مفید الاحناف
ایک۔۔۔۔ صورتِ ۔۔۔۔ ایتلاف
قسط نمبر ۲
سوال:
آمین بالجہر کسی کتاب فقہ مذہب حنفی سے ثابت ہے یا نہ۔
جواب:
ثابت ہے۔ امام ابن الہمامؒ نے فتح القدیر میں لکھا ہے:۔
«ولو کان إلي في ھذا شيء لو فقت بأن روایة ألخفض یراہ بھا عدم القرع العنیف وروایة الجھر بمعنی قولھا في زیر الصوت وذیلھا اٰه»
''کہ اگر میری طرف اس میں کوئی شے ہوتی (یعنی اگر اس کا فیصلہ میرے سپرد کیا جائے) تو مَیں یوں مطابقت دیتا کہ آہستہ آکہنے کی روایت سے مراد یہ ہے کہ کڑک سخت نہ ہو اور روایت جہر کی بمعنی کہنے آمین کے بیچ نرم آواز و ذیل اس کے۔''
اور امیر ابن الحاج نے حلیہ شرح منیۃ المصلی میں تحریر کیا ہے:۔
«ورجح مشائخنا للمدھب بما لا یعری عن شيء لمتامله فلا جرم إن قال شیخنا إبن الھمام ولو کان إلی شيء لو فقت بأن روایة ألخفض یراد بھا عدم القرع العنیف وروایة الجھر بمعنی قولھا في زیر الصوت وذیلھا اٰہ»
''ترجیح دی ہے ہمارے مشائخ نے اس کو واسطے مذہب کے ساتھ اِس چیز کے کہ نہیں خالی ہے کسی چیز سے واسطے تامل کرنے والے اس کے پس ضرور ہے جو کہا ہمارے شیخ ابن الہمامؒ نے کہ اگر ہوتی ہماری طرف کوئی شی البتہ مطابقت دیتا میں اس طرح پر کہ روایت آہستہ کہنے سے ارادہ کیا جاتا ہے کہ کڑک سخت نہ ہو اور روایت بآواز کہنے کی بمعنی کہنے اس کے ہے بیچ آواز نرم اور ذیل اس کے۔''
اور مولانا عبد العلی بحر العلوم لکھنوی نے ارکانِ اربعہ میں لکھا ہے:
«ولم یرد فیه إلا ما روی الحاکم عن علقمة بن وائل عن أبیه إنه صلٰی مع رسول اللہ ﷺ فإذا بلغ ولا الضالین قال أمین وأخفی بھا صوته وهو ضعیف ألخ »
''نہیں آیا ہے آمین آہستہ کہنے میں مگر وہ کہ روایت کی حاکم نے علقمہ بیٹے وائل سے وہ روایت کرتے ہیں اپنے باپ سے یہ کہ نماز پڑھی انہوں نے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پس جبکہ پہنچے ﴿ولا الضالين﴾ پر کہا آپ ﷺ نے آمین اور پست کیا آمین کہنے میں آواز اپنی کو اور یہ روایت ضعیف ہے۔''
لکھ کر یہ تحریر کیا:
«ولکن ألأمر فیه سھل فإن السنة التامین إما ألجھر والأخفاء فندب اٰہ »
''اور لیکن بات اس میں آسان ہے اس لئے کہ سنت آمین کہنا ہے۔ لیکن بآواز کہنا یا آہستہ پس مستحب ہے۔''
اور طحطاوی حاشیہ در مختار میں ہے:
«فعلی ھذا سنیة إلاتیان بھا تحصل ولو مع الجھر أبو سود اٰہ »
''پس سنت اس بنا پر آمین کہنے کی حاصل ہوتی ہے اگرچہ ساتھ آواز کے ہو۔''
اور مولانا عبد الحیؒ نے تعلیق الممجد میں لکھا ہے:
«والإنصاف إن الجھر قوي من حیث الدلیل اٰہ »
''انصاف یہ ہے کہ آمین بآواز کہنا قوی ہے باعتبار دلیل کے۔''
اور سعایہ میں مولانا ممدوح فرماتے ہیں:
«فوجدنا بعد التأمل والإمعان القول بالجھر باٰمین ھو إلاصح لکونه مطابقا لما روی عن سید بني عدنان و روایة الخفض عنه ﷺ ضعیفة لا توازي دوایات الجھر ولوصحت وجب إن تحمل علی عدم القرع العنیف کما أشار إلیه إبن الھمام وأي ضرورة داعیة إلی حمل روایات الجھر علی بعض الأحیان أو الجھر للتعلیم مع عدم ورود شيء من ذلك في روایة والقول بأنه کان في إبتداء الأمر ضعیف لأن الحاکم قد صحه من روایة وائل بن حجر وھو إنما أسلم في أواخر الأمر کما ذکرہ إبن حجر في فتح الباری وإما أثر إبراھیم النخعي ونحوہ فکلا توازی الروایات المرفوعة»
