میرے عظیم مُحسن
سلطان المناظرین مولانا حافظ عبدالقادر روپڑؔی ؒ
نام ونسب اور خاندان
آپ کا سلسلۂ نسب یوں ہے: عبدالقادر بن میاں رحیم بخش بن میاں روشن دین... دادا میاں روشن دین موضع کمیر پور، تحصیل اجنالہ، ضلع امرتسر رہتے تھے ۔ درحقیقت کمیر پور ان کا اصل وطن نہیں ان کے آبائواجداد ایمن آباد ضلع گوجرانوالہ کے باشندہ تھے... میاں روشن دین اکثر علما ء کی صحبت میں رہتے اس وجہ سے ان کو علم دین سیکھنے کا شوق پیدا ہوا اور یہ شوقِ جنون اس حد تک بڑھ گیا کہ سب کچھ فروخت کرکے، بیوی کوطلاق دے کر حافظ محمدلکھویؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے فرمایا پہلے بیوی سے رجوع کرو پھر پڑھنے کو آسکتے ہو، کمیر پور واپس آئے ، بیوی سے رجوع کیا اورپھردوبارہ لکھوکی چلے گئے ۔یہ ۱۳۰۱ھ کا واقعہ ہے۔
چنانچہ آپ کی یہ بھی انتہائی تمنا رہی کہ سب کی سب اولاد بھی عالم دین اور خادمِ دین ہو، اللہ کی خصوصی توفیق کے ساتھ آپ نے عملاً اس آرزو کو تکمیل کے مراحل تکپہنچایا۔ آپ نے ۲۷ ؍ذی الحجہ ۱۳۴۲ھ بمطابق ۳۰؍ جولائی ۱۹۲۴ء روپڑ میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔
میاں رحیم بخش ۱۳۰۱ھ کمیر پور میں پیدا ہوئے۔ ۵ ؍صفر ۱۳۵۳ھ بمطابق ۲۰ ؍مئی ۱۹۳۴ء کمیر پور میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔
میاں رحیم بخش کے چار بیٹے اور ایک بیٹی تھیں۔ سب سے بڑے بیٹے حافظ محمد مرحوم تھے ۔ قیام پاکستان سے پہلے ہی ماڈل ٹائون،لاہور میں رہائش پذیر تھے۔ ۱۲؍ شوال ۱۳۸۶ھ بمطابق ۲۴ ؍جنوری ۱۹۶۷ء وفات پائی اور گارڈن ٹائون کے خاندانی قبرستان میں دفن ہوئے۔
دوسرے بیٹے حافظ محمد اسمٰعیل نے روپڑ میں قرآنِ مجید حفظ کیا۔ فراغت تک تمام علوم حضرت محدث روپڑی ؒسے حاصل کئے۔ شیریں بیان خطیب، شعلہ نوا مقرر، توحید و سنت کے سرگرم داعی اور حق و صداقت کے بے باک علم بردار۔ انہوں نے ملک کے کونہ کونہ میں توحید و سنت کی تبلیغ و اشاعت کی۔ پوری ملت ان کی دینی خدمات اور اخلاقِ حسنہ پر فخر کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔ ۴ ؍شعبان ۱۳۸۱ھ بمطابق ۱۲ ؍جنوری ۱۹۶۲ء لاہور میں وفات پائی۔
ـ؎ بڑے شوق سے سن رہا تھا زمانہ ہمی سوگئے داستان کہتے کہتے !!
آپ کو اپنے حقیقی چچا اور سسرحافظ محمد حسین (والد حافظ عبدالرحمن مدنی) کے پہلو میں گارڈن ٹائون لاہور کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔
حافظ احمد عرف محمود احمدقرآنِ مجیدکے حافظ، عالم دین، مسجد ِقدس چوک دالگراں لاہور کے نائب ناظمتھے۔ مسجد ِقدس کی وسعت اور تعمیر و ترقی میں زندگی بھر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور جامعہ اہلحدیث کے لئے فراہمی ٔزر میں ہمیشہ پیش پیش رہتے ۔ عربی کے علاوہ فارسی زبان میں ان کو ید ِطولیٰ حاصل تھا۔ سینکڑوں فارسی اشعار ان کو زبانی یاد تھے۔ مخلوق کی دینی، سیاسی اور سماجی کاموں میں مساعدت و معاونت کرنا اورمظلوموں ،بیوائوں کی دادرسی کرنا وہ اپنا مذہبی فریضہ سمجھتیتھے۔ عاجز(راقم الحروف) پر ان کے بڑے احسانات ہیں جن کا بدلہ چکانا میرے لئے ممکن نہیں۔ ربّ العزت کے حضور دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات کو قبول فرما کر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عنایت فرمائے۔ آمین!... مرحوم عمر میں حافظ عبدالقادر سے ۳ سال چھوٹے تھے۔ خدماتِ دینیہ میں ان کے شانہ بشانہ رہتے۔ ۱۹۱۸ء میں پیدا ہوئے، ۱۱ ؍ذی الحجہ ۱۴۰۹ھ بمطابق ۱۵ ؍جولائی ۱۹۸۹ء امریکہ میں و فات پائی۔ ۲۰ ؍جولائی ۱۹۸۹ء گارڈن ٹائون، لاہور کے قبرستان میں دفن ہوئے۔
چوتھے بھائی، سلطان المناظرین حافظ عبدالقادر روپڑی ایک ممتاز عالم دین، نامور خطیب، کامیاب مبلغ، یکتا مناظر، علم و فضل کے اعتبار سے بلند و بالا مقام کے حاملتھے۔ صغر سنی میں قرآنِ مجید حفظ کیا، فراغت تک اکثرعلوم محدث روپڑی سے حاصل کئے۔
۱۹۱۵ء میںپیدا ہوئے۔ ۶ ؍دسمبر ۱۹۹۹ء بروز سوموار داعی ٔاجل کو لبیک کہا۔بروز منگل بعد از ظہر راقم الحروف نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ گارڈن ٹائون لاہور میں خاندانی قبرستان میں دفن ہوئے۔
میرے تعارف کا آغاز
۱۹۵۳ء کی بات ہے، ہمارے قصبہ سرہالی کلاں، ضلع قصور میں سید ہدایت اللہ کنگن پوریؒ اور مولانا عبداللہ کلسوی ؒ کی مساعی سے ایک عظیم الشان سہ روزہ کانفرنس سید اسمٰعیل مشہدی کے زیر صدارت منعقد ہوئی۔ اس میں پنجاب بھر کے تقریباً تمام مشاہیر خطبائِ کرام اور علمائِ عظام شریک تھے۔ اس زمانہ میں معمول تھا کہ استراحت کے مخصوص اوقات کے علاوہ دعوتی پروگرام شب و روز جاری رہتا اور مدعوین علماء اختتامی نشست تک وہاں قیام کرنا دینی فرض سمجھتے تھے۔ اس کا فائدہ عامۃ الناس کو یوں پہنچتا کہ وہ علماء کے عمل سے آگاہی حاصل کرنے کے علاوہ اپنے الجھے ہوئے مسائل کا حل اصحابِ علم سے تلاش کر لیتے۔وائے افسوس آج کے پرفتن دور میں سائل اور مسئول عنہ دونوں عملی کوتاہی کا شکار نظر آتے ہیں ۔ الا ماشاء اللہ...اس کانفرنس میں روزانہ نمازِ فجر کا درسِ قرآنِ مجید ہمارے محترم استاد محدث روپڑی ؒکے ذمہ ہوتا تھا۔ دورانِ درس وجدانی تاثیر سے خود بھی روتے اوردوسروں کو بھی رُلاتے۔
محدث روپڑی کے دونوں بھتیجے حافظ محمد اسماعیل روپڑی اور حافظ عبدالقادر روپڑی رحمہما اللہ بھی اس عظیم الشان پروگرام میں شریک تھے۔ تینوں نے پٹھانی انداز میں اپنے سروں پر کلے سجائے ہوئے تھے جو دیکھنے والوں کے لئے رعب دار حسین منظر پیش کر رہے تھے۔ان بزرگوں اور سلاطین العلم سے یہ میرا پہلا تعارف تھا۔
راقم الحروف اس زمانہ میں اپنے گائوں میں قرآنِ کریم حفظ کر رہا تھا، خالق کائنات کو منظور تھا کہ تھوڑا ہی عرصہ بعد یہی اربابِ علم میرے مربی اور اتالیق قرار پائے۔ میرے لئے ان کے احسانوں کا بدلہ حیاتِ مستعار میں دینا بڑا مشکل ہے، البتہ ربّ ِکریم کے حضور فریاد کناں ہوں کہ ان کو اعلیٰ علیین میں مقام عطا فرمائے۔ آمین!
