کیا قرآن کی رُو سے حضرت عیسیٰ ؑمیں اُلوہی صفات تھیں؟

قرآنِ کریم میں تعلیم توحید اور مخالفین کی شہادتیں

یہ ہوسکتا تھاکہ آیاتِ براء ت کو پادری صاحب نے بو جہ اپنی لاعلمی اور قرآن کو نہ سمجھنے کی وجہ سے مدارِ فضیلت قرار دے دیا ہو اور دیدہ دانستہ ایسا حق کش رویہ اختیار نہ کیا ہو۔ لیکن ان کا یہ بیان کہ'' قرآن خود عیسیٰ کی اُلوہی صفات کا مؤید ہے'' ایک ایسا سفید جھوٹ اور صریح افترا ہے کہ اس کے بعد کسی قسم کے حسن ظن کا موقعہ ہی نہیں رہتا۔ اور یہی معلوم ہوتا ہے کہ تعصب کی پٹی نے ان کو بالکل اندھا بنا دیا ہے اور وہ ارادۃً جھوٹ بولنے سے نہیں ٹلتے اور یہ کہتے ہیں کہ قرآنِ حکیم اُلوہیت مسیح کا مؤید ہے۔

پادری ای ایم ویری کو بھی کتاب 'دین اسلام' میں جو انہوں نے اسلام کی تردید میں لکھی ہے، اس امرکے اعتراف کے سوا کوئی چارہ کار نظرنہ آیا کہ

''قرآن میں توحید پر ایسا زور دیا گیا ہے کہ خدا کی توحید میں شرک کو دخل ہو ہی نہیں سکتا''

فاضل مصنف 'لی بان' نے اپنی شہرۂ آفاق تصنیف کتاب'انقلابِ اُمم' میں صاف لکھا ہے : ''اسلام کی مابہ الامتیاز دو چیزیں ہیں: ایک اس کی بے لوث توحید جو ہر طرح کے شرک سے پاک ہے اور دوسرا عمل اُخوت۔ '' ''الفضل ما شهدت به الأعداء''

قرآنِ کریم سے حضرت عیسیٰ کی اُلوہیت پرپادری کے دلائل

مصنف 'حقائق القرآن' نے جس آیت سے حضرت عیسیٰ میں اُلوہی صفات کی موجودگی کا استدلال کیا ہے، وہ ان کے خبث ِباطن کی دلیل ہے۔ کیونکہ انہوں نے اس آیت کا سرا جو فی الحقیقت حضرت عیسیٰ کی اُلوہیت کی تردید میں ہے، لے کر اس سے استدلال کرنا شروع کردیا ہے۔ مکمل آیت یوں ہے:

1.﴿وَإِذ تَخلُقُ مِنَ الطّينِ كَهَيـَٔةِ الطَّيرِ‌ بِإِذنى فَتَنفُخُ فيها فَتَكونُ طَيرً‌ا بِإِذنى ۖ وَتُبرِ‌ئُ الأَكمَهَ وَالأَبرَ‌صَ بِإِذنى ۖ وَإِذ تُخرِ‌جُ المَوتىٰ بِإِذنى...١١٠﴾... سورة المائدة

''اے عیسیٰ ابن مریم! یاد کر جب تو میرے حکم سے پرندوں کی سی صورت مٹی سے بناتا تھا۔ پس اس میں پھونک مارتا تھا۔ پس وہ میرے حکم سے سچ مچ کا پرندہ ہوجاتا تھا۔ پھر تو مادر زاد اندھے کو اور برص والے بیمار کو میرے حکم سے شفا دیتا تھا اور مردوں کو میرے حکم سے جلاتا تھا۔''

2. ﴿وَإِذ قالَ اللَّهُ يـٰعيسَى ابنَ مَر‌يَمَ ءَأَنتَ قُلتَ لِلنّاسِ اتَّخِذونى وَأُمِّىَ إِلـٰهَينِ مِن دونِ اللَّهِ ۖ قالَ سُبحـٰنَكَ ما يَكونُ لى أَن أَقولَ ما لَيسَ لى بِحَقٍّ...١١٦﴾... سورة المائدة ''اور جب اللہ کہے گا: اے عیسیٰ مریم کے بیٹے! کیا تم نے لوگوں سے کہا کہ مجھ کو اور میری ماں کو اللہ کے سوا معبود (یعنی خدا کا بیٹااور اُلوہی طاقتوں سے متصف) بنا لو تو عیسیٰ عرض کریں گے کہ پاک ہے تو، مجھ سے کیسے ہوسکتا تھا کہ وہ با ت کہوں جس کے کہنے کا مجھے کوئی حق نہ تھا؟ اگر میں نے کہا ہوتا تو اللہ تو جانتا ہے۔ میں نے تو ان سے یہی کہا کہ ایک اللہ کی پرستش کرو جو تمہارا اور میرا پالنے والا ہے۔''

