نزولِ قرآن، اس کی ترتیب اور بعض سورتوں کا پس منظر اور تعارف

زیرِ نظر مقالہ میں نزولِ قرآن مجید کی ترتیب بیان کی گئی ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ قرآنِ مجید کی بعض سورتوں کے تعارف اور ان کے نزول کے پسِ منظر پر روشنی ڈالی گئی ہے۔مقالہ کے شروع میں دورِ جاہلیت کے لوگوں کے اخلاق و عقائد کا بیان ہے تاکہ قرآنِ مجید کے بتدریج نزول کی حکمت سمجھ میں آسکے اور آخر میں قرآن مجید کی تمام سورتوں کی ترتیبِ نزول، جدول کی صورت میں پیش کی گئی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ مقالہ قارئین کے لئے نہایت معلومات افزاء اور مفید ثابت ہو گا۔ ان شاء اللہ! (ادارہ)

نزولِ قرآن مجید سے قبل، زمانۂ جاہلیت کے لوگوں کا اللہ تعالیٰ اور انبیائے کرام علیہم السلام کے متعلق کیا عقیدہ تھا، ان کے رسم و رواج کیا تھے اور وہ اپنی زندگی کن اُصولوں کے تحت گزار رہے تھے؟ حجة الاسلام حکیم الامت شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی (م 1176ء) نے اپنی مشہور کتاب ''حجة اللہ البالغہ'' میں اس پر مفصل روشنی ڈالی ہے۔
چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ:
''جو اصولِ اہل جاہلیت میں مسلم تھے، ان میں سے ایک یہ تھا کہ آسمان و زمین اور جو جوہر ان کے درمیان ہیں، ان کے پیدا کرنے میں خدا تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں، اور بڑے بڑے امور کی تدبیر کرنے میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور ان کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ کوئی اس کے حکم کو رد نہیں کر سکتا اور نہ کوئی اس کی قضا اور فیصلہ کو روک سکتا ہے جبکہ وہ مبرم اور قطعی ہو جائے۔ اس آیت میں اسی طرح اشارہ ہے:
﴿وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ لَيَقُولُنَّ اللَّـهُ...﴿٢٥﴾...سورۃ لقمان
''بے شک اگر تو ان لوگوں سے دریافت کرے کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو وہ سب کہیں گے کہ خدا نے پیدا کیا ہے۔''
...... لیکن ان کے زندیق ہونے کی ایک بات یہ تھی کہ وہ کہتے تھے کہ فرشتوں میں سے اور ارواح میں سے بعض ایسے ہیں جو علاوہ بڑے بڑے انتظامات کے اہلِ زمین کے دوسرے امور میں مدبر ہوتے ہیں ..... اور اس سوء فہمی کا منشاء یہ ہوا کہ شریعتوں میں بہت سے امور فرشتوں کی طرف تفویض کیے گئے..... اور اہلِ جاہلیت کے اصولوں میں سے ایک یہ تھا کہ وہ خدا تعالیٰ کی ذات کو اس شے سے پاک کہتے تھے جو اس کی شان کے لائق نہیں ہے اور اس کے اسماء میں الحاد کو ناجائز جانتے تھے۔ لیکن انہوں نے اپنی گمراہی کی وجہ سے یہ سمجھ لیا تھا کہ فرشتے خدا کی لڑکیاں ہیں اور فرشتے ایک واسطہ قرار دیئے گئے ہیں تاکہ خدا تعالیٰ ان کے ذریعہ سے اس امر کو معلوم کرے جس کا اس کو علم نہیں ہے۔ اہلِ جاہلیت اپنے خطبوں اور اشعار میں تقدیر کا ذکر کیا کرتے تھے۔ ان کے مسلمہ اصولوں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں پر احکام مقرر کیے ہیں۔ ان میں سے بعض کو حلال اور بعض کو حرام کیا ہے۔ اور یہ کہ وہ ہر کام کی جزا دیتا ہے۔ اگر اعمال اچھے ہیں تو جزا بھی اچھی ہوتی ہے اور اگر اعمال برے ہیں تو جزابھی بری ہوتی ہے۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کے پاک فرشتے جو اس کی بارگاہ میں مقرب ہیں اور بڑے درجہ والے ہیں، وہ خدا کے حکم سے اس عالم کی تدابیر میں مصروف رہتے ہیں۔ احکامِ الٰہیہ سے سرتابی نہیں کرتے، نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں، نہ براز کرتے ہیں اور نہ شادی کرتے ہیں۔
اور ان کو اس پر بھی اعتقاد تھا کہ خدا تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ایسے شخص کو لوگوں کی طرف مبعوث کرتا ہے جس پر وحی نازل کرتا ہے اور اس کے پاس فرشتوں کو بھیجتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کی اطاعت کو لوگوں پر فرض کرتا ہے (لیکن ان سب عقائد کے باوجود جب اہلِ جاہلیّت نے قرآن مجید کے منزل من اللہ ہونے کا انکار کیا اور ہٹ دھرمی پر اتر آئے تو) اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿قُلْ مَنْ أَنزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُوسَىٰ..﴿٩١﴾...سورۃ الانعام
''ان سے فرما دیجیئے! وہ کتاب کس نے نازل کی تھی، جو موسیٰ علیہ السلام لائے تھے؟''
اور جب ان لوگوں نے کہا کہ یہ کیسا رسولؐ ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے:
﴿هَـٰذَا الرَّ‌سُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ..﴿٧﴾...سورۃ الفرقان
تو خدا تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
﴿مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّ‌سُلِ...﴿٩﴾...سورۃ الاحقاف
کہ ''آپ رسولوں میں سے کوئی نئے اور انوکھے نہیں ہیں!''
...... اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین اگرچہ راہِ راست سے دُور ہٹ گئے تھے لیکن جو عملی حصہ ان میں باقی رہ گیا تھا اس کے ذریعہ سے ان پر حجت قائم ہو سکتی تھی!'' 1
جاہلیت میں مذہب:
عبادت کے ابواب میں ان کے یہاں طہارت بھی تھی۔ غسلِ جنابت تو ایک معمولی طریقہ تھا، ختنہ اور تمام خصائل اور اوصافِ فطرت کا بھی وہ بخوبی اہتمام کرتے تھے۔ اور نوریت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد کے لئے ختنہ کو نشان قرار دیا تھا۔ مجوسی، یہودی اور حکمائے عرب وضو کے پابند تھے، اہلِ جاہلیّت نماز کے بھی پابند تھے۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے سے سال قبل نماز پڑھا کرتے تھے۔

