کام بُرے اور توقعات نیک خدا نافہمی اور خدا ناشناسی کی شکلیں!
1. نادان لوگ:
عَنْ شَدَّادِ بْنِ اَوْسٍ رَضِیَ الله تَعَالٰی عَنْه قَالَ قَالَ رَسُوْلُ الله صَلَّی الله تَعَالٰی عَلَیْه وَسَلَّمَ''اَلْکَیّسُ مَنْ دَاَنَ نَفْسه وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْعَاجِزُ مَنِ اتَّبَعَ نَفْسَه ھَوٰھَا وَتَمَنّٰی عَلَی الله 1
''دور اندیش وہ ہے جس نے اپنے نفس کا محاسبہ کیا اور موت کے بعد کے تقاضوں کے لئے (بھلے) کام کیے!''اور کوتاہ اندیش وہ شخص ہے جس نے اپنی ذات کو بہیمی خواہشات اور نفسانی تحریکات کے پیچھے لگا دیا اور خدا سے نیک امیدیں (بھی) باندھ لیں۔
ایسے دُور اندیش جو کل کی فکر میں غلطاں و پیچاں رہتے ہوئے، شاید ہی ڈھونڈنے سے کوئی مل جائے، لیکن قدم قدم پر ایسے شیخ چلیوں کی منڈیاں لگی ہوئی آپ دیکھیں گے جو سومنات کی طرف رُخ کیے سر پٹ دوڑے جا رہے ہیں مگر دل ہی دل میں یہ خیالی پلاؤ بھی پکائے جا رہے ہیں کہ: بس ابھی بیت اللہ کو پہنچے!
شب و روز سیاہ کاریوں میں غرق، مگر توقعات یہ کہ: ان شاء اللہ آخرت روشن ہو جائے گی۔
یہ ذہنیت جہاں احمقانہ ہے، وہاں ایسے لوگ عموماً اپنی زندگی کے لیل و نہار پر نظر ثانی کرنے کی توفیق سے بھی محروم ہو جاتے ہیں، اس لئے سیاہی بڑھتی اور آخرت مزید سے مزید تر بوجھل ہوتی چلی جاتی ہے۔''
2. باتیں حکیمانہ کام ظالمانہ:
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ الله تَعَالٰی عَنْه عَنِ النَّبِي صَلَّی الله تَعَالٰی عَلَیْه وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا أَخَافُ عَلٰی ھٰذِہِ الْأُمَّة کُلَّ مَنَافِقٍ یَّتَکَلَّمُ بِالْحِکْمَة وَیَعْمَلُ بِالْجُوْرِ'' 2
فرمایا:
''بس اس اُمت کے سلسلے میں ہر اس منافق کے بارے میں میرا دل دھڑکتا ہے جو باتیں (تو) حکیمانہ کرتا ہے اور کام سارے ظالمانہ اور غیر منصفانہ۔''
بس آج کل بھی اِسی ملمع سازی کا چلن عام ہے، بڑے بڑے فیلسوف، بڑے متکلم، بڑے دانائے راز، بڑے حکیم اور بڑے زیرک انسان باتوں باتوں میں بیٹھے موتی بکھیر رہے ہوں گے، مگر ان کی زندگی کا پورا گھروندا کباڑ خانہ ہو گا، جن میں کوئی بے شے سالم اور بے داغ نہیں ملے گی، دین و ایمان اور آخرت کے سلسلے کی کوئی بھی چیز ان کے ہاں محفوظ نظر نہیں آئے گی!
افسوس یہ کہ: عوام بھی کچھ ایسے کند ذہن جوہری ان کو ملے ہیں، جو صرف ان کی باتوں پر تو سر دھنتے ہیں لیکن ان کے کردار اور اعمالِ حیات کی ترازو میں ان کی کسی بھی بات کو نہیں تولتے۔ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ!
