قرآن مجید مسئہ شہادت کی بحث کو مزید طول نہ دیا جائے

مدیر اعلیٰ ''محدث'' کے نام مولانا عبدالمجید صاحب کا مکتوب گرامی
مکرمی ! السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ
نصاب شہادت کے خلاف چند مغرب زدہ عورتوں کے مظاہرہ کے بعد سے لے کر اب تک مسئلہ شہادت سے متعلق مولانا محمد صدیق صاحب اور مولانا اکرام اللہ ساجد صاحب کی بحث جماعتی جرائد و اخبارات میں پڑھنے میں آرہی ہے۔ جہاں تک دلائل کا تعلق ہے، فریقین کی طرف سےکافی کچھ لکھا جاچکا ہے او راس حد تک یہ بحث مفید بھی تھی، لیکن ہفت روزہ اہلحدیث میں مولانا صدیق صاحب کا تازہ مضمون پڑھ کر سخت کوفت ہوئی کہ بالآخر انہوں نے اس تحقیقی مسئلہ کو ذاتیات پر اتر کر کفر و اسلام کا مسئلہ بنا دیا ہے جبکہ بحث دلائل سے ہٹ کر کج بحثی کی صورت اختیار کرگئی ہے اور جہاں تک نفس مسئلہ کا تعلق ہے ، مولانا ساجد صاحب کیفیت شہادت میں بار بار یہ لکھ رہے ہیں کہ دونوں عورتیں مل کر گواہی دیں گی۔ اسی طرح مولانا محمد صدیق صاحب نصاب شہادت کو مسلمہ مسئلہ قرار دے رہے ہیں۔ جس سے ایک قاری بظاہر مؤقف ایک ہونے کے باوجود سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ فریقین کا آپس میں اختلاف کیا ہے؟ بعض عورتوں کی ہنگامہ آرائی کے بعد بطور صفائی مولانا محمد صدیق صاحب کے پہلے آرٹیکل کے مطالعہ سے میں سمجھتا ہوں کہ مولانا محمد صدیق صاحب انداز شہادت میں صرف ایک عورت کے شاہدہ بنانے پر زور اس لیےدے رہے ہیں کہ اس صورت میں مرد کی طرح گواہ صرف ایک عورت ہی ہے۔ یعنی اگر ایک عورت گواہی نہ بھولے تو اس کی شہادت کافی ہوگی کیونکہ یاد دلانے والی کی ضرورت تو اس وقت پڑتی ہے جب پہلی بھول جائے او راگرپہلی بھول بھی جائے تو اس کے نزدیک دوسری یاد دلا کر صرف پہلی کا کام پورا کرتی ہے، اس کی اپنی کوئی شہادت نہین ہے۔ اگر صورت حال یہی ہے تو انداز شہادت کو موضوع بحث بنا کر وہ نصاب کو مسلمہ مسئلہ بتانے کے باوجود نصاب شہادت پر اثر انداز ہورہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا ساجد صاحب احادیث رسولؐ پیش کرکے انہیں نصاب شہادت کی غلط تاویل سے روک رہے ہین لیکن مولانا محمد صدیق صاحب بار بار ''دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے'' پر تبصرہ کرکے یہ زور دے رہے ہین کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ دونوں عورتیں الگ الگ گواہی دیں گی۔ حالانکہ اوّلاً تو مولانا ساجد صاحب نے الگ الگ کی یہ بات کہیں بھی نہیں لکھی یا کم از کم میری نظر سے نہیں گزری اور اگر مولانا محمد صدیق صاحب کی یہ بات تسلیم بھی کرلی جائے تو مولانا ساجد صاحب کے جن الفاظ سے یہ مفہوم انہوں نےاخذ کیا ہے ان کے اپنے نہیں، بلکہ یہ ایک صحیح حدیث کا ترجمہ ہے۔ چنانچہ اگر اس ترجمے سے یہی لازم آتا ہے جو وہ بیان کررہے ہیں، تو پھر اس کی زد حدیث پرپڑتی ہے۔جو بہرحال قابل افسوس ہے۔ علاوہ ازیں مولانا محمد صدیق صاحب حدیث کے اس واضح مفہوم کی تاویل کرنے کے لیے قرآن کریم کو حدیث کا مآخذ بلکہ بیان قرار دے رہے ہیں حالانکہ قرآن مجید حدیث کا مآخذ تو ہے اور مذکورہ احادیث اسی آیت شہادت کا بیان ہیں۔ تاہم یہاں تبیین کی ذمہ داری حدیث سے لے کر قرآن مجید پر ڈالی جارہی ہے جو درست نہیں ہے۔ علماء کامشہور قول ہے کہ ''السنة قاضیة علی کتاب اللہ ولیس الکتاب قاضیا علی السنة'' یعنی ''قرآن میں اختلافات کا فیصلہ سنت رسولؐ سے ہوتا ہے، نہ سنت کے اختلافات کا فیصلہ قرآن مجید کرتا ہے۔''

