قرآن مجید ..........اور پرویزی دستور!
محدث اگست 1983ء کے شمارہ میں ہمارا ایک مضمون بعنوان ''یوم آزادی کا اعلان.... ہمارا دستور قرآن ہے!'' فکر و نظر کے صفحات میں شائع ہوا تھا۔جس کا ماحصل یہ تھا کہ موجودہ دور کی اسلامی تحریکوں اور مسلمان لیڈروں کا بنیادی نعرہ یہی ہوتا ہے کہ ''قرآن ہمارا دستور ہے!'' لیکن یہ بات صرف نعرہ کی حد تک ہے، جبکہ ان کے سیاست و ریاست کے نظریات میں قرآن مجید کواسلامی مملکت کا دستور تسلیم نہیں کیا جاتا۔ لہٰذا قرآن مجید کو پاکستان میں فی الفور اس کی دستوری حیثیت ملنی چاہیے۔
قرآن مجید کی دستوری حیثیت پر زور دیتے ہوئے ہم نے سنت رسول اللہ ﷺ کو قرآن مجید کی واحد متعین تعبیربھی قرار دیا تھا۔ اسی مضمون کے مندرجہ ذیل اقتباسات ملاحظہ ہوں:
(1) خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین او ربعد کے ادوار میں اسلامی حکومتوں کا دستور قانون قرآن مجید ہی تھا اور وہ اس کی آخری تعبیر سنت رسول اللہ ﷺ کی پابندی کرتے ہوئے جملہ حدود و تعزیرات اور دیگر قانونی اقدامات اسی سے کرتے رہے۔ کسی دیگر قانون سازی کی ضرورت کبھی کسی نے محسوس نہیں کی!'' 1
(2) ''فقہاء کے اجتہادات مختلف ہونے کی بناء پر فقہ کا متعدد ہونا سب کے نزدیک مسلم ہے لیکن شریعت، جسے اسلامی مملکت کا دستور کہا جاسکتا ہے، صرف ایک ہے اور وہ کتاب و سنت ہے!'' 2
(3) ''فقہی مسائل میں اختلاف کے باوجود کتاب و سنت کی دستوری حیثیت متاثر نہ ہونے کے سلسلہ میں بطور مثال حضرت عمرؓ کے دور کے اس واقعہ کا تذکرہ مناسب ہوگا جب انہوں نے حق مہر کو محدود کرنے کا ارادہ فرمایا....... الخ!'' 3
ان اقتباسات سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ہم نے جہاں قرآن مجید کی دستوری حیثیت پر زور دیا تھا، وہاں سنت رسول اللہ ﷺ کو قرآن مجید کی واحد متعین تعبیربھی قرار دیا تھا۔ چنانچہ سطور بالا میں ''کتاب و سنت کی دستوری حیثیت'' کے الفاظ واضح طور پر موجود ہیںاور اس بات کی وضاحت ہم نے مابعد کے شمارہ ستمبر 1983ء کے صفحہ 6، 7 پربھی بالتفصیل کی تھی۔
لیکن ہمارے اس مضمون پر ''طلوع اسلام'' کا تبصرہ قابل دید ہے۔ چنانچہ ستمبر 1983ء کے شمارہ، صفحہ 57 پر ، حقائق و عبر'' کے عنوان کے تحت لکھا ہے:
صرف قرآن :
ماہنامہ محدث(لاہور) فرقہ اہل حدیث کاترجمان ہے۔ اس نے اپنی اشاعت بابت اگست 1983ء کے اداریہ کا عنوان دیا ہے۔ یوم آزادی کا اعلان، ہمارا دستور قرآن ہے۔ اس کے بعد قریب 16 صفحات پر اس کی وضاحت کی ہے او رپھر آخر میں کہا ہے کہ: ''ہم صدر مملکت اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جناب جنرل ضیاء الحق سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ..... وہ یوم آزادی کے موقعہ پر یہ اعلان فرما دیں کہ آج سے ہم قرآن کو اپنادستور ماننے کا اعلان کرتے ہیں، ا و رہمارا جتنی بھی انفرادی، اجتماعی، حکومتی کوششیں ہوں گی وہ اس شجر اسلام کے فروغ کے لیے ہوں گی۔
یہی بات طلوع اسلام کہتا ہے تو اس پر یہی حضرات کفر کا فتویٰ چسپاں کردیتے ہیں۔ یہ اس لیے کہ طلوع اسلام جو کچھ کہتا ہے اس پر قائم رہتا ہے اور یہ حضرات.........؟ محدث نام ہی بتا رہا ہے کہ یہ قرآن خالص کے کس قدر پابند ہیں۔''
عام لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ مسٹر غلام احمد پرویز حدیث کے تو منکر ہیں، لیکن قرآن مجید کے قائل! اور اس غلط فہمی سے یہ لوگ کافی فائدہ بھی اٹھاتے رہتے ہیں۔ چنانچہ کسی بھی ایسی تحریر کو، جس میں قرآن مجید کی اہمیت پر زور دیا گیا ہو، کانٹ چھانٹ کرکے اپنے حق میں استعمال کرنے اور اپنے فکر کی تائید میں پیش کرنے سے وہ کبھی نہیں چوکتے، اگرچہ اس کا انداز ''وَأَنتُمْ سُكَـٰرَىٰ'' کے ذکر کے بغیر ''لَا تَقْرَبُواٱلصَّلَوٰةَ'' کا ہوتا ہے۔ ''طلوع اسلام'' کی مندرجہ بالا عبارت بھی انہی شعبدہ بازیوں کا ایک حصہ ہے ، کہ اس نے ہمارے مذکورہ بالا اقتباسات سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف آخری پیرا گراف کا کچھ حصہ نقل کرکے یہ تاثر دینےکی کوشش کی ہے کہ ''محدث'' کا یہ اداریہ پرویزی فکر کی تائید میں ہے، جسے نرم سے نرم الفاظ میں بھی صحافتی بددیانتی کی ایک بدترین مثال قرار دیا جاسکتا ہے۔
طلوع اسلام نے لکھا ہے:
''یہی بات طلوع اسلام کہتا ہے تو اس پر یہی حضرات کفر کا فتویٰ چسپاں کردیتے ہیں۔''
حالانکہ اگر پرویز صاحب ''یہی بات کہیں'' تو بخدا ہم انہیں گلے سے لگا لیں، لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم تو کتاب و سنت دونوں کو جزوایمان سمجھتے ہیں، جبکہ پرویز صاحب صرف حدیث رسولؐ ہی کاکھلم کھلا انکار نہیںکرتے، بلکہ قرآن مجید کے بھی ایسے منکر ہیں کہ آج تک کسی بڑے سے بڑے زندیق کو بھی ایسے انکار کی جرأت نہیں ہوئی۔ چنانچہ جو لوگ ان کے فکر سے واقف نہیں، ان کے لیے یہ ایک انکشاف ہوگا کہ اپنے الحادی فکر کے آرگن ''طلوع اسلام'' کی پیشانی کو ''قرآنی نظام ربوبیت کا پیامبر'' کے الفاظ سے مزّین کرنے والا یہ شخص قرآن کو دستور ماننا تو کجا، قرآن مجید میں شریعت محمدیہ او راسلامی نظام کے وجود تک کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں!