ایسے ہی زمانہ جاہلیت میں زکوٰة بھی تھی۔ اسی زکوٰة میں مہمان نوازی، مسافر نوازی، عیال پروری، ساکین پر صدقہ اور خیرات، صلہ رحمی، حوادث میں امداد، یہ سب زکوٰة میں داخل تھے۔ یہ امور ان کے درمیان اہم تھے۔ وہ خوب جانتے تھے کہ انسانِ کامل کے لئے ان امور کا ہونا ضروری ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بھی جنابِ نبی ﷺ سے ذکر کیا تھا:
''خدا آپ کو پسماندہ نہ کرے گا۔ کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں۔ مہمان نواز ہیں، اور اہل کی کفالت کرتے ہیں، اور قدرتی حوادث پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں!۔''
اور ایسا ہی ابن دغنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب وہ ہجرت کر کے جا رہے تھے، کہا تھا کہ ''آپ نہ جائیں۔ آپ تو لوگوں سے حسنِ سلوک کرنے والے اور مشکل وقت میں امداد کرنے والے ہیں۔''
زمانہ جاہلیت میں قریش عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ اور اعتکاف بھی کیا کرتے تھے۔ اور غلام آزاد کرنے کا طریقہ بھی ان میں رائج تھا۔ بہرحال اہل جاہلیت مختلف وجوہ سے خدا کی عبادت کرتے تھے۔ بیت اللہ کا حج کرنا اشعارِ الٰہی اور بزرگ مہینوں کی تعظیم یہ امور تو ظاہر ہیں، اور ان میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہو سکتا۔
ان کے پاس کئی قسم کے منتر اور تعویذ بھی تھے۔ لیکن ان میں شرک کی باتیں داخل کر دی تھیں، اونٹ کو ذبح کرنے کا طریقہ ان میں رائج تھا، چھری سے ذبح کرتے تھے، جانور کا گلا نہیں گھونٹتے تھے۔
کہانت کے قائل ہو گئے تھے۔ اور فال کے ذریعہ حالات کا معلوم کرنا، اور کسی کام کے کرنے سے پہلے فال نکالنا ان کا دستور ہو گیا تھا۔ اور یہ سب کچھ اُنہوں نے اپنی طرف سے مذہب میں داخل کر لیا تھا۔
بنی اسمٰعیل برابر اپنے جدّ اکبر حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی روش پر رہے۔ مگر جب ان میں عمرو بن لحیٰ پیدا ہوا۔ تو اس نے بہت سے نئے طریقے ایجاد کر دیئے۔ عمر، آنحضرت ﷺ کی بعثت سے 23؍ برس قبل پیدا ہوا تھا۔
ایسے ہی زمانہ جاہلیت میں کھانے، پینے، لباس، دعوتوں میں میلوں، مردوں کے دفن کرنے، طلاق، عدت، ماتم، خرید و فروخت تمام معاملات نہایت محکم طریقہ پر متعین تھے۔ جو ان کی پابندی نہیں کرتا تھا۔ قابلِ ملامت سمجھا جاتا تھا۔ محارم کے یعنی حرام رشتوں کے پابند تھے۔ تعزیرات کے قائل تھے بلکہ اس کے پابند تھے۔
لیکن ان میں فسق و فجور کی بہت کثرت ہو گئی تھی۔ غارت گری، لوٹ مار، ظلم و تعدی، زنا اور فاسد نکاح اور سود بہت پھیل گیا تھا۔ نماز اور ذکرِ الٰہی بالکل ترک کر دیا تھا۔ ایسے وقت میں جناب رسولِ اکرم ﷺ کی بعثت ہوئی۔ 2
شریعتِ محمدیہ قوانینِ ملّت ابراہیمؑ کا تجدید یافتہ نام ہے۔ اور اس میں کوئی ایسی چیز نہیں تھی کہ جو جہلائے عرب کے لئے کوئی غیر مانوس یا غیر متعارف ہوتی۔ حقیقت میں وہ قرآنِ پاک کے اجمالی تعارف سے متعارف تھے!
البتہ یہ بات ضرور ہے۔ کہ تمام قبائلِ عرب بت پرست تھے۔ اور بت پرستی ہی ان کا سب سے بڑا مذہب تھا۔ اس کے خلاف کرنے کو وہ ملّتِ ابراہیمؑ کے خلاف جانتے تھے۔ اُنہوں نے صاف کہہ دیا تھا:
﴿مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّ‌بُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَىٰ...﴿٣﴾...سورۃ الزمر
''ہم تو ان (بتوں) کی پوجا اس وجہ سے کرتے ہیں۔ کہ یہ خدا سے ہمیں قریب کر دیں گے۔''
اگر مزید ان سے جرح کی جاتی تو کہہ دیتے:
﴿بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا...﴿١٧٠﴾...سورۃ البقرۃ
ہم تو اسی طریقہ کی اتباع کرتے ہیں۔ جس طریقہ پر ہم نے اپنے آباء کو پایا۔''
عقائد و رسومات:
اہلِ مکہ اور کفارِ عرب کے عام طور پر جو عقائد اور رسومات تھے۔ وہ یہ ہیں:
1. وہ فرشتوں کے وجود کے قائل تھے۔ لیکن فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے۔
2. وہ خدا کے وجود کے بھی قائل تھے۔ لیکن وہ خدائی میں بتوں کو بھی شریک مانتے تھے۔
3. جو اونٹنی دس بچے مادہ جنے۔ اور درمیان میں کوئی نر بچہ پیدا نہ ہو۔ اس کو سائبہ کہتے تھے۔ اور سائبہ کے جو بچہ ہوتا۔ اس کو بحیرہ کہتے تھے۔ ان کو بتوں کے نام پر چھوڑ دیا جاتا تھا۔ ان کا دودھ اور گوشت حرام تھا۔ موجودہ زمانے میں مندروں اور مزارات کے نام سانڈ اور بکرا چھوڑنے کا طریقہ ہے۔
4. جس آدمی کو قتل کر دیا جاتا تھا۔ اس کے بارے میں یہ عقیدہ تھا کہ اس کے سر سے ایک اُلّو نکلتا ہے۔ وہ قاتل سے انتقام لیتا ہے۔
5. اگر کسی کو کتا کاٹ لے تو اس کا علاج کسی بادشاہ کا خون پیتا ہے۔
6. خرگوش کی ران گلے میں ڈالنے سے جن بھوت کا سایہ نہیں ہوتا۔
7. تناسخ کا بھی عقیدہ تھا۔ یہ لوگ مُردہ کی قبر پر اونٹ باندھ دیتے تھے۔ تاکہ مردہ اُٹھ کر اس سے خدمت لے سکے۔
8. سفر میں مڑ کر پیچھے کی طرف کی طرف دیکھنا منحوس شمار کیا جاتا تھا۔
9. مظلوم آدمی اگر داد رسی چاہتا۔ تو برہنہ ہو کر شور مچاتا۔ تاکہ قبیلہ والے اس کی مدد کریں۔
10. اگر سفر میں راستہ بھول جاتے تو کپڑے الٹے کر کے پہنتے تاکہ راستہ یاد آجائے۔
11. جب دوسرے شہر میں داخل ہوتے تو گدھے کی بولی بولتے تھے تاکہ وہاں کی وباء کے اثر سے محفوظ رہیں۔
12. ماں، بیٹوں کو ترکہ پدری میں ملتی تھی۔ اور وہ اس کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کرتے جیسا کہ بیوی کے ساتھ۔
13. حائضہ عورت کو دور رکھا جاتا تھا۔ اور اس کے سایہ سے بھی بچا جاتا تھا۔
14. جس عورت کا خاوند مر جاتا۔ وہ کامل ایک سال تک جنگل یا کھوہ میں رہ کر عدت کے دن گزارتی اور اس سے کوئی بھی بات چیت نہیں کر سکتا تھا۔ جب برس گزر جاتا تو ایک بکری اس کے جسم سے لگا دی جاتی۔ اگر وہ مر جاتی، تو عدت پوری تسلیم کر لی جاتی۔
15. لڑکی جب بالغ ہوتی تو دار الندوہ کا منتظم اس کو سنِ بلوغت کے کپڑے پہناتا اور کنوار پن کے اتارتا تھا۔
16. لڑکیوں کا پیدا ہونا معیوب تھا۔ اور لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔
17. کنوارپنے اور باعصمت لڑکیوں کے لئے یہ علامت تھی کہ وہ ازار پر چمڑے کی ایک جھالر باندھے رکھتی تھیں۔
18. ایسارا اور ازلام کا طریقہ عام تھا۔ یہ ایک قسم کے تیر تھے کہ جن کے ذریعہ فال لی جاتی تھی۔ اور اونٹ کا گوشت تقسیم کیا جاتا تھا۔ موجودہ زمانہ میں لاٹری کا طریقہ زمانہ جاہلیت کے اس طریقہ سے زیادہ مشابہ ہے۔
