظر میں:
عن عبدالرحمن قال سألت أبي عن عمرو بن خالد القرشي مولیٰ بني هاشم الواسطي رویٰ عن أبي جعفر محمد بن علي وزيد بن علي فقال متروك الحديث (الجرح والتعدیل: ج۶؍ص۲۳۰)
''امام ابوحاتم کے لخت ِجگر کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد ماجد سے عمرو بن خالد مولیٰ بنی ہاشم کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا وہ 'متروک الحدیث' ہے۔
امام یحییٰ بن معین کی نظر میں:
عن يحيیٰ بن معين قال عمرو بن خالد کذاب غير ثقة ولا مأمون (الجرح والتعدیل : ج۶؍ص۲۳۰)
''یحییٰ بن معین بھی عمرو بن خالد کو کذاب و غیر ثقہ قرا ردیتے ہیں۔''
امام ابوزرعہ اور اسحاق بن راہویہ کی نظر میں:
عن عبدالرحمن قال سألت أبا زرعة عن عمرو بن خالد الواسطي فقال کان واسطي وکان يضع الحديث
(الجرح والتعدیل : ج۶؍ ص۲۳۰)
''عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ میں نے ابوزرعہ سے عمرو بن خالد واسطی کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ وہ جھوٹی احادیث تیار کرتا تھا۔''
امام وکیع اور امام حاکم کی نظر میں:
قال وکيع کان في جوارنا يضع الحديث، فلما فطن له تحول إلی الواسط (میزان الاعتدال: ج۵؍ص۳۱۲)
''محترم وکیع ؒ فرماتے ہیں کہ عمرو بن خالد ہمارے پڑوس میں رہتا تھا اور وہ خود ساختہ روایات بیان کرتا تھا اور جب اسے لوگوں کی نفرت کا احساس ہوا تو وہ 'واسط' کی طرف فرار ہوگیا۔''
قال الحاکم: يروی عن زيد بن علی الموضوعات(تہذیب التہذیب:۸ ؍۲۵) ''حاکم کہتے ہیں عمرو بن خالد خود ساختہ روایات کو زید بن علی کی طرف منسوب کرتا تھا۔''
امام بخاری اور امام نسائی کی نظر میں:
عمرو بن خالد مولیٰ بن هاشم عن زيد بن علي رویٰ عنه إسرائيل منکر الحديث (التاریخ الصغیر:ص۱۳۹)... عمرو بن خالد يروي عن حبيب ابن ثابت متروك الحديث (کتاب الضعفاء والمتروکین)
''عمرو بن خالد جو زید بن علی کے واسطہ سے اور اس سے اسرائیل روایت کرتا ہے (یہ راوی) منکر الحدیث ہے۔''... ''امام نسائی اسے متروک الحدیث قرار دیتے ہیں۔''
دلیل نمبر۲
«عن أنس: من أخلاق النبوة وضع اليمين علی الشمال تحت السرة»
''حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ (نماز میں) دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر ناف سے نیچے باندھنا انبیا کے اَخلاق (سنت) سے ہے۔''
جواب:یہ روایت علمائے احناف زمانہ قدیم سے امام ابن حزم کے حوالے سے نقل کرتے چلے آرہے ہیں۔مگر آج تک کسی عالم نے یہ روایت مع سند نقل نہیں کی اور نہ کوئی سراغ رساں اس روایت کو کتب ِاحادیث میں تاحال تلاش کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی روایت کو بار بار بطورِ دلیل پیش کرنا ہٹ دھرمی نہیں تو اور کیا ہے؟
یاد رہے کہ تحت السرۃ کی زیادتی کے بغیر یہ روایت درج ذیل طرق سے مروی ہے:
1. «حدثنا أحمد بن طاهر بن حرملة بن يحيیٰ، ثنا جدي حرملة بن يحيیٰ، ثنا ابن وهب أخبرني عمرو بن الحارث قال سمعت عطاء بن أبي رباح قال سمعت ابن عباس يقول سمعت نبي الله يقول إنّا معاشر الأنبياء أمرنا بتعجيل فطرنا وتأخير سحورنا ووضع أيماننا علی شمائلنا في الصلاة» (المعجم الکبیر: ج۱۱؍ص۱۵۹، الاوسط :ج۲؍ص۵۲۶)
''احمد بن طاہر از حرملہ بن یحییٰ از ابن وہب از عمرو بن حارث از عطا از ابن عباس سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ا کا یہ ارشاد گرامی سنا کہ ہم انبیا کی جماعت کو افطاری میں جلدی اور سحری میں تاخیر کرنے او رحالت ِنماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔''
امام ابن حبان نے بھی یہی متن اسی سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔ (صحیح ابن حبان: ۵ ؍۶۷)
2. «حدثنا العباس بن محمد المجاشعي الأصبهاني ثنا محمد بن أبي يعقوب الکرماني ثنا سفيان بن عينية عن عمرو بن دينار عن طاؤس عن ابن عباس عن النبي ﷺ قال إنا معاشر الأنبياء أمرنا أن نعجل الأفطار وأن نؤخرالسحور وأن نضرب بأيماننا علی شمائلنا» (المعجم الکبیر : ج۱۱؍ص۶، الاوسط :ج۵ ؍ص۱۳۷)
3. «حدثنا إسحاق بن محمد الخزاعي المکي قال حدثنا يحيیٰ بن سعيد بن سالم القداح قال حدثنا عبد المجيد بن عبد العزيز بن أبي رواد عن أبيه عن نافع عن ابن عمر عن النبيﷺ قال: إنا معاشر الأنبياء أمرنا بثلاث: بتعجيل الفطر وتاخير السحور ووضع اليمنیٰ علی اليسریٰ في الصلاة» ( الاوسط : ج۴؍ ص۴۱)
اس متن کو امام بیہقی نے بھی اسی سند سے نقل کیا ہے ، البتہ بیہقی میں اسحق بن محمد کی جگہ اسحق بن احمد مرقوم ہے۔ (ج۲؍ ص۳۱۵)
