اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کی کفالت
اسلامی ریاست ایک فلاحی ریاست ہے جو اپنے تمام شہریوں کی حاجات و ضروریات کی کفیل ہوتی ہے۔بعض لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ غیرمسلم اسلامی ریاست میں دوسرے درجہ کے شہری ہوں گے اور اسلامی ریاست پر ان کی کوئی ذمہ داری نہ ہوگی جبکہ یہ بات محض مغالطہ ہے کیونکہ اسلام کا نظامِ کفالت ِعامہ اسلامی ریاست کے تمام شہریوں کے لئے بلا تمیز مذہب ونسل ہے۔ اس کی شرط صرف اسلامی ریاست کا وفادار شہری بن کر رہنا ہے۔ غربا کی کفالت کے لئے قرآنِ مجید میں جو ہدایات آئی ہیں، ان میںمسلم و کافر کی تمیز نہیں ہے۔ مثلاً
وَيُطْعِمُونَ ٱلطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِۦ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا ﴿٨﴾...سورۃ الانسان
''وہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔''
اس آیت میں مذکور یتیم، مسکین اور قیدی سے مراد مسلم اور غیر مسلم دونوں ہیں کیونکہ قرآنِ مجید میں یہاں کسی قسم کی تفریق نہیں بیان کی گئی۔ قرآنِ مجید نے اس سلسلہ میں نہایت واضح الفاظ میں ایک ضابطہ بیان کیا ہے جس کی رو سے ہراس غریب کافر کی کفالت کی جاسکتی ہے جو مسلمانوں سے برسرپیکار نہ ہو اور اسلامی ریاست کا شہری ہو یا مسلمانوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتا ہو۔ ارشاد ہے :
لَّا يَنْهَىٰكُمُ ٱللَّهُ عَنِ ٱلَّذِينَ لَمْ يُقَـٰتِلُوكُمْ فِى ٱلدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَـٰرِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوٓاإِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُقْسِطِينَ ﴿٨﴾ إِنَّمَا يَنْهَىٰكُمُ ٱللَّهُ عَنِ ٱلَّذِينَ قَـٰتَلُوكُمْ فِى ٱلدِّينِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن دِيَـٰرِكُمْ وَظَـٰهَرُوا عَلَىٰٓ إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلظَّـٰلِمُونَ ﴿٩﴾...سورۃ الممتحنہ
''اللہ تم کو منع نہیں کرتا ان سے جو تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں کرتے اور تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالتے کہ ان سے بھلائی اور انصاف کا سلوک کرو، بیشک اللہ تعالیٰ چاہتا ہے انصاف والوں کو۔ اللہ تعالیٰ تو تمہیں منع کرتا ہے ان سے جو تم سے دین پر لڑے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں شریک ہوئے کہ تم ان سے دوستی کرو اور جوکوئی ان سے دوستی کرے ، سو وہی لوگ گنہگار ہیں۔''
éفقہ ِاسلامی میں یہ تصریح بھی ہے کہ صدقات ِواجبہ (مثلاً زکوٰة ، عشر) کے علاوہ بیت المال کے محاصل کا تعلق جس طرح اسلامی قلمروکی مسلمان رعایا کی ضروریاتِ زندگی سے وابستہ ہے اسی طرح غیر مسلم (ذمی) کی حاجات و ضروریات سے بھی متعلق ہے۔
éامام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے تو تصریح کردی ہے کہ زکوٰة اور عشر کے علاوہ تمام صدقات غیر واجبہ و نافلہ وغیرہ ذمی فقرا کو دیے جاسکتے ہیں حتی کہ صدقاتِ نافلہ سے حربی مستامن کی مدد بھی کی جاسکتی ہے۔ 1
