پوپ بینی ڈکٹ کے اسلام پر اعتراضات کا جائزہ
ہیئة کبار العلماء سعودی عرب کے ممتاز علما پر مشتمل ایک کونسل ہے جو سرکاری سطح پر مصروفِ عمل ہے اس کونسل سے سعودی عوام اپنے مسائل کے حل کے سلسلے میں رجوع کرتے ہیں۔ سعودی معاشرے میں علما کی اس سپریم کونسل کو انتہائی وقیع حیثیت حاصل ہے اور شرعی موضوعات پر ان کی رائے حرفِ آخر سمجھی جاتی ہے۔ یہ مایہ ناز اہل علم دیگر عالم اسلام میں پیش آنے والے مسائل کے بارے میں بھی اُمت ِمسلمہ کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے رہتے ہیں۔ زیر نظرتحریر اسی کونسل کے معزز رکن جناب ڈاکٹر سعد بن ناصر شَثری کی ہے۔رمضان المبارک میں راقم کے دورۂ سعودی عرب کے دوران ریاض میں آپ سے ملاقات کے موقع پر 'محدث' کے تحقیقی معیار کو سراہتے ہوئے آپ نے اپنی یہ تحریر بطورِ خاص محدث میں اشاعت کے لئے عطا کی۔ ماہنامہ 'محدث' کے معاون اور رفیق جناب محمداسلم صدیق کے اُردو ترجمے ، بعض اضافوں اور حوالہ جات کی تخریج کے بعد یہ بحث ہدیۂ قارئین ہے۔ (حافظ حسن مدنی)
سب تعریفیں اللہ کو سزا وارہیں جو کائنات کا پروردگار ہے، اور درودوسلام نبی آخرالزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو تمام انبیا اور رسولوں کے سردار ہیں!
گذشتہ دنوں کیتھولک کلیسا کے پیشوا پاپاے روم بینی ڈکٹ شانزدہم نے 19؍ شعبان 1427ھ بمطابق 12؍ستمبر 2006ء بروز سوموار جرمنی میں ریگنزبرگ یونیورسٹی کے طلبہ سے 'عقائد اور منطق' کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے اسلام کے متعلق متعدد باطل شبہات کا اظہار کیا، جس کی وجہ سے ایک دفعہ پھر پوری دنیا ہنگامی صورتِ حال سے دوچار ہوگئی اور اقوامِ عالم بالعموم اور اُمت ِمسلمہ بالخصوص سراپا احتجاج بن گئی۔ پوپ نے پیغمبر انسانیتؐ کے متعلق بازنطینی بادشاہ مینوئل دوم کے برخود غلط جملوں کا حوالہ دیا جو اس نے چودہویں صدی عیسوی میں ایک ایرانی عالم کے ساتھ اسلام اور عیسائیت کے موضوع پر مناظرہ کے دوران کہے تھے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ پوپ نے مینوئل کے ان گستاخانہ جملوں پر کسی قسم کے تبصرہ کے بغیرمحض اُنہیں ذکر کرنے پر ہی اکتفا کیا۔پوپ کا مینوئل دوم کے ان فقروں کو اپنے خیالات کی تائید میں پیش کرنا اس بات کا غماز ہے کہ وہ شعوری طور پر اُنہیں صحیح سمجھتے ہیں۔ دنیا بھر میں شدید احتجاج کے بعد پاپاے روم کی طرف سے جس انداز سے معافی مانگی گئی اور ان کی تقریر کو غلط سمجھنے کا جو بہانہ تراشا گیا، وہ عذر گناہ بدتر از گناہ کے مترادف ہے !
ہر انصاف پسند محقق اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ کسی مذہب کے متعلق معلومات کے لئے اس کے مخالفین کے الزام کو حوالہ کے طور پر پیش کرنا علمی دیانت کے تقاضوں کے سراسر منافی ہے۔ آج اسلام کے دو بنیادی ماخذ(Sourses)قرآن وسنت کی شکل میں دنیا کے سامنے موجود ہیں اوران کی طرف رجوع کرنا بھی ہر ایک کے لئے ممکن ہے، ان کی موجودگی میں پوپ کا اسلامی نظریات کی تحقیق میں اسلام کے ایک کٹر مخالف کی بات کو پیش کرنا علمی بددیانتی کا مظہر اور غیر معروضی اندازِ تحقیق پر مبنی رویہ ہے۔ نیز غیر معتبر مصادر کی بنیاد پر باطل اتہامات کا تبادلہ انسانی مصالح کے لئے سخت نقصان دہ ہے۔ اس پس منظر میں نہایت ضروری ہے کہ دین اسلام کی اصل حقیقت کو واضح کیا جائے اور پوپ کے اسلام پر غلط اعتراضات و بہتانات کی قلعی کھولی جائے۔ ذیل میں اُٹھائے گئے اعتراضات کا فرداً فرداً جائزہ لیا جاتا ہے۔
پہلا اعتراض
''دین ِاسلام نے کوئی ایسی نئی چیز پیش نہیں کی جو انسانیت کے لئے فائدہ مند ہو۔''
یہ دعویٰ جھوٹ اور اسلامی تعلیمات سے جہالت پر مبنی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآنِ کریم اور سنت ِنبویہؐ کی تعلیمات انسانی زندگی کے تمام گوشوں پر محیط ہیں۔ انسان کااپنے ربّ سے تعلق کیساہو ؟ انسان کا خود اپنی ذات اور دیگر لوگوں کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہئے، قرآنِ کریم اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ان تمام پہلوؤں پر ہر قسم کی رہنمائی موجودہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ ٱلْكِتَـٰبَ تِبْيَـٰنًا لِّكُلِّ شَىْءٍ...﴿٨٩﴾...سورۃ النحل
''ہم نے یہ کتاب نازل کردی ہے جو ہر چیزکی صاف صاف وضاحت کرنے والی ہے۔''
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ عقائد، معاملات، عبادات، نکاح و طلاق، فوجداری قوانین، عدالتی احکام، خارجی اور داخلی تعلقات جیسے جملہ مسائل کا جواب اُصولاً یا تفصیلاًاس میںموجود ہے۔ ان مسائل کے بارے ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کے لئے کسی حال میں اس سے باہر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ خود انصاف پسند غیر مسلموں نے بھی اسلامی شریعت کے اس امتیاز کو تسلیم کیا ہے۔ قرآنِ کریم اس حقیقت پر یوں مہر تصدیق ثبت کرتا ہے:
ٱلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِى وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلْإِسْلَـٰمَ دِينًا...﴿٣﴾...سورۃ المائدہ
''آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور اسلام کو تمہارے لئے دین کی حیثیت سے پسندکیا ہے۔''
انسان کا اپنے ربّ کے ساتھ کیا تعلق ہونا چاہئے؟ اس کے بارے شریعت کا حکم یہ ہے کہ ایک اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کے سوا کسی کے سامنے سرِ عبادت نہ جھکایا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱعْبُدُوا رَبَّكُمُ ٱلَّذِى خَلَقَكُمْ وَٱلَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿٢١﴾...سورۃ البقرۃ
''اے لوگو! اپنے اس ربّ کی بندگی اختیار کرو جو تمہارا اور تم سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں، ان سب کاخالق ہے، تاکہ تم (جہنم کی آگ سے بچ سکو)۔''
یہ اسلامی شریعت ہی تھی جس نے انسان کو سابقہ مذاہب کی پھیلائی ہوئی خرافات و توہمات سے نکلنے اور عقل و فطرت کے دلائل کی طرف رجوع کرنے کی تعلیم دے کر دلیل کی اہمیت کو اجاگر کیا۔فرمانِ الٰہی ہے :
قُلْ هَاتُوا بُرْهَـٰنَكُمْ إِن كُنتُمْ صَـٰدِقِينَ ﴿١١١﴾...سورۃ البقرۃ
''اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو دلیل پیش کرو۔''
یہودیت و نصرانیت کے برعکس اسلام کی یہ نمایاں خصوصیت ہے کہ وہ گذشتہ تمام انبیا پر ایمان کو لازم قرار دیتا ہے۔فرمانِ الٰہی ہے:
ءَامَنَ ٱلرَّسُولُ بِمَآ أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِۦ وَٱلْمُؤْمِنُونَ ۚ كُلٌّ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَمَلَـٰٓئِكَتِهِۦ وَكُتُبِهِۦ وَرُسُلِهِۦ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِۦ ۚ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ ٱلْمَصِيرُ ﴿٢٨٥﴾...سورۃ البقرۃ
''رسول اس ہدایت پر ایمان لایاہے جو اس کے ربّ کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اس رسول کے ماننے والے ہیں، اُنہوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کرلیا ہے۔ یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں اور ان کا قول یہ ہے کہ ''ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے۔ ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی۔ اے ہمارے ربّ ! ہم تجھ سے معافی کے خواستگار ہیں اور تیری طرف ہی ہمیں پلٹ کر آنا ہے۔''
اسلام ہی نے انسانیت کی فلاح کے لئے رفاہِ عامہ اور خیرو بھلائی کے اُمورمیں کافر ومسلم کا فرق روا رکھے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی تعلیم دی۔ قرآنِ کریم میں ہے :
وَتَعَاوَنُوا عَلَى ٱلْبِرِّ وَٱلتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى ٱلْإِثْمِ وَٱلْعُدْوَٰنِ...﴿٢﴾...سورۃ المائدہ
''جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں، ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے ہیں، ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔''
اور اسلام نے بلا تفریق ہر انسان کے سر پرعزت و شرف کا تاج رکھا۔اور یہ اسلام کا ایسا واضح امتیاز ہے کہ دنیا کا کوئی مذہب بھی اس سلسلہ میں اسلام کا سہیم اورہم پلہ نہیں ہے!
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِىٓ ءَادَمَ وَحَمَلْنَـٰهُمْ فِى ٱلْبَرِّ وَٱلْبَحْرِ وَرَزَقْنَـٰهُم مِّنَ ٱلطَّيِّبَـٰتِ وَفَضَّلْنَـٰهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍۢ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا ﴿٧٠﴾...سورۃ الاسراء
''ہم نے آدم کی اولاد کو عزت و شرف عطا کی اور انہیں خشکی اور پانی میں سواری کے ذرائع مہیا کئے اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت ساری مخلوقات پرنمایاں فوقیت بخشی۔''
حتیٰ کہ حیوانات کو بھی اپنی بے پایاں رحمتوں سے اسلام نے محروم نہیں کیا اور واضح تاکید کردی کہ ایک روز تمہارے ہر اچھے برے کام کا حساب ہوگا اور اس کے مطابق بدلہ دیا جائے گا۔ اللہ فرماتے ہیں:
فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُۥ ﴿٧﴾ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُۥ ﴿٨﴾...سورۃ الزلزالة
''پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہو گی وہ اس کو بھی دیکھ لے گا ۔'' (الزلزلة:7،8)
اُخروی جزا وسزا کا یہ تصور انسان کو ہر معاملہ میں انصاف کرنے اور ظلم سے باز رکھنے کے لیے جس قدر ممد ومعاون ہو سکتا ہے،دنیا کے بہترین فوجداری اور انتظامی قوانین بھی اس قدر کام نہیں دے سکتے۔اسلام کا دیگر ادیان سے تقابل کرتے ہوئے ہر انصاف پسند انسان ایسی بے پناہ فوائد کی حامل متعدد چیزوں کامشاہدہ کرے گا جو اس دین کا طرئہ امتیاز ہیں۔فکری اور عملی اعتبار سے اسلام کی یہ تعلیمات ایسی منفرد ہیں کہ اس سلسلے میں دنیا کا کوئی مذہب اسلام کی ہم سری کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔
دوسرا اعتراض
''اسلام میں بعض چیزیں ایسی ہیں جو شرارت آمیز اور انسانیت کے منافی ہیں۔''