''تو بعد تامل اور غور کرنے کے ہم نے پکار کر آمین کہنے ہی کو صحیح پایا ہے کیونکہ وہ سید بنی عدنان یعنی رسول اللہ ﷺ سے جو مروی ہے اس کے مطابق ہے اور پست آواز کی روایت ضعیف ہے، پکار کر کہنے کی روایتوں کا لگا نہیں کھا سکتی اور اگر بالفرض صحیح بھی ہو تو خوب کڑک کر نہ کہنے پر محمول کرنا واجب ہو گا جیسا کہ ابن ہمام نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے اور کوئی ضرورت نہیں ہے کہ روایاتِ جہر کو بعض اوقات یا تعلیم پر محمول کیا جائے، باوجودیکہ یہ کسی روایت میں نہیں آیا اور یہ کہنا کہ جہر ابتداء امر میں تھا ضعیف ہے اس لئے کہ حکم نے اس کو وائل بن حجر کی روایت سے جو صحیح کہا ہے وائل صحابی آخر زمانہ آنحضرت۔ میں ایمان لائے ہیں جیسا کہ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں ذکر کیا ہے اور ابراہیم نخعی اور مثل ان کے سے جو خفیہ کہنا منقول ہے تو ایسے اثر رسول اللہ ﷺ کی احادیث کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔''
اور مولانا شاہ عبد الحق محدث دہلوی نے لمعات شرح مشکوٰۃ میں لکھا ہے:
«والظاھر الحمل علی کلا العملین تارة فتارة »
''ظاہر حمل کرنا ہے اوپر دونوں عمل آہستہ و آواز کے کبھی وہ کبھی یہ۔''
سوال:
نماز فرض میں بعد سورہ فاتحہ کے و سورہ پڑھنا مکروہ ہے یا نہیں؟
جواب:
نہیں۔ رد المختار کے صفحہ ۵۱۳ میں ہے:۔
«ففي جامع الفتاوی روی الحسن عن أبي حنیفةؒ إنه قال لا أحب أن یقرء سورتین بعد الفاتحة في المکتوبات ولو فعل لا یکرہ وفي النوافل لا بأس به»
''کہ جامع الفتاوی میں ہے کہ روایت کی حسن نے ابو حنیفہؒ سے یہ کہ فرمایا نہیں پسند کرتا ہوں میں پڑھنا دو سورت کا بعد فاتحہ کے نماز فرض میں اور اگر کیا کسی نے مکروہ نہیں اور نوافل میں مضائقہ نہیں۔''
سوال:
امام کو سمع اللہ لمن حمدہ کے ساتھ« أللھم ربنا لك الحمد» ملانا جائز ہے یا نہ؟
جواب:
جائز ہے۔ رد المختار کے صفحہ ۵۱۹ میں ہے:
«وقالا یضم التحمید سرا ھو روایة عن الإ مام أیضا وإلیه مال الفضلي والطحاوي وجماعة من المتأخرین معراج عن الظھیریة وإختارہ في الحاوي القدسي ومشی علیه في نور الإ یضاح اٰہ »
''یعنی کہا صاحبین نے ملا وے امام«ربنا لك الحمد» کو آہستہ اور وہ روایت ہے امام ابو حنیفہؒ سے بھی اور اسی کی طرف مائل ہوئے ہیں فضلی و طحاوی اور ایک جماعت متاخرین کی یہ معراج میں ہے منقول ظہیر یہ سے اور اختیار کیا اس کو حاوی قدسی میں اور چلا اسی پر نور الأ یضاح میں۔''
اور عمدۃ الرعایہ میں ہے:
«والذی ذھب إلیه الجمھور وأبو یوسف ومحمد و روي عن أبي حنیفة رحمه اللہ إن الإمام أیضاً یقول ربنا لك الحمد سرا بعد التسمیع وإختارہ الفضلي والطحاوي والشر بنلا لي وصاحب المنیة وعامة المتأخرین من أصحابنا وھو الأصح الموافق لما ثبت عنه صلی اللہ علیه وسلم إنه کان یقول بعد سمع اللہ لمن حمدہ ربنا لك الحمد الخ»