پرویزٍی کلام سے قرآن مجید کی دستوری حیثیت کے انکار کا حوالہ نقل کرنے سے قبل ہم یہ چاہتے ہیں کہ پرویزی او راہل قرآن کا وہ فرق بتا دیں جس کو ملحوظ نہ رکھتے ہوئے عام پڑھا لکھا طبقہ یہ دھوکا کھا جاتا ہے کہ شاید پرویز صاحب بھی اہل قرآن ہیں (حالانکہ پرویز صاحب اور ''طلوع اسلام'' اکثر و بیشتر اہل قرآن او ران کے فرقوں کا ردّ کرتے رہتے ہیں) چنانچہ اہل قرآن او ران کی فرقے بازی کا اہم سبب تو سنت رسولؐ میں اوہام و شبہات ہیں۔ لیکن پرویز صاحب اپنے اشتراکی الحاد ک لیے سنت کو بہت بڑا مانع سمجھ کر نہ صرف اس کے کلاف دشنام طرازی کرتے ہیں بلکہ سیرت و تاریخ کو عجمی سازش قرار دیتے اورائمہ دین کے خلاف بغاوت کا اعلان بھی کرتے ہیں۔
اہل قرآن اگرچہ قرآن مجید کے پیامبر اور اس کا ابدی نقشہ پیش کرنے والے (یعنی رسول اللہ ﷺ) کے بغیر اپنے ناقص قرآنی فہم کو اتھارٹی قرار دیتے ہیں، تاہم وہ شریعت و قانون کے قرآن مجید میں وجود کا انکار نہیں کرتے۔ جبکہ پرویز صاحب نہ صرف قرآن مجید کو دستور اسلام نہیں مانتے بلکہ حکومت کی طرف سے دستور و قانون وضع کرتے وقت قرآن مجید کی ضرورت و احتیاج کے بھی قائل نہیں، یعنی وہ قرآن کے نام پر قائم ہونے والی ہر حکومت کے سربراہ کو ''مرکز ملت'' جو ان کے نزدیک خدا اور رسول کے قائم مقام ہوتے ہیں....... کہہ کر آخری اسلامی اتھارٹی قرار دیتے ہیں او رفریب دہی کے لیے اس کا نام قرآنی نظام رکھتے اور اس کے وضع کردہ دستور و قانون کو ''شریعت'' کہتے ہیں۔ حالانکہ ''مرکز ملت'' کا لفظ پورے قرآن مجید میں سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔
چنانچہ ''معراج انسانیت'' کے صفحہ 625، 626 پر مسٹر پرویز ﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاأَطِيعُواٱللَّهَ وَأَطِيعُواٱلرَّسُولَ وَأُولِى ٱلْأَمْرِ مِنكُمْ''........﴾ الایة کے تحت لکھتے ہیں:
''اس آیت مقدسہ کا مفہوم بالکل واضح ہے۔ اس میں اللہ اور رسول سے مراد ہی مرکز ملت ہے او راولی الامر سے مفہوم افسران ماتحت ۔ اس سے مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مقامی افسر سے کسی معاملہ میں اختلاف ہوجائے تو بجائے اس کے کہ وہیں مناقشات شروع کردو، امر متنازع فیہ کو مرکزی حکومت کے سامنے پیش کردو، اسے مرکزی حکومت کی طرف (Refer)کردو۔مرکز کا فیصلہ سب کے لیے واجب التسلیم ہوگا۔ یعنی اس نظام میں مقامی افسروں کے فیصلوں کے خلاف عدالت عالیہ میں مرافعہ (اپیل) کی گنجائش باقی رکھی گئی ہے!'' 4
جبکہ قرآن مجید ، ''مرکز ملت'' کے نام پر کتاب و سنت کے باغی حکام کو دستور و شریعت سے کھیلنے کی بجائے، ملت رسولؐ کی اتباع کا حکم دیتا ہے، جو سنت رسولؐ سے تشکیل پاتی ہے۔ لیکن جس کا مقام پرویز صاحب کی نظروں میں مندرجہ ذیل ہے:
''قرآن ایک ضابطہ حیات تھا، جسے پڑھا اس لیے جاتا تھا کہ اسے سمجھا جائے اور سمجھنا اس لیے ضروری تھا کہ اس کے مطابق زندگی بسر کی جائے۔مذہب نے یہ سکھایا کہ اس کا سمجھنا ضروری نہیں۔ اس کے بلا سمجھے پڑھنے سے ایک ایک حرف کے بدلے دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے۔ یعنی الم (کے تین حروف ہیں اس کےپڑھنے سے): تیس نیکیوں کا ثواب مل جاتا ہے۔''
