مفید الاحناف ..ایک صورتِ ایتلاف
سوال:
ایک مثل ہونے سے وقتِ ظہر گزر کر وقتِ نماز عصر ہو جاتا ہے یا نہ؟
جواب:
صاحبین کے نزدیک ہو جاتا ہے اور یہی مفتی بہ ہے۔ نقع المفتی والسائل میں مولانا محمد عبد الحیؒ تحریر فرماتے ہیں:
«وعندہ إذا صار ظل کل شيء مثلیه خرج وقت الظھر ودخل وقت العصر وعندھما إذا صار ظل کل شيء مثله كذا فی جامع المضمرات وفي الحمادیة عن الظھیریة والفتوی علی قولھما وعن التاسیس وعندنا کما قالا وعن الأسرار وقولھما مقتدي آہ وفی الدر المختار روي عنه مثله وھو قولھما وقول زفر والأئمة الثلثة قال الإمام الطحاوي وبه ناخد وفي غرر الأذکار وھو الماخوذ به وفي البرھان وھو الأظھر لبیان جبرئیل وھو نص في الباب وفي الفیض وعلیه عمل الناس الیوم وبه یفتٰی آہ وفي خزانة الروایات عن ملتقی البحار أن أبا حنیفة قد رجع في خروج وقت الظھر ودخول وقت العصر إلٰی قولھما آہ قلت والواقف الماھر علی أدلة الفریقین یعلم قطعاً کون قولھما قویا وکون قوله ضعیفا فلا عبرة لفتویٰ من أفتٰی به اٰہ »
ترجمہ: امام صاحب کے نزدیک جب کسی چیز کا سایہ دو مثل ہو جائے تو ظہر کا وقت ختم اور عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے مگر صاحبین کے ہاں جب ہر شے کا سایہ اس کے برابر ہو جائے اسی طرح جامع المضمرات اور فتاویٰ حمادیہ میں ظہیریہ سے منقول ہے ار فتوے صاحبین کے قول پر ہے۔ تاسیس اور اسرار سے منقول ہے کہ ہمارے نزدیک بھی صاحبین کے قول کی اقتداء کی گئی، اور در مختار میں ہے کہ امام صاحب سے بھی، صاحبین کے قول یعنی ایک مثل پر عصر ہونا، مروی ہے اور یہ قول صاحبین، زفر اور ائمہ ثلاثہ کا ہے اور امام طحاوی نے کہا ہے کہ ہم بھی ایک مثل کو اختیار کرتے ہیں اور غرر الاذکار میں بھی ایک مثل کو اختیار کیا گیا ہے اور برہان میں ایک مثل ظاہر تر ہے حضرت جبریل کے اس بیان کی وجہ سے جو اس سلسلہ میں نص قطعی ہے۔ فیض میں ہے کہ اسی پر لوگوں کا عمل رہا اور اسی پر فتویٰ دیا جاتا رہا۔ خزانۃ الروایات میں ملتقی البحار سے منقول ہے کہ امام صاحب نے امام ابو یوسف اور امام محمد کے قول ایک مثل پر ظہر کا وقت ختم ہونے اور عصر کا وقت شروع ہونے کی طرف رجوع کیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ فریقین کے دلائل سے واقف کار شخص بخوی جانتا ہے کہ صاحبین کا قول قوی ہے اور امام صاحب کا قول ضعیف ہے۔ لہٰذا اس شخص کا فتویٰ معتبر نہیں ہے جو امام ابو حنیفہ کے مشہور قول پر دے۔
سوال:
نقرض کو جیسا کہ بعد رکعتین اولیین کے اقتصار سورۂ فاتحہ پر کرنا جائز ہے۔ ویسے ہی اس کو سورۂ فاتحہ کے ساتھ ضم سورہ بھی جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
جائز ہے۔ رد المحتار ص ۵۳۳ میں ہے:۔
«لو ضم إلیھا سورة لا بأس به لأن القراءة في لأخریین مشروعة من غیر تقدیر والاقتصار علی الفاتحة مسنون لا واجب فکان الضم خلاف الأولی وذلك لا ینافي المشروعیة والإباحة اٰہ »
ترجمہ: اگر پچھلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے ساتھ کوئی اور سورت ملا لے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے کیونکہ پچھلی دونوں رکعات میں بغیر تعیین کے قرأت مشروع ہے اور صرف سورہ فاتحہ کی تلاوت بھی مسنون ہے واجب نہیں مگر سورہ کا ملا کر پڑھ لینا ثانوی حیثیت کا حامل ہے لیکن یہ اس کے مشروع اور جائز ہونے کے منافی نہیں ہے۔
سوال:
مابین اذان مغرب و فرض کے دو رکعت نفل پڑھنا مباح ہے یا نہ؟
جواب:
قبل فرض مغرب کے مباح ہے۔ در مختار میں ہے:
«وحرر إباحة رکعتین خفیفتین قبل المغرب وأقرہ في البحر والمصنف اٰہ »