جامعہ اہل حدیث(مسجد ِقدس)لاہور میں داخلہ :حفظ قرآن سے فراغت کے بعد ہمارے گائوں کے ایک نیک دل بزرگ اور علماء کے خادم حاجی عبدالعزیز ؒنے مجھے مزید دینی تعلیم کے حصول کی ترغیب دی۔ والدین سے مشورہ کے بعد مجھے اور میرے عم زاد حافظ مقبول احمد مرحوم کو جو میرے ساتھ ہی حفظ سے فارغ ہوئے تھے، ۱۹۵۴ء میں جامعہ اہلحدیث، لاہور میں داخلہ دلوا دیا گیا۔ پہلی دفعہ حاجی عبد العزیزصاحب بذاتِ خود ہمارے ساتھ آئے اوربعد میں بھی مسلسل رابطہ رکھا۔ کئی کئی روز تک ہمارے پاسقیام کرتے اور محدث روپڑی کے پہلو میں بیٹھ کر مسائل سے خوب مستفید ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ اَن پڑھ ہونے کے باوجود ان کو مسائل کا عمدہ فہم اور ادراک حاصل تھا۔باہر سے آنے والے مہمانانِ گرامی بسا اوقات یہ سمجھتے کہ حاجی صاحب ہمارے والد ہیں جس پرہمیں صراحت کرنا پڑتی کہ یہ ہمارے والد نہیں بلکہ ہمارے سرپرست ہیں۔ حاجی عبدا لعزیزمرحوم۱۹۶۹ء کو ہمارے گائوں سرہالی کلاں، قصورمیں فوت ہوئے۔
میرے عم زادحافظ مقبول احمد مرحوم یہاں سے فراغت کے بعد مدینہ یونیورسٹی میں ہمارے ساتھ آملے۔حصولِ تعلیم کے بعد شارجہ کو اپنا مستقر بنایا۔ سولہ سال تک متحدہ عرب امارات کے کونہ کونہ میں دعوت ِتوحید و سنت دیتے رہے جہاں ۱۲؍ مدارس ان کی زیر نگرانی تھے۔دنیا بھر کے دینی مدارس و جامعات کی اِمداد کرانا وہ اپنا دینی فرض سمجھتے تھے" تقبّل اللہ جهودہ الطیبة للإسلام والمسلمین"! یکم اگست ۱۹۹۴ء آپ لاہور میں خالق حقیق سے جاملے، اپنے گائوں میں دفن ہوئے۔
تعلیم کا آغاز
شروعسے ہی محدث روپڑیؒ نے ہماری عمدہ تعلیم و تربیت کا اہتمام فرمایا۔ میزان الصرف، میزانِ مُنشعِب، نحو میر، صرف میر، زرا دی،ہدایۃ النحو، اَبواب الصرف، مرقات جیسی درسی کتابیںبڑی محنت سے ہمیں خودپڑھائیں ۔ ابواب الصرف کے ابواب رات کے کھانے کے وقت سنا کرتے اور بعض دفعہ چوک دالگراں سے لے کر میوہسپتال تک پیدل چلتے چلتے سنتے جاتے کیونکہ ماڈل ٹائون جانے کے لئے آپ رتن چن کی سرائے سے روزانہ عشاء کے بعد بس پر سوار ہوتے۔
بعض زائرین مشورہ دیتے کہ حضرت چھوٹی کتابوں کے بجائے آپ بڑی کلاسوں کو پڑھایا کریں، جواباً فرماتے: میں ان کی بنیادیں پختہ کر رہا ہوں تاکہ بلند و بالا عمارت کی استواری میں فرق اور جھول نہ آنے پائے، جب قرآن مجید کا ترجمہ شروع کرایا تو آغاز سورئہ ق سے کیااور فرمایا: میں نے اس لئے یہاں سے شروع کر ایا ہے کہ اپنے استاد امام عبدالجبار غزنوی ؒسے میں نے اسی مقام سے شروع کیاتھا جب سبق پڑھاتے تو تقریباً سارا وقت آنسو بہاتے ہوئے گزرتا۔
اسباق میں مشارکت
حافظ عبدالقادر کی عادت تھی کہ اکثر و پیشتر اسباق میں وہ بھی ہمارے ساتھ آ بیٹھتے۔ اسی اثناء میں کئی مسائل پر بحث مباحثہ چل پڑتاجس سے طلبہ کو بہت فائدہ حاصل ہوتا۔ ہمارے استاد محدث روپڑی کی عادت تھی کہ کئی ایک مقامات پر اعتراضات و اشکالات وارد کرکے جوابات طلبہ سے مانگتے۔جواب کی صورت میں کئی دفعہ اشکال در اشکال پیدا کرکے طلبہ کی ذہنی تربیتکرتے تاکہ فہم و رسوخ پیدا ہو۔ اس سلسلہ میں ہماری بہت ساری معاونت حافظ عبدالقادر ؒروپڑی کیا کرتے تھے جس سے ہمیں بہت فائدہ پہنچتا۔ پھر علیحدہ مذاکرہ کی صورت میں بھی حافظ عبد القادرہمارے ساتھ بیٹھ کر سبق یاد کرانے کی کوشش کرتے تاکہ استاذ کا بیان کردہ کوئی نکتہ فوت نہ ہونے پائے۔ حفظ سے ہماری فراغت چونکہ تازہ تازہ ہوئی تھی، موصو ف کا معمول تھا کہ روزانہ منزل سنتے تاکہ ضبط ہو اور کبھی موقعہ میسر نہ آتا تو کسی دوسرے کے ذمہ لگا دیتے کہ ان کی منزل سنو۔
شرح مشکوٰۃ المصابیح اور انتقاض الاعتراض کے معاون کی حیثیت سے
ہمارے استاذِمحترم محدث روپڑی ؒنے جب مشکوٰۃ المصابیح کی شرح لکھنے کا ارادہ فرمایا تو اس کے محرر موصوف ہی تھے۔ جس کی بڑی دو وجوہ ہیں: اوّل تو بذاتہ ان کو اس کام کا بے حد شوق تھا۔دوسری وجہ یہ کہ ان کا خط نہایت شاندار تھا ﴿تَسُرُّ النّـٰظِرينَ ٦٩ ﴾... سورة البقرة" ربّ ُالعزت نے حافظ عبد القادر روپڑیؒ کو اتنا خوش خط بنایا کہ دیکھنے والا داد دیئے بغیر نہ رہ سکتا۔ مغرب اور عشاء کا درمیانی وقت اس شرح کو لکھنے کے لئے مخصوص تھا۔ یہ شرح مظہر النکات کے نام سے موسوم تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس شرح میں ایسے عظیم اور عجیب و غریب نکات بیان ہوتے کہ پڑھنے والا دنگ رہ جاتا۔ صاحب ِہدایہ، صاحب ِنورالانو ار، ملا علی قاری اور شیخ رشید رضا مصری وغیرہ پر محدثانہ اور محققانہ انداز میں بعض مقامات پر تعلیقات یا تعاقب کرنا محدث روپڑی کا ہی مقام تھا۔ یہ شرح کتاب الإیمان فی القدرتک مکمل ہوئی تھی۔ میں نے کوشش کرکے اس شرح کا کچھ حصہ نقل کر لیا اور جونقل نہ کرسکاوہ ایک ہنگامہ کی نذر ہوگیا جس کا اب کوئی اتہ پتہ نہیں۔ جوحصہ میر ے پاس تھا، اس کی ایک کاپی راقم الحروف نے حافظ عبد القادر روپڑی ؒکے سپرد کردی تھی تاکہ ریکارڈ میں رہے بلکہ میرے ہی مشورہ پر وہ حصہ ہفت روزہ ''تنظیم اہل حدیث'' میں شائع بھی ہوگیا۔
ایک دوسرے موقعہ پر بعض اہل علم نے ہمارے استاد محدث روپڑی کو توجہ دلائی کہ کتاب انتقاض الاعتراض کو شائع کرنا چاہئے۔ موصوف نے جب اس کا قلمی نسخہ دیکھا تواس میں بہت ساری اَغلاط تھیں۔ اس کتاب کا اصل نسخہ دارالکتب مصریہ میں ہے(۱) جس کی نقل رامپور کے کتب خانہ میںبھی ہے،اس سے نسخہ ہذا کو نقل کیا گیا تھا جس کی ایک نقلمولانا محمد اسمٰعیل سلفی گوجرانوالہ کے پاس بھی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ اس کی ایک نقل مرکزی جمعیت اہلحدیث کی سالانہ سیالکوٹ کانفرنس میں ہمارے استاد عطیہ محمد سالم قاضی ٔمدینہ منورہ کو عطا کی گئی تھی اور جو کاپی ہمارے شیخ محدث روپڑی کے پاس تھی، یہ نسخہ دراصل ہمارے استاد مولانا قادر بخش بہاولپوری رحمہ اللہ کی ملکیت تھا۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ مرحوم کی وفات کے بعد ان کی آل اولاد نے اس کو پانچ ہزار روپے میں فروخت کر دیا تھا ۔
حاصل یہ ہے کہ اس نسخہ کی تصحیح میں محدث روپڑی کے معاون حافظ عبدالقادر روپڑی تھے۔ تصحیح اغلاط کے بعداس کتاب کو علیحدہ اپنے قلم سے نقل کرتے تھے تاکہ کوئی ابہام باقی نہ رہے۔
اس تالیف کا مختصراً پس منظر یہ ہے کہ علامہ بدر الدین عینی حنفی نے عمدۃ القاری شرح بخاری میں حافظ ابن حجر کی کتاب فتح الباری کے کئی ایک مقامات پر اعتراضات کئیہیں جن کے جوابات حافظ ابن حجر نے کتاب انتقاض الاعتراض کی صورت میں دیئے ہیں، موصوف کا یہ عظیم شاہکار ہے۔راقم الحرو ف نے ان دونوں کتابوں کو مقابلۃً پڑھا تو مجھے یہ نظر آیا کہ علامہ بدرالدین بہت ساری عبارتیں بلا حوالہ فتح الباری سے ہی نقل کرتے چلے جاتے ہیں اور جہاں حافظ ابن حجر پر اعتراض مقصود ہو تو وہاں بعض الناس کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔افسوس کہ یہ کام بھی ادھورا رہ گیا جو پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔
پھر ہمارے استاذمحدث روپڑی نے قرآن مجید کی تفسیر بھی شروع کی تھی۔ اس میں سورۃ فاتحہ سمیت پہلا پارہ مکمل کیا۔ اس کی تکمیل ۲۳؍جنوری ۱۹۶۴ء بروز جمعرات ہوئی۔ اس کام میں ان کے کاتب ان کے بیٹے حافظ محمد جاوید تھے۔حافظ عبدالقادر صاحب گاہے بگاہے مشاہدہ کرکے اظہارِ مسرت فرماتے۔ محدث روپڑی نے عجیب و غریب نکات اس میں سمو دیئے ہیں جو عام متداول تفاسیر میں شاید آسانی سے نہ مل سکیں۔
طلبہ سے شفقت کا اظہار
حافظ عبد القادر روپڑی بحیثیت ِناظم جامعہ مشفق باپ کی طرح طلبہ کے مسائل، حاجات اور ضروریات کا پوری طرح خیال رکھتے۔ لگن ، محنت، دلچسپی سے انہیں حل کرنے کے لئے کوشاں رہتے ۔ اگر کبھی غیر حاضری میں کوئی مسائل جنم لیتے تو ان کا مداوا کرنے کی کوشش کرتے۔
شہر میں احباب شوق اور پیار و محبت سے آپ کو دعوتوں پر بکثرت مدعو کرتے ۔ان کی عادت تھی کہ عام طور پر بلا امتیاز چند طلبہ کو بھی ہمراہ لے جاتے۔ صاحب ِخانہ کو بھی علم ہوتا تھا کہ ایک کی بجائے میں نے متعدد احباب کے کھانے کا بندوبست کرنا ہے، جسے وہ اپنے اوپر بوجھ تصور نہیں کرتے تھے بلکہ بخوشی انتظام کرنا سعادت مندی سمجھتے۔ ۱۹۶۳ء میں راقم الحروف اور میرے قریبیساتھی مولانا عبدالسلام کیلانی کو مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ محدث روپڑی اور موصوف کی ہی مساعی ٔجمیلہ سے ملا تھا۔ سعودی عرب کے رئیس القضاۃ شیخ محمد بن ابراہیم آلِ شیخ اور سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز کے ساتھ ان کے مثالی تعلقات تھے۔ شیخ ابن باز نے محدث روپڑی ؒکو پیشکش کی تھی کہ آپ مدینہ یونیورسٹی تشریف لے آئیں۔ لیکن حضرت نے بڑے شکریہ کے ساتھ معذرت کردی۔ شیخ ابن باز نے اپنے حواشی والی فتح الباری بطور ہدیہ پیش کی تو آپ نے فتح الباری کو شروع سے ملاحظہ کرکے فرمایا: فلاں مقام پر بھی حاشیہ ہونا چاہے تھا، اس پر شیخ ابن باز نے بڑی خوشی کا اظہار فرمایا۔ اس وقت کے سعودی فرمان روا شاہ سعود کی ضیافت کا بھی دونوں کو متعدد مرتبہ شرف حاصل ہوا۔
جب ہم نے مدینہ یونیورسٹی روانہ ہونا تھا۔ مسجد ِقدس میں الوداعی تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ اس میں وقت کے کبار شیوخ محدث گوندلویؒ، مولانا عطا ء اللہ حنیفؒ، مولانا مودودی ؒ اوردیگر بہت سارے علماءِ کرام تشریف فرما تھے جو ہمارے لئے ایک عظیم شرف ہے۔ اس تقریب کی تفصیل ہفت روزہ تنظیم اہلحدیث میں شائع ہوچکیہے۔