قارئین! ان سب آیات پر غور کریں کہ کس طرح ان آیات سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اُلوہی صفات سے متصف ہونا پایا جاتا ہے۔ سب سے پہلے تو اس عظیم الشان تردید کو لیجئے کہ ''میں نے نہیں کہا، مجھ سے کیسے ہوسکتا تھا کہ میں ناحق بات کہوں؟'' یعنی خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان سے دعویٰ اُلوہیت کی تردید کرائی ہے۔ پھر ہر انعام کے بعد بإذني کے اضافہ پر غور کیجئے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ یہ سارے کام خود نہیں بلکہ اللہ کی تائید اور اس کی خصوصی عطا ( معجزہ) کے طور پر کرتے تھے۔ اور یہ بات ہر صاحب نظر پر واضح ہے کہ

1. نجار کا تیشہ نجار، لوہار کا ہتھوڑا خود لوہار اور انجینئر کا میٹر خود انجینئر نہیں ہوتا ، اسی طرح

2. معجزات کے صدور میں ہمیشہ اللہ کو اپنی قدرتِ کاملہ کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔

اور قرآن میں دیگر انبیا کے متعلق بھی ایسا مذکور ہے ، یہ صرف مسیح کی خصوصیت نہیں ہے:

﴿وَإِذ قالَ إِبر‌ٰ‌هـۧمُ رَ‌بِّ أَرِ‌نى كَيفَ تُحىِ المَوتىٰ ۖ قالَ أَوَلَم تُؤمِن ۖ قالَ بَلىٰ وَلـٰكِن لِيَطمَئِنَّ قَلبى ۖ قالَ فَخُذ أَر‌بَعَةً مِنَ الطَّيرِ‌ فَصُر‌هُنَّ إِلَيكَ ثُمَّ اجعَل عَلىٰ كُلِّ جَبَلٍ مِنهُنَّ جُزءًا ثُمَّ ادعُهُنَّ يَأتينَكَ سَعيًا...٢٦٠﴾... سورة المائدة

''جب ابراہیم ؑنے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار! مجھے دکھلا کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا؟ اللہ نے کہا: کیا تمہیں ایمان نہیں ،جواب دیا : ایمان تو ہے لیکن میرے دل کی تسکین ہو جائے گی۔فرمایا: چار پرندے لو اوران کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالو، پھر ہر پہاڑ پر انکا ایک ایک ٹکڑا رکھ دو پھر انہیں پکارو ۔ وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آ جائیں گے۔''

ایک اور مقام پر مؤمنوں کو خطاب فرمایا:﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا استَجيبوا لِلَّهِ وَلِلرَّ‌سولِ إِذا دَعاكُم لِما يُحييكُم...٢٤﴾... سورة الانفال

''ا ے ایمان والو! اللہ اور رسول کے کہنے کو بجا لائو جب کہ رسول تم کو تمہاری زندگی بخش چیز کی طرف بلاتے ہوں۔''

یہاں حضرت ابراہیم ؑنے وہی کام کیاجو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کرتے تھے۔ دوسرے مقام پر حضورِ سرور عالم ﷺ کی پکار کو اللہ نے اپنی پکار بتایا اور ان کی دعوت کو حیات بخش بتلا یا کہ اسلام کی دعوت ہی اصل حیات بخش دعوت ہے۔ تو ان آیات سے حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ میں اُلوہی صفات ثابت کرنے کی کوشش کرنا کمالِ جہالت ہوگی۔