یہاں جس مذہب کومسٹر پرویز طنز و تعریض کا نشانہ بنا رہے ہیں، کیا وہ سنت رسولؐ ہی نہیں؟ پھر یہ بھی ایک فریب ہے کہ ''مذہب نے یہ سکھایا کہ اس کا سمجھنا ضروری نہیں'' اور ''اس کے بلا سمجھے پڑھنے سے ایک ایک حرف کےبدلے دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے'' بلکہ معلم کتاب و حکمت (ﷺ) نے جہاں قرآن مجید کے ایک ایک حرف کے بدلے دس نیکیوں کی خوشخبری سنائی ہے وہاں سنت رسولؐ کی شکل میں ہر آیت و سورہ کے معنی و مطالب بھی متعین ہوگئے ہیں او ریہ سرمایہ آج بھی امت مسلمہ کے پاس محفوظ ہے، لیکن جس کی اہمیت کو مسٹر پرویز نے اتنے گھناؤنے انداز سے ذکر کیا ہے، او رجس سے بغاوت ہی نے مسٹر پرویز کے بیان کردہ قرآن مفہوم و مطالب کو ایک ایسا چیستاں بناکے رکھ دیا ہے جس کی تصویر ہم آئندہ صفحات میں پیش کرنے والے ہیں۔''
اس کے بعد وہ لکھتے ہیں:
''یوں تو اسے سارا سال اسی طرح پڑھا جاتا ہے لیکن رمضان شریف میں یہ (تلاوت) اپنے نقطہ عروج پرپہنچ جاتی ہے۔ اس کے ثواب کی اس قدر داستانیں دہرائی جاتی ہیں کہ لوگ ساری ساری رات اسے کھڑے ہوکر سنتے ہیں او ربار بار سنتے ہیں۔اس کی اسی اہمیت کا نتیجہ ہے کہ ملک میں ناظرہ قرآن پڑھانے والے مکتب، حفظ کرانے والے مدرسے، قراءتیں سکھانے والے دارالعلوم ہر سال کثرت سےکھلتے ہیں۔ پہلے یہ کچھ خال خال ہوتا تھا اب اس تکرار و اصرار سے ہوتا ہے کہ قوم جذبات کے سمندر میں غرق رہتی ہے او راس طرح ؎
مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اسے
پختہ تر کردو مزاج خانقاہی میں اسے
کے پروگرام پر پورا پورا عمل ہوتا ہے!''
اس اقتباس سے یہ امر بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ مسٹر پرویز، سنت کے علاوہ قرآن مجید کے الفاظ کی قانونی حیثیت کے بھی قائل نہیں۔ اسی وجہ سے تلاوت قرآن کا مذاق اڑاتے ہیں او رقراء ت و تجوید کے مدرسوں کو لایعنی قرار دیتے ہیں۔ ورنہ کسی مملکت کا دستور ایک مقدس دستاویز ہوتی ہے، اگرچہ وہ انسانوں کا بنایا ہوا ہو۔ لیکن مسلمانوں کا دستور قرآن مجید، اللہ رب العزت کا وہ پاک کلام ہے جس کے تقدس کو بیان کرنا کسی انسان کی طاقت سے بالا ہے۔ پس ضروری ہے کہ جو انسان اسے اپنا دستور حیات قرار دیتا ہے وہ اس کے تقدس کو بہرحال عزیز رکھے۔ جبکہ مذکورہ بالا عبارت میں یہ تقدس عزیز رکھنا تو درکنار، اس کا جس باغیانہ انداز میں مذاق اڑایا گیا ہے اس پر ہم کسی تبصرہ کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ ہاں اہل دل کو یہ توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ کیا یہ الفاظ اس شخص کے ہوسکتے ہیں جو قرآن مجید کو اپنا دستور مانتا او ردن رات اس کے پرچار کا پروپیگنڈا کرتا ہو؟ افسوس کہ اس ''مفسر'' قرآن کو ﴿وَرَتِّلِ ٱلْقُرْءَانَ تَرْتِيلًا ﴿٤﴾...سورۃ المزمل'' کے الفاظ قرآن مجید میں نظر نہیں آئے، حتیٰ کہ اس نے قراءتیں سکھانے والے دارالعلوموں کو ''قوم کے جذبات میں غرق رہنے'' کا ذریعہ قرار دے دیا ہے۔ ﴿قَدْ بَدَتِ ٱلْبَغْضَآءُ مِنْ أَفْوَٰهِهِمْ وَمَا تُخْفِى صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ ۚ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ ٱلْءَايَـٰتِ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ ﴿١١٨﴾...سورة آل عمران!''
