عورت نکاح میں ولی کی محتاج کیوں ہے؟

قسط نمبر ۳


گزشتہ دو اقساط میں مسئلہ کی وضاحت قرآنی آیات سے ہو چکی ہے۔ اب اس کی تشریح احادیث نبویہ سے پیش کی جا رہی ہے۔

حاملِ قرآن مبلغِ فرقان رہبرِ دو جہاں فداہ أبي و أمي ﷺ کے ارشاداتِ عالیہ جو عورت کے نکاح میں لی کی شرط ہونے پر دال ہیں وہ بے شمار کتبِ حدیث میں روایت کئے گئے ہیں۔ خصوصاً صحاح ستہ کی کوئی کتاب اس سے خالی نہیں۔ بعض ائمہ نے تو مشہور حدیث« لا نکاح إلا بولي »کے الفاظ سے ہی باب منعقد کئے ہیں۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے باب «من قال لا نکا ح إلا بولي» (ص ۷۶۹) اور ترمذی ص ۱۷۵ میں ہے« باب ما جاء لا نکاح إلا بولي» ابن ماجہ میں ہے «لا نکاح إلا بولي» منتقی ابن تیمیہؒ میں ہے باب« لا نکاح إلا بولي» (ص ۱۰۱ مع نیل) نہ معلوم اور کتنے لوگوں نے ایسا کیا ہے۔ ابو داؤد میں یوں ہے باب في الولي (ج۲، ص ۱۹۰) «باب الولي في النکاح واستیذان المرأة»

مشکوٰۃ میں ہے:

«عن أبی موسٰی عن النبی ﷺ قال لا نکاح إلا بولي رواہ أحمد والترمذي وأبو داود وابن ماجه والدارمي»

ترجمہ: حضرت ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ولی کے بغیر نکاح جائز نہیں۔ (اس کو احمدؔ، ترمذیؔ، ابو داؤد،ؔ ابن ماجہؔ اور دارمیؔ نے روایت کیا ہے)

ترمذی جلد ۲ صفحہ ۱۷۵ میں ہے:

«عن أ بی موسٰی قال قال رسول اللہ ﷺ لا نکاح إلا بولي»

ابو داؤد جلد ۲ صفحہ ۱۹۱ میں ہے:

«عن أبي بردةعن أبي موسٰی أن النبي ﷺ قال لا نکاح إلا بولي» ( أبو داود مع عون المعبود ج ۲، ص ۱۹۱)

ابن ماجہ صفحہ ۵۷۰ میں ہے:

«عن أبی موسٰی قال قال رسول اللہ ﷺ لا نکاح إلا بولي »

منتقی ابن جارود میں یہ حدیث ابو موسیٰ سے چار دفعہ چار سندوں سے انہی الفاظ لا نکاح إلا بولي سے روایت کی گئی ہے۔

منتقیٰ ابن تیمیہؒ جلد ۶۷۵ صفحہ ۱۰۱ میں ہے:

«عن أبي موسٰی عن النبي ﷺ قال لا نکاح إلا بولي» (رواہ الخمسة الا النسائي)

یہ حدیث ابو موسیٰ کے علاوہ اور صحابہ سے بھی مروی ہے چنانچہ ابن ماجہ میں یہ حدیث عائشہ، ابن عباس اور أبو موسیٰ رضی اللہ عنہم تینوں سے روایت کی گئی ہے:

«عن عروة عن عائشة عن النبيﷺ وعن عکرمة عن ابن عباس قالا قال رسول اللہ علیه وسلم لا نکاح إلا بولي»

«عن أبي بردةعن أبي موسٰی قال قال رسول اللہ ﷺ لا نکاح إلا بولي» (ابن ماجہ ج۱، ص ۲۹۷)

بلوغ المرام صفہ ۷۹ میں ہے:

«عن أبي بردة بن أبي موسٰی عن أبیه قال قال رسول اللہ ﷺ لا نکاح إلا بولي وروی الإمام أحمد عن الحسن عن عمران بن الحسین مرفوعا لا نکاح إلا بولي وشاھدین رواہ أحمد والأربعةوصححه ابن المدیني والترمذي وابن حبان وأعل بالإرسال»