مقابلہ انبیا میں سب سے بڑی غلطی

اصل بات تو یہ ہے کہ مصنف 'حقائق القرآن 'مقابلہ و موازنہ انبیا میں بہت ہی ٹیڑھے رستہ پڑ گئے ہیں۔ اور وہ بڑی فاش اُصولی غلطیوں کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ حسب ونسب،معجزات یا رفع اِلی السماء کسی طرح بھی مدارِ فضیلت نہیں ہوسکتے۔ یہ امر اس قدر واضح ہے کہ اس پر کچھ لکھنا فضول ہے کیونکہ اگر کوئی شخص دو بادشاہوں کا مقابلہ کرتے وقت یہ کہے کہ زارا روس شاہِ انگلستان سے بہتر بادشاہ تھا، کیونکہ پلاؤ پکانا اچھا جانتا تھا یا موسیوپائین کارے صدرِ فرانس، نیوٹن اور لائینز سے بہتر ریاضی دان ہے کیونکہ اس کا باپ بہت بڑا ریاضی دان تھا جبکہ نیوٹن اور لائینز دونوں کے والدین ریاضی سے بالکل بے بہرہ تھے۔ یا یہ کہے کہ نپولین ثانی، ڈیوک آف ولنگٹن سے بڑا جنرل ہے کیونکہ ڈیوک ایک غیر معرو ف ماں باپ کا بیٹا تھا اور نپولین ثانی نپولین اعظم کا بیٹا یا پوتا تھا جو دنیا کا مشہور و معروف ترین جنرل تھا۔ یا ڈے کارٹ ارسطو سے بڑا فلسفی تھا کیونکہ ڈے کارٹ ہتھیلی پرسرسوں جما لیتا تھا یا سوکھے درخت کو ہرا کردیتا تھا تو ظاہر ہے کہ ایسا شخص قابل التفات بھی نہیں کیونکہ ہر دو اشخاص کے مقابلہ میں ایک خاص معیار ہونا چاہئے۔

اگر دو شخصوں کا از روئے حسن مقابلہ ہورہا ہے تو اس وقت ان کی ریاضی دانی کو معرضِ بحث میں لانا اور مدارِ فضیلت بنانا کمالِ حماقت ہے۔ اگر دو شخصوں کا مقابلہ از روئے اخلاق ہورہا ہے تو اس میں ان کی جغرافیہ دانی یا طب کو معیارِ فضیلت بنانا کمالِ جہل کی نشانی ہوگا۔ اسی طرح یہ بدیہی ا مر ہے کہ جس حیثیت سے دو اشخاص کا مقابلہ ہوگا، وہی حیثیت مدارِ فضیلت ہوسکتی ہے نہ کہ دیگر خارجی اُمور۔

اسی طرح جب دو انبیا کرام علیہما السلام کا مقابلہ کیا جائے تو اس میں حسب و نسب، صدورِ معجزات وغیرہ خارجی اُمور ہیں جو کسی طرح بھی مدارِفضیلت نہیں ہوسکتے بلکہ فرائض نبوت کی ادائیگی، اصلاح بین الناس اور نتائج نبوت ہی معیارِ فضیلت ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ دنیا میں جس قدر بڑے آدمی گزرے ہیں وہ ہمیشہ اپنی قابلیت، جہانبانی و جہانداری اور اصلاح بین الناس سے اپنے باپ دادا کے نام کو اوجِ فلک پر پہنچا دیتے ہیں اور انہیں حیاتِ جاوید بخشتے ہیں، نہ یہ کہ اپنے آباؤ اجداد کی ناموری پر اُدھار کھائیں۔

کیاپادری صاحب ایک مثال بھی بتا سکتے ہیں جس میں دنیا کے کسی شخص کو محض اس کے حسب و نسب کی بنا پر بڑا آدمی یا لیڈر آف مین تسلیم کیا ہو۔ ارسطو، افلاطون، سقراط، زرتشت، ابراہیم و موسیٰ، سیزرولائینز و نیوٹن، ڈیکارٹ، شارلی مین، نپولین اعظم الغرض جتنے نام آپ کا جی چاہے، گن جائیں۔ ان میں سے کون ہے جس نے باپ دادا کی ناموری کی وجہ سے شہرتِ دوام حاصل کی ہو۔

اگر پادری صاحب کا دعویٰ تسلیم کرلیا جائے تو حضرت عیسیٰ کی کمالِ تنقیص لازم آتی ہے کیونکہ وہ اپنی افضلیت کے لئے اپنی والدہ کی شہرت کے محتاج ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اناجیل اربعہ کے مؤلفین ان پادری صاحب سے کہیں زیادہ عقلمند اور دور اندیش تھے کہ انہوں نے فسانۂ مسیح (کیونکہ اناجیل کو ایک فسانہ سے زیادہ وقعت نہیں دی جاسکتی) تالیف کرتے وقت جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف بہت سی قبائح وذمائم کوبھی جنہیں وہ اپنے زعم باطل میں محاسن خیال کرتے تھے( گو دنیا کا نقطہ نظر ان سے کہیں مختلف ہے) منسوب کیا ہے۔ وہاں افتخار بہ عفت ِوالدہ کا شرف قابل ذکر ہی نہیں سمجھا کیونکہ کوئی سادہ لوح آدمی بھی اس حسب کو و جہ ِشرف و مزیت خیال نہیں کرتا۔

