معالم المدینة المنورۃ

مسجد قباء:
قباء اور مدینہ منورہ کے جنوب میں تقریباً تین کلومیٹر کے فاصلے پر ایک مختصر سی آبادی ہے۔ جہاں نبی کریم ﷺ نے ہجرت کے موقعہ پر مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ آتے ہوئے چودہ دن قیام فرمایا۔ اور اپنے قیام کے دوران یہ مسجد تعمیر فرمائی۔ اسلام میں تعمیر کی گئی مساجد میں یہ سب سے پہلی مسجد ہے۔
آنحضرت ﷺ کی عادتِ مبارکہ تھی کہ ہر ہفتہ کے روز کبھی پیدل اور کبھی سوار ہو کر قبا تشریف لاتے اور مسجد میں نماز ادا فرماتے۔ 1
عَنِ ابْنِ عُمَر رَضِیَ الله تَعَالٰی عَنْهُ قَالَ کَانَ رَسُوْلَ الله ﷺ یَأْتِیْ قَبَاءً مَاشِیًا وَرَاکِبًا فَیُصَلِّي فِيه رَکْعَتَیْنِ (صحیح البخاری باب اتیان مسجد قبا ماشیا وراکبا۔ 2
یعنی ''نبی ﷺ پیدل یا سوار ہو کر قباء تشریف لاتے اور دو رکعت (نماز نفل) ادا کرتے۔''
عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنه کَانَ یَأْتِي مَاشِیًا وَرَاکِبًا وَیَذکُرُ أَنَّ النَّبِي ﷺ کَانَ یَفْعَلُ ذَالِكَ 3
مسجد قباء میں نماز کی اہمیت:
اس مسجد میں دو رکعت نماز ادا کرنے کا ثواب ایک عمرہ کے برابر ہے:
قَالَ أَبُوْ أُمَامَة بْنِ سَھْلِ بْنِ حَنِیْفٍ قَالَ أَبِي قَالَ رَسُوْلُ اللّٰه ﷺ مَنْ خَرَجَ حَتّٰی یَأْتِيَ ھٰذَا الْمَسْجِدَ مَسْجِدَ قَبَاءٍ فَصَلّٰي فِیْه کَانَ لَه عَدْلُ عُمْرَة۔''4
''حضرت ابو امامہؓ اپنے والد سہل بن حنیفؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: '' جو شخص مسجد قباء میں آکر نماز ادا کرتا ہے، اسے ایک عمرہ کا ثواب ملتا ہے!''
مسجد قباء کا ذکر: قرآنِ کریم میں:
اللہ تعالیٰ نے اس مسجد کی تعریف قرآنِ مجید میں بھی فرمائی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
﴿لَّمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَىٰ مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَن تَقُومَ فِيهِ ۚ فِيهِ رِ‌جَالٌ يُحِبُّونَ أَن يَتَطَهَّرُ‌وا ۚ وَاللَّـهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِ‌ينَ ﴿١٠٨...سورۃ التوبہ
''جس مسجد کی بنیاد پہلے دن سے ہی تقویٰ پر رکھی گئی ہے وہ زیادہ حق دار ہے کہ آپ وہاں کھڑے ہوں۔ اس میں یعنی قباء میں ایسے لوگ ہیں جو طہارت پسند ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی ایسے طہارت پسند لوگوں سے محبت کرتا ہے۔''
مسجد الجمعة:
قباء اور مدینہ منورہ کے درمیان راستہ میں ایک وادی ہے جس کا نام ''رانوناء'' ہے۔ یہاں سالم بن عوف کا قبیلہ آباد تھا۔ آنحضرت ﷺ جمعہ کے روز زوال سے کچھ پہلے قباء سے مدینہ کو روانہ ہوئے۔
راستہ میں جمعہ کا وقت ہو گیا اور اس وادی میں نمازِ جمعہ ادا کی۔ اس مقام پر ایک مسجد تعمیر کی گئی ہے جو مسجد الجمعة کے نام سے مشہور ہے۔ یہ مسجد قباء سے تقریباً 500 میٹر اور مدینہ منورہ سے 2500 میٹر کے فاصلہ پر ہے۔
مسجد النبی ﷺ:
