اسلامی دستور اور فقہی اختلافات

4۔ جہاں تک چوتھےنقطہ نظر کاتعلق ہے تو یہ انتہائی خصوصی اہمیت کا حامل ہے اور ایک لحاظ سے اسے حکومتی نقطہ نظر سے گردانا جاسکتا ہے کیونکہ حکومت کے شرعی اداروں سے وابستہ ارکان اس کے سب سے بڑےمؤید ہیں۔ ان کے نزدیک اصل کام معاشرہ میں قوانین شرعیہ کی عملداری کا ہے، اس لیے موجودہ دور کے تقاضوں سے کماحقہ عہدہ برآ ہونے اور ترقی پذیر دنیا کے ساتھ قدم بہ قدم چلنے کے لیے کسی حد تک ناگزیر ہے کہ فقہ اسلامی کو دو واضح حصوں میں تقسیم کردیا جائے۔ان کے نزدیک فقہ اسلامی کا غیرمتبدل حصہ تو بہرحال واجب النفاذ ہے لیکن متبدل حصہ عصری تقاضوں اور زمان و مکان کی ضرورتوں کے مطابق بدلتا رہے گا۔ اس میں یہ تبدیلی اجتہاد رائے کے تحت عمل میں آئے گی اور قیاس و اجماع کے اجتہادی ماخذ قانون استعمال کرتے ہوئے تغیر و تبدل روا رکھا جائے گا۔

وہ اپنے اس نقطہ نظر کے حق میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اس اصول کی تائید خود فقہی مذاہب کے اندرونی نظائر سےملتی ہے۔مثلاً فقہ حنفی میں خود امام ابوحنیفہ اور صاحبین کے اختلاف اقوال میں سے بعد کے فقہاء نے عصری تقاضوں کی روشنی میں اجتہاد ترجیحی کے ذریعے کسی ایک قول کو اپنا لیا۔ ''مجلة الأحکام العدلیة''، ''فتاویٰ عالمگیری'' اور دیگر قانونی مجموعوں میں یہی روش اختیار کی گئی ہے ادھر عرصہ سے خود فقہاوے ہند نے ''زوج مفقود الخبر'' کے مسئلہ میں فقہ حنفی کے بجائے فقہ مالکی کے مسلک کو ترجیح دی ہے۔ اسی طرح اس کی مثال امام شافعی کے قدیم اور جدید مذہب کا اختلاف ہے کہ ایک ماحول اور علاقہ میں جو مذہب آپ نے قابل قبول سمجھا ۔ دوسرے علاقے اور ماحول میں جاکر اسے ناقابل عمل سمجھتے ہوئے ترک کردیا۔

اس نقطہ نظر میں ایک بنیادی اور اہم بات یہ ہے کہ فقہ اسلامی کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے اور ایک معتدبہ حصہ کو کسی تغیر و تبدل سے ماوراء قرار دیا جارہا ہے، جبکہ فقہ اسلامی کے ایک بڑے حصہ کو اجتہادی کاوشوں اور غوروفکر کے تحت لاکر عصری تقاضوں اور دور جدید کی ضرورتوں کے مطابق تغیر پذیر قرار دیا گیاہے۔ لہٰذا یہاں اصل مشکل یہ سامنے ہوگی کہ وہ لوگ جو قابل تغیر و تبدل حصہ کو عصری تقاضوں کے مطابق ڈھالنے والے ہوں گے، ان کا رجحان اگر غیر متبدل فقہ کی جانب زیادہ ہوا تو لامحالہ نتیجہ فقہی جمود کی صورت میں سامنے آئے گا اور اگران کا رجحان تغیر و تبدل کے پیش نظر مزعومہ اجتہاد کی طرف ہوگیا، تو ہر چیز تغیر و تبدل کا شکار ہونا شروع ہوجائے گی ۔ جس کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ عصری تقاضوں اور وقتی ضرورتوں کی آڑ میں تبدیلی ہی کو ایک اہم اصول تسلیم کرلیا جائے گا اور اس طرح جدید ذہن اور معاشرتی طرز فکر کا وہ غلبہ ہوگا کہ اقبال کی زبان میں ؎

از اجتہادِ عالمان کم نظر ......... اقتداءِ رفتگاں محفوظ تر

دراصل یہ طرز فکر ان لوگوں کی ہے جو اسلام کا لبادہ بھی اوڑھے رکھنا چاہتے ہیں اور فکروعمل کی زیادہ سے زیادہ آزادی کے بھی شیدائی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح تبدل اور تغیر پذیر حصہ فقہ کےاصول و حدود قائم کرنے والے وہی لوگ ہوں گے جو عہد جدید کی نام نہاد ترقی کی چکا چوند سے مرعوب ہوکر ہر ناجائز کو جائز ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کوبھی اسی طرح راغب کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

یون فقہ اسلامی، بلکہ کتاب و سنت بھی، ان لوگوں کے ہاتھوں بازیچہ اطفال بن کر رہ جائے گی۔ دراصل یہ لوگ چاہتے ہیں کہ خدا اور رسولؐ کی تعلیمات سے قطع نظر کرتے ہوئے مغربی تہذیب کے سامنے امت مسلمہ کو سرنگوں کردیا جائے جو اس منشائے الٰہی سے سراسر بغاوت و سرکشی کے مترادف ہے:
﴿هُوَ ٱلَّذِىٓ أَرْ‌سَلَ رَ‌سُولَهُۥ بِٱلْهُدَىٰ وَدِينِ ٱلْحَقِّ لِيُظْهِرَ‌هُۥ عَلَى ٱلدِّينِ كُلِّهِۦ وَلَوْ كَرِ‌هَ ٱلْمُشْرِ‌كُونَ ﴿٣٣...سورۃ التوبہ
یعنی ''اللہ وہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ وہ اسے غالب کردے (سارے بقیہ دینوں پر) خواہ مشرکوں کو (کیسا ہی)ناگوار ہو۔''

5۔ پانچویں نقطہ نظر کے حاملین کا اصرار یہ ہے کہ ملک میں جتنے بھی فرقے پائے جاتے ہیں۔ ملک کا عام قانون ہر فرقہ کی فقہ کے مطابق بنایا جائے یعنی جتنےفرقے ہوں اتنے ہی قانون مرتب کیے جائیں۔ علاوہ ازیں اجتہاد کی اجازت بھی ہر فرقہ کو اسی طرح دی جائے جس طرح اس فقہ کے اندر ہر فرقہ کے ماننے والوں کو حاصل ہے تاکہ وہ کسی بھی صورت میں اپنی اپنی فقہ سے انحراف کے مرتکب نہ ہونے پائیں، اور اس طرح کسی بھی فرقہ کے اجتہادات کو دوسرے فرقوں پر مسلط نہ کیا جائے۔

دراصل ان لوگوں کا استدلال یہ ہے کہ فقہی اختلافات چونکہ فہم اور تحقیق کے اختلافات ہیں، لہٰذا ان کو ختم کرنا ایک سعی لاحاصل ہے۔ چنانچہ حکومت کا جبر بھی اس ضمن میں ایک طرح سے ناروا اور بے دلیل بن جاتا ہے۔ان کے نزدیک موجودہ صورت حال کا واحد حل یہ ہے کہ فقہی اختلافات کو بعینہ تسلیم کرتے ہوئے ہر فرقہ کویہ حق دیا جائے کہ وہ اپنے مسلک و طریق کے مطابق زندگی گزار سکے۔

مشہور شیعہ عالم اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے قائد مفتی جعفر حسین کے مندرجہ ذیل الفاظ اس ضمن میں قابل غور ہیں:
''بنیادی چیز یہی ہے کہ ہمیں اور تمام مکاتب فکر کو پوری حریت اور آزادی دی جائے تاکہ وہ اپنے مسلک کے مطابق عمل پیرا ہوں۔ اسی صورت میں ہم میں اتحاد پیدا ہوسکتا ہے اور اگرہم پر کوئی ایسی چیز مسلط کی جائے، جس کو ہمارا ضمیر نہ مانتا ہو، ہمارا دل قبول نہ کرتا ہو، تو یقیناً وہ دیرپا چیز نہیں ہوسکتی اور اس قانون اسلامی کو دیر پا بنانے کے لیے ضروری ہے کہ شیعہ شیعہ رہے، سنی سنی رہے۔ سنی حضرات اپنے مسلک کی پابندی اور شیعہ حضرات اپنے مسلک کی پابندی کریں۔''1

