’پاکستان میں مغرب کی ثقافتی یلغار‘

اُردو زبان کے لفظ 'تہذیب'کے بالمقابل عربی میں 'ثقافت' اور انگریزی میں "Culture" کے لفظ استعمال کئے جاتے ہیں ۔ اسی طرح 'تمدن' کے لئے عربی میں حَضَارة اور انگریزی میں "Civiliz(1)tion"کا لفظ بولا جاتا ہے۔چونکہ عام بول چال میں 'تہذیب وتمدن' کا محاورہ بکثرت استعمال ہوتا ہے، اس لیے عموماًتہذیب وتمدن کو باہم مترادف سمجھ لیا جاتا ہے جب کہ علم عمرانیات کی رو سے تہذیب اور تمدن میں واضح فرق ہے۔اس کو ایک مثال سے سمجھئے مثلاً ہمارے ہاں رقص وسرود اور لہو و لعب کے لیے جوغیر ملکی فنکار آتے ہیں انہیں 'ثقافتی طائفے' کہتے ہیں لیکن اُنہیں تمدن کے شاہکار کے طور پر 'تمدنی طائفے'نہیں کہا جا سکتا کیونکہ'تمدن' کا تعلق انسانی رہن سہن اور شہری زندگی کی ترقی سے ہوتا ہے جس میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی بھی شامل ہے جب کہ تہذیب و ثقافت میں 'ترقی' کے بجائے معاشرتی رویے ملحوظ ہوتے ہیں خواہ وہ کھیل کود وغیرہ کے ذریعے دکھائے جائیں یا کسی قوم، علاقے کی اجتماعی اخلاقی حالت سے نمایاں ہوں ۔ ایسے ہی تہذیب،اخلاق وکردار کے حوالے سے بری بھی ہوتی ہے اور اچھی بھی۔ اگرچہ اس کے لیے اصل معیارCriteri(1)تووہ افکار ونظریات ہی ہیں جو تہذیب وثقافت کی تشکیل میں کار فرما ہوتے ہیں جیسے اسلامی تہذیب:حیا،غیرت، صداقت اور شجاعت وغیرہ جذبوں سے تشکیل پاتی ہے اور اس کا طرئہ امتیاز اجتماعی میدانوں میں باہمی مروّت و لحاظ، خاندانی احساسِ ذمہ داری، رشتوں کا پاس بالخصوص عورت ومرد کا امتیاز ہوتا ہے جب کہ مغرب میں حیا، غیرت اور خاندانی تعلق کا احساس مردہ ہو کر مرد و زَن کی صنفی تقسیم بھی مفقود ہو چکی ہے۔ایسے ہی شراب وجوا اُن کی گھٹی میں پڑا ہے اور تفریح کے نام پر رقص وسرود، مرد وزن کا اختلاط اور فحاشی کی مادر پدر آزادی کا وہاں دور دورہ ہے۔ اسی لیے مغربی ریاستیں Single P(1)rentکی مصیبت اورOld Homes جیسے اداروں کی مشکلات کا شکار ہیں جب کہ اسلام نہ صرف اولاد کی ذمہ داری دونوں ماں باپ پر اور بوڑھے والدین کی ذمہ داری اولاد پرڈالتا ہے بلکہ اسلامی معاشرہ میں ایک خاندان یا قبیلہ اپنے متعلقہ افراد کی کارگزاری کا یک گونہ پاس دار بھی ہوتا ہے۔ اسی بنا پر 'قتل خطا' کا خون بہا خاندان یا قبیلہ مشترکہ طور پر ادا کرتا ہے جس کی تفصیلات اسلامی تعلیمات کا درخشاں پہلو ہیں ۔

