حدود قوانین میں ترامیم کا بل 2006ء ؛ ایک جائزہ
آخر کارحدود آرڈیننس میں اس 'روشن خیال 'ترمیم کے چہرے سے پردہ اُٹھ ہی گیا جس کے بارے میں تمام ذمہ داران کو اسمبلی میں باقاعدہ پیش ہونے سے قبل مخفی رکھنے کی تاکید کی گئی تھی۔ اور اس ترمیمی بل کے لئے فضا کو ساز گار بنانے کے غرض سے 3 ماہ سے قوم کو مضحکہ خیز اور یک طرفہ پروپیگنڈ ے کے بخار میں مبتلا کیا گیا تھا جس پر بظاہر تو ایک اخباری گروپ نظر آرہا تھا لیکن اس کی پشت پناہی کے لئے حکومت کی پوری ابلاغی مشینری متحرک تھی۔ سوال یہ ہے کہ ''حدود اللہ پر بحث نہیں، لیکن حدود آرڈیننس کوئی خدائی قانون نہیں۔'' کا نعرہ بلندکرنے اور اسے حدود قوانین پربحث کی وجہ جواز بنانے والوں نے جو ترامیم پیش کی ہیں، کیا اب وہ اللہ کی طرف سے براہِ راست نازل شدہ ترامیم لیکر آئے ہیں۔ حدود قوانین کے نفاذ کے موقع پر اگر مسلمانانِ پاکستان کو ان پر اتفاق تھا جسے بعد کی 5 اسمبلیوں نے سند ِجواز بخش کر صدارتی آرڈیننس سے 'حدود قوانین' کا درجہ دیا، تین بار مختلف اسمبلیوں میں ان قوانین میں ترمیم کا بل پیش ہوا جسے سند ِقبولیت نہ مل سکی، تو ا س کے بالمقابل وہ 'خدائی'ترامیم جو اپنے یومِ آغاز سے پوری قوم کو منتشر کرچکی ہیں، ان کی کیا حیثیت ہے؟ جس کا ثمرہ یہ ہے کہ پوری قوم میں ہر جگہ مباحثہ ومجادلہ کی کیفیت طاری ہے۔
پھر'حدود قوانین' کوئی عام قانون نہیں کہ اس میں علماے دین کی رائے کو نظر انداز کردیا جائے بلکہ حدود قوانین میں ترمیم خالصتاً شریعت ِاسلامیہ کا موضوع ہے۔اس لئے منطقی طور پر قرآن وسنت پر مبنی قوانین پر تبصرہ کرنے کی سب سے پہلی ذمہ داری علماے کرام ہی کے کندھوں پر آتی ہے۔لیکن سخت کوشش کے باوجود منبر و محراب سے اس 'روشن خیال بل' کی حمایت میں ایک لفظ بھی ادا نہیں کروایا جاسکا ۔
اب ہم ایک نظر اس بل کے مندرجات پرڈالتے ہیں :
(1) یہ امر قابل توجہ ہے کہ حد زنا آرڈیننس کی کل دفعات 22 ہیں، جبکہ اس بل میں مجوزہ ترامیم کی تعداد 30ہے، گویا ترمیم اصل قانون سے بھی زیادہ طویل ہے۔
(2) حکومت کا دعویٰ یہ تھا کہ حدود آرڈیننس کو منسوخ نہیں کیا جائے گا، جب کہ ان ترامیم پر ایک نظر ڈالنے سے ہی یقین ہوجاتا ہے کہ ترمیم کے نام پر حدود قوانین کو ہی منسوخ کردیا گیا ہے اور وہ اس طرح کہ اس بل کے ذریعے حد زنا آرڈیننس کی کل 22 دفعات میں سے 12 دفعات (3،6،7، 10،11،12،13،14،15،16،18،19)کو مکمل طور پر منسوخ کیا جارہا ہے اور مزید 6 دفعات (2،4،8،9،17 اور 20) میں جزوی حذف و ترمیم تجویز کی گئی ہے۔اس عمل کے بعد صرف 4 دفعات باقی ایسی ہیں جو اپنی اصل شکل میں حدود قوانین میں موجود ہیں۔1
(3) ایسی 'ظالمانہ' دفعات جن کی منسوخی کا تقاضا کیا گیا ہے، ان میں سے چند ایک بطورِ مثال ملاحظہ بھی فرما لیجئے :
دفعہ 2 کی شق 'ہ' کو نکال دیا گیا ہے جس کی رو سے شادی شدہ زانی کے لئے رجم کی سزا ہے۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے مرتبین میں حد ِرجم کے منکرین شامل ہیں۔
دفعہ 3 کو کلی طور پر حذف کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، اس دفعہ کا قصور یہ ہے کہ اس کی رو سے حدود قوانین (حدود اللہ) کو تمام دیگر قوانین پربرتری دی گئی ہے۔
دفعہ 4 میں ہر اس مباشرت کو زنا قرار دیا گیا تھا جو دو مرد وعورت 'جائز نکاح' کے بغیر کریں۔ لیکن اس دفعہ میں 'جائز نکاح' کے لفظ سے 'جائز' کو حذف کیا جارہا ہے۔