4. «حدثنا محمد بن شعيب قال حدثنا عبدالرحمن بن سلمة قال حدثنا أبو زهير عبدالرحمن بن مغواء عن عمر بن عبدالله بن يعلی بن مرة عن أبيه عن جده قال قال رسول اللهﷺ: ثلاث يحبها الله، تعجيل الفطر وتأخير السحور وضرب اليدين إحداهما علی الأخریٰ في الصلاة» ( الاوسط :ج۸؍ص۲۲۸)
5. «حدثنا ابن صاعد نا زياد بن أيوب نا النضر بن إسماعيل عن ابن أبي ليلیٰ عن عطاء عن أبي هريرة قال قال رسول اللهﷺ أمرنا معاشر الأنبياء أن نعجل إفطارنا ونؤخر سحورنا ونضرب بأيماننا علی شمائلنا في الصلاة» ( دارقطنی : ج۱؍ ص۲۸۴)
6. «حدثنا عبدالله بن محمد بن عبدالعزيز ثنا شجاع بن مخلد ثنا هثيم قال منصور ثنا عن محمد بن أبان الأنصاري عن عائشة قالت ثلاثة من النبوة تعجيل الافطار وتأخير السحور ووضع اليد اليمنیٰ علی اليسریٰ في الصلاة» (ايضاً)
7. «حدثنا وکيع عن إسماعيل بن أبي خالد عن الأعمش عن مجاهد عن مؤرق العجل عن أبي الدرداء قال من أخلاق النبيين وضع اليمين علی الشمال في الصلاة» (مصنف ابن ابی شبیہ: ج۱؍ ص۴۲۸)
ان روایات میں اگرچہ بعض طرق ضعیف بھی ہیں، تاہم ان روایات سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ مذکورہ بالامتن ' تحت السرۃ' کی زیادتی کے بغیر محفوظ ہے اور 'تحت السرۃ' کی زیادتی کسی عیار ہاتھ کی صفائی ہے۔
دلیل نمبر۳
«حدثنا وکيع عن موسیٰ بن عمير عن علقمة بن وائل بن حجر عن أبيه قال رأيت النبيﷺ وضع يمينه علی شماله في الصلاة تحت السرة»
''وکیع از موسیٰ بن عمیر از علقمہ از وائل بن حجر سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپؐ حالت ِنماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھ کر ناف کے نیچے باندھے ہوئے تھے۔''
جواب:یہ روایت ہمارے بھائی کبھی مصنف ابن ابی شیبہ مطبوعہ ادارۃ القرآن و العلوم الاسلامیہ کراچی کے حوالے سے نقل کرتے ہیں اور کبھی مطبوعہ طیب اکادمی، ملتان کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں اور کبھی محمد اکرم نصرپوری کے نسخہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں۔ اوّل الذکر دونوں نسخوں میں ہمارے بھائیوں نے تارِ عنکبوت سے کمزور دلیل کو العروۃ الوثقیٰ ثابت کرنے کے لئے بدترین علمی خیانت کا ارتکاب کیا ہے۔
ادارۃ القرآن و العلوم الاسلامی، کراچی نے شیخ محمد ہاشم السندی کی تالیف درھم العسرة في وضع الیدین تحت السرة شائع کی ہے، اس کے آغاز میں چار صفحات قلمی تحریر کے عکسی شائع کئے ہیں، ان میں فاضل محرر شیخ محمد اکرم نصرپوری کے نسخہ کے متعلق رقم طراز ہیں:
''في نسخة الشيخ محمد أکرم أن لفظة تحت السرة من تتمة الحديث کما هو الموجود الآن فيها وأن أثر النخعي ساقط منه بتمامه مع لفظة تحت السرة'' یعنی ''شیخ محمد اکرم کے نسخہ میں ابھی تک حدیث کے آخر میں تحت السرۃ کے الفاظ ہیں اور اس میں ابراہیم نخعی کا اثر مکمل طور پر موجود نہیں ہے۔ ''
فاضل محرر کی درج بالا تحریر اس حقیقت کا کھلا اعتراف ہے کہ شیخ محمد اکرم نصرپوری کا نسخہ مصدقہ نسخہ نہیں کیونکہ اس میں ابراہیم نخعی کے اثر کا ساقط ہونا اس نسخہ کے تحریر کندہ کی غفلت کی طرف واضح اشارہ کررہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے نسخہ کی منفرد عبارت کو مصدقہ نسخہ کے خلاف پیش کرنا سینہ زوری کے مترادف ہے۔
امام ابوبکرؒ نے اس روایت کو اوّل تا آخر جس سند کے ساتھ نقل کیا، اسی سند سے روایت شدہ الفاظ درج ذیل کتب میں بھی موجود ہیں جبکہ ان میں سے کسی ایک میں بھی 'تحت السرۃ' کے الفاظ نہیں، ملاحظہ کیجئے:
1. «حدثنا وکيع حدثنا موسیٰ بن عمير العنبري عن علقمة بن وائل بن حجر عن أبيه قال رأيت رسول اللهﷺ واضعًا يمينه علی شماله في الصلاة» (مسنداحمد مطبوعہ دارالفکر، بیروت: ج۶؍ص۴۷۳)
2.« نا وکيع نا موسیٰ بن عمير العنبری عن علقمة بن وائل الحضرمي عن أبيه قال رأيت رسول اللهﷺ واضعا يمينه علی شماله في الصلاة» (سنن دارقطنی مطبوعہ نشرالسنۃ، ملتان: ج۱؍ ص۲۸۶)
اسی طرح امام بیہقی اور امام طبرانی موسیٰ بن عمیر سے ابونعیم کے واسطے سے یہی روایت 'تحت السرۃ' کی زیادتی کے بغیر ذکر کرتے ہیں ، ملاحظہ کیجئے:
«أبونعيم حدثنا موسیٰ بن عمير العنبري حدثنا علقمة بن وائل عن أبيه أن النبيﷺ کان إذا قام في الصلاة قبض علی شماله بيمينهٖ »(المعجم الکبیر طبرانی مطبوعہ داراحیاء التراث العربی: ۲۲؍۵۹، السنن الکبریٰ بیہقی مطبوعہ دارالفکر: ۲؍۳۱۴)
