قائد اعظم اور تھیوکریسی
موجودہ دورِ حکومت میں بالخصوص 'پاکستان میں اسلام یا سیکولرازم؟' کو مختلف پہلوئوں سے زیر بحث لایا جارہا ہے۔ وطن عزیز میں بعض لوگ ایسے ہیں جو قیامِ پاکستان کی اساس اور نظریۂ پاکستان سے ہی منحرف ہیں ۔ اپنے مزعومہ مقاصد کے لئے وہ تواتر سے قائد اعظم کے بیانات کو بھی توڑ مروڑ کر پیش کرتے رہتے ہیں ۔ ذیل میں اس حوالے سے قائد اعظم کے بیانات اور موقف کا تذکرہ کیا گیا ہے جس سے مقصود محض تاریخی حقائق اور امرواقعہ کی درستگی ہے۔ جہاں تک نظریاتی اور اُصولی بنیادوں پر اسلام کے نظریۂ ریاست وسیاست کا تعلق ہے تو یہ اس مضمون کے موضوع سے خارج ہے۔ (ح م)
قائداعظم نے حصولِ پاکستان کی جدوجہد کے دوران اور قیامِ پاکستان کے بعد بارہا وضاحت فرمائی کہ پاکستان کے نام سے معرضِ وجود میں آنے والی ریاست کا طرز ِ حکومت 'تھیوکریسی' پر مبنی نہیں ہوگا۔ اُنہیں اپنے بیانات و تقاریر میں اس طرح کی وضاحت یا 'تھیوکریسی سے بریت' کے اعلان کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہ نہایت اہم سوال ہے مگر قائداعظم کے ان بیانات سے ان کے تصورِ ریاست کے بارے میں استنباط فرمانے والے دانشوروں میں سے کسی نے اس بنیادی سوال کا شافی جواب دینا تو ایک طرف، اس پر غوروفکر کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ پاکستان کے سیکولر دانشوروں نے 'تھیوکریسی'کے ضمن میں قائداعظم کے بیانات سے بلااستثنا یہ نتیجہ اخذ فرمایا ہے کہ وہ (قائداعظم) سیکولر ریاست قائم فرمانا چاہتے تھے۔ یہ حضرات قائداعظم کے تھیوکریسی کی مخالفت پر مبنی بیانات سے بے حد اعتماد کے ساتھ یہ نتیجہ بھی نکالتے ہیں کہ وہ اسلامی ریاست کے مخالف تھے۔ ہمارے خیال میں ان کا یہ استنباط واستخراج نہایت مغالطہ انگیز ہے۔ قائداعظم بلاشبہ 'تھیوکریسی' کے حامی نہیں تھے، مگر ان کا کوئی بھی بیان سیکولر ریاست کی تائید یا اسلامی ریاست کی مخالفت پر مبنی نہیں ہے۔ ہماری اس رائے کی صداقت اور حقیقت اس وقت تک کھل کر سامنے نہیں آسکتی جب تک کہ درج ذیل سوالات اور اشکالات کی وضاحت پیش نہ کردی جائے ...
(1) 'تھیوکریسی' کا لغوی اور اصطلاحی مفہوم کیا ہے؟ مغرب کے سیاسی لٹریچر میں اس سے عام طور پر کیامراد لیا جاتا ہے؟
(2) 1940ء کے عشرے میں ہندوستان کے سیاستدان یا دانشور 'تھیوکریسی' کا ذکر کن معنوں میں کرتے تھے؟
(3) قائداعظم کے ذہن میں تھیوکریسی کا مفہوم کیا تھا؟
(4) قائداعظم نے اپنی جن تقاریر، بیانات اور انٹرویوز میں 'تھیوکریسی' کے متعلق اظہارِ خیال کیا، ان کا سیاق و سباق اور حقیقی پس منظر کیا ہے؟
(5) قائداعظم کے اسلامی ریاست کے قیام اور تھیوکریسی کی مخالفت پر مبنی بیانات میں تطبیق کیسے دی جاسکتی ہے؟
قائداعظم کے تھیوکریسی کے متعلق بیانات کا ان کے دو قومی نظریہ، قراردادِ لاہور اور اسلام کے نام پر ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ ریاست کے پرجوش مطالبہ سے گہرا تعلق ہے۔ 23؍مارچ1940ء کو جب اُنہوں نے لاہور کے منٹو پارک میں دو قومی نظریہ کی بنیاد پر مسلمانوں کے لئے الگ خطہ زمین کامطالبہ کیا اور لاکھوں مسلمانوں کی موجودگی میں قرار دادِ لاہور پاس کرائی تو ہندوستان کا سیاسی منظر یک لخت بدل گیا۔ ہندو پریس نے قرار دادِ لاہور کو طنزاً 'قراردادِ پاکستان' کہا۔ گاندھی، نہرو اور دیگر چوٹی کے ہندو رہنماؤں نے قائداعظم کے علیحدہ وطن کے مطالبہ کی شدید مخالفت کی۔ ہندوستان کے سیکولر اور کمیونسٹ دانشوروں نے محض مذہب کی بنیاد پر علیحدہ ریاست کے قیام کے مطالبہ کو دقیانوسی، رجعت پسندی اورفرقہ وارانہ ذہنیت پر مبنی قرار دیا۔
ہندو رہنماؤں نے تحریر و تقریر میں تصورِ پاکستان کی مخالفت میں رائے عامہ کو بیدار کرنا شروع کردیا۔ اُنہوں نے قائداعظم اور پاکستان کے خلاف اپنے مذموم پروپیگنڈہ میں جن دلائل کو بار بار دہرایا، ان میں ایک دلیل یہ تھی کہ قائداعظم پاکستان کا نام لے کر ایک تھیوکریٹک ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں جہاں غیر مسلم اقلیتوں کو اچھوت کا درجہ حاصل ہوگا اور ان سے نہایت درجہ امتیازی سلوک ہوگا، انہیں کسی قسم کے سیاسی یا معاشی حقوق حاصل نہیں ہوں گے، وہ محض تیسرے درجہ کے شہری بن کر رہنے پر مجبور ہوں گے۔ وہاں سخت گیر ملاؤں کی حکومت ہوگی جو اُن کا جینا حرام کردیں گے۔ کانگرسی رہنماؤں کے اس مذموم پراپیگنڈہ کو یورپ کے اخبارات اور دانشوروں میں بے حد پذیرائی ملی۔