ہمارے لئے یہ بہت بڑا اعزاز ہے کہ حافظ عبدالقادر ؒ کراچی تک ہمارے ہمراہ تشریف لے گئے۔ اس وقت سعودی سفارت خانہ کراچی میں تھا۔ سعودی سفیر محمد الحمد الشبیلی کے ساتھ ان کے خصوصی تعلقات تھے جب کبھی وہ لاہور آتے تو محدث روپڑی کی دعائیں لے کر جاتے۔ طبعاً وہ نیک اور شریف آدمی تھے، بعد میں ان کا تبادلہ انڈیا ہوگیا پھر تھوڑا عرصہ بعد انتقال ہوگیا ۔ ہماری خاطر آپ نے کراچی میں ایک ہفتہ سے زائد قیام فرمایا تھا، ایسے ایثار و خلوص کی مثال ملنا مشکل ہے۔
فن مناظرہ کی تربیت
موصوف کی عادت تھی کہ مخصوص اوقات میںطلبہ کو فن خطابت اور فن مناظرہ کی گتھیوں سے روشناس کراتے تاکہ کل کو اسلام کے یہ سپوت ملک و ملت اور دین حق کی خدمت بطریق احسن انجام دے سکیں۔ کتنے ہی وہ لوگ ہیں جو ان سے مستفید ہو کر بعد میں مختلف علاقوں کے لئے روشنی کا مینار بنے۔ بذاتِ خود زندگی بھر بہت سارے مذاہب کے ساتھ بکثرت مناظرے کئے۔ ان میں سے عیسائی، ہندو ،آریہ سماج، قادیانی، پرویزی، چکڑالوی اور جامد مقلدین ہیں۔
جامع الصفات شخصیت
مرحوم گونا گوں صفات کے حامل تھے۔ حد درجہ منکسرمزاج، سادہ طبیعت اور فخر وتکبر سے مبرا۔ شہر میں رہائش کے باوجوددیہاتی طرزِ بودوباش کو پسندکرتے۔ عام حالات میں تہبند پہنتے۔میرے علم کے مطابق زندگی بھر ہاتھ پر گھڑی نہیں سجائی اور نہ جیب میں رکھی۔
مہمان نوازی اور ملنساری ان کا طرئہ امتیاز تھا۔ زائرین جامعہ کی ضیافت کرنا وہ اپنا اوّلین فرض سمجھتے تھے۔ حتیٰ المقدور ان کی کوشش ہوتی کہ مہمانوں کے ساتھ کھانا تناول کریں۔ کھانے پینے کے دوران ان کے ساتھ لطف و کرم کا اظہار کرتے۔ مثلاً دستر خوان سے مختلف اشیاء مہمانوں کی طرف دھکیلتے اور کبھی دوسرے کے ہاتھ میں روٹی کا لقمہ اور گوشت کی بوٹیاںپکڑا کر شفقت و محبت کا اِظہار کرتے۔آپ ہر ایک کی صرفخیریت ہی دریافت نہ کرتے بلکہ جس قریہ یا شہر سے مہمانوں کا تعلق ہوتا، وہاں کے افراد اور مذہبی رجحانات وغیرہ کے بارے میں تفصیلی رپورٹ طلب کرتے تاکہ ان کی ضروریات کے سلسلے میں معاونت کی جاسکے۔
لوگ طرح طرح کے مسائل لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ بعض کا تعلق حکومت یا عدالتوں کے افسرانِ بالا سے ہوتا اور کچھ مقامی نوعیت کے ہوتے ۔ ان میںمذہبی قسم کی مشکلات بھی درپیش ہوتیں لیکن کبھی کسی کو انکار نہیں کیا۔مقدور بھر ہر ایک کی معاونت کی بشرطیکہ معاملہ حق و انصاف پر مبنی ہو۔ ہر ممکن طریقہ سے ان کی امداد کرتے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ رینجرز کسی معمولی غلطی کی بنا پر ہمارے والد مرحوم کو پکڑ کر واہگہ لے گئے۔ رمضان کے دن تھے مجھے بہت فکر لاحق ہوئی۔ جب یہ بات حافظ عبدالقادر صاحب کے علم میں آئی تو کہا گھبرائیں مت، راتوں رات ہم ان کو واپس لے آئیں گے ۔ ان شاء اللہ! اپنے چھوٹے بھائی حافظ محمود احمد سے کہا: گاڑی تیار کرو، ابھی واہگہ جانا ہے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو میجر صاحب مسجد میں نمازِ تراویح پڑھ رہے تھے۔ فراغت کے بعد میجر صاحب سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے انہیں رہا کردیا، اسی وقت لے کر ہم واپس آگئے۔دیگر کئی ایک ناحق ملزموں کو بھی نجات دلائی۔اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں جو قیامت کے دن ان کے میزانِ حسنات میں شمار ہوں گے۔ اِن شاء اللہ
ہمارے گائوں (سرہالی کلاں)کے ساتھ آپ کا خصوصی تعلق تھا۔ وہاں ان کی آمدو رفت اکثرجاری رہتی تھی۔ گائوںسے جامعہ کے لئے تعاون زرعی اجناس کی شکل میں وافر مقدار میں ملتا بلکہ گڑ، گنا،دودھ وغیرہ کی صورت میں بھی کافی معاونت ہوتی۔ ہمارے بزرگ حاجی عبدالعزیز مرحوم سفر وحضرمیں ان کے اور خطیب ِملت حافظ اسمٰعیل روپڑی کے ہمراہ رہنا اپنے لئے باعث ِافتخار سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مرض الموت میں جب کبھی ان کا اور حافظ مقبول احمد مرحوم کا ذکر چھڑتا ، آنکھوں میں آنسو بھرلاتے او ران کا نام لے کر رفاقت ِماضی کو یاد کرتے۔
مسجد ِقدس کی تعمیر
لاہور شہر کے وسط میں عالی شان مسجد قدس کی تعمیر روپڑی خاندان کی ایک عظیم یادگار ہے۔ مرکز اسلامی کی تاسیس کے لئے رحمن گلی نمبر ۵، چوک دالگراں کا انتخاب طویل غوروخو ض کے بعد کیا گیا، اس جگہ پر قدم جمانا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ قرب و جوار کی پوری آبادی بے دین تھی بالخصوص گجر برادری جو اس کے اطراف میں آباد تھی، انہوں نے اس مرکز کی شدید مخالفت کی ۔وہ جہالت کی بنا پر یہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ یہاں اہلحدیث کا مرکز بنے ۔اس خاندان کے اکابر نے عالی ہمت اور مضبوط ارادے کا مظاہرہ کرکے کٹھن اور مشکل ترین حالات کا مقابلہ کرکیبڑی جوان مردی اور مجاہدانہ قوت سے قابو پایا۔ اتار چڑھائو سے حوصلہ نہ ہارا ۔اس سلسلہ میں گجروں کے تشدد کا سامنا کرتے ہوئے ہمارے محترم استادحافظ محمد حسین (حافظ عبدالرحمن مدنی کے والد) کے بہتے خون کی قربانی نے جبر کا رخ بدل دیا۔ اگرچہ عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑا اورلمبی جدوجہد کے بعد اندھیری رات چھٹ گئی۔ ربّ العزت نے کامیابی سے سرفراز فرمایا۔ شدید ترین مخالفین زیر ہونے پر مجبور ہوگئے۔نتیجتاً ان میں سے بعض اپنی رہائشی جگہ اربابِ مسجد کو فروخت کرکے چل دئیے حتیٰ کہ پٹھان کا ٹال بھی عبادت گاہ کا حصہ بن گیا۔ وقفہ وقفہ کے بعد ان حضرات نے قطعات ِاراضی خرید کر کے ملحقہ سڑک تک مسجد وسیع کردی۔ اور کچھ وہ تھے جنہوں نے منتظمین مسجد کا حسن خلق اور وسعت ِظرفی دیکھ کر بعد میں مسلک اہلحدیث اختیار کرلیا۔ اس کے باوجود اگر کسی نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا تو اس کو منہ کی کھانا پڑی۔
ایک گجر بڑا زبان دراز تھا، اکثر و بیشتر محدث روپڑی کو سب و شتم کرتا ۔ ایک دفعہ گندی زبان استعمال کرتا ہوا گیلری تک آپہنچاتو طلبہ نے پکڑ کر اس کی خوب گوشمالی کی۔ اس کے نتیجہ میں دوہرا فائدہ ہوا۔ ایک تو پھر اس نے ایسی جرأت نہ کی ، دوسرے بعد ازاں اس نے مسلک اہلحدیث اختیار کرلیا۔ اس طرح دین کا خادم اور محدث ؒروپڑی کا معتقد بن گیا۔
اس مرکز عظیم کی تعمیر و ترقی کا سہرا خاندان کے سربراہ ہونے کی بنا پر ہمارے استادمحدث روپڑی کے سر ہے جن کی شب و روز محنت سے مسجد وسیع تر ہوتی چلی گئی۔ اصحابِ خیر کی طرف سے ان کے برادران او ربرادر زدگان کی وساطت سے مسلسل مالی تعاون جاری رہتا۔ مالی تعاون میں مسجد کے پنجگا نہ نمازی حاجی جمال الدین مرحوم پیش پیش رہتے۔ وہ علماء سے تعلق رکھنا باعث ِافتخار سمجھتے تھے۔دینی اداروں کی مالی امداد کرتے ۔ کئی دفعہ علماء کو اپنے گھر میں کھانا کھلاتے۔ مولانا محمد یحییٰ حافظ آبادی کے والد بابا امیرالدین مرحوم تو ان کے پکے مہمان تھے۔ جب بھی لاہور تشریف لاتے، حاجی صاحب کے ہاں قیام کرتے۔ حافظ عبدالقادر صاحب کا بھی بابا امیرالدین سے گہرا تعلق تھا، ان کی طبیعت بڑی ظریفانہ تھی۔ اکثر باتیں لطیفوں کے انداز میں کرتے۔ حافظ صاحب مرحوم بھی ان کو نقل کرکے مجالس کو گرمایا کرتے تھے۔ دوسرے مناظر اسلام مولانا احمد دین گکھڑوی مرحوم کے واقعات اور لطائف بھی اکثر سناتے رہتے تھے۔ جن کی فہرست طویل ہے۔ بابا امیرالدین جب فوت ہوئے تو حافظ صاحب مرحوم اور راقم الحروف نے حافظ آباد میں ان کی قبر پر جاکر دعا کی تھی۔ قبر پر کھڑے ہوکرکافی دیر تک ان کی زندگی کے واقعات دہراتے رہے۔ رحمهم اﷲ رحمة واسعة
جامعہ اہلحدیث کا قیام
میری دانست کے مطابق استقلالِ پاکستان کے بعد دوبارہ مدرسہ کا مستقلاً قیام جامعہ اہلحدیث لاہور کے نام سے ۱۹۵۴ء میں عمل میں آیا۔
ہمارے استادمحدث روپڑی شیخ الحدیث تھے اور اعلیٰ معقولاتِ آلیہ کی تدریس ان کے چھوٹے بھائی حافظ محمد حسین امرتسری کے ذمہ تھی جبکہ دیگر مدرسین میں مولانا عبدالجبار ملک پوری، حافظ عبدالقادر روپڑی، مولانا قادر بخش بہاولپوری، مولانا محمد کنگن پوری (معاون تحفۃ الاحوذی) شامل تھے۔
مولانا عبدالجبار نے اوّلینپہلے محدث روپڑی کے فتوئوں کو مرتب کرنے کا خیال بھی پیش کیا تھا اورہفت روزہ تنظیم اہل حدیث کی جلدوں کو سامنے رکھ کر اس سلسلہ میں انہوں نے کچھ محنت بھی کی۔ لیکن ان کیمکمل ترتیب کا شرف مولانا محمد صدیق ،سرگودھا کو حاصل ہے جو محدث روپڑی کے لائق ترین شاگرد تھے اور علم میراث کے بڑے ماہر تھے۔
روپڑ سے لے کر آج تک سینکڑوں طلبہ جامعہ اہلحدیث سے فیض یاب ہوچکے ہیں۔ جن کا شمار ناممکن ہے۔ چند ایک کے اسمائِ گرامی ملاحظہ فرمائیں: شیخ محمد عمر بن ناصر نجدی، شیخ عبداللہ الابیض عرب جامعہ ازہر، مولوی محمد بن عبدالعظیم پسروری، مولانا دین محمد سنانوی، مولوی نور محمد ساکن ڈگری، مولوی عبدالرحمن بن مولوی محمد (محشّی سنن نسائی)، مولوی احمد (بانی مدرسہ دارالحدیث، مدینہ منورہ)، شیخ الحدیث مولانا عبدالجبار کھنڈیلوی، مولوی عبدالعظیم ٹونکی، مولوی ابوبکر بنگالی، مولوی محمد یوسف بنگالی، مولوی عبدالقیوم بردوانی، مولوی عبدالرحمن افریقی (مہتمم دارالحدیث، مدینہ منورہ)، مولوی محمد، حافظ محمد حسین امرتسری (محدث روپڑی کے دست راست ؍برادرِ اصغر)،مولوی سید محمد (چونیاں)، مولوی قادر بخش بازید پوری،مولوی شہاب الدین کوٹلوی، حافظ محمد اسمٰعیل روپڑی، حافظ عبدالقادر روپڑی، مولانا محمد صدیق (سرگودھا)، سیدحبیب الرحمن (راولپنڈی)،حافظ عبدالرحمن مدنی، حافظ مقبول احمد، راقم الحروف، مولانا عبدالسلام کیلانی، حافظ عبدالرحمن کمیر پوری(محدث روپڑی ؒکے برادرِ خورد)، مولانا محمد یوسف (راجووال)، حافظ عبدالوحید مدنی، حافظ عبدالماجد(برادر زادگان) ،مولوی محمد یوسف (ڈسکہ)، مولوی محمد شریف، مولوی تاج الدین (بڈھاگورایہ)، مولوی عبدالسلام فتح پوری، سراج الدین ظفر، حافظ محمود احمد، مولوی عطاء اللہ وغیرہم۔ ربّ العزت محدث روپڑی کے لگائے پودے کو تا دیر قائم رکھے۔ آمین!