''طلوع اسلام'' نے ہمارا یہ فقرہ نقل کرکے کہ ''آج سے ہم قرآن کو اپنا دستور ماننے کا اعلان کرتے ہیں'' لکھا ہے کہ ''یہ بات طلوع اسلام کہتا ہے!'' ذیل میں ہم اس صریح کذب کی پردہ دری کرتے ہیں۔
مندرجہ بالا سطور میں آپ یہ تو ماحظہ فرما چکے کہ مسٹر پرویز قرآن مجید کے الفاظ کی قانونی حیثیت کے قائل نہیں، ورنہ انہیں اس تمسخر و استہزاء کی جرأت نہ ہوتی۔ اب دیکھیے کہ معناً بھی ان کی نظروں میں قرآن مجید خود دستور نہیں ہے۔ واضح رہے کہ ''محدث'' کےمذکورہ مضمون میں ہم نے قرآن مجید کی دستوری حیثیت کا ذکر کرتے ہوئے اس کی موجودگی میں دستور سازی کی جملہ دیگر کوششوں کا ردّ بھی کیاتھا اور قرآنی حکم ''ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاوٰلئک ھم الکافرون'' کی روشنی میں خود قرآن مجید کو دستور مملکت بھی قرار دیا تھا جبکہ ''طلوع اسلام'' قرآن مجید کی موجودگی میں دستور سازی پر خصوصی سور ہی نہیں دیتا بلکہ اس سلسلہ کی چند فضول کوششوں کا ذکربھی وہ فخریہ انداز میں کرتا ہے۔ ملاحظہ ہو:
(1) ''آئین سازی کا کام تو مجلس دستور سازکا تھا او رہے..... نومبر 1952ء میں ''قرآنی دستور پاکستان'' کے نام سے پہلا کتابچہ شائع کیا(گیا)، جو اس وقت تک آئین سازی کے سلسلہ میں اصولی راہنمائی کا کام دیتا ہے۔'' 5
(2) ''ہم نے دو مبسوط پمفلٹ شائع کیے۔ جن میں سے ایک کا عنوان تھا ''اسلامی آئین کے بنیادی اصول'' اور دوسرے کا ''اسلامی مملکت میں قانون شریعت کس طرح مرتب ہوگا؟''6
اس سلسلہ میں مزید بھی کئی حوالے نقل کیے جاسکتے ہیں۔ تاہم اختصار کے پیش نظر ہم انہی پر اکتفاء کرتے ہیں جن سے یہ امر ظاہر و باہر ہے کہ ''طلوع اسلام'' کی نظر میں قرآن مجید کی موجودگی کے باوجود دستور سازی کی صرف گنجائش ہی نہیں بلکہ وہ حکومت کے وضع کردہ اس دستور و قانون کو ہی قانون شریعت اور آئین اسلام قرار دیتا ہے جس کا ذکر عنقریب آرہا ہے جبکہ ہمارا مؤقف اس کے برعکس تھا۔ کیا اب بھی طلوع اسلام کو یہ اصرار ہے کہ:
''یہی بات طلوع اسلام کہتا ہے..............''
آخر ''طلوع اسلام'' صداقت و دیانت کے پیچھے لٹھ لیے کیوں پھرتا ہے، مذہب کا تو خیر وہ قائل نہیں لیکن اس کے دین نے اسے یہی سکھایاہے؟
اب ہم پرویزی کلام سے قرآن مجید کی دستوری حیثیت سے متعلق وہ حوالے نقل کرنا چاہتے ہیں جو ہمارے اس دعوےٰ پرمہر تصدیق ثبت کرتے ہیں کہ پرویز صاحب نہ تو قرآن کریم میں شریعت محمدیہ کا وجود تسلیم کرتے ہیں او رنہ ہی اسے تکمیل شریعت کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ ''طلوع اسلام '' ستمبر 1983ء کی اشاعت کے صفحہ 18 پر ''قرآنی آئین مملکت کے بنیادی اصول'' کے تحت یوں مرقوم ہے:
(1) ''قرآن کریم اسلامی مملکت کے دستور کی جزئیات بھی خود متعین نہیں کرتا۔ وہ صرف اصول دیتا ہے او راسے امت کی مشاورت پر چھوڑتا ہے کہ وہ ان حدود کے اندر رہتے ہوئے، اپنے زمانے کے حالات کےمطابق جزئیات خود متعین کرے۔ قرآن کے اصول ہمیشہ کے لیے غیر متبدّل رہیں گے لیکن ان کی جزئیات قابل تغیر و تبدل ہوں گی۔ اس لیے کسی دور کے لیے کسی سابقہ دور کی جزئیات کی پابندی لازمی نہیں ہوگی۔''
اس اقتباس میں ہمارے اس مذکورہ بالا دعویٰ کہ :
''طلوع اسلام حکومت کے وضع کردہ دستور و قانون کو قانون شریعت اور آئین اسلام قرار دیتا ہے۔''7
کا ثبوت موجود ہونے کے علاوہ ایک نکتہ یہ بھی قابل غور ہے کہ ''طلوع اسلام'' کی نظر میں جب قرآن کریم اسلامی دستور کی جزئیات خود متعین نہیں کرتا بلکہ اسے امت کی مشاورت پر چھوڑ دیتا ہے نیز یہ جزئیات قابل تغیر و تبدّل ہوں گی اور کسی دور کے لیے کسی سابقہ دور (بشمول دور رسالت) کی پابندی بھی لازمی نہیں ہوگی تو امت کا کام طلوع اسلام کی نظر میں یہی رہ جائے گا کہ وہ شب و روز جزئیات کی تعیین میں لگی رہے۔ حکومتیں تو آئے دن بدلتی رہتی ہیں، آخر یہ سلسلہ کبھی ختم بھی ہوگا یا نہیں؟ مسٹر پرویز نے علماء اسلام کو ایک یہ طعنہ بھی دیا ہے کہ:
''روس، چین، جاپان، یورپ او رامریکہ کے ممالک ، حتیٰ کہ ہندوستان، جب انہوں نے مذہب کی قبا اتار پھینکی یا اسے پرستش گاہوں کی چار دیواری میں محصور کردیا تو چاند تک پہنچ گئیں او رہمارے مقدسین بند کمرے میں بیٹھ کر ، رؤیت ہلال کے فیصلے کرتے رہتے ہیں۔'' 8