مغرب کے تمدنی ارتقا کے نتیجے میں اگرچہ ان کے ہاں بعض خوبیوں مثلاً قانون کی پاسداری اور سیاسی واقتصادی معاملات کا معیار ان کی مشرقی نو آبادیاں رہنے والی ریاستوں کے بالمقابل کافی بہتر ہے،لیکن اس کی وجہ ان کا تمدنی ارتقا ہے نہ کہ ان کا وضع کردہ نظام کیونکہ ان علاقوں میں سیاسی اور اقتصادی نظام تومغرب سے ہی برآمد شدہ ہے ، ایسے ہی ان کے سرکاری معاملات میں اگر کوئی بہتری ان کے ہاں نظر آتی ہے تواس کی وجہ مغرب کا قانونی اور عدالتی استحکام ہے جو مغرب نے صرف اپنے ہاں محفوظ کر رکھا ہے۔جب کہ مغرب سے در آمد نظام کے حامل ملک پاک وہند اورمصر وغیرہ خوشامد، منافقت اور کرپشن میں بری طرح بدنام ہیں ۔ خلاصہ یہ ہے کہ مغرب کا سرکاری شعبہ (Pu(2)lic Sector) مغربی تہذیب کا اصل مظہر نہیں بلکہ یہ ایک قسم کا تمدنی ارتقا ہے جو ان کے پروردہ ملکوں میں نہیں پایا جاتا۔

یہاں مغربی سیکولرزم کے تصور کی رو سے انسانی زندگی کی ایک تقسیم کا تعارف پیش نظر رہے تو تہذیبی اقدار کے بارے میں کچھ مزید وضاحت ہو جائے گی یعنی مغرب نے کلیسا اور حکومت کی کشمکش کے بعد باہمی مفاہمت کر کے زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کر لیا ہے:
(1)نجی شعبہ حیات (Priv(1)te Sector)
(2)سرکاری شعبۂ حیات(Pu(2)lic Sector)

ہمارے مقابلے میں انسانی حقوق اور ویلفیئر سٹیٹ کے حوالے سے مغرب کی تمام تر برتری Pu(2)lic Sectorکی حد تک ہے جب کہ ان کا Priv(1)te Sector تہذیبی اقدار سے محروم ہو کر تباہی کے دہانہ پر ہے جس میں بالخصوص مرد وزَن کی مادرپدر آزادی کی بنا پر فحاشی اورسرمستی نے فروغ پا کر خاندانی ادارہ توبالکل تباہ کر دیاہے اور اس کی جگہ نشہ اور نائٹ کلبوں نے لے لی ہے۔گویا مذکورہ بالا پستی ان کی Priv(1)te life کی بے محابا آزادی کا شاخسانہ ہے جس کے اثرات ایک کل ہونے کی بنا پر ان کی Pu(2)lic life میں بھی اسی طرح ہیں جس طرح Pu(2)lic lifeکی بعض خوبیاں جزوی طور پر Priv(1)te lifeمیں بھی آ جاتی ہیں ، لیکن یہ واضح رہے کہ مغربی تہذیب کے حوالے سے مغرب کے ایجنٹ جو تہذیبی اقدار مشرق میں برآمد کرنے کی کوشش کر ر ہے ہیں ، وہ ان کے پرائیویٹ شعبہ کی مذکورہ بالاپست اقدار ہیں ۔ یہی برائیاں ثقافت کے نام پرمسلم معاشروں پر اپنے اثرات اس لیے گہرے کرتی چلی جارہی ہیں کہ عالمگیریت Glo(2)iz(1)tionکے نام پر اُنہیں مغرب کے ایجنٹ عالمی تہذیب باور کرانے میں کوشاں ہیں ۔مزید برآں اسلامی شعائر کی توہین کے نت نئے طریقوں سے مسلمانوں کی ایمانی غیرت کو بھی چیلنج کیا جارہا ہے تا کہ دینی اضمحلال کے باوصف اُمت ِمسلمہ بے حسی اور بے غیرتی کی چادر اوڑھ لے۔

موجودہ حالات کاتقاضا ہے کہ ہم کفر والحاد کے ان ہتھکنڈوں کے بالمقابل فرقہ وارانہ تعصبات اور سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر سوچیں کہ اس چیلنج کا مقابلہ کیسے ممکن ہے؟ اس مقصد کے لئے 26 فروری 2006ء بروز اتوار چند احباب کی ایک ملاقات میں تبادلہ خیال کے دوران ملت اوراُمت کے جامع تصور پر مبنی پلیٹ فارم قائم کرنے پر غور شروع ہوا جو علماے کرام کے ایک اجتماع منعقدہ 28؍مارچ 2006ء پر منتج ہوا جس میں 'ملت فورم' کے نام سے ایک ایسا مشترکہ Think T(1)nk تشکیل دینے پر اتفاق ہوا جو مذہبی دھڑوں اور موجودہ سیاسی آلائشوں سے پاک بطورِ 'اُمت' درپیش مسائل پر غورو فکر کرتے ہوئے مسلمانوں کی فکری اور عملی رہنمائی کرسکے۔