ترجمہ: یعنی ابو بردہ بن ابی موسیٰ اپنے باپ (ابو موسےٰ ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نکاح ولی کے بغیر جائز نہیں اور امام احمد نے عمران بن حصین سے روایت کیا ہے کہ نکاح ولی اور دو شاہدوں کے بغیر جائز نہیں۔ (اس کو امام احمد، سنن اربعہ، ابن مدینی، ترمذی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے اور ابن مدینی، ترمذی اور ابن حبان نے اس کو صحیح کہا ہے اور اس میں مرسل ہونے کی علت بیان کی گئی ہے۔

حدیث لا نکاح إلا بولي کے علاوہ دیگر احادیث جو ولی کی بغیر نکاح نہ ہونے پر دال، اور مذکورہ بالا حدیث کی مؤید ہیں ملاحظہ ہوں:

«عن عائشة أن رسول اللہ ﷺ قال أیما امرأة نکحت بغیر إذن ولیھا فنکاحھا باطل فنکاحھا باطل فنکاحھا باطل فإن دخل بھا فلھا المھر بما استحل من فوجھا فإن اشتجروا فالسلطان ولي من لاولي له» رواہ احمد والترمذي وابو داود وابن ماجة والدارمي (مشکوٰۃ ص ۲۷۱)

بلوغ المرام میں ہے« أخرجه الأربعة إلا النسائي وصححه أبو عوانة وابن حبان والحاکم» ( ص ۷۹)

ترجمہ: یعنی حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو عورت ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے وہ نکاح باطل ہے، باطل ہے باطل ہے۔ اگر خاوند اس سے صحبت کر بیٹھے تو عورت کے لئے مہر ہے۔ اگر اولیاء آپس میں تنازعہ کریں اور کوئی فیصلہ نہ ہو سکے تو حاکم ولی ہے۔ (اس کو احمد، ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ اور دارمی نے روایت کیا ہے۔ اور بلوغ المرام میں ہے اس کو سنن اربعہ نے سوائے سنائی کے اور ابو عوانہ، ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا اور ابو عوانہ ابن حبان اور حاکم نے اس کو صحیح کہا۔ نیز اس کو یحییٰ بن معین نے بھی صحیح کہا ہے جیسا کہ سبل السلام میں ہے) نیز سبل السلام میں ہے «وفی الحدیث دلیل علی اعتبار أذن الولي في النکاح وھو یعقدہ لھا أو عقد وکیله»۔ یعنی یہ حدیث اس پر دال ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح معتبر نہیں یا ولی خود اس کا نکاح پڑھے یا اس کا وکیل (سبل السلام ج ۲ ص ۶۴)

«عن أبی ھریرة قال قال رسول اللہ ﷺ لا تزوج المرأة المرأة ولا تزوج المرأة نفسھا فإن الزانیة ھي التي تزوج نفسھا رواه ابن ماجه» (مشکوٰۃ ص ۲۷۱)۔

بلوغ المرام میں ہے: رواہ ابن ماجه والدار قطني ورجاله ثقات

ترجمہ: ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ عورت نہ کسی عورت کا نکاح کرائے نہ اپنی ذات کا کیونکہ جو عورت اپنا نکاح خود بغیر ولی کے کراتی ہے وہ زانیہ ہے یعنی عورت نہ اپنا نکاح خود کر سکتی ہے اور نہ کسی دوسری کی ولی بن سکتی ہے۔ اگر کوئی ایسا کرے گی تو وہ نکاح نہیں ہو گا زنا ہو گا۔ (اس حدیث میں بغیر ولی کے نکاح پر کتنی سخت وعید ہے کہ اس کو زانیہ فرمایا ہے۔ آخرت میں زانیہ کی سزا اس کو ملے گی)۔ اس حدیث کو ابن ماجہ اور دارِ قطنی نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔ (بلوغ المرام ص ۷۹)

سبل السلام جلد ۲ ص ۶۵ میں ہے «فیه دلیل علی المرأة لیس لھا ولایة في النکاح لنفسھا ولا لغیرھا الخ »

ترجمہ: یعنی اس حدیث میں دلیل ہے کہ عورت کو اپنایا دوسری عورت کا نکاح کرانے میں ولی بننا جائز نہیں۔