آنحضرت ﷺ جب مدینہ پہنچے تو آپ ﷺ کی میزبانی کا شرف حاصل کرنے کے لئے ہر مسلمان بے تاب تھا۔ ہر ایک نے اظہار کیا کہ حضرت میرے ہاں تشریف فرما ہوں۔ مگر آپ ﷺ نے یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا اور فرمایا کہ میں اس آدمی کا مہمان بنوں گا جس کے گھر کے سامنے اللہ تعالیٰ میری سواری کو بٹھا دے گا کیونکہ یہ اللہ رب العزت کی طرف سے مامور ہے۔
آپؐ کی سواری مدینہ کی گلیوں کا چکر لگانے کے بعد حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مکان کے سامنے آ بیٹھی۔ انہوں نے سامان اُٹھا کر اپنے گھر رکھ لیا اور آپؐ انہی کے مہمان ٹھہرے۔
حضرت ابو ایوبؓ کے گھر کے سامنے ایک کھلی جگہ تھی۔ آپؐ نے دریافت فرمایا کہ یہ کس کی جگہ ہے؟ بتایا گیا کہ دو یتیم لڑکوں کی ہے۔ ان لڑکوں کے کفیل نے بلا قیمت یہ جگہ پیش کی۔ مگر آنحضرت ﷺ نے بلا قیمت اِسے لینے سے انکار کر دیا او دس دینار میں یہ جگہ خرید لی۔ یہ قیمت حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے اپنی گرہ سے ادا کی۔ چنانچہ اس جگہ پر یہ مسجد تعمیر کی گئی جو مسجد نبوی کے نام سے معروف ہے۔
ملحوظہ:
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان والی جگہ پر آج کل ''مجوہرات الغسال'' (الغسال جیولرز) کی دوکان ہے۔ یہ دوکان مسجد نبوی کے جنوب مشرقی گوشہ کے قریب جنوب کی سمت میں مکتبہ عارفِ حکمت کے ساتھ واقع ہے۔
مسجد نبوی کی فضیلت:
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ''اس مسجد میں ایک نماز باقی مساجد میں ایک ہزار نماز کے برابر ہے:
عَنْ اَبِي ھُرَیْرَةَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ أَنَّ النَّبِي ﷺ قَالَ صَلوٰة فِیْ مَسْجِدِیْ ھٰذَا اَفْضَلُ مِنْ اَلْفٍ صَلٰوة فِیْمَا سِوَاہُ اِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ'' 5
کہ ''میری مسجد میں ایک نماز مسجد حرام (بیت اللہ) کے علاوہ باقی مساجد میں ہزار نمازوں کے برابر ہے!''
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَة رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ قَالَ لَا تُشَدُّ الرِّحَالٌ اِلَّا اِلٰی ثَلَاثَة مَسَاجِدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَسْجِدِ الرَّسُوْلِ وَمَسْجِد الْاَقْصٰی''6
''روئے زمین پر تین مسجدوں کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف، اسے افضل جانتے ہوئے سفر کرنا ناجائز ہے (1) بیت اللہ الحرام (2) مسجد الرسولؐ (3) مسجد الاقصٰی!''
روضة من ریاض الجّنة:
عَنْ عَبَدِ اللّہِ بْنِ زَیْدِ الْمَازُنِیِّ رَضِیَ الله تَعَالٰی عَنْه اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰه ﷺ قَالَ: مَا بَیْنَ بَیْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَة مِّنْ رِیَاضِ الْجَنَّة'' 7
کہ ''میرے منبر اور میرے گھر کے درمیان والی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے!''
اور صحیحین میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ان الفاظ کا اضافہ بھی ہے:
''وَمِنْبَرِي عَلٰی حَوْضِي!''
کہ ''میرا منبر قیامت کے روز میرے حوض پر ہو گا!''
