عربی دانی کا ایک اور نادر نمونہ
دورِ حاضر کے تجدد پسند گروہ (Miderbusts)نے مغرب سے مرعوب و متاثر ہوکر دین اسلام کاجدید ایڈیشن تیار کرنے کے لئے قرآن و حدیث کے الفاظ کے معانی اور دینی اصطلاحات کے مفاہیم بدلنے کی ناپاک جسارت کی ہے۔
ہمارے ہاں اس فتنے کی ابتدا سرسید احمد خان نے کی۔ پھر اُن کی پیروی میں دو فکری سلسلوں نے اس فتنے کو پروان چڑھایا۔ ان میں سے ایک سلسلہ عبداللہ چکڑالوی اورمولانا اسلم جیراج پوری سے ہوتا ہوا جناب غلام احمد پرویز تک پہنچتا ہے۔ دوسرا سلسلہ مولانا حمید الدین فراہی اورمولانا امین احسن اصلاحی سے گزرتا ہوا جناب جاوید احمد غامدی تک پھیلتا ہے۔ گویا یہ دونوں فکری سلسلے 'دبستانِ سرسید' کی شاخیں اور برگ و بار ہیں اور 'نیچریت' کے نمائندہ ہیں۔ اگرچہ پرویز صاحب اور غامدی صاحب کا طریق ِواردات الگ الگ ہے، تاہم نتیجے کے اعتبار سے دونوں یکساں ہیں۔ دونوں تجدد، انکار ِ حدیث، الحاد اور گمراہی کے علم بردار ہیں۔ دونوں اجماعِ اُمت کے مخالف اور معجزات کے منکر ہیں۔دونوں لغت ِ عرب کا سہارا لے کر دین اسلام کا تیا پانچا کرنے کے درپے ہیں۔ دونوں فاسد تاویلوں کے ذریعے اسلامی شریعت میں تحریف و تبدل اور ترمیم و تنسیخ کا ارتکاب کرتے ہیں۔
آج کی نشست میں ہم غامدی صاحب اور اُن کے 'امام' امین احسن اصلاحی صاحب دونوں کے ایک غلط ترجمے کی نشاندہی کریں گے جو اُنہوں نے قرآن مجید کی سورۂ اعلیٰ کے درج ذیل مقام پر کیا ہے:
وَٱلَّذِىٓ أَخْرَجَ ٱلْمَرْعَىٰ ﴿٤﴾ فَجَعَلَهُۥ غُثَآءً أَحْوَىٰ ﴿٥﴾...سورۃ الاعلیٰ
اپنی اُلٹی تفسیر 'البیان' (جو آخری سورتوں سے پہلی سورتوں کی طرف آتی ہے اور نامکمل ہے) میں غامدی صاحب نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے:
''اور جس نے سبزہ نکالا، پھر اُسے گھنا سرسبز و شاداب بنا دیا۔'' 1
اس کے علاوہ غامدی صاحب کے 'امام' امین احسن اصلاحی بھی اس مقام کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:
''اور جس نے نباتات اُگائیں، پھر اُن کو گھنی سرسبز و شاداب بنایا۔'' 2
پھر اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
''غثاء أحوی کا ترجمہ عام طور پر لوگوں نے کالا کوڑا یا سیاہ خس و خاشاک کیا ہے، لیکن عربی میں لفظ غثاء تو بے شک جھاگ اور خس و خاشاک کے معنی میں بھی آتا ہے لیکن أحوی ہرگز اس سیاہی کے لئے نہیں آتا جو کسی شے میں اس کی کہنگی، بوسیدگی اور پامالی کے سبب سے پیدا ہوتی ہے، بلکہ یہ اُس سیاہی مائل سرخی یا سبزی کے لئے آتا ہے جو کسی شے پر اُس کی تازگی، شادابی، زرخیزی اور جوشِ نمو کے سبب سے نمایاں ہوتی ہے۔''