حنفی علما کا اپنے دلائل میں اس حدیث کو ذکر نہ کرنا:ابن ترکمانی حنفی الجوہر النقي میں اپنے مذہب کی تائید میں مصنف ابن ابی شیبہ سے ابومجلد تابعی کا اثر نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«قال ابن أبي شيبة في مصنفه: ثنايزيد بن هارون قال أخبرنا الحجاج بن حسان قال سمعت أبا مجلد أو سألته قلت کيف أصنع قال يصنع باطن کف يمينه علی ظاهر کف شماله ويجعلهما تحت السرة»
اس اثر کو نقل کرنے کے بعد ابن ترکمانی حضرت ابوہریرہ ؓسے مروی ضعیف حدیث اور دوسری ضعیف جو حضرت انس ؓسے مروی ہے، نقل کرتے ہیں جبکہ زیر بحث روایت کو وہ نقل نہیں کرتے، ان کا اس روایت کو نقل نہ کرنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اس وقت تک مصنف ابن ابی شیبہ کی یہ روایت علمی بددیانتی کی بھینٹ نہ چڑھی تھی۔
علامہ عینی حنفی کی تصانیف میں مصنف ابن ابی شیبہ کی متعدد روایات موجود ہیں۔ موصوف نے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی دیگر تمام روایات ذکر کی ہیں جو کہ سب کی سب ضعیف ہیں مگر موصوف نے ابن ابی شیبہ کی زیر بحث روایت کو اپنے موقف کی تائید میں ذکر نہیں کیا، ان کا اس حدیث کو ذکر نہ کرنا کیا اس امر کی دلیل نہیں کہ اس وقت تک ہمارے کسی حنفی نے مصنف ابن ابی شیبہ کی اس حدیث پرہاتھ صاف نہ کیا تھا؟!
علامہ ابن عبدالبر نے 'تمہید' میں مصنف ابن ابی شیبہ سے متعدد روایات وآثار نقل کئے ہیں خصوصا ً انہوں نے ابومجلد سے مروی اثر ابن ابی شیبہ کے حوالے سے نقل کیا ہے مگر موصوف نے بھی زیر بحث حدیث کو نقل نہیں کیا جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انہیں مصنف ابن ابی شیبہ کا جو نسخہ میسر تھا، اس میں بھی مرفوع حدیث میں 'تحت السرۃ' کے الفاظ نہ تھے۔
دلیل نمبر۴
«حدثنا أبومعاوية عن عبد الرحمن بن إسحاق عن زياد بن زيد السوالیٰ عن أبي جحيفة عن علي رضي الله عنه قال: من السنة وضع الأيدي علی الأيدي تحت السرر»(مصنف ابن ابی شیبہ)
''ابو جحیفہ حضرت علیؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ہاتھوں کوناف کے نیچے باندھنا سنت ہے۔''
یہ روایت اسی سند سے دارقطنی، مسنداحمد اور بیہقی میں درج ذیل الفاظ سے مروی ہے: من السنة وضع الکف علی الکف تحت السرةاور اسی سے ملتے جلتے الفاظ سے ابوداود میں بھی ہے۔
جواب:محترم علی رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث کا مرکزی راوی عبدالرحمن بن اسحق ہے، اس کی کنیت ابوشیبہ الواسطی ہے، یہ نعمان بن سعد کا شاگرد خاص ہے، وہ یہ روایت زیاد بن زید اور نعمان بن سعد سے نقل کرتا ہے۔
عبدالرحمن بن اسحق، امام احمد بن حنبل کی نظر میں :
«قال عبد الله: سألت أبي عن عبد الرحمن بن إسحاق الکوفي فقال ھذا يقال له أبوشيبة وھو الواسطي کان يروي عنه ابن إدريس وأبومعاوية وابن فضيل وھو الذي يحدث عن النعمان بن سعد ليس ھو بذاك في الحديث» (العلل:۲۵۶۰)
''امام احمد ؒکے فرزند ِارجمند کہتے ہیں کہ میںنے اپنے والد ماجد سے عبدالرحمن کے بارے میں دریافت کیا، انہوں نے فرمایا: یہ وہی ہے جسے ابوشیبہ واسطی کہا جاتا ہے، اس سے ابن ادریس، ابومعاویہ اور ابن فضیل روایت کرتے ہیں جبکہ یہ نعمان بن سعد سے روایت کرتا ہے... یہ حدیث میں قابل اعتبار نہیں ہے۔''
«قال أبوطالب سألت أحمد بن حنبل عن أبي شيبة الواسطي عبدالرحمن بن إسحٰق قال ليس بشيء منکرالحديث» (الجرح والتعدیل: ج۵؍ص۳۱۳، میزان الاعتدال: ج۴؍ص۲۶۰، تہذیب التہذیب:ج۶؍ص۱۲۵) ''ابوطالب کہتے ہیں کہ میں نے احمد بن حنبلؒ سے ابوشیبہ الواسطی کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: یہ ایسا بے قیمت راوی ہے جس کی روایات کو ناپسند کیا گیا ہے۔''
«قال أبوداود سمعت أحمد بن حنبل: يضعف عبد الرحمن ابن إسحق الکوفي» (ابوداؤد نسخہ ابن العربی: ج۱؍ص۲۸۱)
''امام ابوداود فرماتے ہیں کہ احمد بن حنبلؒ، عبدالرحمن بن اسحق کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔''
عبدالرحمن بن اسحق،امام ابوزرعہ اور امام ابوحاتم رازی کی نظر میں:
«عن عبدالرحمن قال سألت أبي عن أبي شيبة عبدالرحمن بن إسحاق فقال ھو ضعيف الحديث منکر الحديث يکتب حديثه ولا يحتج به» (الجرح والتعدیل: ج۵؍ص۲۱۳، تہذیب التہذیب: ج۶؍ ص۱۲۴) ''عبدالرحمن کہتے ہیں: میں نے اپنے والد ماجد سے ابوشیبہ عبدالرحمن بن اسحاق کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ وہ ضعیف الحدیث اور منکر الحدیث ہے، ا س کی روایات کو لکھا تو جاسکتا ہے مگر دلیل کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔''
