نیا سامراج

جناب آباد شاہ پوری صاحب کا یہ مقالہ ان کی ایک زیر طبع کتاب ''سوشلزم اور اسلامیان روس'' کا ایک باب ہے۔ اس باب میں انہوں نے مستند کتابوں اور خود یہودی مآخذ کے حوالے سے ثابت کیا ہے کہ سوشلزم کا نہ صرف تانابانا یہودیوں نے بنا تھا۔ بلکہ روس، یورپ اور امریکہ میں سوشلسٹ تحریک کے علمبرداروں اور رہنماؤں کی بھاری اکثریت بھی یہودیوں ہی پر مشتمل تھی، آباد شاہ پوری ایک اہلحدیث علمی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں اور آج کل ملک کے مشہور ماہنامے اردو ڈائجسٹ میں مدیر و معاون ہیں۔ (ادارہ)

زاروں کا روس انقلاب کی راہ پر ایک عرصے سے گامزن تھا۔ زاروں کی مستبد اور مطلق العنان حکومت کے نتیجے میں بے چینی صرف مقبوضہ علاقوں ہی میں پھیلی ہوئی نہ تھی، بلکہ خود روس کے اندر جوالا مکھی کھول رہا تھا۔ بنیادی حقوق، قانون ساز اسمبلی، معاشی انصاف، قانون کی عملداری کے قیام اور اقتصادی استحصال کے خاتمے کا مطالبہ عام ہو گیا تھا۔ زار شاہی استبداد، ہوا کے رخ کو بھانپنے کے بجائے اس مطالبے کو طاقت سے کچلنے میں مصروف تھا۔ مگر آگ تھی کہ بڑھتی جاتی تھی، حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لئے زیر زمین تحریکیں زور شور سے کام کر رہی تھیں، ہر طرف دہشت پسندی کا دور دورہ تھا۔ امن و اطمینان رخصت ہو گیا تھا۔ قتل و غارت اور تخریبی وارداتیں عام ہو گئیں تھیں۔ سوشلزم دانش و رطبقے، طلبہ اور مزدوروں میں بڑی تیزی اور بے پایاں وسعت کے ساتھ جڑ پکڑ رہا تھا۔ زار شاہی کے مستبدانہ قوانین نے کسی معقول، تعمیری اور اعتدال پسندانہ نقطۂ نظر کے لئے کام کرنے کے مواقع کلیۃً معدوم کر رکھے تھے اور سازشی و تخریبی قوتوں کی بن آئی تھی۔ ان قوتوں میں سوشل ڈیمو کریٹس اور جیوش بنڈ (Jewish Bund) کے یہودی پیش پیش تھے۔ انارکسٹوں (Anarchists)، نہلسٹوں (Nihillists) اور دہشت پسندوں (Teprorists) کی بھاری تعداد انہی جماعتوں اور قوتوں پر مشتمل تھی۔ یہ ساری قومیں سوشلزم کی علمبردار تھیں اور ان کی رہنمائی یہودیوں یا یہودی النسل عیسائیوں کے ہات میں تھی۔

سوشلزم کا تاریخی ارتقاء:

آگے بڑھنے سے پہلے سوشلزم کی پیدائش، اس کے تاریخی پس منظر اور اس کے ارتقاء میں کار فرما قوتوں پر ایک مختصر سی نظر ڈال لینا ضروری ہے۔ روس میں زیر زمین سرگرمیوں کا آغاز اٹھارہویں صدری کے وسط میں ہوا یہ وہ دور تھا جب یورپ میں انقلابی افکار کی رَو عام ہو چکی تھی۔ انقلابی مفکرین کی کتابیں پھیل رہی تھیں۔ اِن مفکرین کی اکثریت یہودیوں کے ان نظریات سے متاثر تھی جو ''غیتو یعنی باڑوں میں پروان چڑھ رہے تھے۔ یورپ کے مسیحی معاشرے میں یہودیوں کو سخت نفرت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔

اس نفرت کا بنیادی سبب تو یہ تھا کہ عیسائی عوام و حواص انہیں یسوع مسیح کا قاتل سمجھتے تھے، لیکن ان کے اپنے کرتوتوں اور عیسائی معاشرے میں انتشار انگیز ہتھکنڈوں کا اس نفرت کو شدید تر بنانے میں زبردست ہاتھ تھا۔ نسلی برتری کے غرور اور خدا کی چہیتی قوم ہونے کے زعمِ باطل سے پیدا ہونے والا عمومی طرز عمل عیسائیوں کے لئے سخت تکلیف دہ تھا۔ اس پر طرہ یہ کہ ہر ملک میں اقتصادی زندگی کی شہ رگ ان کے ہاتھ میں تھی۔ تجارت پر ان کا قبضہ تھا۔ بڑے بڑے بنک اور ساہوکارے انہوں نے کھول رکھے تھے۔ نہ صرف عیسائی کسان اور جاگیرداران کے سودی کاروبار کے پھیلے ہوئے جال میں گرفتار تھے۔ بلکہ جنگوں اور ہنگامی ضرورتوں کے وقت حکومتیں بھی ان سے قرض لینے پر مجبور تھیں، اقتصادی لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم تھا۔ بالآخر ۱۵۵۵ء میں پوپ پال چہارم نے ''غیتو'' (Ghetto) یعنی یہودی باڑے قائم کرنے کے احکام جاری کر دیئے۔ ان قوانین کا از سرِ نو احیاء ہوا جو بارہویں اور تیرہویں صدی میں لیٹران کی تیسری اور چوتھی کونسلوں نے منظور کئے تھے۔ ان کے تحت کوئی غیر یہودی کسی یہودی کی ملازمت یا ما تحتی میں کام نہیں کر سکا تھا۔ حکم جاری کیا گیا کہ یہودی ہر وقت امتیازی بیج لگا کر رہیں۔ اور عیسائیوں کے درمیان نہ رہیں، ان کی مذہبی کتابیں ضبط کر لی گئیں۔ تمام اہم مناصب اور پیشوں سے محروم کر دیا گیا۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے دروازے بند کر دیئے گئے۔

غیتو۔ سوشلزم کی نرسری:

پوپ نے تو ''غیتو'' (یہودی باڑے) یہودیوں کی سازشوں سے عیسائی معاشرے کو محفوظ رکھنے کے لئے کھڑے کئے تھے، عملاً ان سے ان کی سازشی ذہنیت کو اور جلالی ''غیت'' کی زندگی میں انہوں نے اپنی اجتماعی زندگی کو تلمود کے پیش کردہ خطوط پر استوار کرنے کی جدوجہد کی اسی زندگی سے آگے چل کر ''کمیون'' (Commune) سسٹم کا تصور وضع کیا گیا، انہی خطوط پر یہودیوں نے فلسطین آباد ہوتے وقت ''گبٹز'' (Kibbutz) یعنی مشترک جائیداد اور اجتماعی ملکیت کے تصور پر مبنی بستیاں بسائیں ۔ ''غیتو'' نے آہستہ آہستہ ریاست در ریاست کی صورت اختیار کر لی۔ ہر ''غیتو'' کا انتظام ایک مقامی کونسل کرتی تھی، مقامی ربی جس کا چیئرمین ہوا تھا، اسے سب سے زیادہ اختیارات حاصل تھے۔ وہ کونسل کے فیصلوں پر نظرِ ثانی کر سکتا تھا۔ ان کی اپنی عدالتیں تھیں۔ جن میں دیوانی مقدمات کے فیصلے ہوتے، صرف فوجداری مقدمات میں انہیں ریاست کی عدالتوں کی طرف رجوع کرنا پڑتا تھا۔ غیر یہودی حکام کے ساتھ رابطہ قائم رکھنے کے لئے ایک افسر رابطہ نامزد کیا جاتا۔ پرائمری تعلیم ہر یہودی بچے کے لئے لازمی تھی یہ تعلیم اندھی ہوتی تھی۔ تاہم یہودی سیکولر تعلیم بھی پرائیویٹ طور پر حاصل کرتے جس کا انتظام ہر صاحب حیثیت یہودی خاندان خود کرتا تھا۔

