وہ کون ہے یہاں جو گرفتارِ غم نہیں؟
دل، کیا کہا، عزیز نہیں، محترم نہیں تیری نظر کی زد میں ہے یہ بات کم نہیں
منڈلا رہا ہے، سر پہ ترے طائرِ اجل پھر بھی لحد کی فکر، قیامت کا غم نہیں
جو درد مجھ کو تیری نظر نے عطا کیا تری قسم، وہ نعمتِ عظمیٰ سے کم نہیں
رختِ سفر نہ کھول، نقوشِ قدم نہ دیکھ کیا تو مسافر رہِ ملکِ عدم نہیں
آخر شکایتِ غمِ دنیا سے فائز وہ کون ہے یہاں جو گرفتارِ غم نہیں؟
گھبرانہ زندگی کے نشیب و فراز سے جس کو مداومت ہو کوئی ایسا غم نہیں
غم کی متاعِ بیش بہا اس کی دین ہے اب دل میں کوئی خواہشِ جاہ و حشم نہیں
رقص و سرود، بزمِ طرب محفلِ نشاط ہرگز یہ شانِ امتِ خیر الامم نہیں
وہ سرفراز ہو نہ سکا راہِ عشق میں جو آستان پاک پر ہر وقت ختم نہیں
خالق کو چھوڑ کر چھکے مخلوق کی طرف
عاجزؔ کا یہ اصول خدا کی قسم نہیں