حضور ﷺ کے معاشی شب و روز

حضور ﷺ کی زندگی کا ہر لمحہ:

آنحضرت ﷺ کی زندگی کا ہر لمحہ قابلِ ستائش اور قابلِ رشک اور آپﷺ کا ہر قول و فعل رشد و ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ آپ ایک ہی وقت میں ہادی بھی تھے اور مرسل بھی، غازی بھی تھے اور تاجر بھی، آپﷺ کی ساری زندگی اس لحاظ سے قابلِ صد افتخار ہے کہ آپ ﷺ اپنی عمر کے کسی بھی حصہ میں معاشی لحاظ سے کسی پر بوجھ نہیں بنے۔ آپ ﷺ اپنے ہاتھ سے کام کرتے اور اپنی روزی خود کماتے، نہ صرف اپنے لئے بلکہ محتاجوں، مفلسوں اور تہیدستوں کیلئے بھی آپ ﷺ پر زندگی میں فراخی اور کشادگی کے وقت بھی آ مگر آپ ﷺ نے کبھی بھی عیش وعشرت اور امیرانہ ٹھاٹھ باٹھ کو پسند نہ کیا بلکہ زاہدانہ زندگی کو اپنایا اور قلب و روح کی آبیاری ذکرِ الٰہی سے فرمائی۔

بچپن میں:

بچپن کا زمانہ جس بادشاہی دَور سے تعبیر کیا جاتا ہے جب کہ بچے کو کھیل کود سے بڑھ کر اور کوئی چیز عزیز نہیں ہوتی، مگر قربان جائیے سید المرسلین ﷺ پر کہ اس زمانے میں بھی لہو و لعب سے احتراز کرتے تھے اور کام کاج میں حتی المقدور خاندان کا ہاتھ بٹاتے تھے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنا اور اپنی روزی کا انحصار دوسروں پر کرنے کو پسند نہ فرماتے تھے۔

آنحضرتﷺ کی رضاعی والدہ آپﷺ سے بہت زیادہ محبت کتی تھیںَ آپﷺ بھی ان کی ہر خواہش کا احترام کرتے اور ہر ممکن طریقے پر خدمت کے لئے تیار رہتے اور اپنی رضاعی بھائیوں کے ساتھ بکریوں کا ریوڑ چرانے چلے جاتے، حالانکہ اس وقت آپﷺ کی عمر زیادہ سے زیادہ پانچ سال کی تھی، جب آپ ﷺ کی عمر دس بارہ سال کی ہوئی تو آپ ﷺ نے بڑی سرگرمی سے اپنے چچا کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ آپ نے اپنے ہم عمروں کے ساتھ بکریاں بھی چرائیں۔ عرب میں اونٹ بکریاں چرانا کوئی عیب کی بات نہ سمجھی جاتی تھی، اچھے اور شریف گھرانوں کے بچے بھی بکریاں چرایا کرتے تھے۔

میدانِ تجارت میں:

جوان ہوتے ہی آپ ﷺ نے تجارت کو بطور پیشہ اختیار کیا۔ کیونکہ یہ قریش کا پرانا مشغلہ تھا۔ آپ ﷺ کے چچا ابو طالب بھی تاجر تھے۔ اسی لئے آپ ﷺ نے بھی تجارت کو ہی ذریعہ معاش بنایا، بچپن میں جب آپﷺ کی عمر بارہ، تیرہ سال تھی اپنے چچا کے ساتھ شام کا سفر کیا، تجارتی منڈیوں کا نشیب و فراز بغور دیکھا۔ اسی سفر میں کافی تجربہ اصل کیا اور جلد ہی تجارت میں شہرت حاصل کر لی۔ آپﷺ کی دیانت و امانت اور راست بازی کا گھر گھر چرچا تھا۔ اس لئے لوگ اپنا سرمایہ آپ ﷺ کو شراکت کی غرض سے دیتے تھے۔ آپﷺ اپنی نیک خصائل اور معاملے کی صفائی کی وجہ سے لوگوں میں نہایت ہی مقبول تھے، لوگ آپ ﷺ کو ''امین'' اور ''صادق'' کہہ کر پکارتے اور نہایت ہی احترام کی نگاہ سے آپ ﷺ کو دیکھتے تھے۔ آپ ﷺ نے شام، بصریٰ اور یمن کے کئی کامیاب سفر کئے اور انتہائی ''نیک شہرت'' حاصل کی۔