حدود قوانین سے مذاق کی انتہا یہ ہے کہ پہلی 9 دفعات میں جن جرائم کا تذکرہ اور ان کی تعریفات متعین کی گئی ہیں، بعد ازاں 10 تا 19 (یعنی 10) دفعات میں ان کی سزائوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ حدود قوانین کو معطل کرنے کا بہترین طریقہ یہ سوچا گیا ہے کہ ان تمام جرائم کی سزا کو ہی حذف کردیا جائے، یاد رہے کہ یہ دس دفعات ان جرائم کی سزا پر مبنی ہیں۔
(4)حدود قوانین کی وہ معصوم بے ضرر دفعات بھی ملاحظہ ہوں جنہیں بعینہٖ برقرار رکھا گیا ہے
پہلی دفعہ تو بل کے وقت ِنفاذ اور نام وغیرہ کے بارے میں ہے جبکہ دفعہ 21 یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے مسلم جج،البتہ غیرمسلموں کے لئے غیر مسلم جج بھی ہوسکتا ہے اور دفعہ 22 میں وہ مستثنیٰ صورتیں ذکر کی گئی ہیں جہاں حدود آرڈیننس کو جاری نہیں کیا جائے گا۔
(5) یہی رویہ حد ِزنا آرڈیننس کے علاوہ حد ِقذف آرڈیننس کے ساتھ بھی اختیارکیاگیا ہے جس کی 8 دفعات (4،10،11،12،13،15،16،19) کو کلی طور پر منسوخ اور 6 دفعات (1،6، 8، 9، 14 اور 17) میں حذف و ترمیم کی گئی ہے۔ اس آپریشن کے بعد محض چھ دفعات ہی صحیح سالم باقی رہ گئی ہیں۔ 2
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر حذف وترمیم کے بعد موجودہ بل کو ترمیم سے تعبیر کیا جائے یا اسے حدود بل کی منسوخی قرار دیا جائے؟
(6) اب ایک نظر ان ترامیم کی شرعی وقانونی حیثیت پر بھی جن کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ'' ان میں سے کوئی بھی کتاب وسنت کے خلاف نہیں۔ ''چودھری شجاعت حسین کا یہ بیان شائع ہوا ہے کہ اگر ایک ترمیم بھی خلافِ اسلام ہو تو وہ اس بل کی حمایت ترک کردیں گے۔ بل کی سفارشات ملاحظہ فرمائیں اور قرآن وسنت کی مقدس تعلیمات بھی، پھر فیصلہ خود کیجئے:
(1)بل کی ترمیم نمبر6کی رو سے زنا بالجبر کی سزا کو سزاے موت قرار دیا گیا ہے جو خلافِ اسلام ہے۔ کیونکہ اسلام نے زنا بالجبر کی صورت میں سزاے موت کے بجائے شادی شدہ زانی کی سزا سنگساری قرار دی ہے، چاہے وہ عورت کی رضاسے زنا کرے یا جبر سے۔ گویا اسلام میں زنا ایک جرم ہے جس کی تقسیم رضا اور جبر کے بجائے شادی شدہ او رغیر شادی شدہ کے اعتبار سے کی گئی ہے۔ زنا بالقتل (زنا + قتل) کی طرح زنا بالجبربھی اسلامی حدود وتعزیرات کی کوئی اصطلاح نہیں۔ اس سلسلے میں حضرت ابو بکرصدیقؓ کا ایک فیصلہ حدیث کی مشہور کتاب موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ میں ہے کہ ''آپ نے زنا بالجبر کے ایک کنوارے مجرم کو کوڑے اور جلاوطنی کی سزا دی، پھر جلاوطنی کاٹ کر واپس آنے کے بعد اسے زنا پر مجبور کی جانے والی عورت سے شادی کرنے کا حکم دیا۔''3
اسی طرح صحیح بخاری میں یہ واقعہ درج ہے کہ
''حضرت عمرؓ نے زنا بالجبر کے ایک مجرم کو کوڑوں کی حد لگائی اور اس کو جلا وطن کردیا، نہ کہ اس کو سزاے موت سنائی۔''4
