فتاوی

تحیة المسجد کا حکم نماز اور سجدہ سہو کے متعلق سوالات


مزنیہ عورت کی بیٹی سے نکاح کی شرعی حیثیت
سوال:ایک منکوحہ اوراولاد والی عورت کے ساتھ کسی دوسرے شخص کے مراسم اس حد تک ہوجائیں کہ اسلامی حدود بھی پار ہوجائیں ۔ اب کافی سال گزرنے کے بعد وہ شخص اس عورت کی بیٹی سے نکاح کرناچاہتا ہے ،کیا قرآن وسنت کی روشنی میں اجازت ہے؟
جواب:مذکورہ بالا صورت میں مزنیہ کی بیٹی سے نکاح ہوسکتا ہے ۔راجح مسلک کے مطابق زنا سے حرمت ِمصاہرت ثابت نہیں ہوتی۔ سنن ابن ما جہ میں عبداللہ بن عمرؓ کی حدیث میں ہے:
(لا یحرّم الحرام الحلال) ''حرام کے ارتکاب سے حلال شے حرام نہیں ہوتی۔''

عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ نے ابن عباسؓ سے بیان کیاہے: إذا زنیٰ بأخت امرأتہ لم تحرم علیہ امرأتہ۔''جب کوئی اپنی سالی سے زنا کرلے تو اس کی بیوی اس پر حرام نہیں ہوتی۔'' صحیح بخاری (باب مایحل من النساء ومایحرم۔۔۔ الخ)کے تحت حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاہے :
'' جمہور زنا سے حرمت کے قائل نہیں وحجتهم أن النکاح في الشرع إنما یطلق علی المقصود علیها لا علی مجرد الوطء وأیضا فالزنا لاصداق فیه ولا عدة ولامیراث،قال ابن عبدالبر: وقد أجمع أھل الفتوی من الأمصار علیٰ أنه لایحرم علی الزاني تزوّج من زنی بها فنکاح أمھا وأبنتها أجوز 1
''اور ان کی دلیل یہ ہے کہ شریعت میں نکاح کا اطلاق اس کے مقصود پر ہوتا ہے ، محض مجامعت کانام نکاح نہیں ہے ۔نیز زنا میں نہ حق مہر ہوتا ہے، نہ عدت اور میراث۔ ابن عبد البر فرماتے ہیں کہ جب مختلف علاقوں کے اہل فتویٰ علما کا اس بات پر اجماع ہے کہ زانی کیلئے اپنی مزنیہ سے نکاح کرنا حرام نہیں ہے تو پھر مزنیہ کی ماں یا اس کی بیٹی سے نکاح کرنا بالاولیٰ جائز ہوا۔''

نماز ِتحیة المسجد کا حکم
سوال: تحیة المسجد کا کیا حکم ہے اور ممنوع اوقات میں تحیة المسجد پڑھنا کیسا ہے؟
جواب :جب کوئی شخص مسجد میں آئے تو اس کے لئے تحیة المسجد کی دو رکعتیں پڑھنا تاکیدی حکم ہے۔ فرمانِ نبویؐ ہے :
(إذا دخل أحدکم المسجد فلیرکع رکعتین قبل أن یجلس) 2
''جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھے۔''

اس کے جواز میں کسی کو کلام نہیں ، تاہم اس بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے کہ ممنوع اوقات میں اس کی ادائیگی ہوسکتی ہے یا نہیں ؟ راجح بات یہ ہے کہ ان اوقات میں سببی نماز کا جواز ہے اور بلا سبب ناجائز ہے ۔ شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
ھذا القول ھو أصح الأقوال وھو مذھب الشافعي وإحدی الروایتین عن أحمد واختارہ شیخ الإسلام ابن تیمیة وتلمیذہ العلامة ابن القیم وبه تجتمع الأخبار، واﷲ أعلم۔ 3
''یہ صحیح ترین قول ہے اور یہی امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ایک روایت کے مطابق امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی مسلک اختیارکیا ہے اور اسی سے احادیث کے درمیان بھی تطبیق ہو جاتی ہے۔''

اولاد کے نان نفقہ کا معیار
 سوال:ایک شخص خود عمدہ کھاتا پیتا ہے اور اولاد کوکم تر کھلاتا ہے ،شرعاً ایسے فعل کا کیا حکم ہے؟
جواب : بلا شبہ انسان پر اپنی جان کا حق سب سے پہلے ہے پھر جملہ حقوق درجہ بدرجہ اس کے بعد ہیں اور اولاد کا خرچہ بھی باپ کی حیثیت کے مطابق ہے ۔احادیث میں اس کی تعبیرلفظ معروف سے کی گئی ہے۔ قصہ ہند بنت ِعتبہ میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا:
( خذی ما یکفیك وولدك بالمعروف)4
''عرف کے مطابق اتنالے لو جتنا تمہیں اور تمہاری اولاد کو کفایت کر جائے۔''

