مسئلہ قربانی کی شرعی حیثیت

پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے جس کی بنیاد صرف اسلامی شریعت کی عملداری کے لیے رکھی گئی تھی۔ اگرچہ بوجوہ ابھی تک ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔ تاہم اس سلسلہ میں حوصلہ افزا پیش رفت ہوئی ہے او رابھی تک یہ سفر جاری ہے۔ واضح رہے کہ جہاں حکومت اور سیاستدانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اس سلسلہ میں خصوصی دلچسپی لیں۔ وہاں اہل علم کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو قابل عمل ثابت کریں اور لوگوں کو بتائیں کہ اس نظام کی عملداری میں ہی ہماری دنیوی اور اخروی کامرانیوں کا راز مضمر ہے۔ لیکن بدقسمتی سے دو قسم کے گروہ اس معاملہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ایک گروہ مغرب زدہ لوگوں کا ہے جو ہر چیز کو مغرب کی آنکھ سے دیکھتا ہے۔ مغربی طرز حکومت کو ہی حرف آخر سمجھتا ہے اور اسلام کو ایک فرسودہ اور ناقابل عمل نظام قرار دیتا ہے۔

دوسرا گروہ اسلامی حلقوں میں متجددین کا ہے اس کا کام اسلام کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنا ہے او رمسلمانوں کے متفق علیہ مسائل میں اپنی حسبمنشاء جدتیں پیدا کرکے ذہنی انارکی پیدا کرنا اور انتشار پھیلانا ہے، تاکہ امت مسلمہ کا کسی چیز میں اتفاق نہ رہ سکے۔ اس گروہ کا خصوصی ہدف احادیث نبویہؐ (علیٰ صاحبہا الصلوٰة والسلام) ہیں، حالانکہ محدثین عظام نے احادیث نبویہؐ پر پوری تحقیق کی ہے او ران کی جانچ پڑتال کے سلسلہ میں اپنی پوری زندگیاں وقف کرکے رطب و یابس سے ان کو پاک کردیا ہے۔چنانچہ موجودہ دور میں ان کی تحقیق سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ ان کی تحقیق کو ردّ کرکے اپنی مرضی سے احادیث کو ضعیف یا موضوع قرار دینے سے انسان کی اپنی لا علمی کا پتہ چلتا ہے۔ محدثین نے احادیث کی درجہ بندی (متواتر، صحیح، حسن، مرفوع، موقوف ، مرسل، منقطع، مشہور، عزیز، غریب، احاد، ضعیف، موضوع وغیرہ) کرکے امت کو ایسے واضح اصول دے دیئے ہیں جو حدیث کے سلسلہ میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی باقی نہیں رہنے دیتے، بلکہ بعد کے محدثین نے قرون سابقہ کے محدثین کی کتب احادیث کی بھی درجہ بندی کی ہے۔ اصول حدیث کے ہوتے ہوئے اگر کوئی شخص احادیث کے معاملہ میں محدثین سے الگ اپنی رائے رکھتا ہے تو اس کے روّیہ کو دین میں تلعب کے سوا کوئی نام نہیں یا جاسکتا او رایسے شخص کا ''دینی علم'' اور اخلاص سو فیصد محل نظر ہوگا۔

یہ بات مسلمہ ہے کہ حدیث رسول اللہ (ﷺ)قرآن مجید کے بعد دوسرا ماخذ شریعت ہے۔ یہ بات جذباتی نہیں بلکہ ایمان اورعلمی لحاظ سے ثابت شدہ ہے۔ لہٰذا ایسے لوگون کا، جو تجدد کا جامہ پہن کر اپنی مخصوص کمین گاہوں میں بیٹھ کر احادیث رسول اللہ(ﷺ) پر حملہ آور ہوتے رہتے ہیں، فی الفور محاسبہ ہونا چاہیے۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی پروفیسر رفیع اللہ شہاب ہیں جو امت کے متفق علیہ او رمسلم الثبوت مسائل میں جدّتیں پیدا کرکے ان پر تبصرہ کرتے رہتے ہیں۔ جن کا مقصد محض لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانا ہے، حالانکہ یہ طرز عمل صحافت کی لائن میں تو اپنایا جاسکتا ہے، جس سے مطلوب واقعات کے بیان میں سنسنی خیزی کے ذریعے، اخبار کی اشاعت کو بڑھانا ہوتا ہے۔ لیکن اہل علم کے نزدیک نہ اس کی اجازت ہے اور نہ ہی اس کی کوئی وقعت، بلکہ ان کے نزدیک یہ ناپسندیدہ اور باغیانہ فعل ہے۔ اس ضمن میں پروفیسر صاحب مذکور کا جدید ''شاہکار'' مسئلہ قربانی پر ان کے اشارات ہیں۔ ہمارے اس مضمون کا مقصد پروفیسر صاحب کے مزعومہ خیالات کی تنقیح ہے، جس کےلیے مناسب ہے کہ پہلے موصوف کے مذکورہ مضمون کے مندرجات کا خلاصہ پیش کردیا جائے۔ ان کا یہ مضمون مورخہ 16 ستمبر 1982ء بمطابق 17 ذیقعدہ 1402ھ کے ''پاکستان ٹائمز'' میں بعنوان ''صحابہ کرام ؓاور عیدالاضحٰی'' شائع ہوا تھا۔ اس میں لکھتے ہیں:

1۔ صحابہ کرام کی پیروی :
حضرت علیؓ کی وفات کے بعد جب خلافت کی جگہ ملوکیت نے لے لی تو اس ادارہ نے اپنے خفیہ مقاصد کے تحت احادیث نبوی وضع کیں۔ محدثین نے ان احادیث نبویہ کو جانچنےکا ایک معیار صحابہ کرامؓ کا عمہ ٹھہرایا ہے۔ آنحضرتؐ نے کئی مرتبہ فرمایا تھا:
''میرے صحابہؓ ستاروں کی مانند ہیں، ان کی پیروی درست راستہ کی طرف ہوگی''

(موصوف نے حدیث کا ترجمہ اسی طرح کیا ہے) انہوں نے آنحضرتؐ کو خود دیکھا اور ہر وہ کام کرنے کی کوشش کی جو آنحضرتؐ نے کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ جیسے صحابی تو آنحضرتؐ کی سنت کے اتنے گرویدہ تھے کہ آنحضرتؐ جن راستوں پر چلے تھے وہ ان پر چلے او رجن جگہوں پر آنحضرتؐ نے نمازیں پڑھی تھیں، انہوں نے انہی جگہوں پر نماز پڑھی۔ سنت نبویؐ کی اتباع کی وجہ ہی سے صحابہ کرامؓ کا عمل بھی اسلام میں قابلعمل حکم کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن بعد کے ادوار میں اس طرف کم توجہ کی گئی اور لوگون کو اس سے بے خبر رکھا گیا اور ان کو بتایا ہی نہیں گیا۔ مثال کے طور پر بقول امام مالک، اعتکاف جیسی عبادت صحابہ کرامؓ میں سے کسی نے بھی نہیں کی، بلکہ صیام وصال کی مانند یہ آنحضرتؐ کا خاصہ تھی۔ اس بات سے آج تک لوگ بےخبر ہیں۔''

2۔ نفلی عبادات:
''عبدالاضحیٰ کے موقع پر جانور کی قربانی کو صحابہ کرامؓ کی اکثریت نفل قرار دیتی تھی، جس کا کرنا او رنہ کرنا برابر ہے۔ یہاں تک کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ او رحضرت عمر فاروقؓ جیسے صحابی نہیں کرتے تھے۔ حضرت ابومسعود انصاریؓ ہزاروں بکریوں کے مالک تھے۔ لیکن انہوں نے کبھی قربانی نہ کی۔ عید کے دن حضرت ابن عباسؓ نے اپنے غلام عکرمہ کو بلا کر دو درہم دیے او رکہا، اس کا گوشت لاؤ کہ یہ ابن عباسؓ کی قربانی ہے۔ ان تمام باتوں سے معلوم ہوتا ہے، صحابہ کرامؓ قربانی کو ضروری نہیں سمجھتے تھے۔''

3۔ پرندے کی قربانی اور ضرورت مند کی حاجت براری:
''حضرت بلا حبشیؓ نے اس مبارک دن کو ایک مرغ کی قربانی کی۔ حضرت بلالؓ کے اس عمل کی وجہ سے امام ابن حزم پرندوں کی قربانی کو بھی جائز قرار دیتے ہیں۔ صحابہ کرام کے بعد تابعین میں سے مشہور تابعی سعیدبن مسیب او رامام شعبی قربانی کرنے کی بجائے ضرورت مند مسلمانون میں رقم تقسیم کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ حضرت بلالؓ سے اسی طرح مروی ہے ، قربانی کے متعلق احادیث ضعیف ہیں، زیادہ صحیح وہ حدیث ہے جس میں آنحضرتؐ نے اپنی اور اپنی تمام امت کی طرف سے ایک ایک مینڈھا قربان کیا۔ اس بناء پرالجیریا کے صدر احمد بن بلا نے ایک محلے کے لیے ایک قربانی کو کافی قرار دینے کا حکم جاری تھا او ریہ اسلام کے حکم کی شرط کو پورا کرتا ہے۔ گویا ان کے نزدیک ایک محلہ کی طرف سے ایک قربانی کردی جائے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور اگر قربانی کے عوض کسی ضرورت مند کو پیشے دے دیئے جائیں تو یہ بھی درست ہے'' ؎