سترھویں صدی عیسوی میں یہودیوں کو اسپین سے نکالا گیا۔ تو ان کے بے شمار خاندان مغربی اور شمالی یورپ میں آباد ہوئے۔ ان لوگوں کو مسلمانوں کے عہد حکومت میں اسپین میں اجتماعی زندگی کے ہر شعبے میں نفوذ حاصل تھا۔ اسپین میں مسلمانوں نے جو یونیورسٹیاں قائم کیں جن کے فارغ التحصیل یورپی نوجوان یورپ میں علمی و فکری بیداری کی تحریک کے آغاز کا سب بنے۔ ان سے یہودیوں نے پورا پورا استفادہ کیا تھا۔ تعلیمی و طبی اداروں اور حکومت کے اعلیٰ مناصب پر یہ لوگ فائز تھے۔ چنانچہ ایک صدی تک عیسائی حکومت کے جبر و تشدد کا شکار ہونے کے باوجود جب یہ لوگ اسپین سے نکل کر یورپ میں آباد ہوئے تو علم و ہنر میں یورپی عیسائیوں سے کہیں آگے تھے۔ یورپ کے جن علاقوں میں یہ لوگ آباد ہوئے وہاں انہوں نے تعلیم کے فروغ اور جدید یورپ کے افکار و نظریات کی تشکیل و فروغ میں بھرپور حصہ لیا۔

''غیتو'' زیادہ تر مشرقی یورپ میں قائم تھے، ان کا مقصد عیسائی آبادیوں کو یہودیوں سے الگ تھلگ رکھنا اور ان کے اثرات سے محفوظ کرنا تھا، عملاً اس طرح یہودی اچھوت بن کر رہ گئے تھے۔ بایں ہمہ یہ علیحدگی ان کے لئے قومی نقطۂ نظر سے اس قدر مفید ثابت ہوئی کہ جن علاقوں میں عیسائی حکمرانوں نے رواداری سے کام لیتے ہوئے انہیں عام ملکی زندگی سے نہیں کاٹا تھا، وہاں انہوں نے از خود درخواست کی کہ ان کے لئے ''غیتو'' تعمیر کئے جائیں۔

''غیتو'' کی اس زندگی کے وران میں ان کے اندر کئی تحریکیں اُٹھیں۔ متعدد افراد نے مسیح ہونے کا دعویٰ کیا۔ ان تحریکوں اور مدعیان مسیحیت نے یہودیوں میں عیسائی اقتدار سے آزادی اور غیر یہودی دنیا پر چھا جانے کا جذبہ پیدا کیا۔ یورپ میں عقلیت پرستی اور حریت پسندی (لبرلزم) کی لہر کے پیچھے ''غیتو''کی چار دیواری میں پرورش پانے والا یہی جذبہ اور تصور کار فرما تھا۔ اس وقت عیسائی معاشرے کی بنیادی قوت دو ادارے تھے، پہلا ادارہ کلیسا تھا اور دوسرا حکومت و ریاست، کلیسا کا اثر ہر جگہ حکومت پر غالب تھا۔ اور وہی سب سے زیادہ یہودیوں کا مخالف تھا۔ اس اثر کو ختم کرنے کے لئے پہلے مذہب و سیاست کی تفریق کا نظریہ پیش کیا اور پھر سرے سے مذہب کے بنیادی عقائد ہی کو ڈائنا میٹ کر دیا۔ عیسائی بادشاہ یہودیوں کے خلاف نفرت و عناد کی فضا پیدا کرنے میں برابر کے حصہ دار تھے۔ ان کی قوت کو توڑنے کے لئے ان کی مطلق العفانی استبداد اور جاگیردارانہ نظام، جس پر پوری ریاست کا سیاسی ڈھانچہ قائم تھا۔۔ کے خلاف آواز بلند کی اور جاگیرداری کے خاتمے، شہری آزادیاں اور شہری حقوق دینے اور اقتدار میں عوام کو حصہ دار بنانے کی تحریک شروع کیا۔