ملت فورم کا پہلا اجلاس 30؍ اپریل 2006ء کو مجلس التحقیق الاسلامی لاہور میں مولانا حافظ عبدالرحمن مدنی کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں دانشوروں ، صحافیوں اور مختلف دینی مکاتب فکر سے وابستہ حضرات نے شرکت کی۔ شرکا میں متحدہ علماء کونسل کے صدر مولاناعبدالرؤف ملک،مسجد معمور کے خطیب مولاناخورشیداحمد گنگوہی، نوائے وقت کے معروف کالم نگار جناب پروفیسر عطاء الرحمن، ممتاز دانشور محمدعطاء اللہ صدیقی، نوائے وقت کے سینئر سب ایڈیٹر جناب حفیظ الرحمن قریشی، روزنامہ انصاف کیجناب سیف اللہ خالد اور حافظ نعیم ،ماہنامہ محدث کے مدیر حافظ حسن مدنی، ماہنامہ آب ِ حیات کے مدیر محمود الرشید حدوٹی، جامعہ لاہور الاسلامیہ کے نائب شیخ الحدیث مولانا رمضان سلفی، مجلس تحقیق اسلامی کے ریسرچ سکالر مولانا محمد شفیق مدنی، حافظ مبشر حسین اورجامعہ اشرفیہ و جامعہ لاہور الاسلامیہ( رحمانیہ) کے متعدد اساتذہ شامل تھے۔ اجلاس کاموضوع تھا : ''پاکستان میں مغرب کی تہذیبی یلغار''

اجلاس کاباقاعدہ آغاز 10بجے قاری عارف بشیرصاحب کی تلاوتِ کلام مجید سے ہوا، نقابت کے فرائض مولانا عبدالرؤف ملک نے انجام دیے ۔

 سب سے پہلے افتتاحی کلمات کے لئے ڈاکٹر محمد امین صاحب کو دعوتِ خطاب دی گئی۔ اُنہوں نے بتایا کہ مسلمانوں کے زوال اور اس سے باہر آنے میں ناکامی کی دو بنیادی وجوہات ہیں ۔ ایک داخلی کہ اسلامی اقدارسے ہماری وابستگی مضبوط نہیں ، منافقت اور دو عملی ہماری روایت بنتی جارہی ہے اور دوسری وجہ خارجی ہے کہ جبمادّہ پرستی کی ہوس میں ہمارے ہاں اجنبی، سیاسی اور اقتصادی نظام سوشلزم اور لا دین جمہوریت کی صورت میں رائج ہوئے تو ان کے پردہ میں 'مغربی تہذیب' نے ہم پر لبرل ازم کے نعرہ سے اپنی یلغار کر دی۔

اُنہوں نے مغرب کی سپر قوتوں کی اسلام دشمنی اور ان کی مسلمانوں کو ختم کرنے کی بالخصوص پالیسی کاذکر کرتے ہوئے اس کا علاج یہ بتایا کہ ہم اپنے ضابطہ حیات 'دین اسلام ' سے اپنے تعلق کو مضبوط کریں اورمادّہ اور لذت پرستی پر مبنی لادین تہذیب کو ردّ کردیں ۔ اُنہوں نے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی پر مغربی تہذیب کے ابتدائی اثرات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ برطانوی سامراج نے پہلے غیر منقسم ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف براہِ راست تدبیریوں کی کہ ان کا دین سے تعلق ختم کرنے کے لئے باہر سے عیسائی مناظرین بلائے، جب دیکھا کہ مسلمان اس طرح اپنا دین بدلنے کو تیار نہیں تو لارڈ میکالے کے نظامِ تعلیم کے ذریعہ بالواسطہ مسلمانوں کو انگریزکا ذہنی غلام بنانے کی پالیسی اختیار کر لی اور پھرجب مسلمانوں کی ایک لمبی جدوجہد کے نتیجہ میں پاکستان بن گیا تو اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک کی حکومت ان لوگوں کے سپرد کی جو انگریز کے خود کاشتہ تھے اور المیہ ہے کہ بظاہر سیاسی غلامی سے نکل کر بھی اقتصادی غلامی کا چکر اس طرح چلتا رہتا ہے کہ آج بھی ہمارے اکثر وزراے مالیات مغرب سے امپورٹ ہوتے ہیں ۔اسی طرح وزیرتعلیم ان کی مرضی سے متعین ہوتے ہیں اور یوں ذہن سازی کا سارا پروسیس چلتا رہتا ہے ۔