یورپ کئی صدیوں سے کلیسائی پیشوائیت کوشکست دے کر سیکولر ریاست کو عملاً نافذ کرچکا تھا۔ وہاں کے لبرل اور روشن خیال دانشور ہر اس سیاسی فلسفہ کے شدت سے مخالف تھے جس میں مذہب کی بنیاد پر ریاست کے قیام کی گنجائش موجود ہو۔ گذشتہ کئی صدیوں کے دوران عالم اسلام اور یورپ کے درمیان برپا سیاسی کشمکش کی و جہ سے ان کے ذہن اسلام کے خلاف سخت تعصب کا شکار تھے۔ وہ اسلامی ریاست اور تھیوکریسی کے درمیان اُصولی فرق کے متعلق بالکل بے بہرہ تھے۔ قائداعظم جیسے مغرب کے اداروں سے تعلیم یافتہ مسلمان رہنما نے جب اسلام کے نام پر پاکستان کا مطالبہ پیش کیا تو ہندوستان اور برطانیہ کے پریس نے اسے تھیوکریسی کے احیا کا مطالبہ قرار دیتے ہوئے پروپیگنڈہ کا طومار باندھ دیا۔
قائداعظم کی پوزیشن بے حد نازک تھی، وہ کسی طریقے سے یورپی تاریخ میں مذکور تھیوکریسی کے تصور کوقبول بھی نہیں کرسکتے تھے اور اسلام کے نام پر قیامِ پاکستان کے مطالبہ سے دستبردار ہونے کو تیار بھی نہ تھے۔ ان حالات میں اُنہیں ایک سیاستدان کے ساتھ ایک فلسفی اور متکلم کا کرداربھی ادا کرنا پڑا۔ اُنہوں نے بارہا تھیوکریسی اور اسلامی ریاست کے مابین اُصولی فرق کو بیان فرمایا اور بے حد مُبلّغانہ اور مدبرانہ انداز میں اسلام کے رواداری اور انسانی مساوات کے اعلیٰ اصولوں کی وضاحت فرماتے ہوئے باربار یقین دہانی کرائی کہ پاکستان بن جانے کے بعد غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ کسی قسم کی ناانصافی نہیں کی جائے گی۔ اُنہوں نے تاریخ اسلام کے روشن ابواب کا حوالہ دے کر ثابت کیاکہ مسلمان حکمرانوں نے غیر مسلم رعایا کے ساتھ کبھی ایسا سلوک نہیں کیاجس کا خوف دلاکر پاکستان دشمن عناصر لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں ۔
یہ بات نہایت اہم ہے کہ تھیوکریسی کے متعلق قائداعظم کا جو پہلا بیان ریکارڈ پر ہے، وہ قرار دادِ لاہور کے پیش ہونے کے بعد کا ہے۔ اس ضمن میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہ تمام بیانات اُنہوں نے پاکستان کے متعلق پیش کئے جانے والے بے بنیاد اور غلط خدشات کی تردید میں ارشاد فرمائے۔
قائداعظم کی تقاریر اور بیانات کو مدوّن کرکے شائع کردیا گیا ہے۔ بزمِ اقبال لاہور نے چار ضخیم جلدوں میں 1998ء میں اقبال صدیقی کے قلم سے ان کا ترجمہ شائع کردیا ہے۔
راقم الحروف کے علم کے مطابق قائداعظم کے صرف چھ ایسے بیانات ریکارڈ پر ہیں جو اُنہوں نے 'تھیوکریسی' کے متعلق اُٹھائے گئے سوالات کی وضاحت کرتے ہوئے دیے۔ ان چھ بیانات کے مفصل اقتباسات اور ان پر راقم کا تبصرہ حسب ِذیل ہے :
(1) 'تھیوکریسی' کے متعلق قائداعظم کاپہلا بیان 2نومبر1941ء کا ہے جو اُنہوں نے 'مستقبل قریب کی جدوجہد مںھ نوجوانوں کی ذمہ داری' کے موضوع پر مسلم یونیورسٹی یونین، علی گڑھ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔ قائداعظم کا یہ پورا خطبہ ہندو رہنماؤں اور ہندو اخبارات کے اداریوں کے جوابات پر مبنی ہے۔ اس تقریر میں آپ نے سامعین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
''آپ نے ہندو رہنماؤں کے بیانات اور ذمہ دار ہندو اخبارات کے اداریے بھی پڑھے ہوں گے۔ وہ بہت شرارت آمیز اور خطرناک قسم کے دلائل دے رہے ہیں ۔ لیکن وہ یقینا اُلٹ کر انہیں کے سر پر آن پڑیں گے۔''
مہاتما گاندھی کے ایک بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا:
''موجودہ صورتحال کے بارے میں مسٹر گاندھی نے کہا تھا: ''اس مرحلے پر فرقہ وارانہ اتحاد کی عدم موجودگی میں عوامی کارروائی کے معنی ہیں : خانہ جنگی کو دعوت دینا''
اُنہوں نے کہا: ''اگر میں کانگریس کے ذہن کو سمجھتا ہوں تو یہ کانگریس کی خواہش اور دعوت پر کبھی نہیں ہوگی... جب دو بھائی اکٹھے نہیں رہ سکتے تو کیا ہوتا ہے؟ وہ تقسیم کا سہارا لیتے ہیں اور خوش و خرم زندگی بسر کرتے ہیں ۔ پاکستان کی تجویز کے تحت ہم بھی یہی کچھ کرنا چاہتے ہیں ۔ کیااس تجویز کا نتیجہ خانہ جنگی ہوناچاہئے؟ میں صر ف ایک حصہ مانگتا ہوں اور مسٹر گاندھی کل طلب کرتے ہیں ۔''
قائداعظم کے تقریر کے اس بہاؤ Rythmمیں ان کا یہ بیان دیکھئے جس میں اُنہوں نے 'تھیوکریسی' کے متعلق ہندو رہنماؤں کے خدشات کا دلیل سے جواب دیا ہے۔ اُنہوں نے فرمایا :
''پس خواتین و حضرات! دیکھیں ہندو رہنما کیا کہہ رہے تھے؟ میں صرف ایک ممتاز سابقہ کانگریسی اور ایک سابق وزیرداخلہ مسٹر منشی کی تقریر سے ایک اقتباس پیش کروں گا۔ اخبارات میں شائع شدہ تقریر کے مطابق اُنہوں نے کہا: '' تجویز ِپاکستان کے تحت جو حکومت قائم ہوگی، وہ سول حکومت نہیں ہوگی جو تمام فرقوں پر مشتمل ایک مخلوط مجلس قانون ساز کے سامنے جواب دہ ہو بلکہ وہ ایک 'مذہبی حکومت'(تھیوکریسی) ہوگی جس نے اپنے مذہب کی تعلیمات کے مطابق حکمرانی کرنے کا عہد کررکھاہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ تمام لوگ جو اس مذہب کے پیروکار نہیں ہوں گے، ان کا اس حکومت میں کوئی حصہ نہ ہوگا۔ ایک کروڑ تیرہ لاکھ سکھ اور ہندو مسلمانوں کی مذہبی ریاست کے زیرسایہ اقلیت بن جائیں گے۔ یہ ہندو اور سکھ پنجاب میں عاجز ہوں گے اور ہند کے لئے غیرملکی۔''