اس نقطہ نظر کےنزدیک قانون اسلامی میں ہر شخص کو اپنی اپنی فقہ کے دائرہ کار میں اجتہاد و تحقیق کی آزادی حاصل ہونی چاہیے اور کسی فرقہ کی تحقیق اور اجتہاد کو دوسرے فرقہ پر محض اس لیے مسلط نہ کیا جائے کہ اس ملک میں ان کی اکثریت ہے۔ مثلاً اسلام میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنے کی ہے۔ اب یہ اختلاف کہ چور کا ہاتھ کہاں سے کاٹا جائے؟ ایک اجتہادی اور تحقیقی امر ہے۔لہٰذا ہر فرقہ کو اپنے اجتہاد پر عمل پیرا ہونے کی پوری آزادی حاصل ہونی چاہیے۔

اس نقطہ نظر کے تحت درج ذیل باتیں غور طلب ہیں:
(الف) پہلی بات تو یہ کہ یہ ایک ایسے فرقہ کا نقطہ نظر ہے جو اپنے اپ کوملت اسلامیہ کا اٹوٹ انگ سمجھتا ہے ، لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کا یہ اصرار بھی ہے کہ اسے ہر لحاظ سے لامحدود آزادی حاصل ہونی چاہیے، جو محل نظر ہے۔ یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر یہ فرقہ امت مسلمہ کا ہی ایک حصہ ہے تو اس کے حاملین کم از کم کوئی قدر مشترک تو باقی رکھیں، جس سے اپنوں اور غیروں کوکسی نہ کسی حد تک یہ احساس ہوتا رہے کہ ان کا یہ دعویٰ بجا ہے اور وہ بھی امت مسلمہ میں شامل ہیں ، ورنہ اگر پرسنل لاء کے ساتھ پبلک لاء میں بھی ان کی راہیں اپنے دینی بھائیوں سے یکسر مختلف ہوں تو کون یہ باور کرے گا کہ یہ ان ہی سے ملتی جلتی ایک اقلیت ہے؟

اس بدیہی حقیقت کے بالکل برعکس اس کے اکابر یہ چاہتے ہیں کہ شیعہ ، شیعہ رہے اور سنی، سنی رہے۔ سنی حضرات اپنے مسلک کی پابندی کریں اور شیعہ حضرات اپنے مسلک کی پابندی کریں، اور اس مسلک کے لیے کوئی دائرہ کار اور حدود کی پابندی قبول کرنے کے لیے بھی وہ تیار نہیں۔ اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ اسلامی آئین و قانون کے نفاذ کے بعد شیعہ حضرات اسی طرح کی آواز بلند کرنا چاہتے ہیں، جس طرح کہ تحریک قیام پاکستان سے قبل مسلمانان ہند نے ہندوؤں کے خلاف برپا کی تھی۔ یعنی وہ انہیں یہ کہتے تھےکہ ہمارا سب کچھ تم سے الگ ہے، اس لیے تم سے الگ رہے بغیر ہماری آزادئ فکر و عمل مجروح ہوتی ہے۔چنانچہ یقین، اتحاد، تنظیم کے بل بوتے پر وہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوگئے۔ تو یہ گاڑی کہاں جاکر دم لے گی؟ عجیب منطق ہے، شیعہ حضرات کا ایک طرف تو یہ دعویٰ ہے کہ وہ ملت اسلامیہ کا جزو لاینفک ہیں۔ لیکن دوسری طرف ان کے مطالبات بعینہ وہی ہیں جو کسی خطے میں رہنے والے ایسے طبقے کے ہوتے ہین جو کسی بھی معاملہ میں اسی خطہ کے دوسرے طبقہ سے اشتراک اور یکجہتی و ہم آہنگی کو اپنے فرقہ وارانہ اتحاد کے لیے زہر قاتل سمجھتا ہے۔ ان کا یہ مؤقف ریاست در ریاست کے مترادف نہیں تو اور کیا ہے؟ مسجد کے اندر ہی اپنی ڈیڑھ انچ کی ایک الگ مسجد تعمیر کرنا اسلامی اخوت اور بھائی چارے کی روح کے خلاف ہے۔ ملک کے دوسرے فرقوں اور طبقوں کی یہ کوشش تحسین کے قابل ہے کہ وہ ہزار اختلاف کے باوجود شیعہ حضرات کے اس دعوےٰ سے ذرا بھی انکار نہیں کرتے کہ وہ ہماری ہی طرح امت مسلمہ کا ایک حصہ ہیں۔ لیکن افسوس کہ شیعہ حضرات جس بات پر اڑے ہوئے ہیں وہ خود ان کے اس دعویٰ کو باطل قرار دیتی ہے۔

(ب) اس سلسلہ میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ دنیائے اسلام کا واحد ملک، جہاں شیعہ حضرات کی اکثریت ہے، وہاں اسلامی انقلاب کے بعد تشکیل پانے والا آئین و دستور پبلک لاء تو وہی رکھا گیا جو ملک کےاکثریت فرقہ یعنی شیعہ کے مسلک فقہ جعفریہ پر مبنی ہے۔ لیکن پرسنل لاء میں ہر شہری کو آزادی حاصل ہے۔ ایسے میں پاکستان کی شیعہ جماعت کیوں ایسے مؤقف پر مصر ہے، جسے انہی کے فرقہ کے لوگوں نے برسر اقتدار آکر ناقابل عمل قرار دے دیا ہے؟ آخر انہوں نے اکثریت میں ہونے کے باوجود وہ کچھ کیوں نہیں کرڈالا جو کچھ یہاں کے شیعہ حضرات سنی اکثریت سے کروانا چاہتے ہیں؟

(ج) اگر شیعہ حضرات اپنے اس مؤقف پر واقعی اتنا گہرا اعتماد و یقین رکھتے ہیں تو ان کے علماء کرام کا یہ فرض ہے کہ وہ دلائل و براہین کے ساتھ اپنا مؤقف پیش کریں۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ پوری دنیا کے کسی ایسے ملک کی مثال پیش نہیں کرسکتے۔ جس میں اس طرح کی صورت حال پائی جاتی ہو یا وہاں کی کسی اقلیت نے اس ملک کا حصہ رہتے ہوئے اس طرح کے مطالبات کیے ہوں بلکہ اس طرح کے مطالبات کرنے والے تو باغی کہلائے جانے کے زیادہ مستحق ہیں، یا وہ خود اپنے آپ کو حریت پسند کہلوانا زیادہ پسند کریں گے؟

بہرحال اہل علم و نظر کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر طرح کے تعصب اور گروہ بندی سے بالاتر ہوکر ایک لمحہ کے لیے یہ تصور کریں کہ آیا یہ بات ممکن العمل بھی ہے یا نہیں؟ اسلامک ری پبلک آف ایران کی مثال ہم نے پیش کردی ہے۔ ہمارے خیال میں اگر ذرا سی گنجائش اس بات کی ہوتی کہ اقلیتی فرقوں کے پبلک لاء بھی اپنے اپنے بحال رکھے جائیں تو سب سے پہلے ان ہی کا فرض تھا کہ وہ سنیوں کو اپنے ملک میں اس بات کی اجازت دے کر مثال قائم کرتے، تاکہ دوسرے اسلامی ممالک ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس پالیسی پر عمل کرتے۔

دراصل گوشت پوست کے انسانوں کی دنیا میں یہ بات ممکن ہی نہیں کہ ایک ہی ملک میں ایک سے زیادہ پبلک لاء ایک سے زیادہ آئیں اور ایک سے زیادہ ایسے طبقے موجود ہون جو یہ چاہتے ہوں کہ حکومت چاہے اکثریت کی ہو لیکن ان کا سب کچھ ان کے مسلک اور پسند کےمطابق ہو۔ اس کا صاف صاف مطلب یہ ہوگا ک ملک کو واضح طو رپر تقسیم کردیا جائے۔ دراصل قومی یکجہتی اور اتحاد و یگانگت کسی صورت میں قائم ہی نہیں رکھی جاسکتی، جبکہ دو بالکل ہی متوازی بلکہ متصادم نقطہائے نظر ایک ہی ملک میں اس طرح پرورش پانے لگیں جس طرح کا شیعہ حضرات کا مطلب ہے۔ ایسے میں دوسری اقلیتوں کو کس دلیل کے تحت اس مطالبہ سے روکا جاسکے گا کہ اگر ایک ملک کے اندر ہی ایک فرقہ کو یہ رخصتیں دے دی گئی ہیں تو ہمیں کیوں ایسی ہی رعایت سے محروم رکھا جارہا ہے؟