جب حضرت خدیجہؓ کو پتہ چلا تو انہوں نے کاروبار میں شراکت کے لئے اپنی خواہش کا اظہار کیا اور آپ ﷺ کو کہا کہ جو معاوضہ دوسروں کو دیتی ہوں، آپ ﷺ کو بھی دوں گی۔ چنانچہ آپﷺ نے ان کی اس پیش کش کو قبول فرما لیا اور سامانِ تجارت لے کر شام کا رُخ کیا۔ اس سفر میں حضرت خدیجہؓ کا غلام میسرہ بھی آپﷺ کے ساتھ تھا جو آپﷺ کی تاجرانہ صلاحیتوں سے بہت ماثر ہوا اور واپس آکر اس نے خد یجہ﷜ سے اس کا ذکر کیا۔ اس سفر میں آپ ﷺ کو توقع سے بڑھ کر منافع حاصل ہوا۔

خدمتِ خلق:

آپﷺ کی امانت و دیانت اور صداقت و راست بازی کو دیکھ کر حضرت خدیجہؓ نے آپ کو شادی کا پیغام بھیجا جو آپ ﷺ نے قبول کر لیا، چند دن بعد عرب کی اس پاکباز خاتون اور دنیا کے جلیل القدر امین کی شادی ہو گئی۔ حضرت خدیجہؓ نہایت شریف خاتون تھیں، جنکا شمار عرب کے بڑے بڑے تاجروں میں ہوتا تھا۔ شادی کے بعد حضرت خدیجہؓ نے اپنا تمام مال حضور ﷺ کی تحویل میں دے دیا۔

آنحضرت ﷺ تمام تاجرانہ حمیدہ سے موصوف تھے، شادی کے بعد آپ ﷺ نے بڑے پیمانے پر تجارت شروع کر دی۔ اس سے دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی ہوئی۔

آپ ﷺ نے تجارت سے حاصل ہونے والی دولت سے محتاجوں، یتیموں اور بیواؤں کی سرپرستی فرمائی۔ آپﷺ کا دستر خوان سرائے عام تھا، خادم ہمہ وقت خدمت کے لئے موجود رہتےتھے۔ چونکہ حضور ﷺ کے چچا ابو طالب کثیر العیال تے۔ اس لئے آپ ﷺ نے حضرت علیؓ کی کفالت اپنے ذمہ لی اور ان کی دیکھ بھال کا خوب حق ادا کیا۔ اسی کاروبار میں اللہ تعالیٰ نے بہت برکت دی اور خصوصی نوازشات سے آپ ﷺ کونوازا۔ سورت والضحیٰ کی اس آیت میں آپ ﷺ کی اسی حالت کا ذِکر کیا گیا ہے: ﴿وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغنىٰ ﴿٨﴾... سورة الضحٰى

ترجمہ: ''پہلے تم تنگ دست تھے پھر اس نے تمہیں تونگر بنا دیا۔''

صفوان بن سلیم کہتے ہیں ایک دفعہ قبل از بعثت میں نے حضور ﷺ سے کچھ اونٹ مانگے تو آپ ﷺ نے ایک سو اونٹ مرحمت فرمائیے۔ میں نے اور مانگے تو آپ ﷺ نے ایک سو اور عنایت کئے۔ میں نے مزید مانگے تو آپ ﷺ نے ایک سو اور اونٹ عطا کئے۔

آپ ﷺ نے نبوت جیسی عظیم ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ تجارت کو بھی بطور ذریعہ معاش جاری رکھا تاکہ کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانے پڑیں۔ ہمیں بہت سے آپ ﷺ کے ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے بعد از بعثت آپ ﷺ کی تاجرانہ زندگی پر روشی پڑتی ہے۔

حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ میں ایک سفر میں تھا اور میرا اُونٹ کثرتِ سفر کی وجہ سے بری طرح سے تھک چکا تھا، اس کی رفتار بہت سست تھی، آنحضرت ﷺ نے جب اونٹ کی یہ حالت دیکھی تو اسے ایک ضرب لگائی، بس پھر کیا تھا، اونٹ ایسی عمدہ رفتار سے چلنے لگا کہ اس سے پہلے کبھی ایسی رفتار نہ چلا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ جابرؓ! تم یہ اونٹ مجھے ایک اُوقیہ (۴۰ درہم) میں فروخت کر دو۔'' میں نے عرض کی جناب میں حاضر ہوں اور ساتھ یہ شرط بھی کر لی کہ میں گھر تک اس پر سواری کروں۔ میں نے مدینہ منورہ پہنچ کر اونٹ آپ ﷺ کے حوالے کر دیا۔ حضور ﷺ نے حضرت بلالؓ سے فرمایا کہ انہیں اونٹ کی قیمت نقد ادا کر دو۔