مسٹر منشی کے بیان کو پڑھنے کے بعد قائداعظم نے فرمایا:
''کیا یہ ہندوؤں اور سکھوں کو مشتعل نہیں کیا جارہا؟ ان کو یہ بتاناکہ وہ ایک مذہبی ریاست ہوگی جس میں اُنہیں جملہ اختیارات سے تہی دست رکھا جائے گا، بالکل غیر درست بات ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں غیرمسلموں کے ساتھ اچھو توں کا سا سلوک کیا جائے گا۔ میں مسٹر منشی کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ صرف ان کے مذہب اور فلسفہ کی ہی اچھوتوں سے آشنائی ہے۔ اسلام ان غیر مسلموں کے ساتھ جو ہماری حفاظت میں ہوں ؛ عدل، مساوات، انصاف، رواداری بلکہ فیاضانہ سلوک کا قائل ہے۔ وہ ہمارے لئے بھائیوں کی طرح ہوں گے اور ریاست کے شہری ہوں گے۔ '' (تالیاں ) 1
قائداعظم کی تقریر کے اس اقتباس کے آخری جملوں کا اُسلوب خالصتاً ایک مسلم متکلم کا سا ہے جوہندو مت کے مقابلے میں اسلام کے اقلیتوں کے ساتھ سلوک کو برتر اور اعلیٰ بنا کر پیش کررہا ہے، مگر الفاظ کا انتخاب مجادلانہ نہیں ۔ قائداعظم نے اپنی تقریر میں مسٹر منشی کے جس اخباری بیان کو پڑھ کر سنایا، وہ 1941ء کے دوران ہندو رہنماؤں کی طرف سے قیامِ پاکستان کے خلاف زہریلے پراپیگنڈہ کی بہترین ترجمانی کرتا ہے۔ قائداعظم کا جواب اسلام کے ریاستی فلسفہ کی مدبرانہ ترجمانی پر مبنی ہے۔ آپ نے بے حد خوبصورت انداز میں مستقبل کی اسلامی ریاست کے خلاف پیش کردہ خدشات کاجواب دیا۔
واضح رہے کہ مسٹر منشی نے مندرجہ بالا الفاظ 1941ء میں لدھیانہ میں منعقد ہونے والی 'اکھنڈ ہندوستان کانفرنس' میں خطبہ صدارت دیتے ہوئے کہے۔ اُنہوں نے اس خطبہ میں یہ بھی کہا:
'' کیا تمہیں علم ہے کہ نظریۂ پاکستان کا مفہوم کیا ہے؟ اس کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمان اپنے لیے ایسے مساکن بنائیں جہاں زندگی اور طرزِ حکومت قرآنی اُصولوں کے سانچے میں ڈھل سکے اور جہاں اُردو ان کی قومی زبان بن سکے۔ مختصر الفاظ میں یوں سمجھئے کہ پاکستان مسلمانوں کا ایسا خطہ ارض ہو گا جس میں اسلامی حکومت قائم ہو گی۔ہندو قوم خواہ کتنی ہی بزدل اور غیر منظم کیوں نہ ہو وہ کبھی یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ مسلمان اس قسم کی حکومت قائم کر لیں ۔ اس حکومت میں ہندو قوم کے افراد شمشیر وسناں کا نشانہ بنائے جائیں گے۔ ان کی عورتوں کی عصمت دری اور ان کے مقدس مقامات کی بے حرمتی ہو گی۔''2
14؍نومبر 1940ء کے اداریے میں 'ہندوستان ٹائمز' نے تحریر کیا:
'' تھیوکریسی کا تصور ایک داستانِ پارینہ ہے اور مسلمانوں کا یہ فعل عبث ہو گا، اگر وہ ہندوستان جیسے ملک میں اس کے احیا کی کوشش کریں ۔''
قیامِ پاکستان کے مطالبہ کے شرمندئہ تعبیر ہونے میں اہم ترین رکاوٹ یہی اقلیتوں کے تحفظ کا مسئلہ تھا۔ بنگال، پنجاب اور سندھ میں ہندوؤں اور سکھوں کی آبادی کا تناسب معتدبہ تھا۔ کانگرسی رہنما مسلسل ان میں عدمِ تحفظ کے احساس کو اُبھار رہے تھے کہ قیامِ پاکستان کے بعد ان کے ساتھ ناروا برتاؤ کیا جائے گا۔ علمی اور منطقی اعتبار سے بھی یہ مسئلہ بے حد اہم تھا کیونکہ مسلم لیگ قائداعظم کی قیادت میں مذہب کی بنیاد پر علیحدہ ریاست کے قیام کا مطالبہ کر رہی تھی جس کی وجہ سے دوسرے مذاہب کے افراد کے دلوں میں وساوس کا پیدا ہونا ایک فطری امر تھا۔ ان کے جذبات کوبھڑکانا بھی مشکل نہ تھا۔ پاکستان کے منصوبہ کو سبوتاژ کرنے کے لئے کانگریس نے اس نفسیاتی کمزوری کو مؤثر ترین ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ 1940 اور 1948ء کے دوران قائداعظم کی تقاریر میں اقلیتوں کو تحفظ کی یقین دہانی کا تذکرہ مسلسل ملتا ہے۔ ان کے ایسے بیانات جس میں اقلیتوں کے تحفظ کا مسئلہ مذکور ہے، کا بالواسطہ تعلق 'تھیوکریسی' کے متعلق کانگریسی پراپیگنڈے کے جواب سے ہے۔
(2) 'تھیوکریسی'کے الفاظ کے ساتھ قائداعظم کا دوسرا بیان جو ریکارڈ پر ہے، وہ 10؍اپریل 1946ء کا ہے۔ یہ ان کا وہ معروف خطاب ہے جو اُنہوں نے 1946ء کے انتخابات میں بھرپور کامیابی کے بعد مسلم لیگ کے منتخب اراکین پارلیمنٹ سے فرمایا۔ اُنہوں نے پاکستان کے قیام کی جدوجہد کے مقاصد بیان کرتے ہوئے فرمایا:
"What are we fighting for? What are we aiming at? It is not theocracy, not for a theocratic state. Religion is there and religion is dear to us."