''لفظ غثاء اگرچہ مکھن کے جھاگ اور سیلاب کے خس و خاشاک کے لئے بھی آتا ہے لیکن اس سبزہ کے لئے بھی اس کا استعمال معروف ہے جو زمین کی زرخیزی کے سبب سے اچھی طرح گھنا اور سیاہی مائل ہوگیا ہو۔'' 3
اس طرح سورۂ الاعلیٰ کی مذکورہ آیت 5 {فَجَعَلَهُۥ غُثَآءً أَحْوَىٰ}کے یہ دونوں ترجمے
''پھر اُسے گھنا و سبز و شاداب بنا دیا۔'' (غامدی صاحب کا ترجمہ)
ہمارے نزدیک بالکل غلط ہیں اور اس ترجمے اور مفہوم پر ہمارے اعتراضات یہ ہیں:
(1) یہ ترجمہ و مفہوم عربیت کے خلاف ہے۔ عربی زبان میں غُثاء کا لفظ 'گھنے سبزے' کے معنوں میں نہیں آتا۔
(2) یہ ترجمہ خود قرآن مجید کے نظائر کے خلاف ہے۔
(3) یہ ترجمہ احادیث کے شواہد کے بھی خلاف ہے۔
(4) یہ ترجمہ صحابہ کرامؓ اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ کے اقوال کے بھی خلاف ہے۔
(5) یہ ترجمہ اجماعِ امت کے بھی خلاف ہے کیونکہ کسی مفسر نے آج تک غُثائً کے معنی 'گھنے سبزے' کے نہیں کئے۔
ہمارے نزدیک اس مقام کا صحیح ترجمہ یہ ہے کہ
''اور جس نے سبز چارہ نکالا اور پھر اُسے سیاہ کوڑا کرکٹ بنا دیا۔''
اب ہم اپنے موقف کی تائید میں تفصیلی دلائل پیش کریں گے :
عربی لغت کے دلائل
مشہور عربی لغت لسان العرب میں اہل لغت کی یہ تصریحات موجود ہیں کہ''غثاء أحوی'' کے معنی سیاہ خشک گھاس یا خس و خاشاک کے ہیں۔
(1) ''الفراء في قوله تعالیٰ:{وَٱلَّذِىٓ أَخْرَجَ ٱلْمَرْعَىٰ ﴿٤﴾ فَجَعَلَهُۥ غُثَآءً أَحْوَىٰ ﴿٥﴾...سورۃ الاعلیٰ} قال: إذا صار النبت یبیسًا فھو غثآء، والأحوی: الذي قد اسود من القدم والعتق،وقد یکون معناہ أیضًا أخرج المرعی أحوی أي أخضر فجعله غثآء بعد خضرته فیکون مؤخرا معناہ التقدیم۔والأحوی: الأسود من الخُضرة کما قال: { مُدْهَآمَّتَانِ ﴿٦٤﴾...سورۃ الرحمن}'' 4
''فراء نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کہ{وَٱلَّذِىٓ أَخْرَجَ ٱلْمَرْعَىٰ ﴿٤﴾ فَجَعَلَهُۥ غُثَآءً أَحْوَىٰ ﴿٥﴾...سورۃ الاعلیٰ}کے بارے میں کہا ہے کہ جب نباتات سُوکھ کر خشک ہوجائے تو اسے غثآء کہتے ہیں اور أحوی اس چیز کو کہتے ہیں جو بوسیدگی اور قدامت کی وجہ سے سیاہ ہوجائے۔ اس کے معنی یہ بھی بیان کئے گئے ہیں کہ أخرج المرعی کہ اسے سبزاُگایا اور پھر خشک کردیا اور اس طرح دونوں جملوں میں تاخیر و تقدیم ہوگئی ہے اور أحوی کے معنی زیادہ سرسبز و شاداب ہونے کی وجہ سے سیاہ ہونے کے بھی ہیں جیسے (قرآن میں) مُدْهَآمَّتَانِ ﴿٦٤﴾...سورۃ الرحمن ''دو سرسبز سیاہی مائل باغ'' آیا ہے۔''
(2) ''وقال الزجاج في قوله تعالیٰ: {وَٱلَّذِىٓ أَخْرَجَ ٱلْمَرْعَىٰ ﴿٤﴾ فَجَعَلَهُۥ غُثَآءً أَحْوَىٰ ﴿٥﴾...سورۃ الاعلیٰ} قال: غثآء جفَّفه حتی صیّرہ ھشیما جافا کالغثآء الذي تراہ فوق السیل، وقیل معناہ أخرج المرعی الأحوی أی أخضر فجعله غثآء بعد ذلك أي یابسا'' 5