(د) اگر تاریخی نقطہ نظر سے بھی شیعہ حضرات کے ان مطالبات کا جائزہ لیا جائے تو ان کے علماء کرام کے اس دعویٰ کا شیعہ حضرات کے پاس کوئی جواب نہیں کہ فقہ جعفریہ کی مستند کتابیں اس طرح کے مطالبات سےبالکل پاک ہیں بلکہ وہاں تو پرسنل لاء میں بھی بہت حد تک اشتراک اور یکجہتی نظر آتی ہے۔ آخر فقہ جعفریہ کی بنیاد اور اساس ان کے اکابر علماء کی نظر میں وہی ہے جسے دوسرے فرقے بھی بنیاد مانتے ہیں، مثلاً کتاب و سنت ، اجماع، اجتہاد وغیرہ ایسے میں معاذ اللہ یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ کتاب و سنت میں بھی دو دو باتیں ہیں؟ پھر شیعہ اور سنی ہی دو فرقے نہیں ہیں بلکہ ہرایک کے متعدد فرقے ہیں۔ اگر شیعہ اور سنی کو الگ الگ دستور و قانون کے وضع کرنے کا اختیار دے دیا جائے تو ان کے متعدد فرقوں میں یہ فیصلہ کیسے ہوگا کہ عام قانون کسی خاص گروہ کی فقہی ترجیحات پر مبنی ہوگا؟ گویا اس طرح سے فقہی تقسیم لامحدود ہوکر سینکڑوں فقہی اختلافات کو جنم دے گی۔کیا اتنا شدید دستوری انتشار کسی مملکت کے وجود کو قائم رکھ سکے گا؟ علاوہ ازیں.............. مسلمانوں ہی کے وہ مکاتب فکر، جو شیعہ اور سنی فقہ کی پابندی نہیں کرتے، یا غیر مسلموں کے مختلف گروہ، اسی بنیاد پر یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب نہ ہون گے کہ عام قانون میں ان کو بھی مستقل دستور اپنانے کا حق دیا جائے؟

آخر میں ہم بڑی دردمندی اور خلوص نیت سے اپنے شیعہ بھائیوں سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس وقت، جبکہ پاکستان میں شریعت کی عملداری کی کوششیں ہورہی ہیں، اس طرح کے مطالبات سامنے لاکر اسےناکام کرنے کے ذمہ دار نہ بنیں گے بلکہ ''تعاونوا على البر والتقوى'' کی روح کے مطابق اپنا سارا وزن مخالفت کی بجائے حمایت کے پلڑے میں ڈال دیں۔ یقیناً ان کا یہ جذبہ ایثار اور قرآنی کے مترادف ہوگا۔

6۔ چھٹا نقطہ نظر اسلام کو ایک حر کی نظریہ حیات تسلیم کرتے ہوئے اسے عصر جدید کے تقاضوں اور ضرورتوں سے کماحقہ عہدہ برآ دیکھنے کے لیے اجتماعی اجتہاد کی ضرورت پر زیادہ زور دیتا ہے۔ اس نقطہ نظر کے حامل افراد فقہی جمود کو پوری امت کے لیے زبوں حالی اور پسماندگی کا سبب خیال کرتے ہیں اورتقلید کی شدید مذمت کرتے ہی۔ البتہ اختلافات کے افراط سے بچنے کے لیے انفرادی اجتہاد کی بجائے قومی اور اجتماعی اجتہاد کو، جس کو وہ اجماع کا نام دیتے ہیں، امت مسلمہ کے گونا کوں مسائل اور اختلافات کا حل سمجھتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ مجلس قانون ساز کو یہ حق تفویض کرتے ہیں کہ وہ اجتماعی اجتہاد کے نام پر فقہ کی تشکیل جدید کرے، اس ضمن میں علامہ ڈاکٹر محمداقبال کی رائے ملاحظہ ہو:
''بہرحال یہ دیکھ کر اطمینان ہوتا ہے کہ دنیا میں جو نئی نئی قوتیں ابھر رہی ہیں، کچھ ان کے اور کچھ مغربی اقوام کے سیاسی تجربات کے پیش نظر مسلمانون کے ذہن میں بھی اجماع کی قدر وقیمت اور اس کے فقہی امکانات کا شعور پیدا ہورہا ہے۔ بلاد اسلامیہ میں جمہوری روح کا نشوونما اور قانون ساز مجلس کا بتدریج قیام ایک بڑا ترقی پذیر قدم ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مذاہب اربعہ کے نماوندے جو سردست فرداً فرداً اجتہاد کا حق رکھتے ہیں۔ اپنا یہ حق مجالس تشریعی کو منتقل کردیں گے۔ یوں بھی مسلمان چونکہ متعدد فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اس لیے ممکن بھی ہے تو اجماع کی یہی شکل ہے۔''2

فکر اقبال کے ایک شارح پروفیسر منور مرزا اس بات کو یوں بیان کرتے ہیں:
''مجالس تشریعی کے توسط سے روپذیر ہونے والے اجماع کو حضرت علامہ کے نزدیک اس قدر اہمیت اس لیے حاصل ہے کہ اس طریق سے مختلف ملکوں کے اہل نظر و قانون کےباہم قریب آجانے کی امید ہوگی۔ لہٰذا انفرادی، ملکی بلکہ فرقہ وارانہ اجتہاد کی بجائے مجلس تشریعی کے اجتماعی اجتہاد و اجماع سے اس فکری انتشار اور ملکی انارکی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔''3

اسی نقطہ نظر کے ایک اور اہم مؤید محمد تقی الدین امینی کی دلیل بھی قابل غور ہے:
''اجماع کی اصل اور ممکن العمل صورت یہی ہے کہ قانونی معاملات میں اہل حل و عقد کی ایک مجلس مشاورت قائم ہو اور حالات و مسائل میں غوروفکر کے بعد ان کا صحیح حل تجویز کرے جو ایک طرف کتاب و سنت کے خلاف نہ ہو اور دوسری طرف ضروریات زندگی سے ہم آہنگی پیدا کرنے والا اور دشواریوں پر قابو پانے والا ہو۔''4

واضح رہے کہ مندرجہ بالا نقطہ نظر کو عملی شکل دینے میں پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کے وہ عناصر پیش پیش ہیں جو کہ اسلام پسند طبقہ سے وابستہ ہیں۔

جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے نزدیک اس نقطہ نظر میں بڑی جاذبیت اور پذیرائی ہے اور بظاہر یوں لگتا ہے کہ عہد جدید کے گونا گوں مسائل کا حل اس کے سوا کوئی اور نہیں ہے لیکن اگر تھوڑے تعمق کے ساتھ اس نقطہ نظر کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آئے گی کہ اس طرح کی آزادی بہت بڑے فتنہ کا باعث بن سکتی ہے۔ کیونکہ اس نقطہ نظر کی بنیاد پر ایسے اذہان کا پیدا ہوجانا ناممکن نہیں ہے جو جملہ سابقہ فقہوں اور اسلاف کے کارناموں کو اجتماعی اجتہاد کے نام پر ناکارہ قرار دینے کی جسارت سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔نتیجہ یہ ہوگا کہ نام تو اسلام کا استعمال ہوگا لیکن ہر نئی فکر اور جدید نظریہ مسلمانوں پر ٹھونسنے کی کوشش کی جائے گی۔ اور اگر مجلس قانون سازی میں اسی جدید فکرونظر کواکثریت حاصل ہوگئی تو ہر جدید نظریہ کو اسلامی قانون کا رنگ دے دیا جائے گا۔

انفرادی اجتہاد کی کلی تردید اور اجتماعی اجتہاد کے آسان فروغ کااس کے علاوہ کوئی اور مقصد نہیں کہ کسی بھی جانب سے اور کسی بھی سطح سے اٹھنے والی اجتہادی آواز (اگرچہ وہ کتاب و سنت کے قریب تر ہو، خواہ اس پر سلف متفق ہوں بلکہ ان کا اجماع ہوچکا ہو) محض اس لیے دبا دی جائے کہ اسے جدید اجماع عوام کی سرپرستی حاصل نہیں۔ یہی وہ استبداد ہے جس کا مقابلہ ہر دور میں امت کے جلیل القدر لوگ کرتے آئے ہیں۔ یہ بات کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہوکتی کہ ہم اپنے فقہی سرمایہ کو یک قلم منسوخ کردیں اور ایک ایسی عمارت تعمیر کرنے کی کوشش کریں جس کے لیے کوئی نقشہ پیش نظر نہ ہو۔ اس کے برعکس اگرہم اسلاف کےکاموں یعنی سابقہ فقہی سرمایہ کو معاون کی حیثیت دیتے ہوئے آگے چلیں تو ہمارا راستہ اور منزل قریب تر ہوجائے گی۔ کسی بھی نئے اجتہاد کے لیے یہ بات ناگزیر ہے کہ آدمی کتاب و سنت پر گہری نظر رکھتا ہو، اسلامی قانون کی پچھلی تاریخ سے پوری طرح واقف ہو، ساتھ ہی مختلف زمانوں میں اس وقت کے مسائل کے حل کے لیے کتاب وسنت سے استنباط احکام کے جو طریقے اختیار کیے گئے، ان کا حسن و قبح بھی اس کےپیش نظر ہو اور اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ دین و ملت سے مخلص ہو اور دین میں کوئی نئی راہ نکالنے والا نہ ہو۔ آج ہر شخص بدقسمتی سے مجتہد بنا ہوا ہے۔بالخصوص مغرب زدہ طبقہ اپنے نئے نئے اجتہادات کے ذریعے نت نئے شگوفے چھوڑ رہا ہے اور مسلم معاشروں میں سخت انتشار پھیلا رہا ہے۔