یہی جمہور کا قول ہے۔

مذکورہ بالا احادیث صحیح ہیں جیسا کہ بندہ نے ہر حدیث ذِکر کرنے کے بعد اس کی صحت بھی محدثین سے نقل کر دی ہے۔ پھر بھی بعض لوگ خواہ مخواہ ان احادیث کی صحت و ضعف پر طویل بحث شروع کر دیتے ہیں۔ حالانکہ محدثین کرام رحمہم اللہ نے ان کی ہر علت و اعتراض کا مفصل جواب لکھ دیا ہے جو اپنا اطمینان کرنا چاہے وہ شروحات حدیث فتح الباری، نیل الأوطار اور عون المعبود وغیرہ خصوصاً سبل السلام شرح بلوغ المرام دیکھے اگر انصاف اور خدا خوفی سے کام لیا تو إن شاء اللہ تعالیٰ تسلی ہو جائے گی۔

نیز یہ ایسا مسئلہ ہے جو غالباً حدیث کی کل کتابوں صحاح ستہ وغیرہ، میں موجود ہے۔ چنانچہ بہت سی کتب حدیث کے حوالے گزر چکے ہیں۔ آگے صحیحین سے ہی نقل کروں گا۔ پھر خواہ مخواہ انکار کرنا اور اس کے خلاف فتویٰ دینا انصاف و ایمان کے تقاضا کے خلاف ہے اور اس کا موجب تقلیدِ شخصی ہے۔ اب بخاری شریف جو أصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے اور صحیح جس کی صحت و شان صحیح بخاری کے بعد مسلمہ ہے، سے ملاحظہ فرمائیں۔ چنانچہ صحیح بخاری میں امام بخاری نے باب من قال لا نکاح إلا بولي منعقد کیا ہے۔ چونکہ مذکورہ بالا احادیث امام بخاری کی شرط پر نہ تھیں لہٰذا انہوں نے دیگر احادیث سے جو ان کی شرط پر ہیں اور بعض آیات سے استدلال کیا ہے۔ چنانچہ پہلے آیات ذکر کی ہیں۔ فرماتے ہیں:

«لقول اللہ تعالیٰ فلا تعضلوھن فدخل فیه الثیب وکذلك البکر وقال لا تنکحوا المشرکین حتٰی یؤمنوا وقال وأنکحوا الأیامی منکم »

مولانا وحید الزمان نے اس کا یوں ترجمہ فرمایا ہے:

''بغیر ولی کے نکاح صحیح نہیں ہوتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں ارشاد فرمایا ہے جب تم عورتوں کو طلاق دو پھر وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو (اے عورتوں کے اولیاء) تم کو ان کا روکنا درست نہیں (یعنی نکاح نہ کرنے دینا) سا میں ثیبہ اور باکرہ سب قسم کی عورتیں آ گئیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے اسی سورت میں فرمایا (عورتوں کے اولیاء) تم عورتوں کا نکاح۔ مشرک مردوں سے نہ کرو اور۔ سورہ نور میں فرمایا جو عورتیں خاوند نہیں رکھتیں ان کا نکاح کر دو۔''

اس ترجمہ پر مولانا مرحوم نے حواشی بھی دیئے۔ حاشیہ نمبر ۱ میں فرماتے ہیں:

''اہل حدیث اور شافعیؒ اور احمدؒ اور اکثر علماء کا یہی قول ہے کہ عورت کا نکاح بغیر ولی کے صحیح نہیں ہوتا اور جس عورت کا کوئی ولی رشتہ دار زندہ نہ ہو تو حاکم یا بادشاہ اس کا ولی ہے اور اس باب میں صحیح حدیثیں وارد ہیں جن کو امام بخاری اپنی شرط پر نہ ہونے سے نہ لا سکے۔

ایک ابو موسیٰ کی حدیث ہے کہ نکاح بغیر ولی کے نہیں ہوتا اس کو ابو داؤد اور ترمذی اور ابن ماجہ نے نکالا اور حاکم اور ابن حبان نے اس کو صحیح کہا۔ ابن ماجہ کی ایک روایت ہے یوں ہے کہ عورت دوسری عورت کا نکاح نہ کرے اور نہ کوئی عورت آپ نکاح کرے۔ اور ترمذی اور ابن حبان اور حاکم نے نکالا جو عورت بغیر اجازتِ ولی کے اپنا آپ نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے باطل، باطل۔ اور امام ابو حنیفہ نے برخلاف ان احادیث کے یہ کہا ہے کہ بالغہ آزاد عورت اپنا نکاح آپ کر سکتی ہے۔ قسطلانی نے کہا، اب اگر کوئی عورت بغیر ولی اپنا نکاح آپ کرے اور شوہر اسی سے صحبت کرے تو اس پر حدِ زنا تو نہ پڑے گی، لیکن مہر مثل لازم ہو گا اور سزا دی جائے گی اور وہ جانتا ہو کہ ایسا کرنا حرام ہے۔''