''الزجاج نے اللہ کے اس ارشاد{وَٱلَّذِىٓ أَخْرَجَ ٱلْمَرْعَىٰ ﴿٤﴾ فَجَعَلَهُۥ غُثَآءً أَحْوَىٰ ﴿٥﴾...سورۃ الاعلیٰ} کے بارے میں کہا ہے کہ غثآء بنا دینے سے مراد یہ ہے کہ اس سبزے اور نباتات کو خشک اور چورا بنا دیا جیسے سیلاب کے اوپر خس و خاشاک نظر آتے ہیں۔''
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے معنی ہیں أخرج المرعی الأحوی یعنی سبز نباتات کو اُگایا اور پھر اس کے بعد اسے غثآء یعنی خشک کردیا۔
(3) ابن قتیبہ نے 'تفسیر غریب القرآن' میں لکھا ہے کہ
''فجعله غثآء أی یبسا'' (پھر اسے غثآء بنا دیا یعنی خشک بنا دیا) أحوی ''أسود من قدمه و احتراقه'' (جو بوسیدگی یا جل کر راکھ ہونے کی وجہ سے سیاہ ہوچکا ہو۔''6
(4) مشہور لغوی مفسر علامہ زمخشری نے غُثَآء کے بارے میں یہ تحقیق کی ہے:
''وھو الحمیل السیل مما بلی وأسود من العیدان والورق'' 7
''{غُثَآئً} سے مراد سیلاب کے خشک اور سیاہ خس و خاشاک ہیں جو اصل میں بوسیدہ لکڑیوں کے ٹکڑے اور درختوں اور پودوں کے سُوکھے ہوئے پتے ہوتے ہیں۔''
(5) امام راغب اصفہانی 'المفردات فی غریب القرآن' میں لکھتے ہیں:
قولہ عزوجل: فجعله غثآء أحوی أي شدید السواد۔(مادہ 'حوا'کے تحت ) وقیل تقدیرہ: والذي أخرج المرعی أحوی فجعله غثآء،والحوة: شدة الخضرة 8
''اللہ تعالیٰ کے ارشاد: {فَجَعَلَہُ غُثَآئً أَحْوٰی}سے مراد گہری سیاہی ہے اوریہ بھی کہا گیا ہے کہ ترتیب کلام یوں ہے کہ وہ جس نے سبز چارہ نکالا پھر اسے سیاہ کردیا۔ ویسے حوة گہرے سبز رنگ کوبھی کہتے ہیں۔''
پھر مادّہ غثا کے تحت تحریر کیا ہے کہ
الغثائ: غثاء السیل والقدر،ویضرب به المثل فیما یضیع ویذھب غیر معتد به 9
''غثائ'' سے مراد سیلاب کا خس و خاشاک ہے۔ یہ مثال اُس چیز کے بارے میں دی جاتی ہے جو ضائع ہوکر ختم ہوجائے۔''
عربی تفاسیر کے حوالے سے
(1)تفسیر طبری میں علامہ ابن جریر طبری نے فَجَعَلَه غُثَآء أَحْوٰی کے تحت لکھا ہے کہ
(فجعله غثاء) فجعل المرعی غثائ، وھو ما جف من النبت ویبس، فطارت بہ الریح (الأحوی) متغیرا إلی الحوة،وھو السواد بعد البیاض، أو الخضرة 10
''پھر چارے کو غثاء بنا دیا اور غثاء کہتے ہیں اُس نباتات کو جو خشک ہوجائے اور جسے ہوا اُڑائے پھرتی ہو۔ الأحوی بنا دیا یعنی حوة میں تبدیل کردیا اور حوة کہتے ہیں اُس سیاہی کو جو سفیدی یا سبزی کے بعد ہوجائے۔''
(2) تفسیر الکشاف: میں غثاء کا مفہوم بیان کرتے ہوئے امام زمخشری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ
''أحوی صفة لغثاء: أي (أخرج المرعی) أنبته (فجعله) بعد خضرته ورفیفه (غثاء أحوی) درینا أسود، ویجوز أن یکون حالا من المرعی، أي أخرجه أحوی أسود من شدة الخضرة والري فجعله غثاء بعد حوته'' 11
''أحوی یہاں غثاء کی صفت کے طور پر آیا ہے۔ گویا أخرج المرعی سے مراد ہے کہ نباتات اُگائی اور فجعله غثاء أحوی یعنی اس کو تروتازہ سبزہ بنانے کے بعد سیاہ خشک کردیا۔ اور یہ معنی بھی جائز ہیں کہ أحوی حال ہو المرعی کا۔ اس صورت میں مفہوم یہ ہے کہ سبزہ اُگایا جو تروتازگی اور شادابی کی وجہ سے سیاہی مائل تھا اور اس کے بعد اسے خشک سیاہ بنا دیا۔''
(3) مشہور مفسر قرطبی نے غثآء کی لغوی تحقیق کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
الغثائ: الشيء الیابس یعنی ''غثآء سے خشک چیز مراد ہے۔''
پھر اس کی مزید تشریح کی ہے کہ
''الغثاء ما یقذف به السیل علی جوانب الوادي من الحشیش والنبات والقماش و یقال للبقل والحشیش إذا تحطم ویبس: غثاء وھشیم
''غثائ سے مراد وہ گھاس پھوس اور کوڑا کرکٹ ہے جسے سیلاب وادیوں کے کناروں پر پھینک دیتا ہے۔ جب سبزہ اور گھاس ریزہ ریزہ اور خشک ہوجائیں تو اُسے غثآء یا ہشیم کہا جاتاہے۔''
پھر اسی تفسیر میں غثآء أحوی کے بارے میں مشہور ماہرین لغت ابوعبیدہ رحمۃ اللہ علیہ اور عبدالرحمن بن زید رحمۃ اللہ علیہ کے یہ اقوال بھی ہیں:
''وقال أبو عبیدة : فجعله أسود من احتراقه وقدمه ،والرطب إذا یبس أسود، وقال عبد الرحمن بن زید: أخرج المرعی أخضر، ثم لما یبس أسود من احتراقه، فصار غثاء تذھب به الریاح والسیول''
''ابوعبیدہ نے اس غثاء أحوی کے بارے میں کہا ہے کہ اس کے معنی ہیں کہ اسے بوسیدہ ہونے یا جل کر راکھ ہونے کی وجہ سے سیاہ کوڑا کردیا، اور سبزہ جب خشک ہوجائے تو سیاہ ہوجاتا ہے۔ اور عبدالرحمن بن زید کا قول ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سبز نباتات اُگائی۔ پھر جب وہ خشک ہوئی اور سیاہ راکھ بن گئی تو وہ غثآء ہے، جسے ہوائیں اُڑاتی ہیں اور سیلاب بہا لے جاتے ہیں۔'' 12
(4)تفسیر البحر المحیط میں ابن حیان اندلسی رحمۃ اللہ علیہ نے غثآء أحوی کے ضمن میں لکھا ہے:
''قال ابن عباس المعنی فجعله غثاء أحوی: أي أسود لأن الغثاء إذا قدم وأصابته الأمطار أسود وتعفن فصار أحوی'' 13
''ابن عباسؓ کا قول ہے کہ غثآء أحوی کے معنی ہیں کہ غثاء یعنی خشک نباتات سیاہ ہوگئی۔ کیونکہ خشک نباتات جب بوسیدہ ہوجاتی ہے تو بارش وغیرہ کے اثر سے گل سڑ کر سیاہ ہوجاتی ہے اور أحوی ہونے کے یہی معنی ہیں۔''
(5) امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر فتح القدیر میں فجعله غثاء أحوی کے تحت لکھتے ہیں:
''أي: فجعله بعد أن کان أخضر غثاء،أي: ھشیما جافا کالغثاء یکون فوق السیل۔(أحوی) أي: أسود بعد اخضرارہ،وذلك أن الکلأ إذا یبس أسود۔ قال قتادة : الغثاء الشيء الیابس۔ 14
''مطلب یہ ہے کہ اس سبزے کو غثاء بنا دیا اور غثاء اُس خس و خاشاک کو کہتے ہیں جو سیلاب کے اُوپر آجاتا ہے اور أحوی بنا دیا یعنی جو پہلے سبز تھا، اُسے سیاہ بنا دیا کیونکہ گھاس پھونس جب خشک ہوجائے تو سیاہ ہوجاتی ہے۔ (مشہور تابعی) قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ غثاء خشک چیز کو کہتے ہیں۔''
(6) تفسیر قاسمی (محاسن التأویل) میں محمد جمال الدین قاسمی نے لکھا ہے کہ
''المرعی: أي أخرج من الأرض مرعی الأنعام من صنوف النبات ''فجعله'' أي بعد خضرته ونضرته ''غثآء'' أي جافا یابسا تطیر به الریح۔ ''أحوی'' أی أسود،صفة مؤکدة (لغثاء) لأن النبات إذا یبس تغیر إلی (الحوة) وھي السواد'' 15
''المرعی کے معنی ہیں کہ زمین سے مختلف قسم کی نباتات اُگائیں جو مویشیوں کے لئے گھاس چارہ ہے۔ فجعله غثآء یعنی اس نباتات کو سرسبزی و شادابی کے بعد اُسے ایسا خشک کردیا جسے ہوا اُڑائے پھرتی ہے۔ اور أحوی کے معنی 'سیاہ' کے ہیں اور یہ غثآء کی صفت کے طور پر آیا ہے کیونکہ جب سبزہ خشک ہوجاتا ہے تو اس کا رنگ سیاہ ہوجاتا ہے۔''
(7) تفسیر ابن کثیر میں حضرت ابن عباسؓ سے غثآء أحوی کی یہ تفسیر بھی منقول ہے کہ
''فجعله غثآء أحوی'' قال ابن عباس ھشیما متغیرا 16
''یعنی اس سے مراد ہے سیاہ رنگ میں تبدیل شدہ کوڑا، چُورا۔''
لُغت و تفسیر کی ان تصریحات سے درج ذیل اُمور بالکل واضح ہیں:
(1) لفظ غثآء کے لغوی معنی یہ ہیں:
''خس و خاشاک ، سُوکھی ہوئی گھاس پھونس، خشک نباتات، خشک چورا اور کوڑا کرکٹ وغیرہ۔''
(2) لفظ أحوی کے لغوی معنی دو ہیں:
(i) ایسی نباتات جو بوسیدہ اور پُرانی ہونے کی وجہ سے سیاہ ہوچکی ہو۔
(ii) ایسی نباتات جو تازگی و شادابی اور زرخیزی کی وجہ سے سیاہ مائل سبز ہوگئی ہو۔
(3) پھر جن لوگوں نے لفظ أحوی کو غثآء کی صفت مانا ہے، اُنہوں نے اس کے پہلے معنی مرادلئے ہیں۔ یعنی کہنگی اور بوسیدگی کی وجہ سے سیاہ ہونے کامفہوم اور ان کے نزدیک دونوں آیات کا مطلب یہ ہے کہ
''وہ جس نے نباتات اُگائی اور پھر اسے سیاہ خس و خاشاک بنا دیا۔''
(4) جن لوگوں نے احوی کو المرعی کی صفت ِمؤخر قرار دیا ہے، اُنہوں نے أحوی کو مذکورہ دوسرے معنوں میں لیا ہے اور ان کی رائے میں دونوں آیات کا مفہوم یہ ہے:
''وہ جس نے سیاہی مائل سبز نباتات اُگائی اور پھر اسے خس و خاشاک بنا دیا۔''
گویا أحوی کے دو مختلف لُغوی معنوں کے باوصف جس مفہوم پر علماے لُغت اور مفسرین کرام رحمۃ اللہ علیہ کا کامل اتفاق اور اجماع ہے، وہ یہ ہے کہ
''اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ و عجیبہ ہے کہ اس نے پہلے سبزہ پیدا کیا اور ہر طرح کی نباتات اُگائی اور پھر کچھ عرصے کے بعد اُسے خس و خاشاک اور خشک و سیاہ چورے میں تبدیل کردیا۔''
سورۂ اعلیٰ کی ان دونوں آیات کی یہی تفسیر قرآنِ مجید کے دوسرے نصوص اور نظائر سے مطابقت رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر قرآن کی درج ذیل آیات ملاحظہ ہوں:
قرآن مجید کے نظائر
(1) سورۂ زمر میں اِرشاد ہوا
أَلَمْ تَرَ أَنَّ ٱللَّهَ أَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً فَسَلَكَهُۥ يَنَـٰبِيعَ فِى ٱلْأَرْضِ ثُمَّ يُخْرِجُ بِهِۦ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا أَلْوَٰنُهُۥ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَىٰهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُۥ حُطَـٰمًا ۚ إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِأُولِى ٱلْأَلْبَـٰبِ ﴿٢١﴾...سورۃ الزمر
''کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ ہی آسمان سے پانی اُتارتا ہے۔ پھر اسے چشمے بنا کر زمین میں چلا دیتا ہے۔ پھر اس کے ذریعے سے مختلف رنگوں کی کھیتی اُگاتا ہے، پھر وہ خوب بڑھتی ہے۔ پھر تو اُسے زرد شدہ دیکھتا ہے، پھر وہ اسے ریزہ ریزہ کردیتا ہے۔ بے شک اس میں عقل مندوں کے لئے بڑی نصیحت ہے۔''
(2) سورۂ حدید میں فرمایا گیا ہے :
ٱعْلَمُوٓاأَنَّمَا ٱلْحَيَوٰةُ ٱلدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌۢ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌفِى ٱلْأَمْوَٰلِ وَٱلْأَوْلَـٰدِ ۖ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ ٱلْكُفَّارَ نَبَاتُهُۥ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَىٰهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَـٰمًا...﴿٢٠﴾...سورۃ الحدید
''جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا اور زیبائش اور آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور ایک دوسرے سے زیادہ مال اور اولاد چاہنا ہے، جیسے بارش کی حالت کہ اس کی روئیدگی سے کسان خوش ہوجائیں پھر وہ اُبھرے اور تم اُسے زرد دیکھو، پھر وہ ریزہ ریزہ ہوجائے۔''
(3) سورۂ کہف میں بیان ہوا :
وَٱضْرِبْ لَهُم مَّثَلَ ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا كَمَآءٍ أَنزَلْنَـٰهُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ فَٱخْتَلَطَ بِهِۦ نَبَاتُ ٱلْأَرْضِ فَأَصْبَحَ هَشِيمًا تَذْرُوهُ ٱلرِّيَـٰحُ ۗ وَكَانَ ٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ مُّقْتَدِرًا ﴿٤٥﴾...سورۃ الکہف