اب ہم اس و جہ کے علاوہ جو اوپر ذکر ِمریم و پیدائش میں لکھ آئے ہیں اور ہر عقلمند سے جس کا جواب بخوبی مل سکتا ہے، بڑے زور سے یہ کہیں کہ بی بی آمنہ کا یہی شرف کیا کم ہے کہ وہ آنحضرت سرورِ عالمﷺکی ماں تھیں جو تمام انبیا علیہم السلام کے سردار، ان کی تعلیمات کے پورا کرنے والے اور نبوت کے سلسلہ کو مکمل و ختم کرنے والے اور اللہ کی تعلیم کو قائم کرنے والے تھے اور اس بنیاد پر یہ ثابت کریں کہ آپ ﷺ ہر لحاظ سے حضرت عیسیٰ ؑسے افضل و برتر تھے۔

اسلام نے اس سلسلے میں کمالِ اعتدال اور حسن ادب ملحوظ رکھا ہے۔ اگر آج مسلمانوں میں نبی آخر الزمان کے حوالے سے دوسرے انبیا پر فضیلت قائم کرنے کی کوششیں نہیں ملتیں تو اس کی وجہ نبی کریم کا یہ سنہرا فرمان ہے ، جس نے اس بے کاربحث کو سرے سے ہی ختم کردیا، آپ نے فرمایا:« لا تفضلوا بين أنبياء اﷲ» (بخاری: ۳۴۱۴، مسلم: ۶۱۰۲)

'' انبیا کے درمیان فضیلت کا مقابلہ نہ کیا کرو...''

ایک روایت میں ہے:« لا يقولن أحدکم إني خير من يونس بن متی»(بخاری: ۳۴۱۲)

''تم میں سے کسی کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ کہے کہ میں حضرت یونس سے افضل ہوں۔''

نبی کا مدارِ فضیلت

رہا صدورِ معجزات و رفع الی السمائ، سو ا س کی نسبت ہم عیسائیوں کے جواب میں انہی کی الہامی تعلیم کو پیش کرتے ہیں۔ انجیل متی میں حضرت مسیح ؑفرماتے ہیں: ''درخت کو تم اس کے پھلوں سے پہچانو گے۔'' ( باب۷؍آیت ۲۰)

لہٰذا ایک نبی کا مدارِ فضیلت فقط اس کی تعلیم اور تعلیم کے نتائج و اثرات ہی ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ یہی ثمراتِ نبوت سے تعبیر کئے جاسکتے ہیں نہ کہ معجزات کہ ان میں محض خدا کی قدرت کے اظہار کے لئے نبی ایک آلہ محض ہوتا ہے ۔ چنانچہ اس امر کا اعتراف خود حضرت مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں کہ نبوت میں و جہ ترجیح فقط نتائج نبوت ہی ہوسکتے ہیں۔ دیکھو انجیل متی

'' تم میں سے کون ایسا آدمی ہے کہ اگر اس کا بیٹا اس سے روٹی مانگے تو اسے پتھر دے، یا اگر مچھلی مانگے تو اسے سانپ دے۔ پس جبکہ تم بڑے ہوکر اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتے ہو تو تمہارا باپ جو آسمان پر ہے، اپنے مانگنے والوں کو اچھی چیزیں نہ دے گا۔''

(باب ۷؍ آیت ۹ تا۱۱)