éچنانچہ حضرت فاروق اعظمؓ نے فقرا اور مساکین میں غیر مسلموں (ذمیوں) کو بھی شامل کرلیاتھا اور حضرت امام یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے فقہ میں اس قول کو سند ٹھہرایا ہے۔2
éایک مرتبہ حضرت فاروق اعظمؓ ایک مکان پر تشریف لے گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بوڑھا نابینا بھیک مانگ رہا ہے۔ دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ یہودی ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اس سے دریافت کیا کہ ''تجھے کس چیز نے بھیک مانگنے پر مجبور کیا؟'' اس نے جواب دیا : جزیہ کی ادائیگی، معاشی ضروریات اور پیرانہ سالی نے۔ یہ سن کر آپ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنے مکان پر لے گئے۔ جو موجود تھا، وہ دیا اور پھربیت المال کے خزانچی کے پاس فرمان بھیجا:
اُنظر ھذا وضربائه فو اﷲ ما انصفناہ إن أکلنا شیبة ثم نخذله عندالھرم {إِنَّمَا ٱلصَّدَقَـٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَٱلْمَسَـٰكِينِ} والفقراء ھم المسلمون وھذا من المساکین من أھل الکتاب ووضع عنه الجزیة وعن ضربائه
''یہ اور اس قسم کے دوسرے حاجت مندوں کی تفتیش کرو۔ اللہ کریم کی قسم! ہم ہرگز انصاف پسند نہیں ہوسکتے اگر ان (ذمیوں) کی جوانی کی محنت (جزیہ) تو کھائیں اور ان کی پیرانہ سالی میں اُنہیں بھیک مانگنے کے لئے چھوڑ دیں۔ قرآنِ عزیز میں ہے: {إِنَّمَا ٱلصَّدَقَـٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَٱلْمَسَـٰكِينِ} اور میرے نزدیک یہاں فقرا سے مراد مسلمان مفلس ہیں اور مساکین سے مراد اہل کتاب کے مساکین و فقرا ہیں۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے ایسے لوگوں کا جزیہ معاف کردیا اور بیت المال سے ان کا وظیفہ شروع کردیا۔'' 3
حضرت ابوبکرصدیقؓ کے عہد میں خالد بن ولیدؓ نے حیرہ کو فتح کیا تو اہل حیرہ کو جو معاہدہ لکھ کر دیا، وہ کفالت عامہ میں مسلم اور غیر مسلم کی مساوات کی ایک دستاویز ہے۔ ملاحظہ ہو:
وجعلت لھم أیما شیخ ضعف عن العمل أو أصابته آفة من الآفات أوکان غنیا فافتقر وصاروا أھل دینه یتصدقون علیه طرحت جزیة وعیل من بیت مال المسلمین وعیاله ما قام بدار ھجرة دارالإسلام4
''اور میں یہ طے کرتا ہوں کہ اگر ذمیوں میںسے کوئی ضعیف پیری کی وجہ سے ناکارہ ہوجائے یاآفاتِ سماوی و ارضی سے کسی آفت میں مبتلا ہوجائے یا ان میں سے کوئی مال دار محتاج ہوجائے اور اس کے اہل مذہب اس کو خیرات دینے لگیں تو ایسے تمام اشخاص کو جزیہ معاف ہے اور بیت المال ان کی اور ان کے اہل و عیال کی معاشی کفالت کا ذمہ دار ہے جب تک کہ وہ دارالاسلام میں مقیم ہیں۔''
یہ اور اس قسم کے دیگر نظائر سے یہ بات پایۂ ثبوت تک پہنچتی ہے کہ اسلام کا نظامِ کفالت عامہ بلا تمیز مسلم و کافر سب کو شامل ہے۔
حوالہ جات
1. امام ابویوسف، کتاب الخراج، مطبوعہ سلفیہ قاہرہ 1346ھ: ص126
2. ابن العابدین رحمۃ اللہ علیہ ، شامی، باب المصرف: ج3؍ص96مطبع میمنیہ، قاہرہ 1318ھ
3. ایضاً: ص126
4. ایضاً: ص144