مدیرِ اعلیٰ ’’محدّث‘‘ کے نام علمائے کویت کا ایک خط
مدیرِ اعلیٰ ''محدّث'' کے نام علمائے کویت کا ایک خط
مغربی جمہوریت نظامِ کفر ہے
چند روز قبل علمائے کویت کی طرف سے ''مدیرِ اعلیٰ محدّث'' کے نام ایک مکتوب وصول ہوا تھا، جس کا اردو ترجمہ افادۂ عام کے لئے ہدیۂ قارئین ہے (ادارہ)
فضیلة الشیخ الحافظ عبد الرحمان المدّنى۔ متعنا الله بطول حیاتکم!السلام علیکم ورحمة اللّٰہ وبرکاته۔ أمّا بعد:
جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جسے خود انسان نے وضع کیا ہے۔ اس فکر کو سیاست و ریاست کی تمام مشکلات کے حل کا واحد ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ نظام مغرب کا وضع کردہ ہے اور اس کے پس پردہ مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت پر حملہ کرنے کا مقصد کار فرما ہے۔ لیکن المیہ تو یہ ہے کہ خود مسلمانوں کا مغرب زدہ طبقہ اس سلسلہ میں مغرب کا ممد و معاون ہے جو نظریۂ جمہوریت کو اسلام کے سیاسی نظام کے طور پر پیش کرتا اور اسلام ہی کے نام پر اس کا داعی بھی ہے۔
جمہوریت کی تعریف یوں کی جاتی ہے:
"Government of the People by the People for the People."یعنی ''عوام کی حکومت'' عوام کی طرف، عوام کے لئے!
عوام کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ ان کی اپنی حکومت ہے، اس سلسلے میں عوام سیاسی پارٹیوں کے رکن بنتے ہیں اور پھر سیاسی پارٹیاں کرسی کے حصول کے لئے کوشاں ہو جاتی ہیں۔ نتیجہً عوام کے منتخب نمائندوں کی صورت میں عوام پر عوام کی حکومت قائم ہو جاتی ہے!
جمہوریت میں قانون و اختیار کا سر چشمہ عوام کو سمجھا جاتا ہے تاکہ عوام اپنی مرضی سے جو قانون چاہیں اپنے لئے منتخب کر لیں۔ اور چونکہ عوام براہِ راست حکومت کے انتظام اور قانون سازی میں حصہ نہیں لے سکتے، لہٰذا اس کا طریق کار یہ ہوتا ہے کہ عوام میں سے ہر بالغ مرد اور عورت (قطع نظر اس سے کہ وہ مذہبی یا اخلاقی لحاظ سے جو بھی کچھ ہو) اپنا نمائندہ منتخب کرنے کا حق رکھتا ہے تاکہ وہ نمائندے ان کے لئے قانون وضع کریں اور ان پر حکومت کریں۔
جمہوری نظام میں پارلیمنٹ ملک کا اعلیٰ ترین قانونی ادارہ ہوتا ہے۔ قانون سازی میں یہی ادارہ عوام کی نمائندی کرتا ہے۔ حکومت کی پوری مشینری تین شعبوں میں منقسم ہوتی ہے۔
1. مقننہ۔ 2. عدلیہ۔ 3. انتظامیہ۔
ہر شعبہ کے اختیارات الگ الگ ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے حقوق میں مداخلت نہیں کرتے۔
جمہوری نظام (بلاشبہ) کافرانہ نظام ہے۔ جو نظامِ شریعت سے متناقص ہے۔ کیوں کہ شرعی نظام میں حاکمیتِ اعلیٰ خداوند کریم کے لئے خاص ہوتی ہے۔ اور اس میں قانون سازی کا حق بھی اللہ رب العزّت کے سوا کسی کو حاصل نہیں۔ جبکہ جمہوری نظام میں عوام ہی کو ہر چیز کا سرچشمہ خیال کیا جاتا ہے۔ یہ نظامِ حاکمیتِ خداوندی کے بجائے حاکمیتِ عوام کا قائل ہے اور عوام کو اپنے لئے قانون بھی خود ہی وضع کرنے کا حق تفویض کرتا ہے۔
علاوہ ازیں، اُمّتِ مسلمہ اگرچہ حاکم کو منتخب تو کر سکتی ہے لیکن حاکم جب تک کتاب و سنت کے مطابق عمل کرتا رہے، اسے معزول نہیں کر سکتی۔ جبکہ جمہوریت میں حاکم کو انتخاب اور اسے معزول کرنے کا حق عوام کے پاس ہوتا ہے۔ پس جمہوریت کا اسلام سے قطعاً کوئی تعلق نہیں اور اس کی طرف دعوت دینا سراسر کفر ہے۔
مغربی ذرائع جمہوری فکر کو نظرئیے کے طور پر عام کر رہے ہیں جو مسلمانوں کی تہذیب کو ختم کرنے کی ایک کوشش ہے۔ لہٰذا جمہوری نظام کے حامی مسلمان شعوری یا غیر شعوری طور پر اس سلسلہ میں ان کے ممد و معاون ہیں اور عملی طور پر اس کو نافذ کرنے کی ترغیب دینے والے استعماری ہیں۔ کیوں کہ مغرب نے استعمار ہی کو دوسری شکل دینے کے لئے جمہوری بنیادوں پر حکومتیں قائم کی ہیں۔
میدانِ عمل میں اس نظام کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس کا یہ دعویٰ کہ ''عوام کی حکومت، عوام کی طرف سے عوام کے لئے'' بھی باطل نظر آئے گا۔ کیونکہ اس نظام میں قانون سازی خود سربراہِ مملکت کرتا ہے، جو ایک فرد کا نام ہے اور قومی اسمبلی فقط اس کی تائید و تصدیق کرتی ہے اس طرح حکومت بھی وہ خود ہی کرتا ہے۔ عوام قانون سازی کر سکتے ہیں نہی حکومت۔ لہٰذا یہ دعویٰ ہی فضول ہے کہ یہ عوام کی اپنی حکومت ہوتی ہے۔
حاصل یہ کہ جمہوریت ایک خیالی نظام ہے۔ عملی حیثیت ہے۔ عملی حیثیت میں یہ محال اور ناممکن ہے۔ یہ نظام انسان کا اپنا بنایا ہوا ہے جو کہیں بھی غلطی کر سکتا اور کہیں بھی چوٹ کھا سکتا ہے۔ ہاں یہ صفت تو فقط اللہ رب العزت کو لائق ہے کہ اس سے کسی غلطی کا سرزد ہونا ممکن نہیں۔ لہٰذا قانون سازی کا حق بھی اسی کو پہنچتا ہے اور حاکمیتِ اعلیٰ بھی اسی کو سزاوار ہے۔ لہٰذا ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کافرانہ نظام کو چھوڑ کر اس نظام کو اپنائیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے مقرر کیا ہے۔ اُمّتِ مسلمہ میں سے متقی اور با صلاحیت افراد کا انتخاب کر کے شرعی احکام کے مطابق حکومت قائم کریں تاکہ وہ کتاب و سنت کے مطابق کاروبارِ حکومت چلائیں۔ اور اس انتخاب کا حق بھی عوام میں سے ہر کس و ناکس کو نہ ملنا چاہئے۔ جو نہیں جانتے کہ اس سلسلہ میں کتاب و سنت کے تقاضے کیا ہیں؟