مملکتِ خداداد پاکستان میں اسلامی نظامِ تعلیم کے لئے ایک پکار اور دعوتِ فکر و عمل

ملتِ اسلامیہ کے عظیم فرزندو!

کاش کوئی ایسا آفاقی آلہ نشر الصوت ہوتا جس کے ذریعے وطنِ عزیز کی ہر بلندی و پستی، ہر کوہ و دامن اور ہر بستی و قریہ تک یہ آواز پہنچائی جا سکتی کہ اے ہوشمندو! خدا کے لئے سنبھلو! وہ دیکھو! صورِ اسرافیل پھونکا ہی جانے والا ہے اور قیامت سے پہلے قیامت آیا ہی چاہتی ہے، ہلاکت و بربادی اور حرمان نصیبی کا ایک طوفانِ عظیم ہے۔ جو ہمارے گھروں کو دستک دینے کے لئے تیزی سے بڑھتا چلا آرہا ہے۔ اپنے بچاؤ کا کچھ سامان کر سکتے ہو تو کر لو۔ ورنہ اِس سیلاب کی ہلاکت آفرینیوں کے بعد تاریخِ انسانی میں ہماری عظمتوں کے قصے تو کجا ''فرعون کی لاش'' کی طرح آنے والوں کے لئے ہم عبرت بن کر رہ جائیں گے۔ ہر راہ رَو ہم پر نفرت کے تیر برسائے گا اور آنے والی نسلوں کے پاس بھی ہمار لئے کوئی کلمۂ خیر نہ ہو گا۔

یہ سیلاب عظیم کیا ہے؟ یہ ہے تہذیب نو اور مغربی تمدن کے برگ و بار اور کفر والحاد کے کانٹے، اسلام کے خلاف تشکک و شبہات کی جذبات انگیزیاں، فحاشی دار تداد کے زہریلے تیر، دین مبین سے صریحاً فرار اور محسن کائنات ﷺ کی پاکیزہ زندگی سے عملی انکار، جسے ہم نے انگریز کے متردکہ نظامِ تعلیم کے ذریعے آج ایک ربع صدی گزر جانے کے بعد تک پاکستان جیسی نظریاتی سٹیٹ میں روا ہوا ہے۔ پاکستان کی ابتدائی نسل جس کے اندر ایمان کے چند شرارے موجود تھے۔ قریب الاختتام ہے، دوسری اور تیسری نسل عملاً اسلام سے برگشتہ ہو رہی ہے۔ عیسائیت، یہودیت اور لا دینیت نے مل کر مسلم قومیت کے لئے جو جال بنا تھا ہم اس کے اسیر ہو چکے ہیں۔ کیا اس فرمان خداوندی اور وعید الٰہی سے ہم بے خبر ہو گئے ہیں۔

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا قوا أَنفُسَكُم وَأَهليكُم نارً‌ا...﴿٦﴾... سورة التحريم

''اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ جہنم سے بچاؤ (جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں)۔''

افسوس کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ہم اس نظامِ تعلیم کو آزادی کے چوبیس سال بعد تک بھی اپنائے ہوئے ہیں۔ جس سے زیادہ مکروہ نظامِ تعلیم کسی قوم نے اپنے بچوں کے لئے روا نہیں رکھا۔ جو خدا سے انحراف، ادب و اخلاق سے عاری اور حقوق و فرائض سے غفلت سکھاتا ہے۔ خدمت خلق کی بجائے خود غرضی، نفسانیت اور ہر قسم کی بے راہ روی سے بچوں کے اخلاق اور انسانیت کو اُلٹی چھری سے ذبح کر رہا ہے۔