اس طرح محدث روپڑی کے برادرانِ نسبتی بابو عبدالحنّان اور مستری عبدالکریم کے مشوروں سے مسجد کا کام بہتر سے بہتر ہوتا چلا گیا اور مسجد کی پہلی بڑی چھت حاجی عبدالرحمن اور حاجی عبید اللہ بردران (گوجرانوالہ) کی کاوش سے پایۂ تکمیل کو پہنچی تھی۔ خطیب ِملت حافظ اسمٰعیل روپڑی ؒسے دونوں بھائیوں کا خصوصی تعلق تھا۔ اسی جذبہ سے وہ دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ جزاھم اﷲ خیراً
مدرسۂ اہل حدیث، روپڑ کا آغاز
استادمحترم محدث روپڑی جب اپنے والد کے دوست مولانامحمد حسین بٹالویؒ کی ہدایت پر روپڑ تشریف لائے تو وہاں آپ نے مدرسۂ اہل حدیث کی بنیاد رکھی۔ ۱۹۱۶ء میں دارالحدیث کا افتتاح ہوا۔ نمازِ عصر کے بعد بخاری شریف شروع کی گئی۔ شیخ محمد عمر بن ناصر نجدی عرف عرب صاحب ، مولوی محمد بن عبدالعظیم پسروری، مولوی دین محمد سنانوی اوّلین درسِ بخاری میں شریک ہوئے۔ مولوی نور محمد سکنہ دگری نے نسائی شریف شروع کی۔ اس کے بعد تلامذہ کا سلسلہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا اور درس تدریس کا یہ سلسلہ ۱۹۳۸ء تک روپڑ میں رہا۔
۱۹۳۸ء میں جب آپ نے دیکھا کہ روپڑ کی مسجد اور مدرسہ کا انتظام آپ کے بھتیجوں حافظ محمد اسماعیل اور حافظ عبدالقادر نے سنبھال لیا ہے تو آپ نے مولانا احمد اللہ کی طرف سے امرتسر تشریف لانے کی آرزو کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ کر لیا ۔اس طرح امرتسر تشریف لاکر مسجد مبارک کا مکمل انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا ۔ مسجد میں مدرسہ دارالحدیث جاری کیا۔ اس طرح امرت سر شہر میںدرس و تدریس اور خطابت و امامت کا یہ سلسلہ اگست ۱۹۴۷ء کے فسادات تک جاری رہا۔افسوس یہ مسجد ومدرسہ مع عظیم لائبریری ہندوئوں ، سکھوں نے آگ لگا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔
خطباتِ جمعہ
جہاں تک مسجد قدس میں خطباتِ جمعہ کا تعلق ہے ،اس میں حافظ محمد اسماعیل کو اوّلیت حاصل ہوتی۔ دوسرا نمبر حافظ عبدالقادر روپڑی کا تھا ۔ ان کی غیر حاضری میں محدث روپڑی خطبہ دیتے ۔ بعض خا ص موقعوں پر اہم موضوعات پر حافظ محمد حسین برادرِ خورد محدث روپڑی مسلسل خطباتِ جمعہ ارشاد فرماتے۔ جب حافظ محمد اسماعیل کو جمعہ پڑھانا ہوتا تو مسجد میں تل دھرنے کی جگہ نظر نہ آتی بلکہ قرب و جوار کے بازار بالخصوص گلی نمبر ۵ میں صفیں بچھانی پڑتیں۔ اس زمانہ میں آج کی طرح اتوار کو چھٹی ہوتی۔ تجارت پیشہ حضرات دیگر شہروں و قصبات سے سامان لینے کے لئے جمعہ کے دن لاہور حاضر ہوتے تاکہ مسجد ِقدس میں جمعہ ادا کرسکیں۔
حافظ محمد اسمٰعیل روپڑی ( م ۱۹۶۲ء): اللہ اکبر ! خطابت میں حافظ اسماعیل کا کوئی ثانی نہ تھا۔ ربّ العزت نے ان کو لحن داودی سے نوازا تھا۔ قرآن کی تلاوت کرتے تو حد درجہ دل و دماغ میں رِقت و سرور پیدا ہوتا۔ متاثر ہونے کے علاوہ سننے والا داد دئے بغیررہ نہ سکتا۔ انہوں نے پاکستان کے متعدد اہم شہروں کے علاوہ کراچی کے کونہ کونہ میں توحید و سنت کی دعوت کو پہنچایا ۔مولانا غلام اللہ خاں مرحوم (راولپنڈی) فرمایا کرتے تھے کہ کراچی میں ہمارے لئے دعوتی میدان حافظ اسماعیل نے صاف کیا ورنہ ایسی مذہبی جھگڑوں والی جگہوں تک رسائی ہمارے لئے ممکن نہ تھی۔حافظ محمد اسمٰعیل روپڑی مرحوم دعوتی پروگراموں کے سلسلہ میں کراچی میں ہر سال تقریباً چار ماہ گزارتے۔
انہی دنوں حیدر آباد، سندھ میں ہمیشہ سالانہ کانفرنس ہوتی۔ ایک دفعہ حافظ محمد اسماعیل ذبیح توحید کے موضوع پر تقریر کر رہے تھے کہ اہل بدعت نے ہنگامہ بپاکردیا۔ سٹیج پر خطیب ِملت بھی تشریف فرما تھے، انہوں نے مولانا اسمٰعیل ذبیح کو اشارہ کیا کہ بیٹھ جائیں اور تھوڑی دیر کے لئے کھڑے ہو کر اپنی خطابت کا ایسا جادو جگایا کہ مجمع پر سناٹا چھا گیا۔ پھر فرمایا :ذبیح صاحب !اب کھڑے ہو کر موضوع مکمل کریں۔
سرگودھا شہر کے بلاک ۱۹ کی جامع مسجد کے بانی مبانی حافظ محمد اسمٰعیل روپڑی مرحوم ہی تھے۔ گوجرانوالہ کی آبادی حاکم رائے میں انصاری برادران والی مسجد میں ایک عرصہ تک خطباتِ جمعہ میں اپنی سحر بیانی سے بیداری کی لہر پیدا کی۔ کسی وقت اگر خود وہاں نہ پہنچ سکتے تو پھر نیابت حافظ عبدالقادر کرتے۔ اگر یہ بھی نہ جاسکتے تو پھر محدث روپڑی تشریف لے جاتے۔ ایک دفعہ راستہ میں حافظ اسمٰعیل روپڑی کچھ لیٹ ہوگئے۔ مسجد میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ کہ حافظ محمد محدث گوندلوی ؒمنبر پر تشریف فرما ہیں، جب ان کی نگاہ ان کی طرف پڑی تو احتراماً منبر سے اُتر کر نیچے بیٹھ گئے۔ کسی زمانہ میں فیصل آباد ، امین پور بازار والی مسجد میں بھی مسلسل خطبہ ٔجمعہ ارشاد فرماتے رہے۔ قصبہ مہمونوالی،ضلع شیخوپورہ کو تو اپنا دوسرا گھرسمجھتے تھے اور ان لوگوں کو بھی آپ سے بہت زیادہ پیار و محبت تھا جو آخری دموں تک قائم رہا۔
فیصل آباد کی آبادی گلبرگ، سی بلاک کی اہل حدیث مسجد میں اس کی تاسیس سے لے کر خطبہ جمعہ حافظ عبدالقادر ارشاد فرمایا کرتے تھے بلکہ بعض دفعہ رمضان میں قرآن بھی یہاں سناتے لیکن روزانہ لاہور آتے۔ بوقت ِتراویح نیو خان کی بس کے ذریعے پھر واپس چلے جاتے۔
ایک دفعہ کسی مجبوری کی بنا پر نہ جاسکے تو مجھے کہا :فیصل آباد میں تراویح پڑھا آئو، اس زمانے میں فیصل آباد بس کا کرایہ سوا دو روپے ہوتا تھا، احتیاط کے طورپر میں پانچ روپے لے کر گیا ۔ اس مسجد میں ایک رمضان میںحافظ مقبول احمد مرحوم نے بھی تراویح پڑھائی تھی۔آج کل اس مسجد میں خطبہ جمعہ ہمارے دوست قاری محمد رمضان استاذ جامعہ سلفیہ ارشاد فرماتے ہیں۔
جماعت اہل حدیث:۱۹۳۲ء سے قبل جماعت اہلحدیث کی تنظیم معرضِ وجود میں آئی اور شاہ محمد شریف گھڑیالوی مرحوم اس جماعت کے امیر منتخب ہوئے۔ یہ نظم ۱۹۴۷ء تک اسی طرح قائم رہا۔
پاکستان کی تشکیل کے بعد غالباً ۱۹۵۵ء میں دوبارہ جماعت کی تنظیم کا احیاء ہوا۔ اس کے ناظم بابو یاسین ڈائریکٹر رستم سہراب سائیکل فیکٹری ،لاہور مقرر ہوئے ۔ بعد ازاں ملتان ، سیالکوٹ اور گوجرانوالہ ، پنجاب بھر کے کثیر علماء واں رادھا رام کے اجتماع میں بالاتفاق مولانا محی الدین لکھوی ؒکو امیر منتخب کیا چند سال بعد مولانا محمد علی لکھوی کی ہدایت پر مولانا محی الدین لکھوی نے استعفیٰ دے دیا تو حضرت مولانا محمدعبداللہ(گوجرانوالہ) کی کوششوں سے حافظ محمدمحدث گوندلوی ایک عرصہ تک اس جماعت کے عہدئہ امارت پر فائز رہے۔ پھر ان کی علیحدگی کی صورت میں حافظ عبدالقادر روپڑی اس کے امیر مقرر ہوئے ۔پھر موصوف نے اپنی جگہمولانا محمد حسین شیخوپوری کو امیر مقرر کردیا اور خود تاحیات سرپرست رہے۔
ہفت روزہ ''تنظیم اہلحدیث''
غیر منقسم ہندوستان میں اہل حدیث کی تنظیم اور مسلک کینشرواشاعت کے لئے اخبار کے اجراء کی ضرورت محسوس کی گئی تو اراکین نے اس کا تمام بوجھ حضرت محدث روپڑی پر ڈال دیا۔ کثرتِ اشغال کے باوجود آپ نے روپڑ سے مؤرخہ ۲۶؍ رمضان ۱۳۵۰ھ بمطابق ۵ ؍فروری ۱۹۳۳ء ''تنظیم اہلحدیث'' کے نام سے یہ جریدہ جاری کیا جو بعد ازاں ہفت روزہ کر دیا گیا۔اس وقت سے لے کر قیامِ پاکستان کے چند سال کے تعطل کے علاوہ آج تک یہ جریدہ تبلیغی اور تنظیمی خدمات انجام دے رہا ہے۔
۱۹۵۹ء میں جماعت اہل حدیث نے اس بات پر غور وفکر کیا کہ جماعت کا ایک آرگن ہونا چاہئے۔جس کے ذریعہ خبروں کی ترسیل ہو۔ ابتداء ً اس کام کے لئے مولانا محمد اسحق بھٹی کے سہ روزہ منہاج سے کام لیا گیا۔ انہوں نے بخوشی ا س فیصلہ پر صاد کیا کچھ عرصہ تک سہ روزہ منہاج ہی جماعت کا ترجمان رہا۔ پھر دوبارہ روپڑ والے تنظیم اہلحدیث کا ڈکلیریشن،لاہور سے حاصل کر لیا گیا۔ اس کے پہلے ایڈیٹر مولانا حافظ محمد ابراہیم کمیر پوری متعین ہوئے۔ اس وقت موصوف کی رہائش بدوملہی شہر میں تھی ۔ ہفتہ میں ایک دو دن کے لئے لاہور تشریف لاتے ۔ مضامین کی اِصلاح و ترتیب کا کام کرکے واپس چلے جاتے۔ ان دنوں پاکستان او ربیرونِ پاکستان تنظیم اہلحدیث نے خوب شہرت حاصل کی۔ بالخصوص استاذِمحترم محدث روپڑیؒ کا فتویٰ ا س جریدہ کی جان سمجھا جاتا تھا۔ قارئین کرام شدت سے ہفت روزہ''تنظیم اہلحدیث'' کے انتظار میں رہتے۔
بعد میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک تقریر کی بنا پر حافظ ابراہیم کمیر پوری گرفتار ہوگئے۔ کئی ماہ بعد رہا ہوئے تو شوگر کی بیماری نے آلیا۔ اس طرح تنظیم کی ذمہ داری سے سبکدوش ہوگئے پھر مولانا عزیز زبیدی اس کارِخیر کے لئے منتخب ہوئے۔ انہوں نے اس ذمہ داری کو خوب نبھایا ۔ آپ کی یہ خوبی ہے کہ ہر موڑ پر ساتھیوں کے ساتھی بن کر رہے۔ دینی حلقہ صحافت میںان کی تحریروں کو خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔(۱)
پھر ۱۹۶۲ء میں حافظ عبدالرحمن امرتسری (۲)صاحب تنظیم اہل حدیث کے مدیر مقرر ہوئے۔ سالہا سال تک اس فرض کو انجام دینے کے بعد آپ نے دسمبر ۱۹۷۰ء کو ماہنامہ ''محدث'' کا اجرا کر لیا جو اعلیٰ مضامین کا حامل ہوتا ہے۔ دینیمجلات میںاس کا ممتازمقام ہے، آپ کے زیر اہتمام ایک بڑی درسگاہ جامعہ لاہور الاسلامیہ کے نام سے چل رہی ہے جس کے تحت متعدد کلیات و مدارس ہیں ۔ اس طرح کئی تعلیمی ،تحقیقی اور سماجی ادارے آپ کے زیر نگرانی رواں دواں ہیں۔ ربّ العزت ان پودوں کو قائم ودائم رکھے۔آمین!