(2)اس ترمیمی بل کی سب سے خطرناک شق '17' ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ'' حد زنا آرڈیننس کی دفعات 10 تا 16 اور 18، 19 حذف کردی جائیں گی۔'' بالخصوص دفعہ 19 کو حذف کرنے کی اہمیت یہ ہے کہ دفعہ 19 کی ذیلی شق 3کے ذریعے پاکستان میں زنا بالرضا کے انگریز دور کے 8 قوانین معطل کردیے گئے تھے،جس کی ضرورت یہ تھی کہ تعزیراتِ پاکستان کے سابقہ قانون (دفعہ 497) کی رو سے زنا بالرضا کوئی جرم ہی نہیں تھا،بلکہ صرف وہ زنا جرم تھا جس میں شوہر کی اجازت کے بغیر بیوی بدکاری کا ارتکاب کرے۔ چنانچہ 1979ء سے قبل پاکستان میں کسی کنواری، بیوہ یا مطلقہ کی رضامندی سے زناقانوناً جرم متصور نہیں ہوتا تھا۔ جبکہ بیوی کے ساتھ اُس کے شوہر کی اجازت کے بغیر زنا کرنے کی سزا محض 5 برس تھی، یہ جرم قابل ضمانت بھی تھا جس کے خلاف صرف شوہر ہی شکایت کرسکتا تھا۔ موجودہ ترمیمی بل میں اس سابقہ قانون کو بحال کرنے کے لئے دفعہ 19 کو کلی منسوخ کرنے کی ترمیم پیش کی گئی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ پھر وہی دورِ جاہلیت لوٹ آئے گا کہ پاکستان میں کنواری، بیوہ یا مطلقہ کا زنا بالرضا کوئی جرم ہی نہیں رہے گا۔یہ اس بل کی سب سے خطرناک بلکہ شرمناک ترمیم ہے۔جو صرف خلافِ اسلام ہی نہیں بلکہ اللہ سے جنگ اور اسلام سے بغاوت کے مترادف(i) ہے۔
کیا ایک مخصوص گروپ کے ذرائع ابلاغ نے تین ماہ تک اسی مقصد کے لئے عوام کو 'ذرا سوچئے' اور پارلیمنٹ کو 'کب سوچنے' کی دہائی مچا رکھی تھی اور کیا پاکستانی پارلیمنٹ کے معزز اراکین اور زعماے قوم ایسی ترمیم کے حق میں اپنے ووٹ استعما ل کرکے اللہ کے غضب کو دعوت دینا چاہتے ہیں؟ اور یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ ایسے بل کا احترام کیا جائے یا اس کو ردّی کی ٹوکری کی نذر کیا جائے جیسا کہ متحدہ مجلس عمل نے قومی اسمبلی میں کیا ہے ؟
(3) ان ترامیم کے ذریعے بڑی ڈھٹائی سے باہم متضاد قانون سازی کی جارہی ہے۔ کیونکہ سابقہ تعزیرات ِ پاکستان (در حقیقت تعزیراتِ برطانوی ہند)کی دفعات کو دوبارہ زندہ کردینے سے ایک طرف کنوارے یا کنواری کے لئے زنا بالرضا کی صورت میں بدکاری کی کوئی سزا نہیں رہے گی مگر دوسری طرف حدود قوانین میں ا ن کے لئے سزا موجود ہے۔ ایسے ہی تعزیراتِ پاکستان میں زنا بالجبر کے حوالے سے نئی دفعات کا اضافہ کرنے کے بعد زنا بالجبر کے مجرم کے لئے تو سزاے موت کا فیصلہ کیا جائے گا جبکہ حدود قوانین کی رو سے کنوارے زانی کومحض 100 کوڑوں کی سزا ہونی چاہئے۔ گویا اس ترمیم کی بعض دفعات سے باہم متضاد قوانین جنم لے رہے ہیں۔ اس تضاد کا ظالمانہ اورباغیانہ حل یہ تجویز کیا گیا ہے کہ حدود آرڈیننس کی دفعہ 3 کو منسوخ کردیا جائے تاکہ اس کے بعد حدود قوانین کی تعزیراتِ پاکستان پر کوئی برتری باقی نہ رہے۔ نتیجتاً حدود قوانین کی بچی کچھی دفعات کی حیثیت بھی متضاد او ردوہری قانون سازی کی بنا پر عملاً محض نمائشی رہ جائے گی اور بظاہر پاکستان میں حدود اللہ کا نام تو باقی رہے گا لیکن زنا قانوناً جرم ہی نہیں ہوگا۔
نیز یہ بات بھی خلافِ اسلام ہے کہ ایک طرف انگریز کے بنائے ہوئے 'ایکٹ نمبر45 بابت 1860' کے قوانین یا انسانی قوانین کو تو ترجیح حاصل ہو، لیکن اللہ کے قوانین کو ایک اسلامی مملکت میں کوئی نمایاں جگہ نہ مل سکے۔ جبکہ قرآن کی رو سے نبی کریمؐ کے فیصلے کو قبول نہ کرنے والوںکا دین وایمان خطرے میں ہے۔ 5
نیز دستورِ پاکستان کی رو سے کتاب وسنت پاکستان کا سپریم لاء ہیں اور حکومت کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ ملک میں اسلامی طرز زندگی کو رواج دینے کے لئے اقدامات کرے۔ اس اعتبار سے یہ ترمیم دستور پاکستان کے بھی منافی ہے۔