قال عبد الرحمن سئل أبوزرعة عن عبد الرحمن بن إسحق الذي يروي عنه أبي زائدة وأبومعاوية، فقال: ليس بقوي (الجرح والتعدیل: ۵؍۲۱۳) یعنی ابوزرعہ بھی اسے ضعیف قرار دیتے ہیں۔
عبدالرحمن بن اسحق،امام بخاری اور امام نسائی کی نظر میں :
قال البخاري: فيه نظر (التاریخ الصغیر للبخاری ص۱۵۶)
قال النسائي: ضعيف (کتاب الضعفاء والمتروکین للنسائی)
امام بخاری نے 'فیہ نظر' کہہ کر عبدالرحمن بن اسحاق کو ضعیف ترین قرار دیا ہے جیسا کہ شیخ عبدالحئ لکھنوی رقم طراز ہیں :
قول البخاري في حق أحد من الرواة 'فيه نظر' يدل علی أنه متهم عندہ (الرفع والتکمیل فی الجرح والتعدیل: ص۵۹)
''امام بخاری ؒ کا کسی راوی کے بارے میں 'فیہ نظر' کہنا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ وہ راوی امام بخاری کے نزدیک متہم بالکذب ہے۔ ''
امام ذہبی فرماتے ہیں: ولا يقول ھذا إلافيمن يتهمه غالباً (میزان الاعتدال: ج۴؍ص۹۲)
'' امام بخاریؒ عام طور پر متہم بالکذب راوی کے بارے میں یہ الفاظ 'فیہ نظر' کہا کرتے ہیں۔''
امام عراقی فرماتے ہیں: فلان فيه نظر وفلان سکتوا عنه: ھاتان العبارتان يقولھما البخاري فيمن ترکوا حديثه '' جس راوی کی روایت کو محدثین نے مسترد کیا ہے ،اس کے بارے میں امام بخاری درج بالا الفاظ (یعني 'فیه نظر' اور 'سکتواعنه) استعمال کرتے ہیں۔''
عبدالرحمن بن اسحق،امام یحییٰ بن معین اور امام ابن خزیمہ کی نظر میں:
عن ابن معين ليس بذاك القوي (تہذیب التہذیب: ج۴ ص۱۲۴)
قال ابن خزيمة لا يحتج بحديثه (ایضاً)
مختصر یہ ہے کہ عبدالرحمن بن اسحق کو تمام ماہرین نے ناقابل اعتبار و استشہاد قرار دیا ہے۔
زیاد بن زید کا تعارف :اس روایت کی سند میں دوسری خرابی یہ ہے کہ عبدالرحمن بن اسحق کا شیخ بھی قابل اعتبار نہیں کیونکہ امام ابوحاتم نے اسے مجہول قرار دیا ہے (الجرح والتعدیل: ۳ ؍۵۳۲)
سوال:شیخ محمد حنیف گنگوہی (فاضل دارالعلوم دیوبند) نے لکھا ہے کہ زیاد بن زید کا مجہول ہونا مضر نہیں، اس لئے کہ دارقطنی نے عبدالرحمن بن إسحق عن النعمان بن علي عن علی بھی روایت کیا ہے۔ (غایۃ السعایہ: ج۳؍ ص۳۹)
جواب:معلوم ہوتا ہے کہ موصوف نے دارقطنی کی طرف مراجعت کئے بغیر اس بات کو دارقطنی کی طرف منسوب کردیا ہے، دارقطنی میں یہ روایت عبدالرحمن بن اسحقعن نعمان بن علی سے نہیں بلکہ نعمان بن سعد سے ہے جیسا کہ دارقطنی میں ہے :
حدثنا محمد بن القاسم ثنا أبوکريب ثنا حفص بن غياث عن عبدالرحمن بن إسحاق عن النعمان بن سعد عن علي (انتھٰی) (۱؍۲۸۶)
دارقطنی کے اس طریق سے زیاد بن زید کی جہالت کا ضرر تو زائل ہوگیا ہے مگر ایک نئی خرابی پیدا ہوگئی کہ عبدالرحمن بن اسحق جو روایات اپنے ماموں نعمان بن سعد سے نقل کرتا ہے، وہ روایات امام احمد کے نزدیک مناکیر ہیں:
قال عبدالرحمن بن أحمد عن أبيه ليس بذاك وھو الذي يحدث عن النعمان بن سعد أحاديث مناکير (تہذیب التہذیب: ج۶؍ ص۱۲۴)
امام نووی ؒ اس حدیث کے بارے میں رقم طراز ہیں: أما حديث علي رضي الله عنه أنه قال من السنة في الصلاة وضع الأکف علی الأکف تحت السرة ضعيف متفق علی تضعيفه رواہ الدارقطني والبيهقي من رواية أبي شيبة عبد الرحمن بن إسحق الواسطي وھو ضعيف بالاتفاق (شرح النووی: ج۴؍ص۱۵۳)
''حضرت علی ؓسے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے بارے میں مروی روایت کے ضعیف ہونے پر تمام محدثین کا اتفاق ہے۔ اس روایت کو امام دارقطنی اور امام بیہقی نے عبدالرحمن بن اسحق سے نقل کیا ہے جبکہ وہ تمام ماہرین فن کے نزدیک بالاتفاق ضعیف ہے۔''
واضح رہے کہ عبدالرحمن بن اسحق سے مروی روایات کے ضعیف ہونے پر تمام محدثین کا اتفاق ہے۔ البتہ اس سے مروی روایات کے موضوع ہونے پر اختلاف ہے۔ امام بخاریؒ اور امام ابن جوزیؒ کے نزدیک عبدالرحمن بن اسحق متہم بالکذب ہے، اس لئے امام ابن جوزی نے اس سے مروی روایات کو'موضوعات' میں شمار کیا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے جمہور کی تحقیق کو تسلیم کرتے ہوئے اس سے مروی روایات پر 'موضوع' کا حکم لگانے کی مخالفت کی ہے اور ان کے 'ضعیف' ہونے کو تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر نعمان بن سعد کے ترجمہ میں رقم طراز ہیں:
وذکرہ ابن حبان في الثقات قلت: والراوي عنه ضعيف کما تقدم فلا يحتج بخبرہ (تہذیب التہذیب: ج۱۰؍ص۴۰۵)