حاشیہ نمبر ۲ میں جو آیت فلا تعضلوھن پر لکھا ہے وہ یہ ہے کہ:

''اس آیت سے امام بخاری نے یہ نکالا کہ نکاح ولی کے اختیار میں ہے ورنہ روکنے کا کوئی مطلب نہیں ہو سکتا۔''

حاشیہ نمبر ۳ جو فدخل فیه الثیب وکذلك البکر پر لکھا ہے وہ یہ ہے کہ:

''بغیر ولی کے کسی کا نکاح صحیح نہیں ہو سکتا۔''

حاشیہ نمبر ۴ جو آیت ﴿لا تنکحوا المشرکین وأنکحوا الأیامٰی منکم ﴾پر لکھا ہے فرماتے ہیں:

''ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اولیاء کی طرف خطاب کیا کہ نکاح نہ کرو یا نکاح کر دو تو معلوم ہوا کہ نکاح کرنا ولی کے اختیار میں ہے۔''

اس کے بعد امام بخاری نے چار حدیثیں ذکر کی ہیں۔ پہلی دونوں حضرت عائشہ سے مروی ہیں۔ تیسری حضرت عمرؓسے اور چوتھی معقل بن یسار سے، جو کافی طویل ہیں، ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح ولی کے اختیار میں ہے جس شخص سے مناسب سمجھے کر دے۔ جہاں نہ مناسب سمجھے نہ کرے۔ ہاں عورت کی رضا و اجازت بھی ضروری ہے۔

حاصل یہ کہ صحیح بخاری میں امام بخاری نے آیات و احادیث سے خوب ثابت کر دیا کہ ولی کے بغیر کسی عورت (ثیبہ ہو یا باکرہ) کا نکاح نہیں ہوتا۔

اس کے بعد صحیح مسلم ملاحظہ ہو۔ شرح نووی میں اگرچہ«لا نکاح إلا بولي» کے الفاظ سے کوئی عنوان موجود نہیں لیکن بمطابق بتویب نووی جو حدیثیں «باب استیذان الثیب فی النکاح بالنطق والبکر بالسکوت»'' میں ذکر ہوئی ہیں وہ بھی ولی کی ولایت کے معتبر ہونے پر دال ہیں۔ اس سیاق میں امام مسلم نے کئی حدیثیں ذکر کی ہیں جو مشکوٰۃ سے نقل کرتا ہوں۔

«عن أبي ھریرة قال قال رسول اللہ ﷺ لا تنکح  الأ یم حتی تستأمر ولا تنکح البکر حتی تستأذن قالوا یا رسول اللہ وکیف إذنھا قال أن تسکت» (متفق علیه)

ترجمہ: یعنی آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ بیوہ عورت سے مشورہ لیے بغیر نکاح نہ کیا جائے اور باکرہ سے ابھی اذن طلب کیا جائے۔ صحابہ نے عرض کیا، اس کا اذن کس طرح ہے؟ آپ نے فرمایا، اس کا خاموش رہنا۔ (مسلم بخاری نے اس کو روایت کیا۔ مشکوٰۃ ص ۲۷۰۔ مسلم جلد ۱ ص ۴۵۵

«عن ابن عباس أن النبی ﷺ قال الأیم أحق بنفسھا من ولیھا والبکر تستأذن في نفسھا وإنھا صماتھا وفي روایة قال الثیب أحق بنفسھا من ولیھا والبکر تستأمر وإذنھا سکوتھا وفي روایة قال الثیب أحق بنفسھا من ولیھا والبکر یستأذنھا أبوھا في نفسھا وإذنھا صماتھا» (رواہ مسلم مشکوٰۃ ص ۲۷۰ مسلم ج ۱ ص ۴۵۵)

ترجمہ: ابن عباس سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ بیوہ عورت اپنے نفس پر اپنے ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے اور باکرہ سے بھی مشورہ لیا جائے اور اس کی خاموشی اس کا اذن ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ بیوہ اپنے نفس پر اپنے ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے اور باکرہ سے اس کا باپ اذن طلب کرے اور خاموشی اس کا اذن ہے۔ اس کو مسلم نے روایت کیا۔ مشکوٰۃ ص ۲۷۰، مسلم جلد ۱ ص ۴۵۵