(4) مجوزہ ترمیم نمبر 9میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ رپورٹ ؍ شکایت کے مرحلے پر ہی مدعی کے علاوہ چار تحریری حلفیہ گواہیاں بھی جمع کرائی جائیں۔ قانون کے اجرا کا یہ طریقہ خلاف ِاسلام، خلافِ قانون اور خلافِ عقل ہے۔ دورِنبویؐ کے متعدد واقعات میں زنا کی شکایتیں محض ایک شخص کے کہنے پر درج کی گئیں۔ (ii) یوں بھی اسلام کی رو سے زنا کرنے والے مرد یا عورت کا اکیلا اعتراف بھی ان پر حد کی سزا قائم کرنے کے لئے کافی ہے، ان کے لئے چار گواہوں کی ضرورت نہیں۔(iii) پھر اسلام میں زنا پر چار گواہیاں بھی مدعی کو شامل کرکے چار شمار کی جاتی ہیں ، نہ کہ اس کو نکال کر جبکہ ترمیم نمبر9 کی ذیلی شق 2 میں مدعی کے علاوہ مزید چار گواہیاں ضروری قرار دی گئی ہیں جو خلافِ اسلام ہے۔
یہ ترمیم خلافِ قانون اسطرح ہے کہ پاکستان میں اس سے بھی زیادہ سنگین جرائم مثلاً بغاوت یا قتل وغیرہ کے لئے پہلے مرحلہ پر ہی جرم کو مکمل ثابت کرنے کا تقاضا نہیں کیا جاتا، حدود قوانین کے خلاف ہی یہ امتیاز کیوںبرتا جارہا ہے ؟
اور خلافِ عقل اس لئے کہ ہر جرم کی گواہیاں اس مرحلے پر لی جاتی ہیں، جب جرم کا فیصلہ کرکے مجرموں کو سزا سنانا یا بری کرنا مقصود ہو، جبکہ FIR(فرسٹ انفرمیشن رپورٹ) میں تمام گواہیاں ضروری نہیں ہوتیں۔یہ رپورٹ دراصل جرم کے خلاف پولیس کے کام میں معاونت ہے کیونکہ جرائم کی روک تھام اور اس کی خلاف ورزی کی شکایت کرنا پولیس کی ذمہ داری ہے۔ اس کی بجائے رپورٹ کرنے والے کو چار گواہیوں کا پابند کرنے کا مطلب تو یہ ہے کہ اس نے رپورٹ کرکے قانون کی مدد کی بجائے بذاتِ خود ایک جرم کا ارتکاب کیا ہے، لہٰذا اسے چاہئے کہ وہ پہلے اپنی صفائی پیش کرے۔گویا اس ترمیم کے ذریعے مجرموں کی حوصلہ افزائی اور مدعی کو ہراساں کیا جارہا ہے۔ یوں بھی اگر اس جرم کے عمل سے پولیس کو نکال دیا جائے تو معاشرے میں عصمت فروشی کے اڈّوں کی راہ میں حائل تھوڑی بہت رکاوٹ بھی ختم ہوکر رہ جاتی ہے۔
مزید برآں حدود قوانین کو پولیس کی رپورٹنگ سے نکال کر سیشن کورٹ کے دائرئہ عمل میں لانے سے بھی عملاً ایسے واقعات کی روک تھام او ررپورٹ انتہائی مشکل ہوجائے گی۔ پنجاب بھر کے 34 اضلاع میں صرف ایک ایک سیشن عدالت ہیں جن میں اس طرح کے کیسوں کا اندراج عام شہری کے لئے انتہائی مشکل ہوگا۔ بعض اضلاع تو اس قدر وسیع وعریض ہیں کہ ایک رپورٹ درج کرانے کے لئے بعض اوقات پورا دن درکار ہوتا ہے۔ یوں بھی ان عدالتوں کے اوقاتِ کار تھانوں کے برعکس کافی محدود ومختصر ہوتے ہیں۔(iv)
(5) ترمیم نمبر 9 کی ذیلی دفعہ 5 کے الفاظ یہ ہیں کہ ''اگر عدالت کا افسر صدارت کنندہ مدعی اور چار یا زائد گواہوں کے حلفیہ بیانات کے باوجود یہ فیصلہ دے کہ کارروائی کے لئے کافی وجہ موجود نہیں ہے تو وہ رِٹ کو خارج کرسکے گا۔'' اب ترمیم نمبر 22 کو پڑھئے کہ ''عدالت کا افسر صدارت کنندہ مجرم کو بری کرتے ہوئے اگر مطمئن ہو کہ جرم قذف مستوجب ِحد کا ارتکاب ہوا ہے تو وہ قذف کا کوئی ثبوت طلب نہیں کرے گا اور حد قذف کے احکامات صادر کرے گا۔''