''نعمان بن سعد کو امام ابن حبان نے 'کتاب الثقات' میںذکر کیا ہے، البتہ ان سے (جو فقط ایک ہی راوی یعنی ان کا بھانجا) عبدالرحمن بن اسحق روایت کرتا ہے، وہ ضعیف ہے اس لئے اس سے مروی روایت کو بطورِ حجت نہیں لیا جائے گا۔''
جیسا کہ درج بالا سطور میں ذکر کیا گیا کہ حافظ ابن حجر نے عبدالرحمن بن اسحق سے مروی روایات کو موضوع تسلیم نہیں کیا۔ ان کے اس عمل سے ہمارے بعض علمی حلقے غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں۔
امام زیلعیؒ نے عبدالرحمن بن اسحق کے بارے میں امام نووی کی تحقیق کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں 'نصب الرایہ' میں درج کیا ہے، لیکن نصب الرایہ کے محشی شیخ یوسف بنوری نے امام نوویؒ پر برہمی کا اظہار اس طرح فرمایا ہے :
ھذا تهور منه کما ھو دأبه في أمثال ھذہ المواقع وإلا فقد قال الحافظ بن حجر في ''القول المسدد'' وحسن له الترمذي حديثا مع قوله إنه تکلم فيه من قبل حفظه وصحح الحاکم من طريقه حديثا وأخرج له ابن خزيمة من صحيحه آخر ولکن قال وفي القلب من عبد الرحمن شيء (حاشیہ نصب الرایہ : ج۱؍ص ۳۱۴)
فاضل دیوبند جناب محمدحنیف گنگوہی نے اسی عبارت کا ترجمہ اُردو زبان میں غایۃ السعایۃ میں نقل کیا ہے :
''یہ ان حضرات کا تہور ومبالغہ اور انتہائی جسارت ہے، اس واسطے کہ عبد الرحمن بن اسحق ضعیف ہے۔ یہ تو صحیح ہے لیکن اتنا ضعیف نہیں کہ اس کی ہر روایت کو 'بالاتفاق' ضعیف کہہ دیا جائے کیونکہ حافظ ابن حجر نے 'القول المسدد' میں کہا کہ امام ترمذی نے ان کی ایک حدیث کی تحسین کی ہے۔اسی طرح حاکم نے ان کے طریق پر ایک حدیث کی تصحیح کی ہے۔نیز ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں ان کی حدیث روایت کرکے صرف یہ کہہ کر ''وفي القلب عن عبدالرحمن شيء'' تردّد ظاہر کیا ہے۔ (غایۃ السعایۃ : ج۳؍ص۳۱)
ان شیوخ کے اندازِ تحریر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے 'القول المسدد' کی طرف مراجعت کئے بغیر عبدالرحمن بن اسحاق کی وکالت کا فریضہ ادا کیا ہے۔ راقم یہ بات پہلے تحریر کر آیا کہ حافظ ابن حجر امام نوویؒ کے رائے سے مکمل اتفاق رکھتے ہیں جیساکہ انہوں نے تہذیب التہذیب میں ذکر کیا ہے۔ البتہ امام ابن جوزی کی تحقیق سے انہیں اختلاف ہے یعنی امام ابن جوزی عبدالرحمن بن اسحق سے مروی روایات کو مو ضوع قرار دیتے ہیں اور ابن حجر اس روایت کے موضوع ہونے کا ردّ کرتے ہیں جیسا کہ وہ 'القول المسدد' کے مقدمہ میں رقم طراز ہیں:
''أما بعد: فقد رأيت أن أذکر في ھذہ الأوراق ما حضرني من الکلام علی أحاديث التي زعم بعض أھل الحديث أنها موضوعةوهي في المسند الشهير للإمام الکبير أبي عبدالله أحمد بن حنبل إمام أھل الحديث في القديم والحديث (القول المسدد: ص۵۱) ''میں نے پختہ ارادہ کیا کہ میں ان اوراق میں وہ معلومات ذکر کروں جو بعض اہلحدیث نے ان احادیث پر کی ہے جو ان کے خیال میں موضوع ہیں اور مسند احمد بن حنبل میں موجود ہیں۔''
جہاں تک امام ترمذی ؒکی تحسین اور امام حاکم ؒکی تصحیح کا تعلق ہے تو یہ حقیقت تمام اہل علم پرعیاں ہیں کہ ان حضرات کا دیگر ائمہ کے خلاف کسی روایت کو حسن یا صحیح قرار دینا قابل حجت نہیں۔حافظ ابن خزیمہ عبدالرحمن بن اسحق سے مروی حدیث اپنی صحیح میں لائے ہیں لیکن انہوں نے اس پر نہ صرف صحیح کا حکم نہیں لگایا بلکہ اس پر جرح نقل فرمائی جیسا کہ وہ اس حدیث کو نقل کرنے سے پہلے رقم طراز ہیں:
باب ذکر ما عدا الله جل وعلا في الجنة من الغرف لمداوم صيام التطوع إن صح الخبر فإن في القلب من عبد الرحمن بن إسحق أبي شيبة الکوفي وليس ھو بعبد الرحمن بن إسحاق الملقب بعباد الذي رویٰ عن سعيد المقبري والزھري وغيرھما ھو صالح الحديث (صحیح ابن خزیمہ: ج۳؍ ص۳۰۶)
''اگر حدیث صحیح ہو تو اس امر کا بیان جو اللہ نے کثرت سے نفلی روزے رکھنے والوں کے لئے جنت میں بالاخانے تیار کئے، بلا شبہ دل میں عبدالرحمن بن اسحق کی طرف سے تردّد ہے۔ واضح رہے کہ یہ عبدالرحمن بن اسحق وہ نہیں جو 'عباد' کے لقب سے مشہور ہے اور وہ سعید مقبری اور زہری وغیرہما سے روایت کرتا ہے اور وہ 'صالح الحدیث' ہے۔''
علامہ یوسف بنوری اور مولوی محمد حنیف گنگوہی نے اہل بصیرت ہونے کے باوجود مسئلہ وضع الیدین في الصلاة تحت السرة میں جو غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے، وہ قابل تعسف ہے۔ مذکورہ بالا دونوں حضرات عبدالرحمن بن اسحق کی وکالت کرتے ہوئے امام ابن خزیمہ کی کتاب کو حافظ ابن حجر کے قول کے مطابق صحیح ابن خزیمہ تسلیم کرتے ہیں جبکہ وضع الیدین في الصلاة علی الصدر والی روایت میں اپنے اسی موقف کے خلاف رقم طراز ہیں:
قوله: روی ابن خزيمة في صحيحه من حديث وائل بن حجر قال صليت مع رسول اللهﷺ، أما حديث وائل ھذا ذکرہ کثير من أھل العلم و عزوہ إلی ابن خزيمه مع سکوت عن نسبة التصحيح (حاشیہ نصب الرایہ : ج۱؍ ص۳۱۴)
''وہ حدیث جس میں 'علی صدرہٖ' کی زیادتی ہے، سو اس کے متعلق حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری میں صر ف یہ کہا ہے' 'قد رویٰ ابن خزيمة من حديث وائل أنه وضعما علی صدرہ والبزار عند صدرہ '' ابن خزیمہ سے اس کی تصحیح ذکر نہیں کی، نہ فتح الباری میں، نہ تلخیص میں، نہ درایہ میں اور نہ بلوغ المرام میں۔'' (غایہ السعایہ: ۳؍ ۴۲)
دلیل نمبر۵
حدثنا مسدد ثنا عبد الواحد بن زياد عن عبد الرحمن بن إسحق الکوفي عن سيار أبي الحکم عن أبي وائل قال قال أبو هريرة أخذ الأکف علی الأکف في الصلاة تحت السرة، قال أبوداود سمعت أحمد بن حنبل يضعف حديث عبد الرحمن بن إسحاق الکوفي (ابوداود مع المنہل: ج۵؍ ص۱۶۵)
''حضرت ابوہریرۃؓ فرماتے ہیں کہ نماز میں ہاتھوں کو ناف کے نیچے باندھنا چاہئے۔ (اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد) امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبلؒ سے سنا ہے کہ وہ عبدالرحمن بن اسحق کوفی کی روایت کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔''
اس روایت کا مرکزی راوی بھی عبدالرحمن بن اسحق کوفی ہے۔ اس راوی کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے جیسا کہ امام ابوداود نے امام احمد کا قول نقل کیا ہے۔
دلیل نمبر۶
حدثنا أبوالوليد الطيالسي قال حدثنا حماد بن سلمة عن عاصم الجحدري عن عقبة بن صهبان سمع عليًّا يقول في قول الله عزوجل ﴿فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ﴾ قال وضع اليمنی علی اليسریٰ تحت السرۃ (تمہید)
''عقبہ بن صہبان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علیؓ سے سنا کہ وہ اس آیت ﴿فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ﴾ (اپنے ربّ کے لئے نماز پڑھئے اور نحر کیجئے) کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ (نحر سے مراد) دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھ کر ناف کے نیچے باندھنا ہے۔''
حضرت علی ؓسے اس آیت کی تفسیر میں متعدد روایات مروی ہیں مثلاً:
1. حدثنا موسیٰ بن إسماعيل حدثنا حماد بن سلمة عن عاصم الجحدري عن عقبة بن صهبان عن علي (فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ) قال ھو وضع يمينك علی شمالك في الصلاة (السنن الکبریٰ للبیہقی مطبوعہ مکتبہ دارالفکر: ج۲؍ ص۳۱۶)
'' حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ فصل لربک وانحر کامعنی ہے کہ نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں کے اوپر رکھا جائے۔ (اس میں سینے یا ناف کاذکر نہیں)''
2. موسیٰ بن إسماعيل عن حماد بن سلمة سمع عاصم الجحدري عن أبيه عن عقبة بن صهبان عن علي (فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ) وضع يدہ اليمنی علی وسط ساعدہ علی صدرہ (ایضاً)
3. حدثنا شيبان ثنا حماد بن سلمة ثنا عاصم الجحدري عن أبيه عن عقبة بن صهبان کذا قال إن عليا رضی الله عنه قال في ھذہ الآية (فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ) قال وضع يدہ اليمنی علی وسط يدہ اليسریٰ ثم وضعھما علی صدرہ (ایضاً: ص۲؍ ص۳۱۸) '' حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے فصل لربك وانحر کا معنی اس طرح بیان کیا کہ دایاں ہاتھ بائیں کے درمیانی حصہ پر رکھ کر انہیں سینے پر باندھ لیا۔''
درج بالا روایات سے یہ واضح ہوا کہ حضرت علی ؓسے 'تحت السرۃ' کی ایک روایت مروی ہے جبکہ 'علیٰ صدرہٖ' کی دو روایات ہیں۔ دو روایات کو ایک روایت کے بالمقابل ترجیح دینا چاہئے۔ یوں بھی پہلی ایک، اور دوسری دو روایات ضعیف ہیں۔
دلیل نمبر۷
حدثنا يزيد بن هارون قال أخبرنا حجاج بن حسان قال سمعت أبا مجلذ أوسألته قال قلت کيف يضع قال يضع باطن کف يمينه علی ظاهر کف شماله ويجعلھما أسفل السرة (مصنف ابن ابی شیبہ)
''ابومجلز (تابعی) حالت ِنماز میں دائیں ہتھیلی بائیں ہاتھ کی پشت پر رکھ کر ناف کے نیچے اُنہیں باندھتے۔''