بعد ازاں حافظ عبد القادر روپڑی مرحوم نے خود ہی تنظیم کی ادارت سنبھال لی۔ درپیش مسائل کو سامنے رکھ کر بڑی لگن اور محنت سے مضامین کا انتخاب کرتے۔ اس سلسلہ میں حافظ محمد جاوید بن محدث روپڑی کا انتظامی تعاون مسلسل ان کو حاصل رہا جس کی وجہ سے طباعتی کام آسان ہوگیا۔مولانا حافظ عبد القادر روپڑی تنظیم اہلحدیث کے لئے فتویٰ راقم الحروف سے لکھوانا باعث ِاطمینان سمجھتے تھے۔ فرماتے آپ کا اندازِ تحریر محدث روپڑی ؒ کا سا ہے ۔
تبلیغی پروگراموں کی تشکیل
اس دور میں جامع مسجد ِقدس اپنی مرکزی حیثیت کی بنا پر مرجع علماء سمجھی جاتی تھی۔ لیل و نہار اہل علم کی آمدروفت جاری رہتی ۔ دعوت و تبلیغ کے جملہ پروگرام یہی سے تشکیل پاتے۔ موصوف خود ہی تبلیغ کے انچارج تھے۔ تاریخیں لینے لوگوں کا جم غفیر ہر وقت آپ کے گرد جمع رہتا ۔ مختلف علاقوں کے اعتبار سے علماء کے تبلیغی پروگرام خود وضع کرتے پھر اس کے مطابق اشتہارات شائع ہوتے تاکہ اہل علاقہ آگاہی حاصل کرکے جوق در جوق شرکت کریں اور اگر کسی جگہ مناظرہ کا چیلنج درپیش ہوتا تو وہاں خود تشریف لے جاتے۔آپ کے مناظروں کی تعداد سینکڑوں سے متجاوز ہے ۔
حضرت مولانا حکیم محمد اشرف سندھو مرحوم کی عادت تھی کہ وہ ان کے مختلف مناظروں کی روداد شائع کرتے رہتے۔ حکیم صاحب مرحوم کا محدث روپڑی ؒسے بڑا قلبی تعلق تھا۔ اتفاق دیکھئے کہ دونوں ایک ہی دن فوت ہوئے بلکہ ان کی وفات میں صرف چھ گھنٹے کا فرق ہے۔ محدث روپڑی نے ۲۰ ؍ اگست۱۹۶۴ء ظہر کے بعد سوا دو بچے دن میوہسپتال لاہور میں انتقال فرمایا۔ سندھو صاحب بھی اس ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ کچھ دیر بعد جب ان کو محدث روپڑی کی و فات کی اطلاع ملی تووہ بھی انتقال کرگئے۔ ہمارے زمانہ طالب علمی میں سندھو صاحب مرحوم مسجد ِقدس کی چار دیواری میں اکثر قیام فرماتے اور اس دوران غیر سلفیعقائد کے حامل لوگوں کے خلاف کتابیں تالیف کرنے کا فریضہ انجام دیتے تھے۔
''اکابر علمائِ دیو بند'' نامی کتاب جب انہوں نے طبع کی تو انہی دنوں نسبت روڈ لاہور کے ایک مکان میں علماء کی دعوت میں یہ کتاب پیش کردی ۔اس مجلس میں مولانا غلام اللہ خاں، راولپنڈی بھی شریک تھے ۔ ان کو جب یہ نسخہ پیش کیا گیا تو وہ سیخ پا ہوکر مجلس سے اُٹھ گئے ۔کچھ دیر بعد اسی مجلس میں حافظ محمد اسماعیل روپڑیتشریف لائے ،جب انہیں اس واقعہ کا علم ہوا تو فوراً مولانا کے پیچھے قاسمی برادران کی ٹیمپل روڈ والی مسجد میں پہنچ گئے۔ مولانا غلام اللہ خاں نے احباب کو تاکید کررکھی تھی کہ کوئی آئے تو دروازہ نہ کھولنا لیکن جب حافظ اسمٰعیل روپڑی گئے تو اُن کو دروازہ خود ہی کھولنا پڑا اور واپس تشریف لے آئے اس سے قبل حافظ عبدالقادر نے بھی ان کو روکنے کی کوشش کی تھی لیکن ناکام رہے ۔
حافظ اسماعیل روپڑی ؒنے نے ایک دفعہ ساری سردیاں میرا کمبل سفروں میں ہمراہ رکھا اور اپنی اُونی لوئی مجھے دے گئے بعد میں یہ کمبل مجھے واپس کر کے اپنی لوئی وصول کر لی ۔ آہ! آج حافظ اسماعیل روپڑی صاحب جیسا خلیق شخص ملنا مشکل نظر آتا ہے۔ کہاں سے لائیں گے اس جیسا مہربان، شفقت و رحمت کا پتلا...!
چند مناظرے
پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے قبل حافظ عبد القادر روپڑی کا ایک مناظرہ ہمارے سابقہ گائوں 'کلس' ضلع لاہور (حال بھارت)میں مسئلہ تراویح پر مولوی محمد عمر اچھروی سے ہوا تھا۔ مجھے تو اس کا ہوش نہیں، ہمارے بزرگ فرماتے ہیں کہ ربّ العزت نے حافظ صاحب کو بڑی کامیابی سے ہم کنار فرمایاتھا۔
ان کے چند مناظرے ایسے بھی ہیں جن میں راقم الحروف شریک تھا۔ ایک دفعہ لاہور مسجد وزیرخاں کے جوار میں ایک شخص کے گھر ''اولیاء اللہ حاضر ناظر ہیں!'' کے موضوع پر مناظرہ ہوا۔ مقابل نے آٹھویں پارہ کے آخر میں حضرت صالح علیہ السلام کے اپنی مردہ قوم سے اندازِ تخاطب سے استدلال کیا کہ ثمودی صالح علیہ السلام کی بات سنتے تھے۔ اس کے جواب میں موصو ف نے فرمایا : اس کا معنی یہ ہے کہ کافر بھی حاضر ناظر ہیں تو وہ سوچ میں پڑ کر لاجواب ہوگیا۔
اسی طرح ایک دفعہ ایک مناظرہ مغلپورہ، لاہور کی توحید مسجد میں مسئلہ علم غیب پر ہوا۔ اس میں راقم الحروف دلائل مہیا کر رہا تھا اور آپ مد ِمقابل کے سامنے دلائل کے انبار لگا رہے تھے۔ جب مقابل کی انتہائی پریشانی کو دیکھا تو کہا :پانی پینا ہے اور نہ پینے دینا ہے، آخر کار مقابل نے میدانِ مناظرہ سے راہِ فرار اختیار کی۔
ایک دفعہ کاذکر ہے کہ مولوی محمد عمر اِچھروی نے سرحدی گائوں جاہمن میں اہلحدیث کو جا للکارا ۔ وہاں اہلحدیث معمولی تعداد میں تھے۔ وہ لوگ حافظ عبد القادر روپڑی کی خدمت میںحاضر ہوئے کہ ہم بڑے پریشان ہیں، آپ ہمارے ساتھ چلیں، اچھروی صاحبنے مناظرہ کا چیلنج کردیاہے۔ آپ فوراً ان کے ہمراہ ہولئے ۔جب ہم وہاں پہنچے تو مد مقابل وہاں سے غائب ہوگئے اور مناظرے کی نوبت ہی نہ آئی۔
کافی عرصہ پہلیکی بات ہے، واں رادھا رام سے کچھآگے چک نمبر ۸ میں مشہور مناظر مولوی اسمٰعیل نے مناظرہ کا چیلنج کردیا۔ وہ ابھی تقریر کر ہی رہے تھے کہدوسری طرف حافظ عبدالقادر اور حافظ محمد ابراہیم کمیر پوری بھی وہاں پہنچ گئے ۔ کھلے بازار کے ایک طرف یہ سٹیج اور دوسری طرف ان دونوں نے اپنا سٹیج بنالیا۔ گھبراہٹ کے عالم میں مولوی اسمٰعیل نے اپنی تقریر ختم کرکے کتابوں کو صندوق میں ڈالا اور ٹانگے پر سوار ہو کر چک سے راہِ فرار اختیارگیا۔ بعد میں ان علماء نے اپنی تقریروں میں بڑے واضح دلائل و براہین کے ساتھ مخالف کی کمزوریوں کی نشاندہی کی۔ ا س کے نتیجے میں بہت سارے لوگ حقائق سے واقفیت حاصل کرکے اہل حدیث بن گئے ۔
مسجد ِقدس میں وقفہ وقفہ کے بعد مناظرے ہوتے ہی رہتے تھے۔ لاہوری مرزائیوں کا مرکز چونکہ مسجد قدس، چوک دالگراں کے قریب ہے۔ حیلوں بہانوں سے ان کی آمدورفت رہتی۔ ایک دفعہ مرزائی مبلغ عبداللطیف ایک مناظر کو لے کر آگیا کہ ہم نے حیاتِ مسیح ؑپر مناظرہ کرنا ہے۔ جب مناظرہ شروع ہوا تو مرزائی مناظر نے مماتِ مسیح پرقرآن کی آیت ﴿قَد خَلَت مِن قَبلِهِ الرُّسُلُ﴾(آپ سے پہلے بھی رسول گزر چکے) پیش کی اور کہا کہ الرّسل کا الف لام استغراقی ہے جو سب انبیاء کو شامل ہے ،دیگر انبیاء چونکہ موت کے ذریعہ دنیا سے منتقل ہوئے لہٰذا اس عموم میں عیسیٰ علیہ السلام بھی داخل ہیں۔ ثابت ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں دوبارہ زمین پر ان کی آمد نہیں ہوگی۔ ا س کے جواب میں حافظ عبد القادر روپڑی ؒنے فرمایا:
''سورۃ الدہر میں اللہ عزوجل کا فرمان ہے :﴿إِنّا خَلَقنَا الإِنسـٰنَ مِن نُطفَةٍ أَمشاجٍ نَبتَليهِ﴾ (ہم نے انسان کو نطفہ سے پیدا کیا...)یہاں الإنسان میں بھی الف لام استغراقی ہے لیکن عیسیٰ علیہ السلام اس عمومی ضابطہ سے یہاں مستثنیٰ ہیںعین اسی طرح ﴿قَد خَلَت مِن قَبلِهِ الرُّسُلُ﴾ میں بھی عیسیٰ علیہ السلام مستثنیٰ ہیں۔ ''
اسی نکتہ پر آپ جیت گئے اور مرزائی مناظر کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
دوسرے کسی موقع پر ایک مرزائی بڑے فخریہ انداز میں گفتگو کر رہا تھا کہ مجھے احمدی بننے سے پہلے نماز میں بڑے وسوسے اور خیالات آتے تھے اور جب سے احمدی مسلک اختیار کیا، خیالات آنے بند ہوگئے گویا اس کے نزدیک یہ بات مرزائی مذہب کی حقانیت کی دلیل ہے۔جواباً موصوف نے فرمایا دراصل بات یہ ہے کہ جب تو اہل اسلام میں شامل تھا، اس وقت تیرے پاس چونکہ ایمان کی دولت تھی، اس لئے شیطان ڈاکہ ڈالنے کے لئے آتا تھا اور جب اس نے سمجھا کہ یہ بھی میرا ہم نوابن گیا ہے جو کام میں نے کرنا تھا، یہ کر رہا ہے تو ڈاکہ ڈالنے کی ضرورت ہی باقی نہ رہی۔ جن دنوں خطیب ِملت مولانا محمد اسماعیل روپڑیؒ کراچی میںمقیم تھے ،ان کی خواہش پر ایک مناظرہ مولوی محمد عمر اچھروی سے کرا چی میں ہوا تھا جو مناظروں کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے، اس میں اچھروی صاحب کو خفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ا س مناظرہ کی رودا د حکیم محمد اشرف سندھو صاحب مرحوم نے بڑی تفصیل کے ساتھ شائع کی تھی۔ اس طرح فروکہضلع سرگودھا کا مناظرہ بھی بڑامشہور ہے۔