یہ اعتراض بھی انتہائی لچر اور بے ہودہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اسلامی شریعت سر تا پا خیر ہے۔ آئیے اسلام کی خیر واصلاح پر مبنی تعلیمات پر ایک نظر ڈالئے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَمَآ أَرْسَلْنَـٰكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَـٰلَمِينَ ﴿١٠٧﴾...سورۃ الانبیاء
''اے نبی ؐ ہم نے تمہیں دنیا والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔''
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے فوائد کا ذکر کیا ہے جو انسانیت پر اسلام کا احسانِ عظیم ہے ۔فرمانِ الٰہی ہے:
وَيُحِلُّ لَهُمُ ٱلطَّيِّبَـٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ ٱلْخَبَـٰٓئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَٱلْأَغْلَـٰلَ ٱلَّتِى كَانَتْ عَلَيْهِمْ...﴿١٥٧﴾...سورۃ الاعراف
''وہ پیغمبر ؐ ان کے لئے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے اور ان پر سے وہ بوجھ اُتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔''
اسلام نے جن اعلیٰ اخلاقیات اور عمدہ افعال کا حکم دیا ہے، ان کا ذکر قرآنِ کریم نے ان الفاظ میں کیا ہے:
وَيُطْعِمُونَ ٱلطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِۦ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا ﴿٨﴾ إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ ٱللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَآءً وَلَا شُكُورًا ﴿٩﴾...سورۃ الانسان
''باوجودیکہ انہیں کھانے کی شدید خواہش اور حاجت ہو، مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھلاتے ہیں۔ (اور ان سے کہتے ہیں)ہم تمہیں صرف اللہ کے لئے کھلا رہے ہیں۔ ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں اورنہ کسی شکریہ کے امیدوار ہیں۔''
پسماندہ اور محروم افراد ِمعاشرہ کے متعلق ہدایات دیتے ہوئے فرمایا:
فَأَمَّا ٱلْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْ ﴿٩﴾ وَأَمَّا ٱلسَّآئِلَ فَلَا تَنْهَرْ ﴿١٠﴾ وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ ﴿١١﴾...سورۃ الضحی
''یتیم پر سختی نہ کرو اور سائل کو نہ جھڑکو اور اپنے رب کی نعمت کا اظہار کرو۔''
اور فرمایا:
لَّا خَيْرَ فِى كَثِيرٍۢ مِّن نَّجْوَىٰهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَـٰحٍ بَيْنَ ٱلنَّاسِ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ ٱبْتِغَآءَ مَرْضَاتِ ٱللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا ﴿١١٤﴾...سورۃ النساء
''لوگوں کی خفیہ سرگوشیوں میں اکثر کوئی بھلائی نہیں ہوتی۔ ہاں اگر کوئی پوشیدہ طور پر صدقہ وخیرات کی تلقین کرے یا کسی نیک کام کے لئے یا لوگوں کے معاملات میں اصلاح کرنے کے لئے کچھ کہے تو یہ البتہ بھلی بات ہے اور جو کوئی اللہ کی رضا کے لئے ایسا کرے گا، اسے ہم بڑا اَجر عطا کریں گے۔''
عدل انصاف کا قیام جو انسانی معاشرہ کیلئے امن کا ضامن ہے،کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
إِنَّ ٱللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا ٱلْأَمَـٰنَـٰتِ إِلَىٰٓ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ ٱلنَّاسِ أَن تَحْكُمُوابِٱلْعَدْلِ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِۦٓ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ سَمِيعًۢا بَصِيرًا ﴿٥٨﴾...سورۃ النساء
''مسلمانو! اللہ تہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے حوالے کردو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو، اللہ تمہیں نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقیناً اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے۔''
معاشرہ میں محبت وبقائے باہمی کے قیام کے لیے حسن اخلاق کی اہمیت مسلم ہے۔اللہ تعالی نے {وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ} (القلم:4)''اور بلا شبہ تم اخلاق کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز ہو۔'' میں حسن اخلاق اور کئی دیگر صفات کو ہادی انسانیتؐ کے نمایاں وصف کے طور پر اس لیے ذکر فرمایاتاکہ ہم باہمی لین دین میں ان صفات کو سامنے رکھیں۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
(ما من شيء أثقل في میزان المؤمن یوم القیمة من خُلُقٍ حَسَنٍ وإن اﷲ لیبغض الفاحش البذي) 1
''روزِ قیامت ایک مؤمن کے ترازو میں حسن خلق سے بھاری کوئی اور چیز نہیں ہوگی اور اللہ تعالیٰ فحش اور بے ہودہ گو آدمی کو پسند نہیں کرتا۔''
اور فرمایا:
''جس کااللہ اور آخرت کے دن پر ایمان ہے ،وہ اپنے پڑوسی کو ایذا نہ دے۔ جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے اپنے مہمان کی عزت کرنی چاہئے اور جس کا اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان ہے اسے چاہے کہ بھلی بات کرے یا پھر خاموش رہے۔'' 2
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