''اور ان سے دنیا کی زندگی کی مثال بیان کرو جیسے پانی کہ جسے ہم نے آسمان سے برسایا پھر زمین کی روئیدگی پانی کے ساتھ مل گئی۔ پھر وہ ریزہ ریزہ ہوگئی جسے ہوائیں اُڑاتی پھرتی ہیں۔ اور اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔''
آخری آیت میں {وكَانَ اه على كُلِّ شَيء مُّقْتَدِرًا} (اور اللہ ہر چیز پر پوری طرح قدرت رکھنے والا ہے) سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ سرسبز نباتات اُگانا اور پھر اُسے زرد خشک اور سیاہ خس و خاشاک کردینا اور اُسے چُورا بنا دینا اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہے۔ اور یہی مضمون سورۂ اعلیٰ کی زیر بحث آیات میں بھی دہرایا گیا ہے اور یہ چیز قرآن مجید میں تصریف ِآیات کے اُسلوب کے بالکل مطابق ہے کہ ایک ہی مضمون بار بار کئی طرح بیان ہوتا ہے اور اس سے ایک اور مقصد بھی پورا ہوجاتا ہے کہ''القرآن یفسر بعضه بعضا'' یعنی ''قرآن کا بعض حصہ اس کے بعض حصے کی تفسیر کرتا ہے۔'' گویا قرآن اپنی تفسیر آپ کردیتا ہے۔
حدیث سے دلیل
قیامت کے بارے میں ایک حدیث میں غثاء کا لفظ یوں آیا ہے:
''کما تنبت الحبة في غثاء السیل'' 17
''جیسے سیلاب کے خس و خاشاک میں دانہ اُگتا ہے۔''
اس میں لفظ غثاء کی وضاحت ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب النهایة میں یوں کی ہے کہ
الغُثآء بالضم والمدّ: ما یجيء فوق السیل مما یحمله من الذبد والوسخ وغیرہ 18
''مطلب یہ ہے کہ غثاء اُس جھاگ اور کوڑا کرکٹ کو کہتے ہیں جو سیلاب کے پانی کے اُوپر آتا ہے۔''
خلاصہ کلام:یہ ہے کہ سورۂ اعلیٰ کی زیر بحث آیات کا وہی مفہوم صحیح اور معتبر ہے جس کی تائید لغت سے ہوتی ہے اور جس کی موافقت قرآنی نصوص اور نظائر سے بھی موجود ہے اور جو اُمت ِمسلمہ کے تمام جلیل القدر مفسرین کرام کی متفقہ تفسیر کے بالکل مطابق ہے۔ ذوقِ اختلاف، شوقِ اجتہاد!!
تضاد بیانی
خود تدبر قرآن میں غامدی صاحب کے 'امام' امین احسن اصلاحی نے جہاں قرآن میں دوسرے مقام پر'غثائ' کا لفظ آیا ہے، اس کا ترجمہ خس و خاشاک ہی کیا ہے :
فَأَخَذَتْهُمُ ٱلصَّيْحَةُ بِٱلْحَقِّ فَجَعَلْنَـٰهُمْ غُثَآءً...﴿٤١﴾...سورۃ المومنون
''تو اُن کو ایک سخت ڈانٹ نے شُدنی کے ساتھ آدبوچا۔ تو ہم نے اُن کو خس و خاشاک کردیا۔'' 19
اس طرح قرآنی لفظ غثاء کے معنی 'امام صاحب' ایک جگہ خس و خاشاک ، اور دوسری جگہ 'گھنی سرسبز، یا 'گھنا سبزہ' کے لیتے ہیں۔ع جناب شیخ کانقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی!