ان حدیثوں کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اولیاء کو ہی (جیسا کہ ایک روایت میں باپ کی تصریح موجود ہے) حکم دیا کہ ثیبہ کا نکاح جب تک وہ بول کر صراحتاً اجازت نہ دے نہ کریں اور باکرہ کا نکاح بھی اس کی اجازت کے بغیر نہ کریں مگر اس کی اجازت کے لئے بولنا ضروری نہیں بلکہ سکوت بھی کافی ہے۔

یہ حدیثیں جیسے اس بات پر دال ہیں کہ عورت کی اجازت کے بغیر نکاح جائز نہیں، اسی طرح اس پر بھی دال ہیں کہ ولی کے بغیر نکاح جائز نہیں کیونکہ آپ نے اولیاء کو ہی اجازت لے کر نکاح کرنے کا حکم دیا ہے نہ کہ غیر اولیاء کو۔ معلوم ہوا کہ یہ کام اولیاء کے ہی سپرد ہے اور وہی اس کو انجام دےے سکتے ہیں۔ ان کے کرنے سے ہی ہو گا ورنہ نہیں۔

اس کے بعد صحیح مسلم میں ایک دوسرا عنوان موجود ہے۔ «باب جواز تزویج الأب البکر الصغیرة» (یعنی باپ اگر اپنی چھوٹی سی بچی بے شعور کا نکاح کر دے تو جائز ہے ) اس باب میں امام مسلم نے حضرت عائشہؓ کے نکاح کا واقعہ متعدد طرق سے بیان کیا ہے کہ آپ بیان فرماتی ہیں کہ میرا نکاح چھ سال کی عمر میں ہوا تھا۔ اس سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ ولی (باپ وغیرہ) کو اس قدر حق حاصل ہے کہ وہ بے شعور بچی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر بھی کر سکا ہے کیونکہ بے شعوری میں لڑکی سے اجازت لینا بے معنی ہے۔

پس صحیح بخاری کی طرح صحیح مسلم سے بھی ثابت ہو گیا کہ عورت کے نکاح میں ولی کا دخل و اختیار ہے وہ نکاح کر بھی سکتا ہے اور روک بھی سکتا ہے۔

حاصل یہ ہے کہ صحاح ستہ وغیرہ کی احادیث صحیحہ صریحہ مرفوعہ سے ثابت ہو گیا کہ ولی کے بغیر نکاح میں ہوتا اور یہ بھی ثابت ہوا کہ ولی مرد ہی ہو سکتا ہے عورت نہیں ہو سکتی۔ عورت نہ اپنا نکاح کر سکتی ہے نہ ہی دوسری عورت کا کرا سکتی ہے۔

آئندہ قسط میں صحابہ کرام کا مسلک بیان کیا جائے گا جو سب اس پر متفق ہیں کہ عورت کے لئے نکاح میں ولی ضروری ہے۔


حاشیہ و حوالہ جات

منتقی ابن جارود مطبوعہ مطبعۃ الفجالۃ الجدیدۃ قاھرہ ص ۲۳۵

اس حدیث کی شرح میں صاحب سبل السلام لکھتے ہیں۔ قال ابن کثیر قد أخرجه أبو داوود والترمذي وابن ماجه وغیرھم من حدیث إسرائیل وأبو عوانة وشریك القاضي وقیس بن الربیع ویونس بن أبي إسحاق وزھیر بن معٰویة کلھم عن أبي إسحق کذلك قال الترمذي ورواہ شعبة والثوري عن أبي إسحق مرسلا قال والأول عندي أصح ھکذا صححه عبد الرحمن بن مھدي فیما حکاہ ابن خزیمة عن ابن المثنی عنه وقال علي ابن المدیني حدیث إسرائیل في النکاح صحیح وکذا صححه البیهقي وغیر واحد من الحفاظ قال رواہ ابو یعلی الموصلي في مسندہ عن جابر مرفوعا قال الحافظ الضیاء بإسناد رجاله کلھم ثقات۔