خدا باتوں کے ساتھ کاموں کو دیکھتا ہے:
''عَنِ الْمُھَاجِرِبنِ حَبِیْبٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ الله ﷺ قَالَ الله تَعَالٰی:إِنِّي لَسْتُ کُلَّ کَلَامِ الْحَکِیْمِ أَتَقَبَّلُ وَلٰکِنِّي أَتَقَبَّلُ ھَمَّه وَھَوَاه۔فَإِنْ کَانَ ھَمُّه وَھَوَاه فِي طَاعَتِي جَعَلْتُ صَمْتَه حَمْدًا لِي وَوَقَارًا وَإِنْ لَّمْ یَّتَکَلمْ'' 3
فرمایا: اللہ کریم کا ارشاد ہے کہ:''میں دانائے راز کی ہر (حکیمانہ) بات قبول نہیں کیا کرتا بلکہ میں صرف اس کی بے چینیاں اور دلچسپیاں قبول کرتا ہوں۔تو اگر اس کی بے چینیاں اور قلبی دلچسپیاں، میری رضا کے حصول کے لئے ہیں تو گو وہ کچھ ہی نہ بولے'' میں اس کی خاموشی کو بھی اپنی حمد اور احترام تصور کرلیتا ہوں۔''
بہرحال جو لوگ خدا کو باتوں سے بہلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، غالباً وہ خدا کو نہیں سمجھے اور نہ اس کی حریمِ ناز کی نزاکتوں اور لطافتوں کا اُنہوں نے احساس کی ہے۔ ذاتِ برحق، حق ہے، اس لئے وہاں حقیقیت پسندی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے، سطحیات سے خدا کو بہلانا خدا نا شناسی کی بدترین مثال ہے۔
اس کی نگاہ تمہارے دلوں اور اعمال پر:
عَنْ اَبِي ھُرَیْرَة رَضِیَ الله تَعَالٰی عَنْه قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہ ﷺ:إِنَّ الله لَا یَنْظُرُ إِلٰی صُوْرِکُمْ وَأَمْوَالِکُمْ وَلٰکِنْ یَّنْظُرُ إِلٰی قُلُوْبِکُمْ وَأَعْمَالِکُمْ 4
فرمایا: یقین کیجئے!
''اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور دھن دولت کو نہیں دیکھتا۔ اس کی نگاہ تو تمہارے دلوں اور اعمال پر رہتی ہے۔''
یعنی بات شکل و صورت کی نہ کیجیے: یہ بتائیے! کہ دھیان کدھر کو ہے اور تمہارے کام کیسے ہیں؟ غالباً ایسا حسین سانپ تو آپ بھی پسند نہیں کرتے جس میں زہر بھرا ہے اور نہ ایسی پیاری اور دلکش ڈبیہ آپ پسند کریں گے جس میں مشک وغیرہ کے بجائے غلاظت، گندگی اور نجاست بھری ہو، پھر کیا وجہ ہے کہ آپ خدا سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ ان حسین اور دلآویز چہروں کو شرف باریابی بخشیں گے جن کے اندر سے بدعملی کی عفونت پھوٹ پھوٹ کر پھیل رہی ہو؟ یا اس سونے کو کوئی کیا کرے گا، جو آگ پر دوش ہوتا ہے، یہی سونا چاندی ہی تو ہو گا، جسے تپا تپا کر اور گرم کر کر کے ان کی پیشانیاں پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی۔ اور ان سے کہا جائے گا کہ اے بینکرو اور مہاجنو! ان ڈھیروں کا مزہ چکھو (ملاحظہ ہو سورہ توبہ ع 5، پ10)
﴿يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَـٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ ﴿٣٥﴾...سورۃ التوبه
جہاں مال و دولت کا انجام یہ ہو۔ اسے کوئی کیا کرے۔ ناس ہو اس سونے کا جو کان پھاڑے:
بہر حال خدا کو آپ کی ان صورتوں اور مال و دولت کی ضرورت نہیں ہے، وہ تو ان سب چیزوں کا داتا ہے۔ اگر آپ کو دلچسپی ہے تو ان کے نیچے گندگی کے ڈھیروں کو چھپانے سے پرہیز کریں اور بد عملی کی آگ میں گرم کر کے اپنی حیات کے مختلف حصوں کو داغنے سے باز رہیں۔
5. یہ چیزیں قابلِ رشک نہیں ہیں:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَة رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْه قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰه ﷺ:لَا ............. فَاجِرًا بِنِعْمَة فَإِنَّکَ لَا تُدْرِي مَا ھُوَ لَاقٍ بَعْد مَوْتِهِ اِنَّ لَه عِنْدَ اللّٰه قَاتِلًا لَّا یَمُوْتُ یَعُنِي النَّارَ 5
''ناز و نعمت دیکھ کر کسی بے حیا انسان پر ہرگز رشک نہ کیجیے، کیونکہ آپ نہیں جانتے کہ مرنے کے بعد وہ کہاں پہنچنے والا ہے؟ خدا کے ہاں (تو) اس کے لئے (بس) ایک لازوال سلسلۂ عذاب ہے جو کبھی منقطع نہیں ہو گا۔''
اِسی قسم کی ایک رشک کا ذکر قرآن نے بھی کیا ہے۔ قارون کی ٹھاٹھ باٹھ کو دیکھ کر دنیا پرست بول اُٹھے، اِس کے کیا ہی کہنے، ایسا ساز و سامان نصیب ہوتا۔'' خدا شناس طبقہ بولا۔ ''اصل دولت نیک عمل ا ور ایمان ہے۔ بشرطیکہ کسی کو صبر و حوصلہ کی توفیق ملے۔'' اگلے دن جب اپنے کرتوتوں کی پاداش میں قارون کو زمین میں دھنسا دیا گیا تو وہی لوگ بول اُٹھے:
''الٰہی! تیرا شکر ہے۔ تیرا کرم نہ ہوتا تو ویسے ہو کر ہم بھی ویسے ہی انجام سے دو چار ہو جاتے!''