اُنہوں نے کہا کہ اگر ہم نظام تعلیم کے دھارے میں دخل نہیں دے سکتے تو کم از کم دینی مدارس میں یونانی فلسفہ کی بجائے 'مغربی تہذیب کے ناقدانہ جائزہ' کو بطورِ مضمون شامل کیوں نہیں کرتے؟ اس طرح پریس سے رابطہ کر کے صحافیوں کے گروپ ڈسکشن پروگرام بنائے جائیں تا کہ پرنٹ میڈیا میں دینی افکار فروغ پائیں اور فحاشی پر قابو پایا جا سکے۔ الیکٹرانک میڈیا اگرچہ عوام پر زیادہ اثر انداز ہوتا ہے تا ہم اسے بھی مغربی تہذیب کے خطرناک اثرات سے بچانے کے لیے اصلاحی اقدامات سوچے جا سکتے ہیں ۔ ہمارے لیے تشویشناک امر یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پرمسلم دانشوروں میں سے ہی مغرب سے مرعوب متجددین کاایک طبقہ اُمت ِمسلمہ میں فکری انتشار کا باعث بن رہا ہے، ان کا ردّ ہونا چاہئے۔ مناسب یہ ہو گا کہ مغرب میں تحریک ِاستشراق(Orient(1)lism) کی طرح ہمارے یہاں بھی استغراب کی تحریک کا ادارہ بنے، جہاں مغرب کی پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے۔جزوی طور پر اس کی ابتدا تھنک ٹینک کے ذریعے ہو سکتی ہے،لیکن اسے مؤثر اور با وسائل بنانے کے لیے خصوصی مساعی کی ضرورت ہے۔

اس کے بعد حافظ حسن مدنی جو انہی دنوں امریکہ کا سرکاری دورہ کرکے آئے، نے اپنے خطاب میں کہاکہ اسلام ہی وہ دین ہے جس پر دنیا بھر میں سب سے زیادہ عمل ہورہا ہے، کیونکہ دیگر بڑے ادیان مثلاً عیسائیت اور بدھ مت کی تمام مذہبی سرگرمیاں صرف چند ایک رسومات تک محدود ہیں ۔ مسلمان اپنی بے عملی کے باوجود بھی اسلام کے جتنے حصے پرعمل پیرا ہیں ، اس کا تناسب دیگر ادیان سے بہت زیادہ ہے، کیونکہ دیگر مذاہب کی تعلیمات ہی محفوظ نہیں نیز اُنہوں نے مغرب کے سیاسی دباؤ کے بالمقابل اپنے مذہبی احکامات میں تحریف کر لی ہے اور جس طرح سیکولرزم کے اُصول کے تحت مذہب اور سیاست کی تقسیم کے قائل ہو گئے ہیں ، اسی طرح مذہب کو اجتماعی دائرئہ حیات سے نکال کراسے اللہ اور انسان کا نجی مسئلہ قرار دے دیا ہے۔چنانچہ سماج سے مذہب کو لا تعلق کرنے کانتیجہ ہے کہ شراب، جوا ان کے ہاں جائز ہو چکا اور فحاشی و زنا کاری وغیرہ کو قبول کر کے اُنہوں نے خاندانی نظام کو تباہ کر لیا۔ عیسائی مذہب کا من گھڑت فلسفہ ہی ایسا ہے کہ اُسے قبول کر کے اخلاقی اقدار دیوالیہ ہو جاتی ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ الہامی ہونے کا دعوے دار عیسائی مذہب اسے قبول کرچکا ہے اور اخلاقی اقدار کے خلاف ان کے ہاں کوئی خلش بھی نہیں پائی جاتی۔ اُنہوں نے کہاکہ تہذیبی تصادم کے پیچھے نظریاتی تصادم چھپا ہوا ہے اور وہ لوگ مسلم معاشروں میں بڑابھیانک کردار ادا کررہے ہیں جو مغربی نظریات اور ان پر مبنی احکامات کو اسلام سے کشید کرنے اور مصادرِ اسلامیہ سے استدلال فراہم کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں ۔ مسلم معاشرے کے فہیم عناصر کو اُنہیں سمجھنا اور ان کے چہرے سے نقاب کھینچناچاہئے۔یہ لوگ اسلامی تہذیب کے خاتمہ کے لئے اسلامی احکام ونظریات کو ہی بدلنے پر تلے ہوئے ہںی ۔