''اور جو کہ گئے اس کی طرف جمہور اور ابو یوسف اور محمد اور روایت کیا گیا ہے ابو حنیفہؒ سے بھی یہ ہے کہ امام بھی کہے «ربنا لک ألحمد» آہستہ بعد« سمع اللہ لمن حمدہ» کے اور اختیار کیا اس کو فضلی اور طحاوی و شربنالی وصاحب منیہ و عامہ متاخرین نے ہمارے اصحاب سے اور وہ صحیح تر موافق ہے اس کے جو ثابت ہوا ہے رسول اللہ ﷺ سے یہ کہ کہتے تھے بعد« سمع اللہ لمن حمدہ کے ربنا لك الحمد»
سوال:
رفع یدین سنت و جائز ثابت ہے یا نہ۔
جواب:
ثابت ہے۔ مولانا عبد العلی نے ارکان اربعہ میں لکھا ہے:
«إن ترك فھو حسن وإن فعل فکلا بأس به اٰہ »
''اگر چھوڑے رفع یدین کو پس وہ حسن ہے اور اگر کرے رفع یدین پس نہیں مضائقہ ہے ساتھ اس کے۔''
اور مولانا عبد الحیؒ نے تعلیق الممجد میں تحریر فرمایا ہے:
«ولو رفع لا تفسد صلاته کما في الذخیرة وفتاوی الولو الجی وغیرھما من الکتب المعتمدة اٰہ »
''اور اگر رفع یدین کیا نہیں فاسد ہو گی نماز اس کی جیسا کہ ذخیرہ اور فتاوی الولوالجی وغیرہ کتب معتبرہ میں ہے۔''
اور مولانا ممدوح مغفور نے سعایہ ص ۲۱۳ میں لکھا ہے:
«والحق إنه لا شك في ثبوت رفع الیدین عند الرکوع والرفع منه عن رسول اللہ ﷺ وکثیر من أصحابه بالطرق القویة والأخبار الصحیحة»
''اور حق یہ ہے کہ شک نہیں ہے ثبوت رفع یدین میں وقت رکوع اور کھڑے ہونے کے رکوع سے رسول اللہ ﷺ سے اور بہتیرے اصحاب سے ان کے ساتھ طریقوں قویہ اور خبروں صحیحہ کے۔''
اور محی الدین ابن عربی سے دراسات اللبیب میں نقل کیا گیا ہے:
«رفع الیدین في کل رفع وخفض اٰہ »
''اُٹھانا دونوں ہاتھ کا ثابت ہے ہر اُٹھنے اور جھکنے میں''
اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے شرح سفر السعادت میں لکھا ہے:
''مارا ازیں چارہ نیست کہ اقرار سیت ہر دو فعل کنیم۔ آہ''
اور عصام بن یوسف بلخی حنفی ہو کر رفع یدین کرتے تھے جیسا کہ طبقات قاری سے تراجم حنفیہ میں منقول ہے:
«وفي طبقات القاری عصام بن یوسف البلخي کان حنفیا روی عن إبن المبارك والثوري وشعبة وکان صاحب حدیث یرفع یدیه عند الرکوع وعند رفع الرأس منه اٰہ »
''اور طبقات قاری میں ہے کہ عصام بن یوسف تھے حنفی روایت کیا ہے ابن المبارک اور ثوری اور شعہ سے اور تھے محدث اُٹھاتے تھے دونوں ہاتھوں اپنے کو وقت رکوع اور وقت اُٹھانے سر کے اس سے۔''
سوال:
درمیان دونوں سجدوں کے« أللھم اغفرلي وارحمني وعافني واھدني وارزقني »پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
جائز ہے۔ رد المختار کے ص ۵۲۷ میں ہے:
«أقول بل فیه أشارة إلی أنه غیر مکروہ إذلو کان مکروھا لنھي عنه کما ینھی عن القراءة في الرکوع والسجود وعدم کونه مسنونا لاینا في الجواز کالتسمیة بین الفاتحة والسورة بل ینبغي أن یندب الدعاء بالمغفرة بین السجدتین خروجا من خلاف الإمام أحمد لاإبطاله الصلاة برکه عامدا۔ اٰہ»
''میں کہتا ہوں بلکہ اس میں اشارہ ہے طرف اس بات کے کہ أللهم اغفرلي الخ پڑھنا مکروہ نہیں اس واسطے کہ اگر ہوتا مکروہ ہر آئینہ منع کیا جاتا پڑھنے سے اللهم اغفرلي الخ کے جیسا کہ منع کیا جاتا ہے پڑھنے رکوع و سجود میں اور نہ ہونا اس کا مسنون نہیں منافی ہے جائز ہونے کو جیسا کہ بسم اللہ پڑھنا درمیان فاتحہ اور سورۃ کے بلکہ سزاوار ہے یہ کہ مندوب ہے دعاء ساتھ ا للهم اغفرلي کے درمیان دونوں سجدوں کے واسطے نکلنے کے خلاف سے امام احمد کے واسطے باطل کرنے ان کی نماز کو بسبب چھوڑ دینے اللهم اغفرلي الخ کے جان بوجھ کر۔''