محترم، مقدّسین اگربند کمرے میں بیٹھ کر رؤیت ہلال کے فیصلے کرتے رہتے ہیں، تو آپ کی امت اسی بند کمرے میں بیٹھ کر جزئیات متعین کرتی رہے گی۔ پھر چاند پر کون پہنچے گا؟ ویسے بھی ''طلوع اسلام'' کی معلومات ناقص ہیں۔ چاند پر ابھی تک صرف امریکہ او ررُوس پہنچے ہیں اورہاں ''ممالک'' مذکر ہے مؤنث نہیں۔
الغرض یہی بات تو ہم ان لوگوں کو سمجھا رہے تھے، جو قرآن مجید کی موجودگی میں دستور سازی کی ضرورت پر زور دیتے ہیں، کہ قرآن مجید کو اس کی واحد متعین تعبیر، سنت رسولؐ اللہ کی موجودگی میں دستور قرار دینے سے اس درد سری سے نجات مل جائے گی، لیکن ''طلوع اسلام'' نے خواہ مخواہ پھٹے میں ٹانگ اڑا دی۔ اگر صورت حال یہی ہے کہ تو اس نت نئے طلوع ہونے والے اسلام کو ''یہی بات '' (کہ قرآن ہمارا دستور ہے) ''کہنے'' کی ضرورت بھی کیا تھی؟ کیا اس کا واضح مطلب یہی نہیں کہ جو بات ہم دوسروں کو سمجھا رہے تھے، ''طلوع اسلام'' نے خود اس کا مطالبہ کیا ہے کہ اسے بھی یہی بات سمجھائی جائے؟ لہٰذا ''طلوع اسلام'' اگر خود اس ہدف کا نشانہ بننے کے لیے بیتاب ہے تو ہمارے نعرہ ''قرآن ہمارا دستور ہے'' کو اس نے اپنے پرویزی فکر کی تائید میں کیونکر شمار کرلیا ہے؟
خیر یہ تو ایک ضمنی گوشہ تھا۔ ''قرآنی آئین مملکت کے بنیادی اصول'' کے سلسلہ میں مذکورہ بالا معلومات مہیا کرنے کے علاوہ ''طلوع اسلام'' نے دوسرا اصول یہ بیان فرمایا ہے کہ:
(2) ''دین میں، مملکت ، قرآن کریم کی چاردیواری کے اندر رہتے ہوئے، امت کے مشورہ سے، جزئی قوانین خود مرتب کرتی ہے (انہی کو قوانین شریعت کہا جاتا ہے)9اسی لیے اسے ، شریعت کا حکم معلوم کرنے کی نہ ضرورت پیش آتی ہے نہ کسی کی احتیاج ہوتی ہے۔ یہ وجہ ہے جو دین کی حکومت میں مذہبی پیشوائیت کا وجود ہی نہیں ہوتا۔ لیکن مذہب میں، مملکت کو مذہبی پیشوائیت سے پوچھنا پڑتا ہے کہ معاملہ زیر نظر میں شریعت کا فیصلہ کیا ہے؟'' 10
اس عبارت کوبغور پڑھیے، شریعت تو خود قرآن کریم ہے او ریہی قرآن مجید کو دستور ماننے کا تقاضا بھی ہے۔ لیکن پرویزی دین کو نہ شریعت کا حکم معلوم کرنے کی ضرورت ہے نہ اس کی احتیاج! اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ پرویزی دین کواس شریعت (قرآن کریم) سے کچھ سروکار ہی نہیں۔ یعنی نہ وہ قرآن مجید کو شریعت سمجھتا ہے نہ ہی اسے ماخذ شریعت قرار دیتا ہے۔
او رجہاں تک ''طلوع اسلام'' کے پہلے جملے ''دین میں، مملکت ، قرآن کریم کی چار دیواری کے اندر رہتے ہوئے، امت کےمشورہ سے، جزئی قوانین خود مرتب کرتی ہے (انہی کو قوانین شریعت کہاجاتا ہے'') کا تعلق ہے۔ تو اس پر ہم دو پہلوؤں سے گفتگو کریں گے:
اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ اسلام میں دستور سازی کے قائلین حضرات، جن سے ہم مخاطب تھے، سبھی اس بات کے قائل ہیں کہ یہ دستور ساسی قرآن کریم کی چاردیواری کے اندر رہ کر ہوگی۔ انہی کی ہم نے تردید کی تھی کہ اسلام میں دستور سازی کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ کیونکہ دستوری حیثیت لفظاً کتاب اللہ کو حاصل ہے او رمعنیً سنت رسول اللہ کو! تو پھر ''طلوع اسلام'' نے ہمیں یہ نئی ''خوشخبری'' کیا سنائی ہے کہ ''یہی بات طلوع اسلام کہتا ہے'' (جو محدث نے کہی ہے) جبکہ اس کانظریہ بھی اس حد تک وہی ہے جو ہمارے مخاطبین کا تھا؟
او راس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مذکورہ اقتباس کے اس پہلے جملے کو ہم ''طلوع اسلام'' کے مندرجہ بالا ''آئین کے بنیادی اصول'' (نمبر1) پر پیش کرنا چاہتے ہیں، جس میں اس نے لکھا ہے کہ:
''قرآن کریم اسلامی مملکت کے دستور کی جزئیات بھی خود متعین نہیں کرتا، وہ صرف اصول دیتا ہے۔''
اب ان ہر دو اصولوں کو یکجا کرکے دیکھیے، نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ ایک اصول تو یہ ہےکہ ''وہ جزئی قوانین، جو مملکت مرتب کرتی ہے انہیں قوانین شریعت کہا جاتا ہے۔'' اور دوسرااصول یہ ہے کہ یہ ''جزئیات (جو شریعت کا درجہ رکھتی ہیں) قرآن کریم خود متعین ہی نہیں کرتا۔'' تو اس کا واضح منطقی نتیجہ کیا یہی نہیں کہ ''طلوع اسلام'' کے نزدیک قرآن کریم میں شریعت کا وجود نہیں ہے؟ گویا جزئیات ہی شریعت ہیں او ریہ جزئیات ہی قرآن کریم میں موجود نہیں لہٰذا شریعت کا وجود قرآن کریم کے اندر نہ ہے!