مندرجہ بالا نکات میرے ناقص فہم میں آئے ہیں۔میری درخواست ہے کہ اس بحث کو مزید طول نہ دیا جائے، بالخصوص جبکہ بحث ذاتی حملوں تک پہنچ چکی ہے جو علمی شان کے منافی ہے۔ بہتر ہوگا کہ آپ اس مسئلہ پر اپنا محاکمہ شائع کرکے بحث کو ختم کردیں۔ والسلام

عبدالمجید بھٹی خطیب جامع مسجد اہل حدیث نواں کوٹ

ڈاکخانہ مدن چک ضلع گوجرانوالہ، مورخہ83؍9؍7

۔۔۔۔:::::::۔۔۔۔۔


جناب محمد اشرف جاوید،لائبریرین
جامعہ سلفیہ لائبریری، فیصل آباد

استدراک
محترم عبدالرشید عراقی صاحب کا ایک مضمون ماہ مئی 1983ء کے شمارہ ''محدث'' میں شائع ہوا ہے۔ جس میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی کے حالات بیان کرتے ہوئے انہوں نے حضرت کی تصانیف صرف تیرہ گنوائی ہیں جبکہ ان کی تصانیف ساٹھ کے قریب ہیں۔

علاوہ ازیں محترم عراقی صاحب نے حضرت کی مشہور تصنیف ''لمعات التنقیح'' کو غیر مطبوعہ ظاہر کیا ہے او رحوالہ کے طور پر انہوں نے ''حیات عبدالحق محدث'' از خلیل احمد نظامی کا نام لیاہے جواوّلاً ندوة المصنفین انڈیا سے طبع ہوئی اور دوسری مرتبہ مکتبہ رحمانیہ لاہور نے اسے شائع کیا۔ چنانچہ عراقی صاحب نے اس کتاب سے یہ حوالہ نوٹ کیا ہے کہ ''یہ کتاب ابھی تک غیرمطبوعہ ہے!'' حالانکہ ''لمعات التنقیح'' کی جلد اوّل 1970ء میں عبدالرحمٰن گوہڑوی صاحب نے شائع کی۔ دوسری جلد 1971ء میں، تیسری 1972ء میں اور چوتھی جلد 1975ء میں طبع ہوئی۔ اس کتاب کی آخری حدیث جس کا نمبر 1771 ہے، حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے اور آخری باب ''باب زیارة القبور'' فصل ثالث تک مکمل ہے۔ مطبع کا نام مکتبہ معارف علمیہ شیش محل روڈ لاہور ہے۔

بہرحال محترم عراقی صاحب نے اصل کتاب کی طرف مراجعت کی زحمت گوارا نہیںفرمائی اور حوالہ نقل کردیا۔ موصوف کے مضامین جماعتی جرائد و اخبارات میں اکثر شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ان حالات میں ہم ان سے بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ حوالہ نقل کرنے سے قبل اصل کی طرف رجوع کرلیا کریں تاکہ تاریخ و سیر کا یہ سلسلہ محض مشغلہ کی حد تک محدود نہ رہے بلکہ یہ ٹھوس بنیادوں پراستوار ہو۔ شکریہ!