''ہم کس چیز کے لئے لڑ رہے ہیں ؟ ہمارا نصب ُالعین کیا ہے؟ یہ مذہبی پیشوائیت (تھیوکریسی) نہیں ہے، نہ ہی تھیوکریٹک مملکت کا قیام ہمارا مقصود ہے۔ البتہ مذہب موجود ہے اور مذہب ہمیں بہت عزیز ہے۔''3
اس کے بعد کے جملوں کا اُردو ترجمہ ملاحظہ کیجئے :
''جب ہم مذہب کی بات کرتے ہیں تو تمام دنیاوی مفادات ہیچ نظر آتے ہیں ۔ اور بھی بہت سی چیزیں ہیں جوبہت زیادہ اہم ہیں ۔ ہماری معاشرتی زندگی، ہماری معاشی زندگی اور سیاسی اقتدار کے بغیر آپ کس طرح اپنے دین اور معاشرتی زندگی کا دفاع کرسکتے ہیں ۔''
مسلمان اراکین اسمبلی کے نمائندئہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ایک دفعہ پھر آپ نے ہندو رہنماؤں کے 'تھیوکریسی' کے مذکورہ بالا پراپیگنڈہ کا بھرپور جواب دیا۔ آپ نے واضح کردیا کہ پاکستان کے حصول کی ساری ان تھک جدوجہد کا مقصد اس 'تھیوکریسی'کا قیام نہیں ہے جس کا تصور مسٹر منشی جیسے ہندو رہنماؤں کے دماغ میں ہے۔ اُنہوں نے اپنے اس بیان میں واضح طور پر کہا کہ 'تھیوکریسی' ان کا مقصود نہیں ہے مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ مذہب یعنی اسلام اُنہیں عزیز نہیں ہے۔ اس بیان میں انہوں نے بیک وقت 'تھیوکریسی' سے اظہارِ بریت اور اسلام سے اظہارِ محبت فرمایا۔ آج جو دانشور قائداعظم کے بیانات کی من چاہی تاویلات کرتے ہیں اور مذہب بیزاری کو ہی لبرل ازم اور روشن خیالی سمجھتے ہیں ، اُنہیں قائداعظم کے اس بیان پر غور کرنا چاہئے۔ قائداعظم کا یہ بیان سیکولرزم کی واضح تردید پر بھی مبنی ہے۔ سیکولرزم میں مذہب اور ریاست کی یکجائی قبول نہیں کی جاتی، مگر قائداعظم نے دین اور معاشی زندگی دونوں کے تحفظ اور دفاع کے لئے سیاسی اقتدار کے حصول کو ضروری قرار دیا۔ گویا ان کی سیاسی جدوجہد کا ایک اہم مقصد دین کا دفاع بھی تھا۔ کیا کوئی سیکولر رہنما یہ بیان دے سکتا ہے؟
(3) پاکستان کو معرضِ وجود میں آنے میں ابھی ایک ماہ مزید باقی تھا۔ بنگال اور پنجاب کی تقسیم کا اعلان ہوچکاتھا۔ لہٰذا ان صوبوں میں انتقالِ آبادی کے لئے فضا بے حد ناسازگار تھی۔ انسانی تاریخ کی عظیم ترین خونی ہجرت کے المیے کا آغاز ہوا چاہتا تھا۔ قائداعظم پاکستان کے گورنر جنرل نامزد ہوچکے تھے۔انتقالِ آبادی اور اقلیتوں کے مسائل نے ان کا ذ ہنی سکون تلپٹ کردیا تھا۔ یہ ان کی زندگی کے مشکل ترین ایام تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ ہندو پنجاب اور بنگال میں مقیم رہیں ۔ مگر پاکستان مخالف مشنری کے زہرناک پروپیگنڈے کے سامنے بند باندھنا ان کے بس کی بات نہ تھی۔ پھر بھی ان کا آہنی عزم قائم تھا۔ 13؍جولائی1947ء کو اُنہوں نے دہلی میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کیا جس میں ان کے بیانات کو مرتب نے بجا طور پر 'پاکستان اور اقلیتوں کا تحفظ' کا عنوان دیا ہے۔ آپ سے سوال کیا گیا:
سوال: کیا آپ گورنر جنرل کی حیثیت سے اقلیتوں کے مسئلہ کے بارے میں ایک مختصر سا بیان دے سکتے ہیں ؟
جواب: اس وقت تو میں صرف نامزد گورنر جنرل ہوں ۔ ایک لمحہ کے لئے یہ فرض کرلیتے ہیں کہ 15؍ اگست1947ء کو میں واقعی پاکستان کا گورنر جنرل ہوں گا۔ اس مفروضے کے بعد میں آپ کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اقلیتوں کے بارے میں ، میں نے جو بات بار بار کہی ہے میں اس سے ہرگز پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ ہر بار جب بھی میں نے اقلیتوں کے بارے میں گفتگو کی تو جو کچھ میرا مطلب تھا، وہی میں نے کہا اور جو کچھ میں نے کہا، وہی میرا مطلب تھا۔ اقلیتوں کا تحفظ کیاجائے گا، ان کا تعلق خواہ کسی فرقہ سے ہو۔ ان کا مذہب یا دین یا عقیدہ محفوظ ہوگا۔ ان کی عبادت کی آزادی میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ اُنہیں اپنے مذہب، عقیدے، اپنی جان اور اپنے تمدن کا تحفظ حاصل ہوگا۔ وہ بلا امتیاز ذات پات اورعقیدہ، ہراعتبار سے پاکستان کے شہری ہوں گے۔ ان کے حقوق ہوں گے اور اُنہیں مراعات حاصل ہوں گی اور اس کے ساتھ ساتھ بلا شبہ شہریت کے تقاضے بھی ہیں ، لہٰذا اقلیتوں کی ذمہ داریاں بھی ہوں گی۔ وہ اس مملکت کے کاروبار میں اپنا کردار بھی ادا کریں گے۔ جب تک کہ اقلیتیں مملکت کی وفادار ہیں اور صحیح معنوں میں ملک کی خیرخواہ رہیں اور جب تک مجھے کوئی اختیار حاصل ہے، اُنہیں کسی قسم کا اندیشہ نہیں ہونا چاہئے۔'' 4
یہ بے حد مؤثر، بلیغ، مدبرانہ اور خوبصورت بیان ہے جس کی توقع ایک نوزائیدہ اسلامی ریاست کے سربراہ سے کی جاسکتی ہے۔ سلیم القلب انسان کے لئے اتنی وضاحت کافی ہونی چاہئے مگر ہندو کانگرس کے وہ گماشتے جو صحافت کے میدان میں تھے، ان کی اس واضح بیان سے بھی تشفی نہ ہوئی۔ ایک صحافی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک ہندو اخبار کے نمائندہ تھے، نے سوال کیا:
"Q. Will Pakistan be a secular or theocratic state.?
Mr.M.A.Jinnah: You are asking me a question that is absurd. I do not know what a theocratic state means,(A correspondent suggested that a theocratic state meant a state where only people of a particular religion, for example, Muslims could be full citizens and non-Muslims would not be full citizens.)
Mr. M.A.Jinnah: Then it seems to me that what I have already said is like throwing water on duck's back (Laughter). When you talk of democracy, I am afraid you have not studied Islam. We learnt democracy thirteen centuries ago."