پس نبی جو کمالِ توحید الٰہی اورتزکیۂ نفوس و تہذیب ِقلوب اور پرانے رسم و رواج کو بدعات کی الائشوں سے پاک کرنے اور قوانین الٰہی میں جو فتور واقع ہوتے ہیں، ان کودور کرنے کے لئے آتا ہے۔ اگر محض چند معجزات دکھلا کرچلتا بنے۔ اور لوگوں کو طلب ِہدایت کی پکار میں چند 'فوق الفطرت' افعال دکھلا کر رخصت ہو جیسا کہ حضرت مسیح کی زندگی کے مطالعہ سے جو اَناجیل اربعہ میںموجود ہے،ظاہر ہوتا ہے۔ تو اس کی وہی مثال ہے کہ اس کے بیٹے نے مچھلی مانگی اور وہ اسے سانپ دے کر چلتا بنا اور اس نے روٹی مانگی اور وہ پتھر دے کر سدھارا۔ اس حالت میں حضرت مسیح کے اپنے فرمان کے مطابق ان کے آسمانی باپ کے متعلق ہم کوئی اچھی رائے قائم نہیں کرسکتے۔

چنانچہ اسی باب میں آگے چل کر حضرت مسیح صاف اقرار فرماتے ہیںکہ معجزات ثبوتِ نبوت نہیں ہوسکتے، چہ جائیکہ وہ ثبوتِ اُلوہیت ہوں۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ''جھوٹے نبی بھی معجزات دکھلائیں گے۔ اور جو جو کام حضرت مسیح نے کئے ہیں، وہی وہ بھی کریں گے یعنی بدروحوں کو نکالیں گے۔ وغیرہ وغیرہ '' (انجیل متی: باب ۷؍ آیت ۲۲)

اور پھر نبوت کا معیار بتاتے ہیں : '' (۱۶)ان کے پھلوں سے تم ان کو پہچان لوگے۔ کیا جھاڑیوں سے انگور یا اونٹ کٹاروں سے انجیر توڑتے ہیں...

(17) اس طرح ہر اچھا درخت اچھا پھل لاتا ہے اور بُرا درخت بُرا پھل لاتا ہے ...

(18) اچھا درخت بُرا پھل نہیں لاسکتا، نہ بُرا درخت اچھا پھل لاسکتا ہے...

(19) جو درخت اچھا پھل نہیں لاسکتا وہ کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتاہے...

(20) پس ان کے پھلوں سے تم ان کو پہچان لو گے۔'' (۱۶ تا ۲۰)

آیاتِ مندرجہ بالا میں حضرت مسیح نے صاف کہہ دیا ہے کہ نبوت کو تم ان کے نتائج سے پہچانو گے اور ذرا آیت ۱۸ پر غور کیجئے اور پھر اسے حضرت مسیح علیہ السلام کے نتائج نبوت پر چسپاں کیجئے۔ تو دیکھئے کہ خود حضرت عیسیٰ کی تمام عمر کی تعلیم کا صرف یہی نتیجہ نہیں نکلا کہ توحید کی بجائے تثلیث پھیل گئی اور آپ کے ساتھ بارہ منافقین کی جماعت پیدا ہوئی جن میں سے ایک نے تو آپ کو چند حقیر سکوں کے بدلے (انجیل متی: باب ۲۶؍ آیت ۱۵/ مرقس: باب ۱۴؍ آیت۱۰،۱۱/ لوقا: باب ۲۲؍ آیت ۳تا۶) گرفتار کروایا اور باقی گیارہ خوفِ مرگ سے بھاگ گئے اور ان میں سے سب سے افضل نے مرغے کی دو اذانوں کے وقفہ میں اپنے پیغمبر کی تین دفعہ تکذیب کی اور ایک دفعہ اس کو ملعون ٹھہرایا۔(انجیل یوحنا: باب ۱۸؍آیات ۱۵ تا ۱۸ و لوقا: باب۲۲؍ آیات ۵۴ تا ۶۲) ہم اس پر مفصل بحث بعد میں کریں گے۔ ان شاء اللہ

فی الحال ہم فقط یہ دکھلانا چاہتے ہیں کہ موجودہ محرف عیسائی اعتقادات کی رو سے اگر مسیح بجائے چند معجزات دکھلانے کے ایک درجہ کا اخلاقی کوڈ لاتے، جس سے ان کے سامعین کے دلوں میں اعلیٰ اخلاقی اُصول سرایت کرجاتے اور اگر وہ چند اندھوں اور کوڑھیوں کو تندرست کرنے کی بجائے اخلاقی کوڑھیوں اور اندھوں کو تندرست کرتے اور بجائے تثلیث کے توحید ِخالص اور بجائے تین خدا پراعتماد کرنے کے خدائے واحد بلند و برتر پر اعتماد کی تعلیم دیتے۔ (جبکہ امر واقعہ ایسا نہیں جیسا کہ قرآنِ کریم میں بیان ہوچکا ہے، لیکن عیسائی راہب تو انہی باتوں کی تعلیم دیتے ہیں۔) کیونکہ ہم بلا خوفِ تردید کہہ سکتے ہیں کہ روحانیت اور اعلیٰ اخلاق کے متلاشی کے لئے تثلیث و کفارہ کا عقیدہ کسی طرح بھی سانپ اور بچھو اور زہرہلاہل سے کم نہیں ہے۔ تو ان کو یہ روزِ بد دیکھنا نصیب نہ ہوتاجس کا ذکر ہم اوپر کرآئے اور جس کا جواب اب تک مسیحی دنیا دینے سے قاصر ہے، اب بتلاؤ کہ اس معیار کا کیا جواب ہے؟