یہ آگ جس سے خداوندِ قدوس نے ہمیں بچنے کا حکم دیا ہے۔ کفر و الحاد کی آگ ہے مروجہ نظامِ علیم اور نصاب تعلیم اسی آگ کے الاؤ ہماری ملت کے اندر جلا رہا ہے۔ جس سے اسلام کے شاہین بچوں کی وہ صلاحیتیں خاکستر ہو رہی ہیں۔ جو قرآن و اسلام کی پُر عظمت تعلیم کے ذریعہ جلا پا کر امت کی رہنمائی کے مقام تک پہنچاتی ہیں۔ اگر تعلیم کا مقصد فی الواقع معرفتِ کردگار ہے، اگر تعلیم کا مقصد بجا طور پر حقوق و فرائض کی بجا آوری ہے۔ اگر علم کی غرض و غایت پر امن معاشرہ کی تخلیق، ایک دوسرے کی مخلصانہ ہمدردی، سفلی جذبات سے پرہیز اور اخلاق عالیہ کی ترویج و توسیع ہے تو خدا کے لئے غور فرمائیے کہ ہم اس مقصد میں کہاں تک کامیاب ہوئے ہیں؟ کیا ہمار تعلیمی اداروں نے ہمارے نونہالوں کے دلوں میں اسلام کی کوئی جوت جگائی ہے؟ کیا اس سے اسوۂ حسنہ کے کچھ چراغ روشن ہوئے؟ کیا قرآن فہمی او عقل و بصیرت کے کچھ باب کھلے؟ کیا اسلام کی عظمتِ دیرینہ اور شوکت پارینہ کے حصول کی کچھ راہیں کشادہ ہوئیں؟ اگر یہ نہیں اور خدا کی قسم نہیں! تو پھر سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمائیے کہ یہ بے معنی اور بے مقصد تعلیم کا بوجھ جو ہماری نسلِ نو کے کندھوں پر لاد دیا گیا ہے کیا اینٹ، پتھر او مٹی کے بے قیمت سنگریزوں سے کچھ زیادہ حیثیت رکھتا ہے!!

کیا قرآن کریم کی یہ آیت ہم پر صادق نہیں آتی:۔

﴿ثُمَّ لَم يَحمِلوها كَمَثَلِ الحِمارِ‌ يَحمِلُ أَسفارً‌ا ۚ بِئسَ مَثَلُ القَومِ الَّذينَ كَذَّبوا بِـٔايـٰتِ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ لا يَهدِى القَومَ الظّـٰلِمينَ ٥﴾... سورة الجمعة

''ان کی حالت اس گدھے کی سی ہے۔ جس پر بڑی بڑی کتابیں لدی ہوں، خدا کی آیتوں کی تکذیب کرنے والوں کی مثال کتنی بری ہے۔ اللہ تعالیٰ ظالم قوم کو ہدایت س کبھی سرفراز نہیں فرماتے۔''

کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اگر ہم نونہالانِ وطن کو صحیح اسلامی تعلیم سے محروم رکھ کر اپنے فرض منصبی سے غافل رہے تو سرفرازی وطن کا باعث بننا تو کجا ہم ہلاکت و بادی کے لق و دق صحرا پہنچ کر ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں گے۔

یاد رکھئے! جس طرح یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جاہل اور ان پڑھ قوموں نے عزت و عروج اور سربلندی و سرفرازی حاصل نہیں کی وہاں یہ بھی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی ترقی کا واحد راستہ اسلامی نظامِ تعلیم کے احیاء و نفاذ کے سوا کچھ نہیں ہمارے لئے شیکسپئر، میکالے، روسو، لینن، ماؤ اور مارکس کے ہاں کوئی خوشخبری نہیں، ہمارا منبع تعلیم، کلامِ پاک، احادیثِ رسول، اسوۂ پیغمبر اور تعلیماتِ اسلام ہے۔ ہمارے مینار روشنی خلفائے راشدین، صحابہ کریم رضوان اللہ علیہم اجمعین اور قرون اولیٰ کے پاکباز مسلمان ہیں، ہماری تاریخ بے مثال ہیروز اور لاجواب شخصیتوں سے پُر ہے۔ جب ہماری قوم دنیا کی کسی قسم سے فرو تر نہیں تو پھر یہ احساس کمتری کیوں؟ دوسری کی دریوزہ گری کب تک! اور پھر ان کم ظرفوں کی جو ہمارے ہی جواہر ریزوں کو چرا کر جوہری بنے بیٹھے ہیں! افسوس!