اُردو تراجم
اب ہم مذکورہ آیت کے سلسلے میں پاک و ہند کے علمائے کرام کے مستند اور متداول تراجم پیش کرتے ہیں:
(i)شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ :شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے فارسی ترجمے 'فتح الرحمن'میں مذکورہ آیت کا یہ ترجمہ کیا ہے:
''وآنکہ بر آورد گیاہِ تازہ را ۔ باز ساخت آں را خشک شدہ سیاہ گشتہ''
(اور جس نے تازہ چارا نکالا، پھر اُسے خشک سیاہ بنا دیا۔ راقم)
(ii)شاہ رفیع الدین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا ترجمہ
''اور جس نے نکالا چارہ، پس کردیا اس کو کوڑا سیاہ''
(iii) شاہ عبدالقادر دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا ترجمہ
''اور جس نے نکالا چارہ ۔ پھر کرڈالا اس کو کوڑا کالا''
(iv) مولانا فتح محمد خان جالندھری رحمۃ اللہ علیہ کا ترجمہ
''اور جس نے چارہ اُگایا، پھر اُس کو سیاہ رنگ کا کوڑا کردیا''
(v)مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کا ترجمہ
''اور جس نے چارہ پیدا کیا۔پھر اس کو خشک سیاہ کردیا۔''
(vi)نواب وحید الزمان رحمۃ اللہ علیہ کا ترجمہ
''اور جس نے (جانوروں کے لئے) چارہ نکالا۔ پھر اس کو (سکھا کر) کوڑا بنا دیا کالا کردیا۔''
(vii)مولانا محمود حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ کا ترجمہ
''اور جس نے نکالا چارہ ۔ پھر کرڈالا اُس کو کوڑا سیاہ''
(viii)مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ترجمہ
''اور جس نے (زمین سے) چارہ نکالا، پھر اُس کو سیاہ کوڑا کردیا۔''
(ix)مولانا عبدالماجد دریا بادی رحمۃ اللہ علیہ کا ترجمہ
''اور جس نے چارہ (زمین سے) نکالا، پھر اُسے سیاہ کوڑا کردیا۔''
(x) مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ کا ترجمہ
''جس نے نباتات اُگائیں، پھر اُن کو سیاہ کوڑا کرکٹ بنا دیا۔'' 20
کیا یہ سب حضرات عربیت سے نابلد تھے اور ان کو عربی نہیں آتی تھی؟ حقیقت یہ ہے کہ جب مذکورہ آیت کے ایک ہی ترجمے اور مفہوم پر صحابہؓ و تابعین رحمۃ اللہ علیہ سمیت پوری اُمت مسلمہ کے مفسرین متفق ہیں تو یہی ترجمہ لُغت کی رُو سے درست ہے۔ قرآن و حدیث کے نظائر و شواہد کے مطابق بھی یہی ترجمہ ہے تو پھر اس سے ہٹ کر اس آیت کا کوئی اور ترجمہ اخذ کرنا گمراہی اور جہالت کے سوا کچھ نہیں!!
حوالہ جات
1. البیان: صفحہ 165
2. تدبر قرآن: 9؍311
3. تدبر قرآن: جلد9؍صفحہ 315
4. لسان العرب: ج14 ؍ص207
5. لسان العرب ازابن منظور: جلد15 ؍ص116
6. تفسیر غریب القرآن:ص524 ، طبع بیروت
7. الکشاف للزمخشري،جلد3 ؍ص32، طبع بیروت
8. ص:271
9. ص602، طبع دارالقلم ، دمشق1416ھ
10. تفسیر طبری، سورة الاعلیٰ
11. الکشاف :جلد4؍ ص243، طبع مصر
12. ملاحظہ ہو، تفسیر قرطبی: جلد10؍ص17،18 طبع بیروت
13. البحر المحیط: جلد8؍ ص458
14. فتح القدیر: ص1889
15. تفسیر قاسمی: جلد10؍ ص126، طبع بیروت
16. بحوالہ تفسیر ابن کثیر:4؍500
17. سنن دارمی: 1؍61، مسند احمد: 12013
18. النهایة في غریب الحدیث والأثر:جلد3؍ صفحہ 343
19. تدبر قرآن: جلد5؍ صفحہ 312
20. تفہیم القرآن: 6؍310
(1)