اور طبرانی کی روایت میں ہے:
مَا بَیْنَ الْمِنْبَرِ وَبَیْتِ عَائِشَة رَوْضَة مِّنْ رِیَاضِ الْجَنَّة!
کہ ''میرے منبر اور عائشہؓ کے گھر کے درمیان والی جگہ جنت کے باغیچوں میں سے ایک ہے!''
اور مسند بزار کے الفاظ یہ ہیں:
''مَا بَیْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَة مِّنْ رِّیَاضِ الْجَنَّة!''
طبرانی اور مسند بزار کے الفاظ کو صحیح کی روایات کے ساتھ ملا کر یہ مفہوم حاصل ہوتا ہے کہ ان احادیث میں بیت سے مراد صرف حضرت عائشہؓ کا گھر ہے۔ دیگر ازواجِ مطہراتؓ کے بیوت سے ریاض الجنة کی تحدید نہ ہو گی۔
اس مقام کی اس فضیلت کی وجہ سے یہاں ہر وقت لوگوں کا ہجوم رہتا ہے اور لوگ ذکر و اذکار میں مشغول رہتے ہیں۔ اور عامة الناس اس مشرف مقام میں جگہ پانے کے لئے سخت بیتابی کا اظہار کرتے ہیں۔ معلوم رہے کہ مسجد نبوی کے تمام حصوں میں نماز کا ثواب برابر ہے۔ اور اب تو امام کا مصلیٰ اس حد سے چھ صفیں آگے ہے۔ اس طرح اگر ''أتموا الصفوف الأول فالأول'' کا حکم اور صفِ اول کی فضیلت کی احادیث کو جمع کیا جائے تو بلاشبہ صفِ اول کو ترجیح ہو گی اور اس سے اس مقامِ مشرف کی فضیلت میں کوئی کمی ظاہری نہیں ہوتی۔ اور جمع(i) کی صورت یہ ہے کہ ترتیب صفوف کا لحاظ کرتے ہوئے اگر موقعہ ملے تو غنیمت ہے۔ مگر پہلی صفوں کو ناقص رکھنا یا ریاض الجنة میں زیادہ بھیڑ کرنا کہ سکون و اطمینان سے نماز بھی نہ ہو سکے، یہ آدابِ نماز و نظامِ اسلام کے خلاف ہے۔
موجودہ تعمیر میں ریاض الجنة میں واقع ستونوں پر علامت کے طور پر سفید روغن کیا گیا ہے۔
الصُّفّہ:
عہدِ نبوی میں جن مسلمانوں کے پاس مدینہ میں کوئی مکان نہ ہوتا وہ عام مسلمانوں کے مہمان ہوتے اور ان کا اکثر وقت مسجدِ نبوی میں گزرتا۔ ان کے بیٹھنے کے لئے مسجدِ نبوی کے باہر بائیں جانب ایک چبوترہ بنایا گیا تھا جہاں دوسرے مسلمان بھی آکر ان کے پاس بیٹھے رہتے۔ ابتداء میں جب بیت المقدس قبلہ تھا تو یہ چبوترہ مسجد کے باہر مغرب کی جانب تھا۔ تحویلِ قبلہ کے بعد یہ چبوترہ مسجد کے اندر آگیا ہے۔ جب باب النساء سے مسجد میں داخل ہوں تو بائیں ہاتھ دروازہ سے متصل چبوترہ عام جگہ سے تقریباً نصف میٹر بلند موجود ہے۔
مسجد نبوی کے دروازے:
موجودہ تعمیر میں مسجد نبوی کے دس دروازے ہیں:
1. باب السلام (باب مروان)
2. باب الرحمة (بابِ عاتکہ)
3. باب السلطان عبد المجید العثمانی
4. باب النساء
5. بابِ جبریل
6. باب صدیقِ اکبرؓ۔ مقابل خوخة ابی بکر الصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جس کا ذکر احادیث میں آتا ہے۔
7. باب السعود
8. باب عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ
9. باب عثمان رضی اللہ عنہ
10. باب الملک عبد العزیز
آخری پانچ دروازے سعودی دور میں تعمیر ہوئے۔