ان ترامیم سے پتہ چلا کہ چار گواہوں کے بعد بھی زنا کے ملزم کی بریت جج کی اپنی صوابدید پر منحصر ہے اور دوسری طرف مدعی پر از خود قذف کی سزا لاگو ہوجائے گی، اور اس صورت میں مدعی کے خلاف قذف کے کسی ثبوت یا عدالتی کاروائی کی ضرورت نہ ہوگی، محض جج کا ذاتی اطمینان ہی کافی ہوگا۔ ان ترامیم کی رو سے ایک طرف زنا کے ملزمین کو غیر معمولی تحفظ دیا جارہا اور ان کے خلاف رپورٹ کو مشکل تربنایا جارہا ہے اور دوسری طرف رپورٹ کرانیوالے پر قذف کی سزا لاگو کر کے اس کو بنیادی حقوق مثلاً ثبوتِ الزام کے لئے مطلوبہ گواہیوں اور عدالتی کاروائی وغیرہ سے بھی محروم کیا جارہا ہے۔ اس ترمیم کا مقصود ومدعا واضح ہے، ملزم کو ظالمانہ ترجیح کس بنیاد پر اور رپورٹ کرنے والے پر ظلم کیونکر؟یہ امتیاز اور ترجیح کیا اسلام اور قانون کے تقاضوں کے مطابق ہے؟
(6) ترمیم کے آخری پیرا گراف کے یہ الفاظ بھی محل نظر ہیں: ''صرف سیشن کورٹ ہی مذکورہ مقدمات میں سماعت کا اختیار رکھتی ہے۔ اور یہ جرائم قابل ضمانت ہیں تاکہ ملزم دورانِ سماعت جیل میں یاسیت کا شکار نہ رہے۔ پولیس کو کوئی اختیار نہیں ہوگا کہ وہ مذکورہ مقدمات میں کسی کو گرفتار کرے۔ '' 6
ان ترامیم کے اثرات و نتائج جاننے کے لئے اس مثال سے مدد لینا مناسب ہوگا:
فرض کیجئے کہ ایک جگہ زنا کا وقوعہ ہوتا ہے، اوّل تو یہ پولیس کے دائرئہ عمل سے ہی باہر ہے کہ وہ ا س کی رپورٹ درج کرے۔اب ایسا شخص کہ جس کی عزیزہ سے زیادتی ہوئی ہے، وہ داد رسی کے لئے شکایت درج کرانے نکلتا ہے تو سب سے پہلے چا رگواہوں کو تیار کرنا اس کی ذمہ داری ہے جو تحریری حلفیہ گواہی دے سکیں۔ اس مرحلے پر عدالتوں میں سماعت وداد رسی کی ناگفتہ بہ صورتِ حال اور حد قذف کی لٹکتی تلوار سے ڈر کر کوئی آدمی اس مقصد کے لئے راضی ہی نہیں ہوگا۔ اُنہیں راضی کرنے میں ہی وہ شریف آدمی اپنی عزت کی مزید رسوائی تو کما لے گا جبکہ ابھی زنا کے حقیقی مجرموں کی سزا کا دور دور تک کوئی اِمکان نہیں۔ اب دور دراز سے سفر کرکے مدعی اور چار گواہ سیشن عدالت میں جا پہنچتے ہیں تو وہاں چاروں گواہ حلفیہ تحریری بیان جمع کرائیں گے۔ اگر اس کے باوجود عدالت کو وقوعہ پر ہی اطمینان نہ ہوا تو ان گواہوں پر قذف کی سزا از خود لاگو ہو جائے گی، جہاں عدالت میں مزید کسی ثبوت یا ملزم کو اپنے دفاع کی گنجائش بھی نہیں ملے گی۔ بالفرض اگر عدالت ان کی گواہی سے مطمئن ہو کر مقدمہ داخل سماعت کرلیتی ہے، تب بھی مجرموں کو فکر مندی کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہ جرم قابل ضمانت ہے، اور عدالت کو ان کی یاسیت اور محرومی کا بھی پورا پورا احساس ہے۔
ان حالات میں عوام کو فیصلہ صرف اس بات کا کرنا ہے کہ اصل مجرم وہ ہے جس نے زنا کا ارتکاب کیا یا وہ جس نے اس کو دیکھنے کا گناہ کیا اور جس کی عزت سربازار پامال ہوئی ؟ زنا بالجبر کے جرم کا شکار تو خود عورت ہوتی ہے ، اس کے لئے چار گواہوں کی شرط کے بعد قانون کی مدد لینا کیونکر ممکن ہوگا۔یکم ستمبر کے اخبارات میں سلیکٹ کمیٹی کی یہ متفقہ ترمیم شائع ہوئی ہے کہ زنا بالجبر میں بھی چار گواہ لازمی کردیے جائیں، اس کے بعد یہ بل زنا کی شکا رعورت پر صریح ظلم بن گیا ہے نہ کہ تحفظ خواتین بل۔ زنا بالرضا انگریز دور کے قوانین بحال ہونے کی بنا پر جائز، حدود قوانین تمام دیگر قوانین کے تابع اور زنا بالجبر میں بھی عورت کے لئے چارگواہ۔(v) نتیجہ واضح ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں زنا کے لئے ہر طرح کی کھلی چھوٹ مل گئی!!