اُنہوں نے کہا کہ مغرب میں مستشرقینکے جو تحقیقی ادارے او رتھنک ٹینک اسلام کے خلاف کام کررہے ہیں ، ان کی سرپرستی مغربی حکومتیں کررہی ہیں ، جبکہ مسلمانوں میں مغرب کی فکری یلغار کے بالمقابل کام کرنے والے لوگ صرف عوامی جذبات پر انحصار کررہے ہیں ۔ یہ درستہے کہ مسلمان ناموسِ رسالتؐ کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دے سکتے ہیں ،لیکن ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ صرف ایسی قربانیوں سے انبیا کامشن مکمل نہںم ہو گا۔ ہمیں پرعزم ہوکرمغربی تہذیب کے مقابلہ کے لئے غزوِ فکری کے میدان میں آنا چاہئے او رنہ صرف سیرتِ رسولؐ اور کردارِ صحابہؓ کو اپنے عمل میں سمونا چاہیے بلکہ علمی وفکری مکالمہ کے ذریعے بھی مغربی تہذیب اور اس کے لا دین نظاموں کی خامیوں کو طشت از بام کرنا چاہئے۔

جامعہ اشرفیہ لاہور کے مدرّس اورمفتی محمد حسن رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے مولانا شاہد عبید نے کہا کہ آج اسلامی تہذیب کے روایتی مراکز (دینی مدارس) کے ساتھ انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیا جارہا ہے بلکہ تحفظ ِاسلام کے اس سسٹم کو ختم کرنے کی سازشںز ہورہی ہیں ۔ہماری روایات سے ہمارا تعلق ختم کر کے کفر ہمیں نیست و نابود کرنا چاہتا ہے۔ اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لئے ہمیں مغرب کے خلاف اپنی روایات کا دفاع بھی مضبوط کرنا ہوگا۔ اُنہوں نے دینی مدارس کے طلبا کے لیے بالخصوص عربی زبان اور علم اسماء الرجال میں مہارت حاصل کرنے پر زور دیا کیونکہ مستشرقین ہمیں اپنے اسلاف اور روایات سے بدظن کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں ۔ علم اسماء ا لرجال کی واقفیت سے اپنی روایات پر ہمارا اعتماد بحال ہوتا ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ دینی اداروں کو ہر سال کچھ لوگوں کوجدید مسائل پر بھی تحقیق کے لئے وقف کردیناچاہئے، کیونکہ اگر ہم اپنے گھر کو درست کرلیں تو غیرمستحکم بنیادوں پر کھڑی مغربی تہذیب خود بخود زمین بوس ہوجائے گی۔

^مولانا محمود الرشید حدوٹی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اُمت ِمسلمہ کی کامیابی اور تہذیبی چیلنجز کا حل اس بات کو قرار دیا کہ ہم اُسوۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مضبوطی سے کاربند ہوجائیں ۔ اُنہوں نے فرقہ وارانہ انتشار اور سیاسی جماعتوں کے کردار اور صحافت کے غلط رجحانات کو اس وقت کا المیہ قرار دیتے ہوئے ان کا قبلہ درست کرنے پر زور دیا۔ اُنہوں نے بتایا کہ لیبیا میں ہم نے دیکھا کہ ہر نمایاں مقام پر قرآن کی کوئی آیت یا القرآن شریعة المجتمعلکھا ہوتا ہے۔ وہاں زنا اور قتل کی کوئی خبر شائع نہیں ہوتی، لیکن ہمارے ہاں ذرائع ابلاغ اس وقت برائی کی خبریں نمایاں کر کے بے حیائی اور جرائم کے فروغ کا بہت بڑاذریعہ بنے ہوئے ہیں ۔