ترجمہ: اور مغرب سے قبل ہلکی سی دو رکعات کو جائز لکھا ہے اور بحر الرائق میں اور مصنف نے اس کا اقرار کیا ہے۔
مولانا عبد الحی بحر العلوم نے ارکانِ اربعہ میں تحریر کیا ہے:
«وقد روی عبد اللہ بن مغفل قال قال رسول اللہ ﷺ صلوا قبل المغرب ثم قال صلوا قبل المغرب اٰہ وعن أنس کان المؤذن إذا أذن قدم ناس من أصحاب النبي ﷺ یبتدرون السواري حتی یخرج النبي ﷺ وھم کل ذلك یصلون اٰہ »
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مغفل بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، نماز پڑھو مغرب سے پہلے، پھر فرمایا نماز پڑھو مغرب سے پہلے اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مؤذن جب اذان کہتا تو نبی اکرم ﷺ کے صحابہ میں سے لوگ جلدی جلدی ستونوں کی طرف بڑھتے حتیٰ کہ جب آپ تشریف لاتے تو وہ سب (مغرب کے فرضوں س پہلے) نماز پڑھ رہے ہوتے الخ۔
اور مولانا محمد عبد الحی نے سعایہ میں تحریر فرمایا ہے:
«فلو صلی أحیانا بحیث لم یلزم منه تاخیر المغرب لم یکرہ البتة کما ھو مقتضی تطبیق الأحادیث بعضھا ببعض اٰہ »
ترجمہ: اگر اتفاقاً کوئی شخص اس طرح نفل پڑھے کہ فرض نماز میں تاخیر نہ ہو تو کوئی حرج نہیں جیسا کہ بعض احادیث کی آپس میں تطبیق کا یہی تقاضا ہے۔
سوال:
کیا آٹھ ہی رکعت تراویح سنت ہے؟
جواب:
ہاں۔ مگر باقی مستحب ہے۔ رد المحتار کے ص ۷۳۸ میں ہے:
«وذکر في الفتح أن مقتضی الدلیل کون المسنون منھا ثمانیة والباقي مستحبا وتمامه في البحر اٰہ۔ »
ترجمہ اور فتح القدیر میں ذِکر کیا ہے کہ دلیل کا تقاضا آٹھ رکعت کا سنت (مسنون) ہوتا ہی ہے اور باقی مستحب ہیں۔ اس کی پوری بحث بحر الرائق میں ہے۔
سوال:
بنظر دفع بلاء مثل وباء وغیرہ کے نماز فرض فجر میں بعد رکوع کے قنوت پڑھنا جائز ہے یا نہ؟
جواب:
جائز ہے رد المحتار کے ص ۷۰۲ میں ہے:
«فیقنت ا لإمام في الجھریة اٰہ یوافقه ما في البحر والشر نبلالیة عن شرح النقایة عن الغایة وإن نزل بالمسلمین نازلة قنت الإمام في صلاة الجھر وھو قول الثوري وأحمد اٰہ وکذا ما في شرح الشیخ إسمعیل عن البنایة إذا وقعت نازلة قنت الإمام في صلٰوة الجھریة لکن في ا لإشباہ عن الغایة قنت في صلٰوة الفجراٰہ وھل المقتدي مثله أم لا وھل القنوت ھنا قبل الرکوع أم بعده لم أرہ والذي یظھر لي أن المقتدي یتابع إمامه إلا إذا جھر فیؤ مّن وإنه یقنت بعد الرکوع لا قبله ألخ »
ترجمہ: پس جہری نماز میں امام قنوت پڑھے اور یہ بحر الرائق اور شربنلالیہ میں جو شرح نقایہ سے منقول ہے اس کے موافق ہے اور اس میں غایہ سے منقول ہے کہ اگر مسلمانوں پر بلا نازل ہو تو امام جہری نمازوں میں قنوت پڑھے اور یہ قول ثوری اور احمد کا ہے۔ اسی طرح شرح میں شیخ اسماعیل کے بنایہ سے منقول ہے کہ جس وقت کوئی بلا آئے تو امام جہری نمازوں میں قنوت پڑھے لیکن اشباہ میں غایہ سے منقول ہے کہ نماز فجر میں قنوت پڑھے لیکن میں نے نہیں دیکھا کہ مقتدی بھی امام کی طرح پڑھے یا نہ پڑھے اور قنوت رکوع سے پہلے پڑھے یا بد میں، مگر معلوم یہی ہوتا ہے کہ جب امام جہر کرے تو مقتدی اپنے امام کی پیروی میں آمین کہے اور قنوت رکوع کے بعد پڑھے نہ کہ رکوع سے پہلے۔
سوال:
حدیث خرباق یعنی ذوالیدین منسوخ ہے یا نہیں؟
جواب:
نہیں۔ رد المختار صفحہ ۶۴۳ میں ہے:
«ومنع النسخ بأن حدیث ذي الیدین رواہ أبو ھریرة وھو متأخر الإسلام وأجیب بجواز أن یرویه عن غیرہ ولم یکن حاضر أو تمامه في الزیلعي قال في البحر وھو غیر صحیح لما في صحیح مسلم عنه بینا أنا أصلي مع رسول اللہ ﷺ وساق الواقعة وھو صریح في حضورہ ولم أر عنه جواباً شافیا اٰہ »