(7) حدود آرڈیننس میں زنا کے علاوہ اقدام زنا، فحاشی اور مبادیات زنا کی بھی سزائیں مقرر کی گئی تھیں، جب جنسی فعل کی مکمل شہادتیں پوری نہ ہوں تو اس وقت فحاشی کے ارتکاب کے جرم میں تعزیرات دی جاتی تھیں۔ موجودہ ترمیم میں ایسے تما م جرائم کی سزائوں کو منسوخ کرنے کی سفارش کی گئی ہے، جس کے بعد یہ چیزیں بھی جرم نہ رہیں گی۔
(8) اسلام نے زنا کے چار گواہوں کے لئے مسلم اوربالغ ہونے کی شرط لگائی ہے، جبکہ موجودہ ترمیمی بل کے بعد یہ گواہی غیرمسلم بھی دے سکتے ہیں جو غیراسلامی ہے۔
(9) مجوزہ ترامیم کی شق 5 کی ذیلی دفعہ پنجم میں 16 برس سے کم عمرکی لڑکی سے ہونے والے زنا کو لازماً زنا بالجبر قرار دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ یہ پیش کی گئی ہے کہ اس سے کم عمر لڑکی کی رضامندی کا کوئی اعتبار نہیں۔ یہ ترمیم بھی خلاف ِاسلام اور زمینی حقائق سے متصادم ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے 16 برس تک لڑکی کے زنا کو قانونی تحفظ دیاگیا ہے کہ ایسے زنا کو لازماً زنا بالجبر تصور کرکے لڑکی کو سزا سے مستثنیٰ رکھا جائے۔ جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ بلوغت کے فوراً بعد ہی بے شمار لڑکیاں زنا بالرضا کی مرتکب ہوتی ہیں جیسا کہ مغربی سکولوں کے اعداد وشمار میں اس امر کاکافی ثبوت موجود ہے، کیونکہ زنا کا تعلق ذ ہنی بلوغت کے بجائے جسمانی بلوغت اور جنسی فعل کو کرنے کی صلاحیت سے ہے۔ پھر تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 83 کے تحت 12 برس تک کے بچے کو ہی فوجداری جرم سے استثنا کی رعایت مل سکتی ہے لیکن اس ترمیم میں یہ رعایت 16 برس تک دی جارہی ہے۔زنا کے جرم سے ہی یہ امتیاز کیوں برتا جارہا ہے؟
الغرض حدود قوانین کے حوالے سے تما م پروپیگنڈے کا آغاز 'یہ خدائی قانون نہیں' کہہ کر کیا گیا اور آخر کار اس سے کہیں بدتر اور متنازعہ انسانی قانون کو پیش کردیا گیا۔
دعویٰ کیا گیا کہ قوم کو تقسیم کرنے والے ایشوز پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے لئے 'ذرا سوچئے'کی مہم چلائی گئی ہے۔ لیکن قوم اس بحث سے پہلے متحد تھی، اب کہیں زیادہ تقسیم ہوگئی ہے !!
دعویٰ کیا گیا کہ یہ قانون خواتین کے تحفظ کے لئے ہے، جبکہ موجودہ قانون کی صورت میں زنا کرنے والے مرد کے خلاف شکایت کو ناممکن بناکر خواتین سے مزید ظلم کیا جارہا ہے۔
دعویٰ کیا گیا کہ حدود قوانین کو منسوخ نہیں کیا جائے گا، لیکن یہ ترامیم نہایت بھونڈی اور یک لخت منسوخی سے کہیں زیادہ ہیں۔
پروپیگنڈا کیا گیا کہ'' کتاب وسنت کے خلاف ایک بھی شق نہیں ہوگی۔'' لیکن یہاں پر قرآن وسنت کے خلاف سزائوں کے علاوہ طریق ِکار ایسا بنایا گیا ہے کہ عملاً سزا کا امکان ہی باقی نہیں رہتا۔ بل کے اس مختصر جائزے سے یہ بھی بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ
ترمیم حدود آرڈیننس کی بجائے دراصل حدود اﷲ میں کی جارہی ہے!!