انہی عیسائیوں کو یہی جواب ایک اور انداز سے اور انہی کی انجیل کی رو سے...

''اچھا درخت بُرا پھل نہیںلاسکتا اور نہ بُرا درخت اچھا پھل لاسکتا ہے۔'' ... اگر مسیح کی تعلیم اچھی تھی تو اس کا پھل ایسا بُرا کیوں نکلا۔ اگر محض معجزات کا صدور ہی ایک شخص کو اُلوہیت کے مرتبہ تک پہنچا دیتا ہے اوراسے سب انبیا سے افضل و برتر بنا دیتا ہے تو پھر حضرت مسیح کی تعلیم کا نتیجہ صرف بارہ منافقین کو داخل مسیحیت کرنے کی صورت میں ظاہر کیوں ہوا؟ کیا مردوں کا زندہ کرنا بہتر تھا یا ان بارہ منافقین کے مردہ دلوں میں روحِ اخلاق کا پھونکنا۔ کیا مادر زاد اندھوں کوڑھیوں کو چنگا بھلا کردینا زیادہ مفید ِمطلب ہوتا یا اس بارہ اخلاقی اندھوں اور کوڑھیوں کو اچھا کرنا؟

اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم کانتیجہ بھی بہتر ظاہر ہوا ہوتا تو مسیحی راہبوں کو کس قدر زیب دیتا کہ ہمارے حضرت سرورِ انبیاﷺ سے ان کا مقابلہ کرنا شروع کرتے جنہوں نے کہ اپنی عین حیات میں تمام عرب سے شرک، بت پرستی، اخلاقی فواحش، شراب خوری، زنا، خانہ جنگی، قمار بازی، قتل دختراں، خیانت، بے رحمی اورقطع رحمی وغیرہ قسم کی برائیوں کوکامل طور پر نیست ونابود کرکے ان کی جگہ توحید ِکامل، احصان، عفت و عصمت، حقیقی اُخوت و محبت و مودّت کو رواج دیا۔ اور اس طرح ایک یا دو مردوںکو نہیں، بلکہ تمام کی تمام مردہ قوم کو زندہ کردیا۔ اور چند اندھوں اور کوڑھیوں کو تندرست نہیں بلکہ اندھوں اور کوڑھیوں کے ایک عالم کو تندرست کر دکھایا اور حجۃ الوداع میں ایک لاکھ چالیس ہزار فدائیوں کو ایک جھنڈے کے نیچے جمع کرکے دنیا کو صاف بتلا دیا کہ ''ہاں بالضرور، اچھا درخت بُرا پھل نہیں لاسکتا۔''

اس وقت مختصراً ہمارا منشا فقط یہی ثابت کرنا تھا کہ صرف مسیح کے معجزات نہ توعقلاً اور نہ ہی واقعات کی بنا پر ان کے لئے باعث ِشرف و مزیت ہیں۔اصل شرف کی بنیاد دوسری چیزیں ہیں۔ لیکن چونکہ اسلام نے ہمیں اس بحث میں پڑنے کی اجازت نہیں دی جیسا کہ نبی کریم کا فرمان بھی پیچھے گزر چکا ہے، لہٰذا مسلمانوں میں اس انداز پر سوچنے کے لئے ذہن تیار ہی نہیں ہوتے۔ اوپر کے پیراگراف میں بھی الزامی جوا ب کے طور پر جو کچھ ہم کہہ چکے ہیں، خدشہ ہے کہ راسخ العقیدہ مسلمان اس کو بھی پسند نہ کریں۔ سو انبیا کی باہمی فضیلت والی اس بحث سے مسلمان تو دور ہی بھلے، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہونا چاہئے کہ کوئی اس طرح کے غلط صغرے کبرے قائم کرکے نبی آخر الزمان ﷺ کی شان میں گستاخی اور اسلام کو مطعون کرنے کا بہانہ بنا لے۔ ہم نے یہ مضمون اسی مقصد کی وضاحت کے لئے تحریر کیا ہے۔