حافظ عبد القادر مرحوم کی زندگی کا میں نے بڑے قریب سے مشاہدہ کیا ہے، آپ ہر لمحہ مجھے اللہ کے دین کے لئے دیوانہ وار سفر میں مصروفنظر آئے۔ ان کی نیند بسوں اور گاڑیوں میں پوری ہوتی، لیل و نہار دعوت و تبلیغ میں گزرتے، زندگی کے آخری ایام میں اتفاق ہسپتال کے ڈاکٹروں کا بورڈ دماغ کے آپریشن کے بعد اس پر تبصرہ کر رہا تھا کہ اللہ کے اس بندے نے اپنے دماغ کو کس قدر صرف کیا ہے؟ واقعی اس دماغ کے ذریعہ ہزاروں لوگوں نے ہدایت پائی اور سینکڑوں مشرف باسلام ہوئے۔ فیصل آباد کے معروف تاجر رہنما صوفی احمد دین صاحب کی حافظ صاحب کے جنازہ میں مجھ سے ملاقات ہوئی تو آنسو بہاتے ہوئے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے ان کی وجہ سے ہمیں صحیح عقیدہ نصیب فرمایا۔ اس نعمت ِعظیم پر ربّ العزت کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔''
سعودی حکومت اور موحدین کے تعلقات
حادثہ ٔحرم اور انقلابِ ایران سے قبل سعودی حکومت کی عادت تھی کہ اندرونِ ملک کے علاوہ بیرونِ ملک سے ممتاز علماء مبلغین کو ایامِ حج میں دعوت دیتی تاکہ وہ حجاج کو اَحکام و مسائل حج سے روشناس کرائیں۔ ان میں سے حافظ عبدالقادرروپڑی کو بالخصو ص دعوت دی جاتی۔ ان کے علاوہ مولانا محمد حسین شیخوپوری، حافظ عبدالرحمن مدنی اور راقم الحروف بھی اس تبلیغی مشن میں شریک ہوتے۔ حضرت حافظ صاحب کا منبر مسجد الحرام میں رکن یمانی کی سمت میں ہوتاتھا۔ نمازِ فجر اور مغرب کے بعد باقاعدہ تبلیغی پروگرام ہوتا جس میں ہزاروں لوگ شریک ہو کر اپنی علمی تشنگی بجھاتے اور پیش آمدہ مسائل سے آگاہی حاصل کرتے ۔ اس طرح دنیا بھر کے حجاجِ کرام سے متعارف ہونے کا موقعہ بھی میسر آجاتا اور دعوتی پیغام ارضِ معمورہ (آباد سرزمین) کے اکناف و اَطراف میں پہنچ جاتا دوسری جانب سعودی علماء سے بالعموم اور کبار علمائِ حرمین سے بالخصوص تعارفی مجلس کا انعقاد ہوتا۔ مسلمانوں کو درپیش مسائل پر غورو خوض کیا جاتا۔اسی طرح بیرونی اہل علم اور دانشوروں سے ملاقاتیں کرکے دنیا بھر کے مسائل و مشکلات سے آگاہی حاصل ہوتی اور ان کے حل کے لئے تدابیر کی جاتی۔ اس سلسلہ میں بوقت ِضرورت سعودی علماء اور اربابِ حکومت سے رابطہ کرلیا جاتا تاکہ آسانی سے درپیش مسائل کا حل نکل سکے۔
واضح ہو کہ جب سے سعودی حکومت کا قیام عمل میں آیا ہے، اس وقت سے لے کر غزنوی اور روپڑی خاندان کا اس سے عقیدئہ توحید کی بنیاد پر مثالی تعلق ہے۔ ابتداء میں شاہعبدالعزیز ابن سعود (شاہ فہد کے والد ِگرامی اور مؤسس مملکت ِسعودیہ) کی حکومت کو کئی قسم کی مشکلات کا سامنا تھا۔ اللہ کے فضل و کرم سے برصغیر ہند کے موحدین سعودی حکومت کے شانہ بشانہ روحانی و مالی اور اخلاقی ہر قسم کی خدمات کو باعث ِافتخار تصور کرتے آئے ہیں۔ روپڑی خاندان کے پاس وہ سندات او رشاہی تحائف وخطوط بکثرت موجود ہیں جو ان کو شاہ عبد العزیز کی طرف سے اس اسلامی حکومت کی مالی اور اخلاقی تعاون کے اعتراف کے طو رپر دیے گئے۔دوسری طرف سعودی حکمرانوں نے بھی کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے ان کے خزانے کھلے ہیں، ہر مشکل گھڑی میں ہر جگہ وہ پیش پیش نظر آتے ہیں۔ آج وہ کون سا مقام ہے جہاں سعودی عرب کی خدمات کے اثرات نمایاں نہ ہوں۔ کہیں مدارس و جامعات کا تعاون کیا جارہا ہے او رکسی جگہ مسجدیں بنوائیں جارہی ہیں ، کہیںیتیم خانے قائم ہو رہے ہیں او رکہیں ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کا جال بچھ رہا ہے اور کفر کے مقابلہ میں میدان کارِزار میں پیسہ پانی کی طرح بہایا جارہا ہے تاکہ روئے زمین پرکلمہ حق کی سربلندی ہو اور کفر نیست و نابود ۔پورے عالم میںسعودی عرب کے مبعوثین ہر جگہ ربّ کی دین کی نشرواشاعت میںشب و روز مصروفِ کار ہیں۔ ذلک فضل الله یوتیه من یشاء
موصوف مرحوم کے جریدئہ تنظیم اہلحدیث کا یہ امتیاز ہے کہ اس نے سعودی حکومت کے کارہائے نمایاں کو ہمشہ صفحۂ اول پر جگہ دے کر یا پھر کسی مناسب مقام پر شائع کر کے محبت کا اظہار کیا۔ ابتدائی اَدوار میں جب سعودی حکمرانوں نے اپنی سرزمین سے بالعموم اور حرمین شریفین سے بالخصو ص آثارِ شرک مٹانے کا اہتمام کیا تو اہل بدعت نے بڑا شور بپا کیا ۔اس کے جواب میں شاہ ابن سعود نے فرمایا: عالم اسلام کے ثقہ علماء اگر ان چیزوں کا وجود کتاب و سنت سے ثابت کردیں تو ابن سعود ان قبوں اور آثار کو نئے سرے سے صر ف مٹی کی اینٹوں سے نہیں بلکہ سونے کی اینٹوں سے تعمیر کرادے گا لیکن ثبوت پیش کرنے کی آج تک کسی میں جرأت نہ ہوسکی۔ مؤقرجریدہ تنظیم کے پہلے دور کی فائلوں کو اٹھا کر دیکھ لیجئے تو اس میں ایسی خبریں نمایاں نظر آئیں گی۔پٹرول کی دریافت کے موقعہ پر امریکی کمپنیوں سے معاہدے، تاریخ کا ایک اہم باب ہے ،وہ بھی تنظیم کے سینے میں محفوظ ہے۔
مسئلہ صدارت و امارت...مسائل میں مضبوط موقف کے حامی
موصوف شرعی مسائل میں مضبوط موقف کے حامی تھے۔ جس بات کو حق سمجھا، ساری زندگی اس کومضبوطی سے تھاما۔ معاندین کی مخالفت کی کبھی پرواہ نہیں کی۔ لچک اور مداہنت کے الفاظ سے وہ ناآشنا تھے او رنہ کبھی ایسے لوگوں کو پسند کیا جو مسائل میں صلح کن موقف کے حامی ہوںاور اس طرح دین کے احکام ومسائل ہی بدل ڈالیں۔ ان کے بڑے بھائی بہت ساری خوبیوں کے ساتھ متصف تھے۔ بسا اوقات ان کا رویہ نرم ہوتا ،وہ اسے بھی ناپسند کرتے ۔مسئلہ صدارت و امارت روپڑی علماء اور دیگر بہت سارے اہل علم کے مابین وجہ ِنزاع بنا رہا ۔
علمائِ روپڑکا نقطہ نظر یہ تھاکہ اصلاً شرعی تنظیمی نظام، نظامِ امارت ہے جس میں آخری فیصلے اور تنفیذ کاذمہ دارامیر ہوتا ہے جبکہ مخالفین یہ کہتے تھے کہ امیر کوشوریٰ کے اکثریتی فیصلے کا پابند ہونا چاہئے گویا امیر اور شوریٰ باہم بر سرپیکار رہیں۔ اس مسئلے پر طویل و عریض نزاع اور کشمکش کا سلسلہ چلتا رہا ہے۔ایک دفعہ مولانا محمد علی لکھوی مرحوم کو اس کے لئے ثالث مقرر کیا گیا لیکن نظام کے بجائے صرف نام کی تبدیلی کرنے کی بنا پر نزاع کم ہونے کے بجائے بڑھتا چلاگیا جس کی وجہ سے جماعت میں بہت خلفشار پیدا ہوا۔ اس سے قبل ۱۹۶۱ء میں فیصل آباد، دھوبی گھاٹ کے وسیع میدان میں ملکی سطح پرمرکزی جمعیت اہلحدیث کی سالانہ کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس میں اس مسئلہ کے مخالف اور موافق سب علماء جمع تھے۔ کوشش یہ تھی کہ کسی طرح جماعت میں شرعی نظام کی صورت میں اتحاد پیدا ہوجائے۔ سٹیج پر سب نے اپنے موقف کا اظہار واضح الفاظ میں کیا۔ حافظ محمد اسماعیل روپڑی کا انداز یہ تھا کہ ہر ممکن طریق سے صلح ہوجانی چاہئے۔ مخالفین لفظ صدارت کے بجائے لفظ امارت کے استعمال پرتو راضی ہوگئے لیکن وہ نظام کو تبدیل کرنے کے لئے تیار نہ تھے، اس بناء پر حافظ عبدالقادر نے دو ٹوک الفاظ میں اعلان کردیا کہ جب تک یہ لوگ اپنا نظام تبدیل نہیں کرتے، ہماری ان سے صلح نہیں ہوسکتی۔
غصہ میں سٹیج سے اتر کر گلبرگ، سی بلاک کی مسجد میں چلے گئے۔ واپس لانے کی ہر ممکن کوشش ہوئی لیکن واپس نہ آئے۔ محدث روپڑی ؒاور ان کے برادرِ خورد حافظ محمد حسین امرتسریؒ کا موقف بھی شرعی نظام کے بارے میں ٹھوس تھا۔ اس کا اتنا اثر ضرور ہوا کہ اس وقت سے لے کر آج تک مرکزی جمعیت اپنے سربراہ کو لفظ امیر سے پکارتی ہے۔ دستور میں اس لفظ کو شامل کر لیا گیا ہے لیکن اندرونی نظام وہی ہے جو پہلے تھا۔ سعودی عرب کے بعض مخلص احباب نے اس نظام کی اِصلاح کے لئے پاکستانی کبار علماء سے رابطہ کیا تاکہ دستور کی ہیئت ِترکیبی کو شرعی بنایا جاسکے۔ اس کے نتیجہ میں مرکزی جمعیت نے حافظ محمد یحییٰ عزیز میرمحمدی کی سربراہی میں دستوری کمیٹی تشکیل دی جو دستور و نظام کو شریعت کے مطابق ڈھالے لیکن اس کی سفارشات کو چنداں اہمیت نہ دی گئی۔ یہ کہہ کر بات کو ٹال دیا گیا کہ جو نظام ہمارے بزرگوں نے ہمیں دیا ہے، ہم اس کونہیں چھوڑیں گے اور سعودی عرب کی محسن شخصیت کو مایوس کیا گیا۔ اسی کے نتیجہ میں دوبارہ پھر جمعیت اہل حدیث دو دھڑوں میں منقسم ہوگئی ہے : ساجد میر گروپ اور لکھوی گروپ ۔ مرکز الدعوۃ والارشاد کے مسئولین نے عارضی اتحاد کے بعد ان دونوں گروہوں سے اسی بنا پر علیحدگی اختیار کرلی کہ یہ لوگ شرعی نظام کے بجائے مغربی جمہوریت کے علمبردارہیں۔یہ آج سے ۵؍۶ برس پہلے کا واقعہ ہے ۔
انہی دنوں فیصل آباد کے سٹیج پر دوسرا مسئلہ یہ پیدا ہوگیا کہ حافظ عبدالقادر نے دولت پرستوں کے خلاف متشدانہ رویہ اختیار کیا۔ یہاں حاجی عبدالقیوم صاحب بھی موجود تھے جو بڑے دولتمند ہونے کے ساتھ ساتھ علماء کے خادم اور قدر دان تھے۔ حافظ محمد اسماعیل روپڑی سے ان کا خصوصی تعلق تھا۔ حافظ صاحب مرحوم کراچی میں ان کے ہاں قیام فرماتے بلکہ نمازِ تراویح ان کی کوٹھی کے وسیع لان میں پڑھاتے، جہاں شائقین کا جم غفیر مرحوم کا قرآن سن کر بے حد مسرت محسوس کرتا،وہاںلمبے قیام کے باوجود لوگوں کا شوق و ذوق قابل دید ہوتا ۔اس متشددانہ رویہ پر وہ ناراض ہو کر سٹیج سے اُترگئے۔ خطیب ِملت حافظ محمد اسمٰعیل روپڑی ؒنے بعد ازاں حکمت ِعملی کے ساتھ ان کو صلح صفائی پر آمادہ کرلیا۔
ثنائی ، روپڑی نزاع
دوسری طرف ثنائی اور روپڑی نزاع تاریخ کا ایک حصہ ہے۔ اس اختلاف کا آغاز اگرچہ مولانا ثناء اللہ مرحوم اور غزنوی خاندان کے علما ء سے ہوا ،بعد ازاں مولانا داود غزنوی نے اس بارے میں خاموشی اختیار کر لی بلکہ نرم رویہ اختیار کر لیا۔ قیامِِ پاکستان کے بعد تنظیم اہلحدیث کے بجائے جمعیت اہلحدیث بنالی جس کے پہلے صدر حضرت مولانا محمد داود غزنوی مرحوم قرار پائے ۔دوسری طرف محدث روپڑی، امام عبدالجبار غزنوی کے شاگرد ہونے کے ناطے غزنوی خاندان کے موقف پر مضبوطی سے ڈٹے رہے۔آپ سلفی عقیدہ میں مداہنت کے قائل نہ تھیبلکہ مناظر اسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری کے عقیدہ میں کمزور مسائل کی بارہا آپ نے نشاندہی کی تاکہ رجوع کرلیں لیکن نزاع طول پکڑتا گیا، یہاں تک کہ صفاتِ الٰہی میں تاویل و تحریف اور بعض معجزات کی ناپسندیدہ تاویلوں کا معاملہشاہ عبدالعزیز آلِ سعود مرحوم و مغفور تک پہنچا تو انہوں نے رجوع کی ہدایت فرمائی جس کے نتیجہ میں تفسیرالقرآن بکلام الرحمن کے شروع میں اِجمالاً رجوع کی ایک چٹ لگا دی گئی لیکن کتابوں میں عقیدہ کی اِصلاح نہیں کی گئی۔
اس بارے میں حافظ عبدالقادر روپڑی دلائل کی بنیاد پر اپنے چچا مرحوم کے مو قف کے پر زور حامی تھے۔ تقریروں اور تحریروں میں برملا اس کا ا ظہار کرتے۔ دوسری طرف مولانا امرتسری ؒ کی دینی؍ سیاسی خدمات اور باطل اَدیان کے مقابلے میں اسلام کی صداقت و حقانیت کا اِظہار ان کا لازوال کارنامہ ہے جو نصف النہار کے سورج کی طرح واضح ہے ۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ اسلامی دفاع کے کارنامے اپنی جگہ لیکن عقیدئہ سلف کی تعبیر میں ایسی تاویل وتحریف گوارا نہیں کی جاسکتی چنانچہ حافظ صاحب مرحوم نے ان کے کمزور پہلو کو زیادہ محسوس کیا اور ان کی اسلامی خدمات کی طرف کم توجہ دی۔حقیقت یہ ہے کہ ایک طرف مولانا ثناء اللہ کی خدمات اور دوسری طرف ان کے عقیدہ میں سلفی مسائل کا ابہام ایک بڑی الجھن ہے کہ اہل حدیث علماء میں وہ جرأت مندانہ سلفی نکھارپیدا نہ ہوسکا جو محدث روپڑیؒ کے موقف کا پرزور حمایتی اور داعی ہو۔ یاد رہنا چاہئے کہ اس بارے میں غزنوی اور روپڑی خاندان کا فکر نرالانہیں تھا بلکہ دیگر محققعلماء کا موقف بھی یہی تھا۔مثلاً حضرت مولانا عطاء اللہ حنیف مرحوم کو مرکزی جمعیت اہل حدیث، پاکستان میں مرکزی مقام حاصل تھا لیکن مولانا امرتسری کی بے جا تاویلوں سے وہ سخت متنفر تھے اگرچہ اسلام کے دفاعی کاموں او رفیصلہ آرہ کے وہ پرزور حمایتی تھے۔ مولانا عطاء اللہ حنیف ؒ، محدث روپڑی ؒسے بے انتہا عقیدت رکھتے۔ مسجد مبارک میں جمعہ پڑھانے کے بعد اکثر محدث روپڑی کی زیارت کے لئے حاضر ہوتے او ران کی تالیفات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے بلکہ ان کے مطالعہ کی تاکید کرتے بالخصوص درایت ِتفسیری کی بہت تعریف کرتے جو تفسیرمیں سلفی موقف کا شاہکار ہے ۔حضرت مولانا محمد یوسف(راجووال) نے محدث روپڑی کی کتاب ''اہلحدیث کے امتیازی مسائل'' انہی کے مشوروں سے شائع کی تھی بلکہ مولانا نے مقدمہ لکھا۔اس سلسلہ میں انہیںمحدث روپڑی کی کتابوں کی فہرست راقم الحروف نے مہیا کی ۔ اسی طرح شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی( گوجرانوالہ) کا قریباً یہی حال تھا۔ چنانچہ ثنائی قرآنِ مجید کا مقدمہ لکھتے ہوئے مولانا امرتسری کی ان اَغلاط کا عندیہ دیاہے۔ یہ حضرات گاہے بگاہے مسجد ِقدس میں محدث روپڑی سے ملاقات کے لئے تشریف لاتے۔ محدث روپڑی حج پر تشریف لے گئے تو ان کے ذریعے سعودی عرب سے بعض کتابیں منگوائیں۔
تقریروں میں حاضری کے لئے اہتمام
جامعہ سلفیہ ،فیصل آباد کا مشہور تعلیمی ادارہ ہے ۔ راقم الحروف نے درس و تدریس کے سلسلہ میں وہاں اچھا خاصا وقت گزارا ہے۔ وہاں قیام کے باوجود عادت کے مطابق جمعہ ہمیشہ اپنے قصبہ سرہالی کلاں، ضلع قصور میںپڑھاتا تھا۔ فیصل آباد جانے کے لئے گزر چونکہ لاہور سے ہوتا تھا کوشش ہوتی کہ حضرت مولانا حافظ عبد القادر روپڑیؒ سے مسجدقدس میں سلام کرکے پھر سفر اختیار کروں۔ ایک دفعہ میں سلام کے لئے حاضر ہوا تو فرمایا: ٹھہرو، اکٹھے چلتے ہیں۔ مسجد سے نکل کر ریلوے اسٹیشن کی طرف چل دیئے۔ وہاں پہنچے تو گاڑی نکل چکی تھی، فرمایا: اب شیخوپورہ چلتے ہیں وہاں سے اس گاڑی کو پکڑیں گے جب وہاں پہنچے، تو گاڑی پھر آگے نکل گئی پھر ہم اس ریل کے تعاقب میں ننکانہ پہنچے ، گرمی کا موسم تھا ،سورج یہیں غروب ہوگیا۔ آگے منزلِ مقصود تک پہنچنے کے لئے ریل کے علاوہ سڑک کا راستہ نہیں تھا، وہاں سے ہم نے سائیکل کرایہ پر لئے تو ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ سفر شروع کردیا۔ راستہ غیر ہموار اورکم نظر آتا۔ اندھیری رات میں بچیانہ پہنچ کر دوسرے گائوں میں پروگرام تھا ۔ سحری کے وقت مطلوبہ مقام پر پہنچے۔ شدید تھکاوٹ کی وجہ سے میں وہاں پہنچتے ہی لیٹ گیا۔ لیکن مرحوم نے خود ہی سپیکر کھول کر اکیلے تقریر شروع کردی ۔سوئے لوگ گھروں سے اُٹھ کر مسجد میں پہنچ گئے۔ تقریر کرتے ہوئے صبح کی اذان شروع ہوگئی۔ پھر نماز پڑھانے کے لئے مجھے مصلیٰ پر کھڑا کردیا۔ تھکاوٹ کی وجہ سے مجھ میں نماز پڑھانے کی ہمت نہ تھی، خیر الأمر فوق الأدب کے تحت نماز تو پڑھا دی۔ پھر کہنے لگے :قرآن کا درس دو، میں نے بہت ساری معذرت کی لیکن میری ایک نہ سنی اور کہا: درس آپ کو دینا ہی ہو گا۔ بہرصورت درس سے فراغت کے بعد میں فیصل آباد کی طرف چلا گیا۔ آپ واپس لاہور تشریف لے آئے۔
اسی طرح ایک دفعہ کوٹلی رائے ابوبکر میں عشاء کے بعد تقریر سے فارغ ہو کر رائوخاں والا سے انہوں نے ریل میں سفر کرنا تھا۔ رات کو حاجی عبدالعزیز مرحوم کے ہمراہ قریباً چھ میل کا سفر پیدل ہی کیا۔ شدید اندھیری رات تھی اور کوئی واضح راستہ بھی نہ تھا۔ کئی بستیوں کے کتے پیچھے لگ گئے لیکن اللہ ربّ العزت نے اپنی حفاظت میں منزلِ مقصود تک پہنچا دیا۔ ان واقعات کو بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ دین کی اشاعت کیلئے اس مردِ مجاہد نے بہت سی صعوبتیں برداشت کیں۔ جن کے عشر عشیر بھی آج ہم برداشتنہیں کر سکتے۔ ربّ العزت مرحوم کی مساعی ٔجمیلہ کو قبول فرما کر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین!
تحریکوں میں شمولیت
برصغیر میں مسلمانوں کی برطانوی حکمرانوں سے نفرت ایک تاریخی حقیقت ہے جس میں تاویل یا انکار کی گنجائش نہیں بالخصوص مسلک ِسلف کے حامل لوگوں نے برطانوی سامراج کے خلاف تحریک مجاہدین کی صورت میں ایثار و قربانی کا جو کردار ادا کیا، وہ تاریخ کا ایک سنہری باب ہے جس کے آج بھی چراغ روشن ہیں۔ ان کے عظیم کارناموں کے اَوراق بالا کوٹ سے چمر کند تک آج عظمت و عزیمت کانشان ہیں۔ ۱۹۳۵ء میں برطانوی استعمار نے برصغیر کو ایک دستور دیا۔ ۱۹۳۷ء میں اس کے تحت انتخابات میں کانفرنس کو سارے ہندوستان میں غلبہ حاصل ہوا۔ ۱۹۳۹ء میں مسلمانوں کو دوہری مصیبت سے نجات ملی تو ۱۹۴۰ء میں مسلم لیگ نے علیحدہ اسلامی مملکت کے قیام کے لئے قرار داد کی صورت میں مطالبہ پیش کردیا۔ یہ وہ دور تھا کہ بطل حریت حافظ عبدالقادر کے جواں جذبات اوجِ ثریا کی بلندیوں پر تھے۔ آپ نے مسلم لیگ کی سیاسی سرگرمیوں میں بھرپور لیا۔ یہاں تک کہ محنت ِشاقہ اور ممتازکارکردگی کی بنا پر ان کو روپڑ کی مسلم لیگ کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ ضلع انبالہ میں بہت کام کیا، تقریروں اور تحریروں کے ذریعہ عامۃ الناس کو مجوزہ مملکت پاکستان کا ہم نوا بنایا۔ ان کی محنت کا ثمر تھا کہ ۱۹۴۶ء کے الیکشن میں مسلمانوں کے پندرہ ہزار ووٹوں سے صرف ایک ووٹ مسلم لیگ کے خلاف گیا۔
موصوف تحریک ِآزادی کی سرگرمیوں کی بنا پر قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار ہوئے ،چنانچہ ۳۵ رفقاء سمیت ان کو انبالہ جیل میں پابند ِسلاسل کیا گیا، اس سلسلہ میں اذانوں کا قصہ معروف ہے کہ اذانیں ایک ہندو سپرنٹنڈنٹ جیل کو ناقابل برداشت تھیں مگر اسے بھی مفاہمت کے سوا کوئی دوسری راہ نظر نہ آئی۔ اس مقدمہ میں حافظ صاحب کو سات سال قید ہوئی تھی مگر بعد میں مسلم لیگ اور حکومت کے مابین صلح ہوجانے کی وجہ سے تمام قیدیوں کو رہائی حاصل ہوگئی۔ استقلالِ پاکستان سے چند روز قبل روپڑ کے ہندو ایس ڈی ایم لکشمی چند نے یہ حکم صادر کیا کہ حافظ عبدالقادر جہاں نظر آئے، اس کو گولی مار دو۔ مقصود اس سے مسلم لیگ کو کمزور کرنا تھا مگر اللہ ربّ العزت نے آپ کو دشمن کے شر سے محفوظ رکھا۔
تقسیم ملک کے موقع پر روپڑی خاندان کو انتہائی کٹھن حالات سے دوچار ہونا پڑا۔ ۱۷؍ افراد دشمنوں کے ہاتھ شہید ہوگئے۔ ملکی سطح پر جتنی تحریکوں نے جنم لیا، خواہ مذہبی ہوں یا سیاسی ،آپ ہرایک کے ہراوَل دستہ میں نظر آتے ہیں۔ ۱۹۵۳ء میں تحریک ِختم نبوت میں پوری سرگرمی سے حصہ لیا۔ دیگر محبانِ اسلام کے ساتھ مل کر تحریک کو کامیاب بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ۱۹۷۴ء میں پاکستان جمہوری پارٹی میں شامل ہوئے۔ آپ ۱۹۷۷ء کی تحریک ِنظامِ مصطفی میں اس پارٹی کے نائب صدر تھے۔ گرفتاری کے بعد آپ میانوالی جیل بھیج دیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں رکن مجلس شوریٰ، مشیر وفاقی شرعی عدالت اور رؤیت ِہلال کمیٹی کے رکن رہے۔
مجھے تو یوں نظر آتا ہے کہ مناصب کی ان کو چنداں ضرورت نہ تھی بلکہ خصائص وامتیازات اور خوبیوں کی بنا پر عہدے ان کے پیچھے دوڑتے تھے ذٰلک فضل اللّٰه یؤتیه من یشاء ... وہ اکیلے جماعتوں اور گروہوں سے بھاری تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے باصلاحیت موتی مائیں خال خال ہی جنم دیتی ہیں جن کی اولوالعزمی پر تاریخ ناز کرے۔ آج اسماعیل و عبدالقادر کے ثنا خواں تو بہت نظر آئیں گے، ان جیسے عظمت و عزیمت کے پیکر اور جذبہ ایثار و قربانی کے حاملین کا وجود مشکل ہے۔اللہ تعالیٰ ہماری حالت پر رحم فرمائے اور مرحومین کی خدمات کو قبول کرکے اعلیٰ علیین میں مقام عطا فرمائے۔ آمین !
روپڑی خاندان کو ایک اور صدمہ
حافظ عبدالقادر روپڑی مرحوم کی وفات کے ٹھیک ایک ماہ چھبیس دن بعد روپڑی خاندان کو مزید صدمہ یہ پہنچا ہے کہ یکم فروری بروز منگل ۲۰۰۰ء مغرب سے قبل حافظ عبد القادر صاحب کا پوتا اور جناب عارف سلمان روپڑی کا صاحبزادہ جو پہلے کریسنٹ سکول لاہور کا ذہین و فطین طالب علم تھا۔ عارف سلمان روپڑی صاحب نے اپنے اس صاحبزادے عثمان سلمان کو سکول سے طویل چھٹیاں لے کر کچھ عرصہ کے لئے جامعہ لاہور الاسلامیہ(رحمانیہ) گارڈن ٹائون ، لاہورکے شعبۂ تحفیظ میں داخل کرا رکھا تھا۔اس بچے نے اس سال قرآن کاپہلا نصف مکمل کرکے نمازِ تراویح میں بھی سنا یاتھا۔ مدرسہ سے چھٹی کے بعد اپنے پھوپھی زاد حمزہ سے مسابقت کرتے ہوئے آیا اور دھکم پیل میں پلنگ پرگر پڑا۔ اسی دوران دل کے دورے کی وجہ سے اسے سانس نہ آسکا اور وہ اللہ کو پیارا ہوگیا...انا للہ وانا الیہ راجعون!
قابل ذکر بات یہ ہے کہ دادا اور پوتا کی وفات کا وقت تقریباًایک تھا۔ اسی طرح جس وسیع میدان میں دادا کا جنازہ پڑھا گیا، اسی جگہ پوتے کا جنازہ ادا کیا گیا۔ تاحد ِنظر ہزاروں لوگ جنازہ میں شریک تھے۔ دادا کی طرح پوتا کا جنازہ بھی راقم الحروف نے پڑھایا۔ اللہ تعالیٰ ر وپڑی خاندان کو اس حادثہ کا صدمہ برداشت کرنے اور جملہ پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق بخش کر نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین!
نوٹ
(۱) اس کتاب کا ایک نسخہ مکتبہ ظاہریہ دمشق میں بھی ہے جس کی نقل راقم الحروف نے جدہ میں شیخ محمد نصیفؒ کے ہاں دیکھی تھی
(۱) موصوف آج کل بیمار ہیں۔ اللہ ربّ العزت صحت ِکاملہ وعاجلہ عطا فرمائے۔ آمین! ۱۹۷۰ء میں جب ماہنامہ ''محدث'' لاہور کا اجراء ہوا تو اس کا پہلا اداریہ بھی آپ ہی نے تحریر کیاتھا جو اہلحدیث مسلک کے لئے بڑا فکر انگیز ہے۔
(۲) موصوف مدینہ منورہ یونیورسٹی سے واپس آنے کے بعد 'مدنی ' کہلانے لگے۔ Normal 0 false false false EN-US X-NONE AR-SA /* Style Definitions */ table.MsoNormalTable {mso-style-name:"Table Normal"; mso-tstyle-rowband-size:0; mso-tstyle-colband-size:0; mso-style-noshow:yes; mso-style-priority:99; mso-style-parent:""; mso-padding-alt:0in 5.4pt 0in 5.4pt; mso-para-margin-top:0in; mso-para-margin-right:0in; mso-para-margin-bottom:10.0pt; mso-para-margin-left:0in; line-height:115%; mso-pagination:widow-orphan; font-size:11.0pt; font-family:"Calibri","sans-serif"; mso-ascii-font-family:Calibri; mso-ascii-theme-font:minor-latin; mso-hansi-font-family:Calibri; mso-hansi-theme-font:minor-latin; mso-bidi-font-family:Arial; mso-bidi-theme-font:minor-bidi;}