شاید اسی کا نام ہے توہین جستجو
منزل کی ہو تلاش جسے، ترے نقش پا ک کےبعد

اب ہم مندرجہ بالا مضمون پر تبصرہ کرتے ہیں:
1۔صحابہ کرامؓ کا طرزعمل:
صحابہ کرامؓ آنحضرتؐ کے اس ارشاد عالیہ کو ہمیشہ سامنے رکھتے تھے:
''ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللہ و سنة و رسوله'' 1
''میں تم میں دو چیزیں چھوڑ چلا ہوں، جب تک ان پر مضبوطی سے عمل کرو گے گمراہ نہیں ہوگی۔ ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے اسکے رسولؐ کی سنت''

مشہور واقعہ ہے ، ایک دفعہ آنحضرتؐ کے سامنے حضرت عمر فاروقؓ تورات کا ایک ورق لے کر آئے، تو آنحضورؐ غصہ میں آگئے اور فرمایا:
''والذي نفس محمد بیدہ لو بدالکم موسیٰ فاتبعتموہ و ترکتموني لضللتم عن سواء السبیل۔ ولو کان حیاو أدرك نبوتي لا تبعني''2
کہ '' اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد(ﷺ)کی جان ہے اگر تمہارے پاس موسیٰ علیہ السلام آجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی اتباع کرو تو سیدھے راستے سے بھٹک جاؤ گے ، اور اگر وہ زندہ ہوتے او رمیری نبوت کو پالیتے تو ضرورت میری اتباع کرتے۔''

چنانچہ اگر صحابہ کرامؓ میں، کسی معاملہ میں اختاتف ہوتا تو اس کو کتاب و سنت سے حل کرنے کی کوشش فرماتے۔ جس کی سینکڑوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، اس لیے کہ قرآن مجید سے انہیں تعلیم یہی ملی تھی:
﴿ـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاأَطِيعُواٱللَّهَ وَأَطِيعُواٱلرَّ‌سُولَ وَأُولِى ٱلْأَمْرِ‌ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَـٰزَعْتُمْ فِى شَىْءٍ فَرُ‌دُّوهُ إِلَى ٱللَّهِ وَٱلرَّ‌سُولِ...﴿٥٩﴾...سورۃ النساء
کہ ''اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسولؐ کی اطاعت کرو، اور اپنے میں سے اولی الامر کی، پھر اگر کسی چیز کے بارے میں تم میں اختلاف ہو جائے تو اس کو اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف لوٹا دو۔''

صحابہ کرامؓ کو اپنی رائے کے خلاف اگر حدیث رسول اللہؐ مل جاتی تو فوراً اپنی رائے سے رجوع کرلیتے۔ چنانچہ حضرت عمر فاروقؓ نے ایک دفعہ زنا کے جرم میں ایک پاگل عورت کو سنگسار کرنےکا ارادہ فرمایا، لیکن جب انہیں آنحضرتؐ کا یہ ارشاد پہنچا کہ'' تین شخص مرفوع القلم ہیں، نابالغ، پاگل اور سویا ہوا'' تو انہوں نے فوراً یہ ارادہ ترک کردیا۔3اگر کبھی کسی معاملہ میں ان کو کتاب و سنت کےمسئلہ کا علم نہ ہوتا تو صاف بتا دیتے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس دادی وراثت میں اپنے حصہ کا مطالبہ لے کر آئی تو آپؓ نے فرمایا، ''مجھے کتاب و سنت میں آپ کے حصہ کا علم نہیں، میں پوچھ کربتاؤں گا۔'' اس پر حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے بتایا کہ آنحضرتؐ نے وراثت میں دادی کو چھٹا حصہ دیا تھا او رحضرت محمد بن مسلمہ نے حضرت مغیرہؓ کی تصدیق کی تو حضرت ابوبکرؓ نے آنحضرتؐ کے اس حکم کو نافذ کردیا۔4 (جاری ہے)


حوالہ جات
1. مؤطا امام مالک بحوالہ مشکوٰة المصابیح ص31 باب الاعتصام بالکتاب والسنة۔
2. مشکوٰة المصابیح، ص32
3. الاحکام، جلد2 ص13، ابن حزم
4. مؤطا امام مالک، ص663 کتاب الفرائض