اقبال ہی کے بقول:
ع ہر لئیمے راز دار دیں شدہ

اجتماعی اجتہاد کا طریقہ ایک ایسے ملک میں کیونکر اپنایا جاسکتا ہے ، جہاں جمہوری سیاسی ادارے ذاتی خود غرضیوں اور علاقائی گروہ بندیوں میں جکڑے ہوئے ہوں اور جن کے نزدیک اقتدار، ایک صحیح اسلامی معاشرہ کے قیام کا نہیں، بلکہ خواہشات کے حصول کا سب سےبڑا ذریعہ ہے؟ ظاہر ہے اس طرح کے معاشرہ میں تشکیل پانے والی مجلس قانون ساز یا مجلس مشاورت ایسے لوگوں پرمشتمل ہوگی جو علوم اسلامی سے قطعی نابلد اور وقت کے تقاضوں سے سراسر ناآشنا ہوں گے۔ لہٰذا ان سے اس طرح کی توقعات کو منسوب کرنا نہ ملک و ملت کے ساتھ بھلائی ہے، نہ ہی اسے اسلام سے خیر خواہی کا نام دیا جاسکتا ہے۔

آخر میں ہم ایک ایسی بات کی طرف اہل فکر و نظر کی توجہ مبذول کرائیں گے جس کی اہمیت اس نقطہ نظر کے حوالے سے سب سے زیادہ ہے۔ اس نقطہ نظر کے تحت چونکہ اجتماعی اجتہاد کو شرعی طور پر اجماع کا درجہ دیا گیا ہے اس لیے کسی مجلس قانون ساز کے اجماعی فیصلوں کی حیثیت اسلام کے ایک قانون کی سی بن جائے گی جبکہ صورت حال یہ ہے کہ عالم اسلام کی بے شمار اسمبلیاں مختلف جمہوری اور غیر جمہوری طریقوں سے وجود میں آئیں گی، جو اپنے اپنے حالات اور مسائل کےمطابق قانون سازی کریں گی اور یہ بھی طے نہیں کہ وہ اس کے لیے کون سے اصول و مبادی کی پیروی کریں گی۔

ایسے میں ایک ہی دور میں ایک ہی مسئلہ کے بارے میں ان گنت اجماعی آراء سامنے آجائیں گی اور یہ فیصلہ کرنا ناممکن ہوجائے گا کہ کون سی اجماعی رائے اختیار کی جائے اور کس کو ترک کیا جائے؟ نتیجہ شدید اختلاف، انتشار اور تعصب کی صورت میں نکلے گا۔ لہٰذا مندرجہ بالا خدشات کی روشنی میں ہم مجبور ہیں کہ اس پُرخطر راہ کے کھولنے والوں کو حتی الامکان باز رکھنے کی کوشش کریں۔ اسلام حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد ﷺ تک برابر چلا آرہا ہے اور وہ ایسے احکام پر مشتمل ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے واسطے نیکی اوربھلائی کے لیے نازل فرمائے ہیں۔ اس لیے اللہ کے نازل کردہ احکام کے مقابلہ میں کسی انسانی رائے اور عقل و سوچ کو کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے۔ آخر کسی انسان کی رائے یا اکثریتی رائے خدائی حکم کا نعم البدل کیسے بن سکتی ہے؟ اجتہاد چاہے انفرادی ہو یا اجتماعی، آیات و احادیث میں خدائی منشاء کی جستجو کا نام ہے جسے قانون سمجھنا دین سے ناواقعی کی دلیل اور زعم باطل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں غلط راستوں پرچلنے سے بچنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین!

7۔ ساتواں نقطہ نظر چھٹے نقطہ نظر کی ہی ایک ترقی یافتہ شکل ہے۔ البتہ سیاسی لحاظ سے یہ دونوں ایک دوسرے سے متصادم نظریات پر اپنی اساس رکھتے ہیں۔ یعنی ایک اگر اجتماعی اجتہاد کی آڑ میں جمہوری طرز پر منتخب ہونے والی مجلس قانون ساز کو قانون سازی کے مطلق اختیار دیتا ہے تو دوسرا انفرادی اور اجتماعی اجتہادات پیش کرنے کا حق صرف حکومت وقت سے منسوب کرتا ہے۔ ایک اکثریتی آمریت اور دوسرا ریاستی آمریت کو اسلام کی نمائندگی کا کلی حق سونپ کر خدائی اختیارات میں مداخلت کا مرتکب ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ایک اگر اکثریتی عوامی نمائندون کو شریعت سازی ، تو دوسرا بے لگام حاکموں کو، اللہ تعالیٰ کی منشاء کی تشریح و تعبیر کے منصب پر فائز کرتا ہے۔

یہ نظریہ غلام احمد پرویز صاحب کے فکر سے وابستہ ہے ان کے نزدیک اجتہاد خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی، اسے اجماع کی حیثیت اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ سرکاری طور پرنافذ العمل ہوگا۔ اپنے اس نظریہ کو مزید مزین کرنے کے لیے پرویز صاحب نے اپنے اجتہاد کے منبع کو ''مرکز ملت'' قرار دیا ہے اور اسے ریاست کے مقام پر فائز کردیا ہے۔ گویا کہ برسراقتدار پارٹی یعنی حکومت قرآن کے نام پرجو قانون سازی بھی کرے گی وہ قوم کے لیے آخری سند ہوگی اور وہ اسے ''وحدت امت '' کا واحد ذریعہ بتلاتے ہیں۔5

دراصل یہ نظریہ جدید منکرین سنت و حدیث کا ہے، جو سنت کی تعبیر و تشریح سے ازاد ہوکر قرآن پاک میں من مانی تاویلات، تعبیرات اور تشریحات کا راستہ کھول کر ایسے فکروعمل کو ترویج دینا چاہتے ہیں، جو اپنی مغرب زدہ عقل کو اسلامی احکام پر حاکم بنا دے۔

مقام شکر ہے کہ ہمارے علماء کرام نے اس لغو اور خطرناک نقطہ نظر کو ہر طرح سے بے ہودہ اور غیر اسلامی ثابت کردیا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہ ےکہ اگر سنت رسول اللہ ﷺ کی آئینی حثییت اور حجیت و قطعیت کالعدم ہوجائے تو اسلام کے پاس باقی کیا رہ جاتا ہے؟ اور پھر ہمارے پاس کون سی بنیاد بچ رہے گی جس کی مدد سے ہم قرآن کی من مانی اور نفسانی تاویلات کرنے والوں کا منہ بند کرسکیں گے۔

نیز وحدت امت کے اس نعرہ سےمسلمانوں کی سابقہ تاریخ کو جس بری طرح سے ملیا میٹ کردیا گیاہے وہ اپنی جگہ ایک بہت بڑا المیہ ہے اور ا س کے نتائج و عواقب پر غور کرنے سے یہ تلخ حقیقت سامنے آئے گی کہ اس نے گویا امت کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچ کر اسے ہوا میں معلق کردیا ہے اور اس طرح ہرشے سے اس کا رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔ وہ اپنے ماضی سے یوں کٹ چکی ہے کہ سنت کے انکار کے بعد ماضی اس کےلیے کسی کام کا نہیں رہ گیا، جبکہ اپنا مستقبل اس نے دوسروں کے سپرد کردیا ہے، چنانچہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ قادیانیوں نے غلام احمد قادیانی کو جنم دے کر ختم رسالت پر ایک وار کیا ہے لیکن غلام احمد پرویز نے یہ نقطہ نظر پیش کرکے ہزاروں وار کردیئے ہیں۔ گویا کہ آج تک محمدﷺ کی حکومت کے بعد مسلمانوں کی تمام حکومتیں، جو اسلام کے نام پر قرآن کی غلط یا صحیح ، جو بھی تعبیریں کرتی رہی ہیں، وہ خدا کی رضا اور اس کا قانون تھا اور آئندہ بھی جو نام نہاد قرآنی حکومتیں آئیں گی وہ بھی خدا کی رضا ہوں گی۔ چنانچہ اس طرح سے قانونی تغیر کے تسلسل کو جو دائمی حیثیت دے دی گئی ہے وہ ہر دم ہر علاقے میں ایک نیا رسول جنم دینے کے مترادف ہے۔