علاوہ ازیں ''شاہکار رسالت'' کے صفحہ 13 پر مسٹر پرویز بطور عنوان لکھتے ہیں:
''قرآنی اصولوں کی چار دیواری کے اندر رہتے ہوئے جزئیات کا تعین امت کے باہمی مشورہ سے ہوگا۔ یہ فیصلہ، مرکز کی طرف سے قوانین کی شکل میں نافذ ہوں گے۔ انہی کو شریعت کہا جائے گا۔''
نیز '' معراج انسانیت'' کے صفحہ 331 پر یوں ارشاد ہوا ہے:
''وہ (مرکز ملت) ان نظائر کو سامنے رکھ کر ایسے جزئی احکام وضح کرے گا جو اس کے زمانہ کے تقاضون پر منطبق ہوسکیں۔ اب یہی ''شریعت اسلامیہ'' او رمسلک ملت ہوگا جس سے انحراف جہنم میں لے جائے گا۔''
اب ان اقتباسات کو دوبارہ اسی اصول نمبر 1 کی روشنی میں دیکھیے کہ:
''قرآن کریم اسلامی مملکت کے دستور کی جزئیات بھی خود متعین نہیں کرتا وہ صرف اصول دیتا ہے۔''
تو اس کا نتیجہ بھی دو اور دو برابر چار کی مانند واضح ہے کہ پرویز صاحب کی نظر میں قرآن کریم میں شریعت کا وجود نہیں، کیونکہ یہ تمام جزئیات جو ''قوانین شریعت'' اور ''شریعت اسلامیہ'' بھی کہلاتی ہیں، خود ان کے مطابق قرآن کریم متعین ہی نہیں کرتا!
قارئین کرام، ہم نے ابتداء میں لکھا تھا کہ پرویز صاحب قرآن مجید میں شریعت محمدیہ کا وجود تسلیم نہیں کرتے اور ان کے آرگن ''طلوع اسلام'' نیز ان کی تصنیفات ''معراج انسانیت'' اور ''شاہکار رسالت'' وغیرہ سب نے ببانگ دہل یہ اعلان کیا ہے کہ ہمارا یہ دعویٰ مبنی برصداقت ہے تو پھر وہ ''یہی بات'' کہ ''قرآن ہمارا دستور ہے!'' کس منہ سے کہتے ہیں؟
بات اگرچہ واضح ہے تاہم اتمام حجت کی خاطر ہم محترم پرویز صاحب کے اس ارشاد عالیہ کا نوٹس بھی لینا چاہتے ہیں کہ:
''وہ (قرآن کریم) صرف اصول دیتا ہے''
تاہ ان کے دل میں کوئی حسرت باقی نہ رہے اور وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہم نےاصولوں کی بات بھی کی ہے، جسے نظر انداز کردیا گیا ہے۔
سول یہ ہے کہ جزئی قوانین جو مملکت خود مرتب کرتی ہے نہ کہ قرآن کریم! اگر وہی قوانین شریعت ہیں، تو ان اصولوں کی انہیں ضرورت بھی باقی کیا رہ جاتی ہے؟ کیا یہ ضرورت صرف حاملین قرآن کو دھوکا دینے او رقرآن کے نام پر انہیں گمراہ کرنے تک ہی محدود نہیں؟ جس کا ایک واضح ثبوت یہ بھی ہے کہ ''شاہکار رسالت'' کے صفحہ 14 پر مسٹر پرویز نے ایک عنوان یوں جمایا ہے کہ:
''قرآن کریم کے (بعض) صریح احکام کی شرائط و تضمنات بھی اسلامی حکومت مقرر کرے گی!''
یعنی احکام کی جزئیات تو پہلے ہی مملکت کے حوالے کی جاچکی ہیں، اب صریح احکام کی شرائط و تضمنات کی تعیین بھی اسلامی حکومت کے سپرد کردی گئی ہے۔ وہی اسلامی حکومت، جسے آپ ہی کے بقول ''نہ شریعت کا حکم معلوم کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے نہ کسی کی احتیاج ہوتی ہے'' لہٰذا جب اسے شریعت (قرآن کریم) کو کھول کر دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں تو وہ قرآن کریم کے ان اصولوں کی تعیین کیا کرے گی؟ اور ان کی چار دیواری کے اندر رہتے ہوئے ان کی جزئیات کیا مرتب کرے گی؟ آہ، بیچارے اصول!
مسٹر پرویز کا ایک واویلا یہ بھی ہے کہ:
''قرآنی اصول غیر متبدّل رہتے ہیں او رحکومت کی متعین کردہ جزئیات بدلی جاسکتی ہیں۔'' 11
محترم، جب اصولوں سے آپ کو سروکار ہی نہیں تو یہ غیر مبتدل رہیں یا آپ کی پرویزی شریعت کی طرح یہ آئے دن بدلتے رہیں، آپ کو ان سے مطلب؟ کیونکہ شریعت کا کام تو آپ نے جزئیات سے چلا لیا ہے۔ وہی جزئیات جو مملکت مرتب کرے گی ، وہی جزئیات جو کسی سابقہ دور (دور محمدی) کی وضع کردہ جزئیات کی پابند بھی نہ ہوں گی او روہی جزئیات جن کو مرتب کرتے وقت شریعت کا حکم معلوم کرنے کی بھی ضرورت نہیں! تو پھر ماہر القادری مرحوم کی زبان میں قرآن کی یہ فریاد آپ کے جگر کے آرپار کیوں نہیں ہوجاتی ؎
یہ مجھ سے عقیدت کے دعوے .......... قانون پہ راضی غیروں کے
یوں بھی مجھے رسوا کرتے ہیں .......... ایسے بھی ستایا جاتا ہوں!
رہی ہماری یہ بات کہ پرویزی شریعت متبدّل ہے، تو یہ بات ہماری طرف سے نہیں، مسٹر پرویز کا نظریہ ہے کیونکہ جزئیات ان کے نزدیک قوانین شریعت ہیں او ریہ بھی انہی کا ارشاد گرامی ہےکہ:
''حکومت کی متعین کردہ جزئیات بدلی جاسکتی ہیں!''