لبرلزم کی یہ تحریک نہایت سازگار ماحول میں اُٹھی۔ یورپ صدیوں تک فکری و تہذیبی پستیوں میں غرق رہنے کے بعد ابھر رہا تھا۔ نئی نئی علمی و فکری راہیں کھل رہی تھیں۔ سائنس کے میدان میں حقیقات زور شور سے جاری تھیں۔ نئے نئے اکشافات ہو رہے تے۔ بھاپ کی قوت کے انکشاف سے صنعت کی دنیا میں انقلاب آگیا تھا۔ کارخانے اور فیکٹریاں قائم ہو رہی تھیں۔ تنگ نظر کلیسا نے جس کے پاس صرف محدود سی اخلاقی تعلیمات کے سوا اجتماعی زندگی کے مسائل کا کوئی حل نہ تھا، اس علمی و فکری انقلاب کو خلاف مذہب قرار دے دیا، نتیجہ یہ ہوا کہ عیسائیوں کے تعلیم یافتہ طبقے اور پادریوں کے درمیان کش مکش شروع ہو گئی۔ عیسائی حکومتوں نے پادریوں کا ساتھ دیا اور فکر جدید کے علمبرداروں پر سخت ظلم توڑے، اس کا ردِّ عمل جدید مفکرین اور دانش ور طبقے میں مذہب اور برسرِ اقتدار جاگیردار اور حکمران طبقے کے خلاف نفرت اور فکری و سیاسی آزادی کی تڑپ کی صورت میں ہوا۔ یہودی نظریات نے اس نفرت کو مزید ہوا دی سیاسی حقوق اور شہری آزادیوں کے پردے میں یہودی مفکرین نے عیسائی دانشوروں کو اپنے حق میں اسعمال کیا۔ ان مفکرین میں موسے میڈلسون (۱۷۲۹ء۔ ۱۷۸۶ء) کو نمایاں مقام ہے۔ یہ خود بڑا راسخ العقیدہ یہودی تھا۔ مگر عیسائی معاشرے میں فکری و سیاسی نفوذ پانے کے لئے یہودیوں کو جدید طرزِ زندگی اختیار کرنے کی تلقین کرتا تھا۔ اس نے عیسائی اہل فکر کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ پرشیا کا بیورو کریٹ کرسچن ولہم یورپ کا پہلا شخص تھا جس نے یہودیوں کے حق میں علانیہ آواز بلند کی۔ انقلاب فرانس کے فکری علمبرداروں میں والٹیئر، روسو اور مانیتسق صف اول میں شمار کئے جاتے ہیں۔ مؤخر الذکر دونوں مفکرین یہودی فکر سے متاثر اور ان کے زبردست حامی تھے، چنانچہ انقلابِ فرانس میں بنیادی طور پر یہودیوں ہی کا ذہن کام کر رہا تھا۔ اس انقلاب میں یہودیوں نے عیسائی عوام سے کہیں زیادہ جوش و خروش سے حصہ لیا۔

انسائیکلو پیڈیا برٹیانیکا کے مقالہ Jews کے مصنف کے الفاظ میں ''انقلاب فرانس یہودیوں کے لئے آزادی کا پیغام لے کر آیا اور اس تاریک دور کا خاتمہ ہو گیا۔ جو ۳۱۱ء سے ۱۷۸۹ء کی طویل مدت پر پھیلا ہوا تھا۔'' ۲۸ ستمبر ۱۷۹۱ء کو فرانسیسی اسمبلی نے یہودیوں کو ووٹ دینے کا حق دیا۔ اس کے بعد مغربی اور شمالی یورپ کے ملکوں میں یہودیوں کو حقوق ملے ان ملکوں کی اقتصادی زندگی پر تو وہ پہلے ہی چھا چکے تھے اب سیاسی زندگی پر بھی چھا گئے۔ خود اپنے قومی دائرے میں ہر جگہ اسرائیل کے ماضی کو سائنسی انداز میں پیش کیا گیا۔ اخبارات و رسائل نکلنے لگے، اعلیٰ تعلیمی ادارے کھل گئے۔ طباعتی انجمنیں وجود میں آگئیں۔ عجائب گھر قائم ہوئے جن میں یہودی قوم کی تاریخ ماضی کی تصویر کشی کی گئی تھی۔ مشرقی یورپ اور روس میں البتہ صورتِ حالات اب بھی مختلف تھی۔ یہاں یہودیوں سے نفرت پہلے ہی کی طرح شدید رہی اور مختلف وقفوں کے ساتھ منظم قتل عام ہوتا رہا۔ نفرت اور موت کی اس مہیب فضا سے نکلنے کے لئے بہت سے یہودی خاندانوں نے عیسائیت قبول کر لی، تاہم جس علمی و فکری تحریک کا آغاز مغربی اور شمالی یورپ میں ہوا۔ مشقی یورپ اور روس کے یہودی بھی اس سے متاثر ہوئے۔ ''غیتو''کی چار دیواریوں میں جدید تعلیمی ادارے کھل گئے۔ طبرانی تعلیم کا احیاء ہوا۔ سیاسی و شہری حقوق حاصل کرنے کے بجائے روسی زاروں کا تختہ الٹ کر سوشلسٹ ریاست قائم کرنے اور فلسطین پر قبضہ کرنے کی تحریکیں اسی علاقے میں شروع ہوئیں۔ (دیکھئے یہودی ریاست اسرائیل کے پہلے صدر ڈاکٹر وائیزین کی کتاب (Trial and Errors) (باقی آئندہ)