اس بل میں بعض ترامیم اسلامی احکامات کے صریح خلاف ہیں، جبکہ سزا کا طریق ِکار اس قدر غیرمتوازن ہے کہ اس کے ذریعے کسی کا جرم زنا کی سزا پانا ممکن نہیں رہتا ، جس کا نتیجہ ملک میں بے راہ روی کے مزید فروغ اور فحاشی وبے حیائی کی صورت میں نکلے گا۔ بے راہ روی کا مرد وں کے بجائے عورتوں کو زیادہ نقصان ہے، آخر کار یہ بل 'تحفظ حقوقِ نسواں' کے بجائے 'بدکاری کا لائسنس' قرار پائے گا جس سے پاکستان میں خواتین کی حرمت وتقدس پامال ہونے کا خطرہ کہیں زیادہ بڑھ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اراکین ِاسمبلی اور حکمرانوں کو ہدایت دے کہ چندروزہ اقتدار کے لئے وہ اللہ کی حدود سے یہ مذاق اور کھیل بند کریں، اللہ کی گرفت دنیا میں بھی سخت ہے اور آخر کار روزِ محشرسب کو اس کے حضور جواب دہ ہونا ہی ہے۔
' تحفظ ِخواتین بل2006ء 'میں خلافِ اسلام ترامیم کی فہرست
(1) زنا بالجبر کی صورت میں سزاے موت غیر اسلامی ہے کیونکہ کنوارے زانی کی سزا موت نہیں ہے، چاہے وہ زنا بالجبر ہی کرے۔
(2) PPC میں 1979ء سے قبل انگریز دور کے قوانین زنا بحال ہوگئے ہیں (حدود آرڈیننس کی دفعہ 19 کو منسوخ کردینے سے) جن میںکنواری، بیوہ یا مطلقہ کے لئے زنا کوئی جرم ہی نہیں اورشوہر کی اجازت کے بغیر بیوی کی زنا کاری کی سزا بھی محض 5 سال ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ اسلام میں کنوارے زانی کی سزا 100 کوڑے ہے، نہ کہ محض5 یا 7 سال!
(3) حدود قوانین صرف نمائشی اور عملاً معطل ہیں کیونکہ PPC اور حدود میں تضاد کے بعد دفعہ 3 کو حذف کرکےPPC پربچے کچھے حدود قوانین کی برتری کو بھی ختم کردیا گیا ہے۔
(4) اسلام میں چار گواہوں میں مدعی شامل ہوتا ہے، ترمیم میں مدعی کے علاوہ چار گواہوں کا تقاضا کیا گیا ہے۔
(5) پھر ہر صورت میں چار گواہ ضروری نہیں بلکہ ملزم کا اکیلا اعتراف بھی زنا کا کافی ثبوت ہے۔
(6)گواہوں کا مسلمان ، بالغ ہونا ضروری ہے۔ نئی ترمیم میں چار گواہ غیرمسلم بھی ہوسکتے ہیں جو غیر اسلامی ہے۔
(7) سلیکٹ کمیٹی کی نئی متفقہ سفارش (اخبارات یکم ستمبر) کی رو سے زنا بالجبر میں بھی چار گواہ ضروری ہیں۔ زنا بالجبر میں اصل مظلوم توعورت ہے، وہ چارگواہ کہاں سے لائے گی؟ نتیجہ یہ کہ زنا بالجبر کی سزا بھی عملاً معطل ہے۔ اب زنا بالرضا تو PPC کے سابقہ قوانین بحال ہونے کی وجہ سے کوئی جرم نہیں رہا، حدود آرڈیننس ویسے ہی تابع ہیں۔ عملاً پاکستان میں زنا کاری کی کھلی چھوٹ ہوگی ہے، یہ بل دراصل 'بدکاری کا لائسنس' ہے۔
(8) اقدامِ زنا، فحاشی، برہنہ اور اغوا کرنے وغیرہ کے جرائم ناقابل سزا بنا دیے گئے ہیں۔ (حدود آرڈیننس کی دفعات 10 تا 16 اور 18 کوحذف کردینے سے)
(9) 4 گواہوں کے باوجود زنا کی سزا کا جج کی صوابدید پر رہنا غیر اسلامی ہے اور قذف کی سزا دینے کے لئے محض جج کا اطمینان کافی سمجھنا بھی غیر اسلامی ہے۔
(10) زنا کی رپورٹ میں 4 گواہوں کا تقاضا غیر اسلامی ہے، 4 گواہوں کی ضرورت تو فیصلہ کے وقت ہے، رپورٹ اکیلا شخص بھی دے سکتا ہے۔
(11) 16 سال سے کم عمر کی لڑکی کا ہر زنا 'زنا بالجبر' سمجھا جائے، یہ بات بھی غیر اسلامی ہے۔ کیونکہ بلوغت کے بعد لڑکی کی رضامندی معتبر ہے۔ PPCکی دفعہ 83 میں یہ رعایت صرف 12 سال تک کے بچے کو حاصل ہے جبکہ اسلام میں یہ رعایت بلوغت تک حاصل ہے، اس کے بعد نہیں۔ اسے 16 سال تک کرنا غیر اسلامی ہے !!
