امام محمد نصر مروزیؒ

انکارِ حدیث کے ردّ میں امام کی خدمات


امام لقب، شیخ الاسلام خطاب، ابو عبد اللہ کنیت ہے۔ ان کا نام نامی محمد اور والد کا نام نصر ہے۔ خراسان کے ایک قدیم اور بین الاقوامی شہرت یافتہ علمی مرکز ''مرو'' کی طرف نسبت کی وجہ سے مروزی کہلاتے تھے۔ ان کی پیدائش ۲۰۲ھ میں بغداد شہر میں ہوئی جب کہ وہ علم و سیاست کا گہوارہ بن چکا تھا۔ ابتدائی تعلیم اور نشوونما نیشا پور کے حصہ میں آئی۔ پھر علم کی پیاس بجھانے کے لئے دنیا کا کونا کونا چھان مارا۔ بالآخر سمر قند میں رہائش پذیر ہوئے۔

اساتذہ:

جس شخص کو اللہ تعالیٰ قابلیت، جذبہ شوق، محنت اور محبت علم کے علاوہ چوٹی کے اساتذہ کی صحبت سے استفادہ کرنے کا مقع بھی بہم پہنچا دے۔ اس کی خوش قسمتی کا کون اندازہ لگا سکتا ہے یہی حال امام موصوف کا تھا۔ چنانچہ وہ مشہور علمائے کرام جن سے انہوں نے براہِ راست استفادہ کیا، ان میں سے اکثر و بیشتر امام بخاری اور امام مسلم کے اساتذہ تھے۔ ذیل میں ایسے چند ایک اساتذہ کا ذکر کیا جاتا ہے۔

1۔ عبد اللہ بن عثمان مروزی 2۔ امام احمد بن حنبلؒ کے ہم سبق امام اسحاق بن راہویہ

3۔ عبید اللہ بن سعید ابو قدامہ سرخسی 4۔ محمد بن بشار بندار

5۔ ابو موسیٰ محمد بن موسیٰ الزمن 6۔ عبید اللہ بن معاذ عبری

7۔ ہدبہ بن خالد 8۔ ابراہیم بن فندر حزامی

9۔ صدقہ بن فضل مروزی 10۔ محمد بن عبد الملک بن ابی الشعارب

11۔ ابو کامل حجدری فضیل بن حسین 12۔ یحییٰ بن زکریا بن یحییٰ ینشا پوری آکر الذکر امام نسائی کے استاذ ہیں۔رحمۃ اللہ علیہم أجمعین

تلامذہ:

جس طرح کسی شخص کی قابلیت اور فضیلت کا سہرا اس کے اساتذہ کے سر ہوتا ہے۔ اسی طرح اس کی شہرت کا دارومدار اس کے تلامذہ پر ہوتا ہے۔ چنانچہ امام موصوف کے فیضان تلمذ سے سرخرد ہونے والے چند مشہور اور جید علماء یہ ہیں:

1۔ ان کے صاحبزادے اسمٰعیل۔ 2۔ ابو علی عبد اللہ بن محمد بن علی بلخی۔

3۔ محمد ن اسحاق رشادی سمرقندی 4۔ عثمان بن جعفر لبّان۔

5۔ محمد بن یعقوب بن احزم نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ۔

امام کا علمی مقام:

محمد بن عبد اللہ بن عبد الحکم کا یہ کہنا ہے کہ ''یہ شخص علاقہ بھر میں امام مانا جاتا ہے۔ چہ جائیکہ خراسان ہو۔''

اسمٰعیل بن قیتبہ کہتے ہیں ''جب کوئی شخص محمد بن یحییٰ سے کوئی فتویٰ لینے آتا و بسا اوقات وہ اسے امام مروزی کے پاس بھیج دیتے۔'' انہوں نے بڑے بڑے جلیل القدر اور عظیم الشان علماء سے اپنا علم کا لوہا منوایا ہے۔ چنانچہ اکثر مورخین نے یہ صراحت کی ہے کہ ''یہ شخص علم حدیث میں سمندر تھا تو فقہ میں لاثانی تھا۔ صحابہ کرامؓ اور ان کے بعد جتنے علماء ان کے زمانے تک ہو گزرے تھے ان سب کے اختلافات اور احکام شریعت کو ان سے بڑھ کر جاننے والا کوئی نہ تھا۔

ابو بکر صیرفی جیسے فقیہ اور اصولی کا کہنا ہے کہ اگر امام مروزی کی صرف ایک تصنیف ''قسامت'' ہی ہوتی تو یہی کتاب ان کے علمی تفوق کو ثابت کرنے کے لئے کافی تھی، چہ جائیکہ ان کی دوسری تصنیفات ہوں جنہوں نے ان کے علم و فقاہت کا سکہ بٹھایا ہے۔