نوٹ

سوشل ڈیمو کریٹس وہ لوگ ہیں جو سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ آگے چل کر یہ پارٹی بالشویک اور منشویک دو حصوں میں بٹ گئی۔ بالشویک معنی ہیں۔ اکثریت اور منشویک کا مطلب ہے۔ اقلیت بالشویکوں کا لیڈر لینن تھا اور یہی پارٹی بعد ازاں کمیونسٹ پارٹی کہلائی بالشوزم کا لفظ جہاں کہیں استعمال ہو، اسے اس کا مطلب ہے۔ وہ سائنٹفک سوشلزم یا کمیونزم جس کا علمبردار لینن تھا۔ بالشوزم کی اس صورت کو بعض اوقات لینن ازم بھی کہتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ دلچسپ بات پیش نظر رہے کہ اگرچہ بالشویک سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی میں اقلیتی گروپ تھے، لیکن بالشویک (یعنی اکثریتی گروپ) کہلائے۔ اس کے برعکس جن کو یہ منشویک (اقلیتی گروپ) کہتے ہیں، وہ درحقیقت اکثریتی گروپ تھا۔ اور محض لینن کی عیاری کے ہاتھوں شکست کھا گیا تھا۔

مقالہ: Jews، انسائیکلو پیڈیا، برٹیانیکا۔ ۱۹۶۴ء جلد ۱۳، ص ۵۷۔

کبٹز کے بارے میں تفصیلات کے لئے دیکھئے، عبد الوہاب کیالی کی کتاب، ''الکیبوتز او المزارع الجماعیۃ فی اسرائیل'' جو منظمۃ التحریر الفلسطینیۃ مرکز الابحاث بیروت نے شائع کی ہے، یہ کتاب انگریزی میں بھی اسی ادارے کی طرف س چھپ چکی ہے۔ (مصنف کے پیش نظر اس کا عربی ایڈیشن ہے۔ اِس کتاب میں کیالی نے جو بات کہی ہے۔ اسرائیلی اخبارات، مصنفین اور لیڈروں کے حوالے سے کہی ہے۔ مختصر یہ کہ ان بستیوں میں ملکیت مشترکہ ہوتی ہے (سوشلزم میں بھی یہودی اہلِ فکر ملکیت کو مشترکہ قرار دیتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کبٹز میں ملکیت صرف بستی میں آباد یہودی خاندانوں کی ہوتی ہے۔ سوشلسٹ حکومت میں اسے حکومت کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے، ان بستیوں میں سب خاندان مشترکہ طور پر رہتے ہیں، ازدواجی زندگی بس زن و شو کے تعلقات تک محدود ہے، بچوں کے ساتھ ماں باپ کا تعلق برائے نام ہوتا ہے۔ بچے اجتماعی نرسریوں میں پلتے اور ہوسٹلوں میں رہتے ہیں، ماں باپ انہیں وہیں جا کر ملتے ہیں۔ ایک ایک عورت کے کئی شوہر اور ایک ایک مرد کی کئی (بے نکاحی) بیویاں ہوتی ہیں۔ نکاح و طلاق کو بورژوائی روایت قرار دیا جاتا ہے۔ آزاد محبت اور آزاد ہوس رانی پر کوئی روک ٹوک نہیں۔ مرد اور عورت کبٹز کے وسیع ہال میں کھانا کھاتے ہیں۔ زن و شو کے تعلقات کے لئے ''حمام'' بنائے گئے ہیںَ زرعی اور صنعتی پیداوار کی آمدنی کا مالک ''کبٹز'' ہوتا ہے، جس کی انتظامیہ کو ''کبٹ'' کے ارکان ووٹوں سے منتخب کرتے ہیں۔

اس موضوع کے لئے دیکھئے یہودی مصنف ایفریڈ للنتھال کی کتاب، What Price Israel کا پہلا باب۔