حجرہ مبارکہ:
امہات المؤمنینؓ کے حضرات مسجد نبوی سے متصل تھے۔ ان میں سب سے پہلا حجرہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تھا۔ یہی وہ حجرہ ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے وفات پائی اور یہیں دفن ہوئے۔ بعد میں جب حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہمافوت ہوئے تو انہیں بھی اسی حجرہ میں دفن کیا گیا۔ اس حجرہ میں ایک قبر کی جگہ باقی ہے۔ صحیح احادیث میں آیا ہے کہ قیامت کے قریب دجال کے فتنہ کو فرو کرنے کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں تشریف لائینگے اور وفات کے بعد اسی حجرہ میں موجودہ باقی جگہ میں مدفون ہوں گے۔ موجودہ تعمیر میں امہات المؤمنینؓ کے حجرات اور یہ قبریں مسجد نبوی کے اندر آگئی ہیں۔
توسیع مسجد نبوی:
پہلے پہل جب مسجد نبوی کی تعمیر کی گئی تو اس کا طول شمالاً جنوباً تقریباً 35 میٹر اور عرض شرقاً غرباً تقریباً 30 میٹر تھا۔ بعد میں جب اسلام پھیلا اور مسلمانوں کی تعداد بڑھی تو نمازیوں کے لئے مسجد ناکافی تھی۔
چنانچہ 7 ہجری میں غزوۂ خیبر سے واپسی پر مسجد کی توسیع اور جدید تعمیر کی گئی۔ کھجور کے تنوں سے ستونوں کا کام لیا گیا اور چھت پر کھجور کے پتے ڈالے گئے۔ چھت کی بلندی زمین سے تقریباً 3 ½ میٹر تھی۔ اس تعمیر میں کچھ حصہ پر چھت ڈالی گئی اور باقی حصہ صحن کے طور پر چھوڑا گیا۔
موجودہ تعمیر میں عہدِ نبوی میں مسجد کا نقشہ واضح کیا گیا ہے۔ چھت والے حصہ پر لمبی لکیریں بنائی گئی ہیں اور مغربی اور شمالی جانب میں آخری حدود پر واقع ستونوں پر ایک تحریر کے ذریعہ عہد نبوی میں مسجد کے رقبہ کی تعیین کی گئ۔
اس کے بعد حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے دور میں بھی مسجد میں توسیع کی گئی۔ بعد میں خلیفہ ولید بن عبد الملک، خلیفہ مہدی، سلطان عبد الحمید العثمانی اور شاہ سعود بن عبد العزیز رحمہم اللہ کے زمانہائے حکومت میں توسیع ہوتی رہی اور ان کے علاوہ بہت سے مسلمان حکام نے مسجد کی جدید تعمیر کرائی۔
1393ھ میں شاہ فیصلہ بن عبد العزیز مرحوم کے زمانہ میں مزید تقریباً ڈیڑھ گنا رقبہ حرم میں شامل کیا گیا۔
جبلِ احد کی فضیلت:
آنحضرت ﷺ کا فرمان ہے:
''أُحُدُ جَبَلٌ یُّحِبُّنَا وَنُحِبُّه'' 8
کہ ''احد کو ہم سے محبت ہے اور ہمیں بھی اس سے محبت ہے!''
ایک دفعہ آنحضرت ﷺ احد پر تشریف لے گئے۔ آپؐ کے ہمراہ حضرت ابو بکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم بھی تھے۔ پہاڑ فرطِ محبت سے حرکت کرنے لگا تو آپؐ نے فرمایا: اُثْبُتْ أُحُدُ! فَإِنَّمَا عَلَیْکَ نَبِیٌّ وَّصِدِیْقٌ وَشَھِیْدَانِ!'' 9

''احد! قرار پکڑ! تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید موجود ہیں!''