حضرت عروہ بارقیؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور ﷺ نے مجھے ایک دینار دیا تاکہ میں آپ ﷺ کے لئے (منڈی سے) ایک بکری خرید لاؤں۔ میں نے دینار سے دو بکریاں خریدیں، ان میں سے ایک کو ایک دینار کے بدلے فروخت کر دیا۔ اور دوسری بکری اور ایک دینار لا کر آپ ﷺ کی خدمتِ اقدس میں پیش کر دی۔ آپ ﷺ نے بکری رکھ لی اور دینار اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کر دیا۔ اور میرے حق میں دُعا کی ''کہ اللہ تعالیٰ تجھے تجارت میں ہمیشہ نفع بخشے۔'' آپ ﷺ کی دعا کا یہ اثر ہوا کہ میں اگر مٹی بھی خرید لیتا تو اللہ تعالیٰ مجھے نفع عطا فرماتے۔

ایک دفعہ کا ذِکر ہے کہ آپ ﷺ نے ایک راہ گیر قافلہ سے ایک اونٹ خریدا۔ اور ان سے کہا کہ قیمت واپس آ کر ادا کرتا ہوں، جب آپ ﷺ قافلے سے کچھ فاصلے پر چلے گئے تو ان میں سے ایک آدمی نے کہا کہ بھئی ہمیں خریدار کا پتہ تو پوچھ لینا چاہئے تھا، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم سے دھوکہ ہو جائے۔ ان میں سے ایک خاتون بولی ''مطمئن رہو یہ چہرہ دھوکہ دینے والا نہیں۔''

ایک دفعہ آپ ﷺ نے ایک غیر مسلم سے ایک گھوڑا خریدا۔ جب آپ ﷺ گھوڑا لے کر جا چکے تو بائع کو خیال آیا کہ گھوڑا سستا گیا۔ تب اس نے مختلف ہتھکنڈوں سے گھوڑا واپس کرانا چاہا۔ بائع نے گھوڑے کی واپسی کا تقاضا کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ بھئی میرے اور تمہارے درمیان اس کا سودا ہو چکا ہے۔ اب واپسی کیسی؟ بائع نے کہا ''اس پر شاہد پیش کریں۔'' وہ جانتا تھا کہ سودے کے وقت وہاں اور کوئی آدمی موجود نہ تھا۔ یہ سارا ماجرا ایک مسلمان بھی سُن رہا تھا۔ وہ فوراً پکار اُٹھا کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ حضور اکرم ﷺ نے یہ گھوڑا تم سے خریدا ہے۔ جب بائع جا چکا تو آنحضرت ﷺ نے شہادت دینے والے مسلمان سے پوچھا کیا تم ہمارے سودے کے وقت حاضر تھے؟ اس نے جواباً کہا حضور حاضر تو نہ تھا مگر مجھے یقین تھا کہ آپ ﷺ جو کہتے ہیں وہ سچ ہے کیونکہ آپ ﷺ کی زبانِ مبارک سے کبھی جھوٹ سرزد نہیں ہوا، اس لئے مجھے شہادت دینے میں کسی قسم کا تامل نہ ہوا۔

آپ ﷺ کبھی کبھار بازار میں بھی خرید و فروخت کے لئے چلے جاتے اور ضرورت کی اشیاء خرید لاتے، ایک مرتبہ آپ ﷺ غلہ منڈی میں گے۔ وہاں غلے کا ایک انبار لگا ہوا دیکھا۔ آپ ﷺ نے اِسے اُلٹ پلٹ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ اوپر خشک غلہ ہے اور نیچے بھیگا ہوا یا اوپر اعلیٰ قسم کا غلہ اور نیچے ردی قسم کا۔ اس پر آپ ﷺ نے دوکاندار کو بلایا اور اُسے تنبیہ فرمائی کہ یاد رکھو «مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنَّا» جو آدمی دھوکہ دیتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔''