مشہور عیسائی مورخ فردینان توتل نے ان کے حالات زندگی میں ان کے علمی مقام کو تسلیم کرنے کے بعد ان کی تصیفات میں ''الفرائض'' کا ذِکر کیا ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے۔

«وَھُوَ أحَسَنُ ما کُتِبَ فِي ھٰذَا الْبَاب »

یہ کتاب اپنے موضوع میں اپنی مثال آپ ہے۔

امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ سب سے زبردست عالم وہ ہے جسے ''ذخیرہ احادیث سب سے زیادہ میسر ہو، وہ احادیث اس اچھی طرح یاد ہوں اور ان کے معانی پر سب سے زیادہ حاوی ہو۔ نیز وہ علمائے امت کے اجماع یا اختلاف (یعنی کس مسئلہ میں سب علماء کی رائے ایک ہی ہے اور کس مسئلہ میں ان کے نقطۂ نظر میں اختلاف رونما ہوا ہے؟) کو سب سے بڑھ کر جانتا ہو۔'' اس کے بعد فرماتے ہیں کہ یہ تمام صفحات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد امام محمد بن نصر مروزی کے سوا کسی اور شخص میں بدرجہ اتم موجود نہیں۔ اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ رسول خدا ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کوئی ایسی حدیث نہیں جو محمد بن نصر مروزی کے علم میں نہ ہو تو یہ چیز حقیقت سے بعید نہیں۔

سیرت:

ابو بکر احمد بن اسحاقؒ کہتے ہیں کہ میں نے دو اماموں کا زمانہ پایا لیکن ان سے علمی استفادے کا موقع نہیں ملا۔ ان میں سے ایک ابو حاتم محمدبن ادریس رازی تھے اور دوسرے ابو عبد اللہ محمد  بن نصر مروزی تھے۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ میں نے امام ابو عبد اللہ محمد بن نصر مروزی کی نماز جیسی نماز کسی نہیں دیکھی ان کے متعلق سنا ہے کہ ایک دفعہ دوران نماز ایک بھڑ ان کی پیشانی پر بیٹھ گئی جس کاٹنے سے خون نکل کر چہرے پہ بہہ گیا۔ لیکن امام نے نماز میں حرکت تک نہ کی۔

اگر پونچی تھوڑی ہوتی تو اسی سے گزارہ کر لیتے اور اگر زیادہ ہوتی تو دیگر اخراجات اور علمی ضروریات میں خرچ کر دیتے یعنی دولت جمع کرنا نہیں چاہتے تھے۔ چنانچہ محمد بن عبد الوہاب ثقفی کا کہنا ہے کہ خراسان کا گورنر اسمٰعیل بن احمد، اس کا بھائی اسحاق بن احمد اور اہالیان سمرقند انہیں سالانہ چار چار ہزار درہم ذاتی ضروریات پر خرچ کرنے کے لئے دیتے، یعنی بارہ ہزار درہم سالانہ بطور نذرانہ ملتے اور بال بچے بھی زیادہ نہ تھے۔ لیکن پھر بھی یہ تمام رقم سال بھر میں ختم کر ڈالتے۔

ایک روز میں نے عرض کی، حضرت! یہ لوگ جو آپ کو آج اتنی رقم دیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے، کل ان کا طرزِ عمل بدل جائے۔ بہتر ہوتا کہ آپ آڑ وقت کے لئے کچھ جمع کر لیتے۔ کہنے لگے: ''واہ! سبحان اللہ'' میں اتنی دیر مصر رہا اور وہاں میری خوراک، کاغذ سیاہی اور دیگر تمام اخراجات پر صرف بیس درہم سالانہ خرچ ہوتے تھے۔ اور کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ اتنی آمدنی بھی باقی نہ رہے گی۔''

وفات:

آپ نے محرم ۲۹۴ھ میں ۹۲ برس کی عمر میں وفات پائی۔﴿ إنَّا لِله وإنَّا إلَیْه رَاجِعُونَ﴾ ان کے بعد کوئی شخص ان کا ہم پلہ نہ رہا تھا۔

امام موصوف اور فتنہ انکار حدیث:

فتنہ انکارِ حدیث اس وقت زور پکڑتا ہے جب حکومت کا ذہن خالص اسلامی نہ ہو اور وہ زمانے کے رخ کو دیکھ کر اپنے طرزِ عمل کو تبدیل کرنے کی خواہاں ہو، حکومت کے بہی خواہ اور موقعہ پرست حکومت کے رجحان کو دیکھ کر قرآنی تأویلات اور ذہنی تفاسیر تیار کرنے میں مستعد ہو جاتے ہیں۔ تاکہ غلط عقائد اور غیر اسلامی عادات و اطوار کو اسلام کا لباس پہنایا جا سکے۔ اس سلسلہ میں ذخیرہ احادیث بہت بڑی رکاوٹ ہوتا ہے، کیونکہ نبی کی زبان سے ہی قرآن مجید کی آیات کی صحیح تفسیر اور اس کے نازل کرنے والے کی حقیقی ترجمانی ہو سکتی ہے جب اہل ہویٰ احادیث کا جواب نہیں پاتے، تو اپنی آراء سے متصادم احادیث کا انکار شروع کر دیتے ہیں۔