ابومجلز کے اس اثر کو امام ابوداود (نسخہ ابن العربی) نے تعلیقاً نقل کیا جبکہ امام ابوبکر نے اس اثر کو موصولاً نقل کیا ہے جیسا کہ درج بالا سند سے ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن امام بیہقی ؒنے سعید بن جبیر کا اثر 'فوق السرۃ' نقل کرنے کے بعد تحریر کیا ہے:
کذلك قاله أبومجلز لاحق بن حميد (بیہقی: ج۲؍ص۳۱۸)
حنفی حضرات شیخ قاسم بن قطلوبغا کے بیان کو بنیاد بنا کر جس طرح مصنف ابن ابی شیبہ کے متعدد نسخے ثابت کرنے پر مصر ہیں، اِسی طرح ہم بھی اگر چاہیں تو امام بیہقی کے اس قول کو بنیاد بنا کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ابومجلز سے اس سلسلے میں دو روایات ہیں، ایک تحت السرۃ کی اور دوسری فوق السرۃ کی مگر یہ حرکت کرکے احناف کی طرح حقیقت کے چہرے کو مسخ نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ہمارادین ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتا۔
اس لئے ہم یہی عرض کریں گے کہ اس سلسلہ میں یا تو امام بیہقی سے تسامح ہوا ہے یا پھر کسی نسخہ لکھنے والے سے غلطی ہوئی ہے۔ لیکن ابومجلز کے اثر کے جواب میں ہم یہ ضرور عرض کریں گے کہ یہ دلیل بھی اَحناف کیلئے بے سود ہے کیونکہ ابومجلز تابعی ہیں۔ تابعی کے عمل کو اگر دین میں حجت تسلیم کرلیا جائے ( جبکہ وہ صحیح احادیث کے برخلاف ہو) تو امت مسئلہ مزید افتراق وانتشار میں مبتلا ہوجائے گی کیونکہ متعدد تابعین ایسے ہیں جن کے اقوال واعمال ایک دوسرے کی نقیض ہیں۔
دلیل نمبر۸
1. حدثنا وکيع عن ربيع عن أبي معشر عن إبراهيم قال يضع يمينه علی شماله في الصلاة تحت السرة (ابن ابی شیبہ)
یعنی ''وہ نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھتے تھے۔''
درج بالا عمل محترم ابراہیم نخعی کا ہے، ان کا شمار صغار تابعین میں ہوتا ہے، نیز یہ ہاتھ چھوڑ کر بھی نماز پڑھتے تھے۔ ان سے اس سلسلہ میں دو مزید روایات بھی ہیں :
2. حدثنا أبوبکر قال حدثناهثيم عن يونس عن الحسن ومغيرة عن إبراهيم أنهما کانا يرسلان أيديهما في الصلاة
یعنی ''وہ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے تھے۔'' (مصنف ابن ابی شیبہ: ج۱؍ ص۴۲۸)
3. حدثنا جدير عن مغيرةعن أبي معشر عن إبراهيم قال لا بأس بأن يضع اليمنی علی اليسریٰ في الصلاة (مصنف ابن ابی شیبہ: ج۱ ص۴۲۷) یعنی ''وہ نماز میں ہاتھ باندھنے میں کوئی قباحت نہ سمجھتے تھے۔''
ابراہیمؒ نخعی سے مروی ان تینوں آثار پر اگر نظر انصاف سے غور کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ بیشتر نمازیں ہاتھ چھوڑ کر پڑھتے تھے اور نماز میں ہاتھ باندھ لینے کو بھی مباح سمجھتے تھے۔ ان تینوں آثار کی موجودگی میں ابراہیم نخعی ؒکے فقط ایک عمل کو بطورِ حجت پیش کرنا انصاف کے قتل کے مترادف ہے۔
'تابعی' کے اقوال و اعمال کے بارے میں امام ابوحنیفہؒ کی رائے
يقول: اٰخذ بکتاب الله فإن لم أجد فبسنة رسول الله فان لم أجد فبقول الصحابة، أخذ بقول من شئت منهم ولا أخرج عن قولهم إلی قول غيرھم فأما إذا انتهي الأمر إلی إبراهيم والشعبي وابن سيرين وعطاء فقوم اجتهدوا فأجتهد کما اجتهدوا (التہذیب التہذیب: ۱۰؍۴۰۳)
''محترم امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں: میں سب سے پہلے اللہ کی کتاب سے دلیل حاصل کروں گا ، پس اگر مجھے وہاں سے دلیل نہ ملے تو میں سنت ِرسول اللہ ﷺ کو بطورِ حجت اختیارکروں گا اور اگر وہ بھی میسر نہ آئے تو صحابہؓ میں سے کسی صحابی کے قول کو اختیار کروں گا اور جب معاملہ ابراہیم نخعی، شعبی، ابن سیرین اورعطاء تک پہنچے گا تو وہ سب ایک قوم ہیں جنہوں نے اجتہاد کیا سو میں بھی اجتہاد کروں گا جیسے انہوں نے اجتہاد کیا۔''
امام صاحب کے اس قول سے واضح ہوا کہ تابعی کے قول کو بطورِ حجت پیش نہیں کیاجاسکتا۔
نویں دلیل : ازروئے عقل
لأن الوضع تحت السرة أقرب إلی التعظيم (ہدایہ) ''اور اس لئے بھی کہ ناف کے نیچے ہاتھ رکھنا تعظیم کے زیادہ قریب ہے ۔''
مولوی محمد حنیف فاضل دارالعلوم دیوبند شرح ہدایہ میں رقم طراز ہیں:
''یہ احناف کی عقلی دلیل ہے کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا تعظیم کے زیادہ قریب ہے اور یہی مقصود ہے یعنی نماز میں احکم الحاکمین کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا ایسا ہی ہے جیسا نوکر اور غلام بطورِ تعظیم آقاؤں اور بادشاہوں کے سامنے کمر پر پیٹی باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں اورظاہر ہے سینہ پر ہاتھ باندھنا تعظیم کی کوئی صورت نہیں۔'' (غایۃ السعایہ: ج۳؍ ص۴۵)