ترجمہ: ''سوال: پاکستا ن ایک لادینی ریاست ہوگی یا دینی ریاست؟
مسٹر ایم اے جناح: آپ مجھ سے ایک بے ہودہ سوال کررہے ہیں ۔ مجھے نہیں معلوم کہ تھیوکریٹک ریاست کے کیا معنی ہوتے ہیں ؟ (ایک اخبار نویس نے کہا کہ تھیوکریٹک ریاست ایسی ہوتی ہے جس میں صرف کسی مخصوص مذہب کے لوگ مثلاً مسلمان تو پورے شہری ہوسکتے ہیں اور غیر مسلم پورے شہری نہیں ہوسکتے۔)
مسٹر جناح: پھر مجھے ایسا لگتا ہے کہ پہلے میں نے جو کچھ کہا ہے وہ ایسا ہوا جیسا چکنے گھڑے پر پانی گرا دیا جائے۔ جب آپ جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا۔ ہم نے جمہوریت کا سبق تیرہ سو برس پہلے پڑھا تھا۔'' 5
مندرجہ بالا سوال وجواب میں قائداعظم نے جس لہجے میں جواب دیا، وہ غیر متوقع نہیں ہے۔ جب وہ اسی پریس کانفرنس میں پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے متعلق مفصل بریفنگ دے چکے تھے تو اس صحافی کا سوال یقینا بے ہودہ اور شرارت پر مبنی تھا۔ ظاہر ہے ایسا سوال کوئی مسلمان صحافی نہیں کرسکتا تھا۔ مندرجہ بالا سطور میں یہ وضاحت بھی ملتی ہے کہ تھیوکریٹک ریاست میں شہری حقوق مختلف ہوتے ہیں ۔ مگر یہ محض ایک طرح کی وضاحت ہے جو پریس کانفرنس میں موجود ایک صحافی نے کی، ورنہ تھیوکریٹک ریاست سے عام طور پر مذہبی پیشوائیت یا پاپائیت لی جاتی ہے جس میں حکومت کے عہدوں پر مذہبی پیشواؤں کو ہی فائز کیا جاتاہے اور یہ تصور عیسائیت کی قدیم تاریخ سے وابستہ ہے۔ قائداعظم نے اپنے جواب میں بالکل درست فرمایا کہ مسلمانوں نے جمہوریت کا درس تیرہ سو برس پہلے ہی سیکھ لیا تھا اور جمہوری ریاست میں پادریوں کی نامزدگی ناقابل تصور ہے۔ جو لوگ 'تھیوکریسی' میں 'اسلامی ریاست'کو داخل سمجھتے ہیں ، قائداعظم نے ان کے بارے میں ہی فرمایا کہ اُنہوں نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا یا پھرایسا وہ لوگ کہتے ہیں جن کی سوچ اِلحاد پرمبنی ہے۔ اسلام کی پوری تاریخ میں عیسائیوں کی طرح کی مذہبی پیشوائیت کا وجود نہیں ملتا۔ اسلام میں کسی پوپ کی گنجائش نہیں ہے!
(4) 14؍ 15 دسمبر1947ء کو کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کا آخری اجلاس ہوا۔ تقسیم ہند کے جگر پاش ہنگاموں کی وجہ سے پوری قوم حزن و ملال کا شکار تھی۔ قائداعظم نے دل گرفتگی کے عالم میں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
''آپ جانتے ہیں کہ مسلم لیگ نے پاکستان کے حصول اور قیام کے لئے جس انداز میں جدوجہد کی، وہ بے مثال ہے۔ مسلمان ایک ہجوم کی مانند تھے۔ وہ شکستہ دل تھے، اقتصادی طور پر پامال تھے۔ ہم نے پاکستان حاصل کرلیا ، لیگ کے لئے نہیں ، اپنے کسی رفیق کے لئے نہیں ، بلکہ عوام کے لئے۔ اگر پاکستان حاصل نہ کیا جاتا تو مسلم ہند کا خاتمہ ہوجاتا۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ہندو نہ صرف قتل و غارت اور اَملاک کی تباہی پر اُتر آئیں گے بلکہ منظم طور پر جتھہ بندی کرکے ظلم و تشدد کا پہاڑ کھڑا کردیں گے۔ اس کا مقصد پاکستان پر ضرب لگانا تھا اور یہ سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔''
قائداعظم کے اس خطاب میں درج ذیل سطور بھی ملتی ہیں :
''میں صاف طورسے واضح کردوں کہ پاکستان اسلامی نظریات پر مبنی ایک مسلم ریاست ہوگی۔ یہ پاپائی (کلیسائی) ریاست نہیں ہوگی۔ اسلام میں جہاں تک شہریت کا تعلق ہے، کوئی امتیاز نہیں ہے۔'' 6
معلوم ہوتا ہے کہ کونسل میں کسی شخص نے قائداعظم سے پاکستان کی ریاست کی نوعیت کے بارے میں سوال کیا تو اُنہیں یہ جواب دینا پڑا۔ انکے اس انگریزی بیان میں "Theocratic" نہیں بلکہ "Ecclesiastical" (کلیسائی) کے الفاظ ہیں جس سے واضح طور پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جس مذہبی ریاست کے وہ مخالف تھے وہ یہی کلیسائی طرز کی پیشوائیت تھی جو اَزمنہ قدیم میں یورپ میں رائج تھی۔ ان کی یہ وضاحت کہ پاکستان اسلامی نظریات پر مبنی مسلم ریاست ہوگی، اس بات کے ثبوت کے لئے کافی ہے کہ ان کے ذہن میں سیکولر ریاست کا خاکہ نہیں تھا۔
(5) 19؍ فروری1948ء کو آسٹریلیا کے عوام سے ان کے قومی دن کے موقع پر قائداعظم نے مفصل خطاب فرمایا۔ اس خطاب میں اُنہوں نے آسٹریلوی عوام سے پاکستان اور پاکستانی قوم کا مفصل تعارف کروایا۔ اُنہوں نے کہا:
''نہ صرف یہ کہ ہم میں سے بیشتر لوگ مسلمان ہیں ، بلکہ ہماری اپنی تاریخ ہے۔ رسوم و روایات ہیں اور آئیڈیالوجی ہے۔ وہ نظریہ اور سوچ ہے جس سے قومیت کا شعور اُبھرتا ہے۔''
آسٹریلوی قوم چونکہ بنیادی طور پر یورپی کلچر کی نمائندہ ہے، اس لئے قائداعظم نے ان سے خطاب کرتے ہوئے نئی اسلامی ریاست کے سیاسی فلسفہ کی وضاحت بھی مناسب سمجھی۔ آپ نے فرمایا:
''ہماری عظیم اکثریت مسلمان ہے۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پرعمل پیرا ہیں ۔ ہم اسلامی ملت و برادری کے رکن ہیں جس میں حق، وقار اور خود داری کے تعلق سے سب برابر ہیں ۔ نتیجة ہم میں اتحاد کاایک خصوصی اور گہرا شعور موجود ہے۔ لیکن غلط نہ سمجھئے پاکستان میں کوئی نظامِ پاپائیت رائج نہیں ہے، اس طرح کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اسلام ہم سے دیگر عقائد کو برداشت کرنے کا تقاضا کرتا ہے اور ہم اپنے ساتھ ان لوگوں کے گہرے اشتراک کا پرتپاک خیرمقدم کرتے ہیں جو خود پاکستان کے سچے اور وفادار شہریوں کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنے کے لئے آمادہ اوررضا مند ہوں ۔'' 7
آج کے ہمارے سیکولر دانشور دوسرے ممالک میں جب پاکستان کا تذکرہ کرتے ہیں تو بے حد احتیاط کرتے ہیں کہ کہیں اسلامی تعلیمات اور ملت ِ اسلامیہ کا تذکرہ کرنے سے اُنہیں بنیاد پرست نہ سمجھ لیا جائے مگر قائداعظم اس طرح کے معذرت خواہانہ انداز کے قائل نہیں تھے۔ اُنہوں نے آسٹریلوی عوام کو بے حد فخر سے بتایا کہ پاکستانی قوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہے، اسے کسی 'ازم' کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سب کچھ فرمانے کے بعد اُنہیں برطانوی اور ہندو ذرائع ابلاغ کے 'تھیوکریسی' والے پراپیگنڈہ کا بھی احساس تھا، اسی لئے اُنہوں نے خود ہی یہ وضاحت بھی کردی کہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ایک ریاست کو پاپائیت نہ سمجھ لیا جائے۔ ان کے بیان کا یہ حصہ عام طور پر ہمارے دانشور بیان کرتے ہیں :
"Make no mistake, Pakistan is not a theocracy or anything like it."
