خدمتِ دینِ محمدؐ، خدمتِ ملک و وطن
چل پڑا جو راہِ حق میں باندھ کر سر پر کفن
خطرۂ دشمن نہ اُس کو خدشۂ دار و رسن
گر رہی ہیں باغِ دیں پر بجلیاں ہی بجلیاں
اور اِک ہم ہیں کہ دل میں غم، نہ ماتھے پر شکن
ہر قدم پر پرچمِ توحید و سنت گاڑ دو
اور مٹا دو شرک و بدعت کی ہر اک رسم کہن
نیک بختی کا نشاں ہے خوش نصیبی کی دلیل
خدمتِ دینِ محمدؐ۔ خدمتِ ملک و وطن
ہے ہر اک شے آئینہ دارِ جمالِ رُوئے دوست
دشت کی ویرانیاں ہوں یا چمن کا بانکپن
قافلے والوں کی بدبختی کا ماتم، کیجئے
ہو امیرِ قافلہ جس قافلے کا راہزن
گوشہ گوشہ اُس کا رشکِ مہرِ عالمتاب ہے
پڑ گئی جس دل پہ اُس شمع ہدایت کی کرن
مقصدِ عاجزؔ، خدا شاہد ہے، بس تبلیغِ حق،
طالبِ تحسین نہ وہ دلدادۂ دادِ سخن!