19. احوال معجرہ وہ احوال کہلاتے تھے۔ جو بتوں پر چڑھاوے میں آتے تھے۔ اور قبیلہ بنو سہم کے یہاں جمع رہتے تھے۔
20. اموال رفادہ، یہ وہ مال تھا۔ جو قریش سالانہ چندہ کے طور پر جمع کرتے تھے۔ یہ رقم بطور امدادی فنڈ کے جمع رہتی تھی۔ اور قبیلہ بنو نوفل اس کا خزانچی تھا۔
21. عمارة البیت: اس سے مراد کعبة کا انتظام ہے۔
22. سقیاة الحاج! حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمت، یہ دونوں کام بنو ہاشم کے سپرد تھے۔
تصویر کا دوسرا رُخ:
ان عادات اور مراسم کے باوجود اہلِ مکہ اور اہلِ عرب میں کچھ خصوصیات بھی موجود تھیں۔
1. بیت اللہ کا احترام ان کے رگ و پے میں سمایا ہوا تھا۔ حرمتِ کعبہ ان میں اس قدر تھی کہ اگر دشمن بھی حرمِ کعبہ میں داخل ہو جاتا تو اس سے انتقام نہیں لیا جاتا تھا۔ چنانچہ بیت اللہ کی تعمیر جدید کا انتظام، حجرِ اسود کو نصب کرنے کے لئے ہر ایک کا پیش قدمی کرنا اور اس فضیلت کو حاصل کرنے کے لئے تلواروں کا باہر نکل آنا وغیرہ، جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:
﴿أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَ‌ةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ...﴿١٩﴾...سورۃ الحج
''کیا تم نے حجاج کو پانی پلانا اور انتظامِ مسجد حرام کو مثل ایمان باللہ کے قرار دیا ہے؟''
﴿يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ‌ الْحَرَ‌امِ قِتَالٍ فِيهِ ۖ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ‌ ۖ...﴿٢١٧﴾...سورۃ البقرۃ
''آپؐ سے حرمت والے مہینوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، ان سے فرما دیجئے کہ ان میں جنگ کرنا بڑا جرم ہے!''
سر یہ زید بن حارثہ میں غلط فہمی سے مسلمانوں کے ہاتھ سے ذی قعدہ کے مہینے میں ایک کافرقتل ہو گیا تو کفار نے پورے عرب میں اس کا پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ مسلمان ماہِ حرام اور مسجدِ حرام کا احترام ملحوظ نہیں رکھتے۔
2. ہدی (قربانی) کے جانوروں اور احرام باندھے ہوئے لوگوں کو کچھ نہیں کہا جاتا تھا۔ بلکہ ان کی حفاظت کرتے تھے۔ اور اسے ایک بہت بڑی نیکی سمجھتے تھے۔
3. خانہ کعبہ کا طواف اور سعی بین الصفا والمروہ بھی کرتے تھے۔ یہ بات علیحدہ ہے کہ اس میں وہ اصلیّت سے بہت دُور ہو گئے تھے۔
4. وہ اپنے آپ کو دینِ ابراہیمؑ پر کار بند سمجھتے تھے۔ اور اس کو انہوں نے دینِ حنیف قرار دے رکھا تھا۔ اور بت پرستی ان کے نزدیک دینِ حنیف کے خلاف نہ تھی۔ (جیسا کہ موجودہ زمانہ میں پیر پرستی اور قبر پرستی اسلام کے خلاف نہیں سمجھی جاتی)
5. اہلِ قریش میں ختنہ کا بھی طریقہ تھا۔ جو آج تک شعارِ مسلمین ہے۔
6. نکاح، نکاح میں گواہ، مہر، وکیل، ولی، خطبہ، ابجاب و قبول اس وقت بھی تھے۔
7. عقیقہ کی رسم بھی تھی، لیکن بکرا ذبح کر کے اس کا خون بچہ کے سر پر بہایا جاتا تھا۔ اسلام نے اس کی اصلاح کر دی کہ خون کی جگہ اس کے سر کے بال مونڈھ کر اتنے وزن کی چاندی صدقہ کر دی جائے۔
8. شادی میں ولیمہ کی رسم بھی تھی۔
9. مردوں کو دفن کیا جاتا تھا۔ میت کو غسل دینا وغیرہ اس وقت بھی تھا۔