^مولانا عبدالرؤف ملک نے مغربی تہذیب سے مرعوب تجدد پسند طبقہ کے فکری انتشار کامقابلہ کرنے کے لئے ایسے باصلاحیت نوجوان تیار کرنے پر زور دیا جو ایک طرف مغربی تہذیب پر گہری نظررکھتے ہوں ، انگریزی اور عربی زبان کے ماہرہوں اور اس کے ساتھ وہ علومِ شریعت سے بھی بہرہ ور ہوں اور پھر ایسے نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے۔ اُنہوں نے کہاکہ ہم در حقیقت صرف اپنے مسلک کے وارث ہیں ، مسلک پر چوٹ پڑے تو ہمارے سارے وسائل اور منبر و محراب حرکت میں آجاتے ہیں ، لیکن اصل اساس یعنی دین اسلام کا وارث کوئی نہیں ۔ کاش کوئی تواُمت ِمسلمہ یا مسلکوں سے بالاتر اسلام کا علم لے کر اُٹھے، پھر دیکھیں کہ لوگ اس کے گرد کس طرح اکٹھے ہوتے ہیں ۔ اُنہوں نے کہا : دفاعِ اسلام کے لئے یکسو اور مخلص ہونے، وسائل کو مجتمع کرنے اور نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی جس قدر ضرورت آج ہے ،شاید کبھی نہیں تھی۔

روزنامہ نوائے وقت کے کالم نگار جناب عطاء الرحمن صاحب نے کہا :آج ہماری دینی صحافت اور تبلیغ اس لئے بے اثر ہے کہ ہم نے اپنی روٹی کو انبیا علیھم السلام  کے اس مقدس مشن کے ساتھ وابستہ کرلیا ہے۔اُنہوں نے مغربی تہذیب وتمدن(1)کاجائزہ لیتے ہوئے کہاکہ مغرب میں فحاشی اور عریانی کے علاوہ ان کی پبلک لائف میں منافقت اور کرپشن بہت کم ہے جب کہ ہمارے ہاں بہت زیادہ ہے، لیکن عالمی سطح پراُنہوں نے منافقانہ ڈپلومیسی کو اپنی معراج تک پہنچا دیا ہے ۔

اُنہوں نے کہا : امریکی جو اپنے آپ کو سپر پاور کی بجائے ہائپرپاور کہتے ہیں ، آج ان کے لئے سب سے بڑا خطرہ اور چیلنج اسلام ہے۔ امریکی صدر بش نے عراق پر حملہ سے قبل مشورہ کے لئے مغربی دانشوروں کا ایک اجلاس بلایا۔ سب سے رائے لینے کے بعد اس نے 95 سالہ بوڑھے مستشرق برنارڈ لیوس سے مشورہ طلب کیا تو اُس نے کہا: مسلمانوں پرتسلط قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ تبدیل کردیا جائے اور آج مغرب اسی پالیسی پر گامزن ہے اور یہی کچھ مغرب نے بیسویں صدی کی دوسری تیسری دہائی میں کیا جس نے پوری دنیاکا نقشہ بد ل کر رکھ دیا تھا، اور وہ تھا سلطنت ِعثمانیہ کا خاتمہ، اعلانِ بالفور کے ذریعہ فلسطین میں 'اسرائیلی ریاست' کے قیام کا منصوبہ اور مشرقِ وسطیٰ کی اقتصادیات پر قبضہ کی منصوبہ بندی۔

اُنہوں نے کہا کہ آج بھی امریکہ اپنی تہذیبی یلغار کومؤثر بنانے کے لیے مذہب، زبان اور نسلی تعصبات کی بنیاد پر مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ تبدیل کرنے کی پالیسی پرگامزن ہے اور اس استعماری مقصد کے لئے وہ فوجی حکومتوں کو استعمال کررہا ہے کیونکہ فوج اس مقصد کے لئے جمہوری حکومت کی نسبت زیادہ موزوں ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ مغرب کی تہذیبی یلغار کو روکنے کے لئے ہمیں اپنے اندر سے منافقت اور کرپشن کو ختم کرناہوگا، صدقِ مقال اور اکل ِحلال کو شعاربنانا ہوگا اور مغربی تہذیب کے سامنے بند باندھنے کے لئے مغربی طاقتوں کے آلہ کاروں کے خلاف شدید مزاحمت اس دور کا اہم تقاضا ہے۔