متذکرہ بالا ساتوں نقطہائے نظر اور ان پر نقد و تبصرہ سے یہ حقیقت عیاں ہوکر سامنے آگئی ہے کہ گو یہ نقطہائے نظر اپنی اپنی جگہ پر صداقت کا کوئی نہ کوئی پہلو رکھتے ہیں۔ لیکن بحیثیت مجموعی ایسے تعصبات اور فرقہ واریت کے جراثیم کی افزائش کا باعث بن سکتے ہیں جو اسلامی قانون کی عملداری میں مزید رکاوٹ پیدا کرسکتے ہیں۔ اس ضمن میں ہمارے بحیثیت مجموعی بھی چند خدشات ہیں جنہیں ہم مندرجہ ذیل نکات کی صورت میں پیش کرتےہیں۔

(الف) پہلا نکتہ یہ ہےکہ دستور و قانون خواہ شرعی ہو ، سیکولر ہو، عوام کی جمہوری مرضی کے تابع ہو، یہ حاکم اعلیٰ کی منشاء کا دوسرا نام ہے۔ لہٰذا اسی حاکم اعلیٰ کے احترام و تقدس سے اس کی پابندی وابستہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اسے اپنے ان شخصی یا نظری سرپرستوں کی حمایت حاصل نہ رہے تو وہ خواہ کتنا ہی بلند و بالا کیوں نہ ہو، اس کی قانونی اور آئینی حیثیت معطل ہوکر رہ جائے گی۔ اس لیے کوئی دستور بھی اگر حاکم اعلیٰ کی منشاء سے علیحدہ ہوجائے گا تو اسے قانونی حیثیت حاصل نہیں ہوسکتی۔ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ شریعت میں یہ حیثیت صرف کتاب و سنت کو حاصل ہے یا کسی قدیم و جدید فقہ اور وضعی قانون کو؟

(ب) دستور و قانون کی ایک خاص وضع اور شکل ہوتی ہے، جس کے لیے ایک طرف اس کے الفاظ اور دوسری طرف اس کی مثالی تعبیر اور عملی شکل ہوتی ہے۔ اور اگر یہ دونوں (الفاظ و تعبیر) چیزیں متفقہ ہوں۔ باہم مربوط ہوں تو فروعی اور جزوی اختلافات کے باوجود ملت کی وحدت اور یکجہتی کی حفاظت کی جاسکتی ہے، بشرطیکہ دیگراختلاف کو مثالی اور قانونی حیثیت حاصل نہ ہو اور کوئی ایسا طریقہ کار اختیار کیا جائے جو اختلافی تعبیرون اور تشریحات کو مناسب حیثیت تو دے لیکن دستور کا حصہ قرار دے کر دستور کو متنازعہ فیہ نہ بنا دے۔ کتاب و سنت اور فقہ قدیم یا وضعی قانون کی دستوری حیثیت کا اسلامی نقطہ نظر سے جائزہ لیتے ہوئے اس بات کا پاس ولحاظ رکھنا بڑا اہم ہے۔

(ج) دستور و آئین کے جدید تصورات میں کسی مملکت کا دستور سب سے اعلیٰ دستاویز ہوتی ہے۔ اگر کوئی شے اس سے اعلیٰ تر ہو تو اسے اصل دستور و ائین گردانا جاتا ہے۔ لہٰذا کتاب و سنت سے ماخوذ کسی فقہ یا جدید قانون کو اگر دستوری حیثیت سے تسلیم کرلیا جائے تو یہی اعلیٰ تر دستاویز بن جائے گی اور ا س کا مرتبہ کتاب وسنت سے برتر قرار پائے گا۔ چاہے یہ بات تحریری طور پر سامنے آئے یا نہ آئے۔

(د) چونکہ دستور و آئین کسی خاص ریاست کا نقشہ اور بنیاد ہوتا ہے۔اس لیے اصولی طور پر ریاست کے وجود کا انحصار اس پر ہوتا ہے۔ لہٰذا جب ایک دستور نافذ ہوجائے تو اسے منسوک یا تبدیل کرنا کسی صورت میں بھی جائز اور روا نہیں۔ اس اصول کے تحت رسول اکرم ﷺ کے زمانہ سے قرآن مجید کا بطور دستور نفاذ لامحدود عرصہ یعنی تاقیامت ابدی ہے جس کا عملی نمونہ بھی کتب حدیث میں من و عن محفوظ ہے۔ ا س لیے کسی فقہ کو دستوری حیثیت دینے سے پہلے اس بات کا فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا کتاب و سنت یا ان دونوں میں سے کسی ایک کا نفاذ ختم ہوچکا ہے؟ ساتھ ہی یہ بھی بتانا ہوگا کہ یہ کب اور کیسے ختم ہوا اور اس کی وجوہات کیاتھیں، نیز ایسے کسی اقدام کا کوئی جواز بھی ہے یا نہیں؟ تاکہ ہم اس کے بعد کوئی نیا دستور وضع کرسکیں۔6

ملک و ملت میں پائے جانے والے مختلف نقطہائے نظر کے بیان ، محاکمہ اور اپنی تصریحات کے بعد ہم اب اس پوزیشن میں ہیں کہ اپنی تحقیق اور علم کے مطابق مربوط شکل میں اپنے خیالات قارئین کے سامنے رکھ سکیں تاکہ انہیں یہ اطمینان حاصل ہو کہ ان تنقیدی دلائل کے ساتھ ساتھ ایک مثبت نقطہ نظر بھی موجود ہے جو ہمارے خیال میں کسی کے لیے ناقابل قبول نہ ہوگا۔

ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم سب کا ایمان ہے کہ ا س کائنات ارضی کا مالک اور حاکم اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ ہے اور اس نے انسانوں کو اپنی آزاد مرضی پر نہیں چھوڑ دیا بلکہ اپنی رضاء و منشاء اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعے ان تک پہنچاتا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی آخری اور مکمل رضا صرف وہی شکل ہے جو شریعت محمدیہ (قرآن) کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے اور اس کا دوسرا پہلو جسے شریعت محمدیہؐ کی اعلیٰ اور اکمل مثال بلکہ امتیاز قرار دیا جاسکتا ہے، سنت محمدیہؐ (علیٰ صاحبہا الصلوٰة والسلام) ہے۔جسے قرآن کریم کی تعبیر میں ایک آخری سند کی حیثیت حاصل ہے گویا کہ شریعت محمدیہ کتاب و سنت کا نام ہے، جس میں کتاب اللہ کی صورت میں الفاظ کا پہلو ظاہر کرنا مقصود ہے تو سنت کی صورت میں معنی و مقصود کا پہلو واضح کرنا مطلوب! چنانچہ ان الفاظ و تعبیرکے بعد جتنی بھی تعبیریں ہوں گی وہ صرف شریعت کے فہم کی کوشش شمار ہوگی، لیکن ان ذات شریعت یا الہٰامی قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی ان کو دائمی یا ابدی حیثیت حاصل ہوگی۔

پس شریعت محمدیہ میں بنیادی دستور کی حیثیت صرف کتاب و سنت کو حاصل ہے اور اس حیثیت میں کتاب و سنت کا کوئی فہم یا تعبیر اس میں شامل نہیں ہے۔ اس لیے یہ تصور ہی محل نظر ہے کہ کتاب و سنت جیسے دستور کی موجودگی میں مسلمانوں کے لیے کسی نئے دستور و قانون کی ضرورت ہے، چاہےیہ دعویٰ ہی کیوں نہ ہو کہ وہ کتاب و سنت یا کسی مستند فقہ سے ماخوذ ہے۔ بلکہ کتاب و سنت کو بذاتہ دستوری حیثیت حاصل ہے اور اہل علم سے یہ بات مخفی نہیں کہ مسلمانوں کے جملہ مکاتب فکر کا کتاب و سنت کو منشائے الٰہی کی حیثیت سے تسلیم کرنے پر ہر دور میں مکمل اجماع رہا ہے۔ رہے فقہی اختلافات تو ان کی حیثیت دستوری یا اساسی اختلافات کی ہرگز نہیں۔لہٰذا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ کوئی بھی فقہ، دستور کا حصہ نہ پہلے کبھی رہی ہے اور نہ ہی اب ہوسکتی ہے۔ ہاں دستور پر عملدرامد کے لیے یہ ایک معاون کا کردار ضرور ادا کرسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہی آراء کے متعدد ہونے سے شریعت کا متعدد ہونا لازم نہیں آتا۔