ترجمہ: ابن کثیر نے کہا کہ اس حدیث کو ابو داؤد ترمذی ابن ماجہ وغیرہ نے اسرائیل سے روایت کیا ہے اور ابو عواز، شریک قاضی قیس بن ربیع، یونس بن ابی اسحاق اور زہیر ر بن معاویہ نے ابو اسحاق سے اسی طرح مسنداً روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے کہا شعبہ اور ثوری نے اس کو ابو اسحاق سے مرسلاً روایت کیا ہے لیکن میرے نزدیک اول یعنی مسنداً ہی صحیح ہے۔ اسی طرح عبد الرحمن بن مہدی نے اس کے مسنداً ہونے کو صحیح کہا ہے جیسا کہ ابن خزیمہ نے ابن مثنی سے نقل کیا ہے اور علی بن مدینی نے فرمایا کہ اسرائیل کی حدیث جو نکاح کے بارہ میں ہے صحیح ہے۔ اسی طرح امام بیہقی اور دیگر بے شمار حفاظِ حدیث نے اس کو صحیح کہا ہے اور ابو یعلی موصلی نے اس حدیث کو اپنی مسند میں جابر سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ حافظ ضیاء نے کہا کہ اس کے سب راوی ثقہ ہیں۔

اس کے بعد صاحب السبل نے لکھا ہے: والحدیث دل علی أنه لا یصح النکا ح إلا بولي لأن الأصل في النفي نفي الصحة لا الکمال والولي ھو الأقرب إلی المرأۃ من عصبتھا دون ذوي أرحامھا (سبل السلام ج ۲ ص ۶۴) یعنی یہ حدیث اس پر دال ہے کہ ولی کے بغیر نکاح صحیح نہیں کیونکہ نفی میں اصل صحت کی نفی ہے نہ نفی کمال کی اور ولی سے مراد وہ مرد ہے جو عورت کے زیادہ قریب ہو عصبوں سے نہ ذوی الأرحام سے۔ نیل الأوطار میں ہے: حدیث أبي موسٰی أخرجه أیضاً ابن حبان والحاکم وصححاہ وذکرہ الحاکم طرقا قال وقد صحت الروایة فیه عن أزواج النبي ﷺ عائشة وأم سلمة وزینب ثم سرد ثلاثین صحابیا وقد جمع طرقه الدمیاطي من المتأخرین الخ (نیل الاوطار ج ۶،۵ ص ۱۰۲) یعنی حدیث ابو موسیٰ (لا نکاح إلا بولي) کو امام ابن حبان اور حاکم نے بھی روایت کیا اور صحیح کہا ہے اور حاکم نے اس کی بہت سی سندیں ذکر کی ہیں اور کہا ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہ ہونے کے بارہ میں ازواج مطہرات عائشہ، أم سلمہ، زینب وغیرہ تیس صحابیات رضی اللہ عنہم اجمعین سے حدیثیں مروی ہیں اور متاخرین سے دمیاطی نے اس کی تمام سندوں کو جمع کیا ہے۔

حاصل یہ کہ حدیث لا نکاح إلا بولي اتنے کثیر طرق سے مروی ہے کہ اس کی صحت میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا محدثین نے اس کی صحت کا حکم لگایا ہے جیسا کہ مختصراً مذکورہ بالا عبارت میں گزر چکا ہے۔ میں اس بحث کو طول دے کر قارئین کے ذہن کو اصل مسئلہ زیربحث سے دور لے جانا مناسب نہیں سمجھتا اگر ضرورت مقتضی ہوئی تو خاتمہ پر مستقل بحث کر دی جائے گی۔ إن شاء اللہ تعالیٰ۔ ہاں امام نوویؒ کا قول اس کی صحت کے بارہ میں نقل کئے دیتا ہوں جیسا کہ فرماتے ہیں ولکن لما صح قوله صلی اللہ علیہ وسلم لا نکاح إلا بولي مع غیرہ من الأحادیث الدالةعلی اشتراط الولي یتعین احتمال الثاني (نوی ج ۲ ص ۴۵۵) خلاصہ ترجمہ یہ ہے کہ حدیث لا نکاح إلا بولي صحیح ہے اور اس بارہ میں اور بھی بہت سی حدیثیں اس کی موید ہیں۔

زیادہ حق رکھنے سے ولی کا حق ختم نہیں ہو جاتا، لہٰذا ثیبہ بھی ولی کے بغیر نکاح نہیں کر سکتی۔ اس کی پوری تفصیل آئندہ آئیگی۔ ان شاء اللہ۔

کوئی یہاں بلوغت کے بعد خیارِ بلوغ کا شبہ نہ کرے کیونکہ وہ بمنرلہ لڑکی کی اجازت کے ہے جو ولی کے لئے ضروری ہے جیسا کہ احادیث میں گزر چکا ہے۔ (ادارہ)