'آنچہ ما کردیم باخود ہیچ نابنیا نہ کرد''


اسلامی نظامِ تعلیم کی اہمیت کا احساس سب کو اچھی طرح ہے۔ گزشتہ چوتھائی صدی سے ملک کے ہر گوشہ سے ہر مکتب فکر اور طبقہ سے تعلق رکھنے والے عالموں، دانشوروں، خطیبوں، سیاستدانوں اور اربابِ اقتدار و اختیار سے لے کر خود عزیز طلبا تک نے چیخ چیخ کر کہا کہ ہمارا موجودہ نصابِ تعلیم ہماری امنگوں اور ولولوں، ہماری تہذیب و تمدن اور ہماری روایاتِ و نظریات کے ساتھ نہ صرف ہم آہنگ نہیں بلکہ اس کے برعکس ہے اور وہی ہے جو انگریز نے ہماری قومیت کی تباہی کے لئے سازشاً تیار کیا تھا۔ اس کافرانہ نظامِ تعلیم کے جو نتائج نکلے ہیں وہ آپ نے دیکھ لئے ہمارا ملک الحاد اور مادیت کی رو میں بہہ رہا ہے۔ ہماری نئی پود خود اہل اسلام کے خلاف خون آشام تلوار ہاتھ میں لئے منتظر کھڑی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مستقبل کے معاشرہ میں کسی شریف آدمی کا سانس تک لینا مشکل ہو جائے گا۔ مشرقی پاکستان کی موجودہ انارکی اس کی زندہ مثال ہے۔ موجودہ فحاشی، عریانی، بے پردگی، اور نسوانی آزادی اسی تعلیم کے مختلف مظاہر ہیں۔ اگر خدانخواستہ یہی شب و روز رہے و مغربی پاکستان بھی اسلامی روایات سے تہی دامن ہو کر اسلامی نظریات کے در پے آزاد ہو جائے گا۔

کیا یہ ستم ظریفی نہیں کہ لَا اِلٰه اِلَّا اللہ کے نام پر معرض وجود میں آنے والے اِس نظریاتی ملک میں اسلام اور قرآن کی تعلیم تو نامکمل اور برائے نام ہو اور وہ بھی اختیاری، لیکن انگریزی اور دوسری لا یعنی تعلیم کو ہر مقام پر بالا دستی حاصل ہو۔

کیا یہ عجوبہ نہیں کہ جب اہل وطن خطرہ خطرہ کا الارم بجانے میں ہم آہنگ ہیں تو پھر وہ مل کر اس کا علاج کیوں نہیں سوچتے؟ اس کے علاج کے لئے کوئی منظم کوشش کیں بروئے کار نہیں لاتے؟ کیا زبان سے خطرہ خطرہ پکارنے سے خطرات ٹل جایا کرتے ہیں؟ کیا موت موت چلانے سے موت پر جاتی ہے؟ کیا محض آگ کا شور مچانے سے آگ بجھ جاتی ہے؟ یہ دنیا تو میدانِ عمل ہے، خود خدا وند قدوس بھی انہی کی مدد فرماتے ہیں، جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿لا يُغَيِّرُ‌ ما بِقَومٍ حَتّىٰ يُغَيِّر‌وا ما بِأَنفُسِهِم...﴿١١﴾... سورة الرعد