امام کے زمانے میں بھی کئی ایسے لوگ پیدا ہو چکے تھے جو فلسفۂ یونان سے متاثر ہو کر یونانی عقائد و توہمات اور فلسفانہ موشگافیوں کو عقل سلیم کا نام د کر ا پر اسلام کا لیبل لگانا چاہتےے تھے، چونکہ حدیث مصطفےٰ ﷺ اس راہ میں بہت بڑی رکاوٹ تھی اس لئے انہوں نے بض احادیث کا انکار کر دیا۔

امام کا موقف:

علمائے حق ہمیشہ ایسے لوگوں کے خلاف علم جہاد بلند رکھتے ہیں۔ امام موصوف نے بھی اس سلسلہ میں اپنے فرض کو پہچانا اور حجیت حدیث کے موضوع پر ایک اہم کتاب ''السنۃ'' لکھی، اِس کتاب میں امام نے ٹھوس دلائل سے منکرین حدیث پر علمی تنقید فرمائی ہے۔ اِس کتاب کے ایک اہم باب کا ترجمہ ہدیہ قارئین ہے۔ جس کا عنوان ہے۔ ''ان سنتوں (احادیث) کا بیان جو قرآن مجید کے ان مجمل مقامات کی تفسیر ہیں جنہیں حل کرنا حضور نبی اکرم ﷺ کے ذمہ تھا۔ کیونکہ اگر اس تفسیر کو چھوڑ دیں اور صرف الفاظ قرآنی کو سامنے رکھیں تو ان کے معانی و مطالب حل نہ ہوتے تھے۔'' حجت قطعی سے اس باب میں جس چیز کو واضح طور پر امام نے پیش کیا ہے اور جن منکرین کا رد کیا ہے وہ یہ ہے کہ یا تو ذخیرۂ احادیث کو بالکل ہی ٹھکرا دیا جائے۔ اس صورت میں اسلام کے بنیادی ارکان پر بھی عمل ممکن نہیں۔ کیونکہ ان کے بارے میں نازل ہونے والی آیات کی اصلی مراد سمجھ نہیں آتی اور یا پھر کلیۃً اس قبول کر لیا جائے، بشرطیکہ وہ صحت و ضعف کے معیاری اور معروف اصولوں پر پوری اتر آئے۔ یہی صحیح ہے اور اس صورت میں وہ نظریات جن کو قرآنی ظاہر کرنے کے لئے آیات کی غلط تاویل کی جاتی تھی۔ احادیث نبویہ سے ان کا بطلان ثابت ہو جائے گا۔

اسلامی اقدار سے معاشرہ کی روگردانی دیکھتے ہوئے آ بھی کچھ لوگ مشرق و مغرب کے نظام ہائے زندگی پر اسلام کا لیبل لگا کر قرآن حکیم اور حدیث رسول ﷺ کے مابین نزاع اور معنوی رقابت پیدا کرنے کے در پے ہیں اور یا تو سنت (احادیث) کا قرآن مجید سے اختلاف ظاہر کر کے لوگوں کی توجہ پیغمبر خدا ﷺ کی تفسیر سے ہٹا کر اپنی تاویلوں کی طرف لگانا چاہتے ہیں یا سرے سے ہی ذخیرہ احادیث کو مشکوک اور عجمی سازشیں قرار دے کر نئی پود اور خصوصاً تعلیم یافتہ طبقہ کو اس سے برگشتہ کر رہے ہیں۔

امام موصوف نے متجد دین کے اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے پرزور دلائل سے جس طرح اس مسئلہ پر اپنی مذکورہ بالا تصنیف میں بحث کی ہے وہ ایک شاہکار ہے، یہ کتاب ''السنۃ'' پہلی دفعہ سعودی حکومت نے زیور طبع سے آراستہ کی ہے اور علماء اور شائقین علم میں مفت تقسیم کی ہے (ترجمہ قریبی اشاعتوں میں قسط وار شائع کیا جائے گا۔ إن شاء أللہ) (ادارہ)


نوٹ

سمر قند وہ مقام ہے جس میں مسلمانوں کے جاہ و جلال اور علم و عمل کی اب صرف یادگاریں باقی رہ گئی ہیں۔ اس کی آبادی ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہے۔ اکثریت اگرچہ مسلمانوں کی ہے لیکن اس وقت وہ سوفیاتی ازبکی جمہوریت کے ظلم تلے پس پس کر اسلام کو تقریباً خیر باد کہہ چکے ہیں۔