''مؤمنوں میں ایمان میں سب سے زیادہ کامل وہ شخص ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے اور تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی بیویوں کے ساتھ اخلاق میں بہتر ہے۔'' 3
فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
(من لا یرحم الناس لا یرحمه اﷲ) 4
''جو شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ بھی اس پر رحم نہیں کرتے۔''
اور اسلام نے دوسروں پر ظلم کرنے سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے۔فرمانِ الٰہی ہے :
وَمَا لِلظَّـٰلِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ ﴿٢٧٠﴾...سورۃ البقرۃ
''اور ظالموں کے لئے کوئی مددگار نہیں ہوگا۔''
(إن اﷲ لیملي للظالم فإذا أخذہ لم یفلته ثم قرأ:{وَكَذَٰلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَآ أَخَذَ ٱلْقُرَىٰ وَهِىَ ظَـٰلِمَةٌ ۚ إِنَّ أَخْذَهُۥٓ أَلِيمٌ شَدِيدٌ ﴿١٠٢﴾...سورۃ ھود} 5
''اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتے رہتے ہیں۔پھر جب پکڑتے ہیں توکوئی اس کی پکڑ سے بچ نہیں سکتا۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنِ مجید کی یہ آیت پڑھی: ''اور تیرا ربّ جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑا ایسی ہی ہوا کرتی ہے۔ فی الواقع اس کی پکڑ بڑی سخت اور دردناک ہوتی ہے۔''
انسانیت کو ظلم سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک بے گناہ انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا۔چوری، ڈاکہ، اغوا جیسے انسانیت سوز جرائم کو حرام قرار دیا اور ان پر سنگین سزائیں تجویز کیں۔
اسلامی شریعت کی اعلیٰ خصوصیاتمیں سے ایک یہ ہے کہ اس نے ضبط ِنفس اور غصہ کو پی جانے کی بہت زیادہ تلقین کی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(من کظم غیضا وھو قادر علی أن ینفذہ دعاہ اﷲ سبحانه علی رؤوس الخلائق یوم القیمة حتی یخیِّرہ من الحور العین ماشاء)
''جو شخص غصہ کو پی جائے باوجودیکہ وہ بدلہ لینے پر قادر تھا، روزِقیامت اللہ تعالیٰ اسے ساری کائنات کے سامنے بلائیں گے اور اسیفرمائیں گے : ان موٹی موٹی آنکھوں والی حوروں میں سے جو مرضی اختیار کر لو۔'' 6
اسلام کا ایک نمایاں وصف یہ ہے کہ اس نے غرور و تکبر سے منع کیا۔ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
(لا یدخل الجنة من کان في قلبه مثقال ذرّة من کبر۔۔۔ ) 7
''وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی برابر بھی تکبر ہوگا۔'' ایک شخص نے پوچھا: آدمی یہ چاہتا ہے کہ اس کا لباس خوبصورت ہو، اس کا جوتا خوبصورت ہو (تو کیا یہ بھی تکبر ہے؟) آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے ، وہ خوبصورتی کو پسند کرتا ہے، تکبر یہ ہے کہ حق کوٹھکرا دیا جائے اور لوگوں کو حقیر سمجھا جائے۔
شریعت نے دھوکہ دہی اور عہد شکنی سے منع کیا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
''تین آدمی ایسے ہیں کہ میں روزِقیامت ان کا دشمن ہوںگا۔ ایک وہ شخص جو میرا نام لے کر عہد کرے اور پھر عہد شکنی کرے، اور دوسرا وہ شخص جو کسی آزاد انسان کو فروخت کرکے اس کی قیمت کھا جائے اور تیسرا وہ شخص جو کسی مزدور کو اُجرت پر لے کر اس سے پورا کام کرائے اور پھر اسے مزدوری نہ دے۔'' 8
یہ ہیں وہ تعلیمات جو انسانیت کا حسن اور اسلام کا خاصہ ہیں۔ اس قدر اعلیٰ اخلاقی اور عملی تعلیمات کو شراور انسانیت کے منافی قرار دینا اس شدید بغض کا پتہ دیتا ہے جو اسلام کی حقانیت اور مغرب میں اسلام کی مقبولیت کے باعث ایک بڑے خوف کی شکل اختیار کر گیا ہے!
تیسرا اعتراض
پوپ بینی ڈکٹ نے اپنی تقریر میں یہ دعویٰ بھی کیا:
''اسلام اپنے ماننے والوں کو غیر مسلموں کے ساتھ بداخلاقی اور بُرے رویہ کی تعلیم دیتا ہے۔''
یہ دعویٰ بھی باطل اور اسلامی تعلیمات و تاریخی حقائق کے سراسر خلاف ہے۔ قرآنِ کریم کی متعدد آیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بے شمار فرامین __ جن میں دوسروں کے ساتھ حسن معاملہ، حسن اخلاق اور نیک برتاؤ کا حکم دیا گیا ہے __ چیخ چیخ کر اس بے بنیاد دعویٰ کو باطل ثابت کررہے ہیں۔ اسلام کی تعلیم تو یہ ہے :
إِنَّ ٱللَّهَ يَأْمُرُ بِٱلْعَدْلِ وَٱلْإِحْسَـٰنِ وَإِيتَآئِ ذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ ٱلْفَحْشَآءِ وَٱلْمُنكَرِ وَٱلْبَغْىِ...﴿٩٠﴾...سورۃ النحل
''اللہ تعالیٰ عدل اور احسان اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔''
اس مختصر سی آیت میں عدل، احسان اور صلہ رحمی؛ تین ایسی چیزوں کا حکم دیا گیا ہے جن پر پورے انسانی معاشرے کی اصلاح کا انحصار ہے۔ اور ان کے مقابلہ میں تین ایسی برائیوں سے روکا گیا ہے جو انفرادی حیثیت سے افراد کو اور اجتماعی حیثیت سے پورے معاشرے کے لئے سم قاتل ہیں۔ قرآنِ کریم نے بار بار فیاضانہ برتاؤ، خوش خلقی اور ہمدردانہ رویہ کی تعلیم دی ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
وَأَحْسِنُوٓا إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُحْسِنِينَ ﴿١٩٥﴾...سورۃ البقرۃ