ترجمہ: اور ذوالیدین کی حدیث کو ابو ہریرہ کے بیان کرنے کی وجہ سے منسوخ سمجھنے کی تردید کی گئی ہے کہ بے شک ابو ہریرہ بعد میں اسلام لائے مگر یہ بھی تو ہو سکا ہے کہ انہوں نے یہی حدیث دوسرے لوگوں سے سن کر بیان کی ہو اور وہ خود موجود نہ ہوں۔ اس کی پوری بحث زیلعی میں ہے۔ بحر الرائق میں ہے کہ ابو ہریرہ کا اس واقعہ کے وقت موجود نہ ہونا صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ صحیح مسلم میں ابو ہریرہ سے ان الفاظ میں یہ حدیث مروی ہے کہ ایک دن میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتا تھا اور بیان کیا اس واقعہ کو اس سے تو ان کا حاضر ہونا واضح ہے اور میں نے اس کا کوئی شافی جواب نہیں دیکھا۔
سوال:
حدیثِ امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہا منسوخ ہے یا نہیں؟
جواب:
نہیں۔ رد المحتار صفحہ ۶۸۳ میں ہے:
«قد ورد في الصحیحین وغیرھما عن أبي قتادة أن النبي ﷺ کا یصلي وھو حامل أمامة بنت زینب بنت النبي ﷺ فإذا سجد وضعھا وإذا قام حملھا وقد أجیب عنه بأجوبة منھا ما ذکرہ الشارح أنه منسوخ بما ذکرہ من الحدیث وھو مردود بأن حدیث إن في الصلوٰة لشغلًا کان قبل الھجرة وقصة أمامة بعدھا ومنھا ما في البدائع أنه ﷺ لم یکرہ منه ذلك لانه کان محتاجا إلیه لعدم من یحفظھا أو للتشریع بالفعل إن ھذا غیر مفسد ومثله أیضاً في زماننا لا یکرہ لواحد منا فعله عند الحاجة إما بدونھا فمکروہ اٰہ وقد أطال المحقق ابن أمیر حاج في الحلیة في ھذا المحل ثم قال إن کونه للتشریع بالفعل ھو الصواب الذي لا یدل عنه کما ذکرہ النووي فإنه ذکر بعضھم أنه بالفعل أقوی من القول ففعله ذلك لبیان الجواز ألخ »
ترجمہ: صحیحین وغیرہ میں آیا ہے کہ نبی کریم ﷺ حضرت زینبؓ کی بیٹی امامہ یعنی اپنی نواسی کو گود میں لے کے نماز پڑھ رہے تھے جب سجدہ کرتے تو اس کو رکھ دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو اُٹھا لیتے۔ اس کا جواب کئی طرح دیا گیا ایک تو وہ ہے جسے شارح نے ذکر کیا ہے کہ یہ حدیث اس حدیث سے منسوخ ہے جس میں ان فی الصلٰوة لشغلا ہے لیکن یہ قبل از ہجرت تھی اور امامہ کا قصہ ہجرت کے بعد کا ہے۔ دوسرا جواب وہ ہے جو بدائع میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا یہ فعل مکروہ نہیں کیونکہ آپ ﷺ نے یہ ضرورت کے تحت کیا ہے۔ اس لئے کہ امامہ کو سنبھالنے والا کوئی دوسرا شخص نہیں تھا یا اس فعل کی مشرعیت ظاہر کرنے کے لئے آپ نے ایسا کیا کہ ضرورت کے وقت ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں اور مفسدِ نماز نہیں اور ہمارے زمانے میں بھی کوئی ضرورت کے لئے ایسا کر لے تو مکروہ نہیں لیکن بغیر ضرورت کے ایسا کرنا مکروہ ہے۔ محقق ابن امیر حاج نے حلیہ میں اس مقام میں طویل تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیشک اس فعل کا کرنا مشروعیت بتانے کے لئے ہی درست ہے جس سے انکار ممکن نہیں جیسا کہ امام نووی نے ذِکر کیا ہے۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ فعل سے مشروع بتانا قول سے اقویٰ ہے پس آپ کا یہ فعل بیان جواز کے لئے تھا۔ اور تعلیق الممجد میں ہے:
«قال النووي ادعی بعض المالکیة إنه منسوخ وبعضھم إنه من الخصائص وبعضھم إنه لضرورة وکلھا دعاوی باطلة مردودة لا دلیل علیھا الخ »
ترجمہ: نووی کہتے ہیں کہ بعض مالکیہ نے اس حدیث کے منسوخ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ بعض آپ کا خاصہ بناتے ہیں اور بعض ضرورت کے لئے کہتے ہیں حالانکہ یہ سب دعوے باطل اور مردود ہیں جن کی کوئی دلیل نہیں۔ (باقی آئندہ)