﴿فَخَرَجَ عَلَىٰ قَوْمِهِ فِي زِينَتِهِ ۖ قَالَ الَّذِينَ يُرِيدُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا يَا لَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَا أُوتِيَ قَارُونُ إِنَّهُ لَذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ﴿٧٩﴾﴿ وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَيْلَكُمْ ثَوَابُ اللَّـهِ خَيْرٌ لِّمَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا وَلَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الصَّابِرُونَ ﴿٨٠﴾ ﴿فَخَسَفْنَا بِهِ وَبِدَارِهِ الْأَرْضَ فَمَا كَانَ لَهُ مِن فِئَةٍ يَنصُرُونَهُ مِن دُونِ اللَّـهِ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُنتَصِرِينَ ﴿٨١﴾﴿ وَأَصْبَحَ الَّذِينَ تَمَنَّوْا مَكَانَهُ بِالْأَمْسِ يَقُولُونَ وَيْكَأَنَّ اللَّـهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ ۖ لَوْلَا أَن مَّنَّ اللَّـهُ عَلَيْنَا لَخَسَفَ بِنَا ۖ...﴿٨٢﴾...سورۃ القصص 6
خدا کے نزدیک قابلِ رشک ایمان اور عملِ صالح ہے اگر ان کے ساتھ مال و دولت اور اقتدار بھی مل جائے تو وہ سلیمانی ہے، اگر ہمراہ یہ نخرے نہ ہوں تو پھر یہ ''سلمانی'' ہے، بہرحال ایمان اور عملِ صالح کے بعد جو نسی بھی صورتِ حال نصیب ہو جائے ایک مومن کے لئے رحمت بھی ہے اور ترقیٔ درجات بھی اور اگر ایمان اور عملِ صالح سے دامن خالی ہو تو مالی فراوانی قارونیت ہے، اور اقتدار فرعونیت، اگر ایمان کی طرح مال و دولت سے بھی دامن تہی ہو تو سب سے بڑا ابتلاء، آزمائش اور اندیشے۔
6. بے ایمانی کے باوجود خوشحالی استدراج!
عَنْ عُقْبَة بْنِ عَامِرٍ رَضِیَ الله تَعَالٰی عَنْه عَنِ النَّبِي ﷺ قَالَ:''إِذَا رَأَیْتَ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یُعْطِي الْعَبْدَ مِنَ الْدُّنْیَا عَلٰی تَعَاصِیْه مَا یُحِبُّ فَإِنَّمَا ھُوَ اسْتِدْرَاجٌ ثُمَّ تَلَا رَسُوْلُ اللّٰه ﷺ.''فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّىٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُم بَغْتَةً فَإِذَا هُم مُّبْلِسُونَ 7
فرمایا:
''جب آپ یہ دیکھیں کہ: ہزار نافرمانیوں کے باوجود اللہ تعالیٰ اس کو اپنی پسندیدہ چیزیں عطا کیے جاتا ہے تو سمجھ لیجیے! کہ یہ اس کو پکڑنے کے لئے ایک الٰہی تدبیر ہے۔''پھر آپؐ نے یہ آیت پڑھی:''جب وہ لوگ اس نصیحت اور فہمائش کو بھول گئے جو ہم نے انہیں کی تھی (تو) ہم نے ان پر ہر شے کے دروازے (چوپٹ) کھول دیئے۔ یہاں تک کہ جب ان عطیات پر (شکر بجا لانے کے بجائے) اترانے لگے (تو) ہم نے ان کو یکایک پکڑ لیا، چنانچہ (اس پر) وہ بے آس ہو کر رہ گئے۔''
یوں محسوس ہوتا ہے کہ:
آج کل خوشحالی کا جو دَور دَورہ ہے، وہ شاید اسی استدراج کی ایک شکل ہے۔ بہرحال حضور علیہ الصلوٰة والسلام کے ارشاد کے مطابق مال و دولت اور نعمتوں و خوشحالی کی یہ فراوانی، خدا کی خوشنودگی کی علامت نہیں ہے۔ بلکہ اس میں پہلا خدشہ مضمر ہے کہ کہیں یہ ابتلاء اور آزمائش کی کوئی الٰہی تدبیر نہ ہو۔ باقی رہے دنیا دار لوگ، تو وہ تو پہلے بھی اِسی خدا کی خوشنودی اور پسندیدگی کا نشان اور معیار تصور کرتے تھے اور اب بھی یہی خیال کرتے ہیں۔ اس لئے انہیں اپنی بدعملی اور روز و شب کے محاسبہ کی توفیق نصیب بھی نہیں ہو رہی!
حوالہ جات1.رواہ الترمذی
2.شعب الایمان للبیہقی
3. دارمی
4. مشکوٰة بحوالہ مسلم
5. مشکوٰة بحوالہ شرح السنة
6. پ20، القصص، ع8
7. احمد