لہٰذا ان کی شریعت ہر دم متغیر ہے۔ لیکن ہم جسے شریعت قرار دیتے ہیں ، وہ قرآن کریم ہے، جوابدی او رتاقیامت غیرمتبدّل ہے۔ پس پرویزی شریعت کو قرآن کریم سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ کجا''طلوع اسلام'' کا یہ دعویٰ کہ :
''یہی بات طلوع اسلام کہتا ہے................!''
اور :
'' طلوع اسلام جو کچھ کہتا ہے، اس پر قائم رہتا ہے۔ لیکن یہ حضرات...........؟
محدث نام ہی بتا رہا ہے کہ یہ قرآن خالص کے کس قدر پابند ہیں!''
جب آپ کی شریعت، آپ کا مرکز ملت، حتیٰ کہ آپ کا اللہ اور رسول بھی (کیونکہ آپ کے نزدیک اللہ اور رسول سے مراد مرکز ملت ہے) ہر نام نہاد قرآنی حکومت کے بدلنے کے ساتھ ساتھ بدلتے رہیں گے، تو جو کچھ آپ فرماتے ہیں، اس پر آپ کے قائم رہنے کی کیا حیثیت ہے؟ اور جہاں تک ہمارا تعلق ہے، حدیث کا لفظ، حدیث رسول اللہ ﷺ کے علاوہ قرآن مجید پر بھی خود قرآن کریم ہی میں استعمال ہوا ہے، جو لفظاً و معناً غیر متبدّل ہے۔ لہٰذا ہم اپنی بات پر قائم بھی ہیں او رقرآن خالص کے پابند بھی، کیونکہ ہم سنت کو قرآن کا غیر نہیں مانتے بلکہ وہ قرآن کی واحد تبیین و تعبیر ہے۔ ہاں آپ ذرا اپنے گھر کی خبر لیں، کہیں وہی صورت حال تو نہیں ع
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے!
مسٹر پرویز ''مرکز ملت'' (مرکزی حکومت) کو آخری اسلامی اتھارٹی قرار دیتے ہیں، لیکن ذائقہ بدلنےکے لیے کبھی کبھی اسے بھی اس حیثیت سے گرا دیتے ہیں اور اگر انہی کے الفاظ استعمال کیے جائیں ، جیسا کہ ''شاہکار رسالت'' کے صفحہ 263 پر وہ لکھتے ہیں کہ :
''اس نظام (کی مرکزی اتھارٹی) کی اطاعت، خدا کی اطاعت کہلائے گی''
تو یوں کہنا مناسب ہوگا کہ اس نظام میں کبھی کبھی خدا کی اطاعت سے دست کش ہوجانے کی گنجائش بھی موجود ہے۔ کیونکہ ''شاہکار رسالت'' ہی کے صفحہ 277 پر وہ یوں فرما رہے ہیں کہ:
''جب حضرت عمرؓ نے دیکھا کہ لوگ اپنی بیویوں کا حق مہر مقرر کرنےمیں بڑی افراط سے کام لے رہے ہیں تو آپؓ نے ایک اجتماع میں اس کاذکر کیا اور چاہا کہ مہر کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کردی جائے، اس پرایک کونے سے ایک عورت کی آواز آئی کہ یہ کیا؟ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہےکہ ''وَءَاتَيْتُمْ إِحْدَىٰهُنَّ قِنطَارًا فَلَا تَأْخُذُوامِنْهُ شَيْـًٔا...﴿٢٠﴾...سورۃ النساء'' (20؍4) ''اور تم نے بیویوں میں سے کسی کو ڈھیرون مال بھی دے دیا ہو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو'' حضرت عمرؓ یہ سن کربول اٹھے کہ عورت نے سچ کہا ہے، عمرؓ غلطی پر تھا!''
دیکھئے، یہاں مرکز ملت نے یا انہی کے الفاظ میں ''مرکزی اتھارٹی جس کی اطاعت خدا کی اطاعت کہلاتی ہے'' نے بھی گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔ کیا قرآن کے سامنے؟ نہیں یہ تو ہمارا دعوے ہے کہ حضرت عمرؓ نے قرآن مجید کی آیت سن کر اپنے ارادے کو ترک فرما دیا، او رجس سے ہم نے قرآن مجید کی دستوری حیثیت پر استدلال کیا تھا۔ لیکن پرویز صاحب کی بات دوسری ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
''اگر یہ روایت صحیح ہے تو حضرت عمرؓ نے یہ بات اصول مساوات کی اہمیت او رقرآن ک ےمطابق کہنے کے سلسلہ میں لوگوں کی حوصلہ افزائی کے لیے کہی ہوگی، ورنہ قرآن کےاس حکم سے یہ لازم نہیں آتا کہ مہر پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جاسکتی!'' 12
اب اگر پرویز صاحب کے نزدیک قرآن مجید کی یہ آیت اصول ہے، تو اس کا جو حشر انہوں نے کیا ہے، وہ ان کے الفاظ ہی سے ظاہر ہے اور اگر اس واقعہ کا تعلق جزئیات سے ہے تو جو مرکزی حکومت جزئیات کو متعین کرنے کا حق رکھتی ہے، وہی مرکزی حکومت خود جزئیات کے سامنے سرنگوں بھی ہے۔ پھر آپ کی وہ مرکزی اتھارٹی کیا ہوئی؟