''احسان کا طریقہ اختیار کرو کہ اللہ محسنوں کو پسند کرتا ہے۔''
اور فرمایا :
إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ ٱلْمُحْسِنِينَ ﴿١٢٠﴾...سورۃ التوبہ
''بلاشبہ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کا اجرضائع نہیں کرتا۔''
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(في کل کبد رطبة أجر) 9
''ہر زندہ چیز کے ساتھ احسان کا برتاؤ کرنے میں اجر ہے۔'' (i)
چوتھا اعتراض
پوپ نے اپنے خطاب میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ
''اسلام تلوار کی نوک پر پھیلا ہے۔''
جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام نے اپنے مخالفین کو زبردستی دین میں داخل کیا۔ یہ ایسا دعویٰ ہے جو شرعی نصوص اور حقیقت کے بالکل خلاف ہے۔ قرآن و سنت کی کوئی ایک نص بھی ایسی نہیں ہے جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکے کہ اسلام تلوار کے زور پر لوگوں کو اپنی حقانیت کا اقرار کرنے پر مجبور کرتاہے۔ بلکہ قرآن و سنت کی تعلیمات بالکل اس کے برعکس ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
لَآ إِكْرَاهَ فِى ٱلدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ ٱلرُّشْدُ مِنَ ٱلْغَىِّ...﴿٢٥٦﴾...سورۃ البقرۃ
''دین کے معاملہ میں کوئی زور زبردستی نہیں۔صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔''
وہ دین جو یہود و نصاریٰ کی عورتوں سے نکاح کو جائز قرار دے اور ان کا ذبیحہ کھانے تک کی اجازت دے اور غیر مسلموں کو اسلامی مملکت کی رعایا تسلیم کرے، اس کے بارے میں یہ الزام کتنا مضحکہ خیز ہے کہ وہ لوگوں کو زبردستی مسلمان کرتا ہے۔ قرآنِ مجید کی نص ہے کہ
ٱلْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ ٱلطَّيِّبَـٰتُ ۖ وَطَعَامُ ٱلَّذِينَ أُوتُوا ٱلْكِتَـٰبَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ۖ وَٱلْمُحْصَنَـٰتُ مِنَ ٱلْمُؤْمِنَـٰتِ وَٱلْمُحْصَنَـٰتُ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُوا ٱلْكِتَـٰبَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَآ ءَاتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَـٰفِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِىٓ أَخْدَانٍ...﴿٥﴾...سورۃ المائدہ
''آج تمہارے لئے تمام پاک چیزیں حلال کردی گئیں ہیں۔ اہل کتاب کاکھانا تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لئے۔ اور عصمت مآب عورتیں بھی تمہارے لئے حلال ہیں، خواہ وہ اہل ایمان کے گروہ سے ہوں، یاان قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی، بشرطیکہ تم ان کے مہر ادا کرکے نکاح میں ان کے محافظ بنو، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو یا چوری چھپے آشنائیاں کرو۔''
اسلامی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ یہود و نصاریٰ میں سے اہل ذمہ صدیوں مسلمانوں کے ساتھ رہے اور معمولی سے جزیہ کے عوض اُنہیں دین، جان و مال اور عزت کے تحفظ کی مکمل ضمانت حاصل تھی اور اسلامی حکومت کے زیر سایہ اُنہیں تمام شہری حقوق میسر تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اُنہوں نے اپنے ہم مذہبوں کے ممالک میں جانے کی بجائے اسلامی مملکت میںرہنے کو ترجیح دی۔اور تاریخ نے یہ حسین نظارہ بھی دیکھا کہ جب دنیا کے پاس قرآن و سنت کی صحیح دعوت پہنچی، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور اسلام کی حقانیت کے قولی دلائل اور براہین قاطعہ اُنہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے تو اُنہوں نے اس سرعت کے ساتھ اسلام کے سایۂ عاطفت میں پناہ لی کہ صر ف ایک صدی کے اندر پوری دنیا کا چوتھائی حصہ مسلمان ہوگیا اور پھر اس کے بعد انڈونیشیا، ملائیشیا اور وسطی افریقہ کے پورے پورے علاقے حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔
اور آج جب کہ اسلام کی تلوار کند ہوچکی ہے او ریورپ کی تلوار بے گناہوں کے خون سے سرخ ہورہی ہے، تو کون سی وہ قوت ہے جو امریکہ او ریورپی ممالک کے لاکھوں انسانوں کو کفر کے اندھیروں سے نکال کر حلقہ بگوشِ اسلام ہونے پر مجبور کررہی ہے؟ بتائیے،آج کون سی وہ تلوار ہے جو اُنہیں اسلام قبول کرنے پر آمادہ کررہی ہے؟ تو در اصل دنیا میں بڑی تیزی سے اسلام کے پھیلنے کا حقیقی سبب اس کے وہ جامع دلائل اور رواداری پرمبنی تعلیمات ہیں جن پر یہ دین مشتمل ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں ایک واقعہ بھی ایسا پیش نہیں آیا کہ اُنہوں نے لوگوں کو زبردستی مسلمان بنانے کے لئے کوئی تفتیشی عدالتیں قائم کی ہوں۔اس کے بالمقابل عیسائی اشرافیہ طبقہ نے اس سلسلہ میں جو کردار پیش کیا،وہ تاریخی حوالہ جات کے ساتھ صدیوں پر محیط ایک طویل تاریخ ہے جس کا ورق ورق عیسائیوں اور غیر عیسائیوں کے خون سے سرخ ہے۔
پانچواں اعتراض
پوپ نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ''اسلام کی بعض تعلیمات عقل کے منافی ہیں۔''