چونکہ شریعت اور فقہ میں حیثیت اور دائرہ کار کے لحاظ سے خاصا فرق ہے، اس لیے کوئی متعصب سے متعصب شخص، حتیٰ کہ مستشرقین بھی، یہ بات بطور اصول ماننے کی جسارت نہیں کرتے کہ مختلف ائمہ سے منسوب فقہیں اسلام میں مختلف شریعتوں کے مترادف ہیں۔

بہرحال ہمارا یہ دعویٰ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ایک اسلامی مملکت میں دستور کی حیثیت صرف اور صرف کتاب و سنت کو حاصل ہے جس کا دوسرا قرآنی نام شریعت ہے۔ اس ضمن میں اگرچہ فقہ کے تعاون کو خصوصی اہمیت حاصل ہے ۔ تاہم اسے دستور کی حیثیت حاصل نہیں۔

جب ہم قرآن مجید کو بطور دستور اپنانے کی تجویز پیش کرتے ہیں تو ہمارے پیش نظر یہ بات ہوتی ہے کہ دستور چونکہ ہر ملک میں ایک مقدس دستاویز ہوتی ہے اور اس سے اعلیٰ و ارفع کوئی دستاویز نہیں ہوتی، اس لیے اس کا ہر نقطہ، شوشہ اور حرف قابل حجت ہوتا ہے۔لہٰذا دستور کے ان خصائص کی بناء پر ایک اسلامی ریاست میں یہ حیثیت صرف قرآن مجید کو حاصل ہے کہ وہ مسلمانوں کی مقدس ترین دستاویز کہلائے اور اپنائے جانے کا بھی مستحق قار پائے۔یہ ضروری ہے کہ کسی تحریر کوبھی اس کے ہم پلہ یا اس سے اعلیٰ قرار نہ دیا جائے، نہ ہی اس کے مقابلے میں انسانی فکر کے زائیدہ کسی دستور و قانون کو لاکر کھڑا کیا جائے۔ ہم اس ضمن میں اللہ تعالیٰ کی منشاء اور حکم سے صرف سنت رسول اللہ ﷺ کو اپنے اس دستور یعنی قرآن مجید کی آخری اور حتمی تعبیر کا درجہ دے سکتے ہیں۔ کیونکہ سنت کی حثییت قرآنی فکر کے عملی نمونے کی ہے، جس سے سرمو انحراف قرآن مجید سے انحراف کے مترادف ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم، الفاظ و معانی اور جسم و روح کی حیثیت رکھتی ہیں اور سنت کی یہ حیثیت اور منزلت قرآن مجید سے حضرت محمد ﷺ کے گہرے ربط کی بناء پر ہے۔

حضرت عائشہ ؓ سے کسی نے رسول اکرم ﷺ کی سیرت و اخلاق کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا ''خلقه القرآن'' یعنی ''آپؐ کی سیرت و کردار عین قرآن ہے۔''

حضور اکرم ﷺ کی سیرت و اسوہ کا دوسرا نام ہی سنت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک گمراہ فرقے نے کتاب و سنت میں تضاد اور تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی اور اس طرح شبہات پھیلائے کہ سنت وحدیث کو پرکھنے کے لیے اسے قرآن پر پیش کرنا ضروری ہے تو حضرت سعید بن جبیرؓ نے تلخ لہجے میں فرمایا کہ:
''تمہیں یہ کہتے ہوئے شرم آنی چاہیے، کیا رسول اکرمﷺ (معاذ اللہ) قرآن کریم کی مخالفت کرسکتے تھے کہ ہم آپؐ کے فرمان کے لیے کوئی معیار اور کسوٹی تلاش کرنے کی جسارت کریں؟'' 7

امام شافعی نے ایسے ہی شبہات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:
''رسول اکرم ﷺ کا ہر قول و فعل قرآن کریم کا ہی مفہوم ہے۔ آپؐ نے ایسی کوئی بات کبھی کہی نہ کی، جو قرآن مجید سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔'' 8

گویا آپؐ کا فہم قرآن بھی الٰہامی اور ربانی تھا اور قرآن مجید کی اکملیت کا راز اسی میں مضمر ہے کہ اس کا صحیح فہم اور تعبیر سنت کی صورت میں موجود ہو۔ غور فرمائیے، کہ دنیا بھر میں صرف اسالمی دستور یعنی قرآن کریم کو ہی یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کی تعبیر بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعین شکل میں سب کے سامنے موجود ہے اور جس طرح یہ دستور اختلافات سے پاک ہے۔ اسی طرح اس کی صحیح (ثابت شدہ) تعبیر و تشریح بھی اختلافات سے مبّرا ہے۔

اس ضمن میں ایک برے مغالطٰے کا ازالہ ضروری ہے جو مختلف شکلوں میں مختلف حلقوں کی طرف سے پھیلایا جاتا ہے کہ اگریہ بات صحیح ہے تو پھر بعض احادیث بعض دوسری احادیث سے مختلف کیون نظر آتی ہیں؟ ہمارا جواب یہ ہے کہ اس کی وجہ عام طو رپر یہ ہوتی ہے کہ ہم احادیث کی صحت و ضعف کو پرکھے بغیر مفہوم کو خلط ملط کردیتے ہیں۔ حالانکہ ایسی احادیث ضعیف ہوتی ہین ۔ جن کی صراحت محدثین نے مؤلفات میں کردی ہے بلکہ روایت حدیث بشمول اسماء الرجال کے نام سے کسی حدیث کی صحت کو جانچنے کا ایسا فن محدثین نے پیش کیاہے، جس کی علم و فن کی دنیا میں کوئی دوسری مثال نہیں۔ جب جانچ اور پرکھ کا یہ حال ہو تو کوئی صحیح حدیث کسی دوسری صحیح حدیث کے خلاف کیسے ہوسکتی ہے؟ یہ بالکل ناممکن بات ہے۔

بالفرض اگر کوئی صحیح حدیث کسی دوسری حدیث سے بظاہر مختلف نظر آئے بھی تو اسے اسی نظر سے دیکھا جائے گا، جس نظر سے قرآن کی بعض آیات بعض دوسری آیات سے بظاہر مختلف نظر آتی ہیں۔ چونکہ اخلاص سے غور و تدبر کرنےکے بعد قرآن کا قرآن سے یہ ظاہری اختلاف ختم ہوجاتا ہے، اسی طرح کسی صحیح حدیث کا کسی دوسری حدیث سے اختلاف بھی بادنیٰ تامل ختم ہوجائے گا۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ کتاب و سنت دونوں اللہ کی طرف سے رحی ہیں، تو وحی میں کسی اختلاف کا پایا جانا اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشاء میں اختلاف قرار پائےگا، جو ناممکن ہے۔

اس بارے میں قرآن مجید ہی میں واضح ارشاد ہے:
﴿وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ‌ ٱللَّهِ لَوَجَدُوافِيهِ ٱخْتِلَـٰفًا كَثِيرًا ﴿٨٢...سورۃ النساء
کہ '' اگر قرآن مجید اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو لوگ اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔''

چونکہ قرآن کریم کی طرح سنت رسول اللہ ﷺ بھی، اللہ تعالیٰ کی طرف سے الٰہامی چیز ہے، اس لیے اس میں اختلاف کا پایا جانا بھی بعید از عقل ہے۔ رسول اکرم ﷺ کی عصمت اور حفاظت اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ذمہ لے لی ہے اور رسول اللہ ﷺ کا قول و فعل یا کسی چیز کوبیان کرنا ان کی ذات سے الگ کوئی چیز نہیں۔ اس لیے اس کی حفاظت کا ذمہ بھی اللہ تعالیٰ نے لیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
﴿إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُۥ وَقُرْ‌ءَانَهُ.................... ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُۥ... ﴿القیامة: 17، 19﴾
یعنی ''قرآن کا جمع کرنا اور پڑھنا ہمارے ذمہ ہے ................ پھر ............اس کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے۔''