مگر ہمارے سیکولر دانشور ہمیشہ سکوت فرماتے ہیں اور بالکل بیان نہیں کرتے کہ قائداعظم نے یہ جملے کب اور کیوں اور کن لوگوں سے ارشاد فرمائے۔ مزید برآں وہ اقلیتوں کے حقوق کا واویلا تو بہت کرتے ہیں مگر قائداعظم کی طرح ان کی پاکستان سے وفاداری کا ذکر کبھی نہیں کرتے۔
(6) 'تھیوکریسی' کے ضمن میں قائداعظم کا آخری بیان جو ریکارڈ پرہے یا جسے میں تلاش کرسکا ہوں ، وہ 25 فروری1948ء کا ہے۔ اس تاریخ کو آپ نے امریکہ کے عوام سے نشری خطاب فرمایا۔ اس خطاب میں من جملہ دیگر باتوں کے آپ نے فرمایا:
''پاکستان سب سے بڑی اسلامی مملکت اور دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ دنیا کی تمام قوموں کے ساتھ دوستی اور خیرسگالی ہماری خارجہ حکمت ِعملی ہے۔''
آپ نے امریکی قوم کو پاکستان کے دستور اور ریاستی نظام کی نوعیت کے متعلق بریف کرتے ہوئے فرمایا:
''مجلس دستور ساز کو ابھی پاکستان کے لئے دستور مرتب کرنا ہے۔ مجھے اس بات کا تو علم نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہوگی، لیکن مجھے اس امر کایقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا جس میں اسلام کے بنیادی اُصول شامل ہوں گے۔ آج بھی ان کا اطلاق عملی زندگی میں ویسے ہی ہوسکتا ہے جیسے کہ 13 سو برس قبل ہوسکتا تھا۔ اسلام نے ہر شخص کے ساتھ عدل اور انصاف کی تعلیم دی ہے۔ ہم ان شاندار روایات کے وارث ہیں اور پاکستان کے آئندہ دستور کے مرتبین کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے باخبر ہیں ۔ بہرنوع پاکستان ایک ایسی مذہبی مملکت نہیں ہوگی جس پر آسمانی مقصد کے ساتھ پاپاؤں کی حکومت ہو۔ غیر مسلم، ہندو، عیسائی اور پارسی ہیں ، لیکن وہ سب پاکستانی ہیں ۔ اُنہیں وہ تمام حقوق اور مراعات حاصل ہوں گے جو کسی اور شہری کو حاصل ہوسکتی ہیں اور وہ اُمورِ پاکستان میں اپناجائز کردار ادا کرسکیں گے۔'' 8
امریکی قوم سے خطاب کرتے ہوئے بھی قائداعظم نے تقریباً وہی اُسلوب پسند کیا جو وہ پہلے آسٹریلوی قوم سے خطاب میں کرچکے تھے یعنی پہلے 'اسلامی تعلیمات' اور اسلام کے 'بنیادی اُصول' کا فخر سے تذکرہ اور اسلامی جمہوریت کے تصور کی وضاحت، پھر اس کے فوراً بعد یہ تصریح کہ اسلامی جمہوریت کوئی تھیوکریسی نہیں ہے۔ اگر کوئی امریکی اسلام یا اسلامی ریاست کے متعلق پہلے سے کوئی غلط تصور کو قائم کئے ہوئے ہے، تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ اسلامی ریاست، تھیوکریسی یا پاپائیت سے بالکل مختلف نظریہ ہے۔ قائداعظم کا یہ بیان اس اعتبار سے بھی اہم ہے کہ اس میں اُنہوں نے تھیوکریسی کی تعریف بھی بیان کردی ہے۔ ان کے انگریزی الفاظ ملاحظہ کیجئے :
"In any case, Pakistan is not going to be a theocratic state, to be ruled by priests with a divine mission."
گویا قائداعظم کے خیال میں ''تھیوکریسی ایک ایسا نظامِ حکومت ہے جس میں پادری یا نام نہاد مذہبی پیشوا باقاعدہ خدائی مشن سمجھتے ہوئے حکومت چلاتے ہیں ۔''
مغرب کے جدید دانشور بھی 'تھیوکریسی' سے عام طور پر یہی مراد لیتے ہیں ۔ کلیسائی اقتدار کی تاریخ گواہ ہے کہ تھیوکریسی چلانے والے مذہبی پیشوا نہ تو عوام کی رائے کو اہمیت دیتے تھے کیونکہ وہ عوامی نمائندے نہیں بلکہ پوپ کے نامزد کردہ ہوتے تھے، نہ حکومتی اُمور میں وہ کسی الہامی شریعت کے وضع کردہ قوانین کے پابند تھے کیونکہ عیسائیت میں محض اخلاقی تعلیمات پائی جاتی ہیں ، باقاعدہ شریعت یا شرعی قوانین و احکام کا کوئی ایسا ضابطہ نہیں ہے جسے دستورِ مملکت بنایا جاسکے۔ اس لئے ریاستی اُمو ر میں وہ اپنی آرا کا آزادانہ استعمال کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کلیسا نے من مانے 'اجتہاد' سے کام لیتے ہوئے سائنس اور طبیعی علوم کے ماہرین کو شدید ترین سزاؤں کانشانہ بنانا۔ ان کا یہی طرزِ عمل آج بھی مغرب کے کسی بھی تعلیم یافتہ فرد کو خوف زدہ کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس اعتبار سے 'اسلام' یا 'اسلامی تاریخ' کلیسا کے نظریات وتاریخ سے بالکل مختلف ہے۔ جیسا کہ قائداعظم نے فرمایا کہ مسلمانوں نے جمہوریت کا سبق چودہ سو برس قبل ہی سیکھ لیا تھا۔ اسلامی تاریخ میں خلفاے راشدین کا دور تو مثالی ہے ہی، مگر بعد میں بھی کسی خلیفہ یا سلطان نے قرآن و سنت کو مسترد کرکے کوئی نیا دستور وضع کرنے کی جسارت نہ کی۔ اسلامی تاریخ ایسی متعدد مثالیں پیش کرسکتی ہے جن کے مطابق مسلمانوں کے خلیفہ کو بارہا قاضی کے سامنے پیش ہوکر اپنے عمل کی وضاحت کرنا پڑی، بعض اوقات تو اُنہیں جرمانے بھی ادا کرنے پڑے۔
اسلام عیسائیت کی طرح محض اخلاقی تعلیمات کا مجموعہ نہیں ہے، یہ زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی عطا کرتا ہے۔ ریاستی اُمور چلانے کے لئے اسلام کا اپنا ضابطہ حیات ہے۔ اسلام میں کلیسا کی طرح کوئی "Hierarchy" نہیں ہے جس میں پوپ، کا رڈینل، چیف بشپ، پادری یا فادر پر مبنی درجہ بہ درجہ کلیسائی نظم ہو۔ اسلام نے حکمرانی کا حق کسی مخصوص طبقہ کو تفویض نہیں کیا جو خدائی مشن کا نام لے کر اقتدار پر قابض ہوجائے اور اپنی من مانی کرتا پھرے۔ اسلام میں ہر وہ شخص اقتدار کی امانت کو سنبھال سکتا ہے جو اسلامی عقائد پر پختہ ایمان رکھتا ہو اور نظم مملکت کو قرآن و سنت کے ضابطے کے تحت چلانے کی اہلیت رکھتا ہو اور جسے عوام کا اعتماد بھی حاصل ہو۔