 مولانا خورشیداحمد گنگوہی نے اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ یہ تہذیبی تصادم دراصل سیاسی محکومیت کا نتیجہ ہے اور اس سیاسی محکومیت کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ادارئہ خلافت کے احیا کے لئے سنجیدہ پیش قدمی کی جائے۔اُنہوں نے کہا کہ دنیا کی تمام اقوام اپنے نظریات کے فروغ کے لئے اپنے مال میں سے مذہبی اداروں کی مالی امداد کا باقاعدہ حصہ نکالتی ہیں مثلاً ہر یہودی اپنے مال میں سے 10 فیصد اسرائیل کے لئے عطیہ کرتا ہے۔ لندن میں عیسائیت کے فروغ کے لئے کام کرنے والے اداروں کی عمارات شاہی محلات سے زیادہ پرشکوہ ہیں ۔ یہ لوگ اپنے مذہب کے فروغ کے لئے عملاً شرکت کرتے ہیں لیکن مسلمانوں میں یہ احساسِ ذمہ داری اور جذبہ انفاق ختم ہوتا جارہا ہے۔

مولانا ظفر اللہ شفیق صاحب نے کہا کہ اگر خود مسلمان اسلام کے ساتھ مخلص ہوجائیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہر مسلمان کے حرزِجاں ہو تو مغربی تہذیب کے بلاخیز طوفان کو روکاجاسکتا ہے۔ ''جوہو ذوقِ یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں ۔'' اُنہوں نے کہا کہ آج مغرب شیطان کی اس وصیت پر گامزن ہے کہ ''روحِ محمدؐ ان کے بدن سے نکال دو۔'' اس کا علاج یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہر چیز کی محبت سے فائق ہوجائے۔

 بعدازاں جناب محمد عطاء اللہ صدیقی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یورپ میں سیکولر اور مذہبی طبقات کی باہمی مخاصمت پر کئی صدیاں بیت چکی ہیں ،لیکن اس کے باوجود ان دونوں باہم متحارب حلقوں کااہانت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اتفاق حیران کن ہے۔ عیسائی لٹریچر سے جدید سیکولر دانشوروں نے توہین ِرسالت کو اپنی تحریروں میں منتقل کیاہے، جن میں بطورِ مثال فرانس کے مشہور سیاسی مفکر والٹیر،انگریزی کے معروف شاعرشیکسپیئر، دانتے اور معروف ادیب ٹالسٹائی وغیرہ کی تحریریں پیش کی جاسکتی ہیں اور ہم انگریزی لٹریچر کے ذریعے مغربی تہذیب کے یہ زہریلے اثرات اپنی نوجوان نسل کے ذہنوں میں اُنڈیل رہے ہیں ۔ اُنہوں نے پاکستان میں مغربی تہذیب کے گہرے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے 22ویں گریڈ کے ایک بیوروکریٹ کے بارے میں بتایاکہ اس نے کہا کہ پاکستان کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ دس سال کے لئے شراب سے ہر قسم کی پابندی ختم کردی جائے۔

اس پر جامعہ اشرفیہ کے مولانا شاہد عبید صاحب نے بتایا کہ ایف سی کالج کے انگریزی کے ایک پروفیسر نے یہ دریدہ د ہنی کی ہے کہ ''پاکستان کے ترقی کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اسلام کا نام استعمال کرنے پرعرصہ پانچ برس کے لئے پابندی لگا دی جائے۔''

آخر میں صدر مذاکرہ حافظ عبدالرحمن مدنی کو دعوتِ خطاب دی گئی۔ انہوں نے مغربی ثقافت کی یلغار کے سلسلے میں پہلے فکری مغالَطوں کی نشان دہی کی اور زور دیتے ہوئے کہا کہ علمی دنیا میں زندگی کے انفرادی اور اجتماعی پہلوؤں پر جوالگ الگ گفتگو کی جاتی ہے، سیکولرزم کی پرائیویٹ اور پبلک لائف کو اس کے مماثل نہ سمجھنا چاہیے کیونکہ اجتماعی اور معاشرتی زندگی کا بڑاحصہ سیکولرزم کے نزدیک پرائیویٹ سیکٹر ہے جس پر پرسنل لاء لاگو ہوتے ہیں ۔ مثلاً اسلامی عبادات میں ہی نماز، روزہ،زکوٰة اور حج کی ایک اجتماعی حیثیت بھی ہے، پھرجمعہ،عیدین کے علاوہ حج تو ایک عالمگیر اجتماع ہے۔اسی طرح خاندان کی اساس نکاح شادی کے علاوہ ولادت ووفات کی تقریبات بھی اجتماعی ہوتی ہیں ۔ عیدین وغیرہ کی اسلامی تقریبات کے بالمقابل بسنت اور ویلنٹائن ڈے بھی اجتماعی حیثیت رکھتے ہیں ،لہٰذا اصطلاحات کے مغالطہ میں یہ دھوکہ نہیں کھانا چاہئے کہ سیکولرزم میں پرائیویٹ سیکٹر انسان کے صرف انفرادی؍ذاتی معاملات پر مشتمل ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔

سیکولرزم کے مذکورہ بالا تصور کے تحت ہم تہذیبی اُمور میں التباس کاشکار ہو جاتے ہیں اور مغرب کے سرکاری معاملات کی بعض برتریوں کے علاوہ سائنس اور ٹیکنالوجی کو بھی تہذیب سمجھنے لگتے ہیں حالانکہ تہذیب کا تعلق صرف پرائیویٹ زندگی سے ہوتا ہے جو خود مغرب کے ہاں گھناؤنی ہے اور وہ ایسی خرابیوں کو ہی مشرق میں برآمد کرنا چاہتا ہے۔ اس پس منظر میں کہا جا سکتا ہے کہ سیکولرزم نے چونکہ معاشرے کو شخصی Personalاورپبلک لائف(Public life) میں تقسیم کررکھا ہے، ایسے معاشروں میں پبلک لائف میں تو اکثر وبیشتر اچھے رویے دیکھنے کو ملتے ہیں مثلاً دیانت داری، انسانی حقوق، قانونی جبر کا خاتمہ، رشوت کا انسداد وغیرہ بلاشبہ یہ باتیں مغرب کی پبلک لائف کا روشن پہلو ہیں جنہیں ہمیں سیکھنا چاہئے (اوریہی تمام چیزیں دین اسلام میں کامل اور اکمل صورت میں بھی موجود ہیں )جبکہ اپنی شخصی زندگی میں مغربی انسان عیاشی میں پڑا ہوا ہے جن میں زناکاری، اختلاطِ مردوزن، جوا اور شراب وغیرہ قابل ذکر ہیں ، یہ چیزیں ان کے تنزل کا سبب ہیں لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارے ہاں مغربی معاشرے کی نقالی میں یہی چیزیں سرفہرست ہیں ۔ نیزمغرب تہذیب اورتمدن کا التباس پیدا کرتے ہوئے اپنی تہذیب کا تعارف تو اپنے تمدن کے روشن پہلووں سے کراتا ہے لیکن عملاً اپنی تہذیب کے گندے پہلووں کوہی مشرق میں برآمد کرتا ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ مغرب نے اپنی گندی تہذیب کو پھیلانے کے لئے میڈیا کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا ہے اور میڈیاپر یہود کی اجارہ داری کا ہی نتیجہ ہے کہ عیسائی اوریہودی جو ماضی میں ہمیشہ باہم جھگڑتے رہے ہیں کیونکہ عیسائی عقیدہ کی رو سے حضرت عیسیٰ کو سولی دینے والے یہودی ہیں ، لیکن میڈیا کے بل بوتے پر اسلام کو ایک مشترکہ دشمن گردانتے ہوئے آج وہ آپس میں متحد ویکجان بنے ہوئے ہیں ۔ مسلمانوں کو بھی اپنے پیغام کو پھیلانے کے لیے جدید ذرائع ابلاغ (Media) کو بھر پور استعمال کرنا چاہئے۔

جامعہ لاہور الاسلامیہ (رحمانیہ) کے شیخ التفسیر مولاناعبدالسلام ملتانی کی دُعا سے یہ اجلاس اختتام پذیر ہوا۔

1.  واضح رہے کہ تہذیب کے ساتھ تمدن کو شامل کر لیا جائے تو زندگی کا پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر دونوں جمع ہو جاتے ہیں ۔ اس طرح مغرب میں پرائیویٹ سیکٹر کی خرابیوں کے ساتھ اس کے پبلک سیکٹر کی کچھ خوبیاں بھی سامنے آتی ہیں ۔تہذیب وتمدن کے اجتماع کے حوالہ سے یوں بھی کہاجا سکتا ہے کہ مغرب کے کھانے کے دانت اور ہیں اور دکھانے کے اور! (محدث)
 یکم مئی ٢٠٠٦ء کے روزنامہ نوائے وقت اور انصاف میں اس مذاکرے کی تفصیلی کوریج شائع ہوئی۔