مکہ مکرمہ کے باشندوں کے یہ عقائد اور مراسم عبادات تھے۔ اور اس کو اپنوں نے دینِ حنیف کا نام دے رکھا تھا۔ اور اپنے زعم میں اس کو حق تصور کرتے تھے۔ اور اس میں انہوں نے یہاں تک غلو کیا کہ وہ بت پرستی کی صورت اختیار کر گیا۔
قوموں میں انقلاب لانے کے لئے یہ ضروری ہے۔ کہ ان کے بنیادی تصورات کو بدلا جائے۔ اگر بنیادی تصورات، رجحانات اور عقائد میں تبدیلی ہو جائے تو پھر آسانی سے مراسمِ عبادات اور قانونِ معاشرت میں تبدیلی ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ پاک کی ابتدائی سورتوں میں عربوں کی تہذیب و معاشرت اور مراسمِ عبادات سے تعرض نہیں کیا گیا۔ بلکہ ان کے عقائد کی تبدیلی پر زور دیا گیا ہے۔ اور ن سے عقیدہ بدلنے کو کہا گیا ہے اور یہی بات عربوں کو ناگوار محسوس ہوئی۔
جہاں تک مراسمِ عبادات اور قانونِ معاشرت کا تعلق ہے۔ قرآن پاک نے ان ہی کو بدلا ہے جن میں شر ک کی آمیزش تھی۔ یا انسانیت کے خؒاف تھے۔ بقیہ قوانین میں سے بیشتر کو بعینہٖ باقی رکھا۔ اور بہت سے قوانین میں اصلاح کر دی گئی۔ اور یہ اس لئے کہ اسلام نے ایک معتدل قانون بنا دیا۔ نہ اتنا نرم کہ انسان پھر سے کفر و الحاد میں مبتلا ہو جائیں اور نہ اتنا سخت کہ وہ بغاوت کر بیٹھیں۔
اگر ان پر ایک دم قوانین ٹھونس دیئے جاتے۔ تو وہ اس کو ہرگز قبول نہ کرتے۔ اس لئے کہ جو لوگ ۳ سو سال سے زیادہ غیر فطری قوانین سے مانوس ہو چکے تھے وہ ایک دم کسی دوسرے دستور کے پابند نہیں ہو سکتے تھے۔ اس لئے بتدریج ان کو نئے دستور کا پابند بنایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آیاتِ احکام کا نزول بتدریج ہوا ہے۔
نزولِ قرآن:
اہلِ مکہ اور اہلِ عرب کے جو حالات اوپر پیش کیے گئے ہیں! قارئین نے ملاحظہ فرمائے، ان حالات میں جنابِ رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی۔ اور آپؐ پر قرآنِ پاک نازل ہونا شروع ہوا۔ یہ نزول اس طرح نہیں تھا۔ جس طرح دوسری آسمانی کتابیں تورات، انجیل، زبور اور دیگر صحائف آسمانی نازل ہوئے تھے۔ بلکہ حسبِ ضرورت مصلحتِ باری تعالیٰ کے تحت ہوا۔ اور عربوں کے نزدیک یہ ایک غیر متعارف طریقہ تھا۔ جس کی وجہ سے ان کو انکار کی نوبت آئی۔ اگر قرآن کا نزول ان کے زمینی تصور کے تحت ہوتا۔ تو وہ اس کو قیامت تک قبول نہ کرتے۔ جن لوگوں نے اپنے عقائد کی تبدیلی میں اتنی کٹ جحتی دکھلائی تھی۔ وہ تعمیلِ احکام میں اس سے کہیں زیادہ شدید اور منکر ہو جاتے۔ اور قیامت تک اس کو قبول نہیں کر سکتے تھے۔ اس لئے قرآنِ پاک کا تدریجی نزول ہوا۔ اس تدریجی نزول کے بارے میں عائشہؓ بیان فرماتی ہیں:
''سب سے پہلے آنحضرت ﷺ پر حالتِ نوم میں رویا صادقہ ظاہر ہونا شروع ہوئیں۔ جو مثل صبح صادق کے صاف ظاہر ہوجاتی تھیں۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ کو گوشہ نشینی محبوب رہنے لگی۔ آپؐ غارِ حرا میں تشریف لے جاتے۔ اسی اثناء میں فرشتہ وحی لے کر حاضر ہوا۔'' 3
ترتیبِ نزول:
اب جس ترتیب سے قرآن مجید نازل ہوا ہے۔ اس کی ترتیب پیشِ خدمت ہے:

نمبرشمار

نام سورۂ

تعداد آیات

مقامِ نزول

سن نزول تقریباً

مستثنیٰ آیات

1

اقراء (علق)

19

مکی

1 نبوی

 
2

المدثر

56

مکی

3 نبوی

 
3

المزمل

20

مکی

3 نبوی

 
4

نٓ والقلم

52

مکی

3 نبوی

 
5

الحمد (الفاتحہ)

7

مکی

3 نبوی

 
6

لہب

5

مکی

4نبوی

 
7

التکویر

29

مکی

4 یا 5 نبوی

 
8

الاعلیٰ

19

مکی

4 نبوی

 
9

الیل

21

مکی

5 یا 6 نبوی

 
10

الفجر

30

مکی

6 نبوی

 
11

الضحٰی

11

مکی

4 نبوی

 
12

الم نشرح

8

مکی

4 نبوی

 
13

العصر

3

مکی

4 نبوی

 
14

العادیات

11

مکی

4 نبوی

 
15

الکوثر

3

مکی

دور متوسط نبوی 9 یا 10

 
16

التکاثر

8

مکی

4 نبوی

 
17

الماعون

7

مکی

4 نبوی

پہلی تین آیات مکی بقیہ مدنی

18

الکافرون

6

مکی

5 نبوی

 
19

الفیل

5

مکی

4 یا 5 نبوی

 
20

الفلق

5

مکی

   
21

الناس

6

مکی

   
22

الاخلاص

4

مکی

4 نبوی

 
23

النجم

62

مکی

4 نبوی

 
24

عبس

42

مکی

5 یا 6 نبوی

 
25

القدر

5

مکی

4 نبوی

 
26

الشمس

15

مکی

5 یا 6 نبوی

 
27

البروج

22

مکی

6 نبوی

 
28

التین

8

مکی

4 یا 5 نبوی

 
29

قریش

4

مکی

4 نبوی

 
30

القارعہ

11

مکی

4 نبوی

 
31

القیامہ

40

مکی

4 یا 5 نبوی

 
32

الہمزہ

9

مکی

4 یا 5 نبوی

 
33

المرسلات

50

مکی

3 یا 4 نبوی

 
34

قٓ

45

مکی

4 یا 5 نبوی

آیت 38 مدنی

35

البلد

20

مکی

4 یا 5 نبوی

 
36

الطارق

17

مکی

4 یا 5 نبوی

 
37

القمر

55

مکی

7 یا 8 یا 9 نبوی

آیت 44، 45، 46 مدنی

38

صٓ

88

مکی

7 یا 10 یا 11 نبوی

 
39

اعراف

206

مکی

11 نبوی

آیات 163 یا 170 مدنی

40

الجن

28

مکی

10 نبوی

 
41

یٰسٓ

83

مکی

12 یا 13 نبوی

 
42

الفرقان

77

مکی

8 نبوی

 
43

الفاطر

45

مکی

7 یا 8 نبوی

 
44

مریم

98

مکی

5 نبوی

 
45

طٰہ

135

مکی

6 نبوی

 
46

الواقعہ

96

مکی

4 نبوی

 
47

الشعراء

227

مکی

10 نبوی

آیت 97 اور آیت 244 تا 227 مدنی

48

النمل

128

مکی

8 نبوی 2 نبوی

 
49

القصص

88

مکی

8 یا 9 یا 10 نبوی

آیت 52 یا 55 مدنی، آیت 85 حجفہ میں اثنائے ہجرت نازل ہوئی۔

50

بنی اسرائیل

111

مکی

12 نبوی

آیت 26-32-33 اور 73 تا 80 مدنی

51

یونس

109

مکی

13 نبوی

 
52

ہود

123

مکی

13 نبوی

آیت 13، 17، 114 مدنی

53

یوسف

111

مکی

13 نبوی

آیت 1،2،3،7 مدنی

54

الحجر

99

مکی

10 نبوی

آیت 87 مدنی

55

انعام

165

مکی

13 نبوی

آیت 30، 23، 91، 93، 114، 141، 151، 152، 153 مدنی

56

الصافات

182

مکی

9 نبوی

 
57

لقمان

34

مکی

8 یا 9 نبوی

آیت 27، 28، 29 مدنی

58

سبا

54

مکی

7 نبوی

 
59

الزمر

75

مکی

7 نبوی

آیت 52، 53، 54 مدنی

60

المومن

85

مکی

7 نبوی

آیت 56،57 مدنی

61

حم السجدہ

54

مکی

6 نبوی

 
62

الشوریٰ

53

مکی

6 نبوی

 
63

الزخرف

89