یہاں بیان سے مراد سنت رسول اللہ ﷺ ہے۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی ملک میں دستور کی تشکیل و توضیع کے بعد جب اس کی تعبیر کا مرحلہ آتا ہے تو اختلاف کا پیدا ہونا عین فطری ہے، لیکن اسلام میں تعبیر دستور بھی متفقہ ہے اور یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جو اسے سب سے ممتاز اور برتر دستور تسلیم کرنے پر مجبور کرتی ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ اعلیٰ عدالتوں میں جب بسا اوقات حکومت کے قوانین اور ماتحت عدالتوں کے فیصلون کو چیلنج کیا جاتا ہے تو مدعی اور مدعا علیہ ایک ہی دستور سے اپنے اپنے حق میں دلائل پیش کرتے ہیں۔ لیکن اس طرح کے قانونی نظائر اور فیصلوں کے اختلافات کو کوئی شخص بھی دستور کا نقص قرار نہیں دیتا، اور نہ دے سکتا ہے۔ حالانکہ یہ فیصلے آپس میں ایک دوسرے سےبالکل مختلف ہوتے ہیں۔ یہ اس لیے کہ اس کی حیثیت محض تشریح قانون کی ہوتی ہے۔ اسی طرح اسلام چونکہ فقہی آراء کو دستوری حیثیت سے تقلیم نہیں کرتا اور صرف سنت کو تعبیر دستور کا درجہ دیتا ہے، جو ہر طرح کے اختلافات سے پاک ہے، اس لیے فقہی آراء کی حیثیت شریعت میں صرف انہی قانونی نظائر اور فیصلوں کی سی ہے جن کو دستور کا سقم قرار دینا بالکل بےمعنی اور اس طرح فقہی آراء کو زیادہ سے زیادہ وہی حیثیت دی جاسکتی ہے جو اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں یا قانونی نظائر کو حاصل ہیں جنہیں عدالتوں میں ہر فریق محض اپنے مؤقف کو مضبوط کرنے یا حالات و واقعات کے زیادہ قریب ہونے کی بناء پر بطور دلیل پیش کرتا ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ ان فقہی آراء کی اس حیثیت کے باوجود، ان کے اختلافات سے نجات حاصل کرنے کی راہ بھی ہمیں بتا دی گئی ہے۔ چنانچہ اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں کہ اصل چیز دین یعنی اطاعت الٰہی ہے۔لہٰذا فقہی آراء کو کتاب وسنت کے ایک معاون کی حیثیت سے سامنے رکھا کر کتاب و سنت کی منشاء سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور جو رائے کتاب و سنت کے مطابق ہو اسے فیصلہ کے وقت اختیار کرنا چاہیے اور جو رائے کتاب وسنت کے مطابقت نہ رکھتی ہو اس کو چھوڑ دینا چاہیے، کیونکہ کتاب و سنت اللہ تعالیٰ کی رضا اور منشاء کا نام ہے۔ بالفاظ دیگر اسلام نے فقہی اختلافات کو دستوری حیثیت نہ دینے کے باوجود، ان کے مضر اثرات سے محفوظ رہنے کا طریقہ بھی بتا دیا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی وغیرہ جن حضرات نے کتاب و سنت سے براہ رسات راہنمائی لینے کی طرف جو توجہ دلائی ہے، یہاں تک تو ان کی بات بالکل درست ہے۔ لیکن ان کے ہاں اصل مغالطٰہ یہ ہےکہ انہوں نے کتاب و سنت سے حاصل کردہ فہم کو بھی دستوری حیثیت دینے اور ان کو قانون کے ساتھ شامل کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ جو قابل قبول نہیں اور جس کی وجہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں۔

اس کے علاوہ ایک اور نقطہ نظر کہ تغیر زمانہ سے فقہاء کے اجتہادات کو بدلا جاسکتا ہے اور وہ سابقہ فقہیں جنہیں خاص ادوار میں اہم حیثیت حاصل رہی ہے وہ بھی اصول اجتہاد کے تحت بدلی جاسکتی ہیں، چونکہ یہ بات لچک اور وسعت کی طرف اشارہ کرتی ہے، اس لیے اہل فقہ کا یہ کہنا ہےکہ ماضی کی طرح اب بھی فقہ کو ہی اسلامی مملکت کا دستور ہونا چاہیے اور جہاں کہیں تغیر زمانہ متقاضی ہو، اس میں اصول اجماع کے تحت ترمیم کردی جائے۔ لیکن تھوڑے سے غوروفکر کے بعد یہ بات واضح ہوجائے گی کہ ایک ہی غلطی ایک اوررنگ میں دہرائی جارہی ہے۔ حالانکہ قرآن مجید کو دستور قرار دینے اور سنت کو اس کی آخری حتمی تعبیر مان لینے کے بعد کسی ایسی تبدیلی کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی، جو طرح طرح کے اختلافات کا پیش خیمہ ہے۔ اس طرح اسلامی مملکت کے دستور کے دائمی اور اصل حیثیت مجروح ہونے سے بھی محفوظ رہ جاتی ہے اور یہ دوسری خصوصیت ہے جو صرف اسلامی دستور کا حصہ ہے۔

 

البتہ کتاب و سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اگر مخصوص حالات اور تغیر زمانہ سے کچھ لازماً اثرات پڑتے ہیں، جن کی وجہ سے بسا اوقات مختلف فتاویٰ اور آراء کا تنوع سامنے آتا ہے تو کتاب و سنت کی منشاء کو حالات کی تبدیلی پر لاگو کرتے ہوئے اس کی کچھ نہ کچھ گنجائش بھی بہرحال موجو دہے یعنی کسی کاص واقعہ یا خاص حالات کی بناء پرایک فتویٰ دیا گیا اور حالات کے بدلنے سے مجبوراً دوسرا فتویٰ دینا پڑا۔ جہاں تک اس گنجائش کا تعلق ہے تو یہ گنجائش خود کتاب و سنت کی نصوص میں موجود ہے اور اسی توسع کی بناء پر رسالت محمدیؐ کو ابدی قرار دیا گیا ہے۔ انسانی دساتیر اس وقت تک قابلق بول قرار نہیں پاتے جب تک ان میں لچک اور وسعت نہ پائی جاتی ہو اور کسی دستور کے تحت اسی دستور میں ترمیم کی گنجائش موجود نہ ہو۔ چاہے اس ترمیم کے لیے بڑی کڑی شرائط ہی کیوں نہ رکھی گئی ہوں۔ اس کے برعکس چونکہ کتاب و سنت وحی ہیں اور عالم الغیب ہستی کی طرف سے ہیں لہٰذا ہم اس میں کسی تبدیلی کے مجاز نہیں ہیں اور نہ ہی اس کی ضرورت پاتے ہیں۔ یہاں پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کتاب و سنت کے نفاذ کی ابدیت اور قطعیت کی وضاحت بھی کردی جائے۔ کیونکہ کتاب و سنت کی اس ابدیت اور قطعیت کے باوجود مختلف حلقوں سے یہ مطالبہ باربار کیا جاتا ہے کہ ہم نفاذ شریعت چاہتے ہیں اور یہی مطالبہ حکومت سے کیا جاتا ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں لفظ نفاذ، ان معنوں میں مشہور ہوچکا ہے کہ جب تک کوئی قانون سرکاری سطح پر نافذ العمل نہ ہو، اس کو نافذ نہیں سمجھا جاتا۔ حالانکہ یہ خاصہ دنیاوی اور وضعی قوانین کا ہے، شریعت محمدی کا نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اُسے آخری پیغمبر محمد ﷺ کے ذریعے تاقیامت نافذ کردیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سرکاری اعلان کے بغیر نماز پڑھتے، روزہ رکھتے ہیں۔ اسی طرح شادی، بیاہ، وراثت، وصیت اور دوسرے احکام پر کسی سرکاری اعلان کے بغیر عمل کرتے ہیں اسی بناء پر اللہ کا خوف کھانے والے اپنی اپنی تجارتوں میں سُود اور جوا سے پرہیز کرتے ہیں۔ اگر یہ سب چیزیں نافذ نہ ہوں تو ان پر عمل کیوں ضروری ہے؟ جبکہ قانون پر عمل اسی وقت ضروری ہوتا ہے جب وہ نافذالعمل ہو۔9