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا


ابھی کچھ مہلت باقی ہے۔ اب بھی کہیں کہیں دین، نیکی، اخلاق اور ادب و اصلاح کے نام پر کچھ گردنیں جھک جاتی ہیں، اس لئے ملت کے ہر بہی خواہ اور پیغمبر صادق کے ہر کلمہ گو کا فرض ہے کہ پانی کے سر سے گزر جانے سےپہلے پہلے کمر ہمت باندھ کر میدان عمل میں نکل آئے۔ ورنہ یاد رکھئے جب قوم میں دعوتِ خیر پر لبیک کہنے والوں کی تعداد غیر مؤثر اقلیت میں تبدیل ہو جائے گی اور اکثریت انسان نما حیوانوں، بے شعور، بے غیرت اور بے دین لوگوں پر مشتمل باقی رہ جائے گی تو سمجھ لیجئے اس وقت خدا کے عذاب اور قوم کے مٹ جانے کا وقت آپہنچا۔ سپین، غرناطہ اور سقوط بغداد کے واقعات سے دلی کے لال قلعہ اور شاہی مسجد کے میناروں سے ہمارے زوال کی داستانیں پوچھ لو،یہی تاریخ اُمم ہے، یہی سنت اللہ ہے۔

﴿وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبديلًا ﴿٦٢﴾... سورة الاحزاب

''تم عادت الٰہی میں کبھی تغیر و تبدل نہ پاؤ گے۔ (بے عمل قومیں ہمیشہ مٹا دی جاتی ہیں)''

اگر کوئی غلط روش معاشرہ کو ہلاکت کے جہنم کی طرف دھکیل رہی ہو، آپ کا حساس دل اس روش سے رنجیدہ اور ملول خاطر بھی ہو اور اس غلط روش کے مضر اثرات ملک و ملت سے بڑھ کر آپ کی ذات تک بھی پہنچنے والے ہوں تو پھر جان لیجئے کہ یہیں سے ہم سب کی ذمہ داری شروع ہو جاتی ہے اور یقیناً ہم سب خدا تعالیٰ کے ہاں اس کے لئے جوابدہ ہوں گے۔

اب بھی وقت ہے کل (اور محشر کے ہاں جب پیش ہو گے، کیونکر کہو گے کہ جاننے کے باوجود جان نہ سکے؟ آنکھوں کے باوجود دیکھ نہ سکے؟ دل و دماغ کے باوجود سوچ نہ سکے؟ اور ہاتھوں کے باوجود عمل سے عاری رہے؟ جاگتے تھے لیکن سوئے ہوؤں سے بدتر تھے، تو پھر خدارا سوچئے ہمیں مسلمان کہلانے کا کیا حق ہے؟

کیا یہ برائیاں روز روشن میں صاف اور واضح طور پر ہم اپنی ناک کے نیچے دیکھ نہیں رہے؟ کیا ان میں بتدریج اضافہ نہیں ہو رہا؟ کیا برائی خم ٹھونک کر میدان میں نہیں آرہی اور نیکی کونوں گوشوں میں سمٹ نہیں رہی؟

جب ہر قسم کی برائیاں اس طرح نمودار ہو جائیں تو کسی مسلمان کو زیبا نہیں کہ خاموش تماشائی بنا رہے اور بے غیرت انسان کی طرح سب کچھ گوارا کر کے عافیت کے گوشے تلاش کرتا پھرے۔ اس وقت تو ساری فائز المرامی یہی ہے کہ بڑھ کر بدی کے اس عفریت کا سر کچل کر رکھ دیا جائے۔ خواہ اس راہ میں جان ناتواں بھی جان آفرین کے سپرد کر دینی پڑے۔

خدارا ایسا نہ ہو کہ طاغوتی طاقتیں بڑھتی رہیں اور جرأت و جواں مردی سے اسے روکنے والا کوئی ہاتھ آگے نہ بڑھے! اسلام کی تاریخ گواہ ہے کہ جب کبھی کسی برائی نے سر اٹھایا اس کا راستہ روکنے والے اولوالفرم لوگ میدان عمل میں ڈٹ گئے، یہ قافلۂ عزم و استقامت بڑھتا ہی رہا، گو اسے لاکھ کانٹوں سے الجھایا گیا۔ گالیوں کی بوچھاڑ، سنگ و خشت کی بارش اور ظلم و تعدی کے خنجر ان کو رواں دواں ہونے سے روک نہ سکے۔ کیا آپ انہیں جلیل القدر اسلاف کے فرزند نہیں ہیں؟

