نادان ہیں جو شادابیٔ گل سے آنکھ لگائے بیٹھے ہیں
بچپن کا زمانہ، عہدِ جوانی یونہی لٹائے بیٹھے ہیں ہم اپنے گھر کو اپنے ہاتھوں آگ لگائے بیٹھے ہیں
جو کام کے دن تھے بیت گئے وہ مدہوشی کے عالم میں اُس اک اک لمحہ پر اب سو سو اشک بہائے بیٹھے ہیں
کس طور سے پہنچے گا منزل پر اے طائر بد قسمت تو صیاد ہزاروں رستہ بھر میں دام بچھائے بیٹھے ہیں
اے جانے والے دیکھ نہ تو رنگینیٔ محفل کی جانب ہم لمحہ بھر کی عشرت سے سو درد اُٹھائے بیٹھے ہیں
اس فصلِ بہاراں کے پردے میں دور خزاں ہے پوشیہ نادان ہیں جو شادابیٔ گل سے آنکھ لگائے بیٹھے ہیں
یہ غنچے اپنی نکہت میں پوشیدہ شرارے رکھتے ہیں اس گلشن کے لاکھوں بلبل گھر اپنے جلائے بیٹھے ہیں
ہوشیار! کہ تیری راہِ سفر معمور ہے ساری کانٹوں سے اس راہ میں کتنے اہل خرد دامن الجھائے بیٹھے ہیں
آتے رہے ہیں پیش نظر دن رات جنازوں کے منظر حیرت ہے یہ پر کیوں اپنی اجل ہم دل سے بھلائے بیٹھے ہیں؟
اس دارِ فنا سے چلے گئے کتنے یار و غمخوار اپنے ہم کتنے جگر گوشے اپنے قبروں میں دبائے بیٹھے ہیں
ہر صبح سفر ہر شام سفر عاجزؔ آخر انجام سفر
کچھ چلے گئے کچھ جائیں گے دنیا میں جو آئے بیٹھے ہیں