دراصل حکومتوں سے اس مطالبہ کہ وہ اسلامی قانون نافذ کریں، کا مقصد یہ ہے کہ جو احکام شریعت نے حکومت کو دیئے ہیں وہ ان پرعمل پیرا ہو۔ جیسے حدود و تعزیرات، اقامت صلوٰة، ادائے زکوٰة، امربالمعروف ، نہی عن المنکر وغیرہ۔ یہاں پر لفظ نفاذ کااستعمال اپنے معروف معنوں میں غلط ہے۔کیونکہ اسلامی حکومت کا یہ کام نہیں کہ وہ شریعت کا کوئی حصہ وضع کرے اور اس کے بعد اسے نافذ کرے، بلکہ حکومت ہو یافرد، ان کا فرض یہ ہےکہ وہ شریعت محمدیہ کے جملہ احکام پورے کریں۔ اس میں اکثر احکام کے مخاطب فرد و حکومت دونوں ہیں اور بعض احکام میں کسی ایک کی ذمہ داری زیادہ ہے۔ تاہم ہر دو صورتوں میں احکام بجا لانے کے فرد و حکومت دونوں مخاطب ہیں۔ اور اگر کوئی کوتاہی ہوتی ہے تو وہ قابل گرفت ہوگی اور اگر فرد، ان احکام کو تسلیم کرنے، یا حکومت ان احکام کے اعلان سے انکار کرے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔اس لیے بہتر یہ ہے کہ شریعت محمدیؐ کی اطاعت کا مطالبہ کرنےوالے لفظ نفاذ کو ذومعنی ہونے کی بناء پر ترک کردیں اور نفاذ شریعت کی بجائے اطاعت شریعت، اقامت دین، یا شریعت کی عملداری کی ترکیبات استعمال کریں۔

خلاصہ کلام یہ ہےکہ متذکرہ بالا ساتوں نقطہائے نظر جزوی طو رپراپنے اندر کچھ نہ کچھ درستی رکھنے کے باوجود، بحیثیت مجموعی غلط ہیں۔ صحیح نقطہ نظریہ ہے کہ کتاب و سنت کی حیثیت دستوری ہے جو تاقیامت نافذ العمل ہے، اس میں نہ تو کوئی تبدیلی ہوسکتی ہے اور نہ تنسیخ!

ویسے بھی ایک مسلم ریاست میں کتاب و سنت کی راہنمائی کی موجودگی میں کسی جدید قانون و دستور کی توضیع و اختراع صریح بدعت کے مترادف ہے، اور تعلیمات شریعت سے کھلی بغاوت۔
یہاں پر سعودی عرب کی مثال ہمارے لیے مشعل راہ بن سکتی ہے، جہاں کتاب و سنت کے علاوہ کوئی مدوّن دستور و قانون نافذ العمل نہ ہے۔ حتیٰ کہ سعودی عرب قرآن کریم کو بطور دستور اقوام متحدہ میں پیش کرچکی ہے۔
آخر میں ایک بار پھر ہم تکرار کریں گے کہ ہمارے نزدیک دستوری حیثیت صرف کتاب و سنت کو حاصل ہے اور وہ تاقیامت نافذ العمل ہے اور اس میں نہ تو کوئی تبدیلی ہوسکتی ہے اور نہ ہی اس کے کسی حکم یا شق کو منسوخ کیا جاسکتا ہے۔

فرد ہو یا حکومت ، دونوں اس کے پابند ہیں۔ ان کے جملہ امور اسی کی تعلیمات کی روشنی میں انجام پانے چاہیئیں اور جملہ پابندیاں بھی وہی گوارا ہیں جو کتاب و سنت کی رُو سے لاگو ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو آزاد پیدا کیا ہے، اس لیے آزادی اس کاپیدائشی حق ہے، نیز اس کی آزادی کی حدود اور دائرہ کار متعین کرنے والا بھی وہی خود ہے۔

یاد رہے، ہمارا نقطہ نظر دین میں کوئی نئی بات نہیں۔ بلکہ یہ وہ بنیاد ہے جس پر چودہ سو سال پہلے حضور اکرم ﷺ نے ایک مملکت کے تمام امور کی بنیاد رکھی تھی۔ اور خلفاء راشدین اسی بنیاد پر نظم حکومت چلاتے رہے۔ فرمان رسولؐ ہے) ''علیکم بسنتي و سنة الخلفاء الراشدین'' کہ ''میری سنت اور خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑو''

وآخردعوانا أن الحمدللہ رب العلٰمین!


حوالہ جات
1. رپورٹ تقاریر و تجاویز علماء کنونشن منعقدہ 1980ء، صفحہ164
2. تشکیل جدید الٰہیات (ترجمہ خطبات اقبال از نذیر نیازی) ص268
3. سہ ماہی ''منہاج'' اجتہاد نمبر 48
4. ''فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر'' صفحہ 27
5. درحقیقت یہ نظریہ سرمایہ دارانہ جموہریت کے ردّعمل میں اشتراکی آمریت سے متاثر ہوکر اختیار کیا گیا ہے، جو سرمایہ داریت کی انتہائی شکل ہے۔
6. ان نکات کے پیش کرنے کا مطلب یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ ہم علماء کی مختلف آراء یا فقہوں سے استفادہ کے قائل نہیں۔ یہ اجتہادی کاوشیں لائق صد تحسین ہیں لیکن اس حقیقت سے بھی صرف نظر ممکن نہیں کہ ان اجتہادی کاوشوں کے پیچھے علمی رجحانات ، عرف و زمانہ اور پیش آمدہ مسائل کی مخصوص نوعیت بھی کارفرما رہی ہے۔اس لیے نوعیت اور مسائل کے بدلنےسے اجتہادی رائے بھی بدل جائے گی۔ لہٰذا علماء کی آراء کا جو باہمی اختلاف نظر اتا ہے اس کا بڑا حصہ ایسی نو عیتوں اور مسائل کی تبدیلی کی بناء پر بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت نو کامل اور دائمی ہے، لیکن علماء اور فقہاء کی آراء کی حیثیت دائمی اور کامل نہیں ہے۔ پھر بُعد زمانہ سے جب حالات اور عرف میں کافی تبدیلی آچکی ہو اور تہذیب و تمدن بھی نئے رنگ اختیار کرچکے ہوں تو سابقہ فقہون کو من و عن قانونی حیثیت دینا قطعاً درست نہیں ہے۔ اسی طرح اکثریت و اقلیت کی بناء پر مخصوص رائے کو قبول کرنا کسی طور پر معقول نہیں۔ اصل شے کتاب و سنت ہے جو الہامی ہونے کی بناء پر کامل و اکمل ہے اور ابدی بھی۔ چاہیے یہ کہ جب بھی کوئی نیا مسئلہ یا الجھن درپیش ہو ، سابقہ یا جدید فقہوں سے قانونی نظائر کے طور پر استفادہ کیا جائے اور کتاب و سنت کی منشاء سمجھنے ک ےلیے اس فقہی رائے سے تائید حاصل کی جائے جو پیش آمدہ مسئلہ میں زیادہ واضح ہو۔ اسی طرح سے زمانے کی مقتضیات اور عامة الناس کی بہبودی کا لحاظ رہے گا اور منشائے الٰہی میں تبدیلی لازم نہ آئے گی۔ ایسی رائے کو تائیدی طور پر اپنانے سے حنفی، شافعی، جعفری ، ظاہری یا کسی بھی جدید فقہ سے تعصب مناسب نہ ہوگا، کیونکہ ممکن ہے کہ باہمی اختلافی آراء میں سے کسی مسئلہ میں اگر ایک فقیہ کی رائے پیش آمدہ مسئلہ میں منشائے الٰہی کے زیادہ قریب ہو تو دوسرے مسئلہ میں کسی دیگر فقیہ کی۔ نیز اس طریقہ سے فرقہ وارانہ تعصب، گروہ بندی اور شخصیت پرستی کی حوصلہ شکنی بھی ممکن ہوگی۔
7. مسند دارمی
8. الرسالہ۔ امام شافعی
9. ایک دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ قرآن کریم کا انداز دستوری نہیں۔ دراصل یہ مغالطٰہ اس لیے ہوا ہے کہ اس نظریہ کی بنیاد مذہب و سیاست کی تقسیم پر ہے اور جدید دستوروں کا تعلق صرف سیاسیات سے ہوتا ہے جبکہ قرآن کریم دستور زندگی ہے اور اس کا انداز بھی دینی اور معاشرتی مسائل کی تنظیم، راہنمائی اور فکر آخرت سے ہے۔ اس اعتبار سے اس کا انداز انسانی فطرت سے نہایت مناسب ہے نیز جدید سیاسی تصورات کی رو سے بھی دستور کی دفعہ وار ترتیب ضروری نہ ہے کیونکہ دستور غیر تحریری بھی ہوسکتا ہے جو رسم و رواج پر مبنی ہوتا ہے جن کی قانونی تشریح ہوچکی ہو۔ برطانیہ کا عرف علم (Common Law) اس کی واضح مثال ہے۔