مکی

7 نبوی

 
64

الدخان

59

مکی

8 یا 9 نبوی

 
65

الجاثیہ

38

مکی

8 یا 9 نبوی

 
66

الاحقاف

35

مکی

10 یا 11 نبوی

 
67

الذاریات

60

مکی

4 یا 5 نبوی

 
68

الغاشیہ

26

مکی

4 یا 5 نبوی

 
69

الکہف

110

مکی

5 تا 10 نبوی

 
70

النحل

128

مکی

12 یا 13 نبوی

آیت 126، 127، 128 مدنی

71

نوح

28

مکی

4 یا 5 نبوی

 
72

ابراہیم

52

مکی

12 نبوی

آیت 28، 29 مدنی

73

الانبیاء

112

مکی

9 نبوی

 
74

المؤمنون

118

مکی

13 نبوی

 
75

السجدہ

30

مکی

8 یا 9 نبوی

آیت 16، 17، 18 مدنی

76

الطور

49

مکی

4 نبوی

 
77

الملک

30

مکی

4 یا 5 نبوی

 
78

الحاقہ

52

مکی

5 یا 6 نبوی

 
79

المعارف

44

مکی

5 یا 6 نبوی

 
80

النباء

40

مکی

3 یا 4 نبوی

 
81

النازعات

46

مکی

3 یا 4 نبوی

 
82

انفطار

19

مکی

4 نبوی

 
83

انشقاق

25

مکی

3 نبوی

 
84

الروم

60

مکی

7 یا 8 نبوی

 
85

العنکبوت

69

مکی

13 یا 1 نبوی

آیت 1 تا 11 مدنی

86

المطففین

36

مکی

13 نبوی

یہ سب سے آخری سورت ہے۔ جو مکہ میں نازل ہوئی۔

87

البقرہ

286

مدنی

2 ہجری

آیت 281 منیٰ میں حجة الوداع کے موقع پر نازل ہوئی۔

88

انفال

75

مدنی

2 یا 3 ہجری

آیت 30 اور 64 مکی

89

آل عمران

200

مدنی

3 تا 9 ہجری

 
90

الاحزاب

73

مدنی

5 ہجری

 
91

الممتحنہ

13

مدنی

6 ہجری

 
92

النساء

176

مدنی

2 تا 5 ہجری

 
93

الزالزال

8

مدنی

   
94

الحدید

29

مدنی

2 یا 3 ہجری

 
95

محمد

38

مدنی

2 یا 1 ہجری

آیت 13 اثنائے ہجرت میں نازل ہوئی

96

الرعد

43

مدنی

1 ، 13 نبوی

 
97

الرحمان

78

مدنی

7 نبوی مکی ہے

 
98

الدہر

31

مدنی

مکی ہے 3 یا 4 نبوی

 
99

الطلاق

12

مدنی

2 ہجری سورة بقر کے بعد

 
100

البنیہ

8

مدنی

   
101

الحشر

24

مدنی

4 ہجری

 
102

النور

64

مدنی

5 یا 6 ہجری

 
103

الحج

78

مدنی

اختلاف

19 تا 32 مدنی، 52 تا 55 مکی

104

المنافقون

11

مدنی

5 یا 6 ہجری

 
105

المجادلہ

22

مدنی

6 ہجری

 
106

الحجرات

18

مدنی

9 ہجری

 
107

التحریم

12

مدنی

7 یا 8 ہجری

 
108

التغابن

18

مدنی

مکی اور 1 ہجری

 
109

الصف

14

مدنی

4 یا 3 ہجری

 
110

الجمعہ

11

مدنی

7 ہجری

 
111

الفتح

29

مدنی

7 ہجری

مدینہ سے واپسی پر

112

المائدہ

120

مدنی

3، 5، 6، 7 ہجری

آیت 2 عرفات میں حجة الوداع کے موقع پر نازل ہوئی

113

التوبہ

129

مدنی

9 ہجری

آیت 128،129 مکی

114

نصر

3

مدنی

10 ہجری

حجة الوداع میں منیٰ میں نازل ہوئی 4


مکی سورتیں                        86
مدنی سورتیں                      28
میزان                               114


حوالہ جات
1. حجة اللہ البالغہ، جلد اوّل مطبوعہ نور محمد کراچی ص 277،276
2. خلاصہ باب 76 حجة اللہ البالغہ۔
3. بخاری
4. اتقان از علامہ سیوطیؒ (م 911ھ)