حدود قوانین اور ’محدث‘

'محدث' جون 2006ء کا مستقل شمارہ حدود قوانین کے خلاف میڈیا مہم کے جوابات پر مشتمل تھا جبکہ گذشتہ شمارے میں تفصیل سے حکومت کی مجوزہ ترامیم پر شرعی وقانونی نقطہ نظر پیش کیا گیا زیر نظر شمارے میں شائع ہونے والا جائزہ دراصل اس بل کا ہے جو 21؍اگست کو باقاعدہ قومی اسمبلی میں پیش کیاگیا اور اسے مجلس عمل نے پھاڑ کر اس پر بحث کرنے سے ہی انکار کردیا۔ اس جائزے کو جماعت اسلامی کے ویمن کمیشن نے کتابچے کی شکل میں شائع کرکے سلیکٹ کمیٹی کی پیش کردہ ترامیم کے دن (پیر 3؍ستمبر کو) قومی اسمبلی میں ہر ڈیسک پر تقسیم کیا جس سے اس بل کے حامی اراکین اسمبلی میں کافی ہلچل مچی اور متحدہ مجلس عمل نے اسے اپنا باضابطہ موقف بنا کر حکومت سے بل میں ان تمام اصلاحات کا مطالبہ کیا جوتاحال برقرار ہے۔

بعد میں یہی مضمون مزید ترامیم کے ساتھ روزنامہ 'نوائے وقت' میں قسط وار (6 تا 9 ستمبر) شائع ہوا، پھر روزنامہ 'انصاف' لاہو راور روزنامہ 'اُمت' کراچی نے11؍ستمبر کو خصوصی ایڈیشن کے طورپر اسے رنگین صفحات پر شائع کیا، انگریزی اخبارات میں بھی اس کا انگریزی ترجمہ چھپا اور اب یہ مزید اصلاحات وحواشی کے ساتھ 'محدث' کے صفحات پر شائع ہورہا ہے۔

محدث کی اس موضوع پر خصوصی کاوشوں کے نتیجے میں مدیر 'محدث' سے چودھری شجاعت حسین نے ملاقات کی اور دورانِ ملاقات ہی وفاقی وزیر قانون وصی ظفر کو ان خلافِ اسلام نکات کو حذف کرنے کی ہدایت کی اور یہ تقاضا کیا کہ ان خلافِ اسلام ترامیم کی ایک مختصر فہرست بھی تیار کردی جائے، یہ فہرست محدث کے صفحہ نمبر 12 پر طبع شدہ ہے۔ 13؍ستمبر کی شام امریکی قونصلیٹ برائن ہنٹ نے لاہور میں آپ کو دعوت دی جہاں امریکی محکمہ خارجہ کے آفیسرز اور امریکہ سے ہی آنیوالی خواتین کی ایک مجلس میں حدود بل پر ان کے اعتراضات کے جوابات دیے گئے۔ مزید برآں محدث کے ان مضامین کے مطالعے کے بعد وزیر مذہبی اُمور اعجاز الحق نے بھی مدیر اعلیٰ محدث کو حکومت کی طرف سے علما کمیٹی میں شرکت کی دعوت دی۔

الحمد للہ مذہبی جماعتوں، علماے کرام،دینی اداروں کی پرزور مساعی اور چودھری برادران کی کوششوں کا نتیجہ یہ ہے کہ سردست پاکستان اس خطرناک بل سے محفوظ ہوگیا جس کے ذریعے پاکستان میں زنا کاری کو قانونی جواز دینے او رعملاً خواتین پر مزید ظلم وزیادتی کی سازش ہورہی تھی۔

تادمِ تحریر تو عام تاثر یہی ہے کہ حدود قوانین میں ترامیم کے بل کا معاملہ اب سرد ہوچکا ہے خدا نخواستہ اگر اسے دوبارہ کسی شکل میں اسمبلی میں لایا جاتا ہے تو اس میں ان تمام نکات کا خاتمہ کرنا ضروری ہوگا جس کی فہرست صفحہ 12 پر موجود ہے۔ کم از کم وہ تین ترامیم جوپاکستان کے سرکردہ علما نے پیر 11؍ستمبر کو تجویز کی ہیں اور حکومت نے چودھری برادران اور سردار نصر اللہ دریشک کے توسط سے اُنہیں بل میں شامل کرنے کا وعدہ کیا ہے لیکن اس کے بعد اُنہیں بدھ 13؍ستمبر یا قومی اسمبلی کے کسی بھی اجلاس میں تاحال شامل نہیں کیا گیا، اور ابھی تک ان ترامیم کو نظر انداز کرکے محض ان علما کے اتفاق کو زیادہ سے زیادہ مشتہر کیا جارہا ہے جن کے بارے میں ایک طرف انہی علما کا یہ کہنا ہے کہ حکومت نے ان 3 ترامیم کے اصل متن میں بھی تحریف کرلی ہے جبکہ حکومت بھی یہ امرتسلیم کرکے اسے ترجمہ کی غلطی باور کرا رہی ہے اور دوسری طرف ان علما کا موقف یہ بھی ہے کہ ان ترامیم کی حیثیت صرف بنیادی اُصولی نکات کی ہے، اگر حکومت اُنہیں تسلیم کرتی ہے، تب وہ بل کا مزید جائزہ بھی لیں گے لیکن اس سیاسی پروپیگنڈے کے بعد اب ممتاز علما کو ویسے ہی نظر انداز کردیا گیا ہے۔ دوسری طرف مجلس عمل کا موقف ان تین ترامیم کے بارے میں 11؍ستمبر سے ہی یہ ہے کہ جب تک حکومت اُنہیں بل میں شامل کرکے نہیں دکھاتی، اس وقت تک وہ ان ترامیم کے بارے میں کوئی واضح موقف رکھنے کی پوزیشن میں نہیں، اس لئے اس بل کو فی الوقت مؤخر کردیا جائے۔مزید برآں پی پی پی اور ایم کیو ایم اس بل میں کسی بھی ترمیم کے بعد اس کی حمایت کرنے پر آمادہ نہیں۔

یہی وہ حالات ہیں جن کے بعد حکومت کو تادمِ تحریر اپنی وعدہ شدہ ترامیم پر کسی سیاسی جماعت کی حمایت بھی میسر نہیں۔ ممکن ہے، اس سے حکومت نے کئی سیاسی مفادات حاصل کئے ہوں لیکن کم از کم اس جنگ کے نتیجے میں ایک غیر اسلامی بل متنازعہ ہوگیاجس پر ہمیں اللہ کا شکرگزار ہونا چاہئے۔ ایک مسلمان کے لئے کتاب وسنت کا تحفظ ہی اہم ترین امر ہے !!