سوال:
جلسۂ استراحت یعنی بعد دونوں سجدوں کے تھوڑا بیٹھ کر کھڑا ہونا جائز ہے یا نہ؟
جواب:
جائز ہے۔ رد المختار کے صفحہ ۵۲۸ میں ہے:
«والثاني الجلسة الخفیفة قال شمس الأئمة الحلواني الخلاف في الأفضل حتی لو فعل کما ھو مذھبنا لا بأس به عند الشافعي ولو فعل کما ھو مذھبه لا بأس به عندنا کذا في المحیط اٰہ»
''اور دوسرا جلسہ خفیفہ ہے کہا شمس الأئمہ حلوانی نے خلاف افضل ہونے میں ہے یہاں تک کہ اگر نہ کیا جیسا کہ وہ مذہب ہے ہمارا نہیں مضائقہ ہے ساتھ اس کے نزدیک شافعی کے اور اگر کیا جیسا کہ وہ مذہب ہے ان کا نہیں مضائقہ ہے ساتھ اس کے نزدیک ہمارے اس طرح ہے محیط میں الخ''۔
اور بھی رد المختار میں ہے:
«وما ورد من إنه ﷺ إذا کان في وتر لم ینھض حتی یستوي قاعدا فتشریع لبیان الجواز او عند کبر سنه اٰہ»
''اور وہ جو وارد ہے کہ بہ تحقیق آنحضرت ﷺ جب کہ بیچ طاق رکعت کے یعنی پہلی اور تیسری میں نہ کھڑے ہوتے یہاں تک کہ برابر ہوتے بیٹھ کر پس تشریع ہے واسطے بیان جواز کے یا وقت بڑھاپے کے۔ الخ''
اور بحر الرائق میں ہے:
«وإما ما رواہ البخاري عن مالك بن الحویرث أنه رأی النبي ﷺ یصلی إذا کان في وتر من صلاته لم ینھض حتی یستوي قاعدا فمحمول علی حالة الکبر کما في الھدایة ویرد علیه إن ھذا الحمل یحتاج إلٰی دلیل وقد قال علیه الصلاة والسلام لما لك بن الحویرث لما أراد ان یفارقه صلوا کما رأیتموني أصلي ولم یفصل فکان الحدیث حجة للشافعي فالأولٰی أن یحمل علٰی تعلیم الجواز ھذا واللہ أعلم قال في الفتاوی الظھیریة قال شمس الأئمة الحلواني إن الخلاف إنما ھو في الأفضلیة حتی لو فعل کما ھو مذھب الشافعي لا بأس به عندنا اٰہ»
''اور وہ جو روایت کیا ہے بخاری نے مالک بن حویرث سے یہ کہ دیکھا انہوں نے نبی ﷺ کو نماز پڑھتے تھے جب کہ ہوتے بیچ طاق نماز اپنی کے نہیں کھڑے ہوتے ہاں تک کہ برابر ہوتے بیٹھ کر پس محمول ہے اوپر حالت بڑھاپے کے جیسا کہ ہدایہ میں ہے۔ وارد ہوتا ہے اعتراض اوپر اس کے یہ کہ بہ تحقیق بڑھاپے پر حمل کرنا محتاج ہے طرف دلیل کے حالانکہ بہ تحقیق فرمایا نبی ﷺ نے واسطے مالک بن حویرث کے جس وقت ارادہ کیا اس نے کہ جدا ہو آپ سے کہ نماز پڑھتے رہنا جیسا کہ دیکھا تم لوگوں نے مجھ کو نماز پڑھتے ہوئے اور نہیں تفصیل کی (کہ جلسہ بسبب بڑھاپے کے کرتا ہوں) پس ہو گی دلیل واسطے شافعی کے پس بہتر یہ ہے کہ حمل کیا جائے اوپر تعلیم جواز کے واللہ اعلم۔ کہا فتاوی ظہیر یہ میں کہ کہا شمس الائمہ حلوانی نے کہ تحقیق خلاف افضلیت میں ہے یہاں تک کہ اگر کیا جلسہ جیسا کہ وہ مذہب شافعی کا ہے نہیں مضائقہ ہے ساتھ اس کے نزدیک ہمارے الخ۔''
مصباح الہدایہ شرح عوارف میں ہے: ''اگر دیگر بارہ برخواہد خاست از برائے جلسہ استراحت بنشیند آہ''
نوٹ
اے اللہ بخش دے مجھ کو اور رحم کر مجھ پر اور آرام دے مجھ کو اور ہدایت دے مجھ کو اور روزی دے مجھ کو۔