آپ ﷺ نے نبوت کی گوناگوں مصروفیات کے باوجود تجارت کو ترک نہیں کیا تھا بلکہ اسے بطور ذریعہ معاش تا دمِ آخر جاری رکھا جیسے کہ مذکورہ بالا واقعات سے عیاں ہے۔ آپ ﷺ صحابہ کرامؓ کو اصولِ تجارت سے آگاہ فرماتے اور انہیں تجارت کے اپنانے کا مشورہ دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ جو صحابہ کرامؓ آپ ﷺ کے زیادہ قریب رہے وہ فنِ تجارت میں ماہر زیادہ ثابت ہوئے اور انہیں خوب ترقی ہوئی اور تجارت سے کمائی ہوئی دولت سے اشاعتِ اسلام کا کام لیا۔

فتوحات سے قبل آپ ﷺ کا اصل اور بنیادی ذریعہ معاش تو تجارت ہی تھا۔ مگر بعد میں اللہ تعالیٰ نے اسلام اور اہلِ اسلام کو دُنیاوی جاہ و جلال س نوازا اور خطہ ارضی پر ایک اسلامی مملکت کا قیام عمل میں آیا تو حضور اکرم ﷺ کے ذرائع معاش میں بھی اضافہ ہو گیا جیسے مالِ غنیمت کا خمس، مالِ فے، خصوصاً اراضی فدک اور سلاطین و ملوک کی طرف سے تحائف وغیرہ، ان ذرائع سے جو مال حاصل ہوتا اس سے اپنے اہل و عیال کا واجبی خرچہ سال بھر کا رکھ لیتے او باقی تمام مال فی سبیل اللہ خرچ کر دیتے۔

مالِ غنیمت کا خمس:

مقاتلہ اور جنت کے بعد کفار کے جن اموال پر مسلمانوں کا قبضہ ہو اس کو غنیمت کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے غنیمت کے مال کو یوں تقسیم فرمایا ہے کہ کل مالِ غنیمت کی چھوٹی بڑی چیز کو ایک جگہ جمع کر کے اس کے پانچ حصے کئے جائیں چار حصے غازیوں کے ہیں جو لڑائی میں شریک ہوئے اور پانچویں حصے کے پھر پانچ حصے کئے جائیں، ان میں سے ایک حصہ حضرت محمد ﷺ کا ہے، دوسرا حصہ آپ ﷺ کے اقربا ء کا، تیسرا حصہ یتیموں کا، چوتھا حصہ مسکینوں اور پانچواں حصہ محتاج اور نادار مسافروں کا ہے۔﴿وَاعلَموا أنَّما غَنِمتُم مِن شَىءٍ﴾ آیت میں اسی حکم کی تفصیل مذکور ہے۔

حضور اکرم ﷺ کو خمس سے جو حصہ ملتا تھا، آپ ﷺ اس سے اپنی گھریلو ضروریات کو پورا فرماتے اور ازواجِ مطہرات کو سال بھر کا خرچہ دے کر باقی جو کچھ بچتا اِسے محتاجوں اور مفلسوں پر خرچ کر دیتے اور ضرورت سے زائد مال کو ایک دن کے لئے بھی گھر میں نہ رکھتےبلکہ اُسے فوراً بانٹ دیتے تھے۔

اراضی فدک:

فے وہ مال ہے جو شمنوں سے لڑے بھڑے بغیر حاصل ہو، جیسے صلح سے یا کوئی لاوارث شخص مسلمانوں کے ملک میں ہو اس کے مرنے کے بعد جو کچھ اس کا سامان مسلمانوں کے ہاتھ لگے یا خراج کے طور پر مال ملے وہ سب مال ف کہلائے گا۔ اراضی فدک بھی مالِ فے ہے کیونکہ وہ بغیر جنگ و جدال مسلمانوں کے ہاتھ لگی تھیں۔

اہلِ فدک کو جب معلوم ہوا کہ مسلمانوں نے خیبر کو فتح کر لیا ہے تو انہوں نے محیصہ بن مسعود کے ذریعے مسلمانوں سے فدک کا تصفیہ شرائط پر طے کیا تھا جن شرائط پر خیبر کا معاملہ طے ہوا تھا، یعنی کھیتی باڑی اہلِ دک کریں گے اور پیداوار کا نصف حصہ مسلمانوں کو ملے گا۔