یہ محض دعویٰ ہی ہے جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عقلِ صحیح اور اسلامی احکام میں تضاد اور منافات ممکن ہی نہیں ہے۔ اسلام کے تمام احکام، انسانی مصالح اور انسانی عقلوں کے مطابق ہیں۔ اسلام نے اپنے تمام احکام اور عقائد کے لئے ہر جگہ عقلی دلائل پیش کئے ہیں۔ قرآنِ کریم تو بار بار اس بات پر زور دیتا ہے کہ سارا دین عقل پر مبنی ہے۔ وہ انسان کو غور وفکر کی دعوت دیتا ہے اور افراد کی بجائے دلیل کی اہمیت کا قائل ہے۔قرآنِ مجید کی درج ذیل تصریحات اس حقیقت کا بین ثبوت ہیں:
كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمْ ءَايَـٰتِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿٢٤٢﴾...سورۃ البقرۃ
''اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے احکام تمہیں صاف صاف بتاتا ہے، تاکہ تم عقل سے کام لو۔''
لَقَدْ أَنزَلْنَآ إِلَيْكُمْ كِتَـٰبًا فِيهِ ذِكْرُكُمْ ۖ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴿١٠﴾...سورۃ الانبیاء
''لوگو! ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب بھیجی ہے، جس میں تمہارا ہی ذکر ہے، پھر تم سمجھتے کیوں نہیں۔''
لوگوں کا دین حق کی ہدایت نہ پانے اور اس کے نتیجہ میں آگ کے عذاب سے دوچار ہونے کی وجہ قرآنِ مجید کی رو سے یہ ہے کہ اُنہوں نے قرآنِ مجید کے دلائل پر غور کیا نہ ان دلائل کو سمجھنے کے لئے اپنی عقل ہی استعمال کی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ دوزخیوں کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِىٓ أَصْحَـٰبِ ٱلسَّعِيرِ ﴿١٠﴾...سورۃ الملک
''اور وہ کہیں گے،کاش ہم سنتے یا سمجھتے تو آج اس بھڑکتی ہوئی آگ کے سزاواروں میں شامل نہ ہوتے۔''
قرآنِ مجید نے عقلی دلائل کا ایک نقشہ پیش کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا واضح ثبوت ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:
إِنَّ فِى خَلْقِ ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَٱخْتِلَـٰفِ ٱلَّيْلِ وَٱلنَّهَارِ وَٱلْفُلْكِ ٱلَّتِى تَجْرِى فِى ٱلْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ ٱلنَّاسَ وَمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مِن مَّآءٍ فَأَحْيَا بِهِ ٱلْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَآبَّةٍ وَتَصْرِيفِ ٱلرِّيَـٰحِ وَٱلسَّحَابِ ٱلْمُسَخَّرِ بَيْنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ لَءَايَـٰتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ﴿١٦٤﴾...سورۃ البقرۃ
''بے شک آسمان و زمین کی ساخت میں، رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں، ان کشتیوں میں جو انسانوں کے نفع کی چیزیں لئے ہوئے دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں، بارش کے اس پانی میں جسے اللہ اوپر سے برساتا ہے، پھر اس کے ذریعے سے زمین کو زندگی بخشتا ہے اور اپنے اسی انتظام کی بدولت زمین میں ہر قسم کی جان دار مخلوق کو پھیلاتا ہے، ہواؤں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں، ان میں البتہ ان لوگوں کیلئے واضح نشانیاں ہیں جوعقل سے کام لیتے ہیں۔''
یعنی انسان اگر ضد اور تعصب سے آزاد ہوکر عقل سے کام لیتے ہوئے ان آثار پر غور کرے تو وہ اپنے تئیں اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور پائے گا کہ یہ عظیم الشان نظام ایک ہی خالق عظیم کے زیرانتظام ہے۔ وہ بلا شرکت غیرے اس پورے اختیار و اقتدار کا تنہا مالک ہے ، لہٰذا وہی درحقیقت خدائی اور اُلوہیت کا مستحق ہے۔ یہاں یہ حقیقت بھی واضح رہے کہ عقل کا دائرئہ کارصرف ہمارے حواس اور وجدان پرمنحصر ہے۔ جذبات سے مغلوب ہونا، تعصبات کے زیر اثر آنا اور حالات سے متاثر ہونا وغیرہ جیسی آفات ہمیشہ سے عقل کے ساتھ لگی ہیں۔ اور ان آفات سے بچنے کے لیے ہی اللہ تعالیٰ نے وحی کو اس کا رہنما بنایاہے۔
چھٹا اعتراض
''اسلام نے دعوت کے لئے کوئی تشفی بخش اور قابل تسلیم ڈھنگ اختیار کرنے کی بجائے دھونس اور تشدد کا اسلوب اختیار کیا ہے۔''
یہ دعویٰ بھی نہ صرف قرآن و سنت کی واضح نصوص کے خلاف ہے بلکہ اس عملی تاریخ کے بھی منافی ہے جو اس سلسلہ میں مسلمانوں نے رقم کی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَلَا تُجَـٰدِلُوٓا أَهْلَ ٱلْكِتَـٰبِ إِلَّا بِٱلَّتِى هِىَ أَحْسَنُ...﴿٤٦﴾...سورۃ العنکبوت
''اور اہل کتاب سے بحث نہ کرو، مگر عمدہ طریقہ سے۔''
اور فرمایا:
ٱدْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِٱلْحِكْمَةِ وَٱلْمَوْعِظَةِ ٱلْحَسَنَةِ ۖ وَجَـٰدِلْهُم بِٱلَّتِى هِىَ أَحْسَنُ...﴿١٢٥﴾...سورۃ النحل
''اے نبیؐ! اپنے ربّ کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو۔''
فرعون کے دربار میںدعوتِ حق پیش کرنے کے لئے بھیجتے وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور ہارون کو جویہ وصیت کی تھی:{ فَقُوْلَا لَہُ قَوْلًا لَیِّنًا لَعَلَّہُ یَتَذَکَّرُ أَوْ یَخْشٰی} ''اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔''اسے اس لئے قرآن کا حصہ بنا دیا کہ ہم اس حکیمانہ اُسلوبِ دعوت کی اقتدا کریں اور اسے کار گاہِ عمل میں لائیں۔