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
وفیه اعتماد العرف في الأمور التي لاتحدید فیھا من قبل الشرع۔
''جن اُمور میں شرعی کوئی حد بندی نہیں وہاں اعتبار عرف کا ہوگا۔'' 5

علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : المراد بالمعروف القدر الذي عرف بالعادة أنه الکفایة(نیل الاوطار:6؍342)قرآن کی آیت{لِيُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِهِ} ''صاحب وسعت کو اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرنا چاہئے۔''سے سابقہ موقف کی تائید ہوتی ہے۔کم تر سے مقصود اگر حیثیت سے کم ہے تو بایں صورت حیثیت کے مطابق خرچہ ہوناچاہئے اور اگر اس کی فراوانی کے مقابلہ میں ہے تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا کیونکہ اصحابِ حق کو ان کا حق مل چکا ہے اور وہ اپنے مال کے تصرف میں شرعی حدود کے اندر خود مختار ہے، لہٰذا اس سے مزید کوئی مطالبہ نہیں ہوسکتا اور نہ اس پر کوئی مؤاخذہ ہے ،ہاں البتہ جائز حق میں کوتاہی کی صورت میں عنداﷲ جواب دہ ہے۔

نماز اور روزہ کے بارے میں چند سوالات
سوال 1: اقامت کا جواب دیناچاہئے یانہیں ؟ جماعت المسلمین کے امیر مسعود احمد نے لکھا ہے کہ اقامت کا جواب دینا کسی حدیث سے ثابت نہیں ۔
جواب: اقامت کا جواب دینے کی حدیث سنن ابو داود میں ہے لیکن اس کی سند میں ضعف ہے۔ اس میں دو راوی محمد بن ثابت العبدی اور شہر بن حوشب ضعیف ہیں ، نیز ان دونوں کے درمیان راوی مجہول ہے ۔لہٰذا یہ حدیث قابل عمل نہیں ہے ۔
سوال 2: مؤذّن اور خطیب ِجمعہ منبری اذان کے بعد دو رکعت پڑھیں گے یا کب پڑھیں گے کہ ان کا عمل اس حدیث کے مطابق ہو کہ
''ہر اذان اور اقامت کے درمیان دو رکعت ہے۔''
جواب : منبری اذان کے بعد دو رکعتیں پڑھنا کتاب و سنت سے ثابت نہیں ، البتہ اس موقعہ پر اگر کوئی آدمی باہر سے آئے تو وہ دو رکعتیں تحیة المسجد پڑھ کر بیٹھے۔
 سوال3: جو شخص پہلے سے مسجد میں موجود ہو، وہ اس حدیث پر عمل کرنے کی غرض سے اذانِ منبری کے بعد دو رکعت پڑھے گا یا نہیں ؟
جواب :خطبہ جمعہ چونکہ نماز کے قائم مقام ہے ،اس لئے نئے سرے سے نماز کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔
سوال4: روزہ کس عمر میں فرض ہوتا ہے؟
جواب : جمہور اہل علم کے نزدیک روزہ بلوغت کے بعد فرض ہوتا ہے تاہم بطورِ مشق قبل از بلوغت بچوں کو روزے رکھوانے چاہئیں ملاحظہ ہو : 6
سوال5: نفلی روزہ رکھ کر توڑ دیا، کیا اب اس کی قضا واجب ہے؟
جواب : نفلی روزہ کی قضا واجب نہیں ، ملاحظہ ہو: فتح الباری :4؍210 اور امام بخاری نے صحیح بخاری میں بایں الفاظ باب قائم کیا ہے: باب من أقسم علی أخیه لیفطر في التطوع ولم یرعلیه قضاء إذا کان أوفق له۔
''اگر کوئی شخص اپنے بھائی کو نفلی روزہ توڑنے کی قسم دے اور وہ توڑ ڈالے تو اس پر قضا نہیں ہے جب روزہ نہ رکھنا اس کے لیے مناسب ہو۔''
 سوال6:کیا مسجد کی موجودگی میں گھر یا دفتر میں مرد کا باجماعت فرض ادا کرنا درست ہے ؟
جواب : اصلاً کوشش ہونی چاہئے کہ نمازِباجماعت مسجد میں ادا ہو، بہ اَمر مجبوری باجماعت دفتر میں پڑھ لی جائے تو اس کابھی جواز ہے، نیز اضطراری حالت میں اکیلا بھی پڑھ سکتا ہے اور بلا عذر گھر میں نماز نہیں پڑھنی چاہئے۔
سوال 7: حنفی کہتے ہیں کہ امام یا مکبّر کی آواز پر ہی امام کی اقتدا کرنی چاہئے۔ جس نے تکبیر تحریمہ یا دیگر تکبیرات اور رکوع سجدہ لاؤڈ سپیکرکی آواز پر کیا، اس کی نماز فاسد ہوجائے گی،کیونکہ سپیکر بذاتِ خود امام کی اقتدا کی صلاحیت نہیں رکھتا اور جو نماز میں داخل نہ ہو، اس کی آواز پر عمل کرنے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے ؟
جواب : سپیکر پر نماز پڑھانا درست عمل ہے ، کیونکہ یہ محض آواز کے دور تک پہنچانے کا ایک آلہ ہے جو معاون کی حیثیت رکھتا ہے، اصل اقتدا تو امام یا سامع ہے۔ اس کے جواز میں کوئی کلام نہیں ہونی چاہئے ، آج کل معتدل احناف کا عمل بھی اسی پر ہے۔
سوال8: بیت اللہ میں امام کی آواز سپیکر پر سنائی دیتی ہے، اس کے باوجود سپیکر (آلہ مُکَبِّر الصّوت) میں تکبیرات کہتا ہے، اس کی کیا ضرورت ہے؟
جواب: مکبّرکا جواز چونکہ شرع میں علیٰ الاطلاق مسلمہ ہے، اس لئے اگر کوئی اس کو برقرار رکھتا ہے تو اس پر اعتراض نہیں ہوسکتا۔ بسا اوقات مسجدکا سپیکر خراب ہوسکتا ہے جس کا مشاہدہ بیت اللہ میں عملاً ہوچکا ہے تواس صورت میں مکبرسے استفادہ کی ایک ضرورت بھی ہے ۔
سوال9: ائمہ ثلاثہ کے نزدیک کبڑا امام جس کی کمر رکوع کی حد تک جھکی ہو، اس کی اقتدا صحیح نہیں ، کیا ایسے کو امام نہیں بنانا چاہئے؟
جواب : کبڑے آدمی کی چونکہ اس حالت میں اپنی نماز درست ہے لہٰذا اس کی امامت بھی درست ہے۔ قاعدہ معروف ہے: من صحّت صلاتہ صحت إمامتہ (سبل السلام: 3؍83) تاہم کوشش ہونی چاہئے کہ صحت مند آدمی نماز پڑھائے۔بوقت ِضرورت ایسے آدمی کی امامت بھی درست ہے جس طرح کہ شرع نے نابینا کی امامت کو بھی قابل اعتبارسمجھا ہے۔