لیکن ٹھہریئے، مسٹر پرویز (یہاں) اصول یا جزئیات وغیرہ کا فیصلہ ایک دو سطور کے بعد خود ہی کررہے ہیں۔ اس واقعہ سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''قرآن نے جس بات کومطلق (بلا قیود و شرائط) چھوڑا ہے، اسلامی نظام، مصالح امت کے پیش نظر اسےمقید کرسکتا یعنی اس پر شرائط عائد کرسکتا ہے!'' 13
گویا ان کے نزدیک اس آیت کا تعلق ان احکامات سے ہے ''جن کی شرائط اور تضمنات کی تعیین اسلامی حکومت کرے گی'' تو اس صورت میں گنگا الٹی بہہ رہی ہے کہ بجائے اس کے کہ یہ شرائط مرکزی حکومت متعین کرے۔ مرکزی حکومت خود ہی ان شراوط کے سامنے سرتسلیم خم کیے نظر آتی ہے۔
رہامسٹر پرویز کا یہ فرمان کہ ''اگر یہ روایت صحیح ہے'' تو یہ ''اگر مگر'' صریحاً دھوکا ہے۔ کیونکہ اس روایت کو انہوں نے ''قرآن کے مطابق احکام'' کے ذیلی عنوان کے تحت نقل کرکے اس سے یہی استدلال بھی کیا ہے (خط کشیدہ الفاظ ملاحظہ ہوں) واضح رہے کہ ''شاہکار رسالت '' کا موضوع حضرت عمرؓ کی شخصیت ہے او راس واقعہ کو نقل کرکے مسٹر پرویز نےایک اور استدلال بھی فرمایا ہے جس کو شرائط و تضمنات کے سلسلہ میں ہم نے اوپر درج کیا ہے۔
اس کےبعد لکھتے ہیں:
''ہم کہہ یہ رہے تھے کہ خلافت فاروقی میں بھی اصلاً واساساً اطاعت احکام خداوندی ہی کی تھی۔'' 14
عجیب چکر ہے، حضرت عمرؓ خود مرکز ملت بھی ہیں یا مسٹر پرویز ہی کے دوسرے الفاظ میں خود اللہ اور رسول بھی ہیں۔ اور یہ اللہ اور رسول، احکام خداوندی کی اطاعت بھی کررہے ہیں۔کبھی یہ جزئیات و شرائط خود مرتب و متعین کرنےلگتے ہیں او رکبھی ان کے سامنے سپر بھی ڈال دیتے ہیں، تو کہیں خدا خود ہی اپنے احکام کی اطاعت کررہا ہے۔ دین و مذہب کی تفریق پر تو پرویز صاحب نے سینکڑوں صفحات سیاہ کردیئے ہیں، اب ان کی عافیت اسی میں ہے کہ ''اللہ و رسول'' اور ''خداوندی احکام'' کی تفریق کو ثابت کرنے کے لیے بھی عمر عزیز کے چند سال اور صرف کردیں۔
قارئین کرام، یہ ہے مسٹر پرویز کی قرآن دانی کا عالم۔ یہ وہ ''معزز و محترم'' ہستی ہے جس نے:
''مفکر قرآن (کی حیثیت سے) چالیس سال کی محنت شاقہ سے، پہلے اس قسم کا ایک لغات مرتب کیا اور اس کے بعد پورے قرآن کا مفہوم اسی انداز سے متعین کیا۔ جومفہوم القرآن کے نام سے شائع ہوگیا ہے۔ قرآن فہمی کے سلسلہ میں اس کی مثال کہیں نہیں ملے گی'' اور جو ''موتیوں کی طرح ترشے ہوئے نستعلیق میں، بلا کس کے ذریعے، عمدہ سفید، دبیز کاغذ پر چھاپا گیا ہے'' 15
پس ہم گورنمنٹ آف پاکستان سے کیوں یہ سفارش نہ کریں کہ جو شخص قرآن مجید کو لفظاً، معناً، شرعاً اور قانوناً دستور نہیں مانتا، اس کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کرکے اس پر مقدمہ چلایا جائے اور اسے قرار واقعی سزا دی جائے۔ اگر مشتاق راج ''آفاقی اشتمالیت'' کے ذریعے توہین رسالت کامرتکب ہوکر قانون کے پھندے میں آسکتا ہے ۔ مرزا غلام احمد قادیانی، جس نے صرف ایک رسالت کا دعویٰ کرکے ختم نبوت کے عقیدہ پر ضرب لگائی تھی، اور اس بناء پر اس کے تمام متبعین غیر مسلم اقلیت قرار دیئے جاچکے ہیں۔ تو یہ جو مرکز ملت کے نام پر سینکڑوں، ہزاروں رسولوں کو جنم دینے کا داعی ہے، جو سنت پر طنز و تعریض کے تیر برساتا او رقرآن سے کھیلتا ، بلکہ اس سےاستہزا، اور تمسخر اڑاتا ہے، اپنے انجام کو کیوں نہیں پہنچ سکتا۔ ع
شائد کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
وما علینا إلاالبلاغ
حوالہ جات
1. ص6، 7
2. ص9
3. ص 10
4. بحوالہ ''ترجمان الحدیث'' دسمبر 1980ء
5. شمارہ ستمبر 1983ء ص 19
6. حوالہ مذکور
7. اسی سلسلہ میں مسٹر پرویز کے اپنے انتہائی واضح الفاظ آئندہ صفحات پر ملاحظہ ہوں۔
8. طلوع اسلام صفحہ 13، اگست 1983ء
9. واضح رہے کہ ''(انہی کو قوانین شریعت کہا جاتا ہے)'' فقرہ کو بریکٹ میں خود طلوع اسلام نے لکھپا ہے۔ اس سے یہ شبہ نہ ہونا چاہیے کہ بریکٹ کے اندر یہ عبارت ہماری اپنی ہے۔
10. طلوع اسلام، اگست 1983ء ص6
11. شاہکار رسالت صفحہ 14
12. حوالہ مذکور
13. حوالہ مذکور
14. حوالہ مذکور
15. مفہوم القرآن کا اشتہار جوطلوع اسلام کے تقریباً ہر شمارہ میں شائع ہوتا ہے