اور ایسے ہی موقع کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
(إن اﷲ رفیق یحب الرفق في الأمر کله ویعطي علی الرفق ما لا یعطي علی العنف وما لا یعطي علی ما سواہ، ولا یکون الرفق في شيء إلا زانه ولا ینزع من شيء إلا شانه) 10
''اللہ تعالیٰ نرم ہے اور ہر معاملہ میں نرمی کو پسند کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ نرم روی پر جو کچھ عطا کرتے ہیں، وہ نہ تلخ روی پر عطا کرتے ہیں اور نہ اس کے علاوہ کسی اور کام پرعطا کرتے ہیں۔ جس چیز میں بھی نرمی کا رویہ کارفرما ہو، وہ چیز حسین بن جاتی ہے اور جو چیز اس وصفِ رفق سے محروم ہوجائے، وہ چیز بدنما ہوجاتی ہے۔ ''
اور فرمایا: (من یحرم الرفق یحرم الخیر ) 11
''جو شخص رفق و آسانی سے محروم ہوجائے، اسے ہر طرح کی خیرو برکت سے محروم کردیا جاتا ہے۔''
حقیقت یہ ہے کہ غلو و تشدد سے گریز، دھونس و تلخ روی سے اجتناب اور رِفق و آسانی کو اختیار کرنا شریعت ِاسلامیہ کا عمومی مزاج ہے۔ جس کو اسلام نے ہر معاملہ خصوصاً دعوت کے میدان میںپیش نظر رکھا ہے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصاً اس پر زور دیا ہے۔ فرمانِ رسالتؐ ہے:
(من أحب أن یزحزح عن النار و یدخل الجنة فلتأته منیته وھو یؤمن باﷲ والیوم الآخر ولیأت إلی الناس الذي یحب أن یؤتی إلیه) 12
''جو شخص چاہتا ہے کہ جہنم سے بچ کر جنت میں داخل ہوجائے تو اسے موت اس حال میں آنی چاہئے کہ وہ اللہ اور روزِقیامت پر ایمان رکھتا ہو اور وہ لوگوں کے ساتھ ویسا ہی رویہ روا رکھتا ہو جیسا کہ وہ چاہتا ہو کہ لوگ اس کے ساتھ روا رکھیں۔''
جس دین کی یہ تعلیمات ہوں ،اسے شدت پسندی کا طعنہ صرف وہی شخص دے سکتا ہے جو سرے سے اس دین کی تعلیمات سے ناواقف ہے یا پھر وہ اسلام کے بارے میں اندھے تعصب و عناد میں مبتلا ہے۔
ساتواں اعتراض
پوپ بینی ڈکٹ نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ
''اسلامی عقیدہ کی رو سے اللہ تعالیٰ سب سے برتر اور بلند ذات نہیں ہے۔''
یہ دعویٰ بھی اسلام پر بہت بڑا بہتان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اہل اسلام اللہ تعالیٰ کو تمام صفاتِ کمال سے متصف سمجھتے ہیں اور ان تمام صفات کی اللہ تعالیٰ کی ذات سے نفی کرتے ہیں، جن میں کسی قسم کا کوئی نقص اور عیب ہے اور قرآن وسنت میں ہمیں اسی بات کی تعلیم دی گئی ہے۔فرمانِ الٰہی ہے:
لَيْسَ كَمِثْلِهِۦ شَىْءٌ ۖ وَهُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْبَصِيرُ ﴿١١﴾...سورۃ الشوری
'' کائنات کی کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں، وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔''
اور فرمایا:
وَلِلَّهِ ٱلْمَثَلُ ٱلْأَعْلَىٰ ۚ وَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ ﴿٦٠﴾...سورۃ النحل
''اور اللہ کیلئے سب سے برتر صفات ہیں، وہی تو سب پر غالب اور حکمت میں کامل ہے۔''
سورة الاحدمیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:
{قُلْ هُوَ ٱللَّهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ ٱللَّهُ ٱلصَّمَدُ ﴿٢﴾ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ﴿٣﴾ وَلَمْ يَكُن لَّهُۥ كُفُوًا أَحَدٌۢ ﴿٤﴾...سورۃ الاخلاص} ''کہو: وہ اللہ ہے یکتا، اللہ سب سے بے نیاز اور سب اس کے محتاج ہیں۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد اور کوئی اس کا ہم سر نہیں ہے۔''
حضرت عیسیٰ ؑ کو خدا کا بیٹا قرار دینے اور اُنہیں بشریت سے اٹھا کر مقام اُلوہیت پر فائز کرنے والوں کو اسلام کے بارے میں ایسی ہرزہ سرائی زیب نہیں دیتی۔
آٹھواں اعتراض
نیز پوپ کا یہ دعویٰ کہ ''مسلمانوں کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا ارادہ عقل کے ساتھ مربوط نہیں ہے۔''بھی حقیقت و امر واقعہ کے خلاف ہے۔
مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کی ذات حکیم ہے اور حکیم سے مرا د وہ ذات ہے جو تمام اُمور کو ان کے مقامات پر رکھتا ہے اور ہر واقعہ کے ساتھ اس کے حسب ِحال معاملہ کرتا ہے۔ اس کی وضاحت خود اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں کی ہے :
وَمَا مِنْ إِلَـٰهٍ إِلَّا ٱللَّهُ ۚ وَإِنَّ ٱللَّهَ لَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ ﴿٦٢﴾...سورۃ آل عمران
''اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور وہ اللہ ہی کی ہستی ہے جس کی طاقت سب سے بالا اور جس کی حکمت نظامِ عالم میں کارفرما ہے۔''
اور قرآنِ مجید کے بارے میں فرمایا:
كِتَـٰبٌ أُحْكِمَتْ ءَايَـٰتُهُۥ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ ﴿١﴾...سورۃ ھود
''یہ کتاب ہے جس کی آیات پختہ حقیقت پر مبنی اور حکیم و خبیر ذات کی طرف سیمفصل ارشاد ہوئی ہیں۔''
پورے نظامِ عالم میں حکمت ِخداوندی کی یہ کار فرمائی ارادہ وعقل کے مابین ربط کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے!!