تھیوکریسی کا جو تصور قائد اعظم کے پیش نظر تھا، اس کی حمایت اسلامی دانشور بھی نہیں کرتے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اسلام کے سیاسی فلسفہ کا معمولی علم رکھنے والا کوئی فرد اس طرح کی 'تھیوکریسی'کا اسلام میں وجود ثابت نہیں کرسکتا۔علامہ شبیر احمد عثمانی جو بہت بڑے عالم دین ہی نہیں ،تحریک ِپاکستان کے عظیم رہنما بھی تھے،اُنہوں نے12؍مارچ 1949ء کو قرار دادِ مقاصد کی منظوری کے بعد دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :
''اگر ہم دنیا کے سامنے ایک مثال قائم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ملک میں اسلامی نظام نافذ کرناہوگا۔ اسلام اس غلط نظریہ کو ہرگز تسلیم نہیں کرتا کہ مذہب صرف خدا اور بندے تک محدود ہے اوراس کا روزانہ زندگی سے کوئی تعلق نہیں ۔ اسلام زندگی کے ہر پہلو پر حاوی ہے۔ا سلام صرف مذہبی عقائد اور احکام تک محدود نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطہ ہے جس کا اطلاق پورے مسلم معاشرے پر ہوتا ہے۔ اس ریاست کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے چلانے والے مولوی ہوں گے۔ اسلامی ریاست تو وہ ہے جو اسلام کے اعلیٰ او ربلند اُصولوں کے تحت چلائی جائے گی۔'' 9
یاد رہے علامہ شبیراحمد عثمانی وہ عظیم اور قابل احترام ہستی ہیں جنہوں نے قیامِ پاکستان کے بعد کراچی میں قائداعظم کی درخواست پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرایا اور قائداعظم کے انتقال پر اُن کا جنازہ پڑھایا۔ قائداعظم نے تو تھیوکریسی کا ردّ کرتے ہوئے اسے Priests یعنی پادریوں کی حکومت کہا، مگر علامہ عثمانی نے مسلم معاشرے کے تناظر میں زیادہ واضح طور پر کہا کہ اسلامی ریاست کو چلانے والے محض 'مولوی' نہیں ہوں گے۔ ان کا مندرجہ بالا بیان قائداعظم کی فکر سے مکمل طو رپر ہم آہنگ ہے۔
دورِ حاضر میں اسلامی ریاست کے تصور کی وضاحت میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کے پیش کردہ افکار کو کافی اہمیت حاصل ہے۔ وہ بھی مذہبی پیشواؤں کے مخصوص طبقے کی طرف سے چلائی جانے والی 'تھیوکریسی' کے مخالف تھے۔ ایئرمارشل(ر) جناب اصغر خان نے اپنی کتاب"The lighter side of power game" میں مولانا مودودی کے حوالہ سے یہ واقعہ نقل کیا ہے، لکھتے ہیں :
''مارچ 1969ء میں لاہور میں اپنے پہلے باقاعدہ سیاسی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے میں نے کہا کہ میں ایک ایسی حکومت کے قیام کے خلاف ہوں جو مولویوں کے ذریعے چلائی جائے، مجمع نے اس پر تالیاں بجائیں مگر کچھ دنوں کے بعد اخبارات میں میرے اس بیان کے خلاف خطوط کی بھرمار ہوگئی کہ میں نے 'غیراسلامی' بات کی ہے۔ مجھے مشورہ دیا گیا کہ میں اخبارات میں بیان دے کر مذکورہ بیان سے دستبردار ہونے کا اعلان کروں ورنہ 'اسلام پسند' عوام اس سے ناراض ہوجائیں گے۔ کچھ دنوں بعد راولپنڈی میں گول میز کانفرنس کے اجلاس کے دوران مولانا مودودی، امیر جماعت اسلامی میرے پاس آئے اور پوچھا کہ میرا اس بات سے مطلب کیا تھا کہ میں مولویوں کی حکومت کی حمایت نہیں کرتا۔ مجھے ان کے اس سوال پر حیرت ہوئی، البتہ میں نے سادہ لفظوں میں اُنہیں جواب دیا کہ جہاں تک میں جانتا ہوں کہ اسلام کسی مخصوص گروہ کی حکومت کی وکالت نہیں کرتا، نہ یہ مذہبی پیشواؤں (Clergy)کی حکومت کاحامی ہے، اس پر مولانا نے کہا: ''آپ بالکل ٹھیک کہتے ہیں کہ اسلام کسی مخصوص طبقہ یا گروہ کی حکومت کی وکالت نہیں کرتا۔'' 10
'تھیوکریسی' کی مخالفت کی وجہ سے ہمارے وہ سیکولر دانشور جو کہتے ہیں کہ قائداعظم سیکولر ریاست کا قیام چاہتے تھے، کیا وہ یہ بات علامہ شبیراحمد عثمانی اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے متعلق بھی کہہ سکتے ہیں ، جو اسلامی ریاست کے پرجوش علمبردار تھے؟ اگر تھیوکریسی کی مخالفت کی وجہ سے ان دو علماے دین کے اسلامی ریاست کے قیام کے متعلق دیے گئے بیانات پر کوئی فرق نہیں پڑتا تو قائداعظم کے ان بیانات کو کیونکر نظر انداز کیاجاسکتا ہے جس میں اُنہوں نے واضح طو رپر اسلامی جمہوری ریاست کے قیام کی بات کی۔ ہمارے بعض انتہا پسند سیکولر دانشور پاکستان کے آئین میں اسلامی دفعات کی موجودگی کی وجہ سے پاکستان کو 'تھیوکریٹک' ریاست قرار دیتے ہیں ۔
ان کی یہ انتہا پسندانہ سوچ قائداعظم کے افکار سے مطابقت نہیں رکھتی۔ کیونکہ قائداعظم صرف 'پاپائیت' کے خلاف تھے، وہ اسلام کے روشن اُصولوں کی روشنی میں چلائی جانے والی اسلامی ریاست کے زبردست حامی تھے، جناب اکبر ایس احمد اپنی معروف کتاب
"Jinnah Pakistan and Islamic identity" میں لکھتے ہیں :
"Jinnah certainly did not want a theocratic state, a nation run by mullahs." (p.198)
'' جناح یقینی طور پر 'تھیوکریٹک' ریاست نہیں چاہتے تھے، ایک ایسی قوم جسے ملاؤں کی طرف سے چلایا جائے۔''