اس حدیث سے خلفاء ثلاثہ کی فضیلت کا پہلو بھی واضح ہوتا ہے۔
غزوۂ احد:
اسی پہاڑ کے قریب ہجرت کے تیسرے سال شوال کے مہینہ میں مسلمانوں اور قریش کی لڑائی ہوئی جو تاریخ میں غزوۂ احد کے نام سے معروف ہے۔
جبل الرماة:
جبل الرماة کا معنی ہے، تیر اندازوں کا پہاڑ۔ یہ پہاڑ جبلِ احد کے بالمقابل واقع ہے جہاں آنحضرت ﷺ نے حضرت عبد اللہ بن حجش رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سرکردگی میں پچاس تیر اندازوں کو مقرر کیا تھا تاکہ مسلمانوں کے لشکر کی پیچھے سے حفاظت کریں۔
اس پہاڑ کا دوسرا نام جبلِ عینین ہے۔
قبرستان شہدائے احد:
غزوۂ احد میں مسلمانوں کا بہت سا جانی نقصان ہوا۔ ستر 70 مسلمانوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ ان میں سے 64 انصاری اور 6 مہاجر تھے۔ شہداء کو احد کے دامن میں دفن کیا گیا۔ آنحضرت ﷺ کبھی کبھی وہاں جا کر شہداء کے لئے دعا فرمایا کرتے تھے اور 8 ہجری میں ان کی نماز جنازہ بھی ادا کی۔ یہ قبرستان جبلِ احد اور جبل الرماة کے درمیان واقع ہے۔
شہدائے احد میں سید الشہداء حضرت امیر حمزہ، مصعب بن عمیر، عبد اللہ بن حجش رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے نام مشہور ہیں۔
خندق:
ہجرت کے چوتھے سال، اور بعض مؤرخین کے بقول پانچویں سال، کفارِ قریش تمام قبائل کو جمع کر کے مدینہ پر حملہ آور ہوئے۔
مسلمانوں نے اجتماعی طور پر فیصلہ کیا کہ شہر کے اندر رہ کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے۔ چنانچہ حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورہ پر جس طرح سے دشمن کے حملہ کا خطرہ تھا۔ اس جانب تقریباً تین کلومیٹر لمبی خندق کھو دی گئی۔ خندق کی چوڑائی تقریباً چھ میٹر اور گہرائی انسان کے قد سے زیادہ تھی۔
یہ خندق تین ہزار صحابہ کرامؓ نے بیس دنوں کے اندر تیار کر لی۔
اس غزوہ کو خندق کی مناسبت سے خندق کہا جاتا ہے۔ اس کا دوسرا نام غزوۂ احزاب بھی ہے۔ کیونکہ اس موقعہ پر تمام قریشی قبائل نے جمع ہو کر لڑائی میں حصہ لیا تھا۔ (جاری ہے)


حوالہ جات
1. صحیحین
2. صحیح مسلم
3. صحیح البخاری، منحة المعبودفي ترتیب مسند الطیالسي أبو داود، حدیث نمبر 2739
4. سنن النسائي باب فضل مسجد قباء
5. صحیح البخاري باب فضل الصلوٰة في مسجد مکة والمدنیة، صحیح مسلم، سنن النسائي عن میمونة وأبي ھریرة، منحة المعبودفي ترتیب مسند الطیالسي أبي داود حدیث نمبر 2733-2734
6. صحیح البخاري، باب أیضا، صحیح مسلم، سنن النسائي باب ما تشدّ الرجال إليه من المساجد، منحة المعبود، حدیث نمبر 2720
7. الصحیح البخاری۔ صحیح مسلم
8. صحیحین
9. صحیح البخاري باب مناقب أبي بکر و باب مناقب عمر و باب مناقب عثمان رضی اللّٰہ عنھم!

i. بلکہ جمع کی صورت یہ ہے کہ ''روضة من ریاض الجنة'' میں اعمالِ خیر، نماز اور ذکر اذکار وغیرہ کا زیادہ ثواب اس وقت ہے جب اکیلا ہو یا امام بھی وہاں جماعت کرا رہا ہو۔ لیکن اگر امام موجودہ عمارت کی پوزیشن کے مطابق روضة سے چھ صفیں آگے ہو تو پھر زیادہ ثواب پہلی صفوں میں ہے۔ (مدیر)