شیخ محمدہاشم سندھی رقم طراز ہیں:
ومنها ما ذکرہ رضي الدين السرخسي في محيطه والزاهدي في شرح القدوري والخبازي والعيني في شرح الھداية: أن الوضع تحت السرة أقرب إلی ستر العورة وحفظ الإزار عن السقوط فيکون جمعا بين الوضع والستر فيکون أولیٰ، انتهى (درہم العسرۃ : ص۴۶) ''ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے جو عقلی دلائل ہیں: ان میں سے ایک وہ ہے جو رضی الدین سرخسی نے 'محیط' (نامی کتاب) میں، زاہدی نے شرح قدوری میں، خبازی اور عینی نے شرح ہدایہ میں ذکر کی ہے کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ستر کو ڈھاپنے اور اِزار کو گرنے سے بچانے میں زیادہ معاون ہے۔ سو ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے سے وضع اور ستر دونوں کام ایک ساتھ ہوجاتے ہیں، اس لئے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا اولیٰ ہے۔''
احناف کے نزدیک صحیح و سقیم کی جانچ پڑتال کے لئے عقل ایک ایسا معیاری پیمانہ ہے کہ اگر سنت صحیحہ صریحہ بھی ان کی عقل (سقیم) کے خلاف ہو تو اسے بھی اپنی رائے کے مرگٹ پر قربان کرنے سے گریز نہیں کرتے مگر اس کے باوجود ان کے بیشتر عقلی دلائل تارِعنکبوت سے زیادہ کمزور ہوتے ہیں، درج بالا عقلی دلائل اسی نوعیت کے ہیں۔
واضح رہے کہ احناف کی خواتین سینہ پر ہاتھ باندھتی ہیں، ہم ان حضرات سے بصد معذرت یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ جب سینہ پر ہاتھ باندھنا تعظیم کی کوئی صورت نہیں تو پھر حنفی خواتین کیا حالت ِنماز میں اللہ تعالیٰ کو للکارتی ہیں؟ اگر ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا اِزار بند کو نیچے گرنے سے روکنے کا ایک ذریعہ ہے تو پھر حنفی خواتین کو اس مفید ترین ذریعہ سے کیوں محروم رکھا جارہا ہے؟ حالانکہ عقل تو اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ایامِ حمل میں یہ آسانی خواتین کو میسر کی جائے کیونکہ ان ایام میں سقوطِ ازار کا امکان زیادہ ہوتا ہے!!
ہمارے بھائیوں کے یہ عقلی دلائل تعصب اور ہٹ دھرمی کی عکاسی کرتے ہیں، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ عربی زبان میں متعدد لغات مرتب ہوچکی ہیں، ان میں کسی بھی فاضل اہل زبان نے کوئی ایسا لفظ دریافت نہیں کیاجس کا معنی ناف کے نیچے ہاتھ باندھ کر تعظیم کرنا ہو جبکہ اس کے برعکس متعدد لغات میں لفظ 'کفّر' موجود ہے جس کا معنی سینے پر ہاتھ باندھ کر تعظیم کرنا ہے:
''کفر لسيدہ: أنحیٰ ووضع يدہ علی صدرہ وطأطأ رأسه کالرکوع تعظيما له (المعجم الوسیط: ج۲؍ ص۷۹۱)
''کفر لسیدہٖ کا معنی ہے :ا س نے اپنے ہاتھ کو سینہ پر رکھا اور اپنے سر کو اپنے آقا کی تعظیم کی خاطر رکوع کی طرح نیچے کیا''
التکفير لأھل الکتاب أن يطاطی أحدھم رأسه لصاحبه کالتسليم عندنا و قد کفرله والتکفير أن يضع يدہ أويديه علی صدرہ لعل أصله التکبير والتعظيم أبدلت الباء فاء فصار تکفير (فقہ اللسان:ص۶۱)
'' التکفير لأھل الکتاب سے مراد یہ ہے کہ ان میں سے ایک اپنے ساتھی کے سامنے اپنے سر کو ایسے جھکائے جیسا کہ ہمارے نزدیک السلام علیکم کہنا ہے اور 'تکفیر' سے مراد ایک ہاتھ یا دونوں ہاتھوں کو سینہ پر رکھنا ہے۔ تکفیر کا اصل شاید تکبیر ہے کہ باء کو فاء سے بدل دیا گیا، اس طرح تکفیر بن گیا جس کا معنی 'تعظیم' ہے۔''
٭ واضح رہے کہ گنگوہی صاحب نے کمر پر پیٹی باندھنے کو تعظیم سے تعبیر کیا ہے یعنی موصوف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پیٹی چونکہ ناف کے نیچے ہوتی ہے اورآقا یا بادشاہ کی تعظیم کے لئے ہوتی ہے۔ یہاں بھی فاضل دیو بند نے جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقیقت کو چھپانے کی کوشش کی ہے۔
پیٹی یا پٹکے کو عربی زبان میں منطقۃ کہتے ہیں یہ لفظ صاحب ِہدایہ نے ہدایہ اخرین: کتاب الکراھیۃ میں بھی نقل کیا ہے، منطقۃ کا معنی 'المعجم الوسیط' میں اس طرح مذکور ہے: ''مايشد به الوسط'' جس چیز کے ساتھ (کمر کے) درمیان کو باندھا جائے۔ اِزار بند کو عربی زبان میں 'نطاق' کہتے ہیں۔ ان دونوں لفظوں کا مادہ ن ط ق ہے۔ یہی وجہ کہ'المعجم الوسیط' میں نطاق کا معنی بھی یہی کیا گیا یعني حزام یشد به الوسط:(۲؍۹۳۱) اور اس کا معنی مستعد ہونا بھی ہے جیساکہ المعجم الوسیط میں ہے:
يقال عقد فلان حبك النطاق : تهيأ لأمر (ج۲؍ ص۹۳۱) ''کہا جاتا ہے کہ فلاں نے لنگوٹ کس لیا یعنی وہ کام کے لئے مستعد ہوگیا۔''