کیا آپ اپنی تاریخ میں یہ لکھوانا چاہتے ہیں کہ اس دور میں کوئی قافلۂ حق ہی نہ تھا جو آگے بڑھ کر برائی کا راستہ روک لیتا، کوئی پاکباز گروہ نہ اٹھا جو سنت اسلاف کو زندہ کر کے اسلام کو سربلند رکھتا؟ کیا یہ معاشرہ بالکل ہی بانجھ ہو چکا ہے؟ کیا نیکی ختم ہو چکی اور صلاحیتیں جواب دے چکی ہیں؟ کیا خدا کے طرف داروں اور رسول اکرمﷺ کے جانثاروں سے دنیا خالی ہو چکی ہے؟

﴿أَلَيسَ مِنكُم رَ‌جُلٌ رَ‌شيدٌ ٧٨﴾... سورة هود

''کیا تم میں کوئی سمجھ بوجھ والا شخص نہیں رہا؟''

نہیں نہیں! ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ابھی اس دنیا میں سعید روحیں یقیناً باقی ہیں۔ ہم اس تاریک ماحول میں کھڑے انہی سعید روحوں کو ﴿ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ﴾ کی روشنی میں پکار رہے ہیں اور خداوند قدوس کی رحمت کاملہ سے پر امید ہیں کہ اصحابِ بدر کی طرح اگر چند مخلص اور باعمل لوگ آج بھی منظم ہو گئے تو ایک بار پھر کلامِ پاک میں مرقوم اس حقیقت عظمےٰ کے اعتراف پر ساری دنیا مجبور ہو جائے گی۔

﴿كَم مِن فِئَةٍ قَليلَةٍ غَلَبَت فِئَةً كَثيرَ‌ةً بِإِذنِ اللَّهِ...٢٤٩﴾... سورة البقرة

''یعنی بسا اوقات ایسا ہوا کہ اللہ کے حکم سے قلت نے کثرت پر فتح پائی۔''

اے ملت اسلامیہ کے جانبازو! اور اے ناموس مصطفےٰ کے محافظو! شاید یہ سعادت آپ ہی کی قسمت میں لکھی ہو کہ تعمیر ملت کا یہ عظیم کام آپ سے لیا جائے گا۔ نیکی کسی کی جاگیر نہیں۔ اس راہ میں امیر غریب، اچھے برے اور چھوٹے بڑے کی کوئی تخصیص نہیں۔ آپ خدا کا نام لے کر آگے بڑھیں اور پاکستان میں اسلامی نظامِ تعلیم رائج کرنے کا تہیہ کر لیں، ایک تنظیم اور ایک سلیقہ کے ساتھ اپنی ساری توانائیاں اسی مقصد کے حصول کے لئے صرف کر دیں اور انجام خدا پر چھوڑ دیں۔ ؎

اُٹھ باندھ کمر کیوں ڈرتا ہے؟
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے؟
 
جمادی الأاولیٰ و جمادی الأخریٰ

(علامہ نواب صدیق الحسن خان رحمۃ اللہ علیہ)

ان دونوں مہینوں کی فضیلت کے متعلق کوئی آیت یا حدیث نظر سے نہیں گزری، جو عبادات عموماً سر انجام دی جاتی ہیں، اس ماہ میں بھی ان عبادات پر متوجہ رہنا چاہئے۔

راقم الحروف کی پیدائش ۱۹ جمادی الاولیٰ ۱۲۲۸ھ بروز یک شنبہ ہوئی تھی۔ یک شنبہ لغت عرب میں  یو م ألاحد کہتے ہیں، خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے قُلْ هُوَ اللهُ أحَدٌ کا قائل پیدا کیا۔ میری پیدائش کا وقت اشراق کا تھا، خدائے پاک نے میرے سینۂ بے کینہ کو علمِ شرع و توحید کے آفتاب کا مشرق بنایا ہے۔ وللہ المنة