سجدئہ سہو کے متعلق چند سوالات
سوال10:شافعیہ کے نزدیک امام سجدہ سہو نہ کرے تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد مقتدی سجدہ سہو کرلے۔ حنفیہ کے سوا سب یہی کہتے ہیں بشمول حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ ۔
جواب : حنفیہ کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ مقتدی کی نماز کی بنا امام کی تکبیرتحریمہ پر ہے تو چونکہ اس نے سجدہ سہو نہیں کیا لہٰذا مقتدی بھی نہ کرے۔ اس صورت میں راجح بات یہ ہے کہ مقتدی کو سجودِ سہو کردیناچاہئے۔ ملاحظہ ہو: فتح الباری :2؍188

سوال 11:کیا واجب امور میں سہو ہوجانے سے سجدہ سہو کرنا واجب ہے۔ حنابلہ اور مالکیہ کے نزدیک امام واجب سجدئہ سہو ترک کردے تو مقتدی خود سجدہ سہو کرے؟
جواب : بایں صورت واجب کو ادا کرنے کے ساتھ سجدہ سہو بھی کرنا چاہئے۔

سوال 12: مالکیہ کے نزدیک کسی نے اگر ایسی صورت میں سجدہ سہو کرلیا کہ جس میں سجدہ سہو مشروع نہیں ہے تو چونکہ اس نے نماز میں سجدہ سہو کا اضافہ کیا ہے لہٰذا اس اضافہ کی وجہ سے اب اس پر سجدہ سہو کرنا واجب ہے، آپ کیا فرماتے ہیں ؟
جواب:حدیث: (لکل سہو سجدتان)کی بنا پر ایسے شخص پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہے۔


حوالہ جات
1. فتح الباری: 9؍157
2. بخاری: 425
3. حاشیہ فتح الباری: 2؍59
4. صحیح بخاری: 4945
5. فتح الباری (9؍510
6. صحیح بخاری ، باب صوم الصبیان اور فتح الباری :4؍200،201