نواں اعتراض
''مسلمانوں کے نزدیک اللہ پر لازم نہیں ہے کہ وہ ہمارے لئے حقیقت کو واشگاف کرے۔''
جبکہ اہل اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا انسانوں پر احسان اور اس کی رحمت ہے کہ اس نے ان کے لئے راہِ حق کو صاف صاف واضح کردیا ہے اور راہِ مستقیم کی واضح نشاندہی فرما دی ہے اور اُنہیں گمراہی سیبچنے کا حکم دیا ہے ۔ فرمانِ الٰہی ہے :
كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ ءَايَـٰتِهِۦ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ ﴿١٨٧﴾...سورۃ البقرۃ
''اسی طرح اللہ اپنے احکام واضح طور پر لوگوں کے لئے بیان کرتا ہے، تاکہ وہ غلط رویہ سے باز آجائیں۔''
اورفرمایا:
وَمَا كَانَ ٱللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْمًۢا بَعْدَ إِذْ هَدَىٰهُمْ حَتَّىٰ يُبَيِّنَ لَهُم مَّا يَتَّقُونَ...﴿١١٥﴾...سورۃ التوبہ
''اور اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ لوگوں کو ہدایت دینے کے بعد پھر گمراہی میںمبتلا کرے جب تک کہ اُنہیں صاف صاف بتا نہ دے کہ کن کن چیزوں سے بچنا چاہئے۔''
اورفرمایا:
سَنُرِيهِمْ ءَايَـٰتِنَا فِى ٱلْءَافَاقِ وَفِىٓ أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ ٱلْحَقُّ ۗ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُۥ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ شَهِيدٌ ﴿٥٣﴾...سورۃ فصلت
''عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے۔ کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ تیرا ربّ ہر چیز کا شاہد ہے۔''
اور فرمایا:
وَلَقَدْ أَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ءَايَـٰتٍ بَيِّنَـٰتٍ ۖ وَمَا يَكْفُرُ بِهَآ إِلَّا ٱلْفَـٰسِقُونَ ﴿٩٩﴾...سورۃ البقرۃ
''ہم نے آپ کی طرف ایسی آیات نازل کی ہیں جو صاف صاف حق کا اظہار کرنے والی ہیں اور ان کی پیروی سے صرف وہی لوگ انکار کرتے ہیں جو فاسق ہیں۔''
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ قَدْ جَآءَكُم بُرْهَـٰنٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَأَنزَلْنَآ إِلَيْكُمْ نُورًا مُّبِينًا ﴿١٧٤﴾...سورۃ النساء
''لوگو! تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے دلیل روشن آگئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف ایسی روشنی بھیج دی ہے جو تمہیں صاف صاف راستہ دکھانے والی ہے۔'' (النساء:174)
يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمْ أَن تَضِلُّوا ۗ وَٱللَّهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمٌۢ ﴿١٧٦﴾...سورۃ النساء
'' اللہ تمہارے لئے احکام کی توضیح کرتا ہے تاکہ تم بھٹکتے نہ پھرو اور اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔''
اور فرمایا:
إِنَّا خَلَقْنَا ٱلْإِنسَـٰنَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَـٰهُ سَمِيعًۢا بَصِيرًا ﴿٢﴾ إِنَّا هَدَيْنَـٰهُ ٱلسَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًۭا وَإِمَّا كَفُورًا ﴿٣﴾ إِنَّآ أَعْتَدْنَا لِلْكَـٰفِرِينَ سَلَـٰسِلَاوَأَغْلَـٰلًا وَسَعِيرًا ﴿٤﴾ إِنَّ ٱلْأَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِن كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا ﴿٥﴾...سورۃ الانسان
''ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لئے ہم نے اسے دیکھنے اور سننے والا بنایا۔ ہم نے اسے راستہ دکھایا، اب وہ شکر کرنے والا بن جائے یا ناشکرا، بے شک کفر کرنے والوں کے لئے ہم نے زنجیریں، طوق اور بھڑکتی ہوئی آگ تیار کی ہے۔نیک لوگ جنت میں شراب کے ایسے پیالے پئیں گے، جن میں آب ِکافور کی آمیزش ہوگی۔''(الدھر:2تا4)
آخر میں تمام انسانوں کو خواہ وہ کسی بھی دین، مذہب اور علاقہ سے تعلق رکھتے ہوں،دعوت دیتا ہوں کہ وہ قرآنِ کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی طرف رجوع کریں تاکہ اُنہیں معلوم ہو کہ اسلام کن عمدہ تعلیمات، بلند اخلاق اور اعلیٰ عقائد پر مشتمل ہے۔ اور کیسے قطعی اور تشفی بخش دلائل اپنے دامن میں رکھتا ہے۔میں ان سے عرض کرتا ہوں کہ وہ اسلام کے متعلق کسی بھی طرح کی معلومات کیلئے اسلام مخالف مصادر اور سیاسی و جدید رجحانات سے متاثر ذرائع پر قطعاً اعتماد نہ کریں۔ وصلی اﷲ علی نبینا محمد وعلی آله و صحبه وسلم
حوالہ جات
1. سنن ترمذی: رقم 1925،حسن صحیح
2. بخاری: 5559
3. جامع ترمذی: رقم 1082 'صحیح' ،صحیح ابن حبان: 17؍345
4. متفق علیہ، صحیح مسلم :4283
5. متفق علیہ، بخاری :4318
6. سنن أبی داؤد:4147 وسنن ترمذی، 'حسن'
7. مسلم:131
8. صحیح بخاری: 2075
9. صحیح بخاری:2190
10. مسلم:4697،4698
11. مسلم: 9446
12. مسلم:3431
i. اس سلسلے کی مزید تفصیلات کے لئے محدث کے سابقہ شمارئہ ستمبر میں شائع شدہ مضمون 'اسلام میں غیر مسلموں کے حقوق' کا مطالعہ کریں جس کا دوسرا حصہ اس شمارہ میں بھی شائع ہورہا ہے۔ ادارہ