اراضی فدک چونکہ مال فے تھا۔ اس لئے وہ خاص رسول اللہ ﷺ کی مِلک ٹھہری ﴿ما أفاءَ اللَّهُ عَلىٰ رَ‌سولِهِ﴾

آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس مسئلہ کی تفصیل یوں بیان فرمائی ہے۔

فدک سے جو آمدنی موصول ہوتی تھی آپ ﷺ اس سے اپنے قریبی اقرباء کو باقاعدہ حصہ دیتے اور ضرورت سے زائد مال کو عامۃ المسلمین کی فلاح و بہبود پر صرف کرتے تھے۔

فدک ۶ ؁ھ کے آخر میں فتح ہوا تھا۔ یہ آپ ﷺ کے لئے مستقل آمدنی کا ذریعہ تھا۔ اس کی اراضی کو اپنے مسلمانوں میں تقسیم نہیں کیا تھا، کیونکہ یہ بوجہ مالِ فے آپ ﷺ کے لئے مخصوص تھا۔ اراضی خیبر کو آپ ﷺ نے غازیانِ اسلام میں تقسیم کر دیا تھا۔ بعض روایات کے مطابق آپ ﷺ خیبر کی آمدنی سے بھی کچھ حصہ گھریلو ضروریات کیلئے لیتے تھے، کیونکہ خیبر کی بعض بستیاں فدک کی طرح ہاتھ آئی تھیں۔

اسی طرح اراضی بن نضیر بھی مالِ فے ہی تھا جو کہ رسول اللہ ﷺ کے لئے مخصوص تھی۔ آپ ﷺ اس سے ازواجِ مطہرات کو نان نفقہ دیتے اور باقی تمام مال سے ملکی حفاظت و دفاع کی خاطر ہتھیار خریدتے اور فوجی ضروریات پر صرف کرتے تھے۔

تحائف:

صحابہ کرامؓ، یہودی اور عیسائی جو چیزیں آپ ﷺ کو بطور تحفہ بھیجتے، آپ ﷺ اُسے قبول فرما لیتے مگر مشرک کا ہدیہ لینے سے انکار فرما دیتے۔ عموماً آپ ﷺ کو کھانے کی چیزیں، سواری کے جانور اور دیگر ضروریات کی اشیاء ہدیہ میں دی جاتی تھیں، گاہے بگاہے آپ ﷺ بھی انہیں تحفے ارسال فرماتے تھے۔

سلاطین کی طرف سے بھیجے ہوئے تحائف کو آپ ﷺ اپنے صحابہؓ میں تقسیم فرما دیتے تھے۔ ہاں جو چیز آپ کو پسند ہوتی تھی وہ اپنے لئے رکھ لیتے تھے۔ چند تحائف کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے۔

بخاری شریف میں ہے کہ ایک دفعہ دیباج کی قبائیں آپ ﷺ کے پاس ہدیہ میں آئیں، اُن پر سونے کا کام کیا ہوا تھا۔ آپ ﷺ نے انہیں بعض صحابہؓ میں تقسیم کر دیا۔ اور ان میں سے ایک قبا آپ ﷺ نے مخرمہ بن نوفل کے لئے رکھ دی۔ جب مخرمہ اپنے لڑکے مسعود کے ساتھ آیا تو آپ ﷺ نے اس کا استقبال کیا، اور وہ قبا اس کو دیدی۔ مقوقس حاکم اسکندریہ نے آپ ﷺ کو ہدیہ بھیجا اس میں ماریہ قبطیہؓ اور سیرینؓ بھی تھیں، ایک خچر، ایک گدھا، اور کئی اور ضرورت کی اشیاء تھیں، حضور ﷺ نے حضرت ماریہؓ کو اپنے لئے پسند فرمایا وہ آپﷺ کی اُم الولد تیں، حضرت سیرینؓ کو حضرت حسانؓ کو بخش دیا۔

شاہ نجاشی نے آپ ﷺ کو ہدیہ بھیجا، آپ ﷺ نے اُسے قبول فرمایا، اور اسکے بدلے خود بھی نجاشی کے لئے ہدیہ روانہ فرمایا، اسی طرح فروہ جذامی نے آپ ﷺ کو سفید خچر ہدیہ بھیجا جس پر غزوہ حنین میں آپ ﷺ سوار ہوئے تھے۔