جناب اکبر ایس احمد کا یہ بیان حقیقت پر مبنی ہونے کے باوجود قائداعظم کے بیان کی جزوی تحریف پر مبنی ہے۔ ایک تو قائداعظم نے تھیو کریسی کی وضاحت کرتے ہوئے کبھی بھی "Mullah" کالفظ استعمال نہیں کیا، انہوں نے "Priest"کہا۔ مزید برآں اکبر ایس احمد نے قائداعظم کے بیان میں شامل "Divine Mission" کے الفاظ کونظرانداز کردیا۔ قائداعظم صرف پادریوں کی ایسی حکومت کے مخالف تھے جو وہ 'خدائی مشن' سمجھ کر چلاتے ہوں ۔ فرض کیجئے آج کے دور میں علما اسلامی اُصولوں کے مطابق کسی صوبہ یا ملک میں اقتدار میں آجاتے ہیں ، تو ان کی حکومت کو قائداعظم کی بیان کردہ تعریف کے مطابق 'تھیوکریسی' نہیں کہا جائے گا۔یعنی اگر یہ درست نہیں کہ کوئی شخص صرف مذہبی پیشوا ہونے کے ناطے حکومت کا اضافی استحقاق رکھے تو یہ بھی درست نہیں کہ صرف کسی کا مذہبی پیشوا ہونا ہی اس کے حاکم نہ بننے کا جواز قرار پائے۔ جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ اسلام میں یہ حق حکمرانی ہر اس شخص کو حاصل ہے جو اس ذمہ داری کو اسلامی تقاضوں کے مطابق ادا کرنے کی پوری اہلیت رکھتا ہو اور اسے مسلم عوام کا اعتماد بھی حاصل ہو۔
جناب اکبر ایس احمد قائداعظم کو'بنیاد پرست' قرار دیتے ہیں او رنہ ہی سیکولر۔ تھیوکریٹک ریاست کی مخالفت کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ قائداعظم اپنی زندگی کے آخری برسوں میں اسلام کی طرف غالب میلان رکھتے تھے۔ ہم اپنی گذارشات کا خاتمہ اکبر ایس احمد کی کتاب کے درج ذیل اقتباس پر کرتے ہیں :
"Jinnah's last few years were a conscious attempt to move towards Islam in terms of text, purity, and scriptures and away from village folk and modern westernized Islam. He constantly pointed to the principles laid down in the Quran and in the time of the Prophet as the basis for his state: our bedrock and sheet anchor in Islam." (R.Ahmad 1993:22). In 1944 Jinnah declared:
"We do not want any flag excepting the league flag of crescent and star. Islam is our guide and the complete code of our life. We do not want any red or yellow flag. We do not want any isms, Socialism, Communism or National Socialism" (Ibid:153). In 1946, Jinnah made the Muslim League members sign their pledges for Pakistan "in the name of Allah, the Beneficent, the merciful" (Wolpert 1984:261). After the creation of Pakistan. The references from the Quran and the Prophet were prominent in Jinnah's speaches."(p.194-195)
''جناح کی زندگی کے آخری چند برسوں میں اصل متن، خالصیت اور تعلیمات کے اعتبار سے اسلام کی طرف بڑھنے، دیہاتی طرزِ زندگی اور جدید مغرب زدہ اسلام سے دور ہٹنے کی شعوری کاوش نظر آتی ہے۔ اُنہوں نے تسلسل کے ساتھ قرآن و سنت میں بیان کردہ اُصولوں کو اپنی ریاست (پاکستان) کی اساس قرار دیا: ''ہماری چٹان اور بنیاد اسلام ہے۔''11
''1944ء میں جناح نے اعلان کیا: ہم لیگ کے ہلال اور ستارے والے پرچم کے علاوہ اور کوئی پرچم نہیں چاہتے۔ اسلام ہی ہمارے لئے ہدایت اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ ہم کوئی سرخ یا زرد پرچم نہیں چاہتے۔ ہم سوشلزم، کمیونزم یا نیشنل سوشلزم کی طرح کا کوئی 'ازم' نہیں چاہتے۔'' 12
1946ء میں جناح نے مسلم لیگ کے ارکان سے کہا کہ وہ پاکستان کے لئے حلف پر 'بسم اللہ الرحمن الرحیم' کے ساتھ دستخط کریں ۔ قیامِ پاکستان کے بعد جناح کی تقاریر میں قرآن و سنت سے حوالہ جات بہت نمایاں تھے۔' ' 13
مختصر یوں ہے کہ قائد اعظم جب 'ڈیموکریٹک' ریاست کی بات کرتے تھے تو یہ 'تھیوکریٹک' ریاست کے خلاف تو تھی لیکن 'اسلامک' ریاست کے خلاف ہرگز نہیں تھی۔ وہ جس مذہبی یا دینی ریاست کے خلاف تھے اس میں پادریوں کے ٹولے کی عمل داری تھی ، وہ سیاہ وسفید کے مالک تھے۔ وہ کسی ایسی ریاست کے خلاف نہ تھے جس کی نظریاتی اساس اسلام جیسے آفاقی مذہب کی الہامی تعلیمات پر قائم ہو۔ دورِ حاضر میں 'تھیوکریسی' کے مخالف بعض دانشور مذہبی جماعتوں اور الہامی احکام، دونوں کی شدت سے مخالفت کرتے ہیں ۔کلیسا کی مخالفت میں بالآخر وہ مذہب کے بھی مخالف ہو گئے ہیں ۔ وہ اپنے فکر کو قائد اعظم سے منسوب کرنے کی جسارت بھی کرتے ہیں حالانکہ قائد اعظم کلیسا کے مخالف تھے مگر مذہب کے مخالف نہیں تھے، بالخصوص دین اسلام کے۔ بدقسمتی سے قائداعظم کی فکر کے حوالہ سے اس اہم فرق کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا!!
حوالہ جات
1. قائداعظم: تقاریر و بیانات:2؍519، شائع کردہ: بزمِ اقبال، 2کلب روڈ لاہور
2. ماہنامہ طلوعِ اسلام، دسمبر 1941ئ
3. ایضاً: جلد چہارم، صفحہ 116
4. ایضاً: جلد چہارم، صفحہ 349
5. ایضاً: 4؍ 315
6. ایضاً: جلد چہارم؍ صفحہ 398
7. ایضاً: جلد چہارم؍ صفحہ:416
8. ایضاً: جلد چہارم؍ صفحہ 422
9. نوائے وقت: سنڈے میگزین، 18؍ جنوری 2004ء
10. صفحہ نمبر 55
11. آر احمد 1993ء صفحہ 22
12. ایضاً: 153
13. صفحہ 194، 195