(12) حد زنا آرڈیننس کی کل 22دفعات میں سے 12 کو منسوخ اور 6 میں ترمیم تجویز کی گئی ہے صرف چار باقی رہ گئی ہیں۔ کیا یہ ترمیم ہے یا منسوخی؟
حوالہ جات
1. دیکھئے بل میں مجوزہ ترامیم : 11 تا 19
2. دیکھئے بل میں مجوزہ ترامیم : 20تا 29
3. کتاب الحدود، حدیث :13
4. حدیث نمبر:6436
5. دیکھئے سورة النسائ: 65
6. بل کا متن بحوالہ روزنامہ خبریں:22؍اگست2006ئ
i. ایک ملاقات میں امریکی قونصلیٹ نے یہ موقف پیش کیا کہ زناکاری جرم نہیں بلکہ والدین کی نافرمانی کی طرح صرف ایک گناہ ہے، ا سلئے 1979ء سے پہلے کے قوانین ہی بہتر ہیں۔اس موقف پر میں نے انہیں جواب دیا کہ اوّل تو قرآن کی رو سے زنا کاری محض گناہ نہیں بلکہ اس کی سزائیں بھی موجود ہیں ا س لئے یہ ایک جرم بھی ہے، دوم یہ کہ امریکہ توسٹیٹ اور چرچ میں جدائی کے نظریے پر کاربند ہے لیکن پاکستان اور مسلمانوں کیلئے یہ امر قابل قبول نہیں کیونکہ یہ نظریۂ پاکستان کی اساس کے خلاف ہے اور اسلام میں بھی اس کی کوئی گنجائش نہیں مزید برآں عیسائیوں کے برعکس مسلمانوں نے اپنی عظمت کا دور اسلام کی سربلندی میں ہی گزارا ہے۔
ii. دیکھیں محولہ بالا حدیث ِموطا ٔامام مالک
iii. صحیح مسلم: رقم3207
iv. بعض لوگ یہ دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (یعنی عدالت) کے پاس سیدھا کیس لے کر جاتے تھے، نہ کہ پہلے پولیس کو رپورٹ کراتے اور وہی عدالت ان کا فیصلہ کردیتی۔ لیکن یہ لوگ صرف مطلب کی آدھی بات بیان کرتے ہیں جبکہ اسلام کی رو سے منصب ِقضا کو سنبھالنے والا تو قرآن وسنت کے مطابق فیصلہ کرتا ہے اور ان کا مکمل عالم ہوتا ہے۔اگر یہ لوگ انگریز کے عدالتی نظام کی بجائے شریعت کے ماہر علما کے ہاتھ میں ان جرائم کے مقدمات دے دیں تو ملک میں چند روز میں امن قائم ہوجائے، جیسا کہ سعودی عرب اور طالبان کے چند سالہ اقتدار میں چشم فلک یہ نظارہ دیکھ چکی ہے، طالبان پر بہت سے اعتراض کئے جاتے ہیں لیکن غیر مسلم بھی ان کے منشیات پر کنٹرول اور امن وامان کے قیام کو مسلمہ امرمانتے ہیں۔
v. سلیکٹ کمیٹی کا یہ موقف باہم متضاد ہے۔اگر چار گواہ اس لئے ضروری قرار دیے گئے ہیں کہ زنا بالجبر حد زنا کے زمرے میں آتا ہے تو پھر ترمیمی بل میں زنا بالجبر کی دفعات کو تعزیراتِ پاکستان میں کیوں ڈالا گیا ؟حدود آرڈیننس میں ہی کیوں برقرار نہیں رکھا گیا اور اگر اسے تعزیر سمجھا جاتا ہے تو پھر اس پر چار گواہ کا مطالبہ کیوں؟ یہ تو ان کے موقف کا تضاد ہے جس کی وجہ دراصل زنا کے جرائم کو ناقابل عمل بنانا ہے۔ البتہ اسلام کی رو سے زنا بالجبر یا بالرضا ، زنا کا مقدمہ حدود اللہ کے تحت ہی آتا ہے جیسا کہ زنا بالجبر کے حوالے سے ہمارا موقف گذشتہ شمارے میں تفصیلاً شائع ہوچکا ہے۔