قرآنِ کریم میں نبی ﷺ کے معجزے

اسی جگہ استردادا پادری کی ایک اور غلط بیانی کی تصحیح ضروری معلوم ہوتی ہے ؛انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ قرآنِ کریم میں آنحضرتﷺ کا معجزہ مذکور نہیں۔ مشتے نمونہ از خروارے ہم چار معجزوں کا ذکر کرتے ہیں، جو قرآن حکیم میں مذکور ہیں :

1. شق القمر کا معجزہ: ﴿اقتَرَ‌بَتِ السّاعَةُ وَانشَقَّ القَمَرُ‌ ١﴾... سورة القمر

''قیامت کی گھڑی قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔''

2. کنکریاں پھینکنے کا معجزہ: ﴿وَما رَ‌مَيتَ إِذ رَ‌مَيتَ وَلـٰكِنَّ اللَّهَ رَ‌مىٰ...١٧﴾... سورة الانفال

''اور جب آپ نے پتھر پھینکے تھے تو آپ نے نہیں پھینکے بلکہ خدا نے پھینکے تھے۔''

3. بدر میں نزولِ فرشتگان کا معجزہ: ﴿أَنّى مُمِدُّكُم بِأَلفٍ مِنَ المَلـٰئِكَةِ مُر‌دِفينَ ٩﴾... سورة الانفال

''میں آپ کو ہزار پیہم آنے والے فرشتوں سے مدد دوں گا۔''

4. واقعہ معراج: ﴿سُبحـٰنَ الَّذى أَسر‌ىٰ بِعَبدِهِ لَيلًا...١﴾... سورة الاسراء

''پاک ہے وہ اللہ جو اپنے بندہ کو ایک ہی رات میں لے گیا''

اور سب سے آخر لیکن سب سے ظاہر و باہر اور مسکت معجزہ خود قرآن حکیم کا زندہ معجزہ موجود ہے جس کا چیلنج چودہ سو سال سے لاجواب ہے۔ اور اب بھی اپنے مخالفین کو :

﴿وَإِن كُنتُم فى رَ‌يبٍ مِمّا نَزَّلنا عَلىٰ عَبدِنا فَأتوا بِسورَ‌ةٍ مِن مِثلِهِ وَادعوا شُهَداءَكُم مِن دونِ اللَّهِ إِن كُنتُم صـٰدِقينَ ﴿٢٣﴾... سورة البقرة '' اگر تم کو اس چیز کے منزل من اللہ ہونے میں کوئی شبہ ہے جو ہم نے اپنے بندہ پراتاری ہے تو اس جیسی ایک سورت ہی بنا لاؤ اور اللہ کے سوا اپنے تمام مددگاروں کو اکٹھا کرلو،اگر تم سچے ہو۔''

سنا کر چیلنج دے رہا ہے۔پادری صاحب کو اگر طاقت ہے، تو میدان میں آئیں اور بمصداق ع پدر اگر نتواند پسر تمام کند

ڈاکٹر منگانا اور مارگولیتھ وغیرہ جس امر میں ناکام رہے ہیں، ان کی ناکامی کی شرمساری اُتاریں۔ اور قرآنِ حکیم کے اس چیلنج کو قبول کرکے ایک آیت اور فقط ایک آیت بنا کر دنیا کے سامنے پیش کریں۔ نہیں تو انجیل کا ہی قرآن سے مقابلہ کرلیں۔اور فی الحقیقت :

آفتاب آمد دلیل آفتاب     گر د لیلت بائید از ورودِمہتاب

آنحضرت سرورِ عالم ﷺکا وجودِ قدسی خود اس قدر زبردست معجزہ تھا کہ اس کے ہوتے ہوئے کسی اور معجزہ کی ضرورت ہی نہیں رہتی : روئے وآوازِ پیغمبر معجزا ست!

ان کی زندگی کی ہر صنف، ان کی حیات کا ہر شعبہ اپنی اپنی حدود میں اس قدر کامل اور مکمل ہے کہ انسان کو بے اختیار یہ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر